skip to Main Content
بابو کراچی والا

بابو کراچی والا

نذیر انبالوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ اس نیک انسان کو کس نام سے پکاریں گے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاداب پلازہ کے سامنے کھڑی سکول وین کے ہارن کی آواز بچوں کو بلا رہی تھی۔ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ہارن کی آواز کہہ رہی ہو کہ بچوں جلدی کرو ورنہ سکول سے دیر ہو جائے گی۔ڈرائیور وقفے وقفے سے ہارن بجا رہا تھا۔بچے پلازہ کی سیڑھیوں کو پھلانگتے ہوئے وین کی طرف لپک رہے تھے۔اریب اور منیب بھی اپنے فلیٹ سے نکل کر سیڑھیوں کی طرف بڑھے تو اریب نے سیڑھیوں کے ساتھ والی دیوار کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’رات تک تو یہ دیوار بد نماداغوں سے بھری ہوئی تھی۔اس پر بچوں کے لکھے ہوئے جملے کتنے بُرے لگ رہے تھے ۔اس پر چونا کس نے پھیرا ہے؟‘‘
’’میرا خیال ہے اس فلور پر رہنے والوں نے اس دیوار کو خوبصورت بنایا ہے۔‘‘منیب نے کہا۔
دونوں صاف ستھری دیوار کو تکتے ہوئے وین کی طرف بڑھے۔سکول پہنچنے تک وین میں موضوعِ گفتگو سیڑھیوں کے ساتھ والی خوبصورت دیوار ہی رہی۔جب بچے سکول سے واپس آئے تو ان کی نظر دیوار پر پڑی تو صبح کے وقت صاف ستھری اور دودھیا دکھائی دینے والی دیوار پر پان کی پچکاری کے بدنما داغ تھے۔شام تک دیوار پر دوبارہ جملے موجود تھے ۔اریم اور منیب کھیلنے کے لیے اپنے فلیٹ سے نکلے تو دیوار کو دیکھ کر حیران رہ گئے ۔ان دونوں کو اس وقت حیرت کا جھٹکا لگا تھا جب دوسر ے دن سکول کے لیے نکلے تو دیوار پھرصاف ستھری تھی۔ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے اس دیوار پر کبھی کسی نے نہ تو کچھ لکھا ہو اور نہ اس پر کبھی پان کی پچکاری ماری ہو۔
’’کون ہے جو اس کو ہر رات خوبصورت بنا دیتا ہے؟‘‘منیب بولا۔
’’میرا خیال ہے ایسا کوئی خاموش خدمت گار کر رہا ہے۔‘‘اریب نے اپنا خیال ظاہر کیا۔
’’آخر یہ خاموش خدمت گار کون ہو سکتاہے؟‘‘
’’ہم اس کا کھوج لگائیں گے۔‘‘
’’ہمیں اپنے ساتھ دوسرے دوستوں کو بھی ملانا چاہیے۔‘‘
’’ہم ایسا ہی کریں گے۔‘‘اریب بولا۔
وین میں شاداب پلازہ میں رہنے والے بچوں نے فیصلہ کیا کہ آج رات وہ اس خدمت گار کا کھوج لگائیں گے جو ہر رات سیڑھیوں کے ساتھ والی دیوار کو خوبصورتی کا لباس پہناتا ہے۔رات تک پھر دیوار پر کچھ جملے لکھے ہوئے تھے اور پان کی پچکاری اس کے حسن کو خراب کر رہی تھی۔بچوں نے جس بات پر اس قدر غور کیا تھابڑوں کی نظریں اس پر پڑی تو تھیں مگر ان کے لیے اس میں کوئی دلچسپی کا پہلو نہ تھا۔رات کے وقت بہت سے بچوں کی آنکھیں دیوار پر لگیں تھیں ۔رات گزرتی جا رہی تھی۔دن بھر کے تھکے ماندے بچوں کی آنکھیں خود ہی بند ہو رہی تھیں ‘دانیال پر تو نیند نے اپنا غلبہ پا لیا تھا۔
’’آ ج یہاں کوئی نہیں آئے گا۔‘‘بلال بولا۔
’’کچھ دیر اور انتظار کر لیتے ہیں شاید کوئی آجائے۔‘‘اریب نے کہا۔
رات دو بجے کے بعد کسی بچے کی اتنی ہمت نہ رہی تھی کہ وہ اپنی آنکھیں کھلی رکھے۔ان کی بند آنکھیں جب صبح کے وقت کھلیں تو انہوں نے دیکھا کہ دیوار ایک مرتبہ پھر خوبصورت بنی ہوئی ان کو دعوتِ نظارہ دے رہی تھی۔اس مرتبہ ایک چھوٹا سا بورڈ دائیں طرف لگا ہوا تھا۔اس بورڈ پر لکھا تھا۔’’مجھے بد نما داغوں سے بچائیے۔مجھے صاف ستھرا رکھیں۔‘‘اس بورڈ سے سیڑھیوں کو استعمال کرنے والوں پر صرف اتنا اثر ہوا کہ جو دیوار چوبیس گھنٹے کے اندر گندگی سے بھر جاتی تھی اس کو گندا کرنے میں ایک ہفتہ لگ گیا۔پان کی پچکاریوں نے بورڈ کو بھی متاثر کیا تھا۔دیوار کی بدصورتی دیکھ کر لگ رہا تھا کہ اس پر چونا پھیرنے والا خاموش خدمت گار دوبارہ یہ نیک کام کرے گا۔اس سے قبل کہ خاموش خدمت گار حرکت میں آتا بچوں نے باہمی مشورے سے طے کیا کہ وہ یہ کام کریں گے۔سب نے اپنے خرچ سے دس دس روپے ملائے اور بازار سے چونا اور برش لے آئے۔بڑے بچوں نے چونا پھیرنے کا کام اپنے ذمہ لیا۔اتوار کے دن بچے دیوار کو خوبصورت بنا رہے تھے کہ سبھی بڑے انہیں داد دے رہے تھے۔بچے اپنے کام میں مصروف تھے کہ سیڑھیوں کے ساتھ واقع فلیٹ نمبر پندرہ کا دروازہ کھلا۔آج پہلی بار بچوں نے اس فلیٹ سے کسی کو نکلتے دیکھا تھا۔فلیٹ سے ایک نوجوان نے نکلتے ہی بچوں کو تحسین بھری نظروں سے تکتے ہوئے کہا۔
’’شاباش …..شاباش بچو!…..بہت خوب۔‘‘
’’انکل آپ کا نام کیا ہے؟‘‘دانیال نے سوال کیا۔
’’میرا نام رہبر ہے‘میں چند ہفتوں قبل ہی کراچی سے یہاں آیا ہوں ‘تم لوگوں کو یہ اچھا کام کرتے دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے۔لاؤ میں بھی تم لوگوں کا ہاتھ بٹاتا ہوں۔‘‘
’’شکریہ انکل!بس آپ ہمیں بتاتے جائیں ہم خود یہ کام کر لیں گے۔‘‘اریب بولا۔
’’انکل آپ ہمارا ایک کام کر سکتے ہیں ۔‘‘دانیال نے کہا۔
’’کیسا کام؟‘‘رہبر نے پوچھا۔
’’ہم نے اس خدمت گار کا کھوج لگانا ہے جو خاموشی سے اس دیوار پر چونا پھیرتا رہا ہے۔ہم اس کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں کہ اس کی بدولت ہم خود اس کام کو کرنے پر تیار ہوئے ہیں۔‘‘دانیال کی بات سن کر رہبر نے کہا۔ 
’’ہم اس خدمت گار کو تلا ش بھی کریں گے اور اس کے ساتھ کچھ کام اور بھی کریں گے‘کیا میرا ساتھ دو گے؟‘‘سب بچوں نے یک زبان ہو کر ہاں میں جواب دیا۔
اب تو ہر شام پندرہ نمبر فلیٹ بچوں سے بھر جاتا۔ایک شام سب بچے فلیٹ میں پہنچے تو اس میں خالی گھی کے کئی کنستر پڑے ہوئے تھے۔سب بچے سوالیہ نشان بنے ہوئے تھے کہ ان کنستر وں کا کیا کرنا ہے۔رہبر نے ان کو بتایا کہ ہم شاداب پلازہ میں ایک مہم کا آغاز کرنے والے ہیں ۔
’’کیسی مہم؟‘‘بلال نے پوچھا۔
’’صفائی مہم؟ہم ان کنستروں کو رنگ کر کے سیڑھیوں کے پاس رکھیں گے تا کہ ان میں کوڑا کرکٹ ڈالا جائے۔‘‘
’’ہر فلیٹ کے باہر کوڑے کی ٹوکری موجود تو ہے پھر ان کنستروں کی کیا ضرور ت ہے؟‘‘ثاقب بولا۔
’’ان کنستروں کی ضرورت اس لیے ہے کہ بچے تو بچے بڑے بھی چلتے چلتے کاغذ اور پھلوں کے چھلکے اِدھر اُدھر پھینکتے رہتے ہیں۔ہر فلور پر تین بچے ان کنستروں کی نگرانی پر مامور ہوں گے۔صفائی کرنے والے سے ان کنستروں سے کوڑا کرکٹ اٹھوانے کی ذمہ داری میں لیتا ہوں۔بولو منظور ہے۔‘‘رہبر کی آواز پر سبھی بچوں نے خوشی خوشی اس کام کی حامی بھر لی۔دیوار کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ اب سیڑھیاں اور راستے بھی کوڑا کرکٹ سے پاک ہو گئے تھے۔
ایک اتوار شاداب پلازہ کے بچے پلازہ کے پیچھے بنے ہوئے ایک ویران پارک میں سر جوڑ ے بیٹھے تھے ۔رہبر نے بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا۔
’’میں جب بھی اس ویران پارک کو دیکھتا ہوں تو مجھے بہت افسوس ہوتا ہے۔پلازہ میں رہنے والے بچوں کے لیے کھیلنے کا ایک پارک بھی نہیں ہے‘اس پارک کا نقشہ بد لا جا سکتا ہے اگر آپ میرا ساتھ دیں۔‘‘
’’ہم سب آپ کے ساتھ ہیں۔‘‘منیب بولا۔
’’شاباش۔‘‘رہبر نے کہا۔
’’انکل!اس پارک کو خوبصورت بنانے کے لیے روپیہ کہاں سے آئے گا؟‘‘بلال نے پوچھا۔
’’اس پارک کو خوبصورت بنانے کے لیے زیادہ پیسے نہیں چاہئیں۔میں یہ خرچ برداشت کروں گا۔‘‘رہبر بولا۔
دوسرے دن پارک کو خوبصورت بنانے کا عمل شروع کر دیا گیا۔پہلے مرحلے میں پارک کی زمین کو ہموار کیاگیا۔ اس کام کے بعد زمین نرم کر کے گھاس لگانے کے ساتھ ساتھ کیاریوں میں پھولوں کے بیج بھی بوئے گئے۔چند ہفتوں میں پارک نے ایسی صورت اختیار کی کہ اس کو دیکھنے والا یقین ہی نہیں کر سکتا تھا کہ یہ کبھی ویران بھی تھا۔گھاس کے زمین میں جمتے ہی بچے اس پر بیٹھنے لگے۔جب یہ پھول کھلے تو گویا پارک میں بہار آگئی۔بچے تو خوش تھے ہی رہبر کی خوشی بھی دیدنی تھی۔رہبر کے ملنے کے بعدبچے بھول ہی گئے تھے کہ کبھی انہیں ایک خاموش خدمت گار کی تلاش تھی۔ پارک کے آباد ہونے سے بچے شام کے وقت اور چھٹی کے دن اس میں خوب کھیلتے۔اس پارک کی دیکھ بھال بھی بچے خود ہی کرتے تھے۔ہفتہ عشرہ میں ایک مالی آکر پودوں اور گھاس کو دیکھ جاتا تھا۔
ایک شام بچے پار ک میں کھیل رہے تھے کہ رہبر نے انہیں چھوٹی چھوٹی ڈائریاں دیں۔ان ڈائر یوں میں اس بات کا اندراج کرنا تھا کہ آپ نے دن میں کون کون سی نمازیں ادا کی ہیں۔اس ڈائری کو ایمانداری کے ساتھ پر کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔بچے ایک ہفتہ کے بعد ڈائری رہبر کو دے دیتے اور وہ اس پر دستخط کر کے ان کو واپس کر دیتا۔بچے کوشش کر کے نماز کی ادائیگی کرنے لگے تھے۔
جمعرات کو بچے سکول سے لوٹے تو ایک بورڈ ان کامنتظر تھا۔بورڈ پر ’’بچہ لائبریری‘‘لکھا ہوا تھا۔بورڈ پر تیر کا نشان رہبر کے فلیٹ کی طرف تھا۔بچے جب رہبر کے فلیٹ میں پہنچے تو میز پر کتابوں کا ڈھیر لگا ہو اتھا ۔رہبر نے بچوں کو مخاطب کیا۔
’’ہم ان چند کتابوں سے بچہ لائبریری کا آغاز کریں گے۔‘‘
’’انکل! اس لائبریری میں کیا بچوں کے رسائل بھی ہوں گے۔‘‘رضا نے پوچھا۔
‘‘ہاں…….ہاں…….اس لائبریری میں بچوں کے سبھی رسائل آیا کریں گے۔‘‘
’’انکل!کیا ہم کتابوں کو اپنے ہاں لے جا سکیں گے؟‘‘دانیال نے سوال کیا۔
’’پہلے پہل تو ایسا نہیں ہو سکے گا‘بعد میں کوشش کروں گا کہ بچے کتاب اپنے گھر لے جا سکیں۔‘‘رہبر نے جواب دیا۔
بچہ لائبریری چار بجے شام سے رات آٹھ بجے تک روزانہ کھلتی اور چھٹی والے دن صبح سے شام تک لائبریری کھلی رہتی۔کمپیوٹر اور انٹر نیٹ نے لائبریری کو جدید بنا دیا تھا۔رہبر کے کام سے جہاں بہت سے لوگ خوش تھے وہاں بہت سے لوگ اس کے بارے میں عجیب و غریب باتیں بھی کر رہے تھے۔پلازہ میں رہنے والوں میں سے کچھ کا خیال تھا کہ یہ سب کسی منصوبہ کے تحت ہو رہا ہے۔ان کاموں کے پس پردہ کچھ اور مقاصد ہیں ۔پلازہ کے ساتھ واقع ہوٹل میں لوگ بھانت بھانت کی بولیاں بولتے تھے۔طفیل نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے کہا۔
’’یہ سب الیکشن کا چکر ہے۔‘‘
’’رہبر بچوں کے ذریعے بڑوں کے ووٹ حاصل کرنا چاہتا ہے۔‘‘دلاور بولا۔
’’میں نے ایسے بہروپیئے دیکھے ہیں ،وہ پہلے کسی اچھی جگہ جا کر لوگوں کے دلوں میں گھر کرتے ہیں اور پھر کوئی فراڈ کر کے رفو چکر ہو جاتے ہیں ۔‘‘تاج دین کہا۔
’’ہمیں اپنے بچوں کو اس سے دُور رکھنا چاہیے ۔‘‘غلام رسول نے مشورہ دیا۔
’’غلام رسول ٹھیک کہتا ہے‘اس زمانے میں بھلا کس کو پڑی ہے کہ اپنی جیب سے روپیہ خرچ کر کے دوسروں کے کام کرے۔پہلے صاف ستھرائی‘پھر پارک اور اب بچہ لائبریری کا ڈرامہ مجھے تو یہ سارے کام کسی سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ لگ رہے ہیں۔‘‘قمر نے کہا۔
رہبر کے کاموں کو دیکھتے ہوئے علاقے کے ناظم نے شاداب پلازہ میں دلچسپی لیناشروع کر دی۔اس نے اپنے حمایتیوں سے مل کر ایک جلسہ کا اہتمام کیا۔جلسے میں جوشیلی تقریریں کی گئیں اور پلازہ والوں کو ایک نئی ٹینکی کی نوید سنائی گئی۔بڑوں کی زبانی رہبر کے بارے میں خدشات و خطرات بچوں تک بھی پہنچ گئے تھے۔بچے جب رہبر سے الیکشن کے بارے میں سوال کرتے تو اس کا جواب ہوتا کہ اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں‘میں اپنی تسکین کے لیے لوگوں کی بھلائی کے لیے کام کرتا ہوں ۔بچوں کے بڑوں نے رہبر سے ملنے کی کوشش کی ‘کچھ بڑے اپنی کوشش میں کامیاب بھی ہو گئے مگر بچوں کی اکثریت کا رہبر سے ملنا برقرار رہا۔صفائی ستھرائی‘پارک کی دیکھ بھال اور لائبریری کے معاملات بچے خوش اسلوبی سے انجام دینے کے قابل ہوئے تو ایک دن رہبر نے یہ کہہ کر بچوں کو چونکا دیا کہ ایک ہفتہ بعد اس پلازہ سے چلا جائے گا ۔
’’انکل!ہم آپ کو نہیں جانے دیں گے۔‘‘دانیال نے روہانسی صورت بنا کر کہا۔
’’مجھے اب کسی اور جگہ جانا ہے۔‘‘
’’آپ نے اب کہاں جانا ہے؟‘‘بلال نے پوچھا۔
’’وہاں جہاں گندگی ہے‘ویران پارک ہیں‘لائبریریاں نہیں ہیں‘یہاں اب سب کچھ ہے مجھے امید ہے میرے چلے جانے کے بعد تم سب ان کاموں کو اس طرح انجام دیتے رہو گے۔میں کبھی کبھار یہاں آتا رہوں گا۔‘‘رہبر کی ان باتوں نے بچوں کو اداس کر دیا تھا۔ رہبر نے جب جانے کا حتمی فیصلہ کر لیا تو بچوں نے اس کو شاندار طریقے سے رخصت کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے پارک میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا۔بچے رہبر کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اوران کی آنکھیں نم ہو گئیں ۔رہبر جب تالیوں کی گونج میں خطاب کرنے کے لیے آیا تو بچے اس کے احترام میں کھڑے ہو گئے۔
’’میں یہاں سے رخصت ہونے سے پہلے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میرے بارے میں جن خدشات کا اظہار کیا گیا وہ بالکل بے بنیاد ہیں۔میرا تعلق کراچی سے ہے۔ہم چند دوستوں نے چند سال قبل ایک تنظیم کی بنیاد رکھی تھی جس کا مقصد بچوں کی رہنمائی ہے۔مخیرّ حضرات کی عطیات سے یہ تنظیم کام کرتی ہے۔تنظیم کا ہر ممبر رضا کارانہ طور پر سال میں سے کچھ وقت نکالتا ہے۔میں نے شاداب پلازہ میں تین ماہ گزارے ہیں۔آپ کی محبت میں زندگی بھر فراموش نہ کر سکوں گا۔میں آخر میں ایک تحفہ آپ کی نظر کرنا چاہتا ہوں ۔وہ تحفہ ہے’’بچہ لائبریری‘‘۔یہ لائبریری جس فلیٹ میں بنائی گئی ہے اس کو تنظیم نے خرید کر بچوں کے لیے وقف کر دیا ہے۔‘‘بچوں نے تالیاں بجا کر خوشی کا اظہار کیا۔’’آج ہم اس خاموش خدمات کے بارے میں بھی جانیں گے‘‘آپ کو معلوم ہے اس خاموش خدمت گار کا نام ہے انکل رہبر‘بالکل اپنے نام کی طرح راستہ دکھانے والے‘یہ ہمیں نیکی کا راستہ دکھا کر یہاں سے جا رہے ہیں۔ہم سب ان کے شکر گزار ہیں۔‘‘اریب کی بات سن کر رہبر نے کہا۔
’’میں نے یہاں جو کچھ کیا ہے اپنے لیے کیا ہے کیونکہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد پاک ہے کہ ’’جو شخص کسی کو نیک کام کرنے کی ترغیب دے گا‘اس کو اس نیکی کرنے والے کے برابر ثواب ملے گا۔‘‘
ہم آپ کو بابو کراچی والا کہیں تو آپ کو کیسا لگے گا؟‘‘
’’بہت اچھا لگے گا۔آپ نے جہاں میرا نام یاد رکھنا ہے وہاں میرا کام بھی جاری رہنا چاہیے۔‘‘رہبر کی بات سن کر سارے بچے بولے۔
’’شاداب پلازہ میں آپ کے اچھے کا م جاری رہیں گے۔‘‘
رہبر کے شاداب پلازہ سے رخصت ہوتے ہی بڑوں کے دلوں میں پیدا ہونے والے تمام خدشات خودبخودم توڑ گئے۔وقت کے دھارے میں بہتے ہوئے شاداب پلازہ کے بچے بڑے ہو گئے اور ان کی جگہ نئے بچوں نے لے کر رہبر کے کاموں کو جاری رکھا۔کوئی اس اچھے انسان کو اب انکل رہبر کہتا اور کوئی بابو کراچی والا۔آپ اس نیک انسان کو کس نام سے پکاریں گے؟

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top