بڑا سا جہاز
مہر شکیل
…………………….
میں جواد احمد اپنی لائبریری میں بیٹھا ہوں۔ ابھی میرا بیٹا راشد میرے پاس سے اُٹھ کر گیا ہے۔ مجھے ایک نئی سوچ اور نئی فکر میں ڈال کر وہ اپنی بات کرکے جاچکا ہے اور میں یادوں کے سمندر میں ڈوبتا جارہا ہوں۔۔۔
*۔۔۔*۔۔۔*
ایسا بچہ میں نے کبھی نہیں دیکھا بازار لے جاؤ تو نہ ٹافی نہ آئسکریم کی ضد۔ بچے تو مچل جاتے ہیں۔ یہ چاہئے وہ چاہئے اور جب تک پسند کی چیز مل نہ جائے سکون سے نہیں بیٹھتے۔ یہ عجیب بچہ ہے۔ کھلونے کی دکان پر لے جاؤں تو اسے کوئی کھلونا پسند نہیں آتا، بس جہاز اور ہیلی کاپٹر پر ہاتھ رکھ دیتا ہے کہ یہ دلادیں۔ پورا کمرہ ویسے ہی چھوٹے بڑے ہوائی جہاز، جنگی جہاز اور ہیلی کاپٹر سے بھرا ہوا ہے۔ میں تو کہتی ہوں اسے کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھا دیں۔ اسے جو ہر وقت اُڑنے کا شوق رہتا ہے، کہیں کسی روز اُڑ کر چلا ہی نہ جائے۔
امی جان جو ابھی بازار سے لوٹی تھیں، بہت غصے میں ابو کو میری رپورٹ دے رہی تھیں۔ ٹھیک ہی تو کہہ رہی تھیں۔ معلوم نہیں کیوں مجھے جہازوں سے جنون کی حد تک لگاؤ تھا اور یہ بات میرے تمام دوستوں اور رشتے داروں کو معلوم تھی۔ اس لئے جب بھی مجھے کوئی تحفہ دیتا تو میری پسند کا خیال رکھتے ہوئے جہاز ہی تحفے میں دیتا۔
میں رات کو سونے سے پہلے اپنی دادی جان سے کہانی ضرور سنتا تھا۔ دادی وہی والی کہانی سنائیں نا۔۔۔ جہاز والی۔ دادی جان جو یہ کہانیاں سُنا سنا کر تھک چکی تھیں۔ میرے پُرزور اصرار پر پھر سنانے لگتیں۔
’’ایک بہت ہی اچھا لڑکا تھا اُسے ہوا میں اُڑنے کا بہت شوق تھا۔ اپنے اسی شوق کی وجہ سے وہ پائلٹ بن گیا۔ وہ کوئی عام پائلٹ نہیں، بلکہ اپنے ملک کی حفاظت کرنے والا ایک نڈر سپاہی تھا۔ جب دشمن ملک اس کے ملک پر حملہ کرتے تو وہ اپنے جہاز سے اُن کے جہازوں کو تباہ کردیتا تھا۔ ایک دفعہ اس کے جہاز پر دشمن کا فوجی چڑھ گیا اور اس نے اس لڑکے سے کہا کہ جہاز کو دشمن کے علاقے میں لے چلو۔ وقت بہت کم تھا اور اُسی لمحے فیصلہ کرنا تھا، پھر اس نے ایک ایسا کارنامہ انجام دیا جسے دنیا آج بھی یاد کرتی ہے۔ دشمن کے علاقے میں جانے کے بجائے اُس نے جہاز زمین کی طرف کیا اور پھر جہاز کے ٹکڑے فضا میں بکھر گئے۔ اس طرح اُس نے اپنے اس شوق کو چھوڑا نہیں، بلکہ ہمیشہ کے لئے امر کرلیا‘‘۔
یہ کہانی مجھے اچھی طرح سے حفظ ہوچکی تھی۔ لیکن پھر بھی میں ضد کرکے یہ کہانی سنتا اور یہ خواہش میرے اندر بڑھتی چلی گئی کہ میں بھی ایک اچھا لڑکا بنوں گا، اپنے وطن کا محافظ، اپنے ملک کے لئے جان کی بازی لگا دینے والا سپاہی؟
میں ذرا اور بڑا ہوا تو مجھے پتہ چلا کہ جس لڑکے کی کہانی دادی جان مجھے سنایا کرتی تھیں اس لڑکے کا نام راشد منہاس ہے۔ اب جو کوئی مجھ سے پوچھتا تم بڑے ہوکر کیا بنوگے تو میرا ایک ہی جواب ہوتا ’’راشد منہاس‘‘۔
اور پھر وہ دن بھی آگیا جب میں فضا میں اُڑا جارہا تھا۔ میں ایک بہت اچھا پائلٹ بن چکا تھا۔ اب میرے نزدیک صرف میرا مقصد تھا۔ اپنے وطن کے لئے ہر وقت چوکنا رہتا کہ جب وطن نے پکارا اس کی پکار پر لبیک کہنا جان کی بازی لگا دینا۔ اپنے آپ کو اور اپنے شوق کو ہمیشہ کے لئے امر کرلینا۔
لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان سوچتا کچھ ہے اور قدرت اس سے کچھ اور ہی امتحان لے لیتی ہے۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ میں چند دنوں کی چھٹیوں میں اپنے گھر آیا تھا کہ کچھ ایسی مجبوریاں سامنے آگئیں کہ ان تھوڑے ہی دنوں میں میری شادی کروادی گئی۔ یہ سب اس قدر آناً فاناً ہوگیا کہ کسی کو یقین ہی نہ آتا تھا اور میں ان نئی ذمہ داریوں میں اُلجھتا چلا گیا۔ ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی مجھے جلدی واپس آنے کا نوٹس بھیج دیا گیا اور میں اپنی واپسی کی تیاریوں میں لگ گیا۔
مجھے جلدی واپس بلانے کی اہم وجہ یہ تھی کہ مجھے ایک بہت خاص مشن پر بھیجنے کی تیاریاں کی جارہی تھیں۔ میں بہت خوش تھا کہ اللہ تعالیٰ نے میری بھی دُعا سُن لی اور مجھے اس مشن میں حصہ لینے کی سعادت عطا کی۔ کچھ پالینے کا جو جنون میرے اندر تھا اب وہ ایک نڈر سپاہی کے روپ میں میرے سامنے تھا۔
اور پھر بلاآخر اللہ تعالیٰ نے اس مشن میں ہمیں بہت بڑی کامیابی عطا فرمائی۔ مگر اس کے باوجود میرے اندر کی پیاس اور شدت اختیار کرگئی۔ اس مشن میں ہمارے چھ ساتھیوں نے جامِ شہادت نوش کیا اور میں اُن چھ ساتھیوں میں خود کو تلاش کرتا رہا، کیونکہ اب میں اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھ رہا تھا کہ پھر کبھی کسی محاذ میں شامل ہوسکوں۔ میں بہت زخمی حالت میں واپس لایا گیا تھا۔ مجھے فوراً آپریشن روم میں پہنچا دیا گیا۔ میرے لب پر صرف کلمہ شہادت تھا کہ کب میری سانس تھم جائے اور میرا رب مجھے اپنے اُن ہر دلعزیز بندوں میں شامل کرلے جس سے اُس نے انعام کا وعدہ کررکھا ہے۔
جب میں نے آنکھیں کھولیں اور اپنے آپ کو اسی دنیا میں پایا تو اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش اور ایک کڑا امتحان سمجھا۔ اللہ تعالیٰ نے میری جان تو نہیں، لیکن میرے جسم سے صرف میری ٹانگیں اپنی راہ میں قبول کرلیں۔ میرے جسم کا ایک ایک عضو اُسی کا تو دیا ہوا ہے۔ ہر نعمت اسی کی دی ہوئی ہے اور وہی ساری نعمتوں کا مالک ہے۔ اس سوچ نے مجھے میرے ایمان پر ثابت قدم رہنے کی قوت بخشی اور ایک مرتبہ پھر زندگی مجھ میں اور میں زندگی میں شامل ہوتا چلا گیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
اب اُڑنا تو دور کی بات میں اپنے پیروں پر چل بھی نہیں سکتا ہوں۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی مصلحت تھی۔ میں گھر کا ہو کے رہ گیا ہوں اور اپنا زیادہ تر وقت لائبریری میں گزارتا ہوں۔
میرا بیٹا راشد جو تیسری جماعت کا طالب علم ہے۔ روتا ہوا میرے پاس آیا اور کہنے لگا۔ بابا! حسن کے ابو نے اُسے پاس ہونے پر نئی سائیکل دلائی ہے۔ میں نے کہا:
کوئی بات نہیں ہم بھی اپنے بیٹے کو اچھی سی سائیکل دلادیں گے۔
نہیں۔۔۔ مجھے سائیکل نہیں چاہئے۔ راشد نے کہا۔
پھر میرے بیٹے کو کیا چیز چاہئے۔ میں نے پیار سے پوچھا۔
آپ مجھے ایک بڑا سا جہاز دلادیں۔ میں جہاز اُڑاؤں گا۔ بابا آپ کو راشد منہاس بننے کا شوق تھا نا۔ میں ہوں نا۔۔۔! میں بنوں گا آپ کا راشد منہاس اور اس کی یہ بات سُن کر میں حیران ہی تو رہ گیا تھا۔ جو بات کبھی میری سمجھ میں نہ آسکی۔ وہ مجھے یہ چھوٹا بچہ سمجھا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ جس بندے کو جس کام کے لئے چنتا ہے اس سے وہی کام لیتا ہے۔
اب مجھے گزرے ہوئے وقت کا کوئی افسوس نہیں تھا۔ اب آنے والا لمحہ روشنی لئے ہوئے میرے سامنے تھا۔ میرے ’’راشد منہاس‘‘ کی صورت میں۔۔۔ میں ہار کر بھی بازی جیت گیا تھا اور اب تک اپنی اس جیت سے بے خبر تھا۔
کیوں ۔۔۔ آپ کیا کہتے ہیں۔۔۔؟