skip to Main Content

آواز

محمد علی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسکول میں ہر طرف گہما گہمی تھی۔ تمام طال علم صا ف ستھرے رنگ برنگ کپڑے پہنے ہوئے تھے۔آج کے دن سنیئر کلاس کے لیے الوداعی تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔ تمام طالب علموں اور اساتذہ کے چہروں پر مسکراہٹ تھی۔ سنیئر کلاس کے دو طالب علموں نے ایک پروگرام بھی تشکیل دیے رکھا تھا۔ جس کا تمام طلبا اور اساتذہ کو شدت سے انتظار تھا۔
اسکول کی گھنٹی بجی تو تمام طلبا ء ہال میں اکٹھے ہو گئے۔ اساتذہ کرام بھی اپنی نشستیں سنبھال چکے تھے تو اسپیکر آن کردیے گئے۔ اسٹیج پر پردہ گرا ہوا تھا۔ ہر کوئی جاننے کی خواہش رکھتا تھا مگر انتظار کرنے پر مجبور تھا۔ کچھ دیر میں ہال کی تمام روشنیاں بندکر دی گئیں۔ پورے ہال میں اندھیرا سا چھا گیا۔ طالب علموں میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں۔ اس سے پہلے کہ ہال میں شور ہونے لگتا۔ پرنسپل صاحب پردے کے پیچھے سے نمودار ہوئے۔
’’آپ سب خاموش رہیں!‘‘ پرنسپل کے حکم پر ایک پھر ہال میں خاموشی چھا گئی۔
’’جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ ہمارے سکول کے دو ذہین اور قابل طالب علموں یاسر اور شکیل نے اپنے اساتذہ کی مدد سے اس پروگرام کو تشکیل دیا ہے۔ ان کے کہنے پر ہال میں اندھیرا کیا گیا ہے۔ شاید اس طرح وہ اپنے پروگرام کو بہتر انداز میں پیش کر سکیں۔ میں امید کر تا ہوں کہ آپ خاموشی سے سارا پروگرام دیکھیں گے اور اسے سمجھنے کی بھی کوششیں کریں گے۔ اتنا کہہ کر پرنسپل صاحب اپنی نشست پر تشریف لے گئے۔
پھر آہستہ آہستہ پردہ سرکنا شروع ہوا۔ اسٹیج پر ایک میز موجود تھی جس پر پڑا سفید رنگ کا کپڑا زمین تک لٹک رہا تھا۔ میز پر فٹ بال سے کچھ بڑی جسامت کے شیشے کا ایک گلوب رکھا تھا۔ جس کے کچھ حصے مختلف رنگ کی روشنیوں سے جگ مگا رہے تھے تو کچھ حصے اندھیرے میں ڈوبے ہوئے تھے۔ یہ دیکھنے میں بہت دل چسپ نظر آرہا تھا۔ گلوب کی روشنی سے اسٹیج کسی حد تک روشن نظر آرہا تھا۔ میز سے تین چار قدم کے فاصلے پر شکیل کھڑا تھا جومسلسل اس نقشے نماگلوب کو گھو رہا تھا۔ مگر یاسر کہیں بھی نظر نہ آرہا تھا۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘ شکیل نے یہ کہتے ہوئے میز کی جانب قدم بڑھائے۔
’’میرے قریب مت آنا۔ تم مجھے نہیں پہچانتے!‘‘ گلوب سے آواز آئی تو پورے ہال میں تجسس و حیرانی کی لہر دوڑگئی۔
’’تت۔۔۔تت۔۔۔تت تم کون ہو؟‘‘ شکیل نے ڈرتے ہوئے پوچھا
’’تمھیں مجھ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔‘‘
’’یہ مختلف رنگ کیسے ہیں؟ ‘‘ شکیل نے انگلی کا اشارہ کرتے ہوئے پوچھا
’’یہ مختلف رنگ میرے وجود کا حصہ نہیں۔ تمھیں ان سے آنے والی آوازوں سے بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں۔‘‘
’’آوازیں۔۔۔کیسی آوازیں۔۔۔۔؟ مجھے تو کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی اور یہ رنگ کیسا ہے؟‘‘ شکیل نے اپنا کان گلوب کی طرف کرتے ہوئے پوچھا
’’افسوس۔۔۔تم بھی بہرے نکلے۔ یہ لال رنگ میرے وجود کا وہ حصہ ہے جس پر میرے دشمن مسلسل ظلم و ستم ڈھا رہے ہیں۔ میرے وجود پر ایسے کئی زخم موجود ہیں۔ ان سے خون بہہ رہا ہے۔ کوئی انہیں کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ کیا تمھیں ان سے چیخ و پکار ، آہ و زاری اور فریاد کی آوازیں نہیں آرہی ہیں؟‘‘
’’اگر ایسا ہے تو پھر سرخی کے ساتھ سبزہ کیسا؟‘‘
’’ہاں ! میرے کچھ حصے سبز بھی ہیں۔ یہ وہ ہیں جنھوں نے محنت کی۔خد کی نعمتوں کو صحیح معنوں میں استعمال کیا۔ علم کی اہمیت کو جانا۔ اسلام کے سنہری اصولوں کو اپنایا اور اس طرح میرے وجود کو سہارا دیا مگر۔۔۔
’’مگر کیا۔۔۔؟‘‘شکیل نے سوالیہ نظروں سے پوچھا
’’پہلے میرے وجود کے تمام حصے سر سبز تھے۔ مگر آہستہ آہستہ وہ وقت کی ترقی کے ساتھ دنیا کے ہوتے گئے۔ انھوں نے میرے وجود کی اصلیت یعنی اسلام کو بُھلا دیا۔ مذہب ان کے لیے ایک مخصوص وقت میں خدا کا نام لینا بن گیا۔ انھوں نے میرے دشمنوں کو اپنا دوست جانا اور ان کے رسم و رواج کو اپنا لیا۔مجھ سے ایک کی نام کی حد کا رشتہ قائم رکھا۔ اس لیے آج کئی حصے زخمی ہیں تو کچھ سبز بھی ہیں۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ میرا دشمن میرے ایک حصے کو برباد کرتا ہے تو دوسرا اس کو بچا بھی نہیں سکتا۔‘‘
’’حیرت ہے!!! یہ تو عجیب بات ہے کہ ایک ہی وجود کے دو حصے آپس میں مدد نہیں کر سکتے۔یقیناًآپ کا دشمن آپ کے مقابلے میں بہت زبردست ہو گا۔‘‘شکیل نے کچھ سوچتے ہوئے کہا
’’نہیں! میرا دشمن تو کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘
’’یہ کیسے ممکن ہے!؟ایک طرف وہ آ پ کو نقصان پہنچا رہا ہے اور دوسری طر ف وہ آپ کے مطابق کچھ بھی نہیں ۔‘‘
’’یہی تو میرا المیہ ہے !میرا دشمن کمزور ہے مگر نہایت چالاک ومکار۔ وہ میرے وجود میں پھوٹ ڈالے رکھتا ہے اور یوں میرا ایک حصہ دوسرے سے متنفررہتاہے۔ گلوب سے آواز آنا بند ہوگئی۔ 
ہال میں مکمل سناٹا چھا یا تھا۔ تمام طالب علم غور سے سن رہے تھے۔ اتنے میں پھر آواز گونجتی ہے۔
’’اتفاق میں برکت ہے جبکہ نا اتفاقی ہلاکت کا سبب بنتی ہے۔‘‘
’’یہ تو آپ نے بالکل ٹھیک کہا۔‘‘ شکیل نے حمایتی بنتے ہوئے کہا
’’میرے وجود میں کچھ سنہرے حصے بھی ہیں۔ان کو قدرت نے اپنی نعمتوں سے مالا مال کر رکھا ہے۔ میرے دشمن ان پر بھی چھا چکے ہیں۔ وہ انھیں آسائشیں دیتے ہیں اور یہ ان کو دوست سمجھتے ہیں مگر جس دن قدرت نے اپنی نعمتیں واپس لے کر انھیں آزمائش میں ڈالا تو اُس دن نہ تو ان کے دوست رہیں گے اور نہ ان کی آسائشیں۔ پھر وہ زمیں جو ان کے لیے سونا ہے ریت کا صحرا ثابت ہوگی۔‘‘
’’کہیں آپ خدا کی رحمت سے مایوس تو نہیں ہوگئے؟‘‘ شکیل نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔ ناامیدی کفر ہے اور مجھے اپنے خدا کی ذات پر پورا یقین ہے۔ اگر وہ مجھے اچھے دن سے سکتا ہے تو بُرے دن بھی دے کر آزمائش کر سکتا ہے۔‘‘
’’اچھے دن ! تو کیا آپ پربھی۔۔۔۔‘‘
’’کیوں نہیں! کبھی میرا وجود بھرپور ہوتا تھا۔ میرا ہر حصہ اسلام کی روشنی سے منور تھا۔مگر میرے دشمنوں نے میرے وجود کے حصوں کو دنیا کی محبت کا لالچی بنا دیا۔ میرے علمی خزانے کو مجھ سے چھین لیا۔میری پستی کی یہ ہی وجہ ہے کہ میری روح اسلام کو میریوجود کے ہرحصے سے ختم کرنے کو کوشش کی گئی۔یہاں تک کہ میں ہی۔۔۔‘‘گلوب سے سسکیاں بھرنے کی آواز آنے لگی جیسے کوئی رو رہا ہو۔
’’کیا میں آپ کے لیے کچھ کر سکتا ہوں؟‘‘شکیل نے پوچھا
’’تم! کیا تم میرے وجود کو میرا خزانہ ، میرا علم لوٹا سکتے ہو؟کیا تم میرے وجود کے ایک حصے کو دوسرے حصے کے لیے جینا ،ایک دوسرے کی مدد کرنا سکھا سکتے ہو؟ کیا تم مجھ میں میری روح اسلام کو صحیح معنوں میں زندہ کر سکتے ہو۔۔۔؟‘‘گلوب سے مسلسل سسکیوں کی آوازیں آرہی تھیں۔
’’جو مجھے پہچان نہ سکا جسے میرا رونا سنائی نہیں دیتا وہ مجھے سہارا کیا دے گا۔‘‘
پورے ہال پر سکوت طاری تھا۔اچانک میز میں کھڑکھڑاہٹ پیدا ہوئی۔ شیشے کا گلوب کنارے کی جانب سرکنے لگا۔ شکیل تیزی سے بھاگا۔اس سے پہلے کہ گلوب زمین پرگر کر چکنا چور ہوتا میز کے نیچے سے دو ہاتھوں نے اسے فرش کے پاس سے تھام لیا۔ شکیل نے بھی آکر گلوب کو تھام لیا۔
’’میں پہچان گیا کہ یہ کس کی آواز تھی۔ میں ضرور تمھارا خزانہ لوٹاؤں گا اور تمھارے دکھی وجود کو خوشیوں سے بھرنے کی کوشش کروں گا۔ کیوں کی مجھے اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہو چکا ہے۔‘‘شکیل نے یہ کہہ کے گلوب واپس میز پر رکھ دیا اور گلوب کی سرخ بتی پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ 
گلوب کی سرخی چھپ چکی تھی۔ اب صرف سبزہ نظر آرہا تھا۔پردہ ایک بار پھر گرنے لگا۔
پورا ہال تالیوں سے گونج اُٹھا تھا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top