skip to Main Content

بڑا چور

اشتیاق احمد

۔۔۔۔۔۔

”دھم “ کی آواز سنتے ہی آصف جواد کی آنکھ کھل گئی … ان کی نیند بہت کچی تھی… پہلے تو انہوں نے خیال کیا کہ شاید خواب میں دھم کی آواز سنی ہو گی، لیکن پھر فوراً ہی انہوں نے یہ خیال مستر د کر دیا ، کیوں کہ اسی وقت ایک ہلکی سی چر چراہٹ سنائی دی … انہیں یوں لگا جیسے کوئی بہت آہستہ آہستہ دروازہ کھو ل رہاہے… اب توان کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا … انہوں نے فوراً تکیے کے نیچے ہاتھ لے جا کر پستول پر جما دیے … اب وہ آنے والے کا استقبال کرنے کے لیے پوری طرح تیا ر ہو چکے تھے …ایک منٹ گز ر گیا ، لیکن وہ جو کوئی بھی تھا ، اندر داخل نہ ہو ا …دروازہ چرچرانے کی آواز سنائی دی… وہ سمجھ گئے کہ اس کا رخ ان کے کمرے کی طرف تو تھا ہی نہیں … ا س کا مطلب ہے کہ وہ سامنے والے کمرے میں داخل ہواہے… اس خیال کے آتے ہی وہ اٹھ کھڑے ہوئے…
آصف جواد نے تھوڑا سا دروازہ اس طرح کھولا کہ آواز پیدا نہ ہو ، پھر بھی ہلکی سی آواز ضرور پیدا ہوئی … وہ دم سادھے کھڑے رہے ، یہاں تک کہ انہوں نے سامنے والے کمرے میں ہلکی سی کھڑکھڑ کی آواز سن لی اور ایک دوبار پھر جھری میں سے ٹارچ کی ہلکی سی روشنی بھی دیکھ لی …وہ کمرا تھا ان کے بچوں کا…ان کے بچوں کی نیند ان کی طرح کچی نہیں تھی … وہ تو بے سدھ سوئے تھے… بچوں کا خیال آتے ہی وہ کانپ گئے… اب وہ خود کو روک نہ سکے اور دبے پاﺅں بچوں کے کمرے کی طرف بڑھے۔
نزدیک پہنچ کر انہوں نے دیکھا کہ دروازہ تھوڑا سا کھلا ہواتھا اور اندر کوئی شخص الماری کھولے ہوئے کھڑا تھا ، لیکن ظاہر ہے کہ وہ غلط کمرے میں آگیا تھا… بچوں کی الماری میں کتابوں اور کاپیوں کے علاوہ بھلا کیا ہو سکتا تھا… جلد ہی اسے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ، لہٰذا وہ دروازے کی طرف مڑا … اس سے پہلے ہی آصف جواد ایک طر ف ہو چکے تھے ۔
وہ کمرے سے نکل آیا … انہوں نے دیکھا ، وہ لمبے قد کا دبلا پتلا آدمی تھا… اب اس کا رخ ان کے کمرے کی طرف تھا … وہ کمرے میں داخل ہو گیا تو وہ بھی دبے پاﺅں اس طرف بڑھے … نزدیک پہنچ کر انہوں نے اندر جھانکا … یہ دیکھ کر انہیں حیرت ہوئی کہ وہ آدمی ان کا سیف کھول چکا تھا… گویا وہ کوئی ماہر چور تھا … اس قدر آسانی سے کوئی عام چور یہ سیف نہیں کھول سکتا تھا … وہ فرش پر ایک کپڑا بچھا چکا تھا … سیف میں جو نقدی اور دوسری قیمتی چیزیں تھیں وہ اب کپڑے پر ڈھیر ہوتی جا رہی تھیں … اب وہ اور زیادہ دیر نہیں کر سکتے تھے … چنانچہ پر سکون اندازمیں بولے: ” ہاتھ اوپر اٹھا لو دوست !“
وہ آدمی بری طرح اچھلا… ہاتھ میں پکڑی ہوئی چیزیں فرش پر گرپڑیں… وہ ان کی طرف مڑاتو اس کا رنگ اڑ چکا تھا اور چہرے پر ہوائیاں اڑرہی تھیں…
آصف جواد نے کہا :”تم نے ہاتھ نہیں اٹھائے … میں بہترین نشانے باز ہوں … اس پستول کا میرے پا س لائسنس بھی ہے …تم ایک چور ہو ، اگر میں فائر کر دوں تو قانون مجھے کچھ نہیں کہے گا ، لہٰذا تم سوچ سکتے ہو کہ میرے لیے تم پرفائرکرنا کس قدر آسان ہے ۔“ ان الفاظ کے ساتھ ہی چور کے دونوں ہاتھ اٹھ گئے … انہوںنے کمرے کے دروازے کو لا ک کر دیا ۔
” اب کمرے میں صرف ہم دونوں ہیں … شکل صورت سے تم نیک اور شریف لگتے ہو … ضرور اچھے خاندان کے ہو ، پھر یہ کام کیوں کرتے ہو … کوئی اچھا کام کر و … عزت کی زندگی بسر کرو … یہ بھی کوئی کام ہے … اس میں سکون کہاں ہمیشہ پریشان رہتے ہو گے … پولیس کا دھڑکا لگا رہتا ہو گا ، پھر حرام روزی بھی پر لگا کر اڑ جاتی ہے… لوٹا ہوا مال دونوں ہاتھوں سے لٹا کر برابر کر دیتے ہوگے اور پھر کسی نئے گھر میں چوری کرنے نکل جاتے ہو گے … میں غلط تو نہیں کہہ رہا ؟“
” آپ ٹھیک تو کہہ رہے ہیں ، لیکن ایسی باتیں تو میں کئی بار سن چکا ہوں… یہ کوئی نئی باتیں تو ہیں نہیں … اچھا اب آپ کا کیا پروگرام ہے ، مجھے پولیس کے حوالے کر نا چاہتے ہیں تو فون کر دیں… پولیس کی مجھے بالکل پروانہیں ہے ، کیوں کہ جیل سے باہر مجھے خود کمانا پڑتاہے… میر ا مطلب ہے، میں چوری کرتاہوں تب کہیں جا کر پیٹ بھر تاہوں، جب کہ جیل میں یہ فکر نہیں ہوتی … ہر طرح کی بے فکری ہوتی ہے … سچ یہ ہے کہ مجھے تو جیل زیادہ پسند ہے ، لہٰذاآپ پولیس کو فون کر یں ۔“
آصف جواد بولے :” نہیں ، فون نہیں کروں گا۔“
”لیکن کیوں نہیں کریں گے۔“
”تمہیں جیل بھیج کر مجھے کیا فائدہ ہو گا … بات اگر صرف دو وقت کی روٹی کی ہے ، یعنی تم چوریاں صرف پیٹ پالنے کے لیے کرتے ہو تو دو وقت کی کیا ، میں تمہیں چار وقت کی روٹی پر ملازم رکھ سکتاہوں، بلکہ تم چاہو تو میں تمہیں کوئی چھوٹا موٹا کام کر ادوں گا اور تم بے فکر ہو کر باعزت طریقے سے اپنی دو وقت کی روٹی کما سکتے ہو ۔“
”خوب خوب … طبیعت اچھی پائی ہے آپ نے …میں آ پ کی پیش کش پر غور کروں گا … اگر آپ مجھے گرفتار نہیں کرانا چاہتے تو پھر مجھے جانے دیں … میں بدلے میں یہ دولت چھوڑ دیتاہوں ۔“
” لیکن آج کی رات توگزر چکی ہے ، اب صبح تم کھاﺅ گے کہاں سے ؟“
” ابھی پچھلی چوری میں سے چند دنوں کے لیے رقم باقی ہے …کوئی فکر کی بات نہیں … اچھا بھیا جانی ! میں چلا ۔“ یہ کہتے ہی وہ دروازے کی طرف بڑھا… ا س کا ہینڈل پکڑ کر کھینچا ، لیکن دروازہ نہ کھلا ، کیوں کہ لاک جو لگا ہوا تھا۔
” کیا کہا تم نے ؟“ آصف جواد کے منہ سے نکلا۔
” میں نے کچھ بھی تو نہیں کہا … صرف اتنا کہا کہ میں چلا ۔“
” اس سے پہلے ؟‘ ‘ وہ بولے۔
” اس سے پہلے ، کیا مطلب ؟“
” تم نے اس سے پہلے بھی کچھ کہا تھا ۔“
’ ’ اوہ ہاں ! میں نے کہاتھا ، بھیا جانی ۔“
” تم نے مجھے بھیا جانی یوں ہی کہا یا یہ تمہاری عادت ہے؟“
” عادت ہے … کیا اب میں جا سکتا ہوں ۔“
”میری طرف سے تم جا سکتے ہو … میں تمہیں پولیس کے حوالے کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا، لیکن میں یہ ضرور چاہتاہوں کہ تم یہ خراب کام چھوڑ دو… تمہارے لیے کسی نہ کسی کام کی ذمے داری میں لیتاہوں… اس کام کو چھوڑ دینا ہی عقل مندی ہے ، کیوں کہ یہ کسی طرح بھی جائز نہیں … دوسروں کی کمائی تم بغیر محنت کے اڑاتے ہو ، چرائی ہوئی دولت پر تمہارا کوئی بھی حق نہیں اور دوسروں کا حق غصب کرنا اچھی بات نہیں … قیامت میں تو تمہیں حساب دینا ہو گا… بھگتو گے؟ بولو ، کیا کہتے ہو؟“
” آپ کی باتیں واقعی بھلی ہیں ، میرے دل میں اترتی جار ہی ہیں … میں آپ سے ایک دودن بعد ضرور ملوں گا، لیکن اس وقت میں دن کی روشنی میں آﺅں گا… کیا آپ مجھے پہچان لیں گے ؟“
” ہاں کیوں نہیں ۔“
” اگر آپ نے مجھے نہ پہچانا تو میں آپ کو پھر بھیا جانی کہہ دوں گا۔“
آصف جوا د نے پوچھا :”لیکن میں بھلا تمہیں کیوں نہیں پہچانوں گا، کیا تم اس وقت اپنے اصلی حلیے میں نہیں ہو ؟‘‘

’’حلیہ تبدیل کرنے کی کوشش کبھی نہیں کی۔“
”بس تو پھر تم بلا کھٹکے آجانا … یہ میرا کارڈلے لو … میرا بہت بڑا کارخانہ ہے… وہیں آکر مل لینا … یہ کارڈ دکھا دو گے تو تمہیں فوراً مجھ تک پہنچا دیا جائے گا۔“
”اچھی بات ہے، میں یہ تجربہ ضرور کروں گا اور اگر موجودہ کام کی نسبت میں نے سکون محسوس کیا تو اس پر کار بند رہوں گا … بوریت محسوس کی تو پہلے کام کی طرف لوٹ جاﺅں گا ۔“
”نہیں ، امید ہے کہ ایسا نہیں ہو گا … تم بڑے مزے میں رہو گے … کیا تم شادی شدہ ہو ؟“
” ارے نہیں صاحب ! ہم جیسوں کو کون بیٹی دے گا ۔“
” میں تمہاری شادی بھی کراﺅں گا۔“
” خیر ،یہ بعد کی بات ہے ۔“ نوجوان مسکرایا۔
” اور تمہارا نام کیا ہے۔“
وہ بولا :” ثاقب ۔“
”چوری چکاری کے کام میں کیسے پڑ ے ؟“
” بچپن میں والد نے جس اسکول میں داخل کرایا ، اس میں استاد بہت مارتے تھے اور پڑھائی میں میرا دماغ چلتا نہیں تھا ، لہٰذا روز مار کھاتا تھا … اب بھلا مارکھانے سے کوئی لائق تونہیں بن جاتا نا ، لیکن استاد اس بات کو نہیں مانتے تھے… وہ مجھے مارتے تھے اور اباجی مجھے زبردستی اسکول بھیجتے تھے … بس ان حالات سے تنگ آکر ایک دن میں گھر سے بھاگ نکلا … اب جس کے سرپر ماں باپ نہ ہوں وہ بری صحبت میں نہیں پڑے گا تو کیا کرے گا … اس طرح میں چور بن گیا ۔“ وہ کہتا چلا گیا ۔
”ہوں ، تمہاری کہانی درد بھری ہے … تمہارے والد کیا کام کرتے تھے؟“
” وہ کاروباری آدمی تھے … ان کے پاس بہت دولت تھی … پتا نہیں کیا کیا کام کرتے تھے … میں جب گھر سے بھاگا تھا تو اس وقت زیادہ بڑانہیں تھا۔“
” اچھی بات ہے ، تم جانا چاہو تو جا سکتے ہو … میری پیش کش تمہارے لیے برقرار ہے، برقرار رہے گی … تم آﺅ گے تو میں تمہیں خوش آمدید کہوں گا۔“
” آپ واقعی اچھے آدمی ہیں … اچھا بھیا جانی ۔“ یہ کہہ کر وہ چلا گیا ۔
صبح آصف جواد اس چور کی کہانی گھر کے سب افراد کو سنا رہے تھے… ان کے خاموش ہونے پر ان کی بیگم نے کہا: ” آپ ایک چو ر کو کوئی کام کاج کر اکے دیں گے تو وہ رقم سمیٹ کر غائب ہو جائے گا۔“
”مجھے امید ہے کہ ایسا نہیں ہو گا ۔“
” دیکھ لیجیے گا ، آپ نقصان اٹھائیں گے ۔“
”نہیں ، بہت بڑے نقصان سے بچنے کے لیے ایک چھوٹی سی رقم خرچ کروں گا۔“
”کیا مطلب ، یہ آپ نے کیا عجیب بات کہی ؟“
” بیگم ! یہ کاروباری باتیں ہیں ، تم انہیں نہیں سمجھ سکو گی ۔“ یہ کہتے ہوئے آصف جواد اٹھ کھڑے ہوئے ۔
٭
چند دن بعد ثاقب آصف جواد سے ملا… انہوں نے بہت گرم جوشی سے اس کا استقبال کیا … پھر بہت جلد انہوں نے اسے کارخانے کے باہر ایک دکان کھلوادی اور اس میں خوب مال بھر وا دیا … گھر آکر یہ خبر انہوں نے اپنی بیگم کو سنائی تو وہ براسامنہ بناکر رہ گئیں … وہ اپنے کمرے میں آئے تو بڑبڑارہے تھے:” تم کیا جانو بیگم ! میں نے ایک معمولی سی رقم خرچ کر کے کتنی بڑی رقم بچائی ہے… وہ تو نصف جائیداد کا مالک ہے ، نصف کا ۔“
٭
تما م دن دکان پر کام کرنے کے بعد تھکا ہارا ثاقب اپنے کوارٹر میں داخل ہوا… وہ کوارٹر بھی اسے آصف جواد نے دیا تھا … دروازہ اندر سے بند کر کے اس نے دل میں کہا:”میں جانتا ہوں بھیا جانی ! آپ پہلی نظر ہی میں مجھے پہچان گئے تھے … بالکل اسی طرح میں نے آپ کو پہچان لیا تھا … آپ انجان بنے رہے ، اس لیے ظاہر کر دیتے تو آدھی دولت مجھے دینی پڑتی ، لیکن بھیا جانی ! میں کیا کروں گا اتنی بڑی دولت لے کر … میں تو چھوٹا چور ہوں… چھوٹا ۔“ یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں سے دو آنسو لڑھک کر گرپڑے ، مگر ان آنسوﺅں کو دیکھنے والا کوئی نہیں تھا ۔

٭٭٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top