skip to Main Content

۱ ۔ بچپن

محمد حمید شاہد

۔۔۔۔۔۔۔

یا بِکرَ آمنۃَ المبارک بکرھا
ولدتہ مُحْصَنۃٌ بِسعدِ الاسعُدِ
نورا اضاءَ علی البّریّۃ کلِّہا
من یُہْدَ للنور المبارَکْ یہتدی

اے آمنہ کے لال! جن کا یہ لال مبارک ثابت ہوا

اور آمنہ کے وہ لال جسے ہزار نیک بختیوں کے ساتھ ایک عفیفہ ماں نے جنا تھا۔۔۔

جو ایسا نور تھا، جس نے سارے عالم کو منور کر دیا

اور جو بھی اس نور سے ہدایت کے راستے پر لگایا جا سکتا تھا۔ وہ سیدھے راستے پر لگ گیا۔
حسانؓ بن ثابت

دعائے مستعجاب
بیٹا پتھر اُٹھا کر لاتا جاتا اور باپ نصب کرتا جاتا۔ بنیادیں بھر گئیں تو دیواروں کا مرحلہ آ پہنچا ۔دیواریں لمحہ بہ لمحہ تکمیل کی جانب رواں تھیں کہ باپ نے کچھ تھکاوٹ محسوس کی۔ چند لمحوں کے توقف کے بعد باپ اور بیٹے دونوں کے ہاتھ بلند ہوئے۔ لب ہلنے لگے اور یہ دعا دِل کی گہرائیوں سے نکل کر فضا کو چیرنے لگی:

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ 

[البقرہ2:129]

اے ہمارے رب! اور تو ان لوگوں میں خود انہی کی قوم سے ایسا رسول اُٹھائیو، جو تیری آیات سنائے ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوار دے۔
دعا ختم ہوئی تو دونوں نے ہاتھ چہرے پر مَل کر نیلگوں آسمان کی جانب دیکھا۔ آسمان سے نظریں پھسلتے پھسلتے اُس عمارت پر آ کر جم گئیں جو باپ بیٹے کے ہاتھوں مکمل ہورہی تھی۔ جی ہاں! یہ عمارت ایک مقدس عمارت تھی۔ خدا کا گھر، کعبۃ اللہ۱؂ اور معمار بھی تو کچھ کم شان والے نہ تھے۔ ضعیف باپ ابراہیم۱؂ علیہ اسلام اور نوجوان بیٹا اسماعیل۲؂ علیہ السلام۔ لشٹم پشٹم وقت کی گاڑی چلتی رہی اور پھر وہ ساعتِ سعید بھی آ پہنچی جس ساعت کے لیے ابراہیم ؑ و اسماعیل ؑ نے تعمیر کعبہ کے وقت دعا کی تھی۔
محبت کی بانہیں
نیلے آسمان کو رات کی سیاہی نے تاریک بنا رکھا تھا۔ مگر ننھے منے تارے چمک چمک کر اس تاریکی کو اُجالے میں بدلنے کی ناکام سعی کر رہے تھے۔ ان تاروں سے بہت دور مکہ کے ایک مکان میں آمنہ بی بی۳؂ ایک نہایت خوب صورت اور گول مٹول بچے کو چھاتی سے لگائے ماضی کے دریچوں میں جھانک رہی تھیں۔۔۔’’کتنے ہی مبارک تھے وہ لمحے جب وہ دلہن بنا کر قریش کے قبیلے میں لائی گئی تھیں اور انھیں کعبے کے متولی عبدالمطلب۴؂ کے بیٹے عبداللہ۵؂ کی رفاقت میں دے دیا گیا تھا۔۔۔۔۔۔ مگر قدرت نے یہ رفاقت کچھ زیادہ عرصہ چلنے نہ دی اور زندگی بھر کا ساتھی راہ میں چھوڑ کر آگے بڑھ گیا‘‘۔ یہ سوچ کر آمنہ بی بی کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔ ماں نے بیٹے کو فرطِ محبت سے گلے لگا لیا۔۔۔۔۔۔ ذہن پھر ماضی کی جانب چل پڑا۔ مگر اس بار کی مسافت پہلے کی مسافت سے کہیں کم تھی۔ اب تو وہ واقعات یاد آ رہے تھے۔ جو اس معصوم بچے کی ولادت سے قبل خواب۶؂ کی صورت میں پیش آئے تھے۔
ایک خواب تو کچھ یوں تھا کہ ان کے اندر سے ایک نور نکلا ہے جس سے شام تک کے محلات روشن ہوگئے ہیں۔ اُنھیں وہ خواب بھی یاد آ رہا تھا جس میں اُن سے کہا گیا تھا کہ تمہارے پیٹ میں اِس اُمت کا سردار ہے۔ جب پیدا ہو تو اس کا نام ’’احمد‘‘۷؂ رکھنا۔ پھر اپنے پیارے شوہر عبداللہ کی نشانی اس یتیم بچے کی پیدائش کے موقع پر پیدا ہونے والا احساس بھی در آیا جس کے مطابق ’’ان کے جسم سے ایسا نور نکلا جس سے مشرق و مغرب روشن ہوگئے‘‘۔ جونہی خیالات کا تانا بانا ٹوٹا آمنہ بی بی نے ایک مرتبہ پھر اپنے بچے کو فرط اُلفت سے گلے لگا لیا۔
مبارک نام
آسمان۸؂ کی جانب بڑھتے لپکتے شعلوں کے گرد کوئی دوسو کے قریب لوگ بیٹھے کھانے پینے میں مشغول تھے۔ انواع و اقسام کے کھانے اس بات کی چغلی کھا رہے تھے کہ یہ دعوت مکہ کے کسی معزز فرد کی جانب سے دی گئی ہے۔ دعوت میں موجود افراد اپنے اپنے لباسوں سے صاف پہچانے جاتے تھے کہ کون سردار ہے اور کون جنگجو، کون تاجر ہے اور کون عرب کا بدّو۔ مہمان کھانے کے ساتھ خوش گپیوں میں بھی مصروف تھے۔ گھڑی دو گھڑی بعد مختلف گوشوں سے قہقہوں کی آوازیں بلند ہوتیں اور ہوا کے دوش پر دور تک پھیلتی چلی جاتیں۔ دفعتاً کعبے کے متولی عبدالمطلب نمودار ہوئے وہ اپنی گود میں آمنہ بی بی کے گول مٹول اور ننھے منے بچے کو اُٹھائے ہوئے تھے۔ سب اہل محفل اس جانب متوجہ ہوئے تو عبدالمطلب نے کہا:’’یہ میرے عزیز ترین بیٹے عبداللہ کی نشانی ہے اور اسی کی خوشی میں یہ محفل برپا کی گئی ہے‘‘۔
پھر عبدالمطلب اس بچے کو ایک ایک فرد کے پاس لے جاتے اور اُسے دکھاتے۔ شرکائے محفل بچے کی تعریف کرتے تو عبدالمطلب کا سیروں خون بڑھ جاتا۔ شرکائے محفل میں سے کسی نے پوچھا:’’اے کعبے کے متولی! آپ کے اس یتیم پوتے کا نام کیا ہے؟‘‘
’’محمد‘‘۹؂
عبدالمطلب نے بچے کے گال پیار سے تھپکاتے ہوئے کہا۔ تو مہمانوں نے تعجب سے نام دہرایا۔
’’محمد؟‘‘
عبدالمطلب نے کہا:
ہاں! محمدؐ۔۔۔ اس لیے کہ مجھے اُمید ہے۔ اس کی دنیا بھر میں بہت تعریف کی جائے گی۔
رسم دنیا
ماں کو جتنا پیار اپنے لختِ جگر سے تھا۔ اس کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ مگر دستورِ زمانہ کے آگے ماں بے بس تھی۔ عرب میں رواج تھا کہ پیدائش کے بعد شرفاء اپنے بچوں کو کسی دیہاتی دایہ کے حوالے کر دیتے تھے۔ جو بچوں کو لے کر گاؤں میں چلی جاتیں۔ وہاں بچے کھلی ہوا میں تندرست رہنے کے علاوہ خالص عربی زبان سیکھ جاتے۔
آمنہ بی بی پر بھی یہ سخت وقت آن پہنچا تھا۔ عبداللہ کی نشانی کو اپنے سے جدا کرنے کو جی تو نہیں چاہتا تھا مگر ایسے کیے بنا کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ مجبوراً رسم دنیا کے آگے مامتا کو ہتھیار ڈالنے پڑے۔
مبارکبادیاں
چند عورتوں کا ایک قافلہ مکہ کی جانب بڑھ رہا تھا۔ یہ عورتیں بنی سعد بن بکر کے قبیلے سے تعلق رکھتی تھیں۔ اِن میں حلیمہ۱۰؂ بنت ابی ذویب بھی اپنے شوہر ۱۱؂کے ساتھ ایک نحیف سی سواری پر سوار سب سے پیچھے پیچھے چلی آ رہی تھیں۔ گدھی۱۲؂ اس قدر کمزور تھی کہ کسی طور بھی قافلے والیوں کا ساتھ دینے کے قابل نہ تھی۔ قافلے میں شریک ہر ایک کا علاقہ قحط زدہ تھا مگر حلیمہ کی حالت تو بہت پتلی تھی۔ خود اُس کی اپنی چھاتیوں میں بھی بہت کم دودھ تھا۔ اس قدر کم کہ اُس کا اپنا بچہ بھی پیٹ بھر کر دودھ نہ پی سکتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ بچہ رات بھر بھوک سے بلکتا رہتا۔ حلیمہ کی اونٹنی بھی چند قطرے دودھ دیتی تھی۔ الغرض باربار کی خستہ حالی کی وجہ سے پیچھے رہ جاتی اور قافلے والیوں کو رُکنا پڑتا۔ مکہ پہنچ کر سب نے شرفا کے بچے اپنی اپنی رضاعت میں لے لیے۔ حلیمہ کے حصے میں آمنہ بی بی کا لاڈلا آیا۔ بچے کو اُٹھایا اور پڑاؤ میں لے آئیں۔ بچے کے منہ میں اپنی چھاتی ڈالی۔ تو جیسے یک لخت دودھ کی نہریں چھاتیوں میں پہنچ گئی ہوں۔ بچے نے دودھ سیر ہوکر پیا۔ پھر بھی اتنا دودھ بچ گیا کہ حلیمہ کا اپنا بچہ بھی خوب پیٹ بھر کر پی سکے۔ حلیمہ یہ کیفیت دیکھ کر حیران رہ گئیں۔ ابھی اس معمے کو سمجھنے بھی نہ پائی تھیں کہ حلیمہ کے شوہر نے اونٹنی کو دوہنا شروع کر دیا۔ یہاں بھی عجب منظر تھا وہ اونٹنی جو پہلے چند گھونٹ دودھ دیا کرتی تھی۔ اُس نے اتنا دودھ دیا کہ بیوی اور شوہر دونوں سیر ہوگئے۔ یہ دیکھ کر حلیمہ کے شوہر نے کہا: ’’خدا کی قسم! تو نے بڑا ہی مبارک بچہ لیا ہے‘‘۔
بے ساختہ پیار
وہی۱۳؂ عورتیں جو کل مکہ کی جانب جا رہی تھیں۔ اب بچوں کو اپنی اپنی گودوں میں لیے اپنی اپنی منزل کی جانب گامزن تھیں۔ ایک منظر اور بھی پہلے سے مختلف تھا۔ وہ یہ کہ کل حلیمہ سب سے پیچھے پیچھے چلی آ رہی تھیں جبکہ آج سب اُس کے پیچھے چل رہے تھے۔ حلیمہ کی گدھی اس شان سے چلی کہ قافلے والیوں کے سارے گدھوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ قافلے والیوں نے یہ منظر دیکھا تو حیران ہوکر پوچھا:
’’حلیمہ! کیا یہ تیری وہی گدھی ہے جس پر تو ہمارے ساتھ آئی تھی؟‘‘
’’واللہ! اس کی تو شان ہی بدلی ہوئی ہے۔‘‘
وطن آ گیا تو حلیمہ نے دیکھا کہ اس کا علاقہ جو سب سے زیادہ اُجاڑ اور بنجر تھا۔ اُس کی بھی حالت بدل گئی ہے۔ بکریاں جہاں جاتیں پیٹ بھر کر چارہ کھاتیں اور دودھ دیتیں۔ حلیمہ نے اپنے حالات یوں بدلتے دیکھے تو اس مبارک بچے کو سینے سے لگا لیا اور بے تحاشہ پیار کرنے لگی۔
ایک بار پھر
اُدھر مکہ میں آمنہ بی بی وقت کی ایک ایک گھڑی گن گن کر گزار رہی تھیں اور اُس ساعتِ سعید کی منتظر تھیں جب اُن کے لختِ جگر کو گاؤں سے پلٹ کر اُن کی آغوشِ شفقت میں آجانا تھا۔ مگر ادھر حلیمہ کے لیے تو جیسے وقت نے پَر لگا لیے ہوں۔ دو سال ایسے گزر گئے جیسے دو دن گزرا کرتے ہیں۔ اَب دودھ چھڑانے کا وقت آ پہنچا تھا۔ حلیمہ کو اس بات پر بے پایاں خوشی تھی کہ اُس کی آغوش میں پلنے والا یہ یتیم بچہ قبیلے کے سارے بچوں سے کہیں زیادہ صحت مند تھا۔ دو سال ہی کی عمر میں چار سال کا لگ رہا تھا۔ اب قاعدے کے مطابق حلیمہ کو بچہ ماں کے حوالے کرنا تھا۔ مگر جی نہیں چاہتاتھا کہ اسی مبارک بچے کو ابھی اپنے سے جدا کر دے۔ نہ چاہتے ہوئے دل کے ساتھ مکہ پہنچیں تو ڈرتے ڈرتے آمنہ بی بی سے التجا کی کہ ’’بیٹے کو ابھی میرے پاس رہنے دو۔ مجھے اندیشہ ہے کہ مکہ کی خراب آب و ہوا اس کی صحت پر اثر ڈالے۔۔۔۔۔۔‘‘۔
الغرض اس قدر حلیمہ نے اصرار کیا کہ آمنہ اپنے کلیجے پر ہاتھ رکھ کر ایک مرتبہ پھر اپنے لختِ جگر کو اپنے سے جدا کرنے پر رضامند ہوگئیں۔
آغوشِ مادر میں
محمدؐ۱۴؂ اپنے رضائی بھائی۱۵؂ کے ساتھ گھر کے پیچھے بکریاں چرا رہے تھے کہ دفعتاً دو سفید پوش آدمی آئے اور انھوں نے آپؐ کا پیٹ چاک کر دیا۔ یہ دیکھ کر آپؐ کے رضائی بھائی دوڑے دوڑے گھر پہنچے، اپنی ماں اور باپ کو سارا ماجرا کہہ سنایا۔ وہ دونوں بھاگم بھاگ جائے تذکرہ پر پہنچے۔ تو کیا دیکھتے ہیں کہ آپؐ کھڑے ہیں اور رنگ فق ہے۔ حلیمہ کے شوہر نے اپنے سے لپٹاتے ہوئے پوچھا: ’’بیٹے! تجھے کیا ہو گیا؟‘‘
آپؐ نے جواب دیا:
’’دو آدمی سفید کپڑے پہنے ہوئے آئے۔ مجھے لٹا کر میرا پیٹ چاک کیا اور اُس سے کوئی چیز نکال کر پھینک دی۔ پیٹ کو پھر ویسا ہی کر دیا جیسا پہلے تھا۔‘‘
یہ سن کر حلیمہ اور اُن کے شوہر دونوں کو بہت تشویش ہوئی۔ ننھے محمدؐ کو ساتھ لے آئے۔ حلیمہ اس واقعہ سے بہت ڈر گئی تھیں، اپنے شوہر سے کہنے لگیں:
’’مجھے ڈر ہے اس بچے کو کچھ ہو نہ جائے، بہتر یہی ہے اسے اس کے گھر پہنچا دیا جائے۔‘‘
اوریوں آپؐ ایک مرتبہ پھر اپنی ماں آمنہ بی بی کی آغوش میں پہنچ جاتے ہیں۔

…………

حاشیہ:

۱۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق کے رہنے والے تھے۔ اُن کا وطن ’’اُر‘‘ عراق کے نمرود خاندان کا دارالسلطنت تھا۔۲۱۰۰ قبل عیسوی کو شرک کی مخالفت اور دعوت کا آغاز کیا تو ملک کی حکومت ، قوم اور اپنے خاندان کے لوگ حتی کہ باپ بھی دشمن ہوگیا۔ سب ڈرا دھمکا کر باز رکھنے میں ناکام رہے تو زندہ جلا دینے کا فیصلہ ہوا۔ آگ کا بہت بڑا الاؤ دہکایا گیا اور ابراہیم ؑ کو اس میں ڈال دیا گیا۔ لیکن حکمِ خداوندی سے آگ ٹھنڈی پڑ گئی اور ابراہیم ؑ بچ گئے۔ پھر آپ ؑ نے اپنا وطن چھوڑ کر کنعان (شام و فلسطین) کی جانب ہجرت کی۔ اس ہجرت میں آپ ؑ کے بھتیجے لوط ؑ اور آپ ؑ کی بیوی سارہ ہمراہ تھیں۔ لوط ؑ اللہ کے نبی تھے جب کہ سارہ نے زندگی بھر ابراہیم ؑ کا ساتھ دیا۔ وہاں سے دعوتِ حق پھیلاتے پھیلاتے مکہ آ گئے اور یہاں حکمِ خدا سے کعبہ تعمیر کیا۔

۲۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جلیل القدر بیٹے تھے۔ یہ اولاد حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پڑھاپے کی عمر میں اللہ نے عنایت کی۔ بچپن میں جب کہ اسماعیل علیہ السلام ابھی دودھ پی رہے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا کے حکم سے اسماعیل ؑ اور ان کی والدہ ہاجرہ کو مکہ کی سنسان وادی میں چھوڑ دیا۔ جہاں حضرت اسماعیل ؑ شدت پیاس کی وجہ سے رونے چیخنے اور پاؤں پٹخنے لگے۔ جہاں اسماعیل ؑ کے پاؤں پڑے وہاں سے آبِ زمزم پھوٹ بہا۔ اسماعیل ؑ ۱۲ یا ۱۳ سال کے تھے کہ اللہ نے ابراہیم ؑ کو پھر آزمانا چاہا۔ اور خواب میں حکم دیا کہ اسماعیل ؑ کو قربان کر دو۔ چنانچہ ابراہیم ؑ منیٰ کے مقام پر لے گئے۔ اسماعیل ؑ کو ماتھے کے بل گرایا کہ خدا کی طرف سے حکم ہوا۔ ابراہیم ؑ تو نے خواب سچ کر دکھایا۔ اس طرح اسماعیل ؑ قربانی سے بچ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اسماعیل ؑ کے فدیے میں قربانی کے لیے مینڈھا عطا کیا۔ جسے ابراہیم ؑ نے قربان کیا۔ جوان ہوئے تو اسماعیل ؑ نے تعمیر کعبہ میں باپ کی مدد کی۔

۳۔ آمنہ بی بی وہب بن عبدمناف کی بیٹی تھیں۔ آمنہ قریش کی عورتوں میں نسب اور رتبے کے لحاظ سے بہت افضل تھیں۔ شادی کے کچھ ہی عرصہ بعد آمنہ کے شوہر عبداللہ کا انتقال ہوگیا۔ شوہر کے انتقال کے بعد آمنہ کے ہاں رسول اللہؐ پیدا ہوئے۔

۴۔ عبدالمطلب کا قریش بہت احترام کرتے تھے۔ انھوں نے برس ہا برس سے گم شدہ چاہ زمزم ڈھونڈ نکالا تھا۔ اور اہل مکہ جو پانی کی بوند بوند کو ترس رہے تھے۔ آبِ زمزم کا لازوال خزانہ ہاتھ آ گیا۔ شاہ حبش کی جانب سے یمن کے گورنر ابراہہ نے ۵۷۱ء میں خانہ کعبہ پر حملہ کیا تو عبدالمطلب اُس وقت موجود تھے۔ ابراہہ کے فوجی دستے نے سردارانِ قریش کے اونٹوں اور بھیڑبکریوں کے علاوہ عبدالمطلب کے دو سو اونٹوں پر قبضہ کر لیا۔ ان کی بازیابی کے لیے عبدالمطلب ابراہہ کے پاس گئے۔ اور کہا میرے اونٹ واپس کر دو۔ ابراہہ نے تعجب سے کہا: تمہیں اونٹوں کا خیال ہے اور کعبۃ اللہ کہ جسے میں ڈھانے آیا ہوں ،کا نام بھی تم نہیں لے رہے۔ عبدالمطلب نے جواب دیا۔ میں اونٹوں کا مالک ہوں ’’کعبۃ اللہ‘‘ کا نہیں کعبہ کا مالک اللہ ہے۔ وہی اسے بچائے گا۔ ابراہہ نے کہا: خانہ کعبہ مجھ سے نہیں بچ سکتا۔ عبدالمطلب نے جواب دیا: ’’پھر تم جانو اور وہ جانے‘‘ اس گفتگو کے بعد عبدالمطلب اونٹ لے کر واپس آ گئے۔ عبدالمطلب کے اعتقاد کے مطابق اللہ نے کعبہ کی حفاظت کی اور ابراہہ کے لشکر پر ابابیلوں کے جھنڈ بھیجے، جنہوں نے لشکریوں پر کنکریاں پھینک کر انھیں کھائے ہوئے بھوسے کی مانند کر دیا۔

۵۔ عبداللہ عبدالمطلب کے بیٹھے تھے۔ ایک مرتبہ جب چاہ زمزم کو تلاش کیا جا رہا تھا تو عبدالمطلب کی مدد صرف اُن کے بیٹے حارث نے کی۔ اس موقع پر اُن کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ اگر حارث کے علاوہ بھی میرے لڑکے ہوتے تو وہ میری مدد کرتے۔انہوں نے منت مانگی کہ اگر میرے دس بیٹے ہوئے تو میں ایک بیٹا راہِ خدا قربان کر دوں گا۔ اس کھدائی کے دوران چاہ زمزم بھی نکل آیا اور اس کے بعد اُن کے دس بیٹے بھی ہوئے۔ منت پوری کرنے کے لیے انہوں نے خانہ کعبہ میں جا کر قرعہ اندازی کی تو عبداللہ کا نام نکل آیا۔ عبدالمطلب عبداللہ کو منت کی بھینٹ چڑھانے پر تیار ہوگئے تو لوگوں نے روکا۔ ایک عورت نے یہ مشورہ دیا کہ دس اونٹوں اور عبداللہ کے درمیان قرعہ ڈالو اگر قرعہ میں عبداللہ کا نام نکلے تو اونٹوں کی تعداد بڑھا دو۔ اور
قرعہ اندازی کرو۔ یہ قرعہ اندازی اُس وقت تک جاری رکھو جب تک عبداللہ کے بجائے اونٹوں کا قرعہ نکل آئے۔ قرعہ ڈالا گیا۔ ہر بار عبداللہ کا نام نکلا۔ لیکن جب اونٹوں کی تعداد سو تک پہنچی تو اونٹوں کا نام نکل آیا اور یوں عبداللہ قربانی کی بھینٹ چڑھنے سے بچ گئے۔

۶۔ س ۔ ع

۷۔ احمد سے مراد ہے جس نے رب السمٰوٰت والارض کی حمد و ثنا جملہ اہل ارض والسمٰوٰت سے بڑ ھ کر کی ہو۔

۸۔ پیدائش کے ساتویں روز عبدالمطلب نے آپؐ کا عقیقہ کیا۔

۹۔ لفظ محمدؐ حمد سے اسم مفعول ہے اور احمد بھی حمد سے واقع علی المفعول ہے۔ اسم محمدؐ سے حمد کی کثرت اور احمدؐ سے حمد صفت اور کیفیت ظاہر ہوتی ہے۔ حدیث ہے: زمین پر میرا نام محمد ہے اور آسمان پر احمدؐ‘‘۔ ماں نے احمدؐ نام رکھا، لیکن دادا نے محمدؐ اور اسی نام سے آج تک موسوم کیے جاتے ہیں۔

۱۰۔ انہوں نے حضورؐ کو ثوبیہ(جو کہ ابولہب کی لونڈی تھی) کے بعد دودھ پلایا۔ حلیمہ کا وہ بچہ جس کے دودھ سے حضورؐ کی پرورش ہوئی۔ وہ عبداللہ بن حارث تھا۔ عبداللہ بن حارث کی بہن شیما، حضورؐ کو گود میں کھلایا کرتی تھی۔

۱۱۔ حارث بن عبداللہ۔

۱۲۔ حلیمہ اُس وقت ایک گدھی پر سوار تھی جس کا رنگ بھورا خاکی تھا۔ جبکہ حلیمہ کے ساتھ ایک بوڑھی اونٹنی بھی تھی۔ جو بھوک کی وجہ سے بہت نحیف تھی اور دودھ بھی بہت کم دیتی تھی۔

۱۳۔ ابن ہشام۔

۱۴۔ ابن ہشام۔

۱۵۔ عبداللہ بن حارث۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top