باغ کا ایماندار رکھوالا
طالب ہاشمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھٹی صدی عیسوی میں حضرت ابو یعقوب ؒ بڑے نیک اور پرہیز گار بزرگ گزرے ہیں۔ان کا تعلق تو ایک شاہی خاندان سے تھا لیکن انہوں نے دنیاوی مال و دولت اور شان و شوکت کو چھوڑ کر فقیری اختیاکر لی تھی اور اپنا زیادہ وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت اور مخلوق ِخدا کی خدمت میں گزارتے تھے۔
ایک دفعہ وہ دمشق گئے۔ وہاں کچھ ایسے حالات پیش آ ئے کہ وہ سخت تنگ دست ہو گئے اور کھانے پینے کے لئے بھی ان کے پاس کچھ نہ رہالیکن انہوں نے کسی کے سامنے ہاتھ پھیلاناگوار نہ کیااور شاہی باغ میں درختوں اور پھلوں کے رکھوالے کی نوکری اختیار کرلی۔پھل پک جاتے تو شام کو ہی ملازم انہیں اتار کر لے جاتے۔حضرت یعقوب ؒ نے کبھی کسی پھل کو ہاتھ تک نہ لگایا۔ یہاں تک کہ انہوں نے کبھی گرے پڑے پھلوں کو بھی نہیں چھوا۔
کوئی چھ ماہ بعد اس وقت کا حکمران سلطان نورالدین محمود زنگی ؒ ایک دن باغ کی سیر کے لئے آیا۔شاہی باغوں کا افسر بھی اس کے ساتھ تھا۔اس نے حضرت ابو یعقوب کو حکم دیا کہ سلطان کے لئے ایک میٹھا انار لاﺅ۔حضرت ابو یعقوب ؒ ایک پکا ہوا انار لے آئے۔سلطان نے اسے چکھا تووہ کھٹا نکلا۔سلطان نے اسے پھینک دیا۔افسر نے حضرت یعقوبؒ سے کہا”کوئی اور انار لاﺅ“۔وہ دوسرا انار لائے تو وہ بھی کھٹا نکلا۔اس پر باغ کے افسر کو بڑا غصہ آیا۔وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک شخص جو چھ مہینے سے باغ کی رکھوالی کر رہا ہے۔اسے یہ بھی معلوم نہ ہو کہ کون سے درخت کا پھل میٹھا ہے اور کون سے درخت کا کھٹا۔اس نے بڑے غصے کے ساتھ حضرت یعقوبؒ سے کہا”تم چھ مہینے سے اس باغ کے رکھوالے کی نوکری کر رہے ہو اور تمہیں اس کام کے لئے باقاعدہ تنخواہ دی جاتی ہے۔لیکن تمہیں اب تک یہ بھی معلوم نہیں کہ کون سے درخت کا پھل میٹھا ہے اور کون سے درخت کا کھٹا۔“
حضرت یعقوبؒ نے جواب دیا:
”مجھے آپ نے باغ کی حفاظت اور رکھوالی کے لئے ملازم رکھا ہے ۔پھل کھانے یا چکھنے کے لئے نہیں ،جو کام میرے ذمہ ہے اس کے کرنے میں کبھی کوئی سستی نہیں کی۔ باقی رہے پھل تو میں نے کبھی کوئی پھل نہ چکھا ہے اور نہ کھایاہے۔“
سلطان نے حضرت ابو یعقوبؒ کا جواب سنا تو وہ ان کی پرہیزگاری دیکھ کر حیران رہ گیا۔وہ خود بھی بڑا نیک اور اللہ سے ڈرنے والا بادشاہ تھا۔اس نے حضرت یعقوب ؒ سے پوچھا ،آپ کا نام کیا ہے اور آپ کہاں کے رہنے والے ہیں؟حضرت یعقوب ؒ نے اپنا نام بتایا اور پتہ بتایا تو سلطان چونک پڑا ۔اس نے ان کا نام اور پرہیز گاری کا حال سن رکھا تھا۔اب جو انہیں اپنے سامنے پایا تو انکے ہاتھ چومے اور بڑی عزت کے ساتھ اپنے ساتھ بٹھایااور جاتے ہوئے اپنے ساتھ لے گیا۔کئی دن تک انہیں اپنے پاس رکھا اور ہر طرح سے ان کی خدمت کرتا رہا۔حضرت یعقوب ؒ نے بھی سلطان کو اچھی اچھی نصیحتیں کیں اور پھر سلطان کو دعائیں دیتے ہوئے اس سے رخصت ہو کر اپنے وطن تشریف لے گئے۔