skip to Main Content

انوکھا سبق

جاوید بسام

۔۔۔۔۔۔۔۔

مائی حلیمہ کو گاؤں میں سب جانتے تھے۔ مائی حلیمہ ایک خوش اخلاق اور ملنسار عورت تھی۔ سب کے دکھ سکھ میں شریک ہوتی۔ لوگ اس سے مل کر خوش ہوتے تھے اور اس کا احترام بھی کرتے تھے۔ مائی کے دن کا آغاز صبح صادق کے وقت ہوتا۔ وہ دن کا آغاز عبادت سے کرتی اور پھر اپنی بھینسوں کی دیکھ بھال میں لگ جاتی۔ اس کے پاس دو بھینسیں تھیں جن کا دودھ بیچ کر وہ اپنا گزارہ کرتی تھی۔ مائی کے شوہر کا انتقال ہو چکا تھا۔ اس کے دو بیٹے تھے جن کی پرورش وہ بہت اچھی طرح کررہی تھی۔ دونوں مقامی اسکول کے ذہین طالب علم تھے۔ مائی ہر وقت کسی نہ کسی کام میں لگی رہتی۔ گاﺅں کے لوگوں نے اسے کبھی فالتو بیٹھے نہیں دیکھاتھا۔ وہ اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے اکثر بہت سی گھریلو اشیا مہارت سے بنا لیتی تھی۔ کبھی دالیں پیس کر چٹ پٹی بڑیاں (دال کی ٹکیاں) تیار کرتی جن کی دور تک مانگ تھی تو کبھی کھٹے میٹھے اَچار اور مُربّے بنا کر رکھ لیتی۔ لوگ ہاتھوں ہاتھ اس سے وہ چیزیں خرید لیتے تھے۔
مائی حلیمہ کا گھر گاؤں کے درمیان میں تھا۔ گھر کے آگے ایک وسیع میدان تھا۔ جس کے اطراف گھروں کی قطاریں تھیں۔ سارا دن بچے وہاں کھیل کود کرتے رہتے۔ دن ڈھلتے ہی بڑے بھی اپنے کاموں سے فارغ ہو کر وہاں چلے آتے اور بیٹھ کر اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے رہتے۔
ایک دن گاؤں کے لوگوں نے ایک حیرت انگیز منظر دیکھا کہ مائی میدان کے بیچ میں گڑھا کھود رہی ہے۔ گاؤں دیہات کی عورتیں بہت محنتی ہوتی ہیں اور سخت کام بھی آسانی سے کرلیتی ہیں۔ لوگوں کو خیال آیا کہ مائی کو مٹی کی ضرورت ہوگی۔ وہ اپنے کاموں میں لگے رہے لیکن جب دوپہر تک وہ اسی طرح مصروف رہی تو بہت سے لوگ اس کے گرد جمع ہو گئے۔ ان میں بچوں کی اکثریت تھی۔
بابا رحیم نے پوچھا:” مائی حلیمہ! یہ گڑھا کیوں کھود رہی ہو؟“
لیکن مائی نے کوئی جواب نہیں دیا کئی من چلے اور فارغ لوگ بھی وہاں آگئے تھے۔ گامو پہلوان بولا :” مائی خندق کھود رہی ہیں تاکہ جنگ ہو تو کام آجائے۔“
پیچھے سے بخشو دھوبی بولا: ”نہیں نہیں! دراصل مائی کو کسی دبی ہوئی دیگ کا پتا چلا ہے اور وہ خزانہ تلاش کررہی ہے۔“
سب ہنس پڑے۔ کسی نے آواز لگائی: ”مائی! ہم مدد کریں؟“
مائی ڈانٹ کر بولی : ”اپنے منھ بند رکھو۔“ اور اپنے کام میں لگی رہی۔ وہ آہستہ آہستہ کام کررہی تھی۔ مائی کو گڑھا کھودنے کا کوئی خاص تجربہ نہیں تھا اور نہ ہی اس کے پاس کوئی مناسب اوزار تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ اسے کوئی جلدی بھی نہیں ہے۔ بچوں نے مائی کی یہ کارگزاری اپنے گھروں میں بتائی تو بہت سی عورتیں اسے دیکھنے چلی آئیں۔ کچھ نے مائی کی مدد بھی کرنا چاہی اور گڑھا کھودنے کی وجہ پوچھی لیکن اس نے انہیں بھی کچھ نہیں بتایا۔ غرض سارا دن لوگ اسے گڑھا کھودتے دیکھتے رہے۔
اب شام ہوگئی تھی۔ گڑھا کافی گہرا ہوچکا تھا۔ وہ لوگ جنہوں نے صبح اپنے کاموں پر جاتے ہوئے مائی کو گڑھا کھودتے دیکھا تھا۔ دن بھر محنت کرنے کے بعد اپنے دفتروں، دکانوں اور کارخانوں سے واپس آرہے تھے۔ سب حیران تھے کہ مائی اب تک وہاں کیا کررہی ہے۔ آہستہ آہستہ لوگ وہاں جمع ہونے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے گاؤں کے ہر گھر کا کوئی نہ کوئی فرد وہاں چلا آیا۔ گڑھا کافی گہرا ہو چکا تھا۔ مائی نے ہاتھ جھاڑے اور بابا تاج کو اشارہ کیا جو نیم کے درخت کے نیچے حقہ پی رہا تھا۔ وہ فوراً جھاڑو اور ہاتھ گاڑی لے آیا۔ مائی نے چلنا شروع کیا۔ بچوں اور بڑوں کا ایک جم غفیر اس کے پیچھے تھا۔ وہ گاؤں کی گلیوں سے گزر رہی تھی۔ جس گھر کے آگے کوڑا کرکٹ پڑا ہوتا وہ بابا تاج کو اشارہ کرتی وہ اٹھا کر گاڑی میں ڈال لیتا۔ ساتھ ہی مائی کے تبصرے بھی جاری تھے۔ وہ کہہ رہی تھی۔ ”اوہو بشیراں! آج تم نے مٹر کا سالن پکایا تھا، اچھا صبح ناشتے میں انڈے بھی کھائے تھے۔“
بشیراں بے چاری شرما کر پردے کی اُوٹ میں ہوگئی۔ ماسی آگے بڑھی اور بابا رحیم کے گھر کے آگے اس کی پرانی بوسیدہ پگڑی پڑی دیکھ کر بولی: ”بابا! کل تک تم اسے فخر سے پہنے پھرتے تھے، آج کیا حال ہو گیا ہے؟“
بابا گھوم کر دوسری طرف دیکھنے لگا۔ لوگوں نے قہقہہ لگایا۔ کریمو کے گھر کے سامنے خربوزے کے چھلکے پڑے تھے۔ وہ بولی: ”اوہو! تم تو خربوزے کے بیچ ضائع کردیتے ہو۔“
غرض اس نے ہر گھر کے آگے سے کچرا اٹھوایا اور گڑھے میں لا کر ڈلواتی رہی۔ گڑھا بھرتا جا رہا تھا۔ لوگوں کا مجمع جو شروع میں اس کے تبصروں پر قہقہے لگا رہا تھا۔ اب دم سادھے اس کے ساتھ چل رہا تھا۔ جب سب کوڑا کرکٹ اٹھا لیا گیا تو اس نے گڑھا بند کرنا شروع کیا۔ کچھ دوسرے لوگ بھی اس کے ساتھ شریک ہوگئے ۔ پھر وہ اپنے گھر سے ایک بانس نکال لائی جس پر ایک تختی لٹکی تھی اس پر لکھا تھا: ”صفائی نصف ایمان ہے۔“ اس نے وہ بانس مٹی میں مضبوطی سے گاڑ دیا اور سانس درست کرتے ہوئے بولی: ”ہم سب جانتے ہیں کہ صفائی نصف ایمان ہے ہم اپنا گھر تو صاف کر لیتے ہیں لیکن کوڑا کرکٹ باہر گلیوں میں پھینک دیتے ہیں۔ جس سے جراثیم پیدا ہوتے ہیں اور آئے دن گاؤں کے بچے بیمار ہوجاتے ہیں۔ بابا تاج خاکروب کا کام کرتا ہے لیکن چند لوگ ہی اسے کچرا دیتے ہیں۔ باقی لوگوں نے گلیوں کو کوڑے دان بنا رکھا ہے۔ کیا یہ گلیاں اور راستے ہمارے نہےں ہیں؟“
سب کو سانپ سونگھا ہوا تھا، کوئی کچھ نہیں بولا۔ وہ دوبارہ گویا ہوئی: ”ہمیں اپنے ایمان کی حفاظت کرنی ہے ایسا نہ ہو ذرا سی غفلت سے ہم اپنا نقصان کر بیٹھیں۔ صرف کچھ روپوں کے بدلے ہم بابا تاج سے یہ کام کراسکتے ہیں۔ پھر ہم ایسا کیوں نہیں کرتے؟“
وہ خاموش ہوگئی۔ مجمع پر ابھی بھی خاموشی طاری تھی۔ لوگ شرمندہ نظر آرہے تھے۔ کچھ وقفے کے بعد مائی بولی: ”میں تم لوگوں سے مخاطب ہوں کیا تم لوگ یہ چاہو گے کہ کل سے بابا تاج تم سب کے دروازوں پر بھی دستک دیا کرے؟“
سب یک زبان ہوکر بولے ”ہاں مائی حلیمہ ضرور!“
وہ بچپن سے یہ سنتے آئے تھے کہ صفائی نصف ایمان ہے، لیکن آج کے عملی سبق سے ان کی آنکھیں پوری طرح کھل گئی تھیں۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top