skip to Main Content

آیا کتا کھا گیا،تو بیٹھی ڈھول بجا

آیا کتا کھا گیا،تو بیٹھی ڈھول بجا

…………………………………………..

 

مطلب اوراستعمال:

……………………

سامنے سے سب کچھ لٹ گیا یا جاتا رہا اور تو دیکھتا ہی رہ گیا۔غافل اور بے فکر کی نسبت بولتے ہیں۔امیر خسرو کی ایک اَن مِل کا آخری ٹکڑا ہے۔پورا جملہ یہ ہے:’’کھیر پکائی جتن سے،چرخہ دیاجلا،آیا کتا کھا گیا،تو بیٹھی ڈھول بجا،لاپانی پلا،لا پانی پلا‘‘۔

 

پس منظر:

………..

اس کا پس منظر یہ ہے کہ ایک کنویں پرچارپہناریاں پانی بھر رہی تھیں۔امیر خسرو کو راستہ چلتے چلتے پیاس لگی۔وہ کنویں پر جا پہنچے اور ان پہناریوں سے پینے کے لیے پانی مانگا۔ان میں سے ایک انہیں پہچانتی تھی۔اس نے دوسری پہناریوں سے کہا۔دیکھو کھسرو(خسرو)یہی ہے۔اس کے بعد پہناریوں نے خسرو سے پوچھا ’’کیا تم ہی خسرو ہو جس کے سب لوگ گیت گاتے ہیں۔پہیلیاں،کہہ مکرنیاں اور اَن مِل وغیرہ سنتے ہیں۔‘‘امیر خسرو نے کہا’’ہاں میں ہی ہوں وہ امیر خسرو۔‘‘اس پر ان میں سے ایک بولی مجھے کھیر کی بات کہہ دے،دوسری نے چرخہ پر کچھ کہنے کی فرمائش کی،تیسری نے ڈھول کے بارے میں کہنے کے لیے کہا،چوتھی نے کہا میں تو کتے کے بارے میں کچھ سننا چاہتی ہوں۔چاروں پہناریوں نے آپس میں بے میل چیزوں پرفرمائش کا مشورہ کر لیا تھا تاکہ امیر خسرو کو اس طرح دیر تک سن کر محظوظ ہو سکیں۔ امیر خسرونے کہا اچھا پہلے پانی پلا دو۔مارے پیاس کے دم نکلا جا رہا ہے۔وہ بولیں جب تک ہماری فرمائش پوری نہ ہوگی۔ہم پانی نہیں پلائیں گی۔امیر خسرو نے مجبور ہو کر فوراً کہا:’’کھیر پکائی جتن سے،چرخہ دیاجلا،آیا کتا کھا گیا،تو بیٹھی ڈھول بجا،لاپانی پلا،لا پانی پلا‘‘۔

 

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top