باسکر وِل کا شکاری کتا
ناول: The Hound of Baskervilles
مصنف: Sir Arthur Conan Doyle
ترجمہ و تلخیص: شاہ نواز فاروقی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا دوست شرلاک ہومز کی پوری زندگی بے شمار عجیب و غریب قسم کے جاسوسی کیسوں کو سلجھاتے گزری ہے مگر جو کیس میں آپ کو اب سنانے جارہا ہوں ایسے کسی کیس سے ہومز کو کبھی واسطہ نہیں پڑا۔
یہ واقعہ عام سے انداز میں ہومز کے لندن کی بیکر اسٹریٹ پر واقع فلیٹ سے شروع ہوا۔یہ 1890ء کے ستمبر کے آخری دنوں کی بات ہے۔اس روز ہومز اپنے ہاتھ میں پیلے رنگ کی دستاویز لئے ہوئے تھا۔دستاویز کا اڑا ہوا رنگ ظاہر کر رہا تھا کہ وہ خاصی پرانی ہے۔ دستاویز پر ”باسکر ول ہال“ لکھا ہوا تھا۔ہومز نے مجھے بتایا کہ جیمز مور ٹائمر نام کا کوئی شخص اس دستاویز کو ہومز کے مطالعے کے لیے چھوڑ گیا ہے۔
”جیمز بھی تمہاری طرح ڈاکٹر ہے واٹسن!“ شرلاک ہومزنے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔”وہ آج شام مجھ سے ملاقات کررہا ہے۔“دستاویز کے مطالعہ سے ہومز کو معلوم ہوچکا تھا کہ باسکرول کا خاندان کس عذاب سے گزرا ہے۔اور اس عذاب کا آغاز کس طرح ہوا ……
اپنے آغاز سے لے کر اب تک باسکرول خاندان پر نازل ہونے والا یہ عذاب باپ سے بیٹے کو منتقل ہو رہا تھا۔اس خاندان کے بہت سے لوگ پراسرار انداز میں ہلاک ہوچکے تھے۔اور وہ لوگ جو ابھی اس خاندان میں پیدا ہونے تھے ان کے لئے دستاویز میں ہدایت درج تھی کہ وہ رات کی تاریکی میں ناہموار اور جھاڑیوں سے بھری ہوئی جگہ کے پاس اس وقت اکیلے نہ گزریں جب شیطان صفت شکاری کتاوہاں موجود ہو۔دستاویز اتنی بات بیان کرکے ختم ہوجاتی تھی۔
شام کو جب ڈاکٹر جیمز مور ٹائمر ہومز سے ملنے کے لئے آیا تو ہومزنے وہ دستاویز اسے واپس کردی۔اس نے مورٹائمر سے کہا کہ وہ اس دستاویز میں بیان ہونے والی جادوئی قسم کی کہانی پر اعتبارنہیں کرتا۔
”صبر کیجیے مسٹر ہومز“مور ٹائمر نے ہومز کا تبصرہ سن کر کہا۔پھر وہ بولا۔
”یہ ایک طرح سے اچھا ہوا کہ آپ نے اس دستاویز کا مطالعہ کرلیا۔کیو نکہ میں اب آپ کو اپنے ایک عزیز دوست اور باسکرول خاندان کے تین ماہ قبل ہلاک ہونے والے شخص سرچارلس کی موت کی تفصیلات سنانے جارہا ہوں۔چنانچہ ممکن ہے اس دستاویز کا مطالعہ آپ کے لئے کسی نتیجہ پر پہنچنے میں معاون ہو۔“مور ٹائمر بولتا رہا۔
”موت سے کچھ دنوں پہلے سر چارلس کی عادتوں میں حیرت انگیز تبدیلیاں واقع ہوگئی تھیں۔انہیں یقین ہوگیا تھا کہ شکاری کتے کا عذاب ان پر نازل ہونے والا ہے۔انہوں نے رات کے وقت جھاڑجھنکاڑ سے بھری ہوئی ناہمور جگہ سے گزرناچھوڑدیا تھا۔وہ اکثر مجھ سے پوچھتے تھے کہ میں نے کوئی عجیب وغریب جانور تو نہیں دیکھا یا شکاری کتے کے بھونکنے کی آوازیں تو نہیں سنیں۔“مورٹائمر یہ کہہ کر تھوڑی دیر کے لئے رکا پھر یوں گویا ہوا۔
”کتے کے خوف نے ہی ان کے دل کے مرض کو شدید کردیا تھا۔ان کے اعصاب پر ہر وقت خوف طاری رہتا تھا۔اس زمانے میں ان کے اندر بعض عجیب و غریب عادتیں پیدا ہوگئی تھیں۔ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ وہ ہر رات باسکرول کے ہال سے بجری کے راستے پر چلتے ہوئے جھاڑیوں سے بھری ناہموار جگہ کے دروازے تک ضرور جاتے تھے۔ مگر انہوں نے دروازے سے آگے جانے کی کبھی ہمت نہ کی۔“
”جون کی ایک رات کو ان کے خانساماں بیری مور نے مسٹر چارلس کو جھاڑیوں سے ڈھکی ہوئی ناہموار جگہ کے دروازے کے پاس مردہ پایا۔ بجری کے راستے پر دو افراد کے پیروں کے نشانات تھے۔مسٹر چارلس کے اور بیری مور کے۔ چارلس جس جگہ گر کر ہلاک ہوئے تھے اس سے ذرا پہلے ایسے نشانات موجود تھے جس سے ظاہر ہورہا تھا کہ ماسٹر چارلس نے پنجوں کے بل چلنا شروع کردیا تھا۔
اطلاع ملتے ہی میں موقعہ واردات پر پہنچا اور میں نے مسٹر چارلس کی لاش کا معائنہ کیا۔ان کے جسم پر کسی قسم کے تشدد کا نشان نہ تھا۔لیکن ان کا چہرہ خوف کے مارے مسخ ہو گیا تھا۔ان کی موت دل کی حرکت بند ہوجانے سے ہوئی تھی۔ ان کے خانساماں بیری مور نے مجھے اسی وقت بتایا تھا کہ لاش کے ارد گرد کسی قسم کے نشانات موجود نہیں تھے۔مگر جب تھوڑی دیر کے بعد میں ٹہلتا ہوالاش سے کوئی بیس قدم کے فاصلے پر گیا تھا تو مجھے یہ نشانات نظر آئے۔تاہم تھوڑی ہی دیر بعد تیز بارش شروع ہوگئی اور یہ نشانات مٹ گئے۔“یہ کہہ کر مور ٹائمر رک گیا۔
شرلاک ہومز نے گہری دلچسپی کے ساتھ مور ٹائمر کی طرف دیکھا۔
”کیا وہ پیروں کے نشانات تھے؟“ہومز نے پوچھا۔
”ہاں“
”کسی مرد کے یا عورت کے؟“
ڈاکٹر مور ٹائمر نے نہایت تجسس کے ساتھ ہم دونوں کی جانب دیکھا اور پھر سر گوشی کے انداز میں بولا۔
”مسٹر ہومز وہ ایک عظیم الجثہ شکاری کتے کے پیروں کے نشانات تھے۔“
میرے جسم میں سنسنی کی ایک لہر دوڑ گئی۔
ہومز نے مور ٹائمر کی طرف دیکھا اور پوچھا ”آپ میرے پاس کیوں آئے ہیں؟“
”آپ سے مشورہ لینے۔ اب سے ایک گھنٹہ بعد سر ہینری باسکرول کینیڈا سے لندن پہنچ رہے ہیں۔ مسٹر ہینری سر چارلس کے چھوٹے بھائی کے بیٹے اور باسکرول خاندان کے آخری فرد ہیں۔“مور ٹائمر نے ایک طویل سانس لیا اور پھر بتایا۔
”اب سے تین برس قبل تک باسکرول خاندان کا ایک اور فرد زندہ تھا۔ اس کا نام روجر تھا۔ وہ برازیل میں مقیم تھا۔ روجر گردن توڑ بخار سے ہلاک ہوا تھا۔ روجر اس افسانے کے ایک کردار مسٹر ہیو گوکی نسل سے تھا۔“
”آپ کے خیال میں باسکرول خاندان کے کسی فرد کی رہائش کے لئے ڈاٹ مور کیسی جگہ ہے۔“مور ٹائمز نے ہومز کی طرف دیکھ کر پوچھا۔ ہومز نے فوراًکوئی جواب نہ دیا تو اس نے بات کو آگے بڑھایا۔ ”اصل میں ہم چاہتے ہیں کہ سر ہینری ہمارے ساتھ رہیں اور اس کام کی مناسب دیکھ بال کریں جو سر چارلس نے ضلع کے غریبوں کے لیے شروع کر رکھا ہے۔“
”میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ سر ہینری سے ملیے اور انہیں سہ پہر میرے پاس لے آیئے۔ہاں ایک سوال اور“ شرلاک ہومز نے رکتے ہوئے کہا۔ ”سر چارلس کی موت سے قبل بہت سے لوگوں نے شکاری کتے کوناہموار جگہ پر دیکھا ہے، کیا مسٹرچارلس کے مرنے کے بعد بھی کسی نے اس کتے کو دیکھا ہے؟“
”نہیں جناب“ڈاکٹر مور ٹائمر نے جواب دیا۔
ڈاکٹر مور ٹائمر کے جانے کے بعد میں نے ہومز سے پوچھا۔
”مرنے سے پہلے سر چارلس پنجوں کے بل کیوں چل رہا تھا؟“
”احمقانہ باتیں مت کرو واٹسن۔وہ اپنی زندگی بچانے کے لیے بھاگ رہا تھا۔“
”مگر کس سے بچانے کے لیے؟“میں نے جھنجھلاتے ہوئے پوچھا۔“
”یہی گتّھی تو سلجھانی ہے۔“ ہومز نے مسکرا کر جواب دیا۔
ہم سرہینری کے آنے کا انتظار کرنے لگے۔سہ پہر کو ڈاکٹر مور ٹائمر، سر ہینری باسکرول کے ساتھ آپہنچے۔ سرہینری گھٹے ہوئے جسم کا تیس برس کے آس پاس عمر رکھنے والا خوشگوار شخصیت کا مالک تھا۔
سرہینری نے ڈاکٹر مور ٹائمر کی زبانی باسکرول خاندان پر ٹوٹنے والی تمام مصیبتوں کو بڑے غور سے سنا۔پھر اس نے نہایت مدھم مگر پر عزم لہجے میں کہا۔
”میرا خیال ہے کہ باسکرول کے خاندانی گھر میں کوئی بلا نہیں رہتی۔میں یہ کہانی سننے کے باوجود اسی جگہ پر ٹھہروں گا۔“
”بہت خوب۔گویا یہ معاملہ تو طے ہوگیا۔“ہومز نے کہا۔
”مگرڈاکٹر واٹسن آپ کے ساتھ اسی گھر میں ٹھہریں گے۔“
اگلے روز سر ہینری، مور ٹائمر اور میں ٹرین کے ذریعہ اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔ہومز کو اپنے ایک اہم کیس کے سلسلے میں چند روز لندن میں قیام کرنا تھا۔سفر بڑا پر لطف رہا۔ سفر کے دوران ڈاکٹر مور ٹائمر اور سر ہینری کے ساتھ میری جو گفتگو ہوئی اس نے مجھے ان دونوں کا گرویدہ بنا دیا۔
بالآخر ہم اپنی منزل پر پہنچ گئے۔یہ ایک چھوٹا سا قصبہ تھا۔اسٹیشن کے باہر دو گھوڑوں والی گھوڑا گاڑی ہماری منتظر تھی۔ہم گھوڑا گاڑی میں بیٹھ کر باسکرول کی کوٹھی کی جانب روانہ ہوگئے۔شام ڈھل رہی تھی۔سورج نا ہموار زمین کے ٹیلوں کے عقب میں غروب ہورہا تھا۔ہماری گھوڑا گاڑی بنجر اور ناہموار زمین کے درمیان سے گزر رہی تھی۔تیزی سے پھیلے ہوئے اندھیرے اور سرد ہوانے ہمیں خاموش کردیا تھا۔ہمارے سامنے چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں،جنگلی گھاس اور ایک دوسرے کے ساتھ اُلجھے ہوئے درخت تھے۔
اچانک گاڑی بان نے اپنی چھڑی کے ذریعہ ایک طرف اشارہ کیا اور بولا۔ ”باسکرول کی کوٹھی“چند لمحوں بعد ہم کوٹھی کے گیٹ پر پہنچ چکے تھے۔ہم درختوں سے گھرے ہوئے ایک راستے کے ذریعہ کوٹھی کی طرف روانہ ہوئے۔
کوٹھی کے خانساماں بیری مور نے کوٹھی کے پورچ میں ہمارااستقبال کیا۔چند لمحوں بعد ڈاکٹر مور ٹائمر گھوڑا گاڑی میں اپنے گھر کی جانب روانہ ہوگئے۔باسکرول کی کوٹھی تاریک اور آسیب زدہ سی تھی۔میری طرح سرہینری نے بھی اس بات کو محسوس کیا۔تھوری دیر بعد ہم نے رات کا کھانا کھایا اور اپنے بستروں پر چلے گئے۔اپنے سونے کے کمرے کی کھڑکی سے جب میں نے باہر ناہموار ٹیلوں کی طرف دیکھا تو میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔باہر روح کو دہلا دینے والا سناٹا تھا۔ میرے کمرے میں بھی قبرستان کا سناٹا چھایا تھا۔میں تھوڑی دیر تک بستر پر لیٹا جاگتا رہا۔ پھر نہ جانے کب مجھے نیند نے آ دبو چا۔
اگلی صبح سر ہینری اور میں ناشتے کے لیے میز پر بیٹھے تو بڑے ہشاش بشاش تھے۔ناشتے کے بعد سر ہینری کسی کام سے باہر چلے گئے۔ چنانچہ میں اس نا ہموار علاقے کے کنارے کنارے گھومنے کے لئے نکل کھڑا ہوا۔ابھی میں دو تین میل ہی چلا ہوں گا کہ کسی نے مجھے میرے نام سے پکارا۔ میں نے گھوم کردیکھا تو تیس چالیس برس کے درمیان کی عمر کا ایک شخص میری طرف چلا آرہا تھا۔اس کے ہاتھ میں چھڑی سے بندھا ہوا تتلیاں پکڑنے والا ایک چھوٹا سا جال اور تتلیاں بند کرنے کے لئے ایک ٹین کا چھوٹا سا بکس تھا۔
اس نے اپنا نام جیک اسٹیپلٹن بتایا۔ڈاکٹر مورٹائمر جو کہ اس کے دوست تھے،نے اسے میرے بارے میں بتایا تھا۔ جیک نے مجھے گفتگو کے دوران بتایا کہ اسے یہ علاقہ بہت پسند ہے اور وہ ایک زمانے میں یہاں دو برس رہ چکا ہے۔
جیک اسٹیپلٹن کی گفتگو کا سلسلہ جاری تھا کہ ایک حیوانی چیخ فضاء میں بلند ہوئی۔خوف کے مارے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے،مگر جیک اسٹیپلٹن کا چہرہ ہر تاثر سے عاری تھا۔
”لگتا ہے کوئی جنگلی ٹٹو دلدل میں پھنس گیا ہے۔“جیک نے میری جانب دیکھ کر سکون کے ساتھ کہا۔میری نظریں سامنے کی طرف اٹھ گئیں۔میں نے دیکھا کہ تھوڑے فاصلے پر ایک ٹٹو دلدل میں اُترتا چلا جارہا تھا۔ابھی اس کی گردن دلدل سے باہر تھی۔تاہم چند لمحوں بعد دلدل ٹٹو کو نگل گئی۔
”یہاں خاصی دلدل ہے۔اس لئے یہ علاقہ خاصا خطرناک ہے۔“
جیک نے کہا۔”میں اس علاقے سے اچھی طرح واقف ہوں۔مجھے معلوم ہے کہ میرے مطلب کی تتلیاں کہاں ہوتی ہیں مگر میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ آپ ذرا محتاط رہیے گا۔“جیک نے اپنی بات مکمل کی۔ہر طرف گہرا سکوت تھا۔ تبھی دو پہاڑی کوّے ہمارے عقب میں موجود پہاڑی پر سے اڑے۔اسی لمحے کسی جانور کے رونے کی ایک طویل آواز فضاء میں گونج کر ختم ہوگئی۔
”میرے خدا یہ کس کی آواز تھی؟“ میں نے گھبرائے ہوئے لہجے میں اسٹیپلٹن سے پوچھا۔
”لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ آواز باسکرول کے شکاری کتے کی ہے جو اپنے شکار کی تلاش میں رہتا ہے۔میں نے یہ آواز پہلے بھی سنی ہے مگر اتنی زوردار نہیں جتنی کہ آج تھی۔“جیک نے عجیب و غریب تاثر کے ساتھ میری جانب دیکھ کر کہا۔
میں نے خوف زدہ ہو کر جیک کی طرف دیکھا۔جیک کا چہرہ ہر قسم کے تاثرسے عاری تھا۔چند لمحوں بعد وہ یہ کہہ کرکہ اسے سر ہینری سے ملنا ہے، اس فارم کی جانب روانہ ہوگیا جہاں وہ آج کل ٹھہرا ہوا تھا۔ٹٹو کی موت اور شکاری کتے کی آواز سے ملتی جلتی پرسرار آواز نے میرے اوسان خطا کر دیئے تھے۔میں کئی طرح کے خطرات کو ذہن میں لئے باسکرول کی کوٹھی لوٹ آیا۔
اگلے روز جیک اسٹیپلٹن، سر ہینری سے ملنے آیا۔وہ ہم دونوں کو لے کر ناہموار جھاڑیوں زدہ زمین کی طرف چل پڑا۔وہاں پہنچ کر اس نے ہمیں وہ جگہ دکھائی جہاں مقامی لوگوں کے بیان کے مطابق اس پرسرار کہانی کے ایک کردار ہیوگو کی موت واقع ہوئی تھی۔یہ ایک عجیب طرح کی اداسی سے بھری جگہ تھی۔
اس دوران جیک اسٹیپلٹن نے سر ہینری کے ساتھ نہایت دوستانہ رویے کا مظاہرہ کیا۔
اگلے روز سر ہینری اور میں گھومتے ہوئے قریب واقع قصبہ گرم پن کی طرف جا نکلے۔ڈاکٹر مور ٹائمر اسی قصبہ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ہم نے کچھ دیر ان کے گھر میں آرام کیا۔شام ڈھلنے سے ذرا پہلے ہم دونوں باسکرول کی کوٹھی کی طرف چل دیئے۔تھوڑی دیر بعد اندھیرا پھیلنے لگا۔اندھیرے کو پھیلتے دیکھ کر سر ہینری نے مذاقیہ لہجے میں کہا۔
”دستاویز میں باسکرول کے ہر زندہ شخص کو ہدایت کی گئی ہے کہ رات کو ناہموار زمین کے قریب سے نہ گزرے“ ابھی سرہینری نے اپنا جملہ مکمل ہی کیا تھا کہ فضا میں وہی خوفناک آواز گونج اٹھی جو میں نے اسٹیپلٹن کے ساتھ سنی تھی۔
”میرے خدا! واٹسن یہ تو شکاری کتے کی آواز تھی۔“سر ہینری نے کہا۔ ان کی آواز کی لڑکھڑاہٹ سے صاف اندازہ ہوتا تھا کہ وہ بہت خوفزدہ ہو چکے ہیں۔
”جب میں لندن میں تھا تو اس آواز سے ڈرنے والوں کا مذاق اڑاتا تھا مگر اب میں نے خود یہ آواز سنی ہے تو میں خود……“ہینری نے جملہ ادھورا چھوڑدیا۔
”ایسا ہی ہوتا ہے۔“میں نے کہا۔
”مجھے سردی لگ رہی ہے۔ کیا میں خطرے میں ہوں؟“سر ہینری نے میرا ہاتھ تھام کر پوچھا۔
کوئی جواب دیئے بغیر میں سر ہیزی کو لے کر تیزی کے ساتھ باسکرول کی کوٹھی کی جانب بڑھنے لگا۔ ابھی ہم کچھ ہی دور چلے تھے کہ میری نظر سامنے ٹیلے کی طرف اٹھ گئی۔ ٹیلے پر ایک بڑا سا پتھر پڑا ہوا تھا،میری ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ اس پتھر پر ایک شخص کھڑا ہماری جانب دیکھ رہا تھا۔ میں نے تقریباً چیختے ہوئے سر ہینری کو اس شخص کی جانب متوجہ کیا لیکن اس سے قبل کہ سر ہینری اس شخص کی طرف دیکھتے،وہ غائب ہو چکا تھا۔ لیکن میں نے اسے دیکھنے میں غلطی نہیں کی تھی۔ وہ یقیناپتھر پر موجود تھا۔ تھوڑی دیر بعد ہی باسکرول کے خانساماں بیری مور سے اس آدمی کی تصدیق ہو سکتی تھی۔
ہم باسکرول کی کوٹھی پر پہنچے تو بیری مور میرا منتظر تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ ایک شخص جھاڑیوں سے بھری نا ہموار زمین پر چھپا ہوا تھا۔ بیری مور نے بتایا کہ وہ شخص وہیں کہیں پتھروں سے بنی ہوئی ایک جھونپڑی میں رہتا ہے۔
”یہ بات مجھے قصبے کے اس لڑکے نے بتائی ہے جو ہر روز اس اجنبی کے لئے کھانا لے کر جاتا ہے۔“
بیری مور سخت گھبرایا ہواتھا۔ ”یہ جگہ کیا پہلے ہی کم خطرناک تھی کہ اس پر اسرار اجنبی نے آکر اسے اور پر اسرار بنا دیا ہے۔“بیری مور بڑ بڑایا۔
اجنبی کے بارے میں بیری مور کی تشویش کا مطلب یہ تھا کہ ہم دونوں مشترک خطوط پر سوچ رہے تھے۔کیا اس اجنبی کا شکاری کتے سے کوئی تعلق تھا؟ہم دونوں سر ہینری کی حفاظت کے سلسلے میں گہری تشویش کا شکار ہو چکے تھے۔
میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ چنانچہ اسی دوپہر کو میں کھانا کھاتے ہیں اپنا پستول لے کر نا ہموار زمین کی جانب روانہ ہو گیا۔ میں آہستہ آہستہ پتھروں سے بنی ہوئی جھونپڑی کی جانب بڑھنے لگا۔ پھر میں پستول کو ہاتھ میں لئے اس جھونپڑی میں داخل ہو گیا۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ البتہ جھو نپڑی میں کچھ کمبل،پانی کی بوتلیں اور کھانے پینے کی چیزیں موجود تھیں۔مجھے یقین تھا کہ میں نے اجنبی کی پناہ گاہ پر قبضہ کرلیاہے۔
میں اس جھونپڑی میں بیٹھ کر اجنبی کی واپسی کا انتظار کرنے لگا۔یہ دوپہر کا درمیانی وقت تھا۔میں پستول کے ٹریگر پر انگلی رکھے با لکل تیار بیٹھا تھا۔تقریباًایک گھنٹہ انتظار کے بعد جھونپڑی کے باہر قدموں کی آہٹ سنائی دی۔میں تیزی کے ساتھ اٹھ کر جھونپڑی کے تاریک کونے میں کھڑا ہوگیا۔پستول پر میری گرفت مضبوط ہوگئی۔میری انگلی کسی بھی لمحے ٹریگر کو دبانے کے لئے تیار تھی۔اجنبی اندر نہ آیا۔پھر اچانک ایک مانوس سی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔
”باہر آجاؤ واٹسن۔دیکھو شام کتنی خوبصورت ہے۔“ چند لمحوں کے لئے مجھے اپنی سماعت پر یقین نہ آیا۔
”ہومز“ پھر اچانک ہی میں چلایا۔
”ہاں میں! اب باہر آجاؤ۔مگر پستول کو جیب میں رکھ کر۔“شرلاک ہومز نے کہا۔ہومز کو دیکھ کر مجھے ناقابل بیان خوشی ہوئی۔اس نے مجھے بتایا کہ وہ ہم سب کو یہ یقین دلا کر کہ وہ لندن ہی میں ہے، ہمارے پیچھے چلا آیا تھا۔اور یہاں آکر نا ہموار زمین کے ٹیلوں میں چھپ گیا تھاتاکہ حالات و واقعات کا گہری نظر سے جائزہ لے سکے۔
ہومز نے مجھ سے بہت سی باتیں پوچھیں۔ مثلاً یہ کہ میں یہاں آکر کہاں ٹھہرا،کس کس سے ملا۔اور کیا کام کیا؟میں نے اسے اب تک اپنی ساری سرگرمیوں میں بتایا۔ وہ نہایت خاموشی کے ساتھ میری باتیں سنتا رہا۔مگر جب میں نے اسٹیپلٹن کے بارے میں بتایا تو اس نے کہا۔
”وہ اتنا بے ضرر نہیں جتناکہ وہ نظر آتا ہے۔“
”کیا مطلب ہے تمہارا؟“ میں نے حیرت سے ہومز کی جانب دیکھ کر پوچھا۔
”اس مسکراتے ہوئے چہرے کے پیچھے ایک قاتل چھپا ہوا ہے۔وہ ایک گھناؤ نے قتل کی سازش کررہا ہے۔“ ہومز نے کہا۔میں ہونقوں کی طرح ہومز کو تک رہا تھا۔ہومز نے میری جانب دیکھا اور سنجیدگی سے کہا۔
”میں ابھی تمہیں تفصیلات نہیں بتاسکتا۔مگر اتنا ضرور بتا سکتا ہوں کہ جس طرح اسٹیپلٹن کی نظریں سر ہینری پر جمی ہوئی ہیں، اسی طرح میری نظریں اسٹیپلٹن پر جمی ہیں۔بس خطرہ یہ ہے کہ وہ سر ہینری پرپہلے حملہ نہ کردے۔خدا نے چاہا تو یہ کیس ایک دو دن میں ہی ختم ہوجائے گا۔“
اس کے بعد ہومز نے کہا کہ اب اس کے لئے چھپے رہ کر کام کرنے میں کوئی فائدہ نہیں۔چنانچہ وہ میرے ساتھ باسکرول میں ٹھہرنے کے لئے باسکرول کی کوٹھی کی طرف روانہ ہوگیا۔سر ہینری شرلاک ہومز کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور بولے:
”تو جناب آپ کی تفتیش کہاں تک پہنچی۔کیا کوئی سراغ ملا؟“
”یہ معاملہ اپنے وقت سے پہلے ہی ختم ہوجائے گا۔بشرطیکہ بہ وقت ضرورت آپ بغیر کسی حجت کے میری باتوں پر عمل کریں۔“ہومزنے کہا۔سر ہینری نے ہومز سے ہر ممکن تعاون کا وعدہ کیا اور اپنے کمرے میں چلے گئے۔
سر ہینری کے جاتے ہی ہومز اور میں کھانے کے کمرے میں چلے گئے۔اس کمرے کی دیواروں پر باسکرول خاندان کے گزشتہ تین سو برس میں پیدا ہونے والے ممتاز افراد کی تصاویر آویزاں تھیں۔ہومز ہر تصویر کو بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔پھر اس نے لیمپ ہاتھ میں لے کر ایک تصویر کوغور سے دیکھنا شروع کیا۔یہ سر ہیوگو کی تصویر تھی۔اسی سرہیوگو کی جس سے اس منحوس اور پراسرار قصے کا آغاز ہوا تھا۔”ذرااس کو دیکھو واٹسن!“ہومز نے مجھ سے کہا۔
میں نے تصویر کے قریب جاکر اسے غور سے دیکھا۔اسکے پتلے پتلے ہونٹ آپس میں سختی سے جڑے ہوئے تھے۔ آنکھوں میں سردمہری بھری ہوئی تھی اور چہرہ سخت تاثرات کی عکاسی کر رہا تھا۔
”اچھا اسے پھر دیکھو۔“ ہومز نے مجھے پھر کہا۔
اب ہومز نے اپنے ایک ہاتھ کے ذریعے تصویر کا ہیٹ اور لٹکتے ہوئے بالوں کو اس طرح چھپالیا تھا کہ اب اس تصویر کا صرف چہرہ نظر آرہا تھا۔
میں نے تصویر کو دوبارہ دیکھا تو حیرت سے میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔سر ہیوگیو اور اسیٹپلٹن کے چہرے میں حیرت انگیز مشابہت پائی جاتی تھی۔ناقابل یقین سی بات تھی۔
”یہ تو اسیٹپلٹن سے ملتا ہے۔“میں نے ہومز کی طرف دیکھ کر تعجب سے کہا۔ہومزنے ایک قہقہہ لگا یااور بولا۔
”ہاں اسیٹپلٹن کا تعلق یقینی طو رپر باسکرول خاندان کے ساتھ ہے۔اب ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ وہ سر ہیوگو کا دشمن کیوں ہے۔فکر نہ کرو آئندہ رات کو میں اسے اپنے جال میں پھانس لوں گا۔مگر تم اس سلسلے میں سر ہینری کو ایک لفظ بھی نہیں کہو گے۔“
ہومز اگلی صبح جلد ہی بیدار ہوگیا۔وہ بہت پر جوش نظر آتا تھا۔اسٹیپلٹن نے اس روز سر ہینری کو ملاقات کے لئے بلایا تھا۔ سر ہینری نے مجھے اور ہومز کو اپنے ہمراہ چلنے کو کہا۔مگر ہومز نے کہا۔
”معاف کیجیے! آج مجھے اور واٹسن کو ایک نہایت ضروری کام کے سلسلے میں لندن جانا ہے۔اس لئے ہم آپ کے ہمراہ نہ جاسکیں گے۔“
اگر چہ ہومز کی یہ بات میرے لئے ایک خبر تھی مگر میں خاموش رہا۔سر ہینری کو ہومز کے اس جواب سے بڑی مایوسی ہوئی۔وہ بولے۔
”پھر میں بھی آپ کے ساتھ ہی لندن چلتاہوں۔“
”نہیں آپ کو یہیں ٹھہرنا ہوگا۔“ہومز نے کہا۔”یاد رکھیے، آپ مجھ سے میری ہر بات کی تعمیل کا وعدہ کر چکے ہیں۔آپ پروگرام کے مطابق اپنے دوست ملنے جائیے۔واپسی میں ناہموار زمین والے راستے سے گھر آیئے گا۔اور ہاں اس بارے میں اسٹیپلٹن کو ضرور بتادیجئے گا۔“
”مگر آپ نے تو مجھے خود اس راستے سے آنے سے منع کیا تھا۔“سر ہینری نے جواب دیا۔
”آپ میری بات کا اعتبار کیجئے۔“ہومز نے اس بات پرزور دے کر کہا۔
”اس بار آپ بے شک محتاط رہئے گا۔مگر آپ کو آنا اسی راستے سے ہوگا۔میرا مطلب ہے ہر قیمت پر۔“
مجھے سر ہینری کی طرح ہومز کی اس ہدایت پر حیرت ہورہی تھی مگر میں خاموش رہا۔
چند گھنٹوں بعدہومز اور میں باسکرول کی کوٹھی سے ریلوے اسٹیشن کی طرف روانہ ہوگئے۔اسٹیشن پہنچ کر ہومز نے گھوڑا گاڑی کے کوچوان کو واپس بھیج دیا۔کوچوان نظروں سے اوجھل ہوا تو ہومز نے مجھ سے کہا کہ ہم کہیں نہیں جارہے۔ ہومز کا پلان یہ تھا کہ اسیپلٹن کو اس بات کا اچھی طرح سے یقین ہوجانا چاہئے کہ ہم دونوں لندن جاچکے ہیں تاکہ وہ سرہینری پر حملہ کرتے ہوئے خود کو محفوظ سمجھ سکے۔ ہومز کا لندن پلان کا سن کر مجھے حیرت نہیں ہوئی کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ ہومز اپنا پورا پلان مجھ سمیت کسی کو نہیں بتاتا۔
ہم نے اسٹیشن کی کینٹین میں کھانا کھایا اور دیر تک اسٹیپلٹن کے بارے میں باتیں کرتے رہے۔اسی دوران ہومز نے مجھے بہت سی تصاویر، مختلف گواہوں کے بیا نات کی کاپیاں اور کئی دوسری دستاویزات دکھائیں۔ان سب سے ثابت ہوتا تھا کہ اسٹیپلٹن گزشتہ برسوں میں انگلینڈ کے مختلف حصوں میں نام بدل کر رہتا رہاہے۔
کھانے کے بعد ہومز نے ایک گھوڑا گاڑی کی اور گھوڑا گاڑی کے کوچوان کو ایک سمت میں چلنے کو کہا۔ مجھے ابھی تک معلوم نہیں تھا کہ ہمیں کیا کرنا ہے اور ہم کہاں جارہے ہیں۔ہماری گھوڑا گاڑی تاریکی کو چیر تی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی۔گھوڑا گاڑی کے کوچوان کی موجودگی میں ہم کھل کر بات نہیں کرپارہے تھے۔جب ہماری گھوڑا گاڑی جھاڑیوں سے بھرے ہوئے ناہموار علاقے کی طرف مڑی تو میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔
کوچوان نے ہمیں باسکرول کی کوٹھی کے قریب اتار دیا اور ہم دونوں اسٹیپلٹن کے گھر کی جانب چل پڑے۔ پورے قصبے پر گہری دھند چھانی شروع ہو چکی تھی۔ہومز اسٹیپلٹن کے گھر سے دوسو میٹر کے فاصلے پر رک گیا۔
”یہ جگہ ٹھیک ہے،یہاں ہم ان پتھروں کے پیچھے آسانی کے ساتھ چھپ سکتے ہیں۔“
ہومز اور میں پتھروں پیچھے چھپ گئے۔ اگر چہ ہمیں اسٹیپلٹن کا گھر نظر آرہا تھا مگر گھر کے اندرکیا ہورہا تھا،اس سے ہم بے خبر تھے۔
کچھ دیر بعد ہومز نے مجھ سے کہا کہ میں گھر کے قریب جاکر یہ پتا چلانے کی کوشش کروں کے سر ہینری اور اسٹیپلٹن کیا کر رہے ہیں۔میں اسٹیپلٹن کے گھر کے باغیچے کی پستہ قد دیوار سے باغیچے میں کود گیا۔کچھ آگے چل کر مجھے ایک ایسی بے پردہ کھڑکی میسر آگئی جس سے میں سر ہینری اور اسٹیپلٹن کو دیکھ سکتا تھا۔اس وقت وہ دونوں رات کے کھانے میں مصروف تھے۔اس وقت اسٹیپلٹن گفتگو کر رہا تھا۔سر ہینری کا چہرہ زردی مائل لگ رہا تھا۔شاید انہیں خطرناک راستے سے گھر واپس جانے کا خیال آرہا تھا۔
تھوڑی دیر بعداسٹیپلٹن اٹھ کر گھر کے باہر آیا اور قریب ہی واقع ایک دوسرے مکان میں چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد مجھے اس گھر سے کچھ جھگڑنے کی آوازیں آئیں۔چند لمحوں بعد اسٹیپلٹن اس گھر سے باہر آیااور اسے تالا لگا کر سر ہینری کے پاس واپس چلاگیا۔میں دبے قدموں ہومز کے پاس آیا اور اسے وہ سب کچھ بتایا جو میں نے دیکھا اور سنا تھا۔
اس وقت تک دھند مزید گہری ہونے لگی تھی۔ہومز نے یہ دیکھا تو تشویش کے ساتھ بولا۔
”یہ تشویش ناک بات ہے۔اس سے قبل کے دھند اور گہری ہو، سر ہینری کو گھر کے لئے چل دینا چاہئے۔ ان کی زندگی کا دارومدار اسی پر ہے۔ مزید دیر نہیں ہونی چاہیے۔پہلے ہی رات کے دس بج چکے ہیں۔“
ہم پتھروں کے پیچھے چھپے سر ہینری کے باہر آنے کا انتظار کرتے رہے،دھند اور گہری ہوتی جارہی تھی۔
”میرا خیال ہے اب ہم سر ہینری کو دیکھ بھی نہیں پائیں گے۔“ ہومز نے گہری ہوتی ہوئی دھند کو دیکھ کر کہا۔
”ہمیں بلند مقام پر چلنا چاہئے تاکہ سر ہینری کو دیکھ سکیں۔“ میں نے تجویز پیش کی۔
اچانک ہومز زمین سے کان لگا کر کچھ سننے لگا۔
”یقیناجوتوں کی آواز یں ہیں۔میرا خیال ہے کہ سر ہینری آرہے ہیں۔“ ہومز نے کہا۔
چند لمحوں بعد سر ہینری کے قدموں کی آوازیں مجھے بھی سنائی دینے لگیں۔ہم تیزی سے پتھروں کے پیچھے چھپ گئے۔ چند لمحوں بعد سر ہینری دھند سے برآمد ہوئے اور پھر چلتے ہوئے ہمارے پاس سے گزر گئے۔وہ چند لمحوں بعد خوف زدہ چہرے کے ساتھ پیچھے مڑ کر دیکھتے جارہے تھے۔”واٹسن وہ آرہا ہے۔“ یکا یک ہومز چلّا یا۔
میں نے دیکھا کہ ہم سے کوئی پچاس قدم آگے ایک خوفناک ہیئت کی چیز دھند سے برآمد ہوئی۔میں اچھل پڑا۔ یہ ایک خوفناک چہرے اور بڑے قدوقامت کا سیاہ رنگ کا شکاری کتّا تھا۔ایک عجیب سی روشنی اسکے منہ سے نکل کر اس کے جبڑوں اور آنکھوں کو نمایاں کر رہی تھی۔ میں نے ایسا خوفناک کتّا اپنی زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔کتا تیز قدموں سے اس راستے کو سونگھتا ہوا چل رہا تھاجس پر سر ہینری ابھی کچھ دیر پہلے گئے تھے۔ اس سے قبل کہ ہم دونوں کے اوسان بحال ہوتے،کتا ہمارے آگے سے گزر چکا تھا۔پھر اچانک ہی ہومز اور میرے پستولوں سے بیک وقت شعلے نکل کر کتے کی طرف لپکے۔کتے کے منہ سے زوردار چیخ بر آمد ہوئی مگر وہ رکا نہیں۔
سر ہینری رک کر خوف کے عالم میں اس کتے کو دیکھ رہے تھے جو لمحہ بہ لمحہ ان کی طرف بڑھ رہا تھا۔
کتے کے منہ سے نکلنے والی کراہ سے ہمیں اتنا تو معلوم ہوگیا تھاکہ وہ ایک کتا ہی ہے کوئی بھوت پریت نہیں۔ہومز کتے کے پیچھے بھاگا۔ اچانک ہی فضا میں سر ہینری کی چیخیں بلند ہوئیں۔کتے نے حملہ کر کے انہیں زمین پر گرا دیا تھااور اب ان کا گلا دبانا چاہتا تھا۔ہومز نے اپنے پستول کی پانچوں گولیاں کتے کے جسم میں اتار دیں۔کتے نے تکلیف کے عالم میں اپنے اگلے پاؤں فضا میں اٹھائے اور پھر بے دم ہوکر زمین پر گر گیا۔میں نے کتے کے اوپر جھک کر دیکھا، وہ مر چکا تھا۔
سر ہینری بے ہوش پڑے ہوئے تھے۔میں انہیں ہلا کر ہوش میں لایا۔ہوش میں آتے ہی وہ بڑبڑائے۔”میرے خدا، یہ کیا بلا تھی؟“
”یہ جو کچھ بھی تھی، اب مرچکی ہے۔“ہومز نے کہا۔
”آپ کو خاندانی بھوت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نجات مل گئی ہے۔“میں نے کہا۔
یہ ایک بڑے قدوقامت کا کتا تھااس لئے اس پر کتے سے زیادہ شیر کے بچے کا گمان ہوتا تھا۔اس کے سراور جبڑوں سے ابھی تک ہلکی نیلی روشنی خارج ہورہی تھی۔میں نے اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھ کر اٹھایا تو میری انگلیوں سے بھی اندھیرے میں ہلکی نیلی روشنی خارج ہونے لگی۔
”فاسفورس“ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
”ہاں فاسفورس کا ذہانت آمیز استعمال۔“ ہومز نے کہا
ہمیں معلوم تھا کہ ہمارے پستولوں سے نکلنے والی گولیوں کی آواز سن کر اسٹیپلٹن کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ اس کا کھیل ختم ہوچکا ہے۔ہم تینوں نے اسٹیپلٹن کے گھر پہنچ کر اسے گھر کے ایک ایک کونے میں تلاش کیا مگر وہ فرار ہوچکا تھا۔ اگرچہ ہومزکو اس جگہ سے باہر جانے والے واحد راستے کے بارے میں معلوم تھا مگر چونکہ اب دھند بے حد گہری ہوچکی تھی اس لئے اسٹیپلٹن کا تعاقب بے کار تھا،ا س لئے ہم تینوں باسکرول کی کوٹھی میں پلٹ آئے۔راستے میں شرلاک ہومز نے سر ہینری کو بتایا کہ اسٹپلٹن نے انہیں کس طرح ہلاک کرنے کا منصوبہ بنایاتھا۔
شکاری کتے کی ہلاکت کے بعد اگلی صبح جب دھند ختم ہو چکی تو ڈاکٹر مورٹائمر ہمیں لے کر اس راستے پر جانکلے جس کا تذکرہ ہم نے اوپر کیا ہے۔ہر طرف جنگل کی ایک مخصوص خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔راستہ کیچڑ آلود تھا اور ہم تینوں کے پاؤں باربار اس میں اندر تک دھنس رہے تھے۔
راستے پر قدموں کے نشانات موجود تھے۔ایسا لگتا تھا جیسے ہمارے آنے سے قبل کوئی اس راستے سے ہوکر گزرا ہے۔ تھوڑا آگے چل کرہمیں اسٹیپلٹن کا ہیٹ پڑا ہوا ملا جوشاید کل رات بھاگتے وقت اس کے سرسے گر گیا تھا۔یہ ہیٹ اسٹیپلٹن کی آخری نشانی تھا۔اس کے بعد اسٹیپلٹن کبھی نظر نہ آیا۔شاید وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس علاقے میں موجود دلدل میں اتر چکا تھا۔
اس جھونپڑی سے جس میں اسٹیپلٹن نے اس شکاری کتے کورکھا ہواتھا،ہمیں ایک مضبوط چین،کچھ ہڈیاں اور ایک ایسا کنسترہاتھ لگا جس میں اسٹیپلٹن فاسفورس گھول کر کتے کے سر اور جبڑوں پر لگا تا تھاتا کہ وہ بھوت پریت جیسی کوئی چیز نظر آسکے۔شاید کتے کی ایسی خوفناک صورت سے ڈر کر سر چارلس کی موت واقع ہوئی تھی۔اسٹیپلٹن نے اس خوفناک کتے کو صرف دو مواقع پر اپنے گھر رکھا تھا۔ایک سر چارلیس پر حملے کے وقت اور دوسرے سر ہینری پر حملے کے وقت۔ان دو مواقع کے سواکتا ہمیشہ اپنے مخصوص کیبن میں بند رہتا تھا۔مگر اسٹیپلٹن اس کتے کی آواز کو بند نہیں کر سکتا تھا۔
اس کہانی کے کئی معا ملات جو میری سمجھ سے باہر تھے کچھ دنوں کے بعد لندن لوٹتے ہوئے ہومز نے مجھے ان کے بارے میں وضاحت سے بتاتے ہوئے کہا:
”اسٹیپلٹن کا تعلق باسکرول خاندان سے ہی تھا۔یہ ایک ایسی حقیقت تھی جس کے بارے میں ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا۔ابتداء میں ہمیں ڈاکٹر مورٹائمر نے بھی یہی بتایا تھا کہ سر ہینری باسکرول خاندان کا آخری فرد تھا۔
مگر ایسانہیں تھا۔سر چارلس کے بھائی روجر کا کہانی میں موجود بیان کے برعکس برازیل میں گردن توڑبخار سے انتقال نہیں ہوا تھابلکہ در حقیقت اس نے شادی کرلی تھی اور اس کاایک بیٹا بھی تھا۔اس کے بیٹے کا نام بھی روجرہی تھا۔ یہی لڑکا بعد میں اسٹیپلٹن کے نام سے جانا گیا۔
جب اسٹیپلٹن انگلینڈ آیا تو اسے معلوم ہوا کہ باسکرول خاندان کی دولت پر قبضہ کے لئے اسے ایک یا دو افراد کو ہلاک کرنا ہوگا۔
ابتداء میں اس کاپلان غیر واضح تھا۔اس نے یہاں آنے کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ باسکرول کی کوٹھی کے نزدیک ہی رہائش اختیار کی۔دوسرا کام اس نے یہ کیاکہ سرچارلس سے دوستی کرلی۔
جب سر چارلس نے اسے باسکرول خاندان پر ہونے والے عذاب کے بارے میں بتایا تو اسٹیپلٹن نے اس کہانی کو حقیقت کا روپ دینے منصوبہ بنایا۔اپنے ایک اور دوست ڈاکٹر مور ٹائمر سے اسے یہ معلوم ہوا کہ سر چالس دل کے مریض ہیں اور وہ کسی بھی معمولی صدمے کے نتیجے میں ہارٹ ا ٹیک کا شکار ہوکر مرسکتے ہیں۔اسٹیپلٹن نے لندن سے عظیم الجثہ کتا خریدا تھا۔
یہ بات کسی کے علم میں نہیں کہ اسٹیپلٹن نے کتے کے ساتھ کتنی بار رات کی تاریکی میں اپنے شکار کا انتظار کیا تھا اور اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔پھر ایک رات جب سرچارلس باسکرول کی کوٹھی کے راستے پر ٹہل رہے تھے تو اسٹیپلٹن نے ان پر اپنا خوفناک کتا چھوڑ دیا۔سر چارلس دہشت زدہ ہو کر بھاگے اور اسی دہشت کے عالم میں ان کی موت واقع ہوگئی۔“
اس کے بعد ہومز جب ناہموار راستے کی جھاڑیوں میں چھپا ہوا تھا، اس سے میری ملاقات ہوگئی۔اس وقت تک ہومز اسٹیپلٹن کے بارے میں تمام باتیں جان کر اپنے منصوبے بناچکا تھا۔ہومز کو معلوم تھا کہ اسٹیپلٹن کو مجرم ثابت کرنے کے لئے لازم ہے کہ اسے رنگے ہاتھوں گرفتار کیا جائے۔اس مقصد کے لئے ہومز نے سر ہینری کو شکار کے طور پر استعمال کیاتاکہ اسٹیپلٹن جرم کرتا ہوا پکڑا جاسکے۔
تاہم اس کہانی کی ایک بات آج بھی میری سمجھ سے باہر ہے اور وہ یہ کہ اگر سر ہینری ہلاک ہوجاتے تو اسٹیپلٹن باسکرول کے خاندان کی دولت پر کس طرح قبضہ کرتا۔آخر وہ اس ضلع میں پچھلے دو برسوں سے ایک فرضی نام رکھ کر رہ رہا تھا۔ اور دنیا اسے اسکے اسی فرضی نام کے حوالے سے جانتی تھی۔
ہومز کے پاس بھی اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے۔بس خیال کیا جاسکتا ہے کہ اسٹیپلٹن اپنے شکار کو ہلاک کرنے کے بعد خاموشی سے واپس برازیل چلاجاتا اور وہاں سے اپنے اصلی نام یعنی روجر باسکرول کے حوالے سے باسکرول خاندان کی دولت کی وراثت کا دعویدار بنتا۔لیکن ایسا کرنے کے لئے اسے انگلینڈ آنے کی ہر گز ضرورت نہ ہوتی۔صرف ایک بات طے ہے کہ اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے یہ ظالم اور شیطان صفت انسا ن کسی نہ کسی راستے کو ضرور تلاش کرلیتا۔