باتیں خوش خوراکوں کی
عزیز ذوالفقار
…………………………
ایک صاحب کسی شخص کے ہاں کھانا کھانے گئے ۔ میزبان کے ملازم نے ان کا جثہ دیکھ کر ان کے آگے بیس روٹیاں اور دو ڈونگے سالن کے رکھے ۔ مہمان نے بڑے رعب سے ملازم کو حکم دیا۔۔۔’’ کیا تم نے مجھے گدھا سمجھ رکھا ہے؟ اٹھا لو اوپر سے ایک روٹی‘‘ ۔۔۔ ملازم نے حکم کی تعمیل کی۔ جب مہمان پوری انیس روٹیاں پیٹ میں اتار چکا تو ملازم سے کہنے لگا کہ اب ایک چوتھائی روٹی اور دیا۔ وہ چوتھائی کھا کر کہنے لگا۔۔۔’’ اس چوتھائی روٹی کا بہت لطف آیا ہے۔ ذرا دو چار روٹیوں کی چوتھائیاں کرکے لے آؤ۔‘‘ اور پھر وہ بھی ہڑپ کر گیا۔
گوجرانوالہ نامی گرامی پہلوانوں کی وجہ سے ہی مشہور نہیں بلکہ خوش خوراکی کے سلسلے میں بھی کافی نام پیدا کر چکا ہے۔ یہاں کے بسیار خور دنیا میں اپنا خاص مقام رکھتے ہیں۔ رستم اور سہراب کو بعض تاریخ دانوں نے ناحق بدنام کر رکھا ہے۔ ان دونوں جتنی خوراک تو ہمارے پہلوانوں کے بچے کھا جاتے ہیں۔ ابھی چند روز قبل کا واقعہ ہے۔ ایک آدمی ے اپنے لیے ’’جوارش جالینوس‘‘ تیار کرائی جو ان کی ایک ماہ کی خوراک تھی۔ وہ پوری جوارش ان کے آٹھ سالہ پوتے اور چھ سالہ پوتی نے ایک دن میں صاف کر دی۔ وہ آدمی انہی حکیم اور ڈاکٹر کے پاس لے گیا مگر انہوں نے بچوں کو مکمل تندرست ہونے کا سرٹیفکیٹ دے دیا۔
پچھلے دنوں ایک لڑکا کسی دوسرے لڑکے سے شرط لگا بیٹھا کہ وہ سیون اپ کی بوتلوں کا ایک کریٹ پی جائے گا۔ طے یہ پایا کہ جن بوتلی ایک ہی وقت میں یکے بعد دیگرے پینی ہیں۔ اگر وہ اتنی بوتلیں پی جائے تو اسے سو روپے انعام دیا جائے گااور فریق مخالف بوتلوں کی قیمت بھی ادا کرے گا اور ناکامی کی صورت میں بوتلوں کی قیمت کے علاوہ سو روپے فریق ثانی کو دینے ہوں گے۔ چنانچہ پہلا لڑکا تھوڑی دیر کے لیے بازار چلا گیا۔ واپس آکر پورا کریٹ یعنی دو درجن بوتلیں پی کر شرط کے سو روپے جیت گیا۔ وہاں کھڑے ایک آدمی نے اس سے پو چھا کہ تم باہر کیا لینے گئے تھے؟ اس نے بڑی معصومیت سے جواب دیا۔۔۔’’ میں نے پہلے اتنی بوتلیں کبھی نہیں پی تھیں، اس لیے مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میں ایسا کر سکوں گا۔ چنانچہ باہر بازار میں جا کر ایک کریٹ بوتلیں پی کر آیا ہوں۔‘‘
ایک دن موسم برسات میں موسلادھار بارش ہو رہی تھی۔ میں ایک پرانے دوست سے ملنے گیا۔ اس کے پاس ایک پہلوان بیٹھا تھا۔ وہ دونوں ’’فائن ڈے‘‘ منانے کے سلسلے میں گوشت منگوا کر خود پکانے کا پروگرام بنا رہے تھے۔ میرا دوست پہلوان سے پوچھنے لگا کہ کتنا گوشت منگوانا چاہیے۔ اس نے جواب دیا کہ دس کلو کافی ہے۔ پہلے نے پوچھا کہیں کم نہ ہو۔ دوسرا کہنے لگا کہ ہم دونوں کے لیے کافی ہے۔ البتہ کوئی مہمان آگیا تو واقعی تھوڑا ہوگا۔ حفظ ماتقدم کے طور پر پندرہ کلو ہی گوشت منگوا لیں۔ مجھے خیال آیا کہ ان کا مہمان بھی انہی جیسا پیٹو ہو گا جبھی وہ اس کے لیے بھی اتنا ہی گوشت منگوا رہے ہیں جتنا وہ خود کھاتے ہیں۔ ایک دیگ میں آج کل صرف دس کلو گوشت پکایا جاتا ہے جسے چالیس آدمی باآسانی پیٹ بھر کر کھا لیتے ہیں۔
*۔۔۔*۔۔۔*
بخشا پہلوان صبح کے ناشتے کی خاطر اپنے باورچی خانے میں گیا۔ اس کی والدہ اس وقت باہر کپڑے دھونے میں مصروف تھی۔ اس نے آواز دے کر پوچھا۔۔۔’’ ستو کہاں ہیں؟‘‘ ۔۔۔ ماں نے جواب دیا۔۔۔ ’’ پرچھتی کے اوپر گھڑے میں ہیں‘‘ ۔۔۔اتفاق سے وہاں دو گھڑے رکھے تھے۔ پہلوان نے پہلا گھڑا ہی دیکھا تو ستو مل گئے۔ وہ پانی اور شکر ملا کر سارے ستو چٹ کر گیا۔ اگلے روز پہلوان کی ماں کو برتن مانجھنے کے لیے پھک (چاولوں کا چھلکا) کی ضرورت پڑی۔ وہ حیران ہوئی کہ پرچھتی کے اوپر پھک والا گھڑا خالی پڑا تھا اور ستو موجود تھے۔ اس نے بخشے سے پوچھا کہ پرسوں پانچ کلو پھک منگوائی تھی ، کہاں گئی۔ تب پہلوان کو پتہ چلا کہ وہ ایک روز پہلے ستوؤں کے بجائے پانچ کلو پھک کھا گیا تھا۔
بسیار خوری کی وجہ سے دوسرے شہروں کے مقابلے میں یہاں موٹاپے، معدے، بلڈ پریشر ، ہارٹ اٹیک اور ذیابیطس کی بیماریاں زیادہ ہیں لیکن یہاں کے بیمار پرہیز کے بجائے کھاتے پیتے مرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور اگر ضرورت پڑے تو خود کشی کسٹرڈ، کھیر یا حلوے سے کرنے کے قائل ہیں۔ میرے کزن ڈاکٹر محمد اصغر صاحب مجھے ایک دن بتانے لگے کہ ان کا ایک مریض پہلوان ہے اور ذیابیطس کا پرانا مریض ۔ اسے ایک دفعہ لقوہ اور ہلکا سا فالج بھی ہو چکا ہے۔ وہ انتہا کا بدپرہیز ہے۔ ان سے کہنے لگا کہ اسے تھوڑا سا آم کھانے کی اجازت دے دیں کیونکہ آم موسم اور جنت کا پھل ہے اور وہ پھلوں کے شہنشاہ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ وہ ہاتھ جوڑنے اور منت خوشامد کرنے لگا۔
ڈاکٹر صاحب نے اسے بہ امر مجبوری ایک آدم کبھی کبھی کھا لینے کی اجازت دے دی۔ دو روز بعد ڈاکٹر صاحب اس مریض کو دیکھنے اس کے گھر گئے تو وہ کھانا کھا رہا تھا اور پاس دو کلو وزن کا ایک فصلی آم رکھا ہوا تھا۔ ڈاکٹر صاحب غصے سے کہنے لگے۔۔۔’’ یہ کیا؟ خودکشی کا ارادہ ہے؟‘‘ مریض نے بیساختہ جواب دیا۔ ’’کوئی بات ہیں۔ میں دو گولیاں زیادہ کھا لوں گا۔‘‘
بیس سال پیشتر دو دوست، اسلم بھٹی اور مقبول احمد ایک بڑے ہوٹل میں کھانا کھانے گئے۔ کھانے کے بعد جب بیرہ بل لایا تو وہ حیران رہ گئے۔ سالن کے علاوہ روٹی کے بھی دو روپے درج تھے۔ یہ سستے زمانے کی بات ہے جب ایک روپے میں سولہ روٹیاں ملا کرتی تھیں۔ اسلم بھٹی نے بیرے سے کہا کہ انہوں نے صرف دو روٹیاں کھائی ہیں۔ ان کی قیمت دوروپے کیسے ہو گئی؟ بیرے نے جواب دیا کہ آپ چاہے جتنی روٹیاں کھائیں ایک روپیہ مقررہ قیمت ہی وصول کی جاتی ہے۔ وہ دونوں منیجر سے ملے۔ اس نے بھی بیرے کے بیان کی تصدیق کر دی اور پوری رقم وصول کی۔
اگلے دن اسلم بھٹی اور مقبول احمد گوجوانوالہ سے اپنے ایک پہلوان دوست کو ساتھ لے کر اسی ہوٹل میں چلے گئے اور کھانا منگوا کر کھانے لگے۔ بیرے کو انہوں نے کہہ دیا کہ گرم روٹیاں لاتا جائے۔ اس طرح ان تینوں نے ساٹھ روٹیاں کھائیں۔ جب بل آیا تو ایک روپیہ فی کس کے حساب سے تین روپے کے بجائے ساٹھ روٹیوں کے پندرہ روپے بل میں درج تھے۔ تینوں نے سخت احتجاج کیا اور کہا کہ کل تم نے کہا تھاخواہ جتنی روٹیاں کھاؤ ایک روپیہ فی کس وصول کیا جاتا ہے۔
’’یہ اصول انسانوں کے لیے ہے۔۔۔‘‘ منیجر نے جواب دیا۔ ’’ جناب کے لیے نہیں۔‘‘
پہلوان نے تھپڑ مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا تو منیجر نے بڑے ادب سے معافی مانگی اور پندرہ روپے کے بجائے تین روپے وصول کرکے معاملہ رفع دفع کر دیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
ہوٹل انٹر کانٹی نینٹل نے بوفے لنچ ان دنوں نیا نیا شروع کیا تھا۔ وہ پینتیس روپے فی کس کے حساب سے چارج کرتے تھے۔ گوجرانوالہ کے چار جوان وہاں لنچ کرنے چلے گئے۔ وہاں پچاس ساٹھ آدمیوں کا کھانا رکھا تھا جو انہوں نے پندرہ منٹوں میں اپنے ٹینک نما پیٹوں میں اتار لیا۔ منیجر اور بیرے گھبرا گئے اور منہ دیکھتے رہ گئے۔
میڈیکل سائنس اور طب نے بسیار خوری کو خطرناک بلکہ مہلک عادت کہا ہے۔ گوجرانوالہ والوں نے اس خطرناک اور مہلک عادت پر اس طرح قابو پا رکھا ہے کہ وہ بسیار خوری کو خوش خوراکی کہتے ہیں۔ یہاں خوش خوراکی کسی خاص فرد، خاندان، برادری یا گروہ کی میراث نہیں رہی۔ اس کے مظاہرے ہر محلے ، کوچے، گلی اور علاقے میں دکھائی دیتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب بیاہ شادیوں، منگنی یا دوسری دعوتوں میں لوگ فی کس آدھ پاؤ گوشت کے حساب سے پکایا کرتے تھے اور کھانا پورا آجاتا تھا۔مگر آج کی پرتکلف دعوتوں میں آدھ کلو گوشت اور نصف مرغا فی کس کے حساب سے پکاتے ہیں۔ پھر بھی یہ خدشہ لاحق رہتا ہے کہ کھانا کہیں کم نہ پڑ جائے۔ کئی خوش خوراک دوسرے لوگوں کی رفاقت میں کھانا کھانا اپنی توہین سمجھتے ہیں، اس لیے دیگ کے پاس بیٹھ کر اکیلے ہی کھانا پسند کرتے ہیں۔ بعض حضرات تو اس قدر نڈر اور بے باک ہوتے ہیں کہ سر عام عوام میں گھوم پھر کر اپنی چابکدستی اور مشاقی کا شاندار مظاہرہ اس طرح کرتے ہیں کہ اپنی پلیٹوں میں بریانی، قورمہ اور چکن روسٹ کے اتنے انبار لگا لیتے ہیں کہ کوئی سرکس کا جوکر یا جمناسٹک کا ماہر ہی بیلنس رکھ کر انہیں گرنے سے بچا سکے۔ پھر وہ بڑی پھرتی، ہوشیاری اور شان کے ساتھ تمام اشیاء کو اپنے پیٹ میں منتقل کرنے کے بعد پھر اپنی پلیٹوں کو بھر کر وہی عمل دہراتے جاتے ہیں۔ اس طرح یہ سلسلہ حسب ضرورت چلتا رہتا ہے۔ اس قسم کے صرف چار خوش خوراک پوری دیگ کھا جاتے ہیں۔
*۔۔۔*۔۔۔*