انوکھی پیش کش
اشتیا ق احمد
۔۔۔۔۔۔
”یہ گھر اور یہ رقم تم لوگوں کو تین ماہ کے لیے دے رہا ہوں… تین ماہ بعد مکان تم سے لے لیا جائے گا اور رقم کا حساب لے لوں گا اور بس۔“
حامد گیلانی کی یہ بات حددرجے عجیب تھی… ایسی عجیب پیش کش زندگی میں پہلی بار سامنے آئی تھی… وہ حیرت بھرے انداز میں ان کی طرف دیکھ رہے تھے، لیکن وہ تو اس طرح خاموش ہوچکے تھے جیسے اب اور کچھ نہیں کہیں گے… نعمان گھرانہ ان دنوں بہت پریشان تھا… ایک تو انہیں کرائے کے ایک گھر کی ضرورت تھی، دوسرے ان کے مالی حالات بہت خراب تھے… نعمان صاحب کے فوت ہونے کے بعد گویا ان کے لیے مشکلات کے پہاڑ کھڑے ہوگئے تھے…
بیگم نعمان نے ان حالات میں بھی ہمت نہیں ہاری تھی… ان کے تینوں بیٹے ملازمت کی تلاش میں صبح جاتے اور شام کو ناکام لوٹ آتے… وہ اپنی دونوں بیٹیوں کے ساتھ سلائی کڑھائی میں لگ جاتیں اور اس طرح بہت ہی مشکل سے گزر بسر ہورہی تھی… گزر بسر تو جیسے تیسے ہو رہی تھی، لیکن زیا دہ پریشا نی انہیں مالک مکان کی طرف سے تھی… اس نے ان سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ آپ لوگوں کو اس کا مکان ایک ماہ کے اندراندر خالی کرنا ہوگا…
اب تینوں بیٹے ملازمت کی تلاش کو تو بھول گئے… مکان کی تلاش میں لگ گئے… کئی دن کی مسلسل بھاگ دوڑ کے بعد انہیں ایک مکان ملا، لیکن اس کا کرایہ اتنا تھا کہ وہ ادا کر ہی نہیں سکتے تھے… پھر مالک مکان کی شرائط بھی بہت سخت تھیں… اس طرح وہ اس مکان کو نہ لے سکے… ان کی تلاش جاری رہی… تین چار مکان دیکھے، لیکن کسی نہ کسی وجہ سے وہ کوئی مکان کرائے پر نہ لے سکے… اور پھر مہینہ ختم ہونے میں جب تین دن رہ گئے اور ان کی پریشانی عروج پر پہنچ گئی تو انہیں وہ مکان نظر آگیا… مکان اچھا اور صاف ستھرا سا نظر آیا… دروازے پر لکھا تھا:
”مکان خالی ہے۔“
”حیرت ہے… یہاں یہ نہیں لکھا کہ مکان کرائے کے لیے خالی ہے۔“ بیگم نعمان کے بڑے بیٹے رضوان نے کہا:
”مطلب تو یہی بنتا ہے نا… یا پھر یہ اس لیے نہیں لکھا گیا کہ مالک مکان اسے بےچنا چاہتا ہے۔“ درمیانے بیٹے عرفان نے خیال ظاہر کیا۔
”اس صورت میں تو یہ لکھا جانا چاہیے تھا، مکان برائے فروخت خالی ہے۔“ چھوٹا بیٹا سلمان مسکرایا۔
”خیر ہمیں اس سے کیا… معلوم کر لیتے ہیں… اگر کرائے کے لیے خالی ہے تو لے لیں گے… برائے فروخت خالی ہے تو نہیں لیں گے۔“ رضوان نے منہ بنایا۔
انھوں نے سر ہلا دیے… پھر پتا نوٹ کر کے وہ اس طرف چل پڑے:
وہ مکان انہیں آسانی سے مل گیا… دستک کے جواب میں ایک ادھیڑ عمر آدمی نے دروازہ کھولا… تین نوجوانوں کو دیکھ کر اس کے چہرے پر ایک عجیب سی حیرت نظر آئی…
”فرمائیے!“ اس نے بااخلاق انداز میں کہا۔
”آبادی میاں خان میں آپ کا ایک مکان ہے… اس کے دروازے پر ”خالی ہے“ لکھا ہے… ہم اس کے سلسلے میں آئے ہیں۔“
”تو آپ وہ مکان لینا چاہتے ہیں۔“ اس شخص نے کہا۔
”جی ہاں بالکل لینا چاہتے ہیں۔“
”اور آپ تینوں بھائی ہیں۔“ اس نے تینوں کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”جی ہاں! ہماری ایک والدہ اور ایک بہن ہیں… بس یہ پانچ افراد ہیں گھر کے۔“
”اچھی بات ہے… آپ اندر آجائیں، بیٹھ کر بات کر لیتے ہیں۔“
وہ انہیں اپنے ڈرائنگ روم میں لے آیا… اطمینان سے بیٹھ جانے کے بعد اس نے کہا:
”میرا نام حامد گیلانی ہے… اور وہ مکان میرا ہی ہے… پہلے آپ بتائیں… آپ کے والد نہیں ہیں۔“
”جی نہیں… انہیں فوت ہوئے دو سال ہوگئے… ہم تینوں بھائی ملازمت تلاش کرتے پھر رہے ہیں… والدہ اور بہن سلائی کڑھائی کر کے مشکل سے گھر کا خرچ چلا رہی ہیں۔“
”اور آپ کو دو سال سے کوئی ملازمت نہیں ملی۔“
”جی! یہی بات ہے… دراصل نہ تو ہمارے پاس سفارش ہے، نہ رشوت۔“
”خیر… آپ لوگوں کو میری ایک پیش کش ہے۔“
”جی… پیش کش! کیا مطلب؟“ تینوں نے حیران ہو کر ایک ساتھ کہا۔
”مطلب یہ کہ میں آپ کو اپنا مکان صرف تین ماہ کے لیے دے سکتا ہوں اور ساتھ میں ایک رقم بھی دوں گا… تین ماہ کے بعد مکان واپس لے لوں گا، البتہ رقم کا حساب لوں گا کہ کیسے خرچ کی… رقم کی واپسی کا مطالبہ نہیں کروں گا۔“
وہ حیرت زدہ رہ گئے… یہ پیش کش ان کی سمجھ میں نہیں آئی تھی… انھوں نے حامد گیلانی سے کچھ سوالات پوچھنے کی کوشش کی… لیکن انھوں نے کہا:
”جو مجھے کہنا تھا، میں کہہ چکا… آپ کو یہ پیش کش منظور ہے یا نہیں… بس یہ بتا دیں۔“
”ہم اپنی والدہ سے بات کیے بغیر کچھ نہیں کہہ سکتے۔“
”اچھی بات ہے… تم بات کر لو… مجھے آج شام تک بتا دینا۔“
تینوں گھر آئے… ماں بیٹی کی سوالیہ نظریں ان کی طرف اٹھ گئیں… انھوں نے دونوں کو ساری بات بتا دی… ان کا بھی مارے حیرت کے برا حال ہوگیا… کافی دیر تک سوچنے کے بعد ماں نے کہا:
”اچھی بات ہے… تین ماہ کے لیے مکان لے لو… اور جو رقم وہ دیں، لے آﺅ… پھر دیکھیں گے۔“
”لیکن امی جان! کہیں اس میں کوئی چکر نہ ہو۔“
”ہم مجبور ہیں… تین ماہ کے لیے تو ایک ٹھکانا مل رہا ہے نا… تین ماہ تک ان شاءاللہ ہم کوئی مکان تلاش کر ہی لیں گے۔“
”ان شاءاللہ!“
شام کو تینوں نے حامد گیلانی سے ملاقات کی۔
”ہم تیار ہیں۔“
”بہت خوب! یہ پچاس ہزار روپے ہیں… اس رقم کو خرچ کرنے کا آپ لوگوں کو مکمل اختیار ہے… تین ماہ بعد میں صرف یہ پوچھوں گا کہ آپ نے اس رقم کو کیسے خرچ کیا اور مکان کا معائنہ کروں گا… پھر آپ جہاں جانا چاہیں گے، چلے جائیے گا۔“
”مطلب یہ کہ آپ اپنا مکان خالی کرا لیں گے۔“
”ہاں!“
”لیکن آپ کو اس سے کیا فائدہ ہوگا… اس سے تو یہ بہتر نہیں کہ آپ ہمیں اپنا مکان تین ماہ کے لیے کرائے پر دے دیں۔“
”نہیں! یہ بہتر نہیں… جو میں کر رہا ہوں… وہ بہتر ہے… آپ کو منظور ہے تو رقم اٹھا لیں اور ساتھ ہی مکان کی چابی میز پر رکھی ہے… وہ اٹھا لیں۔“
انھوں نے ایک نظر حامد گیلانی پر ڈالی… رقم اور چابی اٹھائی اور ان سے ہاتھ ملا کر، شکریہ ادا کر کے باہر نکل آئے…
٭
ٹھیک تین ماہ بعد ان کے دروازے پر دستک ہوئی… باہر نکل کر دیکھا تو حامد گیلانی کھڑے نظر آئے… وہ چونک اٹھے… ان کے چہروں پر مسکراہٹیں تیر گئیں:
”آئیے آئیے۔“ وہ انہیں ڈرائنگ روم میں لے آئے۔ ادب اور احترام سے بٹھایا۔ پہلے ان کے سامنے چائے اور دوسری چیزیں رکھیں۔ پھر نعمان نے کہا:
”ہم تو آج خود آپ کے پاس آنے والے تھے… ہمیں معلوم ہے، آج تین ماہ پورے ہورہے ہیں۔“
”مجھے ہی آنا چاہیے تھا… پہلے میں اپنے مکان کو دیکھوں گا… پھر رقم کا حساب لوں گا۔“
”پہلے آپ چائے پی لیں۔“
وہ مسکرا دیے… چائے کے بعد انھوں نے پورے گھر کا غور سے جائزہ لیا… اس دوران نعمان کی والدہ اور بہن اوپر چھت پر چلی گئی تھیں… جب وہ نچلا حصہ دیکھ چکے تو وہ دونوں نیچے آگئیں اور حامد گیلانی اوپر چلے گئے… اس طرح انھوں نے اوپر والا حصہ بھی دیکھا… پورا مکان انہیں آئینے کی طرح صاف ستھرا نظر آیا… مکان کہیں سے معمولی سی بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظر نہ آیا… اب وہ پھر ڈرائنگ روم میں آگئے:
”اب میں جاننا چاہوں گا، پچاس ہزار روپے کی رقم کس طرح خرچ کی۔“
نعمان نے جیب سے نوٹوں کی گڈی نکالی اور ان کے سامنے رکھ دی… یہ وہی گڈی تھی جو تین ماہ پہلے حامد گیلانی نے انہیں دی تھی…
”یہ کیا… یہ آپ لوگوں نے خرچ نہیں کی۔“
”جی نہیں… اس رقم کو خرچ کرنے کا ہمیں کوئی حق نہیں تھا… یہ ہماری تھی ہی نہیں… آپ کی امانت تھی… لہٰذا ہم نے امانت کو جوں کا توں رکھا۔“
”بہت خوب! آپ لوگ میرے امتحان میں سو فیصد پورے اترے ہیں… آپ اپنی والدہ سے کہیں، ڈرائنگ روم کے دروازے پر آجائیں اور میری بات سن لیں۔“
”وہ پہلے ہی دروازے سے لگی بیٹھی تھیں۔“
”اوہ اچھا… جب تین ماہ پہلے آپ لوگ مکان کے سلسلے میں میرے پاس آئے تھے تو اس وقت اچانک ہی یہ پروگرام مجھے سوجھا تھا… بات دراصل یہ ہے کہ اس دنیا میں میری بس ایک بیٹی ہے… نہ کوئی رشتے دار ہے… نہ کوئی اور اولاد… اور میرے پاس یہ دو مکان ہیں اور بنک میں کچھ رقم بھی ہے… میں اپنی بچی کے لیے پریشان رہتا تھا… دراصل میں دل کا مریض ہوں… دو مرتبہ اٹیک ہوچکا ہے… دل کے مریض کا کیا بھروسہ… میں چاہتا ہوں… وہ مکان اپنی بیٹی کو جہیز میں دے دوں… رقم دے کر اور تین ماہ کے لیے مکان دے کر میں نے جان لیا ہے کہ آپ لوگ کس قدر اچھے ہیں… مجھے ایسے ہی اچھے لوگوں کی تلاش تھی… آپ کی والدہ پسند کریں تو… ورنہ یہ کوئی زبردستی کی بات نہیں ہے… میں چلتا ہوں… آپ لوگ اپنا فیصلہ سنا دیجیے گا۔“
یہ کہتے ہوئے… وہ اٹھ کھڑے ہوئے… عین اس وقت دروازے کی طرف سے آواز آئی:
”رک جائیے بھائی صاحب! یہ گھر بھی آپ کا ہے اور یہ بچے بھی آپ کے ہیں۔“
ان سب کی آنکھوں میں آنسو آگئے… ان آنسوﺅں کی قیمت اس مکان سے بھی زیادہ تھی…
٭٭٭