بدہضمی
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
”کیا ہوا نوید تم نے کھانا نہیں کھایا؟“
ڈاکٹر خورشید نے رات کے کھانے کے بعد ہاتھ دھوتے ہوئے پوچھا۔
”بھائی جان، مجھے تو بھوک ہی نہیں لگ رہی، بلکہ بدہضمی ہوگئی ہے۔ پیٹ بھاری بھاری لگ رہا ہے اور پیٹ میں شدید جلن ہو رہی ہے۔“ نوید نے منہ بسورتے ہوئے جواب دیا۔
”آؤ میرے کمرے میں۔“ ڈاکٹر خورشید یہ کہتے ہوئے اپنے کمرے میں چلے گئے۔ نوید بھی سُست قدموں کے ساتھ ڈاکٹر خورشید کے کمرے کی طرف چلا گیا۔
”بیٹھو، اور ذرا تفصیل سے بتاؤ کہ مسئلہ کیا ہے؟ امی بتا رہی تھیں کہ تم کل رات بھر نہیں سوئے۔ کیا کرتے رہے رات بھر؟“ ڈاکٹر خورشید نے اپنی کرسی پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
”میں تو رات بھر امتحان کی تیاری کرتا رہا۔“ نوید نے جلدی سے وضاحت کی۔
”امتحان؟ مگر اس میں تو ابھی شاید دو مہینے باقی ہیں۔“ ڈاکٹر خورشید نے کیلنڈر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”جی ہاں دو مہینے سات دن۔“ نوید نے بتایا۔
”او ہو، تم تو دنوں اور شاید گھنٹوں اور سیکنڈوں کا بھی حساب لگائے بیٹھے ہو۔ تمھاری بد ہضمی اور پیٹ کی دوسری شکایات کی وجہ بڑی حد تک میری سمجھ میں آ گئی ہے۔“
”وہ کیا بھائی جان؟“ نوید نے بے تابی سے پوچھا۔
”ا بھی بتا تا ہوں۔ پہلے یہ بتاؤ کہ امتحان کی تیاری کے علاوہ اور کون کون سی فکریں تمھیں پریشان کر رہی ہیں؟ سچ سچ بتانا، کچھ چھپانے کی ضرورت نہیں۔“
”فکریں۔۔۔۔؟ وہ۔۔۔۔ ہاں۔۔۔ مگر۔۔۔!“نوید کچھ کہتے کہتے رک گیا۔
”گھبراؤ مت، صرف مجھے بتا دو۔“ڈاکٹر خورشید نے تسلی دی۔
”بھائی جان، ایک تو احسن سے میری لڑائی ہو گئی ہے۔ احسن میرا بہت گہرا دوست ہے بلکہ تھا، لیکن اس کی غلطی سے میرا جیومیٹری بکس کھو گیا۔ اُس نے مجھ سے لیا اور پھر اُس نے بے پروائی سے بس میں چھوڑ دیا۔ وہ کوئی لے گیا۔ اس پر ہم دونوں میں گرما گرمی ہو گئی۔۔۔ دوسرے، پچھلے دنوں اسکول میں امتحانات ہوئے تھے، اُن کا نتیجہ پرسوں سنایا جائے گا۔ میرے کچھ پرچے اچھے نہیں ہوئے تھے۔ میرے نمبر ہمیشہ اچھے آتے ہیں مگر اس بارلڑ کے میرا مذاق اڑائیں گے۔“
”ہوں۔۔۔!‘ ڈاکٹر خورشید نے طویل سانس لی۔”میں بالکل سمجھ گیا۔ تمھاری تکالیف کا صرف ایک سبب ہے اور وہ ہے فکر و تشویش۔“
”لیکن بھائی جان، تکلیف تو مجھے پیٹ میں ہے۔“نوید نے احتجاج کیا۔
”یہی تو بات سمجھنے کی ہے۔ جب فکر اور پریشانی ہوتی ہے تو اس کا فوری اثر آپ کے معدے پر پڑتا ہے۔ بد ہضمی کے پچھتر (75) فی صد مریضوں کو یہ شکایت فکرو پریشانی کی وجہ سے ہوتی ہے۔“
”میں سمجھ نہیں سکا، مجھے ذرا تفصیل سے بتائیے۔“
”دیکھو، اللہ تعالیٰ نے ہمارا جسمانی نظام بڑی خوبی سے بنایا ہے۔ اس میں بہت سے عمل خود کار طریقے سے ہوتے رہتے ہیں۔ اگر فطری انداز سے زندگی گزاری جائے تو یہ عمل معمول کے مطابق جاری رہتے ہیں لیکن اگر معمول سے زیادہ کام کیا جائے، آرام کے وقت ضرورت بھر آرام نہ کیا جائے، کھانے کے وقت کھانا نہ کھایا جائے اور جب کھایا جائے تو پیٹ کو نقصان پہنچانے والی چیزیں جلدی جلدی کھالی جائیں اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ زمانے بھر کی فکروں کو اپنے ذہن پر سوار کر لیا جائے تو جسم میں ہونے والے معمول کے افعال یا تو رک جاتے ہیں یا سست ہو جاتے ہیں یا معمول سے تیز رفتار سے کام شروع کر دیتے ہیں۔ ہر صورت میں ہمیں اس کا نقصان ہوتا ہے، پھر ہم ہائے ہائے کرتے ہوئے ڈاکٹرکے پاس پہنچ جاتے ہیں۔“
”مگر بھائی جان، میں تو دن میں سو بھی لیتا ہوں۔“ نوید نے کہا۔
”ذرا ٹھہر جاؤ تم نے ابھی خود تسلیم کیا ہے کہ تمھیں آج کل کئی فکروں نے پریشان کر رکھا ہے۔ گزشتہ امتحانات میں تمھارے پرچے خراب ہو گئے، ان کا خراب نتیجہ آنے کی فکر ہے، اسی وجہ سے تم چاہتے ہو کہ دو ماہ بعد ہونے والے سالانہ امتحانات میں تمھارے نمبر بہت اچھے آئیں چنانچہ تم رات بھر پڑھ رہے ہو۔ پھر تمھارے عزیز دوست احسن سے تمھاری بات چیت بند ہو گئی ہے، اس نے تمھارا جیومٹری باکس کھو دیا، اس کی الگ فکر ہے۔ مجھے یقین ہے آج کل تمھارے سر میں بھی در درہتا ہوگا۔“
”ہاں۔۔۔اکثر۔“نوید نے اعتراف کیا۔
”فکر اور پریشانی سے ہاضمے کا عمل شدید متاثر ہوتا ہے۔ مجھے یقین ہے تم رات کو جاگتے رہنے کے لیے چائے کی کئی پیالیاں پی جاتے ہو گے۔“
”جی۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ تین یا چار پیالیاں۔“ نوید نے سر جھکا لیا۔
”صرف چائے خالی پیٹ پیتے رہتے ہو؟“
”میں نے بیکری سے کچھ میٹھے بسکٹ لا کر رکھ لیے تھے۔“ نوید نے جلدی سے وضاحت کی۔
”لیجیے۔ پیٹ خراب کرنے اور معدے کو ہڑتال پر آمادہ کرنے کے سارے انتظام تو تم نے کر ڈالے۔ اب بھی اگر پیٹ خراب نہ ہو گا تو کب ہو گا؟“ڈاکٹر خورشید مُسکرا کر بولے۔
”کیا مطلب؟“نوید کا چہرہ سوالیہ نشان بن گیا۔
دیکھو۔ ایک تو بات میں نے تمھیں بتا دی تھی کہ زیادہ فکر اور پریشانی سے جسم کے افعال متاثر ہوتے ہیں۔ معدہ فوراً اس کا اثر لیتا ہے۔ عام حالات میں ہوتا یہ ہے کہ ہم غذا کھاتے ہیں اور معدہ معمول کے مطابق اس کو ہضم کرنے کے لیے تیزابی رطوبتیں پیدا کرنا شروع کر دیتا ہے بلکہ اگر غذا خوش ذائقہ اور خوش گوار ہے تو جس طرح اسے دیکھتے ہی منہ میں پانی آ جاتا ہے، اسی طرح معدے میں بھی اسی وقت پانی آ جاتا ہے۔ یہ پانی در اصل معدے کی ہاضم رطوبتیں ہوتی ہیں، یعنی معدہ پہلے ہی، آنے والی غذا کو ہضم کرنے کے انتظامات شروع کر دیتا ہے، لیکن اگر فکر اور پریشانی ہو، غصہ آ رہا ہو، کوئی صدمہ پہنچا ہو یا غذا خوش ذائقہ نہ ہو تو معدہ اپنا کام ٹھیک طرح نہیں کرتا۔ عام حالات میں غذا معدے میں پہنچتی ہے تو معدہ اس میں ہاضم رطوبتیں شامل کر کے، خود حرکت کرنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ عمل بالکل اسی طرح ہوتا ہے جیسے چکی کے دو پاٹوں کے درمیان کوئی چیز پیسی جاتی ہے لیکن اگر انسان پریشان ہو تو معدہ حرکت کرنا بند کر دیتا ہے اور تن کر اکڑ جاتا ہے جس سے تیزاب کی پیدائش بڑھ جاتی ہے۔ اس کا اثر اس مقام پر پڑتا ہے جہاں معدہ سے غذا چھوٹی آنت میں داخل ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ غذا معدے ہی میں رہ جاتی ہے اور تیزابی رطوبتیں خود معدے کو اور چھوٹی آنت اور معدے کے درمیانی مقام کو نقصان پہنچانا شروع کر دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تم بد ہضمی، پیٹ بھاری ہونے اور پیٹ میں جلن کی شکایت کر رہے ہو۔“
”اچھا، یہ وجہ ہے۔“ نوید نے سوچتے ہوئے کہا۔
”تم نے مزید ظلم یہ کیا کہ راتوں کو جاگنا شروع کر دیا۔ ایک تو فکر دوسرے شب بیداری، رات میں معدے میں تیزاب بننے کا عمل تیز ہوتا ہے اور رات کو جاگنے سے یہ عمل اور تیز ہو جاتا ہے۔ چائے اس عمل کو اور بھی تیز کر دیتی ہے۔ رہی سہی کسر بیکری کی اشیاء پوری کر دیتی ہیں۔“
”میں شرمندہ ہوں بھائی جان، لیکن اب یہ تکلیف دور کس طرح ہو گی؟“
”سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ غیر ضروری فکر اور پریشانی کو الوداع کہو۔ اللہ پر بھروسا رکھو اور اللہ کی بخشی ہوئی بے شمار نعمتوں کا شکر ادا کرو۔ گزرے ہوئے دنوں پر افسوس کرنے میں وقت ضائع نہ کرو۔ آئندہ کی فکر کرو، امتحان میں ابھی دو ماہ باقی ہیں، اس لیے صحیح منصوبہ بندی کے ساتھ، متوازن انداز میں امتحان کی تیاری کرو۔ جیومیٹری باکس کھو گیا تو تم نے إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ راجعون پڑھی؟
”نہیں، مگر وہ تو کسی کے فوت ہونے پر پڑھتے ہیں۔“ نوید نے یاد دلایا۔
”یہ تم سے کس نے کہا کہ انا للہ صرف کسی کے فوت ہونے پر پڑھتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا ہے کہ جس چیز سے مومن کو دُکھ پہنچے وہ اس کے لیے مصیبت ہے اور کسی بھی مصیبت پر اإِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُون جو بھی پڑھے گا، اس پر اللہ کی طرف سے رحمت و سلامتی اترے گی، اس کو حق کی تلاش کا اجر ملے گا، اُس کے نقصان کی تلافی کی جائے گی اور اُس سے بہتر بدلہ دیا جائے گا۔ یہ بات میں نے تمھیں پہلے بھی بتائی تھی تم بھول گئے۔“
نوید نے جلدی سے کہا۔ ”میں ابھی پڑھ لیتا ہوں۔“
”شاباش، اور تم فوری طور پر اپنے دوست احسن سے لڑائی ختم کرو اور دل بالکل صاف کر لو، تمھیں معلوم نہیں ہے، صحیح مسلم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث پاک شامل ہے، آپ ﷺنے فرمایا، ہر ہفتے میں دو دن، پیر اور جمعرات کو لوگوں کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں، ہر بندہ مومن کی معافی کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے، سوائے ان دو آدمیوں کے، جو ایک دوسرے سے ناراض ہوں، اُن کے بارے میں حکم دے دیا جاتا ہے کہ ان دونوں کو چھوڑ دو جب تک کہ یہ آپس کی ناراضی اور دشمنی سے باز نہ آ جائیں۔ ایک اور حدیث میں بھی اسی قسم کا مضمون ہے جس میں وضاحت کی گئی ہے کہ ایک دوسرے سے دشمنی رکھنے والوں کے اعمال واپس کر دیے جاتے ہیں۔“
”میں کل ہی احسن سے بات کر کے اُسے منا لوں گا، ان شاء اللہ۔“
”اللہ تمھیں اجر دے اور اپنی غذا کا خیال رکھو۔ چائے اور چینی سے بنی میٹھی اشیاء استعمال کرنے کی بجائے سبزیاں کھاؤ، پھل کھاؤ بلکہ وہ پھل بہت مفید ہیں جو چھلکے سمیت کھائے جاتے ہیں مثلاً سیب، امرود، چیکو وغیرہ۔ ان کی وجہ سے معدے میں تیزابیت بہت بڑھنے نہیں پاتی۔ تیز مرچ مسالے والی چیزیں بھی مت کھاؤ۔ آج تو تم صرف اسپغول کا چھلکا دو چمچے ایک پیالی گرم دودھ کے ساتھ لے لو اور سکون سے سو جاؤ۔“
”بھائی جان، آپ کا بے حد شکریہ۔ اللہ آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے۔“
دو روز بعد نوید، ڈاکٹر خورشید سے کہ رہا تھا:
”بھائی جان، الحمد للہ اب میرا ہاضمہ بالکل ٹھیک ہے۔“