skip to Main Content

بید کی کہانی

ڈاکٹر جمیل جالبی
۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ ایک تاریک برفانی اور خوفناک رات تھی۔شام کو گھِر کر بادل آئے۔دیکھتے ہی دیکھتے بارش شروع ہوگئی اور گرج چمک کے ساتھ اولے پڑنے لگے۔
تیز برفانی ہوائیں جسم کے پار ہوئی جاتی تھیں۔شام ہی سے سڑکیں سنسان ہو گئی تھیں۔دور دور تک نہ آدم نظر آتا تھا نہ آدم زاد۔ تیز ہوا سے پیڑ ہل رہے تھے،جن کی سائیں سائیں سے وحشت میں اور اضافہ ہوگیا تھا۔
میں نے شام ہی سے آتشدان میں آگ جلا دی اور لحاف میں گھس کر بیٹھ گیا۔”چھُن چھُن“ والے واقعے کے بعد سے ہمارا بوڑھا ملازم مظہر بابا میرے ساتھ کمرے میں سونے لگا تھا۔بابا ابھی عشاءکی نماز پڑھ رہا تھا کہ مجھے نیند آنے لگی۔میں نے کتاب بند کی،لحاف سر تک تان لیا اور سو گیا۔ابھی مجھے سوئے ہوئے چند گھنٹے گزرے ہوں گے کہ باہر سے کنڈی کھٹکھٹانے کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی۔پہلے میں یہ سمجھا کہ کنڈی شاید تیز ہوا سے ہل رہی ہے لیکن کچھ ہی دیر بعد مجھے لگا کہ جیسے باہر کوئی ہے اور زور زور سے کنڈی بجا رہا ہے۔پہلے رُک رُک کر اور پھر اس کے بعد جو اس نے زور زور سے کنڈی بجانی شروع کی تو معلوم ہوتا تھا کہ کنڈی چند جھٹکوں میں ہاتھ میں آجائے گی۔میں دم سادھے پڑا رہا۔خوف کے جال نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔بابا اٹھ کر بیٹھ گیا اور کھنکھارنے لگا۔پھر آواز دی:
”کون ہے؟“
بابا کی آواز کے ساتھ ہی کنڈی کی آواز بند ہو گئی۔ اور دروازے پر بید مارنے کی آواز آنے لگی۔ بابا اٹھا۔ دروازے کی طرف بڑھا، پھر آواز دی،”کون ہے؟“اور دروازہ کھول کر باہر جھانکا۔دروازہ کھلتے ہی تیزہوا زنّاٹے کے ساتھ اندر داخل ہو ئی۔ذرا سی دیر میں کمرہ ہوا سے بھر گیا۔پھر یہ ہوا کہ ایک چیختی چلاتی آواز کے ساتھ ہوا بگولے کی طرح سارے کمرے میں چکر کاٹنے لگی اور پھر ایک دم سے ایسے نکل گئی جیسے غبارے میں سے ہوا نکل جاتی ہے۔چند لمحوں کی ا س ہوا نے کمرے کی ہر چیز کو الٹ پلٹ کر دیا۔گلدان زمین پر گر پڑا۔دیوار پر لٹکی ہوئی تصویر دھڑام سے زمین پر آ گری۔ہوا کے نکلتے ہی مظہر بابا نے جلدی سے دروازہ بند کیا اور پھر آواز دی:
”کون ہے؟“
لیکن کوئی جواب نہیں آیا۔کچھ دیر بابا کھڑا رہا،پھرآ کر پلنگ پر لیٹ گیا۔مجھے آواز دی۔میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔اسی طرح چپ چاپ دم سادھے پڑا رہا۔پھر اس نے تین تالیاں بجائیں اور کچھ ہی دیر بعد خراٹے لینے لگا۔میں بہت دیر تک جاگتا رہا اور پھر نہ معلوم کب میری آنکھ لگ گئی۔اس واقعہ نے کچھ دن تک مجھے پریشان کیے رکھا۔بابا نے بتایا کہ یہ بد روحیں ہوتی ہیں جو ویران راتوں میں بستی والوں کو پریشان کرنے آ نکلتی ہیں ۔
اس واقعہ کے کوئی تین ہفتے بعد میں رات کو ہوسٹل سے گھر آرہا تھا۔عشاءکا وقت ہوگا۔سلیم احمد (میرے ہم جماعت،عزیز دوست،مشہور شاعر،ڈرامہ نگار اور نقاد) پھاٹک تک میرے ساتھ آئے۔پنواڑی کی دکان سے سگریٹ خریدا اور مجھے خدا حافظ کہہ کر واپس چلے گئے ۔میں سائیکل پر سوار ہوا اور گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔سڑک پر بجلی کے کھمبے روشن تھے،لیکن کُہر نے ان کی روشنی کو کم کر کے سائے کا سا احساس پیدا کر دیا تھا۔کبھی کبھار کوئی آدمی گزرتا تو سڑک کی ویرانی کم ہوجاتی اور جیسے ہی وہ نظروں سے اوجھل ہوتا،سڑک بھائیں بھائیں کرنے لگتی۔ابھی میں تھوڑی دور ہی گیا ہوں گا کہ میں نے دیکھا مجھ سے بیس پچیس گز کے فاصلے پر کوئی آدمی بید ہاتھ میں لئے میری طرف آ رہا ہے۔بیداورہاتھ تو مجھے صاف نظر آ رہے تھے،لیکن آدمی صاف نظر نہیں آرہا تھا۔میں سڑک پر بائیں طرف کو چل رہا تھا اور وہ بید اور ہاتھ اسی طرف سامنے سے آ رہا تھا۔میں نے سائیکل کو اور بائیں طرف کر دیا۔بید اور ہاتھ بھی اسی طرف کو ہو گئے۔میں گھبرا گیا اور سائیکل کو جلدی سے ہوسٹل کی طرف موڑ دیا۔ابھی میں مڑا ہی تھا کہ میں نے محسوس کیا کوئی کیریئر کو پکڑ کر سائیکل اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔میں نے آگے بڑھنے کے لیے زور لگایا،لیکن سائیکل ایک انچ آگے نہ بڑھ سکی اور میں دھڑسے مع سائیکل زمین پر گر پڑا۔چھن چھن چھن چھن کی آواز میرے کانوں میں آنے لگی۔یہ آواز سنتے ہی میں اتنی زور سے چیخا کے پاس کی کوٹھیوں سے کئی آدمی نکل آئے۔میں نیم مردہ حالت میں زمین پر پڑا تھا۔لوگوں نے مجھے اٹھایا اور حال دریافت کیا۔میں نے مری ہوئی آواز میں سارا حال بتایا،لیکن وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ان میں سے ایک نے مجھے پہچان لیا اور بتایا ”یہ تو خان صاحب کا بیٹا ہے۔“خوف سے میرا برا حال تھا۔وہ آدمی مجھے گھر تک پہنچا آئے۔میں ایک ہفتہ پلنگ پر پڑا رہا۔جھاڑ پھونک،تعویذ گنڈے،ڈاکٹر حکیم سب کچھ ہوا۔رفتہ رفتہ اس خوف کا اثر کسی حد تک کم ہوا۔اب میں نے مغرب کے بعد گھر سے نکلنا بالکل چھوڑ دیا تھا اور اگر جاتا بھی تھا تو کسی کو اپنے ساتھ لے کر جاتا تھا۔اندھیرے میں جاتے ہوئے مجھے ڈر لگتا تھا۔رات کو سوتے سوتے چونک پڑتا تھا۔چھن چھن کی آواز اکثر میرے کانوں میں گونجنے لگتی تھی۔
ایک دن صبح آٹھ بجے کلاس تھی۔ مجھے کچھ دیر ہو گئی تھی، اس لیے تیزی سے سائیکل پر جا رہا تھا۔ کالج کے احاطہ میں داخل ہو کر میں نے جلد پہنچنے کے خیال سے پگڈنڈی کا راستہ اختیار کرلیا۔ پیدل آنے جانے والے عام طور پر اسی راستے سے آتے جاتے تھے۔ بائیں طرف ایک املی کا بڑا سا درخت تھا۔ ابھی میں اس درخت سے کچھ فاصلے پر تھا کہ دھم سے ایک آدمی درخت پر سے کودا۔ اس کے جسم پر سے سر غائب تھا۔ وہی بید اس کے ہاتھ میں تھی۔ کچھ دور میرے آگے آگے چلا اور پھر غائب ہو گیا۔ میں نے وہیں سے سائیکل موڑ دی اور پکی سڑک پر آگیا۔ سائیکل اسٹینڈ پر سائیکل کھڑی کی اور سیدھا کلاس میں چلا گیا۔ میرا دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔ میں پسینے سے شرابور تھا اور دماغ بالکل کام نہیں کررہا تھا۔
اس واقعہ کے دو چار دن بعد کی بات ہے کہ میں کالج لائبریری کی کتابیں واپس کرنے اوپر کی منزل پر گیا۔ کاؤنٹر کے قریب کھڑا اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ ایک بہت ہی بھدی شکل کا لڑکا میرے پیچھے کھڑا ہے۔ دو کتابیں اس کے الٹے ہاتھ میں تھیں اور۔۔۔۔اور وہی بید اس کے سیدھے ہاتھ میں تھی۔ میں بید دیکھ کر ایک دم گھبرا گیا اور بغیر کتابیں واپس کیے جلدی سے نیچے آگیا۔پھر یہ حالت ہوگئی کہ میں اکیلا، نہ دن میں، نہ رات میں، کہیں نہ جاتا تھا۔کالج بھی ایک دوست کے ساتھ جاتا اور ایک کلاس سے دوسری کلاس میں جاتے ہوئے بھی کوئی نہ کوئی میرے ساتھ ہوتا۔ شام کا نکلنا بالکل بند ہو گیا۔ ایک خوف ہر وقت سائے کی طرح میرے ساتھ رہتا۔اس کے بعد پھر کوئی واقعہ میرے ساتھ پیش نہیں آیا اور دو سال گزر گئے۔اس عرصے میں میں اس واقعہ کو بڑی حد تک بھول چکا تھا۔ ایک دن رات کو دس بجے کے قریب میرے ہم جماعت اور عزیز دوست انور عالم صدیقی (میرے ہم جماعت،عزیز دوست، شاعر و تبصرہ نگار،جو راولپنڈی میں رہتے ہیں) آئے اور کہنے لگے،” رات زیادہ ہوگئی ہے سنیما سے آرہا ہوں۔ اگر اکیلا جاؤں گا تو والد صاحب ناراض ہوں گے۔ تم ساتھ چلو، یہ بہانہ بنائیں گے کہ میں تمہارے ہاں تھا اور ساتھ پڑھ رہا تھا۔“ ہم دونوں سائیکل پر بیٹھ کر چلے۔ انور کو اس کے گھر چھوڑا اور تھوڑی دیر بیٹھ کر واپس چلا آیا۔گھر کے قریب پہنچا تو پہلے ایک پہیّے کی ہوا نکل گئی اور پھر فوراً ہی دوسرے پہیے کی ہوا بھی نکل گئی۔ میں جلدی سے سائیکل پر سے اترا اور سائیکل کو ہاتھ میں پکڑ کر گھر کی طرف چلنے لگا۔میں نے محسوس کیا کہ کسی نے میری سائیکل کو مضبوطی سے پکڑ لیا ہے۔ میں نے اسے آگے بڑھانے کی بہت کوشش کی،مگر ناکام رہا۔کچھ دیر بعد مجھے اندازہ ہوا کہ اب سائیکل گرفت سے آزاد ہے اور آگے بڑھ سکتی ہے۔میں نے سائیکل کو جیسے ہی آگے بڑھایا اتنے میں کسی نے بید کی موٹھ میری گردن میں ڈال کر مجھے اپنی طرف کھینچنا شروع کر دیا ۔ میں زور زور سے چیخنے لگا۔میری چیخیں سن کر آس پاس کے لوگ باہر نکل آئے۔لوگوں کے آتے ہی بید میری گردن سے ہٹ گئی۔میں چکرا کر زمین پر گر پڑا۔لوگوں نے سہارا دے کر مجھے اٹھایا اور گھر تک پہنچا دیا۔اس دن کے بعد سے میں نے وہ کمرہ چھوڑ دیا۔اوپر کی منزل پر اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ رہنے لگا۔یہ وہ زمانہ تھا کہ پاکستان کا اعلان ہوچکا تھا اور ہندو مسلم فسادات کی آگ پورے ملک میں بھڑک رہی تھی۔
اگست ۷۴۹۱ءمیں میں پاکستان آگیا اور تقریباً دو سال بعد ۹۴۹۱ءمیں شاہد احمد دہلوی ایڈیٹر ساقی (میرے عزیز دوست اور بزرگ،مشہور ادیب اور ایڈیٹر ساقی جنہوں نے ۷۶۹۱ءمیں کراچی میں وفات پائی) سے میری ملاقات کراچی میں ہوئی اور رفتہ رفتہ میرے تعلقات ان سے اتنے بڑھے کہ یا تو وہ روزانہ میرے ہاں آتے یا میں ان کے ہاں جاتا۔ہم دونوں ایک دوسرے سے تھوڑے سے فاصلے پر پیر الٰہی بخش کالونی کراچی میں رہتے تھے۔شاہد احمد دہلوی کے دو محبوب مشغلے تھے۔ایک ادب اور دوسرا موسیقی۔مہینے میں ایک آدھ بار ان کے ہاں گانے کی بڑی محفل جمتی تھی۔ہفتہ کا دن تھا اور شاہد صاحب کے ہاں استاد چاند خان (شاہد احمد دہلوی کے استاد۔مشہور موسیقار) کے اعزاز میں دعوت تھی اور اس کے بعد گانا بجانا۔رات کے تین بجے کے قریب محفل ختم ہوئی اور ہم سب لوگ رخصت ہو کر گھر سے باہر آئے،تو ان کے گھر کے سامنے برگد کے بہت بڑے اور پرانے درخت پر لاکھوں کی تعداد میں جگنو چمک رہے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر سب بہت خوش ہوئے۔دوسرے دن شام کو جب میں شاہد صاحب کے ہاں گیا، تو میں نے دیکھا کہ برگد کا سارا پیڑ جل کر کوئلہ بن گیا ہے اور صرف تنا اور چند لُنڈ مُنڈ شاخیں باقی رہ گئی ہیں۔شاہد احمد دہلوی نے بتایا کہ ہمیں تو معلوم ہی نہیں ہوا کہ اس درخت میں آگ کب اور کیسے لگی اور کیسے بجھی۔ صبح کو جب ہم سو کر اٹھے اور گھروں سے باہر نکلے،تو درخت کوئلہ بنا کھڑا تھا۔برسوں اس درخت کی یہی حالت رہی۔پھر یہ دوبارہ پھوٹا اور پہلے برگد کے مقابلے میں دسواں حصہ آج بھی شاہد احمد دہلوی کے گھر کے سامنے موجود ہے،جس کے سائے میں اکثر لوگ گرمیوں کی دوپہر میں پلنگ ڈال کر سوئے یا لیٹے رہتے ہیں۔ایک دن دوپہر کے وقت میں شاہد صاحب کے گھر سے واپس آ رہا تھا کہ دیکھا اسی برگد پر ایک آدمی پیر لٹکائے بیٹھا ہے۔سر اٹھا کر اوپر دیکھا تو جسم سے سر غائب تھا اور۔۔۔۔اور میری حیرت کی کوئی انتہا نہیں رہی کہ وہی بید برابر کی شاخ پر لٹکی ہوئی تھی۔میں جلدی سے شاہد صاحب کے گھر واپس آیا اور شاہد صاحب کو کھڑکی میں سے بغیر سرکے آدمی اور لٹکی ہوئی بید کو دکھایا۔ وہ پیر لٹکائے اسی طرح بیٹھا تھا۔اسے دیکھ کر شاہد صاحب بھی خوف زدہ ہوگئے۔ پھر ہم دونوں باہر آئے، لیکن وہاں نہ وہ آدمی تھا اور نہ بید۔ شاہد صاحب نے اس واقعہ کا ذکر اپنے بیوی بچوں سے اس لیے نہیں کیا کہ وہ گھر سے نکلتے ہوئے ڈرنے لگیں گے اور اشرف صبوحی صاحب کے بھائی وصی اشرف صاحب سے سارے گھر کو کِلوا دیا۔(آیات پڑھ کر کچھ کیلیں لگا دی جاتی ہیں تاکہ گھر بدروحوں سے محفوظ رہے)
ایک دن شاہد صاحب نے بتایا کہ رات کو تین بجے کے قریب اس درخت سے عجیب وغریب ڈراؤنی آوازیں آتی رہیں ،جیسے کوئی کسی کا گلا گھونٹ رہا ہوں۔جیسے دو آدمی ایک دوسرے کو قتل کرنا چاہتے ہوں۔ایک بھاگ دوڑ سی سارے درخت پر ہوتی رہی ہے۔سارا درخت چرچراتا رہا ہے۔ان آوازوں کو سن کر محلے والے گھروں سے باہر نکل آئے۔چاروں طرف اندھیرا تھا۔گلیوں میں روشنی نہیں تھی۔اماﺅس کی رات (چاند کے مہینے کی آخری رات۔ سیاہ رات) تھی۔ ٹارچ سے درخت پر روشنی ڈالی، لیکن درخت اسی طرح چرچراتا رہا۔اسی طرح آوازیں آتی رہیں،لیکن نظر کچھ نہ آیا۔ کچھ دیر بعد وہ آوازیں بند ہو گئیں۔اس واقعہ نے سارے محلے کو دہشت زدہ کر دیا۔
اس واقعہ کے کئی سال بعد میں کھانا کھا کر ٹہلنے کے لیے نکلا۔اب میں اپنے بھائی ڈاکٹر عقیل کے ساتھ شمالی ناظم آباد میں رہتا تھا۔ ٹہلتے ٹہلتے پل کے پاس پہنچا اور وہاں سے اقبال ٹاؤن جانے والی سڑک کے فٹ پاتھ پر ہو لیا۔ کچھ دور چلا ہوں گا کہ ایک پتھر میرے سامنے آ کر گرا۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو وہاں کوئی بھی نہ تھا۔میں سمجھا کہ کسی بچے نے پتھر پھینکا ہوگا جو اتفاق سے یہاں آکر گرا ہے ۔ ابھی میں دو چار قدم ہی چلا ہوںگا کہ ایک اور پتھر پہلے سے بھی زیادہ قریب میرے سامنے آ کر گرا۔میں نے پھر مڑ کر دیکھا۔مجھے دائیں بائیں آگے پیچھے کوئی نظر نہیں آیا۔میں پھر آگے بڑھا۔اب ایک پتھر اور آکر گرا۔اس کے بعد پتھر آنے کی رفتار بڑھ گئی۔میں تیزی سے آگے کی طرف بھاگا۔پتھر پیچھے کی طرف سے آرہے تھے۔چند سو گز چلنے کے بعد بائیں طرف کی سڑک پر مڑ گیا جس پر ابن انشائ(مشہور کالم نویس، مزاح نگار و شاعر جو ۸۷۹۱ءمیں وفات پاگئے) رہتے ہیں۔ان کے گھر پہنچا۔دروازے کو دستک دی کہ اتنے میں ایک اور پتھر میرے قریب آ کر گرا اور پھر جتنی دیر میں ان کے گھر میں سے کوئی آکر دیکھتا کہ کون آیا ہے، پتھر میرے قریب آ آ کر گرتے رہے۔اتنے میں دروازہ کھلا اور ابن انشاءباہر نکلے اور مجھے اندر لے گئے۔بہت دیر ان سے باتیں کرتا رہا اور پھر جب وہ مجھے چھوڑنے دروازے پر آئے،تو میں نے ان سے کہا کہ بھائی انشاءذرا پل تک میرے ساتھ چلیے۔ ابن انشاءپل تک میرے ساتھ آئے اور پھر خدا حافظ کہہ کر واپس چلے گئے ۔میں بڑی سڑک سے چل کر اپنے گھر واپس آگیا۔ دو تین دن کے بعد اخباروں میں پڑھا کہ کئی رات سے ابن انشاءکے گھر پتھر آرہے ہیں۔پولیس کی ساری کوششیں ناکام ہوگئی ہیں۔ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ پتھر کون پھینک رہا ہے۔پتھر کہاں سے آرہے ہیں اور کیوں آرہے ہیں۔تقریباً ایک ہفتے تک اخباروں میں اس عجیب و غریب حیرت ناک واقعہ کا چرچا رہا اور پتھر اسی طرح مسلسل آتے رہے،پھر خود ہی اچانک بند ہو گئے۔ اس واقعہ سے ابن انشاءکے دل پر کیا گزری،وہ جانتے ہوں گے،میں خاصا پریشان ہوا۔
تین سال پہلے کی بات ہے۔میں اور میری بیوی رات کو بارہ بجے کے قریب سنیما سے واپس ہوئے۔بھوک سخت لگی ہوئی تھی۔سوچا کہ کھانا باہر ہی کھا لیا جائے۔بندر روڈ کراچی پر ہوٹل شیراز گئے جو رات کے دو بجے تک کھلا رہتا ہے اور کار میں بیٹھے بیٹھے ہی کھانا کھانے لگے۔کھانے کے دوران فقیر پر فقیر آتے رہے۔ابھی ہم ہاتھ دھو رہے تھے کہ ایک آدمی،جو سامنے کی دکان کی سیڑھیوں پر گردن جھکائے خاموش بیٹھا تھا،ہمارے پاس آیا اور میری بیوی سے مخاطب ہو کر کہنے لگا:
”بیگم صاحب! میں بہت غریب آدمی ہوں۔فقیر نہیں ہوں حالات کا مارا ہوا ہوں۔میں بھیک نہیں مانگتا۔آپ مجھ سے یہ خرید لیجئے۔“ یہ کہہ کر اس نے بید میری بیوی کی طرف بڑھا دی۔میں نے بید دیکھی تو سناٹے میں آگیا۔میں نے بیوی سے کہا کہ اسے دس روپے دے د و۔بیوی نے مجھے گھور کر دیکھا۔میں نے پھر اصرار کیا کہ اسے دس روپے دے دو۔جلدی سے۔بیوی نے اسے دس روپے دے دیے اور بید کو پیچھے کی سیٹ پر ڈال دیا۔بل ادا کرکے ہم فوراً وہاں سے چل دیے ۔مجھے ہر دم یہ خیال ستا رہا تھا کہ یہ بید پھر کہیں اور کوئی نئی مصیبت نہ لائے۔کہیں انگڑائی لے کر جاگ نہ جائے اور ہم پر حملہ نہ کر دے۔راستے میں میری بیوی مجھ سے سوال پر سوال کرتی رہیں۔میں نے جھنجھلا کر صرف اتنا کہا،”خدا کے واسطے چپ ہو جاؤ۔میں گھر چل کر بتاؤں گا ۔“گزشتہ پچیس سال کے واقعات ایک ایک کرکے میرے سامنے آرہے تھے اور خوف مجھے اپنی لپیٹ میں لے کر پسینے کی شکل میں پیشانی سے بہہ رہا تھا ۔
اس کے بعد پھر کوئی واقعہ میرے ساتھ پیش نہیں آیا۔وہ بید آج بھی میرے پاس محفوظ ہے لیکن اسے استعمال کرنے کی میں نے آج تک ہمت نہیں کی ہے۔ایک بڑے صندوق میں لحافوں کے نیچے برسوں سے دبی پڑی ہے۔اب ”بھیّا “بھی اس دنیا میں نہیں ہیں کہ یہ بید میں ان کو واپس کردوں کہ ان کے باپ کی نشانی تھی اور جو مرتے دم تک چچا میاں سے اس بید کے کھو جانے کی وجہ سے ناراض رہے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top