بابا جناحؒ
آپ کی آسانی کے لیے عرض کروں کہ بابا وہ ہوتا ہے، جو لینے کے بجائے دینے کے مقام پر ہو۔ بہت سی زبانوں میں باپ کے لیے بابا کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو تھوڑی سی اس کی شکل بدل جاتی ہے۔ کہیں اسے بابو کہتے ہیں اٹالین میں، اسے باپک کہتے ہیں انڈونیشین میں، اسے باپو کہتے ہیں انڈیا میں لیکن اس کا رُوٹ (Root) جو ہے وہ لفظ بابا سے ہے۔ باپ کی سب سے بنیادی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ گھر کے اندر، اپنے گھروندے کے اندر، اپنے خاندان کے اندر، دینے والا ہوتا ہے، لینے والا نہیں ہوتا۔ جو شخص کسی بھی انسانی گروہ کے درمیان دینے کے مقام پر ہو وہ بابا ہے اور یہ موٹی سی اس کی نشانی ہے۔
جب بھی آپ کسی آدمی کو ایسے مقام پر دیکھیں تو پھر آپ سمجھیں کہ یہ بابا ہے اور یہ داتا ہے، عطا کرنے والا آدمی ہے۔ اور لینے والا ہو، سمیٹنے والا ہو، وہ بالکل اس کے الٹ ہوتا ہے اور عیاری کی بہت ساری منازل طے کر کے ایک گانٹھ کی صورت میں انسان بن کے زندگی بسر کر رہا ہوتا ہے۔
تو میں یہ عرض کر رہا تھا کہ میری زندگی میں جو سب سے پہلے بابا آیا وہ دیر کی بات ہے۔ میں اس وقت سیکنڈائیر میں پڑھتا تھا اور پڑھتا تو میں یہاں لاہور میں تھا۔ لیکن میرا ایک قصبے کے ساتھ تعلق تھا، جہاں مجھے چھٹیوں میں لوٹ کر جانا پڑتا تھا۔وہیں سے میں نے میٹرک کیا تھا تو وہاں کے لوگ دیہاتی لوگ، کسان لوگ، وہ ایک بابے کے عشق میں مبتلا تھے۔
اور وہ بابا ایسا تھا، جسے ان لوگوں نے دیکھا نہیں تھا لیکن وہ جان لیتے تھے، سن لیتے تھے نام کہیں سے، خبر پہنچ جاتی تھی اور وہ اس کو بہت مانتے تھے۔ اور اس تمنا اور آرزو میں بیٹھے رہتے تھے کہ وہ آئے گااور جو ہمارے دکھی دن ہیں، ان کو یہ بابا کسی طرح سے ہماری زندگیوں سے دور کر دے گالیکن وہ بے چارے اس کے بارے میں زیادہ کچھ جانتے نہیں تھے تو میںبہت حیران ہو کے ان سے کہتا تھا کہ تمھارا بابا کیسا ہے جو تمھارے درمیان میں نہیں ہے اور تمھاری بولی نہیں بولتا۔
تم اس کی بولی نہیں سمجھتے تو پھر کیسے تمھارا اور اس کا رابطہ ہو۔ وہ کہتے تھے، بھلے ہم اس کی بات نہ سمجھیں وہ ہماری بات نہ جانیں لیکن دلوں کے اندر جو آرزوئیں پوشیدہ ہوتیں ہیں جو تمنائیں ہوتی ہیں، دل کی زبان ایک سانجھی زبان ہے۔ جو ساری دنیا میں بولی جاتی ہے۔ اس بابے کو وہ بابا قائداعظم کہہ کر پکارتے تھے اور اس کا نام لے کر وہ اپنی زندگی گزار رہے تھے۔
وہ کہتے بھلے اس کی بولی ہم سے مختلف ہو، یہ بات ہماری جاننے اور سمجھنے لگے گا۔بالکل اسی طرح سے جیسے ہمارے بڑوں کی زبان ہمارے بابوں کی زبان چاہے مختلف ہے لیکن ہم اس سے اچھی طرح سے واقف ہیں اور ہمارے درمیان رابطے کا ایک سلسلہ قائم ہے، میں بہت حیران ہوتا تھاکہ اس وقت لوگ تھوڑے سے متزلزل تھے،کچھ دبدبے کا شکار تھے کہ کبھی آگے بڑھتے تھے، کبھی پیچھے ہٹتے تھے۔
پھر ایک ایسا وقت آیا کہ انہی لوگوں نے لاہور کے اندر پنجاب یونیورسٹی کی سپورٹس گرائونڈ میں، جہاں اب ایک ہوائی جہاز کھڑا ہے، اپنے بابے قائداعظم کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، اور کوئی ایک لاکھ کا مجمع، بالکل Pindrop Silence میں، بے حس و حرکت خاموش بیٹھا ہوا ہے اور وہ اپنی زبان میں بات کر رہا ہے۔ جتنا بھی اس کا گھنٹے کا یا ڈیڑھ گھنٹے کا لیکچر ہوا اس میں، اور یہ لوگ سارے کے سارے اس زبان سے واقف نہیں تھے۔
ایک ایک بات اپنے اندر سمو کے اپنے رگ و پے میں اتار کے وہاں سے اٹھے۔ باوجود اس کے کہ ان پر بہت مشکل وقت آیا ہوا تھا۔ بات یہ تھی کہ وہ ان معنوں میں بابا تھا کہ وہ عطا کرنے والا آدمی تھا،دینے والا آدمی تھا، لینے والی آنکھ نہیں تھی۔
اس نے بڑی چومکھی لڑائی لڑ کے برہمن کے خلاف اور انگریز کے خلاف، اپنے ماننے والوں کو ایک ملک لے کر دیا اور جب ملک لے دے چکا تو پھر اس نے آپ اپنا سرمایہ، اپنا ورثہ ان سے چھپا کر نہیں رکھا اور جب وہ یہاں سے جانے لگا تو اس نے اپنی ساری جائیداد سب کچھ اپنی قوم کو دے دیا۔
سب سے بڑا حصہ اس نے پشاور کے اسلامیہ کالج کو دیا، حالانکہ وہ زیادہ وہاں گئے نہیں تھے لیکن ان کو پسند تھا۔ پھر ایک حصہ علی گڑھ یونیورسٹی کو دیا، پھر سندھ مدرسہ کو دیا جہاں وہ تعلیم حاصل کرتے رہے تھے اور یوں ہاتھ جھاڑ کے اور فاطمہ جو ان کی بہت چہیتی بہن تھی اور بظاہر جس کے لیے انھیں بہت کچھ چھوڑ کے جانا چاہیے تھا ان کی اتنی پروا نہیں کی اور وہ سب کچھ جو ان کی گاڑھے پسینے کی اپنی کمائی تھی جو انھوں نے وکالت کر کے کمائی تھی، یہاں سے کچھ نہیں لیا تھا۔
انھوں نے اپنے اس اکائونٹ سے وہ ساری کی ساری رقم اس کو دے کر یہاں سے رخصت ہو گئے،اس لیے آپ کے دلوں میں اور( ہم جو آپ سے بڑے ہیں تھوڑے سے عمر میں) ہمارے دلوں میں ان کی قدر باقی ہے۔
آپ کبھی کبھی دیکھیں گے، یہ ہمارے بابوں کے ساتھ اکثر ہوتا ہے، خواتین و حضرات کہ ان کے مخالف ضرور پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ دینے کے مقام پر ہوتے ہیں، اور عام آدمی لینے کے مقام پر ہوتا ہے۔ اور جب لینے کے مقام پر آدمی ہو تو زیادہ شرمندگیوں میں گھر جاتا ہے، کیونکہ اردگرد کے لوگ دیکھتے ہیں ان کی نگاہیں ہر وقت دینے والے پر لگی رہتی ہیں تو لینے والا ان لوگوں کا دشمن ہو جاتا ہے۔
ہمارے بابے جو ڈیرے قائم کرتے ہیں۔ ان کی ٹریننگ کا بھی یہی حصہ ہوتا ہے کہ وہاں آنے والوں کو دینے کی تعلیم دی جائے اور ایک عام آدمی کو کس طرح سے بابا بنایا جائے۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ میرے مرشد سائیں فضل شاہ صاحبؒ گوجرانوالہ گئے، میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ میں اپنی گاڑی چلاتا ہوا ان کو ساتھ وہاں لے کر گیا تھا۔
ہم جب وہاں گوجرانوالہ میں پورا دن گزار کر، مولوی یاسین صاحب سے مل کر واپس آرہے تھے تو بازار میں ایک فقیر ملا، اس نے میرے بابا جی سے کہاکہ دے اللہ کے نام پر۔ انھوں نے اس وقت ایک روپیہ بڑی دیر کی بات ہے، ایک روپیہ بہت ہوتا تھا، تو وہ اس کو دے دیا وہ لے کر بڑا خوش ہوا، دعائیں دیں، اور بہت پسند کیا اس بابا جی کو۔
انھوں نے اس سے پوچھا شام ہو گئی کتنی کمائی ہوئی؟ وہ ایک سچا آدمی تھا۔ اس نے کہا، دس روپے بنا لیے ہیں۔ تو دس روپے بڑے ہوتے تھے اس زمانے میں بہت زیادہ۔آپ کو یاد ہو گا، میں نے آپ سے بات کی تھی، ’’دِتّے میں سے دیا کرو۔‘‘ یہ ان کا فلسفہ تھا نا۔ اس میں سے یہ نہیں ہوتا کہ جو بہت زیادہ رکھتا ہے وہی دے۔
جس کے پاس دو پیسے ہیں، وہ بھی ایک پیسا دے۔ دتے میں سے دیناکہ مطلب یہ ہے کہ اپنے پاس جو کچھ ہے، اس میں سے دینے سے ہی تقویت آتی ہے۔ جب تک Post withinنہیں کریں گے،اپنی جان کے ساتھ چمٹا کے رکھیں گے، جس طرح تپِ محرقہ ساتھ جان کے چمٹ جاتا ہے نا اور وہ جان نہیں چھوڑتا، اسی طرح سے یہ دولت، اور سرمایہ جو ہے، یہ انسان کو کمزور سے کمزور ترکرتا چلا جاتا ہے۔ جسمانی طور پر چاہے تگڑا کر دے، روحانی طور پر کمزور کر دیتا ہے۔
تو انھوں نے کہا اس فقیر سے کہ تو نے اتنے پیسے بنا لیے ہیں، تو اپنے دتے میں سے کچھ دے۔ تو اس نے کہا، بابا میں فقیر آدمی ہوں، میں کہاں سے دوں۔ انھوں نے کہا، اس میں فقیر امیر کا کوئی سوال نہیں ہے جس کے پاس ہے اس کو دینا چاہیے، تو اس فقیر کے دل کو یہ بات بڑی لگی۔ بابا جی سے کہنے لگا، ’’میں کیہ کراں۔‘‘ انھوں نے کہا، کسی کو تو کچھ دے۔ کہنے لگا، اچھا۔ وہاں دو مزدور کدالیں کندھے پر ڈالے کہیں سے بیچارے دیہاڑی لے کر گھر کو واپس جارہے تھے۔
ان کے ہاتھ میں کسیاں تھیں۔ غالباً بنیادیں کھود کر آئے تھے۔ تو وہ فقیر بھاگا گیا، اس نے چار روپے کی جلیبیاں خریدیں، چار روپے کی ایک کلو جلیبیاں آیا کرتی تھیں، اور بھاگ کے لایا، اور آکر اس نے ان دونوں مزدوروں کو دے دیں۔ کہنے لگا، لوادھی ادھی کر لینا۔ وہ بڑے حیران ہوئے، میں بھی کھڑا ان کو دیکھتا رہا تودے کے، وہ خوش ہو کے چلا۔ اور وہ چلے گئے۔کہنے لگا، بڑی مہربانی بابا تیری، بابا بڑی مہربانی، شاباش۔
تو وہ جو فقیر تھا کچھ کھسیانا، کچھ شرمندہ سا تھا، زندگی میں پہلی مرتبہ اس نے خیرات دی تھی۔ وہ تو لینے والے مقام پر تھا تو شرمندہ سا ہو کر کھسکا۔ تو میرے بابا جی نے کہا، ’’اوئے لکیاں کدھر جاناایں تینوں فقیر توں داتا بنا دتا اے، خوش ہو، نچ کے وکھا۔‘‘ تو فقیر سے جب داتا بنتا ہے نا، تو اس کا رتبہ بلند ہو جاتا ہے۔ اور اگر باہر نہیں تو اس کا اندر ضرور ناچنے لگتا ہے۔
میرے تو یہ مقدر میں نہیں کہ کبھی دینے کے مقام پر آیا ہوں۔ لیکن میں نے ان لوگوں کو ضرور دیکھا ہے کہ جو دینے کے مقام پر ہوتے ہیں اور ان کی خوشیوں کو دیکھا۔ اسی طرح بابے قائداعظم نے اپنی زندگی میں بہت کچھ دیا، کبھی، اللہ آپ کو وقت دے اور بیٹھ کر اس کو جانچنے لگیں، آنکنے لگیں، تولنے لگیں تو آپ اندازہ نہیں لگا سکیں گے کہ وہ ایک دبلا پتلا تپِ دق زدہ، جسے آخر میں کینسر بھی ہو گیا تھا، اس نے کسی کو بتائے بغیر، کبھی گلہ کیے بغیر، کبھی ہائے یا اُف کا لفظ نکالے بغیر، اسی معاملے میں لگا رہا کہ میں دوں گا۔
اور اب آج کے سمجھدار سیاستدان، سیاست کے پنڈت، لکھنے والے، ولایت کے لوگ کہتے ہیں کہ ہندوستان نے پچھلے ایک سو برس میں صرف ایک ہی لیڈر پیدا کیا ہے اور اس کا نام محمد علی جناح تھا۔ لیڈر ایک ہی تھا، باقی کے لوگ اور بھی بہت سے تھے۔ گاندھی جی کا ہم احترام کرتے ہیں، ٹھیک تھے، لیکن وہ لیڈر نہیں تھے۔
نہرو، ایک لاڈلا بچہ تھا اس کو سیاست میں دلچسپی نہیں تھی ادب میں البتہ تھی، اس نے خط وغیرہ لکھے، بڑے کمال کے، بہت اچھے لکھے۔ لیکن انگریز کے ساتھ سیاست کی لڑائی میں آج کے سیانے کہتے ہیں، وہ ایک ہی بندہ تھا۔
جس نے انگریزوں سے کہا کہ آئو اگر تم میرے ساتھ Constitutional Fightکرنا چاہتے ہو تو میں، آئین کی جنگ لڑنے کے تیار ہوں، میں ایک ایک باریک بات کو کھول کر بیان کروں گا، ادھر آئو میں ہنر آزمائوںتم تیر آزمائو، ہم بھاگنے والے لوگوں میں سے نہیں ہوں گے۔ تو گاندھی جی نے اپنا لباس تبدیل کیا، لوگوں کو دھرنے کی تعلیم دی۔ مرن برت (بھوک ہڑتال) کئی کچھ کرتے تھے۔ ان کا اپنا انداز تھا لیکن وہ انگریزوں کے ساتھ آنکھ میںآنکھ ڈال کر ویسی Fight
نہ دے سکے۔
قائداعظم کہتے تھے، میں لباس نہیں تبدیل کروں گا، تمھاری زبان میں تم سے بات کروں گا، میں تمھارے بنائے ہوئے اصولوں کے مطابق، میں تمھارے قانون کے مطابق تم سے لڑائی کروں گا، اور پھربار بار انھوں نے کہا پاکستان تو بعد کی بات ہے۔
اللہ کرے آپ اس کو پڑھ سکیں، اور پوری تفصیلات کے ساتھ اس کی طرف جا سکیں تو اس بابے نے جو کہ دیہاتیوں، کسانوں، دہقانوں کا بابا تھا،اسے قائداعظم کہتے تھے، اس نے دینے کے مقام پر کھڑے ہو کر کیا کچھ عطا کیا،ایک آخری بات جو بہت عجیب و غریب ہے، وہ یہ کہ میرے بچے، میرے پوتے، اور میری پوتیاں اور بہت ذہین آپ جیسے لڑکے لڑکیاں، تھوڑے دن ہوئے وہ بیٹھے ہوئے تھے اور یہ ذکر کر رہے تھے آپس میں کہ اگر اوپر کے لوگ ٹھیک ہو جائیں تو پھر نیچے کے لوگ خودبخود ٹھیک ہو جائیں گے، یہ عام خیال ہے۔
میں نے کہا، مجھے اجازت دو گے۔ کہنے لگے، نہیں بابا، آپ بالکل الٹی بات کیا کرتے ہیں۔ میں نے کہا، نہیں اتنی سی اجازت دو کہنے کی کہ اگر اوپر کے لوگ ٹھیک ہو جائیں اور خدانخواستہ نیچے کے نہ ہوئے تو پھر ہم کیا کریں گے۔ کہنے لگے،دیکھیے یہ مفروضہ نہیں، اوپر سے دیکھ کر ہی لوگ متاثر ہوتے ہیں، اور وہی کرتے ہیں۔
میں نے کہا، پیارے بچو یاد رکھو! اور لکھ لو اسے اپنے دل کی ڈائری میں کہ ایک ملک بنام پاکستان اور اس کے رہنے والے پاکستانی،دنیا کی اس خوش قسمت ترین قوم میں سے ہیں، جن کو نہایت نیک، نہایت ایماندار، نہایت Honest، نہایت شفاف، نہایت ذہین، نہایت بڑا سیاستدان، نہایت بہترین دوسری زبان جاننے والا، نہایت اعلیٰ درجے کا وکیل عطا کیا ہے اور جس نے اس قوم سے تانبے کا ایک پیسہ بھی محنت کے طور پر نہیں لیا، اور کمال کی اس نے لیڈر شپ فراہم کی۔
جو آپ آج مانگ رہے ہیں۔ لیکن قوم نے اس کے جواب میں کیا کیا کہ ایئر پورٹ کے آدھے راستے کے اوپر اس کی موٹر کار کا پیٹرول ختم ہو گیا اور اس نے اپنی جان آدھے راستے میں جانِ آفریں کے حوالے کر دی۔ یہ ہوتا ہے زندگی میں۔ اس بات کی تلاش نہ کرو کہ وہاں سے ٹھیک ہوںگے تو نیچے آئیں گے۔
ہم سب کو اپنے اپنے مقام پر ٹھیک ہونا ہے۔ خدا کے واسطے، یہ مت کہا کرو، اے پیارے مزدور، کسانو، ان پڑھ لوگو! کہ اگر بڑے لوگ نماز پڑھیں گے تو ہم پڑھیں گے۔ ورنہ تب تک ہم بیٹھے ہیں، نماز تو تمھاری اپنی ہے بابا۔ اچھے ہونا تو تمھارے اپنے بس میں ہے۔ ذمہ داری تو ہماری اپنی ہے۔
یہ کیا بہانہ لے کر بیٹھ گئے، یہ بات جو میں نے اپنے بچوں سے کہی، یہ میں آپ سے بھی کہنا چاہ رہا تھا اور کہہ رہا ہوں، اور بڑی دردمندی کے ساتھ کہہ رہا ہوں، اور اس دین کو، اس ذمہ داری کو، جو ہمارے کندھوں کے اوپر ہے، اور جس کا ہم مداوا نہیں کر سکتے کہ ہم نے کیا سلوک کیا، وہ شرمندگی ہمارے ساتھ ہے اور ہمارے ساتھ چلتی رہے گی اور ہم سارے کے سارے اس کے دین دار ہیں۔ کسی ایک بندے کو، یا کسی ایک حکومت کو، یا کسی ایک سسٹم کو اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
الحمد للہ! ابھی تک کسی نے ملک کے خلاف کوئی بات نہیں کی، باریکیاں سی نکال کے کچھ سیاست میں سے الٹی پلٹی باتیں بیان کرتے چلے جاتے ہیں اور اگر آپ کو کوئی دریدہ ذہن یا ایسا گندا ذہن آدمی ملے، جو قائداعظم کی ذات میں کوئی، کیڑے نکالنے کی کوشش کرتا ہے، تو اس کو ضرور قریب سے جا کر دیکھیں، وہ دینے والوں میں سے نہیں ہوگا، لینے والوں میں سے ہو گا۔ پاکستان کے رہنے والو! زندہ رہو، خوش رہو ، پائندہ رہو۔ اللہ آپ کو آسانیاں عطافرمائے۔