انجام
عبدالرشید فاروقی
۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے گیارہ بجے کا وقت تھا۔آسمان پر باد ل ٹولیوں کی شکل میں منڈلاتے پھر رہے تھے۔بجلی کی چمک اوربادلوں کی گرج ماحول کوبھیانک بنارہی تھی۔ رحمت علی بے چینی سے، اپنے گھر کے کچے صحن میں ٹہل رہا تھا۔اس کی نگاہیں باربار آسمان کی طرف اُٹھتی تھیں۔ایک کونے میں اس کی بیوی زلیخا چادر تانے سورہی تھی۔اچانک بڑے زور سے بادل گرجا اور ساتھ ہی موسلادھار بارش شروع ہوگئی۔ بارش کے آنے کی دیر تھی، زلیخابھی اُٹھ بیٹھی۔ رحمت علی کی آنکھوں میں زمانے بھر کی پریشانی تھی:
”اب کیا ہوگیا، ہماری فصل تو کھیت میں پڑی رہی تو برباد ہوجائے گی، میں نے اس بار کتنی محنت کی تھی۔“ رحمت علی نے زلیخا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”یہاں کھڑے رہنے سے کچھ حاصل نہ ہوگا، بھائی کرموں کو ساتھ لے جاؤ اور جتنی فصل آ سکتی ہے، لے آؤ۔“ زلیخا نے چارپائی اندر رکھتے ہوئے کہا۔
”اچھا ……تو گامے پتر کو اُٹھا دے، چل جلدی کر، میں بھائی کرموں کو بلاتا ہوں۔“ رحمت علی نے تیزی سے کہا اور گھر سے باہر نکل گیا۔ وہ کرموں کے گھر کے پاس پہنچا اور قدرے اُونچی آواز سے بولا:
”بھائی کرموں ……او بھائی کرموں!!“
چند لمحوں بعد کرموں دروازے پر آیا اور بولا:
”کیوں بھائی رحمت علی! کیا ہوا؟“ اس کے لہجے میں حیرت تھی۔
”یار! تمہیں تو پتا ہے، میری ساری فصل کھیت میں کٹی پڑی ہے، صبح تھریشر لگے گا، لیکن بھائی! یہ بارش تو برباد کر دے گی اسے، میرے ساتھ آؤ، دونوں بھائی مل کر کچھ نہ کچھ تو بچا ہی لیں گے۔“ رحمت علی ایک ہی سانس میں کہتا چلا گیا۔
”وہ …… وہ…… میں ……“ اس کی بات سن کرکرموں ہکلایا۔
”کیا ہوا بھائی کرموں ……خیر تو ہے۔“
”وہ ……وہ …… میری بیوی بیمار ہے اور ساتھ میں چھوٹا بیٹا منظور بھی،تم ہی کہو، میں انہیں اس حالت میں چھوڑ کر کیسے جا سکتا ہوں بھلا۔“
”بھائی! میری ساری محنت ضائع ہو جائے گی۔ اللہ کرم کرے گا، تم میرے ساتھ آجاؤ۔“ رحمت علی کا لہجہ رو دینے والا تھا۔
”نہ بھائی، میں ان حالات میں تمہارے ساتھ نہیں جا سکتا ہوں۔“ کرموں نے بے رُخی سے کہا اور گھر کے اندر جا کر دروازہ بند کر لیا۔
رحمت علی کو اپنے دوست کرموں سے ایسے رویے کی ذرا اُمید نہیں تھی۔ انکار سن کر وہ دھک سے رہ گیا۔ پھر اسے خیال آیا کہ وہ بارش میں کھڑا ہے۔ وہ پلٹا اور اپنے کھیت کی جانب جانے لگا۔ اس کے ہاتھ میں تیز روشنی والی ایمرجنسی لائٹ پکڑی ہوئی تھی۔ بارش اتنی شدید تھی کہ ذرا سی دیر میں گاؤں کی کچی گزر گاہیں خراب ہو کر رہ گئی تھیں۔ رحمت علی جب اپنے کھیت میں پہنچا تو اس کا بیٹا گاما چھوٹی سی لائٹ لیے پہلے ہی سے وہاں موجود تھا۔وہ گندم کے گٹھے اُٹھا کرگدھا گاڑی پر رکھ رہا تھا۔
”ارے گامے پتر! اتنی جلدی آگیا تو۔“ رحمت علی نے کہا۔
”ہاں ابا جی! پر وہ چچا کرموں کہاں ہے، نظر نہیں آرہا ہے۔“ گامے نے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے، حیرت سے کہا۔
”اس نے آنے سے انکار کر دیا ہے۔ کہتا ہے، اس کی بیوی اور چھوٹا بیٹا بیمار ہے۔“
”لیکن ابا جی……“ گامے نے کچھ کہنا چاہا ……رحمت علی نے ہاتھ اُٹھاکر اسے روک دیا، بولا:
”کچھ مت کہو…… وہ میرا دوست ہے۔“
”ابا جی……“
”چھوڑ گامے پتر…… بارش اور تیز ہو رہی ہے، تو ریڑھی کو لے جا اور آتے ہوئے گھر سے تین چار موٹے کپڑے یا ترپال ضرور لیتے آنا…… جا جلدی کر۔“
”اچھا ابا جی۔“ گامے نے کہا اور ریڑھی لیے گھر کی طرف چل پڑا۔
”ہم ریڑھی پر کتنی گندم ڈھو سکیں گے بھلا، خیر! جتنی بچا سکتے ہیں، اتنی تو ضرور بچائیں گے، باقی اللہ مالک ہے۔“ رحمت علی نے ریڑھی کو دیکھتے ہوئے کہا اور پھر کام میں لگ گیا۔
وہ گٹھوں کو اُٹھا کر تیزی سے، درختوں کے جھنڈ کے نیچے رکھنے لگا۔ یہ جھنڈ کھال کے ساتھ ساتھ تھا۔اس کے ہاتھ تیزی سے چل رہے تھے۔ اچانک اس کے کھیت میں ایک شخص آ نکلا۔ اس کے ہاتھ میں تیز روشنی والی لائٹ تھی۔ یہ بخشو تھا۔ اسے دیکھتے ہی رحمت علی کی آنکھوں سے جیسے شعلے سے نکلنے لگے:
”تم …… تم…… میرے کھیت میں کیوں آئے ہو؟“اس نے پھنکارتے ہوئے پوچھا۔
”تمہاری مدد کرنے۔“ بخشو نے آہستہ سے کہا۔
”لیکن …… لیکن تم تو میرے دشمن ہو۔“ رحمت علی نے جلدی سے کہا۔اب اس کے چہرے پر حیرت ہی حیرت تھی۔
”میں تمہیں دشمن نہیں سمجھتا ہوں میرے دوست، یہ صرف تمہارا خیال ہے۔“ بخشو نے اطمینان سے جواب دیا۔
پھر اس سے پہلے کہ رحمت علی مزید کچھ کہتا، بخشو گٹھے اُٹھا کر درختوں کے جھنڈ کے نیچے رکھنے لگا۔ پھر اچانک وہ چونک اُٹھا اور بولا:
”ارے! میں تو اپنی گڈّایعنی بیل گاڑی لے کر آیا ہوں، رحمت علی جلدی کرو، گٹھے اُٹھا کر میرے گڈے پر رکھتے جاؤ۔“ یہ کہہ کر بخشو خود بھی تیزی سے گٹھے اُٹھا نے لگا۔ رحمت علی نے چند لمحے کچھ سوچا، پھر حرکت میں آگیا۔ ذرا سی دیر میں بہت سی گندم گڈے کے اوپر پہنچ چکی تھی اور بخشو اس پر ایک بڑی ترپال ڈال چکا تھا:
”ہم ریڑھی اور گڈے کی مدد سے بہت ساری فصل بچانے میں کامیاب ہو جائیں گے، ان شاء اللہ …… بس ذرا محنت کرنا ہوگی۔“ بخشو نے مسکراتے ہوئے کہا، پھر رحمت علی سے مخاطب ہوا:
”جاؤ، یہ اپنے گھر رکھ آؤ، میں گاما کی مدد کرتا ہوں۔“ بخشو نے کہا اور سامنے سے آتے ہوئے گاما کی طرف دیکھنے لگا۔رحمت علی گڈے کے اُوپر بیٹھ گیا اور پھر وہ گھر کی جانب روانہ ہوگیا۔ بارش کی شدت میں اب کمی آ چکی تھی۔
بخشو کی مدد سے رحمت علی اپنی بہت سی فصل خراب ہونے سے بچانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔
”اچھا بھائی رحمت! اب میں چلتا ہوں، گھر میں بچی بیمار ہے۔“ بخشو نے گڈے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
”اوہ ……زاہدہ بیمار ہے ……تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا…… میں بھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔“ رحمت علی نے جلدی سے کہا۔
”نہیں ……رہنے دو، تم اپنی فصل کی فکر کرو، اس بار تم نے بڑی محنت کی ہے اس پر۔“ بخشو نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”میرا خیال ہے دوست! ہماری صلح ہوچکی ہے۔“ رحمت علی بھی مسکرایا۔
”ہاں! لیکن……“ بخشو نے کہنا چاہا۔
”چلو، جلدی کرو۔“ رحمت علی نے گڈے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے۔“ بخشو نے کندھے اُچکائے اور بیلوں کو ہانکنے لگا۔
O
چوہدری فصل دین کی بیٹھک میں اس کے خاص آدمی بیٹھے تھے۔ خودوہ ایک طرف بیٹھا حقے کے کش لے رہا تھا۔ اس نے بیٹھک میں موجود لوگوں پر ایک نگاہ ڈالی اور بولا:
”سنا تم لوگوں نے…… رحمت علی اور بخشو کی صلح ہوگئی ہے۔“
”جی چوہدری صاحب…… ایسا ہی ہے…… ہم سب حیران ہیں، ان کی صلح ہو کیسے گئی؟“ کرموں نے حیرت سے کہا۔
”رات کھیت سے فصل اُٹھانے میں بخشو نے رحمت علی کی مدد کی تھی۔“ مہنگے چمار نے کہا۔
”ہاں! ایسا ہی ہوا ہوگا …… وہ میرے پاس آیا تھا، لیکن میں نے بہانہ کر دیاتھا۔“ کرموں نے منہ بنا کر کہا۔
”اوہ…… یہ بہت برا ہوا، ان کی دوستی ایک بار پھر ہمارے لیے مشکلات پیدا کر دے گی۔“ چوہدری فضل دین کے چہرے پر فکرمندی کے آثار تھے۔
”اب ہم کیا کریں چوہدری صاحب؟“
”’وہی جو پہلے کیا تھا……انہیں ایک بار پھر لڑا دو۔“
”ایسے کاموں میں کرموں بھائی سب سے بہتر ہیں …… پچھلی مرتبہ بھی انہوں نے ہی ……“ اچھو قصائی کہتے کہتے رُک گیا۔
”لیکن اب میں یہ کام نہیں کر سکتا ہوں …… رحمت اب میری چال میں نہیں آئے گا…… بخشو اسے تمام باتیں بتا چکا ہوگا۔“ کرموں نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا۔
”تو پھر اب ہم کیا کریں؟“ چوہدری فضل دین نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”ہم کیا کر سکتے ہیں چوہدری صاحب!!“ موٹے سے ایک آدمی نے فکر مندی سے کہا۔
”کیا ہم یہ برداشت کر لیں کہ وہ دونوں اپنا اناج اُگائیں اور شہر جاکر اچھے داموں فروخت کرکے خوب منافع کمائیں، پھر اُن کی دیکھا دیکھی دوسرے بھی ایسا کر سکتے ہیں۔ نہیں بھائی! یوں تو ہمارا نقصان ہوگا کیونکہ ہم ان سے سستے داموں اناج خریدتے ہیں۔“ چوہدری فضل دین نے کہا۔
اسی وقت ملازم اندر داخل ہوا اور بولا:
”چوہدری صاحب! رحمت علی بیل چھوڑ گیا ہے اور کہہ گیا ہے …… اسے اب آپ کے بیلوں کی ضرورت نہیں ہے۔“
”اوہ…… وہی ہوا، جس کا مجھے ڈر تھا……یقینا بخشو نے رحمت علی کے کان بھرے ہوں گے، وہ بہت سمجھ دار ہے…… لیکن اب کیا ہوگا۔“ چوہدری فضل دین نے پگڑی اُتار کر ایک طرف رکھتے ہوئے کہا۔
”چوہدری صاحب! میرے لیے کوئی حکم؟“ کمالے نے پوچھا۔
اس کی بات سن کر فضل دین سر جھکا کر کسی سوچ میں گم ہوگیا۔
”بس ٹھیک ہے…… میرے ذہن میں ایک ترکیب آ گئی ہے۔ تم لوگ جاؤ، میں ان دونوں کو دیکھ لوں گا۔“ چوہدری فضل دین نے اچانک سر ُاٹھا کر کہا۔ سب لوگ چلے گئے۔ وہ چند لمحے وہیں بیٹھا رہا۔ پھر وہ مسکراتا ہوا اُٹھا اور گھر کے اندر چلا گیا۔
O
”ہوں ……تو یہ سب کرموں،چوہدری فضل دین اوراس کے چمچوں کاکیا ہوا تھا۔“رحمت علی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”ہاں!بھائی رحمت علی، تم بہت سادہ اور شریف ہو، یہ تمہاری سادگی اور شرافت ہی ہے کہ میں تمہارے اتنا قریب ہوں ……کرموں بہت چالاک اورمکارشخص ہے …… اس نے بڑی چالاکی سے ہمیں ایک دوسرے سے دور کر دیا تھا، اس نے ایسا یقینا چوہدری فضل دین کے کہنے پر کیا ہوگا، ظالم فضل دین نے بہت عرصہ ہمیں بے وقوف بنایا، ہم سے سستے داموں اناج اور دیگر اجناس خریدتا رہا ہے، لیکن اب ایسا نہیں ہوگا، ہم اپنی چیزیں شہر جاکر فروخت کیا کریں گے اور یوں اچھا منافع کمائیں گے……“
”بالکل …… ہم ایسا ہی کریں گے…… بھائی بخشو! کیا کرموں اور فضل دین آرام سے بیٹھ جائیں گے۔“ رحمت علی نے کہا۔
”میراخیال ہے…… کرموں تو اب ہمارے قریب بھی نہیں آئے گا، البتہ فضل دین ایک بار پھر ہمیں لڑانے کی کوشش ضرور کر سکتا ہے یا پھر کچھ اور ……خیر، اس بار وہ منہ کی کھائے گا۔“ بخشو نے کہا۔
”ہم اب کسی کو بھی اپنے درمیان نہیں آنے دیں گے…… ہمارا اتفاق پورا گاؤں دیکھے گا۔“ رحمت علی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”جیسے پہلے دیکھتا تھا۔“
”ایسا ہی ہوگا،ان شاء اللہ ……چلو اپنے کھیت ٹھیک کرنے چلیں،رات کی بارش نے خوب تباہی مچائی ہوگی۔“
”ٹھیک ہے …… آؤ۔“
O
”کمالے! تمہاری ضرورت پڑ گئی ہے، کیا تم تیار ہو؟“ چوہدری فضل دین نے اپنے سامنے کھڑے نوجوان سے کہا۔
”چوہدری صاحب! آپ حکم دیں، میں اور میرے بندے…… ہر وقت آپ کی خدمت کے لیے تیار رہتے ہیں۔“ کمالے نے مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہا۔
”اچھا تو پھر سنو……“ چوہدری فضل دین نے مسکراتے ہوئے کہا اور کمالے کو اپنا منصوبہ بتانے لگا۔
”ہوں …… میں سمجھ گیا، آپ فکر ہی نہ کریں۔“ کمالے نے پوری بات سن کر کہا۔
”ذرا احتیاط سے۔“
”چوہدری صاحب! آپ فکر نہ کریں، سب کام ٹھیک ہوجائے گا۔“
”تو پھر تم جاؤ اور اپنا کام کرو۔“
”اوکے۔“ کمالے نے کہا اور چوہدری کی بیٹھک سے نکل گیا۔ اس وقت رات کے دس بج رہے تھے۔
O
”چل اب تو بھی سو جا۔“رحمت علی نے زلیخا سے کہا۔ وہ اُٹھ کر اپنی چارپائی کی طرف چلی گئی۔
”میں سوچ رہی تھی کہ یہ مٹکا بھی دھولوں۔“ اس کی نظر چارپائی کے پاس پڑے مٹکے پر تھی۔
”اللہ کی بندی! اللہ نے رات آرام کے لیے بنائی ہے…… مٹکا صبح دھو لینا۔“رحمت علی نے مسکراتے ہوئے کہااور کروٹ بد ل کر سوگیا۔
رات کے قریباً دو بجے ایک آدمی اُن کے گھر کی بیرونی دیوار پر چڑھا اور پھر دیوار کوپکڑکر نیچے لٹک گیا۔پھر اُس نے آرام سے ہاتھ چھوڑدیے۔وہ چند لمحے تودیوار کے قریب کھڑاجائزہ لیتارہا……پھر اس نے آگے بڑھ کردروازے کی کنڈی کھول دی۔فوراً ہی اس کے ساتھی اندرآگئے۔یہ کمالا اور اُس کے ساتھی تھے۔
”لگتاہے…… سب سورہے ہیں۔“کمالے کے ایک ساتھی نے سرگوشی کی۔
”ہاں ……“
وہ سب احتیاط سے اس کمرے کی جانب بڑھنے لگے،جہاں رحمت علی، اس کی بیوی زلیخا اور گاما سو رہے تھے۔اچانک کمالے کے بڑھتے قدم رُک گئے۔وہ اپنے ساتھیوں کی طرف مڑا اورآہستہ سے بولا:
”جو چیز ہاتھ لگے…… اُٹھالو…… لیکن ذرااحتیاط سے۔“
اس کے ساتھی اِدھر اُدھر پھیل گئے۔کمالا ایک مرتبہ پھر کمرے کی طرف بڑھنے لگا۔ درواز ے کے قریب پہنچ کر، اس پر ذراسا دباؤ ڈالا تو وہ کھلتا چلا گیا۔شاید رحمت علی کی بیوی سونے سے پہلے کنڈی لگانا بھول گئی تھی۔ دروازے کے کھلتے ہی کمالے کی آنکھوں میں چمک عود کر آئی۔ وہ دبے پاؤں اندرداخل ہوگیا۔رحمت علی اور اس کی بیوی زلیخا بے خبرسورہے تھے۔
کمالے نے ایک نظر زلیخا پرڈالی اورپھر رحمت علی کی طرف بڑھنے لگا۔ ایک ایک قدم احتیاط سے اُٹھاتا وہ رحمت علی کی چارپائی کے نزدیک ہو رہا تھا۔
رحمت علی کی چارپائی کے قریب پہنچ کر وہ رُک گیااور پھراس کا ہاتھ جیب سے ہوکر باہر نکلا تواس میں سیاہ رنگ کا ریوالور تھا۔اس نے ایک نگاہ ریوالورپر ڈالی ……اچانک ایک ہاتھ اس کی گردن پراوردوسرا ریوالور والے ہاتھ پر آجما۔اس اچانک افتاد پر وہ وہ گھبرا اُٹھا۔
”تم سمجھ رہے تھے کہ میں بے خبرہوں گا……پاگل۔“
رحمت علی کی سرگوشی اُبھری تو کمالے کی آنکھیں حیرت وخوف سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اس نے اُس کی حیرت سے فائدہ اُٹھایا اور ایک جھٹکامارا…… آن کی آن میں ریوالور اس کے ہاتھ میں تھا۔پھر اس کا ہاتھ فضا میں بلندہوا…… اگلے چند لمحات میں کمالا بے ہوش ہوچکا تھا۔ یہ سب اتنی جلدی ہواکہ کمالے کومنہ سے آواز نکالنابھی نصیب نہ ہوئی۔اُسے چارپائی پرلٹاکر رحمت علی دروازے کی جانب بڑھا۔ پھر اس کے منہ سے ایک خوفناک قہقہہ بلندہوا…… باہر کمالے کے ساتھی بوکھلااُٹھے …… وہ گھبرا کر گھر کے بیرونی دروازے کی طرف دوڑے۔ ایک نے کنڈی کھولی تو سب جلدی سے باہر نکل گئے۔
رحمت علی مسکراتاہوا واپس کمرے میں آیاتو زلیخا اورگاما جاگ چکے تھے۔
”اباجی! یہ کیاتھا……“ گامے نے حیرت سے پوچھا۔
”بتاتا ہوں ……پہلے جاکر دروازہ بندکرآؤ۔“رحمت علی نے ہنستے ہوئے کہا۔
گاما حیران وپریشان اُٹھااوردروازہ بندکرآیا۔
”ارے…… یہ کیا؟“زلیخا کی نظرجونہی بے ہوش کمالے پرپڑی، اُس کے منہ سے مارے حیرت کے نکلا۔
رحمت علی بولا:
”یہ کمالا ہے……چوہدری فضل دین کاآدمی ……شاید مجھے قتل کرنے آیا تھا، لیکن میں منصوبے کے مطابق تیار تھا…… بھائی بخشوکو پہلے ہی اس بات کا شک تھاکہ چوہدری فضل دین ہماری صلح کو برداشت نہیں کر ے گا، اس لیے ہم دونوں ہر طرح کے حالات کے لیے تیار تھے۔“
”اوہ……“زلیخا اورگامے کے منہ سے نکلا۔
”فکر والی کوئی بات نہیں ……گامے پتر! تو جااوربخشو کوبلالا۔“رحمت علی نے حیران و پریشان کھڑے گامے سے کہا تو وہ بھاگ کر گھر سے نکل گیا۔پندرہ منٹ بعد بخشو وہاں موجود تھااورتمام قصہ سن چکاتھا۔
”اب کیاکریں ……یہ چوہدری توہمیشہ سے ہمارادشمن رہاہے۔“بخشو نے پریشان ہوکرکہا۔
”کیوں نہ ہم گاؤں والوں کو ساری حقیقت بتا دیں ……“ زلیخا نے تجویز پیش کی۔
”بات تو تمہاری ٹھیک ہے، لیکن اس سے پہلے میں شہر میں موجود اپنے دوست سے بات کروں گا۔“ رحمت علی نے کہا۔
”شہر میں تمہارا کون سا دوست ہے بھائی رحمت علی؟“ بخشو نے حیرت کا اظہار کیا۔
”تم اُسے نہیں جانتے …… وہ محکمہ سراغ رسانی میں ملازمت کرتاہے۔“
”ٹھیک ہے، یہ لو میرا موبائل، اس سے فون کرلو۔“ بخشو نے اپنا موبائل نکال کر رحمت علی کو دیا۔ اس نے جیب سے سگریٹ کی ڈبی کا گتا نکالا اور اس سے دیکھ کر نمبر ملانے لگا۔اس نے اپنے دوست کو ساری صورت حال بتائی…… پھر دوسری طرف کی بات سننے لگا۔ تھوڑی دیر بعد وہ موبائل بندکرکے بخشو سے مخاطب ہوا:
”وہ آرہاہے ……“
”ارے…… کیارات کے وقت بھی محکمہ کھلا ہوتاہے۔“
”اس کا تو مجھے پتا نہیں، میں نے اسے موبائل پر فون کیا تھا …… وہ آ رہا ہے۔“
”ٹھیک ہے…… اب اس کا کیا کریں …… اس کے باقی ساتھی تو بھاگ گئے ہیں …… وہ یقینا چوہدری فضل دین کو اطلاع کریں گے۔ اگر وہ اپنے بندوں کو لے کر یہاں آگیا تو کیا ہوگا؟“ بخشو نے کہا۔
”اللہ سب ٹھیک ہی کرے گا…… شہر سے ہمارے گاؤں کا فاصلہ ایک گھنٹے کا ہے…… ہمیں یہ گھنٹا تو نکالنا ہی ہے …… جیسے تیسے کرکے۔“ رحمت علی نے کہا۔ وہ فکر مند نظر آنے لگا تھا۔ بخشو، زلیخا اور گاما بھی یکایک پریشان ہوگئے تھے۔ چوہدری فضل دین کا گاؤں میں بڑا رعب و دبدبا تھا۔ وہ چھوٹے زمینداروں کو بہت تنگ کرتا تھا…… وہ انہیں گمراہ کرکے، ان سے سستے داموں اجناس خرید کر شہر میں مہنگے داموں فروخت کرتا تھا۔
”کیا ہم گاؤں والوں کو ساری بات بتا دیں۔“ زلیخا نے اپنی بات دہرائی۔
”پورے گاؤں والوں کو نہیں، البتہ اپنے اچھے تعلقات والوں کو بتا دیتے ہیں۔“
”کچھ لوگوں کو بتانے کا مقصد، پورے گاؤں میں بات پھیلانا ہے…… ہمیں ایک گھنٹا تو نکالنا ہی ہوگا۔“ بخشو مسکرایا۔ اس نے خود کو سنبھال لیاتھا۔
”ایسا ہی ہوگا…… ان شاء اللہ۔“
”ابا جی! میرا خیال ہے، چوہدری فضل دین کے ذہن میں یہ ہرگز نہیں ہوگا کہ ہم شہر سے کسی کی مدد لیں گے، اس لیے اسے جو کرنا ہے، وہ آرام سے کرے گا…… یوں ایک گھنٹا تو گزر ہی جائے گا۔“گامے نے سوچتے ہوئے کہا۔
”ارے ہاں …… تم نے ٹھیک کہا گامے پتر……اللہ خیر کرے گا۔“
پھر ایسا ہی ہوا…… چوہدری اور اس کے بندے تو نہ آئے…… شہر سے رحمت علی کا دوست اپنی کار میں وہاں پہنچ گیا۔رحمت علی کی ہدایت کے مطابق انہوں نے اپنی کار اس کے گھر سے کافی دور کھڑی کی تھی۔
”انسپکٹر جلال احمد!بہت شکریہ…… میں بہت پریشان ہوں۔“ رحمت علی نے اسے دیکھتے ہی کہا۔
”پریشانی کو دُور بھگا دو…… اب میں آگیا ہوں …… سب ٹھیک ہوجائے گا۔“
”ہمیں یقین ہے۔“ بخشو اور زلیخا نے ایک ساتھ کہا تو انسپکٹرجلال احمدمسکرا دیے۔
رحمت علی اور بخشو نے ایک بار پھر اسے ساری بات تفصیل سے بتا دی…… وہ بولے:
”تم فکرنہ کرو، میں اس سے سب کچھ اگلواکرچوہدری فضل دین کوگرفتارکرلوں گا۔“ انسپکٹر جلال احمد نے کہا۔پھر چونک کر بولے:
”اس واقعے کو ایک گھنٹا تو ہو ہی چکا ہے…… کیا چوہدری فضل دین نے تمہارے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔“
”ابھی تک تو کوئی نہیں کی لیکن……“ رحمت علی کہہ رہاتھا کہ اسی وقت بیرونی دروازے کو زور زور سے بجایا جانے لگا:
”وہ ……وہ……آ گئے۔“ زلیخا نے ہکلا کر کہا۔
”میں دیکھتا ہوں انہیں …… تم اس کا خیال رکھو۔“ انسپکٹر جلال احمد نے بے ہوش کمالے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ انہوں نے ریوالور ہاتھ میں لیا اور دروازے کی طرف بڑھ گئے۔
پھر وہی ہوا…… جو برا کرنے والوں کے ساتھ ہمیشہ ہوتا ہے…… چوہدری فضل دین اپنے ساتھیوں کے ساتھ گرفتار کر لیا گیا۔ جس وقت اُسے انسپکٹر جلال احمد لے جا رہے تھے تو گاؤں کے ایک بوڑھے کسان نے زور سے کہا:
”اس کا ظلم حد سے بڑھ گیا تھا…… اور جو چیز حد سے بڑھ جائے، اس کا انجام برا ہی ہوتا ہے…… ہاں، برا ہی ہوتا ہے۔“
OOO