skip to Main Content

انجمن کا انجام

کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
ایک تنظیم جو وجود میں آنے سے پہلے ہی بکھر گئی۔
۔۔۔۔۔

محلے کے بچے ایک انجمن بنا رہے تھے۔ اعظم میاں اس کے کرتا دھرتا تھے۔ ویسے بھی اگر انجمن نہ بھی ہوتی تو وہ خود اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ اور پھر ایک غیر سرکاری سی یعنی بے قاعدہ سی انجمن تو ان کی سربراہی میں پہلے ہی موجود تھی۔ جس کے کام گرمیوں میں چھتوں پر چڑھ کر پڑوس کے گھروں کے درختوں پر لگے آم توڑنا۔ کتوں کے گلے میں رنگ برنگی پٹیاں باندھنا۔ مختلف جانوروں مثلاًکتوں، بلوں، گدھوں وغیرہ کو مختلف سیاسی رہنماؤں کے ناموں سے موسوم کرنا۔ پتنگ بازی، گلی ڈنڈے کے ٹورنامنٹ کرانا تھے، لیکن اب تو باقاعد، ایک اجلاس بلایا جارہا تھا۔ محلے کی ہر گلی کی نکڑ پر کسی دکان کے تختے یا مکان کی دیوار پر اعظم میاں کے اپنے ہاتھ کے تیار کردہ پوسٹر بعنوان ”عظیم الشان اجلاس“ لگائے گئے تھے۔ پوسٹرز میں اجلاس کی تفصیلات درج تھیں اور نیچے کنوینر اعظم میاں کا نام اور ان کے دستخط موجود تھے۔ خود اعظم میاں، ایک ایک بچے کو اجلاس کی یاد دہانی کرا رہے تھے۔ کسی بچے کو اجلاس سے غیر حاضر ہونے کی اجازت نہ تھی۔
مقررہ تاریخ پر اعظم میاں نے اپنے بہترین کپڑے نکال کر پہنے اور تیار ہو کر ریحان کے ہاں پہنچ گئے۔ یہ ان کا ہیڈ کوارٹر تھا۔ دراصل ریحان کے پاس ایک اوپر کا کمرہ ہمیشہ خالی رہتا تھا۔ اجلاس یہیں ہوتا تھا۔ اعظم میاں جوش میں ذرا وقت سے پہلے پہنچ گئے تھے۔ ریحان کہیں قریب ہی بازار گیا ہوا تھا۔ انہوں نے دس منٹ گلی ہی میں ٹہل ٹہل کر گزارے پھر ٹہلتے ہوئے گلی کے کونے پر پہنچ گئے۔ اچانک ان کی نگاہ کتابوں کی ایک چھوٹی سی دکان پر پڑی۔ وہ جائزہ لینے کے لئے آگے بڑھے۔ کتابوں سے انہیں بھی دلچسپی تھی اور وہ اپنے گھر کے برابر والی لائبریری سے دس پیسے روز کرائے پر جاسوسی کے ناول پڑھا کرتے تھے۔ یہ اور بات کہ لائبریری کے مالک کو انہوں نے شاید ہی کبھی پیسے دیے ہوں۔
دکان میں بارہ تیرہ سال کا ایک لڑکا بیٹھا کوئی کتاب پڑھ رہا تھا۔ اعظم میاں نے کسی جاسوسی ناول کے ہیرو کی طرح اس کا ترچھی نظروں سے جائزہ لیا اور پوچھا۔”کیا کر رہے ہو مسٹر؟ یہ کس کی دکان ہے؟“
بچے نے کہا۔”السلام علیکم۔ میرا نام تنویر ہے۔ یہ میرے چچا کی دکان ہے، وہ ابھی آتے ہوں گے۔ آپ بیٹھیں۔“
بچے کے شائستہ انداز سے اعظم میاں کچھ جھینپ سے گئے،بولے۔ ”نہیں خیر مجھے تو ابھی ایک میٹنگ میں جانا ہے۔“
”میٹنگ؟ کیسی میٹنگ؟“ تنویر نے دریافت کیا۔
”ارے تم کیا جانو۔“ اعظم میاں فخر سے بولے۔ ”ہم نے محلے کے بچوں کی انجمن بنائی ہے۔ اس کا لائحہ عمل طے کرنا ہے۔“
”اچھا کیا لائحہ عمل ہے آپ کی انجمن کا؟“ تنویر نے دل چسپی لیتے ہوئے پوچھا۔
”اونہہ! یہیں کھڑے کھڑے بتادوں۔ بہر حال مختصراً سن لو کہ ہم آئندہ سے اپنی انجمن کا ٹیکس ہر گھر پر عائد کرنے والے ہیں۔ اس کے علاوہ محلے میں کہیں بھی دعوت ہوگی یا کوئی خاص چیز پکے تو ہماری انجمن کا بھی اس میں حصہ ہو گا۔ محلے میں جتنے آم، امرود اور پپیتے لگتے ہیں، ان میں سے ہماری انجمن اپنا حق وصول کرے گی۔ انکار کی صورت میں اس گھر کی بجلی اور پانی بند۔“
”خوب! آپ کی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کی انجمن کے اثرات بہت ہیں۔“ تنویر نے کہا۔
”بہت۔“ اعظم میاں خوش ہو کر بولے۔
”اچھا ایک بات بتا ئیں۔“ تنویر نے کہا۔
”کیا؟“ اعظم میاں بولے۔
”آپ کی اس انجمن میں شامل تمام لڑکوں کو عام افراد پسند کرتے ہیں یا نا پسند؟“
”پسند کیا۔ وہ تو ڈرتے ہیں۔“ اعظم میاں غرور سے بولے۔
”وہی ڈرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ آپ کے خوف سے ایک نا پسندیدہ کام کرنے پر مجبور ہیں۔ اس طرح تو کوئی آپ سے محبت نہیں کرتا ہوگا۔“تنویر نے کہا۔
اعظم میاں کچھ سوچ میں پڑ گئے توتنویر نے انہیں سوچ میں دیکھ کر دوسرا سوال کر ڈالا۔ ”اچھا یہ بتائیں۔ آپ کی انجمن میں شامل تمام لڑکے ہر سال اچھے نمبروں سے پاس ہوتے ہیں؟“
اعظم میاں کی نظروں کے سامنے اپنے سارے دوست گھوم گئے۔ چشم تصور سے انہوں نے سب کو اپنے اپنے گھروں میں فیل ہونے پر پٹتے دیکھا۔انہیں یاد آیا کہ دو سال قبل تک وہ اپنی کلاس میں فرسٹ آتے رہے تھے لیکن اب ان اوٹ پٹانگ دوستوں کے ساتھ رہنے کے باعث وہ چھٹے نمبر پر چلے گئے تھے۔ انہوں نے شرمسار ہو کر کہا۔”وہ…… ہم ……اپنی انجمن کے لائحہ عمل میں اسکول کی پڑھائی کو بھی شامل کریں گے۔“
”لیکن پھر بھی کیا فائدہ۔“ تنویر نے کہا۔”آپ کا سارا دن تو ٹیکس وصول کرنے اور امرود اڑانے میں گزرے گا۔“
”ہاں یہ تو ہے۔“ اعظم میاں کچھ سوچتے ہوئے بولے۔
تنویر نے پھر کہا۔”میں کچھ لڑکوں کو جانتا ہوں، انہوں نے بھی ایک تنظیم بنائی ہے اور آپ کو سن کر تعجب ہو گا کہ وہ لڑ کے اپنی کلاس میں ہمیشہ اچھے نمبروں سے پاس ہوتے ہیں۔“
”ارے سارا دن پڑھتے رہتے ہوں گے۔“ اعظم میاں بولے۔
”نہیں، نہیں، صرف تین گھنٹے روزانہ پڑھتے ہیں۔“
”اور باقی وقت؟“
”باقی وقت اپنے گھر کے کام کرتے ہیں۔ اچھی اچھی کتابیں پڑھتے ہیں۔ اپنی تنظیم کے اجتماعات میں شرکت کرتے ہیں۔ کچھ وقت کھیل بھی کھیلتے ہیں۔“
”ان کے محلے والے انہیں پسند کرتے ہیں؟“ اعظم میاں نے کچھ رشک سے پوچھا۔
”بہت! آپ خود ہی سوچیں جو لڑکے کسی کو تکلیف نہ پہنچاتے ہوں، بد تمیزی نہ کرتے ہوں، پڑھائی میں بھی اچھے ہوں۔ کھیل بھی کھیلتے ہوں تو نماز نہ چھوڑتے ہوں۔“
”کیا؟“اعظم میاں بات کاٹ کر بولے۔”وہ نماز بھی پڑھتے ہیں۔“
”جی ہاں، نماز تو ہم سب پر فرض ہے تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ جو بچے اتنے اچھے ہوں، انہیں بھلا کون نا پسند کرے گا؟“ تنویر نے جواب دیا۔
اعظم میاں سوچنے لگے۔”کیا میں بھی ایسا لڑکا بن سکتا ہوں۔“
ایک دم کسی نے ان کے کندھے پر زور سے ہاتھ مارا۔”ارے! تم یہاں ہو…… سارے لڑکے انتظار کر کے چلے بھی گئے۔ ہم نے تمہاری تلاش میں پورا بازار چھان مارا۔“ یہ طاہر تھا ان کی انجمن کا اہم رکن۔وہ ہڑ بڑا سے گئے۔
”وہ…… اصل میں ……یار…… بس……!!“
”کیا بات ہے، کہیں کام سے چلے گئے تھے کیا؟ چلو راستے میں بتانا۔“ طاہر نے ان کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔
اعظم میاں نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ قریب کی مسجد سے عصر کی اذان کی آواز بلند ہوئی۔”اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔“ طاہر نے ان کا بازو پکڑ کر کھینچا، لیکن وہ ایک دم اپنا بازو چھڑا کر تیز تیز قدم اٹھاتے مسجد میں چلے گئے۔ طاہر نے شدید حیرت بھری نظروں سے اعظم میاں کو دیکھا، پھر تنویر کو دیکھا جودکان بند کر رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں شکرو اطمینان جھلک رہا تھا۔ دکان بند کر کے وہ بھی مسجد کی سمت چل دیا۔
طاہر وہاں سے تیر کی طرح ریحان کے گھر پہنچا اور اس کے گھر کے باہر لگی گھنٹی اس زور سے بجائی کہ ریحان کے گھر والے اچھل پڑے۔ ریحان کے والد شدید غصے میں باہر نکلے لیکن طاہر کو دیکھ کر غصے کو پی گئے۔ انہیں ویسے ہی اعظم میاں کی ٹولی سے ڈر لگتا تھا۔ پتہ نہیں کیا گل کھلا ئیں۔ طاہر کو انہوں نے بڑی نفرت سے دیکھا اور بولے:
”ریحان کو بلانا ہے؟ بھیجتا ہوں۔“
ریحان آیا تو ظاہر نے چھوٹتے ہی جیسے بم دے مارا۔ ”ارے سنا؟ اعظم آج نماز پڑھنے چلا گیا ہے۔“
ریحان نے بے یقینی سے طاہر کو دیکھا اور ہنس پڑا۔
”ارے یار کوئی ماسٹر پیس شرارت کرنے گیا ہو گا مگر وہ اجلاس……“
”نہیں یار……“ طاہر نے اس کی بات کاٹ کر’نہیں‘ پر زور دیتے ہوئے کہا۔”تمہیں معلوم ہے وہ اجلاس میں نہیں آیا۔ مجھے بڑی تلاش کے بعد وہ کتابوں کی ایک دکان پر ملا۔ میں نے بات شروع کی توعجیب گڑ بڑا سا گیا۔ اسی وقت مسجد سے اذان ہوگئی اور وہ ہاتھ چھڑا کر مسجد میں چلا گیا۔ مجھے تو معاملہ گڑ بڑ لگتا ہے۔“
”اگر ایسا ہے تو واقعی گڑ بڑ ہے۔“ ریحان نے پریشان ہو کر کہا۔ ”اچھا ایسا کرتے ہیں۔چل کر اعظم سے پوچھے لیتے ہیں۔ ابھی پتہ چل جائے گا۔“
”ہاں ہاں چلو۔“طاہر نے چلتے ہوئے کہا۔
دونوں اعظم میاں کے گھر پہنچے۔ اعظم میاں گھر ہی پر تھے۔ بلانے پر باہر نکلے، طاہر نے ان کے باہر نکلتے ہی سوال کر ڈالا۔”بھئی اجلاس میں کیوں نہیں آئے؟“
”میں آپ کے اجلاس سے زیادہ اہم کام کر رہا تھا۔“ اعظم میاں نے آہستہ سے جواب دیا۔
”کیا مطلب؟“ ریحان نے پوچھا۔”یہ آپ کے اجلاس سے کیا مراد ہے؟ وہ ہمارا ہی نہیں آپ کا بھی اجلاس تھا۔“
”جی نہیں! وہ صرف آپ کا اجلاس تھا۔ میرا اب اس قسم کے کاموں سے کوئی تعلق نہیں۔“
”کیا کہا؟“ طاہر بوکھلا کر بولا۔”گویا اب تم ہمارے ساتھ کھیلو گے بھی نہیں۔“
”اچھے کھیل،میں کھیل سکتا ہوں لیکن نمازوں کے اوقات میں نہیں کھیلوں گا۔ دوسرے یہ کہ بے ایمانی والے کھیل میں شریک نہیں ہوں گا۔“ جواب ملا۔
”چھوڑ ویار، اس کا تو دماغ ہی خراب ہو گیا ہے۔“ ریحان نے طاہر کو کھینچتے ہوئے کہا۔ اور دونوں اعظم میاں سے بغیر ہاتھ ملائے چل دیے۔ راستے میں طاہر نے کہا۔ ”میری مانو تو لڑکوں کو بلا لو۔ ایک ہنگامی اجلاس کیے لیتے ہیں، سب کو یہ پتا چل جائے گا۔“
”بالکل، بالکل ٹھیک ہے۔“ ریحان نے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔”میرے ہی گھر بلا لو۔“
ذرا دیر میں سارے لڑکے اکٹھے ہو گئے۔ جلد ہی سب کو تازہ ترین صورت حال کا علم ہو چکا تھا۔ سب کے چہرے لٹکے ہوئے تھے۔ کچھ دیر خاموشی رہی پھر منیر عالم نے کھنکار کر گلا صاف کیا اور بات شروع کی۔
”دوستو! آپ کو علم ہے، ہمارا لیڈر ہم سے الگ ہو گیا ہے۔ پتہ نہیں کس نے اس پر جادو کیا ہے۔ لہٰذا اپنی انجمن کے تحفظ کی خاطر میری رائے یہ ہے کہ آج اس اجلاس میں اپنا صدر اور سیکریٹری وغیرہ چن لیں۔“
”بالکل ٹھیک ہے۔“کوئی جو شیلا لڑکا بولا۔
”ہاں ہاں۔“
”صحیح ہے۔“
”ہونا چاہیے۔“
کئی آواز میں آئیں۔
”تو پھر……“ منیر نے بات آگے بڑھائی……”صدارت کے لئے میں اپنا نام پیش کرتا ہوں۔“
”کیا؟“ ایک ساتھ کئی لڑکوں کے منہ سے نکلا اور طاہر نے تن فن ہو کر کہا۔”تم؟ تم کیوں صدر بنو گے؟ تم میں کون سے ہیرے موتی جڑے ہیں؟“
”اس لیے کہ میں اور صرف میں ہی اس عہدے کا اہل ہوں۔“ منیر نے ڈٹ کر کہا۔
اب وہاں موجود لڑکوں کے تین گروہ بن گئے۔ایک خاصا مضبوط گروہ منیر کی حمایت میں شور مچا رہا تھا۔ دو سرا گروہ طاہر کے حق میں تھا اور ایک چھوٹے سے گروہ کا کہنا یہ تھا کہ ”اس معاملے کوفی الحال رہنے دیں، کسی اور اجلاس میں اس پر غور کر لیا جائے۔“
تینوں میں سے کوئی بھی گر وہ بقیہ دو گروہوں کو قائل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ بات بڑھنے لگی۔ منیر کے طرف دار زیادہ تھے۔ اس نے آگے بڑھ کر طاہر کو گریبان سے پکڑا اور دھکا دیتے ہوئے کہا۔”چلو راستہ ناپو۔ آگئے بڑے صدر بننے۔“ اپنی توہین پر طاہر کو بھی غصہ آگیا۔ اس نے جواب میں منیر کے ایک زناٹے دار تھپڑ رسید کیا۔ اب کیا تھا با قاعدہ دھینگا مشتی شروع ہو گئی۔ ریحان کے گھر والے دوڑے آئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ لڑکے آپس میں ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہیں۔ کمرہ محشرستان بنا ہوا ہے، چیزیں الٹ پلٹ ہو گئی ہیں۔ کرسیاں ایک طرف اوندھی پڑی ہیں۔ سیاہی کی دوات نیچے ٹوٹی پڑی فرش کو رنگین بنا رہی ہے۔ میز پر رکھی کتابیں ایک دوسرے کو پھینک پھینک کر ماری جارہی ہیں اور ان کے پھٹے ہوئے ورق کمرے میں اڑتے پھر رہے ہیں۔ ریحان کے بھائی اور والد نے لڑکوں کو الگ کرنے کی بڑی کوشش کی لیکن لڑکے تھے کہ بپھرے ہوئے چیتوں کی طرح اچھل اچھل کر ایک دوسرے پر حملہ کر رہے تھے۔ اچانک ایک طرف سے آواز آئی۔
”ٹھہرو……!“

لڑکے لڑتے ہوئے ٹھہر گئے۔ یہ آواز ان کے لئے نئی نہ تھی۔ کمرے کے دروازے پر اعظم کھڑا ہوا تھا…… اعظم…… ان کا لیڈر، کھویا ہوا لیڈر!!
”آپ لوگوں نے مجھے یاد کیا تھا۔“ اعظم نے نہایت سنجیدگی سے ایک ایک لفظ ٹھہر کرادا کرتے ہوئے کہا۔
”میں یہاں نہ آتا، لیکن مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ آپ کا یہ”ہنگامی“ اجلاس واقعی ”ہنگامے“ کی نذر ہو گیا۔ لہٰذا مجھے یہاں آنا ہی پڑا۔ مجھے صرف یہ کہنا ہے کہ انجمن کی تشکیل کے ابتدائی مرحلے میں ہی عہدوں کی تقسیم پر اس شان کی لڑائی چھڑی ہے تو آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آئندہ مختلف مراحل پر امرود اڑاتے ہوئے اور آپس میں تقسیم کرتے ہوئے، پیسوں کے معاملے پر اور دیگر مسائل پر کیا کچھ فتنے نہ کھڑے ہوں گے۔محلے بھر کے لوگ آپ سے نفرت کریں گے، پڑھائی میں آپ پیچھے رہیں گے اور اللہ کے ہاں بری حرکات کی سزا ضرور ملے گی۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ ہم سب بری حرکات سے توبہ کریں اور اچھے لڑکے بن کر دکھا ئیں۔“
اعظم نے اپنی بات ختم کی۔ لڑکوں کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ ریحان کا بڑا بھائی تو حیرت سے منہ کھولے کھڑا تھا، لیکن ایک جانب سے آواز آئی۔”بہکا رہا ہے، ہمیں؟“
لڑکوں نے چونک کر اس کی جانب دیکھا تو منیر عالم کھڑا اعظم کو گھور رہا تھا۔ چند لڑکوں نے جیسے ہوش میں آکر اس کی ہاں میں ہاں ملائی لیکن لڑکوں کی اکثریت اعظم کے حق میں نظر آتی تھی کیونکہ ان میں سے بیشتر نظریں جھکائے کھڑے تھے۔ ایک دونے کمرے کی چیزیں اٹھا کر قرینے سے رکھنی شروع کر دیں۔ اور منیر چار پانچ حامیوں کو لے کر تنتنا تا ہوا باہر نکل گیا۔ اس کے جاتے ہی تمام لڑکوں نے مل کر کمرے کو درست کرنا شروع کر دیا۔ ذرا سی دیر میں ساری چیزیں سلیقے سے رکھ دی گئیں۔ سب جانے لگے لیکن اتنے میں ریحان کے والد کی آواز آئی۔
”بچو! ابھی مت جانا۔“
سارے لڑکے حیران ہو کر ٹھہر گئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ریحان کا بڑا بھائی ہاتھ میں مٹھائی کی پلیٹ لئے چلا آرہا ہے۔ پیچھے پیچھے ریحان کے والد۔ انہوں نے بڑی شفقت سے کہا۔
”بچو۔ آج میرے لئے ہی نہیں پورے محلے کے لئے انتہائی خوشی کا دن ہے کہ تم لوگوں نے اپنی غلطی کو محسوس کیا اور اچھے بچے بننے کا عہد کر لیا ہے۔ یہ مٹھائی اسی سلسلے میں ہے۔ اللہ تمہیں تمہارے عہد پر ثابت قدم رکھے……“
منیر نے وہاں سے نکل کر اپنی انجمن کی داغ بیل ڈالی۔ اس کی انجمن کا لائحہ عمل وہی تھا جو اعظم میاں طے کرنے والے تھے۔ وہی لوگوں کے گھروں سے کھانے پینے کی چیزیں پار کرنا،شرارتیں کرنا وغیرہ لیکن پہلے تو معاملہ یہ تھا کہ اعظم جیسا ذہین اور باصلاحیت لڑکا اس ٹولی کا لیڈر تھا۔ پھر لڑکوں کی اچھی خاصی تعداد تھی جو ان ہنگاموں میں شریک رہتی، انہیں کچھ کہتے ہوئے بھی لوگ گھبراتے تھے اور اب تو گنے چنے چار پانچ لڑکے تھے۔ ایک دوبار انہوں نے کیریاں اڑالیں یا امرود چرا لیے، لیکن کب تک؟
تپتی دوپہر تھی۔ منیر نے اپنی مختصرسی ٹولی کے ساتھ خان صاحب کے گھر پر چھاپے کا پروگرام بنایا تھا۔ خان صاحب تنویر کے والد تھے۔ منیر تنویر سے پہلے ہی بیزار تھا کیونکہ اس نے اعظم میاں کو اس کے خیال میں ”بہکا دیا“ تھا۔ اعظم میاں اب بچوں کی ایک اسلامی انجمن کے حلقہ اسکول میں شامل ہو گئے تھے جس کا ناظم تنویر تھا۔ لہٰذا تنویر سے بدلہ لینا ضروری تھا اور بدلہ لینے کی اچھی صورت یہ تھی کہ خان صاحب کے گھر پر چھاپہ مارا جائے۔
خان صاحب کا پھلوں کا اچھا خاصا کاروبار تھا۔ اس کے باعث ان کے گھر میں بھی پھلوں کی پیٹیاں رکھی رہتی تھیں، انہیں پر منیر کی نظر تھی۔
عثمان کا مکان خان صاحب کے مکان سے ملا ہوا تھا اور وہ منیر کی ٹولی میں شامل تھا۔ لہٰذا چپکے سے چھت کے ذریعے چھاپہ مار پارٹی خان صاحب کے گھر میں نازل ہو گئی۔ خان صاحب عموماً اس وقت دکان پر ہوتے تھے اس لئے ڈر کی کوئی بات نہ تھی۔
ادھر ادھر تاڑنے کے بعد انہیں ایک اسٹور نظر آیا۔ جس کے ادھ کھلے دروازے میں سے پھلوں کی پیٹیاں رکھی صاف دکھائی دے رہی تھیں۔ ایک ایک کر کے دبے پاؤں سب اندر داخل ہو گئے۔ سامنے رکھی پیٹی کا عثمان نے بغور جائزہ لیا۔ توڑنے کی کوئی چیز تلاش کرنے کے لئے نگاہ دوڑائی تو لو ہے کی ایک سلاخ بھی وہیں پڑی مل گئی۔ پیٹی تختوں کو جوڑ کر بنائی گئی تھی۔ دو تختوں کے درمیان ذراسی خالی جگہ میں سلاخ رکھ کر اس نے زور جو لگایا تو تڑاخ کی آواز سے تختہ ٹوٹ گیا اور پیٹی کے اندر سے کاغذ جھانکنے لگے۔
عثمان نے ہاتھ ڈال کر ایک کینو بر آمد کیا اور نسیم کو”چکھنے“ کے لئے دیا۔ اس نے فوراً چھیل کر ”سردار“ کی خدمت میں پیش کیا۔ خاصا میٹھا تھا۔ ہاتھ ڈال کر مزید کینو نکالے گئے۔ تینوں نے جلدی جلدی کینو چھیل کر کھانا شروع کر دیے۔ جلدی میں رس ان کے منہ سے ٹپک رہا تھا اور کہنیوں تک بہہ رہا تھا۔
”ارے یار کینو ہی کھاتے رہو گے۔ کچھ اور بھی دیکھو۔ کوئی دیکھنے والا ہے یہاں؟“
ابھی اس نے جملہ مکمل ہی کیا تھا کہ پیچھے سے ایک پاٹ دار آواز سنائی دی۔”کوئی دیکھنے والا ہو یا نہ ہو، اللہ بہر حال دیکھ رہا ہے۔“
نسیم کے ہاتھ سے بچا ہوا کینو نیچے گر پڑا۔ یہ خان صاحب کی آواز تھی۔ پتہ نہیں وہ کہاں سے آگئے تھے۔ چاروں لڑکوں کی سٹی گم تھی۔ چہروں پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔ چور رنگے ہاتھوں پکڑے گئے تھے!
خان صاحب نے چاروں لڑکوں کو دیکھا جو شرم سے سر جھکائے کھڑے تھے۔ انہیں شاید کچھ رحم آگیا، وہ بولے:
”لڑ کو……! تم نے محلے بھر کو پریشان کر رکھا ہے۔ آج تم میرے گھر چوری کرتے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہو۔ میں چاہوں، تو تمہیں یہیں پکڑ کر ماروں۔ چاہوں تو پولیس کے حوالے کردوں تاکہ حوالات میں ڈنڈے کھا کر تمہیں آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے اور تمہارے والدین کی رہی سہی عزت بھی خاک میں مل جائے۔ لیکن میں سوچتا ہوں تم ابھی بچے ہو۔ نا سمجھ تو نہیں کہوں گا، نادان ضرور ہو کہ اب تک تم دھوکا کھاتے رہے ہو۔ پتہ ہے کس سے؟“
چاروں لڑکوں نے کچھ ہاں، کچھ نہیں کے انداز میں سرہلایا۔
”شیطان سے۔“خان صاحب بولے۔”اس نے تمہارا دوست بن کر تمہیں زندگی کے مزے لوٹنے کی راہ دکھائی لیکن تمہیں شاید علم نہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ہے۔’حرام مال کھانے والے اور حرام لباس پہننے والے کی دعا اللہ تعالیٰ کبھی قبول نہیں کرتا۔‘ تم اس راہ میں چلتے رہو گے۔ نہ پڑھ لکھ کر قابل بن سکو گے، نہ تمہیں کہیں عزت کی نظرسے دیکھا جائے گا۔“
اسٹور میں خاموشی طاری ہو گئی۔ بالا ٓخر خان صاحب نے سکوت کو توڑتے ہوئے کہا:
”تم نے خود ہی دیکھ لیا کہ بُرے کاموں کا انجام اس دنیا میں ہی بعض اوقات اللہ تعالیٰ دکھا دیا کرتا ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ تم سیدھی راہ اختیار کر لو اور برے کاموں سے باز آجاؤ۔یہ اس نے تمہارے او پر احسان کیا ہے۔ اگر وہ اس طرح تمہیں نہ ٹو کتا تو تم پتہ نہیں کب تک بھٹکے رہتے۔ اعظم ہی کو دیکھ لو چند دنوں پہلے تک مجھے اس سے شدید نفرت تھی لیکن اب وہ ہی تبدیل نہیں ہوا بلکہ محلے کے اچھے خاصے لڑکوں میں تبدیلی آگئی ہے۔ اب سب ان سے محبت کرتے ہیں۔“
چاروں لڑکے سر جھکائے کھڑے تھے۔پھر خان صاحب نے کہا:
”اچھا! اگر میں تمہیں معاف کر دوں تو کیا میں امید کر سکتا ہوں کہ تم اچھے لڑکے بنو گے۔“
چاروں لڑکوں نے اثبات میں سر ہلایا۔ اب ان کے چہروں پر اطمینان کی جھلک نظر آنے لگی۔ خان صاحب نے کہا چلو ذرا غسل خانے میں جا کر منہ ہاتھ دھو آؤ۔“
چاروں لڑکے غسل خانے کی طرف یوں لپکے جیسے سدھے ہوئے گھوڑے اپنے مالک کے اشارے پر کام کرتے ہیں۔
منہ ہاتھ دھو کر چاروں باہر نکلے تو برابر کے کمرے میں خان صاحب بیٹھے تھے۔ انہوں نے ان سب کو بلا کر بیٹھنے کے لئے کہا۔ لڑکے کچھ ہچکچاتے ہوئے بیٹھ گئے۔ انہیں یقین نہیں آرہا تھا کہ خان صاحب نے انہیں معاف کردیا ہے۔
اچانک سامنے کا دروازہ کھلا اور خان صاحب کا ملازم ایک بڑی سی ٹرے لیے چلا آیا……لڑکوں کے سامنے وہ ٹرے رکھ کر رخصت ہو گیا۔ لڑکوں کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ ٹرے میں ڈھیر سارے کینو،سیب اور کیلے رکھے ہوئے تھے۔
خان صاحب ہنسے اور کہنے لگے:
”گھبراؤ مت، تم سب نے برے کاموں سے توبہ کی ہے، حضورﷺ نے بتایا ہے کہ بندے کی توبہ پر اللہ تعالیٰ کو بے حد خوشی ہوتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے بندوں کو کیوں نہ ہو…… لو…… شرماؤ مت۔“
چاروں لڑکوں نے جھجکتے ہوئے ٹرے کی جانب ہاتھ بڑھا دیے اور خان صاحب نے ذرا بلند آوازمیں کہا:
”بیٹا…… اب تم بھی آجاؤ،چھپ کر کیوں کھڑے ہو۔“
لڑ کے حیران رہ گئے۔ ہر ایک کا ہاتھ جہاں تھا وہیں رہ گیا۔ اس لئے کہ ان کی ٹولی کا پانچواں رکن رفیع دروازہ کھول کر ہنستا ہوا داخل ہو رہا تھا۔ خان صاحب بھی مسکرا رہے تھے۔
اب ان لڑکوں کی سمجھ میں آیا کہ رفیع کیوں ان کے ساتھ خان صاحب کے گھر پر چھاپہ مارنے میں شریک نہیں ہوا تھا اور کس طرح خان صاحب کو ان کے چھاپے کا قبل از وقت علم ہو گیا تھا۔ انہیں یاد آنے لگا کہ رفیع انہیں اکثر شرارتوں سے روکا کرتا تھا، گو وہ ان کے ساتھ تھا مگر وہ انہیں شرارتوں سے روکنے کے لئے ان کے ساتھ رہا کرتا تھا۔
خان صاحب بولے:
”لڑ کو گھبراؤ مت۔ رفیع نے در حقیقت دوستی کا حق نبھایا ہے، اسے تمہاری بڑی فکر تھی کہ کسی طرح تم شرارتوں سے باز آجاؤ، اس لئے اس نے مجھے تمہارے چھاپے کی خبر کر دی تھی۔ خیر چھوڑو ان باتوں کو۔ یہ تو لو سیب بہت اچھے ہیں!“
لڑ کے ذرا شرمندہ شرمندہ سے پھل کھانے لگے اور خان صاحب بولے:
”اللہ کا احسان ہے، یہ میری حلال کی کمائی ہے اور یہ تمہارے لئے بہتر ہے، چوری چھپے کسی کا مال اڑا کر کھانا حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ رکھے۔“
چاروں لڑکوں کے چہرے زرد پڑ گئے۔ شاید انہیں اپنی چوری یاد آگئی تھی۔
خان صاحب نے اس کیفیت کو بھانپ لیا اور جلدی سے بولے:
”اب ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ تم نے تو غلط کاموں سے توبہ کرلی ہے نا۔ حضورﷺ نے بتایا ہے کہ برے کاموں سے باز آجانا بھی ایک نیکی ہے۔ اب جو کچھ ہوا اسے بھول جاؤ۔ لو تم رک گئے……“ انہوں نے خود ہی ٹرے سے پھل نکال کر لڑکوں کی طرف بڑھا دیے۔ پھل کھا چکنے کے بعد لڑکوں نے جانے کی اجازت چاہی۔ خان صاحب انہیں دروازے تک چھوڑنے آئے۔ ان کے سروں پر ہاتھ پھیر کر دعا دی۔
”اللہ تمہیں اچھائی پر قائم رکھے۔“
لوگ حیران تھے۔ یہ کیا تبدیلی آگئی؟ پہلے اعظم میاں اور ان کی ٹولی کے اچھے خاصے لڑکوں نے شرارتیں اور بد تمیزی چھوڑ دی۔ پھر منیر اور اس کے ساتھ رہنے والے تین چار لڑکے بھی سر جھکائے گلیوں سے گزرتے پائے گئے۔ محلے کی دیواریں بے ہودہ نعروں اور عجیب عجیب انکشافات سے پاک ہو گئیں۔ کیریاں درختوں پر لگے لگے پیلی ہو گئیں۔ مرغیوں اور انڈوں کا غائب ہو نا بند ہوگیا تھا۔
اعظم میاں کی انجمن با قاعدہ وجود میں آنے سے پہلے ہی اپنے انجام کو پہنچ گئی تھی۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top