بالائی والا فقیر
علی عباس حسینی
۔۔۔۔۔۔۔
اللہ رکھے ہمارا لکھنؤ بھی عجیب شہر ہے۔ بھانت بھانت کے لوگ۔ انوکھی باتیں۔ یہاں کے ہر باشندے کی الگ ریت ہے۔ امیروں رئیسوں کو تو جانے دیجئے ۔روپئے کی گرمی ہر جگہ ہر دل و دماغ میں نیا ابال پیدا کرتی ہے۔ اس لئے دولت والوں کو تو چھوڑیئے یہاں کے غریبوں بلکہ بھکاریوں کے بھی نئے نئے انداز ہوتے ہیں۔ جھونپڑیوں میں رہنے والے اگر محلوں کے خواب دیکھیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں، مگر اس شہر کے فٹ پاتھ پر پڑے رہنے والے فقیر بھی شیر مال اور پلاؤ سے کم درجے کی چیز کھانے کے لائق نہیں سمجھتے۔ جھوٹ نہیں کہتا، ایک سچی کہانی سنو! ایسی جو کان کی سنی نہیں آنکھ کی دیکھی ہے۔
لکھنؤ سٹی اسٹیشن اور جوبلی کالج کے درمیان جو ریل کا پل ہے وہ نہ جانے کب سے بھکاریوں کا اڈہ چلا آتا تھا۔ کئی لنگڑے، لولے، اندھے بھکاری اور بھکارنیں، گودڑوں میں لپٹے مٹی اور گندگی میں اٹے ہوئے اس پل کے نیچے بیٹھے اور لیٹے رہتے ہیں۔ ان میں کئی کوڑھی بھی ہوتے ہیں اور چاہے کوئی پیسہ دے یا نہ دے، یہ ہر آنے جانے والے کو اپنا مرض بانٹتے رہے ہیں۔ انگریزی راج کے زمانے میں اس پل کے نیچے کی آبادی اسی قسم کی تھی۔ آج ہمارے راج میں بھی وہاں کا یہی حال ہے۔ گوروں کی حکومت میں وہ انسان نہ تھے، ہندوستانی تھے۔ اپنوں کے دور دورہ میں وہ نہ انسان ہیں نہ ہندوستانی۔
لو میں تو کہانی کہتے کہتے تمہیں سبق دینے لگا۔ اپنی حکومت کی کمیوں اور برائیاں بیان کرنے لگا مگر کیا کروں، سچی بات منہ سے نکل ہی پڑتی ہے اور پھر تمہیں دھیان کیوں نہ دلاؤں؟ تم ہی تو بڑے ہو کر ایک دن ملک کی حکومت کی باگ سنبھالوگے!
ہاں، تو خیر سنو۔ اسی ریل کے پل نیچے ایک فقیر رہتا تھا۔ وہ ٹاٹ پر بیٹھا گدڑی سے ٹانگیں چھپائے رکھتا تھا اس کی ٹانگیں ہیں یا نہیں، کم سے کم طالب علموں میں سے کسی نے اسے کھڑایا چلتے پھرتے نہیں دیکھا تھا، جب دیکھا بیٹھے ہی دیکھا مگر کمر کے اوپر کا دھڑ خاصا تھا۔ بڑی توند تھی۔ سینہ پر موٹے موٹے ڈھیروں بال تھے گول چہرے پر بڑی سی گول کچھڑی داڑھی تھی، چپٹی موٹی ناک اور آنکھوں کے دھندلے دیدوں کے کونوں میں کیچڑ بھری ہوئی۔ سر کے بال بڑے بڑے الجھے ہوئے، مٹی میں اٹے ہوئے۔ صبح سے شام تک بس ایک رٹ لگاتا تھا۔ ”ایک پیسہ بابا! ایک پیسہ“
آواز میں گرج سی تھی بالکل جیسی کہ بڑے طبل پر ہاتھ سے چوٹ دینے سے نکلتی ہے مگر اس فقیر کا کمال یہ تھا کہ وہ اس موٹی بھدی،گرج دار آواز کو بالکل روہانسی بنا لیتا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ جو ایک پیسہ مانگتا ہے، تو اس کا یہ سوال نہ پورا کیا گیا تو وہ مر ہی جائے گا۔ بس اس ایک پیسہ کے نہ ہونے سے اس کا دم ہی نکلنے والا ہے۔ وہ بھوک سے پھڑک کر جان دینے ہی والا ہے اور ہم ایک پیسہ دے کر اسے زندہ کر لیں گے ۔نہیں تو اس کے مرنے کا گناہ اور پاپ اپنے سر ڈھوئیں گے۔
اس لئے ادھر سے کوئی آنے جانے والا ایسا نہ تھا جو اسے ایک پیسہ دینے پر مجبور نہ ہو۔ کالج میں پڑھنے والے لڑکے، ان کو پڑھانے والے ماسٹر، جن کا بھی پل کے نیچے سے راستہ تھا، اس کے لئے گھر سے چلتے وقت پیسہ دو پیسہ جیب میں ڈال کر نکلتے تھے۔ یکے ٹانگے رکشہ والے بھی کسی نہ کسی پھیرے میں اس فقیر کو پیسہ دو پیسہ بھینٹ ضرور چڑھاتے تھے اور اس کا حال یہ تھا کہ آپ پیسہ دیجئے یا نہ دیجئے اس کی یہ رٹ ”ایک پیسہ بابا، ایک پیسہ بابا“ برابر جاری رہتی تھی۔ اس طرح جیسے کہ اس کی سانس اسی آواز کے ساتھ ساتھ آتی جاتی ہے اس طرح کہ دم توڑتا مریض ہر سانس میں کراہتا ہے۔
بہت سے لڑکے، بلکہ ماسٹر تک اسے پہونچا ہوا سمجھتے تھے ۔بڑا ہی اللہ والا، لوگ کہتے وہ دنیا کو چھوڑ چکا ہے اسے کسی چیز کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ تو بھیک اس لئے مانگتا ہے کہ اس طرح وہ اپنے کو دوسروں کی نظروں میں گراتا ہے۔ اس طرح اپنے کو گرانے سے اس کی روح اور بھی پاک صاف ہوتی ہے ۔ان ہی میں سے حمید بھی تھا۔ وہ بڑا سیدھا سادہ لڑکا تھا۔ جوبلی کی دسویں درجہ میں پڑھتا تھا اور اس کا راستہ اس پل کے نیچے سے تھا۔ وہ برابر ماں سے ضد کر کے فقیر بابا کے لئے پیسہ ہی نہیں طرح طرح کی چیزیں لاتا تھا۔ کبھی مٹھائی، کبھی پھل، کبھی شیرمالیں، کبھی مٹی کی پلیٹ میں پلاؤ، کبھی زردہ، آہستہ آہستہ یہ بات درجہ میں پھوٹ نکلتی۔ سبھوں نے مسکوٹ کی۔ یہ فقیر حمید کو خوب بے وقوف بنا رہا ہے۔ کچھ علاج ہونا چاہئے۔ طے ہوا کہ اسکول کے آس پاس رہنے والے طلباءہر وقت اس پر نگاہ رکھیں۔ کب سوتا ہے، کب جاگتا ہے، کب ہاتھ منہ دھوتا ہے۔ کب کھاتا پیتا ہے۔ جتنے پیسے روز کماتا ہے انہیں کیا کرتا ہے۔ اب کیا تھا، دو ہی چار دن میں رپورٹیں آنے لگیں، پھر کمیٹی، جلسے میں طے ہوا اس رنگے سیار کا بھانڈا پھوڑنا ہمارا فرض ہے۔
دوسرے ہی دن حمید سے کہا گیا تمہارا فقیر بابا جھوٹا، مکار بنا ہوا ہے۔ وہ بہت خفا ہوا لڑنے جھگڑنے لگا۔ کہا گیا ”اچھا!آج اسکول کے میچ بعد گھر نہ جاؤ، ہمارے ساتھ تماشا دیکھو، آٹھ دس لڑکے ایک ساتھ اس شام کو ریل کے پل کے پاس منڈلاتے رہے۔ مغرب کی اذان کے ساتھ فقیر کی رٹ میں کمی ہوئی۔ بس جب کوئی بھولا بھٹکا پل کے نیچے سے گزرتا تو وہ اپنی ہانک لگا دیتا۔ جیسے جیسے اندھیرا بڑھا، آواز لگانے کا فاصلہ بھی بڑھتا رہا۔ کوئی ساڑھے سات بجے تھے کہ بالائی والا آواز دیتا ہوا پل کے نیچے پہنچا۔ اس نے چار بڑی بڑی شیرمالیں اور پاؤ بھر بالائی فقیر بابا کو دی اور اس سے اس کے دام ہی نہیں لئے بلکہ دن کے جمع کئے ہوئے سارے پیسے نوٹوں میں بدل دیئے۔ جب وہ پل سے نکلا تو لڑکوں نے گھیرا۔
کہا” یہ روز اتنی ہی مالیں اور بالائی لیتا ہے؟“ حمید نے پوچھا ،اس نے جواب دیا ”میں یہ کچھ نہیں جانتا میاں، صبح دوشیر مالیں اور پاؤ بھر بالائی“
حمید غصہ میں بھرا ہوا فقیر کے پاس پہونچا۔ اس نے پوچھا،” شرم نہیں آتی تمہیں بابا؟ بھیک مانگتے ہو اور شیر مالیں اور بالائی اڑاتے ہو؟ “
فقیر نے جھڑک کر کہا ”جاؤ جاؤ، میرے دھندے پر منہ نہ آؤ، پاؤ سوا پاؤ بالائی روزانہ نہ کھاؤں تو یہ دن بھر ”ایک پیسہ! ایک پیسہ!“ کی ضربیں کیسے لگاؤں؟ “
حمید اس وقت تو پاؤں پٹکتا گھر چلا گیا مگر اس دن سے اس نے اپنے ساتھیوں کا جتھابنا کر ہر ایک آنے جانے والے سے کہنا شروع کردیا۔
”اس فقیر کو کچھ نہ دینا، یہ دوسرے بھکاریوں کا پیٹ کاٹتا ہے اور روزسوا پاؤ بالائی کھاتا ہے!“
ادھر چھوٹے بچوں نے نعرہ لگانا شروع کردیا ”بالائی کھانے والا فقیر! توند والا فقیر !“ لطف یہ کہ جتنا ہی فقیر بابا چڑھتا، خفا ہوتا اتنا ہی لڑکوں کو نعرہ لگانے میں مزہ آتا اور اتنا ہی اس کے بھکاری ساتھی کھی کھی کر کے ہنستے۔ خیرات کے نالے کا منہ اب ان کی طرف مڑ گیا تھا جو بادل صرف فقیر بابا کی گود میں برسا کرتے تھے وہ اب دوسروں کی جھولیوں میں جل تھل بنانے لگے تھے۔
چند ہی دنوں میں فقیر بابا کا دھندہ ٹھنڈا پڑنے لگا۔ اس نے ریل کا پل چھوڑ کر شاہ مینا کے مزار کے پاس جاکر فٹ پاتھ پر بسیرا کر لیا مگر وہاں درخت کی شاخوں کے سوا دھوپ، اوس یا پانی سے بچانے والی کوئی جھونپڑی نہ تھی۔ ایک رات دسمبر کی سردیوں میں بوندا باندھی کے ساتھ جب اولے بھی پڑے تو فقیر بابا کو کہیں پناہ نہ ملی۔ درخت کی شاخیں اسے ٹھنڈی گولیوں کی بوچھاڑ سے نہ بچا سکیں۔ صبح کو وہ اپنی گدڑی میں لپٹا ہوا پایا گیا۔
پولیس نے جب اس کے چیتھڑوں کی تلاشی لی تو ان میں آٹھ سو کے بڑے نوٹ اور پچاس روپوں کے چھوٹے نوٹ اور پیسے سے بندھے ملے۔ کون کہے کہ اگر ان روپوں سے کوئی جھونپڑی بنا کر وہ اس میں رہتا تو اس کی جان بچ جاتی۔
جس نے بھی اس کے موت کی ساتھ ساتھ اس کے پاس سے ملنے والی رقم کی بات سنی، اس کی حالت پر افسوس کیا۔
مگر حمید بار بار یہی سوچتا رہا”آخر حکومت ہر شہر میں ایسے گھر کیوں نہیں بنا سکتی جس میں سارے بھکاری رکھے جاسکیں اور جتنا ان کے دھوکوں اور ان کی بیماریوں سے محفوظ رہے؟“
تمہیں جو اس ملک کے ہونے والے حاکم ہو ۔
اس سوال کا جواب دینا ہے۔