skip to Main Content

برفانی بلا

سلیم خاں گمی
۔۔۔۔۔

ہر طرف برف ہی برف تھی۔
جہاں ہر طرف ریت ہی ریت ہو، اسے ریگستان یا ریگ زار کہا جاتا ہے۔ چوں کہ یہاں ہر طرف برف ہی برف تھی، اس لیے اسے برف زار کہا جاتا تھا۔ کھیتوں کھلیانوں میں برف۔ مٹی، پتھروں اور کنکروں پر برف۔ درختوں اور پودوں پر برف۔ پہاڑیوں، چٹانوں اور ڈھلانوں پر برف۔ پہاڑی پگ ڈنڈیوں، غاروں اور پٹڑیوں پر برف۔ غاروں میں یوں کہ برف باری سے ڈرے اور سمے ہوئے برفانی چیتے، برفانی ریچھ، برفانی گیدڑ، مرموٹ، جنگلی بھیڑیں اور سانپ کھانے والے جنگلی بکرے جن کو مارخور کہا جاتا ہے، ان غاروں میں داخل ہوتے ہیں تو ساتھ برف بھی اندر لے آتے ہیں۔ ہاں، پٹڑی وہ راستہ ہوتا ہے جسے پہاڑی کاٹ کر بنایا جاتا ہے تاکہ انسان، حیوان، کاریں، ٹرک وغیرہ اپنا سفرجاری رکھ سکیں۔
اس ڈراؤنے موسم میں بھلا باہر کون نکلتا ہے۔ لیکن اکرم نے اپنی ماں فاطمہ سے کہا ۔’’ماں، میں ابا کو دیکھنے کھیتوںپر ضرور جاؤں گا۔ ‘‘
’’تم اس موسم میں باہر نہیں جاؤ گے، میرے لال ۔‘‘
’’ موسم دو دن سے خراب ہے، برف باری ہو رہی ہے اور ابا دو دن سے گھر نہیں آئے۔‘‘وہ بولا۔
’’اللہ تمہارے ابا کو سلامت رکھے۔ وہ ٹھیک ہوں گے ۔‘‘
’’اللہ آپ کی دعا قبول کرے۔ لیکن ابا پرسوں گئے تھے تو ان کو بخار تھا ۔‘‘اکرم نے بتایا۔
’’میرے بیٹے، مجھے معلوم ہے۔ اُنہیں ہلکا ہلکا بخار تھا۔ نزلہ زکام ہو تو بخار کی شکایت ہو جاتی ہے۔ فکر نہ کرو۔ وہ ٹھیک ہوں گے۔‘‘
’’میرا دل کہتا ہے کہ ابا بیمار ہیں۔ میں پتا کر کے آتاہوں ۔‘‘اکرم نے کہا۔
’’اس موسم میں کیسے جاؤ گے؟ دو دنوں کی برف باری سے راستہ بند ہو گیا ہو گا ۔‘‘
’’ میں کالو کو ساتھ لے جاؤں گا۔ وہ آگے آگے اورمیں پیچھے پیچھے۔ وہ راستہ بتائے گا ۔‘‘
فاطمہ بھی پریشان تھی کہ اکرم کا ابا دو دن سے گھر نہیں آیا اور جب وہ پرسوں گیا تھا تو اسے ہلکا ہلکا بخار تھا اور نزلہ زکام کی بھی شکایت تھی۔ چناں چہ اُس نے اکرم کو جانے کی اجازت دے دی۔
اکرم نے دو روٹیاں، ٹنڈوں کا سالن، اسپرین کی دو گولیاں اور کھانسی کا شربت لے کر ماں کو سلام کیا اور کالو کے ساتھ کھیتوں کی طرف روانہ ہو گیا۔
اکرم اور کالو کئی بار کھیتوں پر گئے تھے، اس لیے کالو کو یہ بتانے کی ضرورت نہ تھی کہ کہاں جانا ہے اور کون سا راستہ اپنانا ہے۔ وہ آگے آگے ہو لیا اور اکرم اُس کے پیچھے پیچھے۔
اکرم نے اپنے سر پر بوری کا ٹکڑا رکھ لیا تھا تاکہ برف اُس کے کوٹ، سویٹر اور کرتے کو خراب نہ کرے۔ کالو رکھوالی کرنے والا کتا تھا جسے گدی کتا کہا جاتا ہے۔ گدّی کتے وہ قبیلہ پالتا ہے جسے گدّی کہا جاتا ہے۔ یہ قبیلہ پہاڑوں میں رہتا ہے اور بھیڑ بکریاں فروخت کرتا ہے۔ گدی کتا بکریوں کی رکھوالی کرتا ہے۔
اکرم کی عمر دس سال تھی اور وہ چھٹی جماعت کا طالب علم تھا۔ گورا چٹا رنگ، مضبوط ہاتھ پاؤں۔ بلتستان کے سبھی لوگ گورے چٹے، بہت محنتی اور چاق چوبند ہوتے ہیں۔ یہ علاقہ پاکستان کی شمال مشرقی سرحد پر ہے اور کوہِ ہمالیہ کی چوٹیوں سے گھرا ہوا ہے۔
اچانک کالو ایک جگہ کھڑا ہو گیا!
’’کیا بات ہے، کالو؟ کھڑا کیوں ہو گیا؟ ‘‘اکرم نے پوچھا۔
کالونے اکرم کی طرف مڑ کر دیکھا اور پھر سامنے دیکھنے لگا۔ راستے میں برف کا ایک اونچا سا ڈھیر لگا تھا۔ اکرم نے غور سے دیکھا۔ ایک بڑے سے پتھر پر برف پڑی تھی اور پتھربرف میں چھپ گیا تھا۔
’’کچھ نہیں ہے۔ پتھرہے اور پتھر پر برف ہے۔ چلو! ‘‘کالو نے اکرم کا حکم سنا تو چھلانگ لگا کر آگے بڑھا اوربرف کے ڈھیر کو عبور کر گیا۔
ہر طرف برف گر رہی تھی اور وہ دونوں آگے بڑھ رہے تھے۔ سامنے پہاڑی تھی اور پہاڑی کے اُس پار اکرم کے والد کی چراگاہ اور کھیت تھے۔ گاؤں سے پہاڑی تک بھی کھیت تھے۔ لیکن یہ دوسرے لوگوں کے تھے۔ ان کھیتوں میں اب فصل نہیں تھی۔ ان کو فصل اُگانے کے لیے خالی چھوڑ دیا گیا تھا۔ ہاں، ان کھیتوں کی پگ ڈنڈیوں پر سفیدوں، شہتوت، اخروٹ، خوبانی اور سیبوں کے درخت تھے جو اُس وقت برف کے پھولوں سے لدے پھندے تھے۔ بعض درختوں کے تنوں پر بوریاں بندھی ہوئی تھیں تاکہ بھوکے حیوان اُن کی چھال نہ کھا جائیں۔ بلتستان میں برف باری کے موسم میں جانوروں کو کھانے کے لیے بہت کم چارہ ملتا ہے، کیوں کہ ہر چیز برف کے نیچے چھپ جاتی ہے۔
پہاڑی سے پہلے نالا آتا تھا۔ اب وہ دونوں نالے پر پہنچ گئے تھے۔ کالو ایک بار پھر کھڑا ہو گیا اور نالا دیکھ کر بھونکنے لگا۔
’’کیوں بھونک رہا ہے؟ نالا ہے۔ برف سے بھرا ہواہے۔ اسے تو پار کرنا ہو گا۔ ورنہ ابا کے پاس کیسے پہنچیں گے ۔‘‘
لیکن کالو بھونکے جا رہا تھا۔ وہ اکرم کو آگاہ کر رہا تھا کہ نالا خطر ناک بھی ہو سکتا ہے۔
’’گھبراؤ نہیں۔ آگے بڑھو۔ آدمی سوچ میں پڑا تو نا کام ہوا۔ آگے بڑھو۔ چلو۔ ‘‘
کالو چل پڑا۔ برف کی تہ نرم تھی۔ لیکن نالے کا پانی جم چکا تھا اور سیمنٹ کے فرش کی طرح سخت تھا۔ بلتستان کے صدر مقام سکردو کے ساتھ دریائے سندھ بہتا ہے۔ لیکن سردیوں میں اس کا پانی بھی جم جاتا ہے اور چھاؤنی کے فوجی جوان اس پر فٹ بال کھیلتے ہیں۔
وہ دونوں نالا پار کر کے اب پہاڑی پر چڑھنے لگے۔ یہ احتیاط کا کام تھا۔ وجہ یہ تھی کہ راستہ ڈھلواں تھا۔ تاہم وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھتے رہے۔ وہ دونوں اسی علاقے کے رہنے والے تھے اور پہاڑی راستوں پر ہائیکنگ کرتے رہتے تھے۔ اکرم کا اسکول دوسرے گاؤں میں تھا اور وہ گاؤں ایک پہاڑی کی دوسری طرف تھا۔
کالو آگے تھا، اس لیے وہ پہاڑی کی چوٹی پر پہلے چڑھا اور پھر بھونکنے لگا۔ برف باری اب تھم چکی تھی۔
’’اب کیا ہوا؟ کیوں بھونک رہے ہو؟ ‘‘اکرم نے پوچھا۔
کالو نے پیچھے مڑ کر اُس کی طرف دیکھا اور پھر آسمان کی طرف منہ کر کے زور زور سے بھونکنے لگا۔ اکرم آگے بڑھا اور نیچے جھک کر دیکھا۔ برف پر ریچھ کے پنجوں کے نشان تھے۔
’’یہ ریچھ کے پنجوں کے نشان ہیں۔ وہ اس طرف سے گزرا ہے۔ تم آگے بڑھو ۔‘‘اکرم نے کہا۔ لیکن کالو آگے نہ بڑھا اور ایک بار پھر آسمان کی طرف منہ اُٹھا کر زور زور سے بھونکنے لگا۔
میں جانتا ہوں کوئی ریچھ ادھر سے گزرا ہے۔ ہمارے کھیتوں کی طرف گیا ہے یا کسی دوسری طرف، کچھ معلوم نہیں۔ ہم اُس کا پیچھا نہیں کریں گے۔ ابا کے پاس جائیں گے۔ تم آگے بڑھو ۔‘‘
آگے ڈھلان تھی۔ برف باری بند ہو چکی تھی لیکن برف اب بھی نرم تھی، اس لیے کالو اور اکرم کو احتیاط اورہوشیاری سے چلنا پڑا۔ پہاڑی سے نیچے اترے تو کھیت شروع ہو گئے۔ یہاں بھی کھیتوں کے کناروں پر شہتوت، اخروٹ، خوبانی اور سیبوں کے درخت تھے اور اُن کی شاخوں میں برف کے پھول اور گولے لٹکے ہوئے تھے۔ لگتا تھا چاندی کے بنے ہوئے درخت ہیں اور ان پر پھل بھی چاندی کا آیا ہے۔ کھیتوں میں بیل، گائے، بھیڑیں اور بکریاں چارے کے لیے گھوم پھر رہے تھے۔ جہاں کھیت ختم ہوتے تھے، وہاں باڑا تھا اور اُس باڑے میں ایک طرف کوٹھا تھا جس کا دروازہ بند تھا۔ وہ آگے بڑھے تو برف باری شروع ہو گئی۔ لیکن اکرم خوش تھا کیوں کہ اُسے برف باری کے باوجود درختوں میں سے باڑا اور کوٹھا دکھائی دے رہے تھے۔ گدی کتے برف باری میں بھی خوش رہتے ہیں۔ لیکن اکرم اب اکتا گیا تھا۔ سفر تو اُس نے اتنا لمبا چوڑا نہیں کیا تھا لیکن ایسی حالت میں جب دھرتی پر برف کی تہ جمی ہو، اوپر سے برف گر رہی ہو اور راستہ پھسلواں اور ڈھلواں ہو تو احتیاط سے چلنے کی وجہ سے جسم کے پٹھے تن کر تھک جاتے ہیں۔
جب وہ دونوں باڑے میں پہنچے تو کالو بھاگ کر کوٹھے کی طرف بڑھا اور دروازے پر کھڑے ہو کر بھونکنے لگا۔ لیکن اندر سے کوئی باہر نہ آیا۔ کالو سمجھا اندر کوئی نہیں ہے۔ وہ خاموش ہو گیا۔ لیکن کھڑا رہا۔ اکرم نے آکر دروازہ کھولا تو دیکھا کہ اُس کا ابا کمبل اوڑھے لیٹا ہوا ہے اور بخار میں پھنک رہاہے۔ وہ تقریباً بے ہوش تھا۔
اکرم نے آگ جلائی۔ کیتلی میں برف ڈالی۔ اُسے چولھے پر رکھ کر پگھلایا، نیم گرم پانی سے اپنے ابا کو بخار اورنزلہ زکام کی گولیاں کھلائیں اور پھر سالن گرم کرنے لگا۔ کالو اکرم کے والد کے پیروں میں بیٹھ کر اکرم کو کام کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔
وہ چولھے کے پاس بیٹھا ہی تھا کہ اچانک کوٹھے کا دروازہ کھلا اور ایک موٹا تازہ خوں خوار سفید ریچھ اندر آیا اور کالو پرحملہ کرنے کے لیے پچھلے پیروں پر کھڑا ہو گیا۔ اُس کی غراہٹ سے سارا کوٹھا گونج اٹھا۔ اکرم کے ابا نے آنکھیںکھول کر ریچھ کو دیکھا تو اُس کا دل دھک سے رہ گیا۔
کالو زور زور سے بھونکنے لگا۔ اکرم نے سبزی کاٹنے والی چھری اُٹھائی اور مقابلے کے لیے تیار ہو گیا۔
’’یہ ہمارے علاقے کا ریچھ نہیں ہے۔ لداخ کے علاقے سے آیا ہے۔ یہ چھری اِس کا کچھ نہ بگاڑ سکے گی ۔‘‘اکرم کا والد کم زور آواز میں بولا۔ وہ اب بھی لیٹا ہوا تھا۔اُس میں اُٹھنے کی سکت نہ تھی۔
’’پھر کیا کیا جائے؟ آپ تو بیمار ہیں۔‘‘ اکرم چھری دیکھ کر بولا۔
’’میرے تکیے کے نیچے خنجر ہے۔ اُس سے اپنی حفاظت کرو ۔‘‘
اکرم نے تکیے کے نیچے سے خنجر نکال کر دائیں ہاتھ میں پکڑ لیا۔ چھری اُس کے بائیں ہاتھ میں تھی۔ اب ریچھ دروازے کے ساتھ پیٹھ لگائے کھڑا تھا۔ اُس کے سامنے کا لو غرا رہا تھا، کالو کے پیچھے اکرم تھا اور اکرم کے پیچھے چولھا جل رہا تھا۔ چولھے کے ساتھ ایک کونے میں اکرم کا ابا لیٹا ہوا تھا۔
دیکھتے ہی دیکھتے ریچھ آگے بڑھا۔ اُس نے چیخ مار کر تھوتھنی آگے بڑھائی اور کالو پر حملہ کر دیا۔ کالو نے اگلے دو پنجوں سے مقابلہ کیا۔ ریچھ نے اپنے پنجے اس زور سے کالو کی گردن پر مارے کہ وہ لڑھک کر گر پڑا۔ اب ریچھ اور اکرم کے درمیان کوئی نہ تھا۔
’’ آگے نہ بڑھنا ،یہیں کھڑے ہو کر مقابلہ کرنا ۔‘‘اکرم کا ابا بولا۔
لیکن اس سے پہلے کہ ریچھ اکرم پر حملہ کرتا، کالو سنبھل کر پھر ریچھ پر حملہ آور ہوا اور اُس کی ناک کو دانتوں میں دبا لیا۔ ریچھ چیخا، چنگھاڑا اور پھر اُس نے دائیں پنجے سے کالو کے پیٹ پر حملہ کیا۔ پیٹ سے خون رسنے لگا۔ کالو نے ریچھ کی ناک چھوڑ دی جواب لہولہان ہو چکی تھی۔ اُس نے منہ کھول کر کالو پر حملہ کیا اور اس کی گردن منہ میں دبائی۔ اکرم نے محسوس کیا کہ اب کالو کا بچنا محال ہے۔ لیکن کالو کی گردن کے لچھے دار بالوں نے اُسے بچا لیا۔ یہ بال ریچھ کی زخمی ناک میں گھس گئے اور تکلیف سے زچ ہو کر ریچھ کو گردن چھوڑناپڑی۔
وہ اب پیچھے ہٹ کر غرایا اور پنجے بڑھا کر کالو پر حملہ کیا۔ کالو نے اُس کے نیچے ہو کر اُس کے پیٹ میں دانت گاڑ دیے۔ اب ریچھ اوپر تھا اور کالو نیچے۔ ریچھ درد سے بلبلا رہا تھا۔ لیکن پھر فورا ًہی اُس نے اپنے پنجے کالو کی رانوں میں گاڑ دیے اور پیٹھ میں دانت پیوست کر دیے۔ اب کالو کے بچنے کی کوئی صورت نہ تھی!
اکرم نے دیکھا کہ کالو بے بس ہو گیا ہے تو اُس نے آگے بڑھ کر خنجر ریچھ کے پیٹ میں گھونپ دیا۔ پیٹ کی انتڑیاںباہر آگئیں اور وہ بے بس ہو گیا۔ کالواُس کے نیچے سے نکل آیا اور دوبارہ اُس کی تھوتھنی پکڑ لی۔ اتنے میں اکرم نے خنجرسے اُس کی شہ رگ کاٹ دی۔
یہ دوا کا اثر تھا یا اکرم، کالو اور ریچھ کی لڑائی کا کہ اکرم کا ابا اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ اُس نے ہاتھ بڑھا کر کالو کو شاباش دی اور اکرم سے کہا۔ ’’اکرم بیٹے، اگر تور یچھ پر حملہ نہ کرتا تو وہ موذی کالو کو مار ڈالتا اور کالو کے بعد ہماری باری تھی۔‘‘
ریچھ کی لاش کو باہر پھینکنے کے لیے اکرم نے دروازہ کھولا۔ باہر اب بھی برف گر رہی تھی!

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top