بدلہ
خدیجہ مستور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ دوسری جنگ عظیم کی بات ہے، اس وقت میں بھی ذرا بڑی قسم کی بچی تھی۔ مغرور اور اپنے آپ میں مگن رہنے والی۔ انھیں دنوں میں کان پور اپنے ایک چچا کے گھر جار ہی تھی۔ اس سفر کے لیے میں نے اپنا جیب خرچ جمع کیا تھا اور بڑے ٹھاٹ سے سیکنڈ کلاس میں سفر کر رہی تھی۔اس کلاس میں میری ایک رشتے دار کے علاوہ سات آٹھ مسافر اور تھے ،مگر بڑا سکون اور آرام محسوس ہو رہا تھا۔ جی چاہتا کہ اوپر کی سیٹ پر خوب پھیل پھیل کربیٹھوں، ہاں بھئی پیسے جو خرچ کیے تھے۔ ویسے تو ہمیشہ تھر ڈ کلاس یا زیادہ سے زیادہ انٹر کلاس میں سفر کرنا پڑتا۔
خیر بھئی ،لیٹنے کا خیال چھوڑ کر میں کھڑکی سے لگی باہر دیکھتی رہی۔ ان دنوں لوگوں نے کسی قدر سفر کرنا شروع کر دیا تھا ورنہ جنگ سے کچھ دن پہلے تک یہ حال تھا کہ انٹر کلاس میں الو بولتا یا پھر اکا دکا مسافر ہوتا جو دن دہاڑے ٹھاٹ سے لیٹا خراٹے لیتا رہتا، پر ان دنوں تو جب گاڑی چھوٹے موٹے پلیٹ فارموں پر بھی کھڑی ہوتی تو جیسے بھگڈر مچ جاتی۔ عورتیں گٹھڑیاں اور بچے اٹھا ئے پاگلوں کی طرح گاڑی پر جھپٹ پڑتیں۔ان کے ساتھ کے آدمی ایسے ہونق لگتے کہ دیکھ کر قہقہے لگانے کو جی چاہتا۔
جب عورتیں سیکنڈ کلاس میں چڑ ھنے کی کوشش کرتیں تو سب سے پہلے میں دروازے کے پاس راستہ روک کر کھڑی ہو جاتی۔”یہ سیکنڈ کلاس ہے ، دکھائی نہیں دیتا ؟ ادھر جاؤ تھرڈ کلاس میں۔“ میری بات سنتے ہی وہ پھر منہ اٹھا کر بھاگنا شروع کر دیتیں۔ سیکنڈ کلاس کا نام سنتے ہی ان پر ایسا رعب طاری ہوتا کہ میرا جی خوش ہو جاتا اور بڑائی کا اتنا احساس ہوتا کہ بس کچھ نہ پوچھو۔ ایک چھوٹے سے اسٹیشن پر گاڑی رکی تو ایک بڑھیا اپنی گٹھڑ ی اٹھائے میری کلاس میں گھس آئی۔ میں نے لاکھ روکا مگر اس نے نہ سنی۔
” پھر کیا ہوا بیٹا ! اللہ نے سب کو ایک جیسا بنایا ہے۔ میں اس کلاس میں بیٹھ جاؤں گی تو کون سی چھوت لگ جائے گی۔“
اس نے اُلٹا مجھے سمجھا نا شروع کر دیا، اور اپنی گٹھڑی غسل خانے کے دروازے کے پاس رکھ، مزے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔
”ارے مائی! ٹکٹ چیکر آکر اتار دے گا، یہ سیکنڈ کلاس ہے۔“ ایک عورت نے نرمی سے کہا۔ مگر باقیوں نے دھیان بھی نہ دیا۔ بُڑھیا نے جواب دینے کی ضرورت ہی نہ سمجھی۔
ادھر گاڑی نے سیٹی دی اور ادھر میرا غصے سے بُرا حال ہوا ،میں نے تو اپنا جیب خرچ بچا بچا کر اپنی ان عزیز دار کے ساتھ سیکنڈ کلاس کا ٹکٹ خریدا تھا اور بڑی بی صاحبہ کیا مزے میں ،پیسے خرچ کیے بغیر سیکنڈ کلاس میں سفر کر رہی تھیں۔وہ کم بخت کانٹے کی طرح میرے دل میں چبھنے لگی۔
اگلے اسٹیشن پر گاڑی رکی تو میں پوری گردن کھڑکی سے باہر نکال کر جھانکنے لگی کہ کہیں ٹکٹ چیکر نظر آجائے، تو بُڑھیا کو مزا چکھوا دوں۔مگر جناب وہ کم بخت تو جیسے کہیں افیون کھا کر سو گیا تھا۔ ادھر بُڑھیا گاڑی کے جھٹکوں کے ساتھ ہل ہل کر آرام سے اونگھ رہی تھی۔
”ادھرسَر کو، مجھے غسل خانے میں جانا ہے ، میں نے رعب سے کہا۔وہ اپنی گٹھڑ ی ہٹا کرایک طرف سرک گئی مگر جانے منہ ہی منہ میںکیا کہتی رہی۔ ایک بھی لفظ سمجھ میں نہ آیا۔
اس کے بعد تو مجھے ترکیب سوجھ گئی۔ بس ہر پندرہ بیس منٹ کے بعد غسل خانے کی طرف منہ اٹھ جاتا۔اور بڑھیا سرک سرک کر عاجز آگئی۔
ایک بار جو میں اندر جانے لگی تو بُڑھیا نے جانے کیسی نظروں سے میری طرف دیکھا:
” کیوں تنگ کرتی ہو بیٹا ؟ ہم تو ادھر نیچے ایک کونے میں پڑے ہیں۔ یہ گاڑی تمہاری ہے نہ ہماری، سب کو اتر جانا ہے۔“
” واہ، ہمارے پیٹ میں درد ہو رہاہے۔“
میں اندر چلی گئی، مگر جب باہر نکلنے کے لیے دروازہ کھولا تو بڑھیا وہیں لیٹ کر سو گئی تھی۔میں نے پہلے تو اسے جگانے کی کوشش کی ، مگر جب نہ اٹھی تو اسے پھاند کرباہر آگئی ۔پھاند نے میں اس کا ایک ہاتھ میری چپل کے نیچے آگیا۔
” تم غریب ہوتیں تو پتہ چلتا ،اللہ کرے تم بھی ایک بار اسی طرح گاڑی میں سفر کرو۔“ اس نے بڑی زخمی نظروں سے میری طرف دیکھا، میں جانے کیوں ڈر سی گئی۔
” ہوش میں رہ بُڑھیا ، ذرا سا لڑکی کا پاؤں لگ گیا تو باتیں بناتی ہے۔ ایک تو اس نے بیٹھے رہنے دیا۔ اس پر اتنا اونچا دماغ دکھاتی ہے۔ حد ہے بھئی۔“ میری عزیز دار زور سے غرائیں۔
” نیکی کا زمانہ نہیں ، ابھی ہاتھ پکڑ کر نیچے اتار دیں تو پتہ چلے۔“ ایک عورت نے بُرا سا منہ بنا کر کہا۔ غصہ تو مجھے بھی آرہا تھا مگر کچھ کہا نہ گیا۔
بُڑھیا نے کسی کو جواب نہ دیا، ایسی مست ہو کے بیٹھی جیسے کچھ سنا ہی نہ ہو۔ اس کے بعدجو اسٹیشن آیا تو بُڑھیا اتر گئی۔
ایک اسٹیشن کے بعد ہماری منزل بھی آگئی۔میں بڑھیا کو بھول گئی۔
چاچا جی اسٹیشن پر موجود تھے اور انٹر کلاس کے ہجوم میں مجھے تلاش کر رہے تھے۔ میں نے بڑی مشکل سے آواز یں دے دے کر انھیں اپنی طرف متوجہ کیا اور بڑے ٹھاٹ سے سیکنڈ کلاس سے اتر کر ان سے ملی۔
اس واقعہ کو کئی سال گزرگئے۔ پاکستان بنا اور ہم لوگ بحری جہاز سے کراچی آگئے۔ تین چاردن وہاں ٹھہرے اور پھر لاہور روانہ ہو گئے۔ نیا نیا پاکستان بنا تھا۔ بس یوں سمجھو کہ کسی چیز کا ٹھور نہ تھا۔ہم لوگ بڑی مشکل سے جس ٹرین میں جگہ حاصل کر سکے ، اس میں تِل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ اس پر مسافر بے لگام ہو رہے تھے۔انھیں کوئی اصول یاد نہ تھا۔
ہم لوگ بڑی مشکل سے جب اپنے ڈبے میں پہنچے تو بیٹھنے کے لیے کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ بڑی کوشش سے تھوڑی سی جگہ حاصل کی، وہاں ! اماں کو بٹھا کر ہم سب بہنیں ایک طرف کھڑی ہو گئیں۔غسل خانے کے قریب سامان کا انبار لگا ہوا تھا۔
جب میں تھک گئی تو ایک ٹرنک کھینچ کر وہیں غسل خانے کے پاس بیٹھ گئی۔ اس پر غضب یہ کہ رات کو جانے کیا گڑ بڑ ہوئی جو ٹرین کی روشنی بھی غائب۔
رات غسل خانے میں جانے والوں کا تانتا بندھ گیا ، مارے دھکوں کے میرا بُرا حال ہو گیا۔ایک بار تو میں چیخ پڑی:
” ذرا آرام سے جائیے دھکے تونہ مارئیے۔ “
”واہ، پھر ہوائی جہاز سے سفر کیا ہوتا۔ بڑی نازک مزاج ہیں بے چاری۔“
اور جب کوئی اس اندھیرے گھپ میں غسل خانے سے نکل رہا تھا تو میرا پاؤں اس کی چپل کے نیچے پچّی ہو گیا۔ میں درد سے بلبلا اٹھی۔ فوراً مجھے وہ بُڑھیا یاد آگئی۔
کئی سال گزرنے کے بعدبھی اس بُڑھیا کی بد دعا نے میرا پیچھا نہ چھوڑا تھا۔
٭٭٭٭