skip to Main Content
اندھا جرم

اندھا جرم

اشتیاق احمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’ بپ۔۔۔ نن۔۔۔ شش۔۔۔ لل۔۔۔لل۔۔۔‘‘
فاروق کے منہ سے مارے بوکھلاہٹ کے نکلا تو محمود نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ 
’’یہ ۔۔۔ یہ کون سی زبان کے الفاظ ہیں۔‘‘
’’ارے باپ رے۔۔۔ دوڑو۔۔۔ بس تو وہ گیا۔‘‘ فاروق چلا اٹھا۔۔۔ ساتھ ہی اس نے دوڑ لگا دی۔ محمود کی حیرت کا کیا ٹھکانا۔۔۔ وہ بھی بے تحاشہ اس کے پیچھے دوڑ پڑا۔۔۔ ساتھ ہی اس نے چیخ کر کہا۔
’’ کیا ہو گیا تمہیں۔۔۔ کچھ پتا بھی تو چلے۔‘‘
’’ اے خبردار۔۔۔ رک جاؤ۔۔۔ نہیں چھوڑوں گا میں تم لوگوں کو۔۔۔ خبردار۔۔۔‘‘ ان الفاظ کے ساتھ ہی فاروق گویا اڑنے لگا۔۔۔ اس روز محمو دکو حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔۔۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ فاروق اس قدر تیز بھی دوڑ سکتا ہے۔۔۔ یا پھر کوئی انجانی طاقت اسے اڑائے لے جارہی تھی۔۔۔ وہ پوری کوشش کرنے لگا کہ درمیانی فاصلہ زیادہ نہ ہونے پائے۔ پھر اچانک اسے رک جانا پڑا۔۔۔ فاروق ایک درخت کے پیچھے اس کی ایک شاخ پکڑے کھڑا نظر آیا۔۔۔ اس کا سانس بہت تیزچل رہا تھا۔۔۔ جونہی محمود اس کے سامنے پہنچا۔۔۔ وہ رو پڑا۔۔۔
’’نکل گئے کم بخت۔۔۔ وار کرنے میں کامیاب رہے۔‘‘
’’ یار تم آج پاگل تو نہیں ہو گئے۔۔۔ ہوا کیا ہے۔‘‘
’’ وہ ۔۔۔ ادھر دیکھو۔‘‘ اس نے انگلی سے اشارہ کیا۔
دوسرے ہی لمحے محمود تھرا اٹھا۔۔۔ خود رو پودوں کے درمیان ایک شخص زخموں سے چور بری طرح تڑپ رہا تھا۔۔۔ خون بہت تیزی سے ابل رہا تھا۔۔۔ مارے گھبراہٹ کے اس کے منہ سے نکلا۔
’’ارے باپ رے۔‘‘
اور پھر اس نے زخمی نوجوان کی طرف دوڑ لگا دی۔۔۔ جب کہ فاروق ایک ایک قدم اس کی طرف بڑھنے لگا۔۔۔ اس کے چہرے پر مایوسی کی جھلک تھی۔
’’جھاڑیوں میں سے مجھے ان کی بھاگ دوڑ نظر آگئی تھی۔۔۔ خنجروں کی جھلک بھی میں نے دیکھ لی تھی۔۔۔ بس میں دوڑ پڑا۔۔۔ لیکن افسوس۔۔۔ وہ اس کے نزدیک پہنچ چکے تھے۔‘‘
’’ اور وہ کتنے تھے؟‘‘ محمود بولا۔
’’ کم از کم تین۔‘‘
اب محمود نے زخمی کا جائزہ لیا۔۔۔ وار اس کے سینے پر کیا گیا تھا۔۔۔ اب اس کا تڑپنا بھی بند ہو چکا تھا۔۔۔ اس نے اس کی نبض دیکھی۔
’’ابھی زندہ ہے۔۔۔ لیکن بہت جلد دم توڑ دے گا۔‘‘ محمود نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
’’ کیا خبر۔۔۔ بچ جائے۔۔۔ فون کرو جلدی۔‘‘
محمود نے سب انسپکٹر اکرام کے نمبر ملا ئے اور انہیں جلدی جلدی صورتحال بتائی۔۔۔ انہوں نے فوراً کہا۔
’’ میں ایمبولینس لے کر پہنچ رہا ہوں۔۔۔ کچھ دیر بعد میرے ماتحت بھی وہاں پہنچ جائیں گے۔۔۔ ویسے تم اس وقت تک جائے واردات کا جائزہ لے لو۔‘‘
’’ اچھا انکل۔‘‘ انہوں نے کہا اور فون بند کر دیا۔ اب انہوں نے آس پاس کا جائزہ شروع کیا۔
’’ یہ لوگ اسی طرف سے آرہے تھے نا۔۔۔ جس طرف سے ہم آرہے تھے۔‘‘ محمود نے پوچھا۔
’’ ہاں یہی بات ہے۔‘‘
’’ تب پھر حملہ آوروں کی کوئی چیز اگر گری ہو گی تووہ اس طرف ہی کہیں پڑی ہوگی ذرا تم کچھ دور تک ہو آؤ۔۔۔ لیکن قاتلوں کے جوتوں کے نشانات نہ مٹاتے جانا۔‘‘
’’اتنی عقل تو خیر مجھ میں ہے۔‘‘ فاروق نے برا سا منہ بنایا۔
’’ اوہ ہاں! میں تو بھول ہی گیا ۔‘‘
’’ کیا بھول گئے؟‘‘ فاروق نے اسے گھورا۔
’’ یہ کہ تم میں اتنی عقل ہے۔‘‘ 
’’ آئندہ یہ بات یاد رکھنا۔‘‘ فاروق مسکرایا اور آگے بڑھ گیا۔
وہ صبح کی سیر کے لیے نکلے تھے۔۔۔ فجر کی نماز مسجد میں ادا کرتے ہی اس طرف سیر کے لیے آنا ان کا معمول تھا۔۔۔ سڑک کے دونوں طرف کھیتوں کا سلسلہ دور تک چلا گیا تھا۔۔۔ دائیں بائیں پگ ڈنڈیاں مڑتی تھیں اور وہ سیر کے لیے کسی بھی پگ ڈنڈی پر مڑ جاتے تھے اس طرح لہلہاتے کھیتوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے سبزیوں پر بھی ان کی نظر پڑتی تھی اور ایک انجانی سی خوشی کا احساس ہوتا تھا۔۔۔ لیکن آج کی سیر الٹی ان کے گلے پڑ گئی تھی۔
وہ انہی خیالات میں چلا جا رہا تھا کہ ایک قلم پر نظر پڑی ۔ قلم پارکر کا تھا۔ اس نے پہلے تو اسے جھک کر دیکھا۔۔۔ پھر جیب سے رومال نکال کر اس قلم کو اس میں سے لے لیا۔ اس طرح کہ اس پر موجود انگلیوں کے نشانات مٹ نہ جائیں۔۔۔ اگر یہ قلم قاتلوں میں سے کسی کا تھا اور اس پر انگلیوں کے نشانات بھی تو یہ اس کیس کا ایک اہم ثبوت ثابت ہو سکتا تھا۔۔۔ راستے بھر وہ جوتوں کے نشانات بھی دیکھتا آیا تھا۔۔۔ رات کسی وقت ہلکی بارش ہوئی تھی۔۔۔جس سے زمین نم ہو گئی تھی اور جوتوں کے نشانات بالکل واضح نظر آرہے تھے۔ یہ نشانات بھی ان کے کام آسکتے تھے۔۔۔ وہ کافی دور تک چلتا گیا۔۔۔ آخر کوئی اور چیز نہ پا کر واپس پلٹا۔ محمود کی نظر اس پر پڑی تو بول اٹھا۔
’’ کیوں ۔۔۔ کوئی چیز ملی؟‘‘
’’ ایک قلم ۔۔۔ اور جوتوں کے نشانات بھی واضح ہیں۔‘‘
’’ وہ تو خیر یہاں بھی ہیں۔۔۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ نوجوان صبح کی سیر کے لیے نکلا تھا۔ قاتلوں کو اس کے معمول کا پتا تھا، لہٰذا وہ پہلے بھی اس کی گھات میں تھے، تاہم اس نے انہیں حملہ آور ہوتے دیکھ لیا اور بھاگ نکلا۔۔۔ لیکن قاتل اس سے تیز رفتار تھے۔ وہ فوراً ہی اس تک پہنچ گئے اور یہ سانحہ ہو گیا۔‘‘
’’ ہاں! یہی کہا جا سکتا ہے۔‘‘ فاروق نے سر ہلایا۔
پھر جلدہی وہاں ایمبولینس پہنچ گئی ۔۔۔ ایسے میں زخمی نوجوان کے منہ سے کراہ نکل گئی۔
’’زندہ ہے۔۔۔ اور شاید اسے بچا لیا جائے۔۔۔ ویسے کیا خیال ہے۔۔۔ ہمیں ہسپتال تک ساتھ چلنا چاہیے۔۔۔ ہم نے اس کی تلاشی بھی نہیں لی۔۔۔ اس کی جیب سے کاغذات وغیرہ تو مل ہی جائیں گے۔‘‘ محمود نے جلدی جلدی کہا۔
’’ مشکل ہے یہ صبح کی سیر کے لباس میں ہے۔۔۔ سیر کے لباس میں جیب وغیرہ تو ہوتی ہی نہیں۔۔۔‘‘
’’ہاں واقعی ۔۔۔ لیکن خیر۔۔۔ ہمیں ہسپتال تک تو جانا چاہیے۔۔۔ یہ تو ڈاکٹر حضرات ہی بتا سکیں گے کہ اس کے بچنے کے امکانات ہیں یا نہیں۔۔۔ اگر یہ بچ جاتا ہے تو شاید حملہ آوروں کے بارے میں بھی بتا سکے۔‘‘
’’اچھی بات ہے۔۔۔ یونہی سہی۔‘‘
وہ اسے ہسپتال لے آئے۔۔۔ انہوں نے اپنا کارڈ استعمال کرکے ڈاکٹر حضرات کو فوراً اس کی طرف توجہ دینے پر مجبور کر دیا۔۔۔ یوں بھی ڈاکٹر حضرات انہیں ساتھ دیکھ کر چونک گئے تھے۔ جلد ہی انہوں نے اعلان کرنے کے انداز میں کہا۔
’’ اس نوجوان کے بچنے کے امکانات ہیں۔‘‘
ان کے چہروں پر رونق آگئی یہ ایک اچھی خبر تھی۔
’’ پتا نہیں، یہ بے چارہ کون ہے ۔۔۔صبح صبح اس کے گھر والے تو اسی خیال میں ہوں گے کہ ہمارا بیٹا سیر کے لیے گیا ہے۔۔۔ ابھی لوٹ آئے گا۔ پھر جب کافی دیر تک وہ یہ گھر نہیں پہنچے گا۔۔۔ تب وہ اس کی تلاش شروع کریں گے۔۔۔ اور شاید دوپہر سے پہلے تو وہ پولیس اسٹیشن میں رپورٹ بھی درج نہ کرائیں۔‘‘ محمود نے خیال ظاہر کیا۔
’’ اس کا مطلب ہے۔۔۔ دوپہر سے پہلے یہ معلوم نہیں ہو سکے گا کہ یہ کون ہے۔ ویسے سیر کا لباس بھی قیمتی سا ہے گویا کسی مال دار گھرانے کا ہے۔‘‘
’’ میرا خیال تو یہی ہے۔‘‘
ایسے میں انہیں اکرام آتا نظر آیا۔
’’السلام علیکم انکل!‘‘
’’وعلیکم السلام ۔۔۔ یہ کیا بھئی۔۔۔ صبح صبح کیس مول لے لیا۔‘‘
’’ ہم نے خود مول نہیں لیا انکل۔۔۔ یہ زبردستی ہمارے گلے پڑ گیا۔‘‘
’’ ہوں۔۔۔ تفصیل کیا ہے؟‘‘ انسپکٹراکرام بولا۔
انہوں نے تفصیل سنا دی ۔۔۔ ان کے خاموش ہونے پر وہ بولا۔
’’ تب پھر تمام پولیس اسٹیشنوں کو خبردار کردینا چاہیے۔۔۔ تاکہ جونہی کوئی اس نوجوان کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرانے آئے، اسے ہسپتال پہنچا دیا جائے۔ ‘‘
’’ یہ ٹھیک رہے گاانکل۔۔۔ اور کیا اب ہمیں اجازت ہے۔ہم کافی لیٹ ہو گئے ہیں۔ ہمیں فرزانہ کی کھری کھری باتیں سننا پڑیں گی۔‘‘
’’ ٹھیک ہے۔۔۔ تم۔۔۔‘‘ اکرام کے الفاظ درمیان میں رہ گئے۔۔۔ اسی وقت ایک نرس تیزی سے ان کی طرف آتی نظر آئی تھی۔
’’زخمی ہوش میں آگیا ہے۔۔۔ اور کچھ بتانے کی پوزیشن میں بھی ہے۔‘‘
’’اوہ! یہ تو بہت اچھی بات ہے۔‘‘
وہ تیز تیز چلتے کمرے میں داخل ہوئے ۔۔۔ ڈاکٹر نے انہیں دیکھتے ہی کہا۔
’’ امید ہے۔۔۔یہ صاحب بچ جائیں گے۔۔۔ زخم اگرچہ گہرے ہیں اور خون بھی بہت بہہ گیا ہے۔۔۔ مگر ان کے گروپ کا خون ہسپتال میں موجود ہے۔۔۔ اور دل محفوظ ہے۔۔۔ اس لیے امید کی جا سکتی ہے۔۔۔ یہ بچ جائے گا۔‘‘
’’ یہ بہت اچھی بات ہے۔۔۔ کیا ہم اس سے بات کرسکتے ہیں۔‘‘
’’ ہاں ضرور۔۔۔ اس نے دو تین بار کچھ کہنے کی کوشش کی ہے۔‘‘ ڈاکٹر نے بتایا۔
وہ نوجوان پر جھک گئے۔۔۔ محمود نے پیار بھرے لہجے میں کہا۔
’’دوست! آپ کا نام کیاہے۔۔۔ آپ کچھ بتا سکتے ہیں۔ تاکہ ہم آپ کے گھر والوں کو بلا سکیں ۔‘‘
’’نن۔۔۔ نن۔۔۔نہیں ۔۔۔ نہیں۔‘‘ اس کے منہ سے نکلا۔۔۔ ساتھ میں اس نے آنکھیں کھولنے کی کوشش بھی کی۔
’’ کیا کہا آپ نے نہیں۔۔۔ یعنی آپ اپنے گھر کے کسی فرد کا نام نہیں بتا سکتے؟‘‘
’’ وہ ۔۔۔ وہ۔۔۔‘‘وہ اس سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکا اور اس کی گردن ڈھلک گئی۔۔۔
’’ارے باپ رے! ڈاکٹر صاحب ۔۔۔ اسے دیکھیں۔۔۔‘‘ محمود گھبرا گیا۔
ڈاکٹر نے فوراً اس کی نبض چیک کی اور بولے۔’’ گھبرائیے نہیں۔۔۔ بے ہوش ہو گیا ہے۔ زخم گہرے ہیں۔ خون زیادہ بہہ گیا ہے۔۔۔ بے ہوش نہیں ہوگا تو کیا ہوگا۔۔۔ اور لگتا ہے۔۔۔ اب اسے جلد ہوش نہیں آئے گا۔۔۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ کئی دن تک سوئے۔‘‘
’’اوہ۔۔۔‘‘ ان کے منہ سے نکلا۔
پھر وہ باہر نکل آئے۔۔۔ 
’’ اب ہمارا یہاں کوئی کام تو رہ نہیں گیا۔۔۔ ہاں جب اس کے گھر والے آجائیں گے ، تب ضرور ہمارا کام شروع ہوجائے گا۔۔۔ ہم اس کیس پر کام شروع کر سکیں گے۔۔۔ اس لیے آپ اپنے دو ماتحت یہاں مقرر کر دیجئے کیونکہ جن لوگوں نے اسے موت کے گھاٹ اتارنے کی کوشش کی ہے۔۔۔ انہیں جونہی معلوم ہوگا کہ ان کا شکار بچ گیا ہے۔۔۔ اور جونہی وہ ہوش میں آئے گا ، ان کے نام بتا دے گا۔۔۔ تو وہ پھر اس پر وار کرنے کی کوشش کریں گے۔‘‘
’’اوہ ہاں! یہ بہت ضروری ہے بلکہ دو نہیں۔۔۔ میں یہاں چار آدمی مقرر کر دیتا ہوں۔‘‘
’’ یہ اور اچھا رہے گا۔‘‘ محمود نے فوراً کہا۔
’’ اور انکل انہیں اچھی طرح سمجھا دیجئے گا۔۔۔ اس بے چارے پر کسی بھی صورت میں اور کسی بھی سمت سے حملہ ہو سکتا ہے۔‘‘
ایسے میں اکرام کے فون کی گھنٹی بج اٹھی۔۔۔پھر جونہی اس نے دوسری طرف کا فون سنا۔۔۔ اس کی آنکھیں مارے خوف کے پھیل گئیں۔۔۔ بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا۔
’’کیا!!!۔۔۔‘‘

*۔۔۔*

ان کی نظر یں اکرام پر جم گئیں۔ محمود نے بے تابانہ لہجے میں پوچھا۔
’’کیا ہوا انکل۔۔۔ خیر تو ہے‘‘
’’نوجوان کے بارے میں پتاچل گیا۔۔۔ اس کا نام نوروز کپاڈیہ ہے۔۔۔ اور یہ بیٹا ہے بابر کپاڈیہ کا۔۔۔ اور بابر کپاڈیہ شہرکا دولت مند اور مشہور آدمی ہے۔۔۔ مطلب یہ کہ وہ تو مچادے گا کھلبلی۔‘‘
’’لیکن انکل۔۔۔ اس میں ہمیں خوف زدہ ہونے کی کیا ضرورت ہے اور اس معاملے میں ہمارا کیا قصور ہے؟‘‘
’’بات قصور کی نہیں۔۔۔ یہ کیس اب محکمہ پولیس کے لیے دردِ سر بن کر رہے گا۔۔۔ اس شخص کے بڑے بڑے پولیس آفیسرز دوست ہیں۔‘‘
’’تب بھی ہم کیوں پریشان ہوں؟‘‘ محمود نے منہ بنایا۔
عین اس لمحے انہوں نے کئی ڈاکٹر اس طرف آتے دیکھے اور ا ن کے ساتھ تین پولیس آفیسر بھی تیز تیز قدم اٹھا رہے تھے۔
’’وہ دیکھو ۔۔۔ کام شروع ہو گیا۔‘‘
’’تب پھرہم چلیں۔۔۔ اب یہ حضرات خود ہی دیکھ لیں گے۔‘‘
’’ابھی نہیں۔۔۔ فی الحال تو تم سے سوالات ہوں گے کہ یہ واقعہ کیسے پیش آیا۔۔۔؟‘‘
’’اچھی بات۔۔۔ ارے ! یہ کیا ۔۔۔ لیجئے یہاں تو ابا جان بھی آگئے۔۔۔ نہ صرف ابا جان۔۔۔ بلکہ وہ آفت کی پرکالہ بھی تشریف لا رہی ہیں۔‘‘ فاروق نے دبی آواز میں کہا۔
جونہی اس کے منہ سے آفت کی پرکالہ کا لفظ نکلا‘ فرزانہ بری طرح چونکی اور پھر اس کی تیز نظریں فاروق پر پڑیں‘ ساتھ ہی اس نے وہیں سے کہا۔’’میں نے سن لیا ہے‘‘
’’کیا سن لیا فرزانہ ۔۔۔‘‘ انسپکٹر جمشید چونکے۔۔۔ وہ اپنے ہی خیالات میں گم چلے آ رہے تھے۔
’’فاروق نے مجھے آفت کی پرکالہ کہا ہے۔۔۔‘‘ اس نے منہ بنایا۔انسپکٹر جمشید مسکرادئیے ۔۔۔ پھر حیرت زدہ انداز میں بولے۔
’’ویسے انہیں یہاں دیکھ کر حیرت ہوئی ہے۔۔۔ اور تو اور یہاں تو اکرام بھی موجود ہے۔ یہ سب کیا ہے اکرام۔۔۔؟‘‘
’’اور ہمیں آپ کو یہاں دیکھ کر حیرت ہو رہی ہے ابا جان ۔۔۔‘‘ محمود مسکرایا۔
’’چلو کوئی بات نہیں حیرت کا تبادلہ کرلیتے ہیں۔‘‘ فاروق بولا۔
’’اس زخمی سے پہلی ملاقات دراصل ان دونوں کی ہوئی ہے۔۔۔ یہ معمول کی سیر پر تھے کہ اس پر حملہ ہوا۔۔۔ اور انہوں نے مجھے فون کردیا۔۔۔ ہم زخمی کو یہاں لے آئے۔‘‘
’’تمہیں معلوم تو ہوچکا ہوگا اکرام۔۔۔ یہ نوجوان بابر کپاڈیہ کا بیٹا ہے۔‘‘
’’جی ہاں، ابھی ابھی یہ بات معلوم ہوئی ہے۔‘‘
’’اور جو اس کی جان لینا چاہتے ہیں۔۔۔ اب وہ بری طرح بے چین ہوں گے کیونکہ اس کے ہوش میں آتے ہی وہ بے نقاب ہو جائیں گے۔‘‘
’’جی ہاں۔۔۔ اسی بات کے امکانات ہیں۔‘‘
’’تب یہ باہر کھڑے رہ کر ہم نوجوان کی حفاظت نہیں کرسکیں گے۔۔۔ اس بے چارے کو ختم کرنے کی کوشش کسی بھی رخ سے ہوسکتی ہے۔‘‘
’’آئیے پھر۔۔۔ اندر چلتے ہیں‘‘
’’ہاں۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔ چلو‘‘
’’یس سر۔۔۔ آپ یہاں کیسے؟‘‘
’’آئی جی صاحب کو جونہی اطلاع ملی کہ بابر کپاڈیہ کے بیٹے پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے۔ انہوں نے فوراً مجھے فون کر دیا۔۔۔ جانتے ہو کیوں؟ انسپکٹر جمشید بولتے ہوئے مسکرائے۔
’’جی نہیں۔۔۔ بھلا ہم کیسے جان سکتے ہیں‘‘ محمود نے منہ بنایا۔
’’بابر کپاڈیہ آئی جی صاحب کا ۔۔۔ سخت مخالف ہے آئے دن ان پر الزامات لگتے رہتے ہیں۔ انہیں خوف محسوس ہوا۔ کہیں وہ یہ مسئلہ بھی وہ ان کے سر نہ تھوپ دے۔ اس بات کا امکان اگرچہ نہیں ہے۔ مگر انہوں نے بہتر جانا کہ مجھے بھیج دیں۔ بس میں فرزانہ کو ساتھ لے کر ادھر آگیا۔ چلو اچھا ہوا۔۔۔ ملاقات ہوگئی۔ اب ذرا جلدی سے تفصیل سنادو۔‘‘
انہوں نے تفصیل سنا دی۔ پھروہ اندر داخل ہوئے۔ دو ڈاکٹر اندر موجود تھے۔زخمی کو خون کی بوتل لگی تھی۔۔۔ اور وہ مکمل طور پر بے ہوش تھا۔
’’کیا ان کے ہوش میں آنے کا امکان ہے؟‘‘ انسپکٹر جمشید بولے۔
’’ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔۔۔ آپ کی تعریف ؟‘‘ ایک ڈاکٹر نے کہا۔
’’مجھے انسپکٹر جمشید کہتے ہیں۔‘‘
’’اوہ۔۔۔ یہ آپ ہیں۔‘‘ دونوں نے گرم جوشی سے ان سے ہاتھ ملایا۔۔۔ اس وقت انسپکٹر جمشید کے موبائل کی گھنٹی بجی۔۔۔ وہ دوسری طرف کا فون سننے لگے۔۔۔ ادھر فرزانہ نے بڑا سا منہ بناتے ہوئے کہا۔
’’جہاں جاتے ہو۔۔۔ کوئی گڑبڑ کر بیٹھتے ہو۔‘‘
’’ہم کھڑے ہیں۔۔۔‘‘ فاروق نے جل کر کہا۔
’’اور اس معاملے میں ہمارا ایک فیصد بھی قصور نہیں۔۔۔ لہٰذا کاٹ کھانے کو نہ دوڑو ۔۔۔‘‘ محمود نے بھی جلے کٹے انداز میں کہا۔
’’اچھا خیر۔۔۔ یہ بتاؤ۔۔۔ اب تک کوئی تیر مارا؟‘‘وہ طنزیہ انداز میں مسکرائی۔
’’اس کام کے لیے ۔۔۔‘‘
’’کیا کہہ رہے ہیں۔۔۔‘‘ انہوں نے حیرت میں ڈوبی آواز سنی۔
دوسری طرف کی بات سن کر انہوں نے کہا:
’’خیر۔۔۔ آپ فکر نہ کریں میں دیکھ لوں گا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے انہوں نے فون بند کر دیا۔
’’کیا بات ہوگئی ابا جان؟‘‘
’’آئی جی صاحب نے بتایا ہے کہ بابر کپاڈیہ نے اس واردات کا الزام براہِ راست ان پر لگا دیا ہے۔‘‘
’’کیا!!!‘‘ ان کے منہ سے ایک ساتھ نکلا۔۔۔ پھر محمود نے کہا۔
’’یہ بھی عجیب شخص ہیں۔ اسپتال پہنچے نہیں۔۔۔ اور دوسروں پر الزامات عائد کر رہے ہیں۔‘‘
ایسے میں بھاری قدموں کی آواز سنائی دی اور اب لمبا چوڑا آدمی قیمتی سوٹ میں اندر داخل ہوا۔۔۔ اس کا چہرہ پوری طرح تنا ہوا تھا۔
’’اوہ یہ آپ ہیں۔۔۔ لیکن آپ اس کیس کی تفتیش نہیں کرسکتے ہیں۔‘‘ ان پر نظر پڑتے نے اس نے کہا ۔
’’تو آپ بابر کپاڈیہ ہیں۔۔۔ اس نوجوان کے والد!!‘‘
’’ہاں! اور یہ بھی سن لیں‘ یہ میرا اکلوتا بیٹا ہے۔۔۔ میری ساری جائداد کا تنہا وارث۔ میں اس کے لیے کچھ بھی کرسکتا ہوں۔۔۔ آپ چونکہ آئی جی شیخ نثار احمد کے ماتحت ہیں۔۔۔ اور اس کیس میں میں انہیں ذمہ دار سمجھتا ہوں۔ اس لیے آپ تفتیش نہیں کرسکتے۔۔۔ میں اس کیس کی تفتیش اپنی پسند کے پولیس آفیسر سے کراؤں گا۔‘‘
’’آپ ضرور ایسا کریں لیکن۔۔۔‘‘ انسپکٹر جمشید یہاں رک کر مسکرائے۔
’’لیکن کیا؟‘‘ اس نے بھنویں اُچکائیں۔۔۔ اس کا چہرہ بھی کافی چوڑائی لیے ہوئے تھا۔گالوں کی ابھری ہوئی ہڈیاں اس کے سخت گیر ہونے کی طرف اشارہ کررہی تھیں۔
’’لیکن ہم اپنے مؤکل کو اس الزام سے بچانے کے لیے اس کیس پر کام کریں گے!!‘‘
’’تب پھر ذرا دور دور رہ کر تفتیش کریں۔۔۔ میرے بیٹے کے نزدیک نہ آئیں۔۔۔ کیونکہ جونہی یہ ہوش میں آئے گا۔۔۔ حملہ آوروں کے بارے میں ضرور بتائے گا۔۔۔ اور ظاہر ہے۔۔۔ حملہ کرانے والے ایسا کیوں چاہیں گے؟‘‘
’’آپ ٹھیک کہتے ہیں۔۔۔ اصل بات یہ ہے کہ اس واردات سے آئی جی صاحب کا دور کا بھی تعلق نہیں۔‘‘
’’یہ میں زیادہ بہتر جانتا ہوں۔۔۔ آپ تو ظاہر ہے شیخ صاحب کی ہی وکالت کریں گے‘‘
’’ارے آپ جانیں آپ کا کام جانے۔ آؤ بھئی چلیں۔ ‘‘
انسپکٹر جمشید نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا اور کمرے کے دروازے کی طرف مڑ گئے۔ انہوں نے بھی رخ موڑ لیا۔۔۔ اتنے میں فرزانہ کے منہ سے چیخ نکل گئی۔۔۔ وہ چونک کر مڑے۔
’’کیا ہوا فرزانہ؟ ‘‘ انسپکٹر جمشید گھبرا گئے۔
’’شاید۔۔۔ شاید میرے پاؤں میں موچ آگئی ہے ۔۔۔ مڑنے لگی تو پاؤں اس طرف بالکل نہ گیا۔۔۔ شدید درد ہے۔ وہ پاؤں کو پکڑ کر بیٹھ گئی۔
’’اللہ اپنا رحم فرماتے۔۔۔ موچ تو بہت پریشان کن چیز ہوتی ہے۔۔۔ تم ادھر بنچ پر لیٹ جاؤ۔ میں موچ ٹھیک کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔‘‘
ان کی باتیں سن کر بابر کپاڈیہ نے برا سا منہ بنایا اور اپنے بیٹے کی طرف متوجہ ہوگیا۔
’’ڈاکٹر ۔۔۔ کب تک ہوش میں آنے کی امید ہے۔۔۔ میرا بیٹا بچ تو جائے گا۔‘‘
’’ہم کچھ بھی کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ فی الحال تو یہ ہوش میں آتے نظر نہیں آرہا۔۔۔‘‘
’’اللہ اپنا رحم فرمائے‘‘
’’کیا ہوا میرے بچے کو ۔۔۔یہ بات۔۔۔ یہ کس ظالم نے کیا۔‘‘
’’انہوں نے ایک خاتون کو اندر آتے دیکھا وہ بے تحاشہ اپنا سینہ پیٹ رہی تھی۔
’’ آؤ بیگم دیکھ لو ظالموں نے تمہارے لال کی کیا حالت بنا دی۔‘‘
’’میں ۔۔۔ میں انہیں کبھی معاف نہیں کروں گی۔ ڈاکٹر صاحبان کیا کہتے ہیں؟‘‘
بیگم یہ ابھی کوئی امید نہیں دلارہے۔۔۔ ان کا کہنا ہے فی الحال تو ہوش میں آنے کا دور دور تک امکان نہیں۔‘‘
’’نہیں ۔۔۔ نہیں!!‘‘ وہ چلا اٹھیں اور بے قابو ہو کر گر پڑیں۔
’’ارے۔۔۔ ارے بیگم سنبھلو!‘‘ بابر کپاڈیہ نے فکرمند ہو کر کہا۔اور پھر بیگم بابر گر کر بے ہوش ہوگئیں۔
’’ارے !آپ ابھی یہیں ہیں۔‘‘
’’آپ دیکھ نہیں رہے۔۔۔ میری بچی کے پیر میں موچ آگئی ہے۔ چلئے آپ کی بیگم گر کر بے ہوش ہوگئیں۔ اس حالت میں ہم نہیں جاسکتے۔۔۔ کمرہ کیا ہے۔۔۔ پورا ہال ہے اور یہاں چار بستروں کی جگہ ہے۔ درمیان میں گھومنے پھرنے کی بھی جگہیں بہت ہیں۔‘‘
’’اچھی بات ہے جو آپ کا جی چاہے‘ وہ کریں۔۔۔ بس میرے بابر بیٹے کے معاملات میں دخل اندازی نہ کریں۔‘‘
’’بھلا ہمیں کیا ضرورت دخل اندازی کی۔‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے فرزانہ کودونوں بازوؤں میں اٹھا لیا اور ایک بسترپر لٹا دیا۔
’’فکر نہ کرو فرزانہ موچ درست کرنے کا طریقہ آتا ہے تمہیں بس تھوڑی تکلیف ہو گی۔‘‘
’’اچھی بات ہے۔۔۔‘‘
’’فاروق تم باہر سے زیتون کے تیل کا ایک ڈبا خرید کر لے آؤ۔‘‘
’’جی اچھا۔۔۔‘‘ فاروق نے کہا ۔
’’ اباجان!! شدید درد ہے۔‘‘
’’موچ میں درد شدید بھی ہوتا ہے فرزانہ صبر کرو۔‘‘
ادھر بابر کپاڈیہ اور ان کی بیگم دونوں اپنے بیٹے پر جم گئے۔ وہ مکمل بے ہوش تھا۔
’’میرے بچے۔۔۔ آنکھیں کھولو۔۔۔ ڈاکٹر صاحب ۔۔۔ خدا کے لیے کچھ کریں۔۔۔ میرا دل بیٹھا جا رہا ہے۔ 
’’ہم آپ کی کیفیت کو محسوس کرسکتے ہیں۔۔۔ ہمارے بس میں ہو تو انہیں فوراً ہوش میں لے آئیں۔۔۔ آہا۔۔۔ ان کے جسم میں حرکت ہوئی ہے۔۔۔ اب اس بات کا امکان پیدا ہوگیا ہے کہ یہ ہوش میں آجائیں گے۔‘‘
’’کیا واقعی ۔۔۔ ‘‘بابر کپاڈیہ اور ان کی بیگم ایک ساتھ بولے۔
’’میں۔۔۔ میں چند منٹ میں بتاسکوں گا۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے کہااور سٹھیتو سکوپ سے معائنہ کرنے لگے۔پھرمایوسانہ انداز میں بولے۔
’’نہیں ایسا شاید بستر کی حرکت سے ہوا تھا۔ آپ کا جسم بستر سے لگا ہوگا۔ فی الحال ان کے ہوش میں آنے کا کوئی امکان نہیں۔‘‘
’’نہیں۔۔۔ ان دونوں کے منہ سے پھر نکلااور اس لمحہ فرزانہ کے منہ سے ایک دل دوز چیخ نکل گئی۔
*۔۔۔*۔۔۔*
فرزانہ کی چیخ نے انہیں لرزا دیا۔۔۔ وہ اس کی طرف دوڑ پڑے۔۔۔ تاہم انسپکٹر جمشید اپنی جگہ کھڑے رہ گئے۔۔۔ شاید ان پر سکتہ طاری ہوگیا تھا کہ یہ بیٹھے بٹھائے اسے کیا ہوگیا۔ اور باقی لوگ فرزانہ کے نزدیک پہنچے تو وہ مکمل طور پر بے ہوش ہو چکی تھی۔
’’ابا جان! یہ تو بے ہوش ہوگئی‘‘
’’حیرت ہے۔۔۔ کمال ہے۔۔۔ اسے ہوا کیا۔۔۔‘‘ وہ وہیں کھڑے کھڑے بولے۔
اس وقت تک ڈاکٹر صاحب حیرت زدہ سے فرزانہ کی طرف بڑھ چکے تھے۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ اس کے نزدیک پہنچتے‘ انسپکٹر جمشید چلا اٹھے۔
’’ڈاکٹر صاحب ۔ آپ کا مریض۔۔۔ اس کے جسم میں حرکت۔۔۔ یہ انہوں نے جملہ درمیان میں چھوڑ دیا۔۔۔ ڈاکٹر صاحب فوراً واپس پلٹے۔۔۔ اس وقت کمرے میں بس ایک ہی ڈاکٹر رہ گئے تھے۔
’’اس کا یہ مرض ہمارا جانا پہچانا ہے۔۔۔ ہمارے فیملی ڈاکٹر اس مرض کا فوراً علاج کر لیتے ہیں میں انہیں بلا رہا ہوں۔۔۔ آپ اپنے مریض کی طرف توجہ دیں۔۔۔ کیا یہ ہوش میں آ رہے ہیں۔‘‘
’’ہم ۔۔۔ میں دیکھ رہا ہوں۔۔۔
’’یا اللہ رحم۔۔۔ اللہ انسپکٹر صاحب کی زبان مبارک کرے۔‘‘ بابر کپاڈیہ کی بیگم نے دعا کے انداز میں ہاتھ اٹھا دیئے۔
’’حوصلہ رکھو بیگم۔۔۔ ان شاء اللہ تمہارا بیٹا بچ جائے گا۔‘‘ بابر کپاڈیہ نے جلدی سے کہا۔
’’ان شاء اللہ!‘‘ ان کے منہ ایک ساتھ کھلے۔
پندرہ منٹ کی مسلسل کوشش بھی نوروز کو ہوش میں نہ لاسکی اور انسپکٹر جمشید ڈاکٹر فاضل کو فون کرچکے تھے۔۔۔ وہ انہیں اندر آتے نظر آئے تو وہ ان کی طرف لپکے۔
’’آپ آگئے۔ بہت اچھا ہوا۔۔۔ اپنی مریضہ کو دیکھیے۔آج پھر اس پر دورہ پڑا ہے۔۔۔؟آپ تو اس دورے کا علاج جانتے ہی ہیں۔ اس لئے میں نے آپ کو فون کر دیا۔۔۔ کیا میں نے غلط کیا ڈاکٹر صاحب ۔۔۔‘‘
’’نن نہیں۔۔۔ جمشید صاحب۔۔۔ آپ نے بالکل ٹھیک کیا۔ میں ابھی انہیں ہوش میں لانے کی تدبیر کیے دیتا ہوں۔۔۔‘‘
’’اس سے اچھی بات بھلا اور کیا ہوسکتی ہے۔‘‘
ڈاکٹر فاضل فرزانہ کی طرف بڑھ گئے۔۔۔ انہوں نے سب سے پہلے اس کی نبض چیک کی۔۔۔ پھر اس کی آنکھوں کے پپوٹے اٹھا کر دیکھے۔۔۔ آخر سیدھے ہوتے ہوئے بولے۔
’’اس مرض میں جسم کا حرکت کرنا بہت غلط ہے۔ شاید میں پہلے بھی آپ کو بتا چکا ہوں۔۔۔ لہٰذا جب تک یہ خود ہوش میں نہیں آجاتیں‘ اس وقت تک انہیں ہلایا جلایا نہ جائے۔۔۔‘‘
’’لیکن جناب! یہ کیسے ہوسکتا ہے۔‘‘ بابر کپاڈیہ نے برا سامنہ بنایا۔
’’کیا مطلب‘‘
’یہ کمرہ میرے بیٹے کے لیے بُک ہے۔۔۔‘‘
’’ہم یہاں قبضہ نہیں جما رہے۔۔۔ یہ ایک مجبوری ہے۔۔۔ جو نہی میری بچی ہوش میں آئی‘ہم اسے دوسرے کمرے میں منتقل کر دیں گے۔۔۔ حرکت کی صورت میں اسے نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘‘ انسپکٹر جمشید نے جلدی سے کہا۔
’’جی ہاں۔۔۔ یہی بات ہے۔۔۔ انسانی ہمدردی کے تحت آپ کچھ وقت انہیں دیں‘ آپ کے مریض کے علاج میں ہم خلل انداز نہیں ہوں گے۔‘‘
’’کیسے نہیں ہوں گے۔۔۔ ابھی ابھی تو یہ خوفناک انداز میں چیخی تھیں۔‘‘
’’اس مرض میں چیخ صرف ایک بار بلند ہوتی ہے۔۔۔ اس کے بعد نہیں‘ لہٰذا آپ کے مریض کے آرام میں کوئی خلل نہیں پڑے گا‘‘
’’ٹھیک ہے بابر صاحب۔۔۔ اس کا کوئی فرق نہیں پڑے گا‘‘ اسپتال کے ڈاکٹر نے یہ جھگڑا ختم کرنے کے لئے کہا۔
’’اوہو۔۔۔ ڈاکٹر صاحب آپ ۔۔۔ بابر کپاڈیہ کہتے کہتے رک گئے۔۔۔ آخر انہوں نے ڈھیلی ڈھالی آواز میں کہا۔
’’اچھا ٹھیک ہے۔۔۔ لیکن جونہی یہ بچی ہوش میں آئے۔۔۔ آپ لوگ یہاں سے چلے جائیں گے۔‘‘
’’آپ فکرنہ کریں۔‘‘ انسپکٹر جمشید نے فوراً کہا۔
’’بابر صاحب۔۔۔ آپ اور بیگم صاحبہ آرام کریں۔۔۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے کہا۔
’’کیا بات کرتے ہیں ڈاکٹر صاحب۔۔۔ ہمارا لختِ جگر یہاں زخموں سے چور پڑا ہے۔ مکمل طور پر بے ہوش ہے۔۔۔ اور آپ کہہ رہے ہیں ۔۔۔ ہم یہاں سے چلے جائیں۔۔۔ یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔‘‘
’’ہمیں مریض کے زخموں کی نئے سرے سے پٹی کرنا ہوگی۔ ایک طرف سے خون رس رہا ہے۔ اس کو روکنا ہوگا۔‘‘
’’ٹھیک ہے ہم چلے جاتے ہیں۔‘‘
وہ دونوں چلے گئے۔ ڈاکٹر بھی کسی ضرورت کے لئے نکل گیا۔ اس وقت انسپکٹر جمشید نے اکرام سے کہا۔
’’اب محمود اور فاروق یہاں کافی ہیں۔ ہم دونوں ذرا دوسرا کام کرآئیں۔‘‘
’’جی۔۔۔ دوسرا کام۔۔۔ کیا مطلب‘‘
’’ذرا بتاتا ہوں۔‘‘وہ دونوں کمرے سے نکل گئے۔
’’لوبھئی۔۔۔ یہ بھی چلے گئے اور وہ بھی ‘ رہ گئے یہاں صرف ہم دونوں۔۔۔‘‘
’’آپ کا خیال غلط ہے۔۔۔ یہاں میں بھی موجودہوں۔۔۔ اور میری یہاں باقاعدہ ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔ دراصل میں جونیئر ڈاکٹر ہوں‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ ڈاکٹر صاحب مسکرا دیئے۔
’’آدمی خوش مزاج لگتے ہیں اور ہمیں خوش مزاج لوگ اچھے لگتے ہیں۔۔۔ ویسے ہم آپ کو کیا لگتے ہیں ۔۔۔؟‘‘ فاروق نے شوخ لہجے میں کہا۔
’’میرا نام ڈاکٹر رضوان ہے۔۔۔ اور میں آپ لوگوں سے بہت اچھی طرح واقف ہوں۔۔۔ اور آپ کے کارناموں کو بہت پسند کرتا ہوں۔‘
’’خوب خوب۔۔۔ یہ سب باتیں جان کر خوشی ہوئی۔۔۔ ویسے آپ کا اس زخمی مریض کے بارے میں کیا خیال ہے۔۔۔‘‘
’’یہ ۔۔۔ بے یقینی کی کیفیت میں ہے۔۔۔ بچ بھی سکتا اور نہیں بھی۔‘‘
’’یہ بے چارہ بچ سکے گا یا نہیں۔۔۔ یار لوگ تو اسے مارنے پر تلے ہیں۔‘‘
’’آخر کیوں۔۔۔ ان لوگوں کا اس بے چارے نے کیا بگاڑا ہے۔‘‘
’’یہ بات ہمیں بھی معلوم نہیں۔۔۔‘‘
ایسے میں دروازہ زور دار آواز کے ساتھ کھلا اور ایک ڈاکٹر صاحب اندر داخل ہوئے۔۔۔
’’حیرت ہے۔۔۔ آپ لوگ ابھی تک زخمی کو ہوش میں نہیں لاسکے۔۔۔ آخر آپ کر کیا رہے ہیں۔‘‘ اس نے سخت لہجے میں کہا۔
’’سر!۔۔۔ ڈاکٹر نعیم کمال اور ساجد اقبال صاحب دیکھ رہے ہیں زخمی کو۔۔۔ میں تو ایک جونیئر ڈاکٹر ہوں۔‘‘
’’خیر میں دیکھتا ہوں۔۔۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے زخمی کا معائنہ شروع کر دیا۔۔۔ آخر زور دار انداز میں گردن ہلاکر بولا۔
’’بس ایک انجکشن اور یہ آنکھیں کھول دیں گے۔‘‘
’’ایسا ہو جائے تو کیا ہی بات ہے سر‘‘ ڈاکٹر رضوان نے خوش ہوکر کہا۔
’’ڈاکٹر نے انجکشن کی تیاری شروع کر دی۔۔۔ انجکشن اس نے اس بیگ میں سے نکالا جو وہ ساتھ لایا تھا۔۔۔ انہوں نے دیکھا اب وہ سرنج میں دوا بھر رہا تھا۔۔۔ ایسے میں محمود کو ڈاکٹر رضوان کی آنکھوں میں حیرت نظر آئی۔ اس حیرت کی جگہ پر خوف نے لے لی اور آخر اس نے گھبراہٹ کے عالم میں کہا۔
’’سر ! آپ کا نام کیا ہے؟‘‘
’’ہائیں!آپ نے مجھے نہیں پہچانا۔۔۔ بھئی میں ڈاکٹر شمعون۔۔۔‘‘
’’لیکن سر ۔۔۔ ہمارے ڈیپارٹمنٹ میں تو کوئی ڈاکٹر شمعون نہیں ہیں۔‘‘
’’کیا!!!‘‘ محمود اور فاروق کے منہ سے چیخنے کے انداز میں نکلا۔۔۔ پھر انہوں نے اس کی طرف چھلانگ لگا دی۔۔۔ لیکن انہیں ٹھٹک کر رک جانا پڑا۔۔۔ اسی وقت ڈاکٹر شمعون کے ہاتھ میں پستول نظر آیا تھا۔۔۔ اس کی سرد آواز نے ان کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی کی لہر دوڑا دی۔
’’خبردار ! تم لوگ ہاتھ اوپر کرلو۔۔۔ ذرا بھی حرکت کرنے کی کوشش کی تو یہ پستول بے آواز ہے۔۔۔ صرف ہلکی سی ڈز۔۔۔ ڈز کی آواز سنائی دے گی اور تم لوگ گرتے چلے جاؤ گے۔۔۔ کیا سمجھے !‘‘ یہ کہتے وقت اس کا لہجہ زبردست حد تک طنز یہ ہوگیا۔
ان کے ہاتھ اٹھتے چلے گئے۔۔۔ ادھر اس کے ہونٹ ہلے‘ آواز حد سے زیادہ سرد تھی۔
’’اس نوجوان کی موت بے حد ضروری ہے۔۔۔ اس کی موت نہ جانے کتنوں کے لیے زندگی کا پیغام لائے گی۔۔۔ کیا سمجھے ‘‘ 
’’کن لوگوں کے لیے زندگی کا پیغام لائے گی۔۔۔ یہ بھی تو بتائیں نا۔‘‘ محمود نے جلدی سے کہا۔
’’بس! ایک انجکشن! اس کے بعد معاملہ ختم۔‘‘
یہ کہہ کر وہ نواز کے بازو پر جھک گیا۔۔۔ جب کہ پستول کا رخ بدستور ان کی طرف تھا۔۔۔ گویا وہ ایک ہاتھ سے انجکشن لگانا چاہتا تھا۔
’’آپ ایک بات بھول گئے۔۔۔‘‘ فاروق مسکرایا۔
’’کیا ۔۔۔ کیا بھول گئے ہیں۔‘‘ وہ چونکا۔
’’وہ بات کر۔۔۔کر۔۔۔‘‘ فاروق کر کہتے کہتے رک گیا ۔
’’خبردار فاروق بے وقوفی نہ کرو۔۔۔ وہ بات اگر تم نے اس نقلی ڈاکٹر کو بتا دی تو پھر ہم سب گئے کام سے۔۔۔‘‘
’’بتاؤ۔۔۔ وہ کیا بات ہے۔۔۔ ورنہ میں پہلے تمہارا کام تمام کرتا ہوں۔‘‘ وہ گھوم گیا۔
’’واہ۔ یہ ہوئی بات۔۔۔ کیا خوب !‘‘ محمود چونکا۔
’’تم دونوں پاگل تو نہیں ہوئے ‘‘وہ جھلا اٹھا۔
’’کچھ لوگوں کا ہمارے بار ے میں یہ خیال بھی ہے۔۔۔ اگر ایک آپ بھی ایسا سوچ لیں گے تو کیا ہوا‘‘
’’اچھی بات ہے۔۔۔ تم لوگوں کا کام پہلے تمام کیے دیتا ہوں۔۔۔ اس طرح میں اطمینان سے انجکشن لگا سکوں گا‘‘
’’بسم اﷲ کرو۔۔۔ ہم بھی دراصل یہی چاہتے تھے۔‘‘
’’کیا چاہتے تھے تم۔‘‘
’’یہی کہ تم وہ بات نظر انداز کردو۔۔۔ اور تم نے نظر انداز کردی۔۔۔ تم اس زخمی کو چھوڑکر ہماری طرف متوجہ ہوگئے۔۔۔ لیکن یہ نہ سوچا کہ ہم تمہاری توجہ کس طرف دلانا چاہتے تھے۔۔۔ کیا یہ ہماری کامیابی نہیں۔‘‘
’’تم صرف میرا وقت ضائع کرنا چاہتے ہو۔۔۔ شاید تمہیں امید ہے۔۔۔ کوئی آجائے گا۔۔۔ اور تمہیں اور اس زخمی کو بچالے گا۔۔۔ لیکن خود تم یہ بات بھول رہے ہو۔۔۔ میں نے اندر آتے ہی پہلے دروازہ اندر سے بند کیا تھا۔۔۔ لہٰذا کسی کے اندر آنے کا کوئی امکان نہیں۔‘‘
’’لیکن یہاں سے جانے کے لئے تو تمہیں دروازہ کھولنا پڑے گا۔‘‘
’’تو اس سے کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’کیا تم نکل جانے میں کامیاب ہوجاؤ گے‘ ہرگز نہیں پھر کیونکہ تم واقعی ایک بات بھول گئے ہو اور اس میں ذرہ بھر مذاق نہیں ہے۔۔۔ اور وہ بات اب خود بخود سامنے آجاتی ہے۔۔۔ تم بھی کیا یاد رکھو گے۔۔۔ کہ کن لوگوں سے پالا پڑا تھا۔۔۔ ادھر دیکھو۔۔۔ تم وہ بات بھول رہے ہو بے وقوف۔۔۔‘‘ یہ کہتے ہوئے فاروق نے فرزانہ کی طرف اشارہ کردیا۔
اس کے ساتھ ہی کوئی وزنی چیز اس کی پیشانی پر پوری قوت سے لگی۔ اس کے منہ سے ایک چیخ نکل گئی۔ پستول اس کے ہاتھ سے نکل گیا۔۔۔ سرنج بھی گر گئی اور وہ چکر کھاتا ہوا زمین پر گرا۔
عین اسی لمحے کسی نے زور دار انداز میں دروازہ دھڑ دھڑا ڈالا۔
انہوں نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا۔۔۔ پھر محمود نے دبی آواز میں کہا ’’ بہت خوب فرزانہ۔۔۔ تم نے کمال کر دیا۔۔۔ پیپر ویٹ کا اس سے خوب صورت استعمال ہو بھی کیا سکتا ہے کہ دشمن کی اس سے خبر لے لی جائے۔‘‘
’’شش۔۔۔ شش ۔۔۔ میں بے ہوش ہوں۔۔۔ یہ نہ بھولو۔۔۔ دروازے کی طرف دھیان دو اور خبر دار جب تک معلوم نہ ہو جائے کہ باہر کون ہے‘ دروازے نہ کھولنا۔۔۔ کیونکہ اس بات کا زبردست امکان ہے کہ اس کے ساتھی باہر موجود ہیں۔‘‘
’’ہوں ۔۔۔ تم فکر نہ کرو۔۔۔ اور پھر سے بے ہوش ہو جاؤ۔۔۔ تمہاری یہ بے ہوشی ہمیں بہت راس آئی ہے۔‘‘
’’ ارے بھائی۔۔۔ زخمی حملہ آور کا بھی دھیان رکھو۔۔۔ ایک پیپر ویٹ کھا کر یہ زیادہ دیر بے ہوش نہیں رہ سکتا۔۔۔ اور دروازے کی طرف بھی توجہ دو۔۔۔‘‘ یہ کہتے ہوئے فرزانہ نے آنکھیں بند کرلیں۔
اب محمود دروازے کی طرف بڑھا۔۔۔ فاروق زخمی حملہ آور کی طرف متوجہ ہوگیا وہ بدستور بے ہوش تھا۔۔۔ لیکن پھر بھی اس کی طرف سے محتاط رہنے کی ضرورت تھی۔۔۔ یہ سوچتے ہوئے اس نے سب انسپکٹر اکرام کے نمبر ملائے ادھر محمود دروازے پر جاکر بولا۔
’’باہر کون ہے؟‘‘
’’ڈاکٹر۔۔۔‘‘
’’اندر فی الحال ڈاکٹر کی ضرورت نہیں ہے‘‘
’’کیا مطلب یہ بات ڈاکٹر کو معلوم ہونی چاہئے نہ کہ مریض کے عزیزوں کو‘‘
’’میں نے درست کہا ہے۔۔۔ ابھی انتظار فرمائیں۔۔۔ دروازہ کچھ دیر بعد کھلے گا‘‘
’’میں کہتا ہوں۔۔۔ دروازہ کھولو ۔۔۔ باہر سے سخت لہجے میں کہاگیا۔
محمود چونک اٹھا۔۔۔ کیونکہ ڈاکٹر اس لہجے میں بات نہیں کرسکتا تھا۔ اس کا مطلب تھا۔۔۔ باہر اسی زخمی حملہ آور کے ساتھی موجود ہیں۔ وہ مسکرایا۔۔۔ ادھر فاروق آئی جی صاحب کو ساری صورتحال بتا رہا تھا۔ پھر وہ فون بند کرکے بولا۔
’’آئی جی انکل فورس بھیج رہے ہیں‘‘یہ کہتے ہوئے انہوں نے زخمی کی طرف دیکھا۔۔۔ اس کے سر سے خون بہہ رہا تھا۔۔۔ ایسے ہی اس کے جسم میں حرکت بھی ہوئی یہ دیکھ کر محمود اس کے نزدیک چلا گیا۔ اور پیپر ویٹ اٹھا کر اس کے سر پر دے مارا۔۔۔ وہ پھر ساکت ہوگیا۔
’’تم لوگ دروازہ کھولو۔۔۔ ورنہ ہم توڑ دیں گے۔۔۔‘‘
’’ضرور توڑ ڈالو۔۔۔ لیکن اتنا خیال رہے۔۔۔ جونہی دروازے گرے گا۔۔۔ ادھر سے گولیوں کا تحفہ باہر کی طرف آئے گا۔۔۔ کیونکہ تمہارے ساتھی کا پستول اب ہمارے قبضے میں ہے۔ اور ساتھی صاحب مکمل طور پر زخمی پڑے ہیں۔ ان کے سر سے خون بہہ رہا ہے۔‘‘
’’کیا!!؟ ‘‘باہر سے چیخ کرکہا گیا اور پھر دوڑتے قدموں کی آواز سنائی دی۔
’’دروازہ اب بھی نہ کھولنا محمود۔۔۔ یہ دوڑتے قدموں کی آواز فرضی بھی ہوسکتی ہے‘‘
’’یار اتنی عقل مجھ میں بھی ہے ۔۔۔ زیاہ شیخی نہ بگھارو۔‘‘
’’حد ہوگئی۔۔۔ بگھارنے کے لئے اور تھوڑی چیزیں۔‘‘ فاروق نے آنکھیں نکالیں۔
’’اس سلسلے میں فرزانہ زیادہ بہتر بتاسکے گی۔۔۔‘‘ محمود نے فوراً کہا۔
’’لیکن میں بے ہوش ہوں۔۔۔‘‘ اس کی ہلکی سی آواز ابھری۔
’’تبھی اس قدر آہستہ آواز میں بات کر رہی ہو۔‘‘
دروازے پر اب سکون تھا۔۔۔ شاید دستک دینے والا بھاگ گیا تھا۔۔۔ زخمی حملہ آور بدستور بے ہوش تھا۔۔۔ وہ اس کی طرف منہ کرکے بیٹھ گئے۔
’’ اب تو نوروز صاحب کو جلد از جلد ہوش میں آجانا چاہئے۔۔۔ ورنہ ان پر حملے کا خطرہ برابر جاری رہے گا۔۔۔ اور ان کی حفاظت والا کام مشکل ہو جائے گا۔
’’اللہ اپنا رحم فرمائیں گے۔۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔‘‘
ایک بار پھر دروازے پر دستک کی آواز سنائی دی۔۔۔ اس مرتبہ انداز مختلف تھا۔۔۔ چنانچہ محمود دروازے کے نزدیک چلا آیا اور بولا۔
’’جی باہر کون صاحب ہیں۔‘‘
’’سب انسپکٹر خالد۔۔۔‘‘ ادھر سے آواز آئی۔
’’کیا آپ کے ساتھ آپ کے کچھ ماتحت ہیں‘‘
’’ہاں ہاں بھئی۔ کیوں نہیں۔۔۔ خیر تو ہے۔۔۔ بہت زیادہ احتیاط کر رہے! سب انسپکٹر خالد کے لہجے میں حیرت تھی۔
’’کیا کیا جائے انکل۔۔۔ آپ ذرا دائیں بائیں‘ آگے پیچھے اور ادھر نیچے کا جائزہ لے لیں۔ کیونکہ اس بات کا زبردست امکان ہے۔۔۔‘‘
’’ کیا ہو گیا تمہیں۔۔۔ میاں دور دور تک کوئی نہیں ہے۔‘‘
’’کیا واقعی‘‘ محمود بے یقینی کے عالم میں بولا۔
’’حد ہوگئی ہے۔۔۔ توبہ ہے تم سے۔۔۔‘‘
’’اچھی بات ہے۔۔۔ میں دروازہ کھول رہا ہوں۔‘‘
’’اس سے اچھی بات اور کیا ہوسکتی بھلا۔‘‘ خالد نے جھلا کر کہا۔
دونوں مسکرائے۔۔۔ پر محمود نے دروازہ کھول دیا۔۔۔ اس کے ساتھ ہی خالد اندر داخل ہوگیا۔۔۔ لیکن فوراً ہی منہ کے بل فرش پر گرا اس کے منہ سے ایک ہلکی سی چیخ بھی نکل گئی۔
’’خبردار! ہاتھ اوپر رکھ دو۔۔۔‘‘
’’لیجئے۔۔۔ ایک اور آگئے‘‘ فاروق نے بیزاری کے انداز میں کہا۔
’’ایک نہیں تین‘‘ آنے والوں میں سے ایک نے کہا۔
’’حد ہوگئی۔۔۔ یعنی یک نہ شد تین شد۔۔۔‘‘ فاروق بھنا اٹھا۔
اس وقت تک انسپکٹر خالد اٹھ چکا تھا۔۔۔ مارے حیرت کے اس کا برا حال تھا۔
’’آپ تو کہہ رہے تھے۔۔۔ دور دور تک کوئی نہیں ہے۔‘‘
’’یہ ضرور کہیں چھپے ہوئے تھے۔۔۔ جونہی دروازہ کھلا اور میں اندر داخل ہوا یہ بھی بس اس لمحے دروازے پر پہنچ گئے۔۔۔ ‘‘انسپکٹر خالد نے کہا۔
’’بالکل درست سمجھے۔۔۔ حیرت تو یہ ہے کہ ہمارا ساتھی تم دونوں کے ہاتھ سے کسی طرح مار کھا گیا۔‘‘
’’شریف آدمی ہے۔۔۔ اپنی شرافت کی بنا پر مار کھا گیا۔۔۔ اور بے چارہ کرتا بھی کیا‘ آخر کچھ نہ کچھ تو اسے کھانا ہی تھا۔۔۔‘‘ فاروق نے جلدی جلدی کہا۔
’’توبہ ہے فاروق تم سے۔۔۔‘‘ محمود نے جلے کٹے انداز میں کہا۔
’’اللہ سے توبہ کرتے ہیں بھائی۔۔۔‘‘ فاروق مسکرایا۔
’’اللہ مجھے معاف کرے۔‘‘ محمود نے گھبرا کر کہا۔
’’ویسے یہ آپ نے کیا بات کہی۔۔۔ کیا آپ کا ساتھی کبھی کسی سے مار نہیں کھاتا۔
’’یہ پانچ پر بھاری ہے۔‘‘ ایک نے منہ بنایا۔
’’اللہ کا شکر ہے‘ چھ سات پر بھاری نہیں ہے۔ صرف پانچ پر بھاری ہے۔‘‘
’’سوڈو! ان کے بارے میں مشہور ہے یہ دوسروں کو باتوں میں لگا کر اپنا کام نکال لیتے ہیں۔ شاید اسی طرح شاکا مار کھا گیا۔۔۔ اور اب یہ ہمیں چکر دینے کے چکر میں ہیں۔۔۔ لہٰذا اپنا کام کرو اور یہاں سے نکل چلو۔‘‘
’’تم نے ٹھیک کہا استاد۔۔۔ پہلے تو نوروز کا کانٹا نکالنا چاہیے۔ اصل خطرہ ہمارے لئے یہ شخص ہے۔ کم بخت کس قدر سخت جان نکلا۔۔۔ اتنے گہرے زخم کھا کر بھی زندہ ہے۔
سوڈو نے برا سامنہ بنایا۔
’’اب سوڈو آگے بڑھا۔ اس نے فرش پر گری ہوئی سرنج اٹھالی۔۔۔ اور نوروز کی طرف بڑھا۔
’’’لوجی ۔۔۔یہ بے چارہ تو گیا کام سے یہ کہتے ہوئے سوڈو و حشیانہ انداز میں ہنسا۔
’’جونہی وہ نوروز کے بالکل نزدیک پہنچا۔۔۔ ایک فائر کی آواز گونجی اور وہ اچھل کر دیوار سے جا ٹکرایا۔۔۔ گولی اس کی پیشانی پر لگی تھی۔
ان کے ہوش اڑ گئے۔۔۔ بوکھلا کر سوڈو کو دیکھا۔۔۔ وہ دم توڑ چکا تھا۔ گولی سیدھی اس کے دماغ میں اتر گئی تھی۔
’’یہ ۔۔۔ یہ گولی کہاں سے آئی‘‘ استاد نے بوکھلا کر کہا۔
’’اس پر ہمیں بھی حیرت ہے‘‘ فاروق بولا۔
’’میں سمجھ گیا۔۔۔ اندازہ لگا سکتا ہوں۔۔۔ یہ سب اس لڑکی کا کیا دھرا ہے۔ یہ بے ہوش نہیں ہے۔
’’یہ کہہ کر استاد اس کی طرف بڑھا۔۔۔ اسی وقت ایک گولی اسے چاٹ گئی۔ ساتھ ہی تیسری گولی نے تیسرے کا مزاج پوچھ ڈالا۔
آن کی آن میں میدان صاف ہوگیا۔
’’حیرت ہے۔۔۔ کمال ہے۔۔۔!!‘‘ فرزانہ تو آج بہت ہی اونچی جا رہی ہے۔ سب انسپکٹر خالد کے منہ سے نکلا۔۔۔ ساتھ میں وہ ہنسا بھی۔
’’انکل! میں بے ہوش ہوں۔۔۔ کچھ تو خیال کریں‘‘
’’دھت تیرے کی۔۔۔‘‘ محمود نے بھنا کرکہا۔
اور پھر انسپکٹر خالد نے اپنے ماتحتوں کو بلالیا۔۔۔ دوسرے ماہرین بھی آگئے۔۔۔ اسپتال کو گھیرے میں لے لیا گیا۔ خاص طور پر اس کمرے کے چاروں طرف خفیہ فورس کے کارکن کھڑے کر دیئے گئے۔۔۔ لاشوں کی تصاویر وغیرہ لینے کے لیے انہیں اٹھوا دیا گیا۔۔۔ کمرے کی چنائی بھی کر دی گئی۔۔۔ اس دوران وہ سب پوری طرح چوکنے رہے تھے۔ کہ کہیں پھر کوئی نقلی ڈاکٹر نہ آجائے۔
دوسری طرف انہوں نے اسپتال کی انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ ایک ڈاکٹرہر وقت نوروز کے پاس موجود رہے۔۔۔ ان کی اس درخواست کو فوراً مان لیا گیا اور ڈاکٹر صاحب آگئے۔۔۔ انہوں نے پہلے سے اس کی طرف سے اطمینان کرلینا ضروری سمجھا۔
’’ہاں جناب آپ کی تعریف۔۔۔؟‘‘
’’میں ڈاکٹر محسن ہوں۔۔۔‘‘ وہ مسکرایا۔
’’دیکھ لیں۔۔۔ کہیں آپ بھی نقلی تو نہیں۔‘‘
’’نہیں ۔۔۔ میں بالکل اصلی ہوں۔‘‘
آپ کے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے۔
’’میرے کاغذات چیک کرلیں۔‘‘
’’ہاں ٹھیک ہے۔۔۔ پہلے آپ اپنے کاغذات چیک کرائیں۔ پھر ہم میڈیکل سپرنٹنڈنٹ سے تصدیق کریں گے۔‘‘
’’ضرور ضرور۔۔۔ کیوں نہیں۔۔۔‘‘
انہوں نے اس کے کاغذات چیک کئے۔ وہ بالکل ٹھیک تھے۔ اب انہوں نے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ سے فون پر بات کی۔۔۔ ان سے ڈاکٹر محسن کے بارے میں سوالات کئے۔۔۔ اس کے نتیجے میں بھی ڈاکٹر محسن درست آدمی ثابت ہوا۔ اس طرح انہیں کم از کم اس کی طرف سے تو اطمینان ہوگیا۔۔۔
’’سوال یہ ہے کہ اب ہم کیا کریں۔۔۔ نوروز کے دشمن اسے ہلاک کرنے پر تلے ہیں۔۔۔ ادھر ابا جان اور انکل اکرام ایسے گئے کہ اب تک لوٹ کر نہیں آئے۔۔۔ حالانکہ وہ جانتے ہیں۔۔۔ یہاں حالات کس قدر ہنگامی نوعیت کے ہیں۔‘‘
’’خیر۔۔۔ گئے تو وہ بھی کسی عام کام سے نہیں‘‘ فرزانہ نے جلدی کی۔
’’حد ہوگئی۔۔۔ بھئی تم بے ہوش ہو۔۔۔ فاروق جل گیا۔
’’ارے! یہ تو میں بھول ہی گئی۔۔۔‘‘ فرزانہ نے شرمندہ ہوکر کہا
’’تو تم اس سبق کو طوطے کی طرح کیوں نہیں رٹ لیتی۔‘‘
اب پہلی فرصت میں یہی کروں گی۔۔۔‘‘ فرزانہ مسکرائی ایسے میں ایک بار پھر دروازے پر دستک ہوئی۔

*۔۔۔*

انسپکٹر جمشید کی جیپ ایک بہت پرانے مکان کے دروازے پر رکی۔۔۔ دروازہ نہ صرف یہ کہ پرانا تھا‘ بلکہ بوسیدہ بھی تھا۔۔۔ البتہ نہایت بڑا۔۔۔ ایسا لگتا تھا جیسے کسی بہت بڑی حویلی کا ہو۔
’’چلواکرام اترو اور اس دروازے پر دستک دو۔‘‘
’’لیکن کون رہتا ہے۔۔۔‘‘
’’میں ایک اندازے کی بنیادپر یہاں آیا ہوں اکرام۔۔۔ اور میرا اندازہ غلط بھی ہوسکتا ہے۔‘‘
’’بہت مشکل ہے سر۔۔۔ میں نے تو آج تک آپ کا کوئی اندازہ غلط ہوتے دیکھا نہیں۔‘‘
’’نہیں خیر۔۔۔ ایسی بات تو نہیں۔۔۔ اندازے تو میرے غلط ہوئے ہیں‘ ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ کم ۔۔۔ اور یہ سب اللہ کی مہربانی ہے۔‘‘
’’اچھی بات ہے سر۔۔۔ میں سمجھ گیا۔۔۔ فی الحال مجھے کچھ نہیں بتائیں گے۔‘‘
’’ہاں! یہ بات تو ہے۔‘‘
’’خیر! میں دروازے پر دستک دیتا ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر اکرام جیپ سے اتر گیا اور اس دروازے پر پہنچا۔۔۔ دائیں طرف گھنٹی کا بٹن لگا تھا۔۔۔ اس نے بٹن دبا دیا۔۔۔ اور پھر پیچھے ہٹ آیا۔ ایک منٹ کے انتظار کے بعد دروازہ کھلا اور ایک بوڑھا آدمی نظر آیا۔۔۔ اس نے ان کے چہروں پر نظریں ڈال دیں۔۔۔ پر اس کے منہ سے نکلا۔
’’جہاں تک میرا اندازہ ہے۔۔۔ آپ انسپکٹر جمشید ہیں۔‘‘
’’آپ ٹھیک سمجھے۔‘‘
اس وقت تک وہ بھی جیپ سے اتر کر ان کے نزدیک پہنچ چکے تھے۔
’’تب پھر ہماری خیر نہیں۔۔۔ کیونکہ آپ بلاوجہ تو آئے نہیں ہوں گے‘‘ بوڑھا ہنسا۔
’’یہ تو خیر ٹھیک ہے کہ ہم بلاوجہ نہیں آتے۔۔۔ لیکن آپ کے لئے پریشانی والی کوئی بات ہیں۔‘‘
’’خیر خیر۔۔۔ آپ تشریف لایئے۔‘‘
وہ انہیں اندر لے آیا۔۔۔ ڈرائنگ روم پر انے انداز میں سجایا گیا تھا۔۔۔ یہ عمارت بھی پرانے طرز کی تھی۔۔۔ اور اس کے پرانے پن سے لگتا تھا اس میں رہنے والوں کو اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ وہ کس قسم کی جگہ میں رہ رہے ہیں۔‘‘
’’آپ تشریف رکھیئے۔۔۔ میں آپ کے لئے پینے کو کچھ لاتا ہوں۔‘‘
’’اس کی ضرورت نہیں! بس آپ تشریف رکھیے ماسٹر سابان ۔‘‘
’’پھر بھی۔۔۔ کچھ تو ہو جائے‘‘ وہ بولا۔
’’نہیں۔۔۔ بالکل ضرورت نہیں۔۔۔ آپ بیٹھیں۔‘‘
آخر وہ ان کے سامنے صوفے پر بیٹھ گیا۔
’’کیا میں بات شروع کروں۔‘‘
’’جی ضرور۔۔۔‘‘
’’کسی زمانے میں آپ ایک گینگ کے ساتھ کام کرتے تھے۔۔۔ وہ گینگ جرائم پیشہ لوگوں کا تھا۔ اس گینگ میں کرائے کے قاتل بینک لوٹنے کے ماہر اور بچوں کو اغوا کرنے والے لوگ شامل تھے۔۔۔ اس گینگ کا نام تھا تھری اسٹار۔۔۔ وہ جہاں بھی واردات کرتے جاتے۔۔۔ اپنا نشان ضرور چھوڑ کر جاتے تھے۔۔۔ اور ان کا نشان تھا تھری اسٹار۔۔۔ یعنی پیتل کے ایک سکے پر تین ستارے نیلے رنگ کی کسی دھات کے بنے ہوتے تھے اور وہ اس پر چمکتے تھے۔۔۔ لوگ اس سکے کو دیکھ کر خوف زدہ رہ جاتے تھے۔۔۔ اس طرح یہ گینگ لوگوں کو بلیک میل بھی کرتا تھا۔۔۔ بس جس کی کوئی کمزوری اس گینگ کے علم میں آجاتی۔۔۔ اسے بلیک میل کرنا شروع کر دیا جاتا ۔۔۔ اس سے بڑی بڑی رقمیں وصول کی جاتی تھیں۔ پر اس گینگ کے کچھ لوگ ایک واردات کے دوران پکڑے گئے۔۔۔ اس کے ساتھ ہی گینگ کے باقی لوگ فوراً زیرِ زمین چلے گئے اور پھر کبھی تھری اسٹار کا نام سننے میں نہ آیا۔۔۔ ‘‘ یہاں تک کہہ کر انسپکٹر جمشید خاموش ہو گئے۔۔۔
’’ابھی تک میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ آپ یہ تفصیل مجھے کیوں سنا رہے ہیں۔۔۔ یہ ٹھیک ہے میں ان گرفتار ہونے والوں میں سے ایک ہوں۔۔۔ میں نے دوسرے گرفتار ہونے والوں کے ساتھ اپنے تمام جرائم قبول کر لئے تھے۔۔۔ پولیس نے ہم سے اس شرط پر رعایت کرنے کی پیش کش کی تھی کہ ہم باقی لوگوں کی گرفتاری میں مدد کریں۔۔۔ میں نے یہ شرط مان لی تھی۔۔۔ اور گینگ کے تمام ٹھکانوں کے بارے میں بتا دیا تھا۔۔۔ ان تمام ٹھکانوں کے بارے میں یہ تو یقین کر لیا گیا تھا کہ ہم نے پولیس کی مدد کرنے میں پوری دیانت داری سے کام لیا ہے۔۔۔ لیکن یہ اور بات تھی کہ کوئی اور کارکن گرفتار نہیں ہوسکا تھا۔۔۔ لیکن اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں تھا۔۔۔ اس بنا پر حکومت نے ہمیں کافی کم سزائیں سنائی تھیں۔ میں اور میرے ساتھی اپنی سزائیں پوری کرکے جیلوں سے رہا کر دیئے گئے تھے۔۔۔ کہانی تو بس اتنی ہی ہے۔۔۔ اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں۔۔۔ اس کے بعد میں نے کبھی کوئی جرم نہیں کیا۔۔۔ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنی گردن کو زور دار جھٹکا دیا۔
’’یہ بات تو خیر مجھے معلوم ہے۔۔۔‘‘ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
’’تب پھر۔۔۔ آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں۔‘‘
’’آپ جانتے ہیں۔۔۔ گینگ کے باقی ماندہ لوگ پھر کبھی سامنے نہیں آئے۔۔۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ انہوں نے جرائم چھور دیئے۔۔۔ اور اس معاشرے میں کہیں گھل مل گئے۔۔۔ انہوں نے کاروبار وغیرہ شروع کر دیئے۔۔۔ یہی بات ہوسکتی ہے نا۔’’دیکھئے۔۔۔ میرا ان سے اب کوئی رابطہ نہیں ہے۔۔۔۔ اس دن کے بعد ان کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں۔۔۔‘‘ اس نے فوراً کہا۔ 
’’بالکل ٹھیک۔۔۔ میں یہ تمام باتیں جانتا ہوں۔۔۔ یہ درست ہے۔۔۔ میں تو آپ کے پاس مدد کے لئے آیا ہوں‘‘ وہ مسکرایا۔
’’مدد۔۔۔ کیا مطلب ہے ماسٹر سابان نے حیران ہو کر کہا۔
’’یہی اس گینگ کے سردار کا حلیہ جاننا چاہتا ہوں۔‘‘
’’افسوس سر!‘‘ اس نے سرد آہ بھری۔
’’کس بات کا افسوس ہے آپ کو؟‘‘ انسپکٹر جمشید بولے۔
’’ہم سب میں کوئی سردار کا حلیہ نہیں بتا سکتا۔۔۔ وہ ہمیشہ نقاب ہی میں ہمارے سامنے آتا تھا۔۔۔ہم نے اس کا چہرہ کبھی نہیں دیکھا۔‘‘
’’بالکل ٹھیک۔۔۔ گرفتاری کے بعد سب نے یہی بات بتائی تھی۔۔۔ حلیے کا تعلق صرف شکل صورت سے نہیں ہوتا۔‘‘
’’جی ۔۔۔ کیا مطلب؟ ‘‘وہ چونکا۔
’’آپ مجھے اس کی کوئی خاص عادت بتا دیں۔‘‘
’’اتنے عرصہ بعد ۔۔۔ آپ کو اس کا خیال کیسے آگیا۔۔۔ کیا وہ پھر جرم کی دنیا میں واپس آگیا ہے۔‘‘
’’نہیں۔۔۔ ایسی بات نہیں۔۔۔ لیکن بہرحال وہ اسی انداز میں کہیں موجود ہے اور میں اس تک پہنچنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’یہی تو میں جاننا چاہتا ہوں۔۔۔ آخر اتنی مدت بعد آپ کو یہ خیال کیسے آگیا۔‘‘
’’اس کی ایک وجہ ہے۔۔۔ وہ وجہ میں آپ کو بعد میں بتاؤں گا۔ پہلے آپ یہ بتائیں۔۔۔ کیا آپ اب بھی اس کی آواز پہچان سکتے ہیں یعنی کسی جگہ اسے بولتے سنیں تو کیا آپ جان لیں گے کہ وہ تھری اسٹار کا سردار ہے۔۔۔‘‘
’’جی نہیں۔۔۔ یہ بہت مشکل ہے۔۔۔ کیونکہ ہمارا خیال ہے‘ وہ آواز بھی بدل کر بولا کرتا تھا۔‘‘
’’چلئے خیر۔۔۔ لیکن ہر انسان کی کوئی نہ کوئی خاص عادت ہوتی ہے۔۔۔ مثلاً کوئی بات کرتے ہوئے ذرا سے میز پر ہاتھ مارتا ہے‘ کوئی اپنے جسم کو کوئی حرکت دیتا ہے وغیرہ۔۔۔ آپ اس قسم کی کوئی بات تو بتاہی سکتے ہیں۔‘‘
’’ہاں کیوں نہیں۔۔۔ یہ تو ہے‘‘
’’بس تو پھر آپ صرف اتنی سی مدد ہماری کردیں۔‘‘
’’ ٹھیک ہے ۔۔۔ میں بتاتا ہوں۔۔۔ سردار کی ایک خاص عادت تو یہ تھی کہ بات کرتے وقت منہ سے سی سی کی آواز نکالتا تھا جیسے کوئی تیز مرچوں والی چیز کھا لی ہو۔۔۔ اور ایک اور عادت اس کی یہ تھی کہ اپنی انگلیاں چٹخاتا رہتا تھا۔‘‘
’’اور یہ دونوں باتیں آپ نے اس وقت تفتیش کرنے والوں کو بتائی ہوں گی۔‘‘ وہ مسکرائے۔‘‘
’’جی۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ بالکل بتائی تھیں۔‘‘
’’میں تو کوئی ایسی بات چاہتا ہوں۔۔۔ جو آپ نے اس وقت نہ بتائی ہو۔۔۔ لہٰذا خوب سوچ کر جواب دیں۔‘‘
’’اچھی بات ہے۔۔۔ لیکن پہلے آپ میری حیرت کیوں دور نہیں کر دیتے۔‘‘
’’کون سی حیرت؟
’’آپ کو تھری اسٹار گینگ کے سردار کا خیال کس طرح آگیا۔‘‘
’’جس زمانے آپ لوگ پکڑے گئے تھے۔۔۔ اس زمانے میں اس گینگ کی بہت خبریں اخبارات میں شائع ہوئی تھیں۔ میں نے ان خبروں کو بہت دلچسپی سے پڑھا تھا اور میں اس کیس پر کام کرنا چاہتا تھا۔ لیکن حکومت نے انہی دنوں مجھے ایک کیس کے سلسلے میں بیرونِ ملک بھیج دیا تھا۔۔۔ لہٰذا میں اس پر کام نہ کرسکا۔ میری واپسی دو سال بعد ہوئی تھی اور آتے ہی میں ان گنت مصروفیات میں گھر گیا تھا۔۔۔ اس طرح تھری اسٹار گینگ کی طرف توجہ نہ دے سکا تھا۔‘‘
’’ہوں! ٹھیک ہے۔۔۔ میں تو یہ جاننا چاہتا ہوں۔۔۔ کہ اتنی مدت بعد سردار کا آپ کو کیسے خیال آگیا۔‘‘
’’میں نے ان دنوں اخبارات کا بہت غور سے مطالعہ کیا تھا۔۔۔ اور سردار کی ایک خاص عادت نوٹ کی تھی۔۔۔ آپ سے تو بس میں اس عادت کی تصدیق چاہتا ہوں۔۔۔‘‘
’’اور ۔۔۔اور وہ عادت کیا تھی؟‘‘ اس نے کھوئے کھوئے لہجے میں کہا۔۔۔ نہ جانے کیوں اس کی آواز سے اب خوف جھانکنے لگا تھا۔
’’سردار باتوں کے دوران اپنی گردن کو بہت زور دار انداز میں جھٹکے دیتا تھا۔‘‘
’’مم ۔۔۔ مجھے یاد پڑتا ہے۔۔۔ اس میں یہ عادت تھی ‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’شکریہ بس اتنا ہی کافی ہے۔۔۔ میں نے ایک شخص کو اس طرح سر کو جھٹکتے دیکھا ہے۔‘‘
’’لیکن اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوئی کہ وہ تھری اسٹار گینگ کا سردار بھی ہے۔ کیونکہ یہ عادت بہرحال کسی اور پر ہونا عین ممکن ہے۔‘‘
’’ہاں! یہ بات ہے۔۔۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ایسا کوئی شخص سردار نہیں ہوسکتا۔‘‘
’’اور آپ نے ایسا کرتے کسے دیکھا ہے۔‘‘
’’آپ کو۔۔۔‘‘ وہ پکار اٹھے۔
ماسٹر سابان ذرا بھی نہ چونکے۔۔۔ صرف مسکرا دیے اور بولے۔
’’میں تو بہت کم ایسا کرتا ہوں۔لیکن باس تو بات بات میں سر کو اس طرح جھٹکے دیتا تھا۔‘‘
’’اچھا شکریہ! چلئے پہلے میں اطمینان چاہتا ہوں کہ آپ تھری اسٹار کے باس نہیں تھے۔‘‘
’’توبہ کریں جی۔۔۔ وہ تو اب بھی اسی انداز میں کہیں موجود ہے۔‘‘
’’اچھی بات ہے۔۔۔ تو بہ کرتا ہوں۔‘‘ وہ مسکرائے۔
ماسٹر سابان نے برا سا منہ بنایا۔
’’آپ اس گینگ کے کئی ٹھکانوں کا ذکر کرتے رہے ہیں۔۔۔ آپ کی مدد سے کئی بار چھاپہ مارا گیا۔۔۔ لیکن سردار اور اس کے ساتھی گرفتار نہیں کئے جاسکے۔۔۔ کیا اس سے میں یہ خیال نہ قائم کرلوں کہ آپ کو ان کے بارے میں معلوم تو بہت کچھ تھا۔۔۔ لیکن آپ کئی اہم باتوں کو چھپا گئے تھے اور اس لئے پولیس سردار تک نہ پہنچ سکی۔۔۔‘‘ انسپکٹر جمشید یہاں تک کہہ کر خاموش ہوگئے۔ اور ماسٹر سابان کی طرف دیکھتے رہے۔ اس کے چہرے پر کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی۔۔۔ پہلے کی طرح پر سکون تھا۔۔۔ آخر اس نے کہا۔
’’یہ آپ کے اندازے ہیں۔ اندازے ثبوت نہیں ہوتے۔۔۔ جیل سے آنے کے بعد میں نے ان لوگوں کی گرفتاری کے لئے پولیس کے ساتھ پوری طرح تعاون کیا تھا۔۔۔ لیکن وہ لوگ ان تمام ٹھکانوں کو چھوڑ کر کہیں زیر زمین چلے گئے تھے۔۔۔ ان حالات میں میں او رکیا کرسکتا تھا۔۔۔ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ مجھے ان کے بارے میں معلوم ہے۔۔۔ تو اس بات کا کوئی ثبوت بھی ہونا چاہئے۔‘‘
’’ہاں! میرے پاس ثبوت ہے۔‘‘ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
’’کیا!!!‘‘ حیرت اور خوف کے ماسٹر سابان کے منہ سے نکلا۔

*۔۔۔*

انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔۔۔ جیسے کہہ رہے ہو ’’ یہ اب کون آگیا؟‘‘
’’ میں دیکھتا ہوں۔۔۔ تم لوگ پوری طرح چوکس رہو۔۔۔ ڈاکٹرمحسن صاحب آپ اس طرف آجائیں۔۔۔ کہیں آپ حملہ آوروں کی لپیٹ میں نہ آجائیں۔‘‘
’’تت۔۔۔ تو آپ کے خیال میں باہر پھر حملہ آور موجود ہیں۔‘‘ ڈاکٹر محسن گھبرا گئے۔
’’ یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔‘‘
یہ کہہ کر محمود دروازے کی طرف چلا گیا۔۔۔ حالات حد درجے خوفناک تھے۔۔۔ اور کسی پل رک نہیں رہے تھے۔۔۔ لمحہ بہ لمحہ ان میں تیزی آرہی تھی۔ ان تینوں کی خواہش تھی کہ اب ان کے والد وہاں آجائیں۔۔۔
دروازے پر پہنچ کر محمود نے کہا۔’’ باہر کون ہے؟۔۔۔ اس کمرے پر ایمرجنسی نافذ ہے۔‘‘
’’ ہم جانتے ہیں۔۔۔ میں ہوں بابر کپاڈیہ اور میرے ساتھ میری بیگم ہیں۔۔۔ ہم اپنے بیٹے کو دیکھنے کے لیے بری طرح بے چین ہیں۔۔۔ آپ نے ہمیں کمرے سے نکال دیا تھا۔اب ہم سے صبر نہیں ہو رہا۔۔۔ ہم ہر حال میں اپنے بیٹے کے پاس رہنا چاہتے ہیں۔‘‘ 
’’اس وقت تک غالباً تین بار آپ کے بیٹے پر حملہ ہو چکا ہے۔۔۔ دشمنوں کی نظریں پوری آپ کے بیٹے پر ہیں۔۔۔ ان حالات میں ہم دروازہ کھولتے ہوئے ڈرتے ہیں۔۔۔‘‘
’’ باہر میرے اور میری بیگم کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے۔‘‘
’’ پہلے بھی ایسا ہو چکا ہے ہمارے ساتھی اندر آنا چاہتے تھے ہم نے ان سے کہا۔۔۔ اچھی طرح اطمینان کر لیں۔۔۔ انہوں نے بتایا کہ دور دور تک کوئی نہیں ہے۔۔۔ آخر ہم نے دروازہ کھول دیا۔ پھر جونہی ہمارے ساتھی اندر آئے۔۔۔ ان کے پیچھے ہی تین حملہ آور بھی اندر آگئے۔۔۔ اور ان کے ہاتھوں میں پستول تھے۔۔۔ وہ تو اﷲ کی خاص مہربانی ہو گئی۔۔۔ کہ ہم نے آخر ان حملہ آوروں پر قابو پالیا۔۔۔ ورنہ آپ کے بیٹے کے ساتھ ہم بھی موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔۔۔ اس لیے ہم کہہ رہے ہیں کہ پہلے ہر طرف سے اطمینان کر لیں۔۔۔ مجرم آس پاس کہیں چھپے ہوئے ہیں شاید۔۔۔ جونہی وہ دیکھتے ہیں۔۔۔ دروازے پر پل پڑتے ہیں۔‘‘
’’ یوں تو میں پوری طرح دیکھ چکا ہوں۔۔۔ آپ کے کہنے پر ایک بار اور جائزہ لے لیتا ہوں۔۔۔ اس کے علاوہ میں ایک اور تدبیر اختیار کروں گا۔‘‘ بابر کپاڈیہ نے جلدی جلدی کہا۔ 
’’ اور وہ کیا تدبیر ہے۔۔۔ ذرا ہم بھی تو سنیں۔‘‘
’’ پہلے صرف میری بیگم اندر داخل ہوں گی۔۔۔ میں دروازے کی طرف کمر کرکے کھڑا رہوں گا اور اس حالت میں میرے ہاتھ میں پستول ہوگا۔‘‘
’’ بھئی واہ۔۔۔ تدبیر خوب ہے۔۔۔ آپ تو پورے جاسوس لگتے ہیں، اچھا خیر ۔۔۔ آپ یہ تدبیر اختیار کر لیں۔۔۔ میں دروازہ کھول رہا ہوں۔۔۔ اﷲ اپنا رحم فرمائے، آمین۔‘‘
’’آمین۔‘‘ باہر سے بھی کہا گیا۔
اور پھر محمود نے دروازہ ایک دم کھول دیا۔ فوراً ہی بیگم بابر اندر آگئیں اور محمود نے دروازہ بند کر دیا۔۔۔ پھر بولا۔
’’ کیا کسی اور نے اندر داخل ہونے کی کوشش کی تھی کوئی سامنے آیا۔‘‘
’’ بالکل نہیں۔۔۔ یہاں دور دور تک کوئی موجود نہیں۔‘‘ باہر سے کہا گیا۔
’’ اچھی بات ہے۔۔۔ میں دروازہ کھول رہا ہوں۔۔۔ فاروق ہوشیار۔۔۔ فف۔۔۔ فف ہوشیار۔‘‘
’’ فکر نہ کرو۔۔۔ پوری طرح ہوشیار ہوں۔۔۔ اور پوزیشن سنبھالے ہوئے ہوں۔‘‘
’’ اور یہ فف فف کیا کہا تھا آپ نے؟‘‘ بیگم بابر نے مارے حیرت کے کہا۔
’’ اس کے منہ سے بعض اوقات بے معنی باتیں نکل جاتی ہیں، آپ کوئی خیال نہ کریں۔‘‘ فاروق مسکرایا۔
’’ کیا کہا؟‘‘ محمود اس کی طرف الٹ پڑا ۔ انداز پھاڑ کھانے کا تھا۔
’’دروازہ ۔۔۔ بڑے بھائی دروازہ۔۔۔ تم دروازہ کھولنے جا رہے تھے۔‘‘ فاروق نے بوکھلا کر کہا۔
’’ ارے ہاں۔۔۔ دروازہ!‘‘
اور پھر محمود نے دروازہ کھول دیا۔۔۔ بابر کپاڈیہ ہاتھ میں پستول سنبھالے اندر داخل ہوئے اور پھر منہ کے بل گرے۔ ان کے منہ سے چیخ اور ہاتھ سے پستول نکل گیا۔ ساتھ میں ایک ہولناک آواز ابھری۔
’’خبردار ۔۔۔ کوئی حرکت نہ کرے۔۔۔ ورنہ گولی بابر کپاڈیہ کی کمرے سے نکل کر تم میں سے بھی کسی کو چاٹ جائے گی۔۔۔ یہ پستول بہت طاقتور ہے۔۔۔ بڑے چالاک بنے پھرتے ہیں۔۔۔ اور یہ کیا۔۔۔ ہاتھ نہیں اٹھائے تم نے اب تک۔۔۔ یہ لو پھر میں فائر کرنے لگا ہوں۔‘‘
’’ارے نہیں۔۔۔ بڑے بھائی۔۔۔ ایسی بھی کیا جلدی۔۔۔ یہ لو۔۔۔ ‘‘ ہم پستول گرائے دیتے ہیں۔۔۔ جو کچھ بھی ہماری دولت ہے۔۔۔ الٹائے دیتے ہیں۔‘‘
’’ یہ کیا۔۔۔ ایسے میں شاعری کی سوجھ رہی ہے۔‘‘ محمود نے جل کر کہا۔
’’ان حالات میں کچھ سوجھ تو رہا ہے۔۔۔ یہ بہت غنیمت ہے۔‘‘ فاروق مسکرایا۔
’’ہاہاہا۔۔۔ ساری چالاکی دھری رہ گئی۔۔۔ تم ایک طرف ہو کر کھڑے ہو جاؤ۔۔۔ اس دیوار سے جا لگو۔۔۔ اور اے ، چالاک ترین ننھی بچی۔۔۔ اب تم بھی بے ہوشی کا ڈھونگ ختم کرو اور ان کے ساتھ دیوار سے لگ جاؤ۔۔۔‘‘
’’ دھت تیرے کی۔۔۔ آرام سے بے ہوش بھی نہیں رہنے دیتے۔۔۔ کیسے ہیں، آج کے زمانے کے لوگ۔‘‘ فرزانہ برا سا منہ بناتے ہوئے بستر سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
اب وہ سب دیوار سے جا لگے۔۔۔ صرف بابر کپاڈیہ حملہ آور کے پاس کھڑا رہ گیا۔۔۔ انہوں نے دیکھا۔۔۔ یہ شخص بھی ڈاکٹروں والے کوٹ میں تھا۔۔۔ آنکھوں پر عینک بھی تھی۔۔۔ لہٰذا پوری طرح ڈاکٹر نظر آرہا تھا۔
’’ مسٹر بابر کپاڈیہ۔۔۔ اب تم بھی شرافت سے قدم اٹھاتے ہوئے ان لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوجاؤ۔ اور اپنے بیٹے کو آخری بار دیکھ لو۔۔۔ میرا مطلب ہے۔۔۔ زندہ حالت میں اس کا آخری دیدار کر لو۔‘‘
’’ نن۔۔۔ نہیں نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ آخر میرے بیٹے نے تمہارا کیا بگاڑا ہے۔۔۔ کیوں تم ہاتھ دھو کر اس کی جان کے پیچھے پڑ گئے ہو۔۔۔ تم میری ساری دولت لے لو۔۔۔ اس کی جان چھوڑ دو۔۔۔ ‘‘ بابر کپاڈیہ نے لڑکھڑاتے لہجے میں کہا۔
’’ خاموش !‘‘ تم لوگ ادھر ادھر کی باتیں نہ کرو اور مجھے اپنا کام کرنے دو۔‘‘
’’ اپنا کام۔۔۔ کون سا کام؟‘‘ فاروق نے کھوئے کھوئے لہجے میں کہا۔
’’ ہاں اپنا کام۔۔۔ بس زہر کا ایک انجکشن نوروز کو لگانا ہے۔۔۔ پھر ہم فارغ ۔۔۔ اور تم لوگ بھی فارغ۔‘‘
’’ ایسا ظلم نہ کرو۔۔۔ تم نے سنا نہیں ۔۔۔ بابر صاحب ۔۔۔ نے کیا کہا ہے؟۔۔۔ یہ تمہیں ساری دولت دینے کے لیے تیار ہیں۔‘‘
’’ ہاں ۔۔۔ سن چکا ہوں۔۔۔ بات دولت کی تو ہے ہی نہیں۔۔۔ ہمیں تو بس جان لینی ہے، اس کی۔۔۔ اگر دولت کی بات ہوتی تو ہم یہ سب بکھیڑا کیوں مول لیتے۔۔۔ براہِ راست بابر کپاڈیہ سے سودا کر لیتے۔‘‘
’’ میں تو بس جاننا چاہتا ہوں۔۔۔ آخر تمہیں میرے بچے سے کیا دشمنی ہے؟‘‘
’’ بہت مشکل سوال ہے۔۔۔ اس کا جواب ہمارے پاس نہیں ہے۔۔۔ لہٰذا چپ چاپ کھڑے رہو۔‘‘
یہ کہہ کر وہ نوروز کی طرف بڑھا۔۔۔ اب اس کے ایک ہاتھ میں پستول تھا۔۔۔ دوسرے میں سرنج تھی۔۔۔ سرنج اس نے ابھی ابھی جیب سے نکالی تھی۔
’’رحم کرو۔۔۔ رحم کرو۔۔۔‘‘ بیگم کپاڈیہ پکاری۔
’’رحم ہی تو کر رہا ہوں۔‘‘ وہ ہنسا۔
’’ کیا کہا۔۔۔ رحم ہی تو کر رہے ہو۔‘‘ فاروق مارے حیرت کے بول پڑا۔
’’ ہاں۔۔۔ نوروز کی موت نہ جانے کس کس کے لیے زندگی کا پیغام ہوگی۔‘‘
’’ یہ بات پہلے بھی کہی جا چکی ہے کیا تم اس کی وضاحت کر سکتے ہو؟‘‘ محمود نے پوچھا۔
’’حد ہوگئی ۔۔۔ پاگل ہوں میں کہ اس بات کی وضاحت کروں گا۔‘‘
’’ پپ۔۔۔ پتا نہیں۔‘‘ فاروق بولا۔
’’ کیا پتا نہیں؟‘‘ 
’’ یہ کہ آپ پاگل ہیں یا نہیں۔۔۔ اس کی وضاحت بھی تو آپ ہی کر سکتے ہیں۔‘‘
’’ اچھا چپ رہو۔۔۔ مجھے اپنا کام کرنے دو۔‘‘
اس نے ان سب پر نظر جما دیں اور نوروز کے بالکل قریب ہو گیا۔۔۔
’’ چلیں ہیں بے چارے نوروز کی زندگی لینے ۔۔۔ اور اپنی زندگی کا پتا نہیں۔‘‘ محمود کے منہ سے نکلا۔
’’ کیا مطلب؟‘‘ یہ کہہ کر وہ ان کی طرف مڑا۔
جونہی وہ مڑا۔۔۔ اس کے ہاتھ سے کوئی چیز ٹکرائی۔۔۔ اور پستول اس کے ہاتھ سے نکل گیا۔۔۔ ساتھ ہی محمود نے ایک لمبی چھلانگ لگائی اور پستول کے نزدیک جا گرا۔ دوسرے ہی لمحے پستول اس کے ہاتھ میں تھا۔
’’ کیا کہا تھا میں نے؟‘‘ محمود مسکرایا۔
حملہ آور کے منہ سے ایک لفظ نہ نکل سکا۔۔۔ بس وہ ہونقوں کی طرح ان کی طرف دیکھتا رہا۔
’’ ارے بھئی۔۔۔ کم از کم ہاتھ بھی اٹھا دو۔۔۔ کیا اس پستول کا اتنا بھی احترام نہیں کرو گے؟‘‘ فاروق نے منہ بنایا۔
اس کے ہاتھ اٹھ گئے۔
’’بہت خوب فرزانہ۔۔۔ تم اس مرتبہ بھی بہت خوب رہیں۔۔۔ ویسے جب تم بستر سے اٹھ کر دیوارکی طرف آئیں۔۔۔ اس وقت تک تو تمہارے دونوں ہاتھ خالی تھے۔۔۔ پھر یہ پیپر ویٹ کہاں سے ہاتھ میں آگیا؟‘‘ محمود نے پوچھا۔
’’ جیب سے نکال کر ہاتھ میں لیا۔‘‘ اس نے بتایا۔
’’ہائیں ۔۔۔ تو کیا تم پیپر ویٹ جیب میں لیے پھرتی ہو؟‘‘ فاروق بولا۔
’’نہیں۔۔۔ سنگین حالات کو محسوس کرتے ہوئے میں نے ایک پیپر ویٹ اٹھا کر پہلے ہی جیب میں رکھ لیا تھا۔۔۔ جب میں نے اسے پہلی بار استعمال کیا تو اس وقت اٹھا کر پھر جیب میں رکھ لیا تھا۔‘‘
’’بہت خوب فرزانہ۔۔۔ میرا خیال ہے۔۔۔ خطرات برابر بڑھ رہے ہیں۔ کیوں نہ ہم ابا جان سے رابطہ کریں اور ان سے درخواست کریں کہ وہ اب بس یہاں آہی جائیں۔‘‘
’’ضرور فون کرو۔۔۔ صاف ظاہر ہے۔۔۔ وہ بھی اسی کیس پر کام کر رہے ہیں۔۔۔ اور اس وقت جہاں بھی ہیں ۔۔۔ اسی کے سلسلے میں ہیں۔‘‘ 
’’ پھر بھی رابطہ کرنے میں کیا برائی ہے۔‘‘
محمود نے سر ہلادیا اور اپنے والد کے نمبر ملائے ۔۔۔ فون دوسری طرف سے بند تھا اکرام کا نمبر بھی بند ملا۔۔۔ چنانچہ اس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
’’ نہیں ! دونوں کے فون بند ہیں۔۔۔ مطلب یہ کہ وہ چاہتے ہیں۔۔۔ ہم اپنا کام جاری رکھیں اور وہ اپنا کام۔‘‘
’’ اور آخر ایک کام تو کر ہی سکتے ہیں۔۔۔ جو ہم نے اب تک نہیں کیا۔۔۔ حالانکہ پہلی فرصت میں کرنے والا کام وہی تھا۔‘‘ فرزانہ نے جلدی جلدی کہا۔
’’ اور وہ کون سا کام ہے۔‘‘
’’ اس کمرے کے باہر فورس موجود ہے۔‘‘
’’ بالکل ٹھیک۔۔۔ دراصل واقعات اس طرح پے در پے پیش آئے کہ ہمیں سوچنے سمجھنے اور سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملا۔۔۔اب پہلی بار موقع ملا ہے۔۔۔ لہٰذا میں انکل محمد حسین آزاد کو فون کر دیتا ہوں۔‘‘
’’بالکل ٹھیک۔‘‘
محمود نے محمد حسین آزاد کے نمبر ملائے تو دوسری طرف سے فوراً کہا گیا۔ 
’’ السلام علیکم محمود صاحب۔۔۔ سب انسپکٹر محمد حسین آزاد کو کس سلسلے میں یاد فرمایا جا رہا ہے؟‘‘
’’ آپ فوراً اپنے ماتحتوں کو ساتھ لے کر سول ہسپتال پہنچ جائیں۔ یہاں کے ایمرجنسی وارڈ نمبر ۳ پرائیویٹ میں آجائیں۔۔۔ آکر دستک دیں۔۔۔ اندر سے ہم آپ سے بات کریں گے۔‘‘
’’ کمرہ نمبر تین میں آپ لوگ کیا کر رہے ہیں؟‘‘ محمد حسین نے پوچھا۔
’’ جو ہم کمرہ نمبر چار میں نہیں کر سکتے۔‘‘ محمود نے منہ بنایا۔
’’اچھا جواب ہے۔۔۔ بندہ پہنچ رہا ہے۔‘‘
’’ذرا جلدی کریں۔۔۔ زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔‘‘
’’ معاملے آپ کے ساتھ بہت ہوتے ہیں۔‘‘
’’ بھائی ۔۔۔ باتیں بعد میں کر لیں گے۔‘‘ محمود جلدی سے بولا اور فون بند کر دیا۔
’’میرا خیال ہے۔۔۔ان صاحب کو باندھ لینا چاہیے۔۔۔ کہیں ایسا نہ ہو۔۔۔ یہ فرار ہونے کی کوشش کرڈالیں۔۔۔ اس کیس میں اب تک یہی صاحب ہمارے ہاتھ لگے ہیں اور ضرور کام کے ثابت ہوں گے۔۔۔ مطلب یہ کہ ان سے بہت سی معلومات حاصل ہوں گی۔۔۔ دوسری بات۔۔۔‘‘
محمود کے الفاظ درمیان میں رہ گئے ۔۔۔ عین اسی لمحے حملہ آور تڑ سے گرا تھا۔

*۔۔۔*

چند لمحے تک سابان پھٹی پھٹی آنکھوں سے ان کی طرف دیکھتا رہا۔۔۔ آخر پھنسی پھنسی آواز اس کے منہ سے نکلی۔
’’ثبوت پیش کریں پھر۔‘‘
’’ہاں! کیوں نہیں۔۔۔ اکرام ثبوت پیش کرو۔‘‘ انسپکٹر جمشید اس کی طرف مڑے اور مسکرائے بھی۔
’’ جج۔۔۔ جی ۔۔۔ کیا مطلب۔۔۔ مم۔۔۔ میں ثبوت پیش کروں۔‘‘ مارے حیرت کے اکرام نے کہا۔
’’ ہاں بھئی۔۔۔ تم اس بات کا ثبوت انہیں دکھاؤ کہ ان کا تعلق اب بھی تھری اسٹار کے باس سے ہے۔۔۔ اگرچہ اب وہ جرائم پیشہ قسم کا آدمی نہیں رہا۔۔۔‘‘
’’سر۔۔۔ مم۔۔۔ میں۔۔۔‘‘
’’تو تم ثبوت پیش نہیں کر سکتے۔‘‘
’’ نہیں سر۔۔۔ میں تو زندگی میں پہلی بار ان سے ملا ہوں۔۔۔ مجھے ان کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں۔‘‘
’’ ارے بھئی تم بھول رہے ہو۔‘‘ وہ ہنسے۔
’’ آپ زبردستی میرے خلاف کوئی ثبوت پیش کرنا چاہتے ہیں۔۔۔ لیکن آپ اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہوں گے۔‘‘
’’ کیا واقعی۔۔۔‘‘ انسپکٹر جمشید کے لہجے میں حیرت تھی۔
’’ ہاں اور کیا۔۔۔ یہ بات مجھ سے زیادہ کسے معلوم ہو سکتی ہے کہ میرا اب اس گینگ سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔ اگر آپ کے خیال میں ہے تو ثابت کریں۔‘‘
’’اکرام۔۔۔ تو تم اس سلسلے میں میری کوئی مدد نہیں کر رہے؟‘‘
’’ مم۔۔۔ میں حیران ہوں سر۔‘‘
’’ میں تمہاری مدد کیے دیتا ہوں۔‘‘
’’ کیا مطلب سر۔۔۔ آج تو آپ مجھے حیرت کے جھٹکے دے رہے ہیں۔‘‘
’’ ابھی یہ جھٹکے ماسٹر سابان کو بھی لگیں گے۔۔۔ تمہارے ریکارڈ میں ماسٹر سابان کی انگلیوں کے نشانات تو موجود ہوں گے نہیں۔‘‘
’’ جی۔۔۔ جی نہیں۔‘‘
’’ تو اب لے لو۔۔۔ پھر میں بتاؤں گا۔۔۔ ان کی انگلیوں کے نشانات ابھی ابھی کہاں ملے ہیں۔‘‘
’’ کیا مطلب ؟‘‘ ماسٹر سابان بہت زور سے اچھلا۔
’’دیکھا۔۔۔ میں نے کہا تھا ناں۔۔۔ ابھی انہیں بھی بہت جھٹکے لگیں گے۔‘‘ انسپکٹر جمشید ہنسے۔
’’واقعی سر۔۔۔ آپ بھی کمال کے آدمی ہیں۔‘‘اکرام کے لہجے میں حیرت تھی۔
’’ماسٹر سابان۔۔۔ آپ اپنی انگلیوں کے نشانات سب انسپکٹر اکرام کو دے دیں۔۔۔ پھر میرا کمال دیکھئے گا۔‘‘ 
’’آخر آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟‘‘
’’ کچھ کہنا نہیں، ثابت کرنا چاہتا ہوں۔ ویسے آپ کے حق میں بہتر ہو گا کہ اپنا جرم قبول کر لیں اور پوری کہانی خود سنادیں۔‘‘
ان کی بات سن کر وہ ہنسا ۔ پھر بولا۔
’’ میں سمجھ گیا۔۔۔ آپ کے پاس ہے کچھ نہیں اور چاہتے ہیں ، میں کسی ایسے جرم کا اقرار کر لوں جو میں نے کیا ہی نہیں۔‘‘
’’ اچھی بات ہے۔۔۔ یہ میرے پاس ایک پین ہے۔۔۔ اور اس پر کسی کی انگلیوں کے نشانات ہیں۔۔۔ اکرام ان کی انگلیوں کے نشانات لے لیں۔۔۔ اور پین پر پائے جانے والے نشانات سے ملا لیں۔۔۔ پھر ہم انہیں بتائیں گے کہ اب پین کہاں سے ملا؟‘‘
’’ نن۔۔۔ نہیں۔۔۔ نہیں۔‘‘ وہ ہکلایا۔۔۔ پھر زور سے اچھلا اور قالین پر آگرا۔
’’ارے ارے بھئی! یہ کیا۔۔۔ ساری بہادری ہوا ہو گئی۔۔۔ ابھی تو بہت بڑھ بڑھ کر باتیں کر رہے تھے۔‘‘ انسپکٹر جمشید ہنسے پھر چونک کر بولے۔
’’ہائیں۔۔۔ یہ کیا ؟‘‘
وہ تیزی سے اس پر جھکے پھر ان کے منہ سے مارے حیرت کے نکلا۔
’’ارے باپ رے یہ تو رخصت ہوا۔‘‘
’’ جی۔۔۔ کیا مطلب۔۔۔ ‘‘ اکرام دھک سے رہ گیا۔
’’ ہاں اکرام! یہ مر چکا ہے۔‘‘
’’ اوہ۔۔۔ اور۔‘‘
انہوں نے جلدی جلدی اس کا جائزہ لیا۔۔۔ پھر یہ دیکھ کر وہ ساکت رہ گئے کہ اس کی پیشانی میں ایک ننھی سی سوئی پیوست تھی۔
’’اکرام۔۔۔ دوڑو۔۔۔ قاتل ابھی زیادہ دور نہیں گیا ہوگا۔‘‘
یہ کہتے ہی انہوں نے بیرونی دروازے کی طرف دوڑ لگا دی۔۔۔ اکرام نے ان کا ساتھ دیا۔۔۔ اس مکان سے باہر نکل کر انہوں نے ادھر ادھر کا جائزہ لیا۔۔۔ سڑک پر ایک سرخ رنگ کی کار لمحہ بہ لمحہ دور ہوتی جا رہی تھی۔
’’اکرام۔۔۔ اس کار میں قاتل فرار ہو رہا ہے۔۔۔ آؤ۔‘‘
وہ فوراً اپنی کار میں بیٹھ کر سرخ کار کے تعاقب میں روانہ ہو گئے۔۔۔ سرخ کار اب انہیں نظر نہیں آرہی تھی۔۔۔ تاہم وہ جس سمت میں گئی تھی۔۔۔ اس سمت میں انہوں نے اپنا سفر جاری رکھا ۔۔۔ تقریباً پندرہ منٹ بعد انہیں سرخ کار دکھائی دینے لگی۔۔۔ اب تو ان پر جوش سوار ہو گیا۔
’’ اب تو ان شاء اﷲ ہم اسے جا لیں گے۔‘‘
’’ ان شاء اﷲ !‘‘
انسپکٹر جمشید رفتار برابر بڑھاتے چلے گئے ۔۔۔ اور سرخ کار کا ڈرائیور بھی کوئی کم ماہر نہیں تھا۔۔۔ وہ بھی برابر رفتار بڑھا رہا تھا۔ اس طرح انہیں اس تک پہنچنے میں کافی مشکل پیش آرہی تھی۔۔۔ اور اس طرح دونوں کاریں شہر سے باہر نکل آئیں۔۔۔ اب انسپکٹر جمشید کا کام آسان تھا۔۔۔ کیونکہ اب وہ خطرناک حد تک رفتار بڑھا سکتے تھے۔۔۔ اور یہی ہوا۔۔۔ جلد ہی وہ سرخ کار کے عین پیچھے پیچھے گئے ۔ اب انہوں نے اس سے آگے نکلنے کی کوشش شروع کر دی۔۔۔ سرخ کار کا ڈرائیور انہیں راستہ دینے کے لیے تیار نہ تھا اور وہ سڑک کے عین درمیان میں چل رہا تھا۔۔۔ انہوں نے اسے ہارن پر ہارن دیئے۔۔۔ وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔۔۔ آخر تنگ آکر انسپکٹر جمشید نے اکرام سے کہا۔
’’اکرام۔۔۔ اس کے پچھلے ٹائر پر فائر کریں۔‘‘
’’ دیکھ لیں سر۔۔۔ اگلی کار الٹ سکتی ہے۔۔۔ اور ہماری کار بھی اس سے ٹکرا جائے گی۔‘‘
’’ نہیں۔۔۔ میں اپنی کار سنبھال لوں گا۔۔۔ تم اطمینان رکھو۔۔۔ اور یہ سرخ کار ۔۔۔ وہ الٹتی ہے تو الٹتی رہے۔‘‘
’’اوکے سر۔‘‘
پھر اکرام نے بازو باہر نکال کر سرخ کار کے پیچھے کا نشانہ لیا اور فائر کر دیا۔۔۔ ساتھ میں ان کی کار لہرائی۔۔۔ ڈرائیور نے خود کو بڑی مہارت سے بچایا تھا۔۔۔ اس پر ان دونوں کو حیرت ہوئی۔۔۔اکرام نے پھر فائر کیا۔۔۔ اس مرتبہ ٹائر پھٹنے کا دھماکہ ہوا ۔۔۔ ساتھ میں انہوں نے پورے بریک لگائے۔۔۔ ان کی کار کافی دور تک لنگڑاتی چلی گئی۔۔۔ پھر دونوں کاریں کچھ فاصلے پر رک گئیں۔
سرخ کار کے رکتے ہی اس کا دروازہ کھلا اورانہوں نے ایک لڑکی کو باہر آتے دیکھا۔۔۔ اس نے باہر نکلتے ہی دوڑ لگا دی۔
’’اے لڑکی۔۔۔ مت بھاگو۔۔۔ تم ہم سے تیز نہیں دوڑ سکو گی۔‘‘
’’ اچھا! یہ بات ہے ۔۔۔ تو پھر ہوجائے مقابلہ۔‘‘
’’ہائیں اکرام ۔۔۔ یہ لڑکی ہمیں چیلنج کر رہی ہے۔‘‘
’’ہاں سر۔۔۔ لیکن اسے کیا معلوم کہ مقابلہ کس سے ہے؟‘‘ اکرام پکارا۔
’’انسپکٹر جمشید ۔‘‘ لڑکی ہنسی۔
’’ارے باپ رے۔۔۔ یہ تو جانتی ہے بھئی۔‘‘
’’ کوئی بات نہیں سر۔‘‘
اب وہ بے تحاشہ اس کے پیچھے دوڑ رہے تھے۔۔۔ یہ دوڑ جنگل کے گھنے درختوں کے درمیان ہو رہی تھی اور بہت جلد انہیں اس بات کا احساس ہو گیا تھا کہ لڑکی ان سے کسی طرح بھی کم رفتار نہیں تھی۔
’’یار۔۔۔ اب تو لگتا ہے ۔۔۔ اسے پکڑنے کے سلسلے میں ہمیں دانتوں پسینہ آجائے گا۔‘‘
اکرام ہنس پڑا۔۔۔ اور انسپکٹر جمشید نے بلند آواز منہ سے نکالی۔
’’محترمہ! ہم آپ کی رفتار اور ذہانت کے قائل ہو گئے۔۔۔ بس اتنا بتا دیں چکر کیا ہے؟‘‘
’’باس کو معلوم ہو گیا تھا کہ آپ ماسٹر سابان سے ملاقات کر رہے ہیں۔ بس انہوں نے مجھے حکم دے ڈالا۔۔۔ سابان کو ختم کردو۔۔۔ اور میں نے ایسا کر ڈالا۔‘‘
’’ آپ کے باس کون ہیں؟‘‘
’’ پتا نہیں کون ہیں۔۔۔ میں کیا جانوں۔۔۔ ہم لوگ تو بس اس کے لیے کام کرتے ہیں۔‘‘
یہ گفتگو بھی ہو رہی تھی اور بھاگ دوڑ بھی جاری تھی۔۔۔ پھر اچانک انہوں نے محسوس کیا ۔۔۔ درمیانی فاصلہ لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہا تھا۔
لگتا ہے اکرام۔۔۔ آج یہ لڑکی ہمیں چوٹ دے جائے گی۔‘‘ انہوں نے کہا۔۔۔ لیکن اکرام ان کی بات نہ سن کا۔۔۔ اس وقت تک وہ بہت پیچھے ہو گیا تھا۔۔۔ اور آخر لڑکی ان کی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔
دونوں رک گئے۔۔۔ اکرام تو بہت بری طرح ہانپ رہا تھا۔۔۔ تاہم انسپکٹر جمشید کا سانس زیادہ نہیں پھولا تھا۔
’’یہ۔۔۔یہ کیا ہوا سر؟‘‘ اکرام نے بوکھلا کر کہا۔
’’ اسے چوٹ ہوجانا کہتے ہیں اکرام۔‘‘ وہ مسکرائے۔
’’اس قدر تیز رفتار لڑکی سے تو شاید پہلی بار واسطہ پڑا ہے۔‘‘
’’ ہاں ہو سکتا ہے۔۔۔ خیر آؤ چلیں۔۔۔میرا خیال ہے۔۔۔ ہمیں ہسپتال کی خبر لینی چاہیے۔ کیونکہ حالات پکار پکار کر کہہ رہے ہیں ۔۔۔ وہاں بھی حالات خوفناک ہوں گے۔‘‘ 
’’اﷲ اپنا رحم فرمائے۔۔۔ ویسے میں بہت حیران ہوں۔۔۔ آپ تو ہسپتال میں تھے۔۔۔ آخر آپ کو ماسٹر سابان کا خیال کیسے آگیا۔۔۔ اور آپ نے کیسے جان لیا۔۔۔ اس معاملے میں اس کا تعلق ہے۔‘‘
’’ ہاں! یہ اہم سوال ہے۔۔۔‘‘ انسپکٹر جمشید نے سر ہلایا۔
’’تو اس سوال کا جواب بھی بتائیے ناں؟‘‘ اکرام بے چین ہو کر بولا۔
’’تھری اسٹار گینگ کے چکر میں میں بہت مدت تک رہاہوں۔۔۔ جب پہلی بار اس گینگ کے سزا یافتہ لوگ رہا ہوئے تو میں نے ان میں سے ہر ایک کی نگرانی شروع کروائی تھی۔۔۔ اور یہ کام خفیہ فورس کے ذریعے لیا تھا۔۔۔ اس طرح میں نے ان سب کے بارے میں معلومات حاصل کر لی تھیں۔۔۔ ان میں صرف ماسٹر سابان ایسا نظر آیا تھا۔۔۔ جس کی حرکات اور سکنات شک سے بری نہیں تھیں۔۔۔ باقی لوگوں نے اپنا کوئی کام کاج شروع کر لیا تھا اور بس اس کے ہو کررہ گئے تھے۔۔۔ ماسٹر سابان نے جیل سے رہا ہونے کے بعد ان ٹھکانوں میں سے ایک ٹھکانہ کا کئی بار رُخ کیا۔۔۔ جس کی نشان دہی اس نے پولیس کو کی تھی۔۔۔ پولیس کو وہاں سے کچھ بھی نہیں ملا تھا۔۔۔ نہ ہی کوئی آدمی پکڑا گیا تھا۔۔۔ لیکن رہا ہونے کے بعد اسے وہاں دو تین مرتبہ جاتے اور وہاں سے نکلتے دیکھا گیا۔۔۔ میرے کارکنوں نے یہ بات معلوم کی کہ وہاں ایک ڈاکٹر رہتا ہے۔۔۔ اس کا نام ڈاکٹر شمعون ہے۔۔۔ اس ڈاکٹر کو دور دور سے دیکھا۔۔۔ اب جسے میں اور تم ہسپتال سے باہر نکل رہے تھے۔۔۔ اس وقت میں نے ڈاکٹر شمعون کو آتے دیکھا۔۔۔ میرا ماتھا ٹھنکا۔۔۔ پھر فوراً ہی ماسٹر سابان یاد آگیا۔۔۔ مجھے شدید گڑبڑ کا احساس ہونے لگا۔۔۔ میں نے سوچا۔۔۔ ماسٹر سابان کو چیک کر لینا چاہیے۔‘‘
’’ لیکن ۔۔۔ کیا آپ کو ان حالت میں پہلے ڈاکٹر شمعون کی طرف توجہ نہیں دینی چاہیے تھی۔‘‘ محمود، فاروق اور فرازانہ اس وقت تک پوری طرح ہوش میں آچکے تھے۔۔۔ فرزانہ نے تو معاملے کی نزاکت کو اس حد تک بھانپ لیاتھا کہ اس نے فوراً ہی موچ آنے کا ڈرامہ کر ڈالا۔۔۔ لہٰذا میں نے فیصلہ کیا۔۔۔ تینوں ہسپتال کے اندر معاملات کو دیکھ لیں گے۔۔۔ ہم ذرا سابان کو چیک کرلیں۔۔۔ اصل میں بات تو میں اس سے ڈاکٹر شمعون والی کرنے والا تھا۔ بات سے ذکر نکل گیا اس پین کا۔۔۔ پین واقع واردات کے قریب سے ملا تھا ۔۔۔ گویا وہ حملہ آوروں میں سے کسی ایک کا تھا۔ پین کے ذکر پر اس کا اس قدر گھبرا جانا اسے پوری طرح مجرم ثابت کر گیا۔ اصل مجرم ہم سے تیز نکلا۔۔۔ اس نے تیز ترین لڑکی کو اسے ٹھکانے لگانے کے لیے بھیج دیا۔ اکرام۔۔۔ اب میں سو فیصد یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس کیس کا مجرم تھری اسٹار گینگ کا باس ہے جو آج تک پکڑا نہیں گیا۔۔۔ اس نے اپنی سرگرمیاں اگرچہ بند کر دی ہیں۔۔۔ لیکن کسی وجہ سے اس نوجوان کو موت کے گھاٹ اتارنے کا حکم دینا پڑا۔۔۔ اب اگر وہ ہوش میں آجاتا ہے تو باس کا نام بتا دے گا۔‘‘
’’اوہ۔۔۔ اوہ۔۔۔‘‘ اکرام کے منہ سے نکلا۔
پھر وہ بلا کی تیزی سے وہاں سے روانہ ہوئے ۔۔۔ پہلے ایک اخبار کے دفتر پہنچے پھر وہاں سے ہسپتال پہنچے۔۔۔ جونہی وہ نوروز کے کمرے کے دروازے پر پہنچے۔۔۔ انہیں ایک زوردار جھٹکا لگا۔

*۔۔۔*

’’اب آپ کو کیا ہوا بھائی۔۔۔ یہ گرنے کا کون سا طریقہ ہے؟‘‘ فاروق نے منہ بنایا۔
’’ یہ صاحب چاہتے ہیں ہم انہیں باندھیں نہ۔۔۔ مطلب یہ کہ یہ بے ہوشی کا ڈرامہ رچانا چاہتے ہیں۔۔۔ ہے کوئی تک۔‘‘ محمود بولا۔
’’واقعی اب اس بے چارے کو باندھنے کی کوئی ضرورت نہیں رہی۔۔۔ یہ ہر قسم کی قید سے آزاد ہو چکا ہے۔‘‘ فرزانہ نے افسوس ناک لہجہ اختیار کیا۔
’’ ہر قید سے آزاد ہو چکا ہے۔۔۔ کیا مطلب؟‘‘ بابر کپاڈیہ چونکے۔
’’ جی ہاں، یہ بے چارہ اس دنیا سے رخصت ہو کر دوسری دنیا میں پہنچ چکا ہے۔‘‘
’’کیا!!‘‘ ان سب کے منہ سے نکلا۔
اس کے ساتھ ہی وہ اس پر جھک پڑے۔۔۔ اس کے منہ سے نیلے رنگ کا جھاگ نکلتے دیکھ کر محمود نے مارے خوف کے کہا۔
’’ارے باپ رے!اس نے تو زہر کھا لیا۔‘‘
’’اوہ۔۔۔ اوہ۔۔۔ نہیں۔‘‘ مختلف آوازیں ابھریں۔
پھر ڈاکٹر محسن نے اس کا جائزہ لیا اور سیدھے ہوتے ہوئے بولے۔
’’ آپ کا انداز بالکل درست ہے۔۔۔ اس نے زہر کھا لیا۔‘‘
’’ جب ا س نے دیکھا کہ یہ بری طرح پھنس چکا ہے ۔۔۔ اور اس سے بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تو اپنی جان لے لی۔۔۔ افسوس۔‘‘ فاروق نے دکھ بھرے لہجے میں کہا۔
’’ڈاکٹر صاحب۔۔۔ ذرا چیک کریں۔۔۔ زہر اس نے منہ کے راستے کھایا یا خود کو کوئی پن وغیرہ چبھوئی۔‘‘
یہ بات تو پوسٹ مارٹم کی رپورٹ سے معلوم ہو سکے گی۔۔۔ پولیس اپنی کاروائی مکمل کرلے پھر اسے پوسٹ مارٹم کے لیے بھیج دیا جائے گا۔‘‘
’’ آپ لوگ ایک طرف ہوجائیں۔۔۔ لاش کے پاس سے بھی ہٹ جائیں اور زخمی کے بستر کے پاس سے بھی۔‘‘ ایسے میں محمود نے کہا۔
اور پھر وہاں معمول کی کاروائی شروع ہو گئی۔ سب ایک طرف ہو کر اس کاروائی کو دیکھتے رہے۔۔۔
’’میرا خیال ہے۔۔۔ آپ لوگ یا تو گھر چلے جائیں یا پھر یہاں کوئی کمرہ لے لیں، اس میں بند ہو جائیں۔‘‘
’’کمرے ہم پہلے ہی لے چکے ہیں اور اس میں بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔ بیٹے کو اس حالت میں چھوڑ کر گھر کیسے چلے جائیں۔‘‘ بیگم کپاڈیہ بولیں۔
’’ہاں! آپ بھی ٹھیک کہتی ہیں۔‘‘
’’ بس تو پھر آپ اپنے اس کمرے میں چلے جائیں۔۔۔ اس پوری کاروائی سے فارغ ہولیں ، پھر آپ آجائیے گا، یوں بھی دوسرے کمرے میں آپ بہتر طریقے سے اپنے بیٹے کے لیے دعا کر سکیں گے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔۔۔ ہم ساتھ والے کمرے میں جا رہے ہیں۔۔۔ مہربانی فرما کر ہمیں بتا دیجئے گا۔‘‘بابر کپاڈیہ بولے۔ 
’’آپ فکر نہ کریں۔‘‘
اور وہ دونوں چلے گئے۔۔۔ حوالدار محمد حسین آزاد اور ان کے ماتحت اپنے کام میں جُت گئے۔۔۔ آخر جب تصاویر لی جا چکیں اور معمول کے دوسرے کام بھی کر لیے گئے تب محمد حسین نے کہا۔
’’ اب ہم لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھیج دیتے ہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ محمود بولا۔
پھر جونہی انہوں نے لاش کو باہر نکالا، دوسری طرف سے انسپکٹر جمشید اور سب انسپکٹر اکرام سامنے سے آتے نظر آئے۔
’’ یہ ۔۔۔ یہ ہم کیا دیکھ رہے ہیں۔‘‘
’’ آپ ایک عدد لاش دیکھ رہے ہیں۔‘‘
’’اور یہ ہے کس کی لاش؟‘‘
’’ ایک نامعلوم شخص کی۔۔۔ یہ نوروزکپاڈیہ کا کام تمام کرنے کی نیت سے آیا تھا۔۔۔ ہمارے ہاتھوں مار کھاگیا۔‘‘
’’تمہارا مطلب ہے۔۔۔ تم نے اسے جان سے مار ڈالا۔‘‘
’’ جی نہیں۔۔۔ ہم نے اس کا حملہ ناکام بنا دیا تھا، پھر جب ہم نے اس کی طرف پستول تان دیا تو اس وقت یہ تڑ سے گرا اور مر گیا۔۔۔ معلوم ہوا اس نے زہر کھا لیا تھا۔‘‘
’’ کیا مطلب؟ ‘‘انسپکٹر جمشید زور سے چونکے۔
’’ جی ہاں! منہ سے نکلنے والی جھاگ کی وجہ سے ہم خود بخود سمجھ گئے تھے کہ اس نے خودکشی کر لی۔ بعد میں ڈاکٹر صاحب نے بھی اس خیال کی تصدیق کر دی۔۔۔ اب کاروائی کے بعد اسے پوسٹ مارٹم کے لیے بھیج رہے ہیں۔‘‘ محمود نے جلدی جلدی بتایا۔
’’ نہیں بھئی۔‘‘ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
’’ جی۔۔۔ کیا فرمایا ، آپ نے نہیں بھئی۔‘‘
’’ ہاں ! میں نے یہی کہا ہے۔۔۔ نہیں بھئی۔۔۔‘‘
’’ لیکن آپ کے اس نہیں بھئی کا کیا مطلب ہے؟‘
’’ میرا مطلب ہے۔۔۔ ہم اس کا پوسٹ مارٹم تو کروائیں گے۔۔۔ لیکن ابھی ۔۔۔ اسے واپس کمرے میں لے چلو۔‘‘
’’ آپ۔۔۔ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں؟‘‘
’’ موت کے وقت جو صورتحال تھی ، اس کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں۔‘‘
’’ آپ چاہتے ہیں۔۔۔ ہم لاش کو واپس کمرے میں لے جائیں۔‘‘
’’ ہاں۔۔۔ یہ جس پوزیشن میں کھڑا تھا پہلے وہ بناؤ۔۔۔ پھر گرنے کے بعد اس کی جو پوزیشن تھی۔۔۔ اس طرح اسے لٹایا جائے۔‘‘
’’ آئیے۔۔۔‘‘
وہ اندر آگئے۔
’’ یہ یہاں کھڑا تھا۔۔۔‘‘
’’ ٹھیک ۔۔۔ گرنے کے بعد اس کی پوزیشن کیا تھی؟‘‘
انہوں نے اسے اس صورت میں لٹا دیا۔
’’ جب یہ گرا تو یہاں اور کون تھا؟‘‘
اس کے نزدیک بابر کپاڈیہ اور ان کی بیگم کھڑے تھے ۔۔۔ اور اس کے دائیں ہاتھ پر ڈاکٹر محسن کھڑے تھے۔‘‘
’’ تمہارا مطلب ہے ۔۔۔ ڈاکٹر محسن اس کے بالکل ساتھ کھڑے تھے۔‘‘
’’ جی ہاں! دائیں طرف۔۔۔ بائیں طرف بیگم کپاڈیہ تھیں اور منہ کے ساتھ بابر کپاڈیہ تھے۔‘‘
’’ ہوں۔۔۔ زہر کے بارے میں جاننے کی کوشش کی۔۔۔ کیا وہ منہ کے ذریعے لیا گیا۔‘‘
’’ نظر یہی آتا ہے۔۔۔ کیونکہ ہمیں جسم پر کوئی نشان نہیں ملا۔‘‘
’’ ٹھیک ہے۔۔۔ جھاگ نیلے رنگ کا تھا۔‘‘
’’ جی ہاں۔‘‘
’’ اچھی بات ہے ۔۔۔ اب تم اسے پوسٹ مارٹم کے لیے بھیجو اور ۔۔۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں معلوم ہوگا کہ موت کس طرح واقع ہوئی ہے۔‘‘
’’ جی ہاں۔۔۔‘‘
اور پھر لاش کو بھیج دیا گیا۔
’’ اور آپ کہاں گئے تھے؟‘‘
’’ اس کیس کے سلسلے میں ایک شخص سے ملنے کے لیے گئے تھے اور تم لوگوں کو یہ سن کر حیرت ہو گی ۔۔۔ کہ اس کی موت بھی زہر سے ہوگئی ہے اور ہماری آنکھوں کے سامنے ایسا ہوا ہے۔۔۔ لیکن اس کی پیشانی پر زہر کی سوئی موجود تھی۔۔۔‘‘
’’کیا!!!‘‘ وہ ایک ساتھ چلائے۔
’’ اور مزے کی بات میں اور اکرام قاتل کا تعاقب کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔۔۔ ہم نے اس کی کار کو شہر سے باہر جا لیا تھا۔۔۔ لیکن قاتل اس قدر تیز رفتار تھا کہ میں بھی اسے نہیں پکڑ سکا۔‘‘
’’ کیا۔۔۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘ وہ چلا اٹھے۔
’’ اور اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات۔۔۔ قاتل ایک لڑکی تھی۔‘‘
’’ کیا!!!‘‘ وہ ایک بار پھر چلائے۔
’’اور اب یہاں بھی زہر کی کہانی سنائی گئی ہے۔۔۔ گو یہ کیس بہت زبردست جا رہا ہے۔۔۔‘‘
’’اس کا مطلب ہوا۔۔۔ زخمی کا ہوش میں آنا اب بہت ضروری ہو گیا ہے۔کیونکہ اس سلسلے میں چار پانچ آدمی مارے جا چکے ہیں اور ہم سب بھی خطرے میں ہیں۔۔۔ ہم پر بھی حملہ ہو سکتا ہے۔‘‘
’’ بالکل یہی بات ہے۔۔۔ لہٰذا میں ڈاکٹر محسن سے کہتا ہوں آپ اپنے سینئر ڈاکٹر صاحبان کو بلا لیں۔۔۔ وہ سب مل کر سر توڑ کوشش کریں۔۔۔ یہ نوجوان اگر ہوش میں نہ آیا تو شاید یہ راز راز ہی رہ جائے گا کہ وہ کون لوگ تھے جو اسے ہلاک کرنا چاہتے تھے۔‘‘
’’ جی اچھا۔‘‘ ڈاکٹر محسن نے کہا اور پھر اپنے سے سینئر ڈاکٹر صاحبان کو فون کرنے لگا۔
جلدہی تین ڈاکٹر اندر آگئے۔
’’ پہلے تو ہم آپ تینوں کے بارے میں اپنا اطمینان چاہیں گے۔۔۔ کیونکہ حالات بہت خوفناک ہیں۔‘‘
’’ آپ ایم ایس صاحب سے تصدیق کر سکتے ہیں؟‘‘
’’ وہ آپ کو ناموں کی تصدیق کر دیں گے۔۔۔ یہ کیسے معلوم ہو گا کہ جن کے نام لیے گئے ہیں۔۔۔ وہی یہاں آسکتے ہیں کیونکہ پہلے بھی ایک نقلی ڈاکٹر یہاں آگیا تھا۔‘‘
’’ تب اس کا حل یہ ہوگا ہم میڈیکل سپرنٹنڈنٹ صاحب کو بلا لیتے ہیں وہ ہمارے بارے میں آپ کو اطمینان دلا دیں گے۔‘‘
’’ یہ ٹھیک رہے گا۔‘‘
’’ اباجان ۔۔۔‘‘ ایسے میں فرزانہ بول اٹھیں۔
’’ہاں فرزانہ۔۔۔ کیا کہنا چاہتی ہو۔‘‘
’’ ایم ایس صاحب کے بارے میں ہمیں کون اطمینان دلائے گا۔‘‘
وہ مسکرا دیئے۔۔۔ پھر بولے۔
’’ مجبوری ہے۔۔۔ ہمیں ان پر اعتبار کرنا ہوگا۔‘‘
پھر ایم ایس صاحب کو بلایا گیا۔۔۔ انہوں نے ان تینوں ڈاکٹر حضرات کے بارے میں پوری طرح اطمینان دلایا ۔۔۔ ساتھ ہی انسپکٹر جمشید نے ڈاکٹر محسن کے بارے میں اپنااطمینان چاہا۔
’’ یہ بھی بالکل درست ہیں۔۔۔ ان پر بھی شک نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ ایم ایس نے مسکرا کر کہا۔
’’ یہی تو ہماری مجبوری ہے۔‘‘ انسپکٹر جمشید نے کہا۔
’’ جی۔۔۔ کیا مطلب۔ کیا مجبوری ہے آپ کی۔‘‘
’’ ہم لوگ سب پر شک کرتے ہیں۔۔۔ کسی کو شک سے بری نہیں سمجھتے ۔‘‘
’’ کیا مطلب۔۔۔ اس طرح تو آپ مجھ پر بھی شک کریں گے۔‘‘
’’ نہیں ۔۔۔ آپ کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔۔۔ نہ ان تین ڈاکٹر صاحبان کا بنتا ہے۔۔۔ جو ابھی آئے ہیں۔۔۔ البتہ ہم ڈاکٹر محسن کو بالکل فارغ نہیں کر سکتے۔۔۔ ان پر شک کی وجہ موجود ہے۔‘‘
’’ کیا مطلب؟‘‘ ان کے منہ سے ایک ساتھ نکلا۔
’’ مطلب یہ کہ جس وقت اس حملہ آور کی موت ہوئی۔۔۔ اس وقت ڈاکٹر محسن مقتول کے بالکل ساتھ کھڑے تھے۔۔۔ اور اس کی موت زہر سے ہو چکی ہے۔‘‘
’’ نہیں نہیں ۔۔۔ یہ ہمارے بہت ہی اچھے اور نیک ڈاکٹر ہیں۔‘‘
’’ خیر خیر۔۔۔یہ بات تووقت آنے پر ثابت ہوجائے گی۔اب ذرا مہربانی فرما کر مریض پر توجہ دیں۔‘‘
’’ ہاں کیوں نہیں۔‘‘
اور پھر ڈاکٹر حضرات کی سر توڑ کوششوں کے بعد زخمی کی آہ سنائی دی۔
وہ اچھل پڑے۔۔۔ اور پکا ر اٹھے۔
’’آگیا ۔۔۔ ہوش آگیا۔‘‘ 
اس وقت ایک بار پھر دروازے پر دستک ہوئی۔
*۔۔۔*
وہ چونک اٹھے۔۔۔ پھر انسپکٹر جمشید نے کہا۔’’ہم اب کسی کو اندر نہیں آنے دیں گے، پہلے زخمی کا بیان سنیں گے تاکہ حقیقت سامنے آجائے۔‘‘
’’جی ہاں! دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔‘‘فاروق نے فوراً کہا۔
دستک پھر ہوئی۔ 
’’ باہر جو کوئی بھی ہیں۔۔۔ سن لیں۔۔۔ ہم دروازہ نہیں کھولیں گے۔۔۔ زخمی کو ہوش آگیا ہے۔۔۔ اب اس کا بیان لیا جائے گا۔‘‘
’’ اﷲ کا شکر ہے۔۔۔ ہم آخر ماں باپ ہیں۔۔۔ ہم سے زیادہ کون اس بات سے خوش ہوگا۔۔۔ کیاہمیں اتنا بھی حق نہیں کہ ہوش میں آنے پر اپنے بچے کو ایک نظر دیکھ لیں۔‘‘ بابر کپاڈیہ کی جذبات سے لبریز آواز سنائی دی۔
’’ آپ کچھ دیر انتظار کرلیں۔‘‘
’’ اﷲ کے لیے بس ایک نظر۔۔۔‘‘ بیگم کپاڈیہ نے پرزور التجا کی۔
’’ کیا خیال ہے تم لوگوں کا۔۔۔‘‘
’’ چلئے۔۔۔ ایک نظر دکھا دیں۔‘‘ فرزانہ مسکرائی۔
انسپکٹر جمشید دروازے پر آئے اور بولے۔
’’ آپ دور رہ کر ایک نظر دیکھ لیں اور باہر چلے جائیں۔۔۔ جب تک تحریری بیان نہیں لے لیا جاتا۔۔۔ اس وقت تک کسی کو زخمی کے نزدیک جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔۔۔ پہلے ہی اس کے سلسلے میں بہت خون خرابہ ہو چکا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔۔۔ بس ایک نظر۔‘‘
انسپکٹر جمشید دروازے پر گئے ۔۔۔ ایک نظر زخمی پر ڈالی۔۔۔ ڈاکٹراس پر جھکے ہوئے تھے اور اس سے کہہ رہے تھے۔
’’نوروز صاحب آپ کی طبیعت اب کیسی ہے؟۔۔۔ کیا آپ میری آواز سن رہے ہیں۔۔۔ میری بات سمجھ رہے ہیں۔۔۔ کیا آپ بات کر سکتے ہیں۔۔۔ بولیے۔‘‘
’’ مم۔۔۔ میں۔۔۔ ہاں ۔۔۔ کیوں نہیں۔۔۔ اف۔۔۔ میں شدید تکلیف محسوس کر رہا ہوں۔۔۔‘‘
’’ ان شاء اﷲ بہت جلد آپ درد میں کمی محسوس کریں گے۔۔۔‘‘
عین اسی لمحے انسپکٹر جمشید نے دروازہ کھول دیا۔۔۔ وہ پوری طرح ہوشیار تھے۔۔۔
’’بس آپ یہیں سے دیکھ لیں۔۔۔‘‘
’’حیرت ہے۔۔۔ آپ ماں باپ کی بے قراری کا اندازہ نہیں لگا رہے۔۔۔ ہٹیں ایک طرف۔۔۔‘‘ یہ کہتے ہوئے بیگم کپاڈیہ نے انہیں دھکا دیا اور آگے بڑھ گئیں۔
انسپکٹر جمشید نہ تو حیران ہوئے اور نہ انہیں غصہ آیا۔۔۔ بلکہ وہ صرف مسکرا دیئے۔۔۔ ایسے میں بابر کپاڈیہ بول اٹھے۔
’’ان کی طرف سے میں معافی مانگتا ہوں۔‘‘
’’ کوئی بات نہیں۔۔۔ آپ بھی آئیے۔‘‘
ادھر فرزانہ یک دم بیگم کپاڈیہ کے راستے میں آگئی تھی۔ اس نے کہا
’’ میں آپ کو اس سے آگے نہیں بڑھنے دوں گی۔۔۔ ابا جان کی بات اور ہے۔۔۔ وہ خاتون کو ہاتھ نہیں لگاتے۔۔۔ نہ ان پر ہاتھ اٹھاتے ہیں۔۔۔ اس لیے آپ کا دھکا کھا کر ایک طرف ہٹ گئے۔۔۔ اور یقین جانئے۔۔۔ اس میں بھی ان کی مرضی شامل تھی۔۔۔ اگر وہ دھکا نہ کھانا چاہتے تو بالکل نہ کھاتے۔‘‘
’’ کیا مطلب۔۔۔ لڑکی تمہارا دماغ تو نہیں چل گیا۔۔۔ ہٹو میرے راستے سے۔۔۔ مجھے اپنے بیٹے سے ملنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔۔۔ میں ماں ہوں۔۔۔ میرا من سب سے زیادہ ہے۔‘‘
’’ یہ ٹھیک کہہ رہی ہیں فرزانہ ۔۔۔ انہیں آگے جانے دو۔‘‘
’’یہ ۔۔۔ یہ آپ کہہ رہے ہیں ابا جان۔‘‘
’’ میرے خیال میں تو میں نے ہی یہ الفاظ کہے ہیں۔۔۔ ٹھہرو میں تصدیق کر لیتا ہوں۔۔۔ کیوں محمود ۔۔۔کیوں فاروق۔۔۔ یہ میں ہی بولا تھا ناں۔‘‘
’’نن۔۔۔ ہاں۔۔۔ ارے باپ رے۔‘‘ محمود کے منہ سے نکلا۔
’’ یہ کیا جواب ہوا۔۔۔ محمود۔۔۔ تمہیں تو بات کا جواب دینا بھی نہیں آتا۔۔۔ ‘‘فاروق تم میری بات کا جواب دو۔‘‘ وہ مسکرائے۔
’’ جی۔۔۔ مم۔۔۔ میں۔۔۔ میں جواب دوں۔‘‘
’’ہاں بھئی تم۔۔۔ یہاں فاروق کسی اور کا نام تو ہے بھی نہیں۔‘‘
’’جی ہاں۔۔۔ یہ تو خیر ہے۔‘‘
’’ یہ ہے تو پھر جواب دو ناں۔‘‘
’’ لل۔۔۔ لیکن کس بات کا۔‘‘
’’ حد ہو گئی۔۔۔ کیا ہو گیا ہے تم لوگوں کو آج۔۔۔ سب کے سب اپنا اپنا دماغ گھر تو نہیں رکھ آئے۔‘‘
’’ نن نہیں۔۔۔ مجھے یاد ہے۔۔۔ ہم ساتھ لائے تھے۔‘‘
’’ یہ آپ لوگ کیا اوٹ پٹانگ باتیں کیے جا رہے ہیں۔‘‘ بابر کپاڈیہ نے تلملا کر کہا اور آگے بڑھے۔
ان کے راستے میں محمود آگیا۔ اس نے فوراً کہا۔ 
’’ نن نہیں۔۔۔ آپ بھی نہیں۔‘‘
’’ کیا مطلب۔۔۔ میں بھی نہیں۔‘‘ وہ حیران ہو کر بولے۔
’’ ہاں ! آپ بھی نہیں۔‘‘
’’ یہ ۔۔۔ یہ یہاں کیا ہو رہا ہے؟‘‘ کبیر کپاڈیہ نے چلا کر کہا اور پھر اس نے ایک دو ہتٹر فرزانہ کو دے مارا۔۔۔ گویا اسے راستے سے ہٹانا چاہا۔۔۔ لیکن ہوا اس کے الٹ۔۔۔ فرزانہ یک دم نیچے بیٹھ گئی اور دو ہتڑ خالی گیا۔
’’ یہ کیا اٹھک بیٹھک لگا رکھی ہے تم نے۔۔۔ ہے کوئی تک؟‘‘ فاروق نے منہ بنا کر کہا۔
اس وقت تک فرزانہ اٹھ چکی تھی۔۔۔ اس نے ہنس کر کہا۔
’’آپ شاید مذاق کے موڈ میں ہیں۔۔۔‘‘
’’آخر آپ لوگ راستے میں کیوں آکھڑے ہوئے ہیں۔۔۔ ہمیں اپنے بیٹے کو کیوں نہیں دیکھ لینے دیتے۔‘‘
’’ دیکھ تو آپ چکے ہیں ۔۔۔ لہٰذا یہیں سے لوٹ جائیں۔۔۔ دراصل ہم ان کا بیان لینا چاہتے ہیں۔‘‘
’’ اس کام میں بہت وقت لگے گا۔۔۔ ہم ایک نظر دیکھ کر باہر چلے جاتے ہیں ۔۔۔ آخر اس میں آپ کو کیا اعتراض ہے؟‘‘
’’اعتراض یہ ہے کہ اس وقت تک بہت خون خرابہ ہو چکا ہے۔۔۔ ہم نہیں چاہتے ۔۔۔ اس وقت پھر کوئی واقعہ رونما ہو۔۔۔ جب کہ نوروز صاحب کو ہوش آچکا ہے۔۔۔ اور وہ اب بیان دینے کی پوزیشن میں ہیں۔‘‘
یہ کہتے ہوئے انسپکٹر جمشید نے نوروز کی طرف دیکھا۔۔۔ اس کے چہرے پر بلا کا خوف نظر آرہا تھا۔۔۔ جب کہ اس سے پہلے ایسا نہیں تھا۔۔۔ انہوں نے جلدی سے کہا۔
’’آپ دونوں اپنے بیٹے کو دیکھ چکے۔۔۔ لہٰذا اب باہر چلے جائیں۔۔۔ اور ہمیں اپنا کام کرنے دیں۔‘‘
’’ اچھی بات ہے۔۔۔ بس مجھے اس کی پیشانی پر ایک بوسہ دینے کی اجازت دیں۔۔۔ میرا دل بے قرار ہے۔۔۔ اس طرح کچھ سکون ہوجائے گا۔‘‘
’’اچھی بات ہے۔۔۔ لیکن اس کے بعد آپ نہیں رکیں گے۔‘‘
’’ بالکل ٹھیک۔۔۔ ہم دونوں باہر چلے جائیں گے۔‘‘
انسپکٹر جمشید نے فرزانہ کی طرف دیکھا اور بولے۔
’’فرزانہ چھوڑ دو ان کا راستہ۔‘‘
’’ جی نہیں۔۔۔ میں تو نہیں چھوڑوں گی۔۔۔ ہاں آپ اگر آجائیں اور انہیں راستہ دے دیں۔‘‘ فرزانہ نے عجیب بات کہی۔
’’اچھی بات ہے۔۔۔ یونہی سہی۔‘‘
اب انسپکٹر جمشید آگے آگئے۔۔۔ فرزانہ راستے سے ہٹ گئی۔۔۔ اس کے ساتھ ہی بیگم کپاڈیہ تیر کی طرح نوروز کی طرف بڑھی۔۔۔ اور اس کے بالکل نزدیک پہنچ گئی۔۔۔ وہ بوسہ دینے کے لیے جھکی۔۔۔ ساتھ ہی اس نے دائیں ہاتھ سے نوروز کا بازو تھامنا چاہا۔۔۔ عین اس لمحے اس کی کلائی کسی مضبوط ہاتھ میں آگئی۔۔۔ بیگم کپاڈیہ کو جھٹکا لگا۔۔۔ انہوں نے جھلا کر کہا۔
’’ یہ کیا۔۔۔ آپ نے میرا ہاتھ کیوں پکڑا۔۔۔ آپ کو شرم نہیں آتی۔‘‘
’’شرم تو ہمیں واقعی آرہی ہے۔۔۔ اپنے آپ پر نہیں۔۔۔ آپ پر۔۔۔ آپ نے صرف بوسہ دینے کی بات کی تھی۔۔۔ اور اب بے چارے نوروز کا بازو پکڑنے جا رہی ہیں ۔۔۔ ہے کوئی تک۔‘‘
’’ اس میں تک کی کیا بات ہوگئی۔۔۔ یعنی میں اپنے بچے کا بازو بھی نہیں پکڑ سکتی۔‘‘ بیگم نوروز نے بھنا کر کہا۔
’’ جی نہیں۔۔۔ صرف بوسہ دیں اور کمرہ سے نکل جائیں۔۔۔ چلیے جلدی کریں دیں بوسہ۔‘‘
’’ تو میرا بازو چھوڑ دیں نا۔‘‘
’’ نہیں ۔۔۔ آپ اسی طرح بوسہ دیں۔‘‘ وہ مسکرائے۔
’’ آپ عجیب انسان ہیں۔۔۔ بلکہ شاید دنیا کے عجیب ترین انسان۔‘‘
’’اور بھی بہت سے لوگوں کا یہی خیال ہے۔۔۔ مگر میں ان کے خیال کا برا نہیں مانتا۔۔۔ نہ میں نے آپ کے خیال کا برا مانا ہے۔‘‘
’’انسپکٹر صاحب آپ میری بیگم کا بازو چھوڑ دیں۔۔۔ آپ مرد ذات ہیں۔۔۔ یہ آپ کے لیے غیر محرم ہیں۔۔۔ آپ کو کچھ تو سوچنا چاہیے۔‘‘ بابر کپاڈیہ نے نہایت تلخ انداز میں کہا۔
’’ لیجئے ۔۔۔ میں ان کا بازو چھوڑے دے رہا ہوں۔۔۔ اور فرمائیے۔ ‘‘ انہوں نے پرسکون آواز میں کہا اور بازو چھوڑ دیا۔
جونہی انہوں نے بازو چھوڑا۔۔۔ زخمی چلا اٹھا۔
’’ نن۔۔۔ نہیں۔۔۔ نہیں۔‘‘
اور انسپکٹر جمشید نے پھر بیگم کپاڈیہ کا بازو کلائی سے پکڑلیا۔
’’حد ہو گئی۔۔۔ اب کیا ہو گیا؟‘‘ بیگم پھاڑ کھانے والے انداز میں بولیں۔
’’ ہوتا کیا۔۔۔ آپ نے سنا نہیں آپ کے بیٹے نے کیا کہا ہے۔۔۔ یہ کہ میں اس کی ماں کا بازو نہ چھوڑوں۔‘‘
’’ اس نے یہ بات نہیں کہی۔‘‘ بیگم بھنا اٹھیں۔
’’پوچھ لیتے ہیں۔۔۔ کیوں نوروز صاحب۔۔۔ کپاڈیہ چاہتے ہیں ۔میں آپ کی ماں کا بازو چھوڑ دوں۔‘‘
’’ نن نہیں۔۔۔ نہیں۔‘‘ وہ مارے خوف کے چلا اٹھا۔
’’ آپ نے دیکھا۔۔۔ آپ نے سنا۔۔۔ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘
’’ یہ بے چارہ پوری طرح ہوش میں نہیں آیا ۔۔۔ شاید اس نے ابھی ہمیں پہچانا بھی نہیں۔‘‘
’’ نہیں۔۔۔ نہیں ۔۔۔ میں نے۔۔۔ میں نے آپ کو پہچان لیا ہے۔‘‘ زخمی نے مارے گھبراہٹ کے کہا۔
’’ آپ نے سنا۔۔۔ آپ نے ایک۔۔۔ آپ کے بیٹے نے آپ کو پہچان لیا ہے۔۔۔ مسٹر نوروز۔۔۔ اب آپ چاہتے ہیں۔۔۔ یہ دونوں کمرے سے نکل جائیں۔‘‘
’’ ہاں ہاں ۔۔۔ ہاں ۔‘‘
وہ پورے زور سے چلا اٹھا۔
’’ دیکھا آپ نے ۔۔۔ سنا آپ نے۔‘‘
’’ ہاں۔۔۔ سنا۔۔۔ ہمارا بیٹا پاگل ہو گیا ہے۔۔۔ افسوس ۔‘‘
’’ ارے نہیں۔۔۔ یہ تو نہ کہیں۔۔۔ یہ پاگل واگل نہیں ہے بالکل صحیح دماغ ہے۔۔۔ بے شک ڈاکٹر سے پوچھ لیں۔‘‘
’’ جی ہاں۔۔۔ الحمد اﷲ یہ بالکل ٹھیک ہیں۔‘‘
’’ لیکن نہیں رہے گا۔‘‘ ایک آواز گونجی۔

*۔۔۔*

اس جملے نے ان کے رخ پھیر دیئے ، وہ سب کے سب بابر کپاڈیہ کی طرف دیکھنے پر مجبور ہوگئے۔
’’آپ نے کیا فرمایا کابر بپاڈیہ۔‘‘ فاروق نے بوکھلا کر کہا۔
’’ کیا کیا کابر بپاڈیہ۔۔۔ یہ کیا نام لیا تم نے ان کا؟‘‘ محمود نے آنکھیں نکالیں۔
’’ زبان پھسل گئی۔۔۔ ب کی جگہ ک نے لے لی اور ک کی جگہ ب نے۔‘‘
’’یار چپ ۔۔۔ کیا بے پر کی اڑا رہے ہو۔۔۔ دیکھتے نہیں ۔۔۔ معاملہ کتنا سنجیدہ ہو چلا ہے۔۔۔ مسٹر بابر کپاڈیہ اپنے بیٹے کے لیے کہہ رہے ہیں۔۔۔ نہیں رہے گا۔۔۔ یعنی بیٹا نہیں رہے گا یا اس کا دماغ صحیح نہیں رہے گا۔‘‘
’’ نہ یہ خود رہے گا، نہ اس کا دماغ رہے گا۔ ‘‘ بابر کپاڈیہ پھنکارا۔
’’ یہ یہ آپ کہہ رہے ہیں۔۔۔ یعنی ایک باپ کہہ رہا ہے۔‘‘
’’ بھاڑ میں گیا باپ۔‘‘وہ گرجا۔
’’اگر باپ بھاڑ میں گیا تو آپ کون ہیں؟‘‘
’’ اس کا دشمن۔۔۔ اس کو بھی جان لوں گا اور تم سب کو بھی۔۔۔ اب ایسا کرنا بہت ضروری ہو گیا ہے۔‘‘
’’تو آپ ایسا کریں گے ۔۔۔ یعنی بابر کپاڈیہ۔‘‘
’’ ہاں ہاں میں ایسا کروں گا۔‘‘
’’ میں۔۔۔ ساری بات سمجھ میں آگئی۔۔۔ اگرچہ پہلی ملاقات میں ہی ساری بات سمجھ میں آگئی تھی۔۔۔ ‘‘ انسپکٹر جمشید بھرپور انداز میں مسکرائے۔
’’ کیا کہا۔۔۔ پہلی ملاقات میں ساری بات سمجھ میں آگئی تھی۔۔۔ کیا بات سمجھ میں آگئی تھی۔‘‘
’’ یہ کہ آپ نہیں چاہتے۔۔۔ نوروز ہوش میں آئے۔۔۔ پہلی ملاقات میں جب آپ کو یہ بتایا گیا کہ فی الحال اس کے ہوش میں آنے کے کوئی امکانات نہیں ہیں تو آپ دونوں کے چہروں کا رنگ اڑ جانا چاہیے تھا۔۔۔ لیکن ہم نے اس کے برعکس منظر دیکھا۔۔۔ آپ دونوں کے چہروں پر اطمینان پھیل گیا تھا۔۔۔ اور یہ بات میرے ساتھ فرزانہ نے بھی محسوس کر لی یہ جان گئی کہ اب اس زخمی کو ختم کرنے کی بھرپور کوشش شروع ہو گی لہٰذا اس نے اسی کمرے میں ٹھہرنے کا پروگرام آن کی آن میں ترتیب دے لیا اور اس سلسلے میں اس نے پہلا کام یہ کیا کہ اس کے پیر میں موچ آگئی۔‘‘
’’اوہ۔۔۔ اوہ۔۔۔‘‘
’’ اور موچ کے بعد اس پر بے ہوشی کا دورہ پڑ گیا۔اصل بات ڈاکٹر حضرات نہ سمجھ پائیں۔۔۔ اس لیے ہم نے اس کے علاج کے لیے اپنے ڈاکٹر کو بلا لیا۔۔۔ اس طرح تم لوگوں کی طرف سے جو بھی کوشش کی گئی۔۔۔ اس کا بھرپور توڑ کیا گیا۔ فرزانہ نے ایک بھرپور کردار ادا کیا۔۔۔ اور تم لوگوں کو اپنی خواہش پوری نہ کرنے دی۔۔۔ تم ہر قیمت پر اس کی جان لینا چاہتے تھے۔۔۔ یہی بات ہے نا۔‘‘
’’ ہاں یہی بات ہے۔۔۔ اور اب تم سب میرے نشانے پر ہو۔۔۔ تم اور کیا جانتے ہو ۔۔۔ یہ بھی بتاتے چلو۔‘‘
’’ پہلے تم اس بات کی وضاحت کرو۔۔۔ کہ ہم تمہارے نشانے پر کس طرح ہیں؟‘‘ انسپکٹر جمشید نے طنزیہ انداز میں کہا۔
’’تم خیال کر رہے ہو۔۔۔ میں خالی ہاتھ ہوں۔۔۔ ایسی بات نہیں۔۔۔ ہم دونوں اس وقت پوری طرح اسلحے سے لیس ہیں۔۔۔ اور مزے کی بات یہ کہ تم چاہو بھی تو ہمیں نشانہ نہیں بنا سکتے۔۔۔‘‘
’’ کیوں۔۔۔ آخر ہم تم دونوں کو نشانہ کیوں نہیں بنا سکتے۔‘‘
’’اس لیے کہ آخری مرتبہ۔۔۔ ہم ریموٹ کنٹرول بم باندھ کر آئے ہیں۔۔۔ اور ان کے بٹنوں پر ہماری انگلیاں ہیں۔۔۔ یقین نہیں تو یہ دیکھ لو۔‘‘
یہ کہہ کر بابر کپاڈیہ نے اپنے پیٹ پر سے کپڑا اٹھا دیا۔۔۔ انہوں نے دیکھا۔۔۔ وہاں واقعی بم موجود تھا۔۔۔ اس میں سے نکلنے والے تار کے سرے پر جو سوئچ تھا۔ وہ اس کے ہاتھ میں تھا۔۔۔ ساتھ میں بیگم کپاڈیہ نے بھی کپڑا اٹھا دیا اس نے دوہرا لباس پہن رکھا تھا۔۔۔ اس کے نیچے والے لباس پر بھی بم موجود تھا۔۔۔ وہ سب سکتے میں آگئے۔۔۔ انہوں نے سنا بابر کپاڈیہ کہہ رہا تھا 
’’انسپکٹر جمشید ۔۔۔ اب تم دیکھ لو کہ تم کہاں کھڑے ہو۔۔۔ زندگی چاہتے ہو تو دور ہٹ کر کھڑے ہوجاؤ۔۔۔ ہمیں اپنا کام کرنے دو۔‘‘
’’یعنی تمہیں موقع دے دیں کہ نوروز کپاڈیہ کو ختم کر دو۔‘‘ انسپکٹر جمشید بولے۔
’’ ہاں! بالکل۔‘‘ اس نے کہا۔ ساتھ ہی نوروز کے جسم میں کپکپی شروع ہو گئی۔آنکھوں میں خوف دوڑ گیا۔
’’ تم کیسے ماں باپ ہو۔۔۔ خود اپنے بیٹے کو ہلاک کرنا چاہتے ہو۔‘‘
’’ہاں ۔۔۔ مجبوری ہے۔‘‘
’’آخر ایسی کیا مجبوری ہے۔۔۔ ذرا ہم بھی تو سنیں۔‘‘
’’ یہ باغی ہو گیا ہے۔۔۔ ہم دونوں کے قتل کا منصوبہ بنا رہا تھا۔‘‘
’’ اس صورت میں تم اسے گرفتار کراتے۔۔۔ اس کے خلاف جو ثبوت تمہارے پاس تھے۔۔۔ وہ پیش کرتے۔ تم نے قانون کو ہاتھ میں کیوں لیا؟‘‘
’’ مجبوری تھی۔‘‘ اس نے برا سا منہ بنایا۔
’’اور مجبوری کیا تھی؟‘‘
’’ یہ بات نہیں بتائی جا سکتی۔۔۔ اب تم لوگ اگر زندگی چاہتے ہو تو دیوار سے لگ جاؤ۔۔۔ ہمیں اپنا کام کرنے دو۔۔۔ تاکہ ہم یہاں سے بخیریت واپس چلے جائیں۔۔۔ باہر ہمارے لیے گاڑی تیار کھڑی ہے۔۔۔ ہم آن کی آن میں یہاں سے نکل جائیں گے۔‘‘
’’ اس بے چارے پر رحم کریں۔۔۔ ابھی اس نے زندگی میں دیکھا ہی کیا ہے؟‘‘ انسپکٹر جمشید نے درد بھرے لہجے میں کہا۔
یہ سن کر دونوں زور زور سے ہنسنے لگے۔۔۔ آخر ان کی ہنسی رک گئی۔۔۔ پھر بابر کپاڈیہ کی سرد آواز گونجی۔
’’انسپکٹر جمشید ۔۔۔ اگر تم لوگوں نے ہماری ہدایات نہ مانیں تو ہم ریموٹ کے بٹن دبا دیں گے اور سب کچھ ختم ہوجائے گا۔
’’چلو بھئی دیوار سے لگ جاؤ۔۔۔ یہ بھی کیا یاد کریں گے۔‘‘
’’ میں ۔۔۔ لیکن ابا جان۔۔۔ یہ ہمیں بھی نہیں چھوڑیں گے۔۔۔ صرف نوروز کو ختم کرکے یہاں سے فرار ہوجانے سے اس کا کام ختم نہیں ہوجائے گا۔۔۔ اس کے بعد یہ ہماری طرف رخ کریں گے۔ ‘‘فرزانہ نے بے تابانہ لہجے میں کہا۔
’’ہاں فرزانہ ! میں سمجھتا ہوں۔۔۔ لیکن تم یہ بھی تو سوچو۔۔۔ کہ بم پھٹ گیا تو سب ختم ہوجائیں گے۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے۔۔۔ آپ انہیں نوروز کو ختم کرنے کا موقع دینا چاہتے ہیں۔‘‘ محمود نے مارے حیرت سے کہا۔
’’ میں کیا کروں۔۔۔ اس وقت ہم سب پھنسے ہوئے ہیں۔‘‘ انہوں نے بے چارگی کے عالم میں کہا۔
’’ ہم چاہتے ہیں اباجان۔۔۔ ہم سب ختم ہوجائیں۔۔۔ اگر نوروز ختم ہوتے ہیں تو ہم بھی ختم ہوجائیں گے اور یہ دونوں بھی۔‘‘
’’ لیکن بھئی۔۔۔اس کا فائدہ کیا ہوگا؟‘‘ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
’’ بالکل ٹھیک انسپکٹر جمشید ۔۔۔ آپ نے بالکل ٹھیک فیصلہ کیا ہے۔‘‘ 
’’تب پھر جلدی سے اس نوجوان کا کام تمام کردیں اور یہاں سے نکل جائیں۔۔۔ ہم ایک کا تعاقب نہیں کریں گے۔‘‘
’’عقل مند ہو انسپکٹر۔۔۔ شکریہ۔‘‘ بابر ہنسا اور پھر وہ اب دیوار سے جا لگے۔۔۔ اس کے بعد بابر کپاڈیہ آگے بڑھا ۔
’’ بیگم ۔۔۔ ان کا دھیان رکھنا، کسی وقت بھی یہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔‘‘ بابر کپاڈیہ نے کہا۔
’’ آپ فکر نہ کریں ۔۔۔ صورت حال پوری طرح ہمارے قابو میں ہے۔‘‘بیگم کپاڈیہ نے کہا۔
بابر کپاڈیہ آگے بڑھا۔۔۔ نوروز کے چہرے پر زلزلے کے آثار نمودار ہوگئے۔۔۔ اس نے چیخ کر کہا۔
’’ یہ ۔۔۔ شخص۔۔۔‘‘
’’خاموش!!‘‘ بابر نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔۔۔ پھر اس نے اپنا دایاں ہاتھ نکالا جس میں خوفناک پستول تھا۔۔۔ اس کا ہاتھ تن گیا۔۔۔ اس نے نوروز نے سر کا نشانہ لے رکھا تھا۔۔۔ اس لمحے نوروز کے مارے خوف کے آنکھیں بند کر لیں۔۔۔ پھر اس نے کہا۔
’’ نہیں ۔۔۔ نہیں۔۔۔ مجھے معاف کر دو۔۔۔مجھے معاف کر دو۔‘‘ نوروز چلا اٹھا۔
’’ ہاہاہا۔۔۔ ہاہاہا۔ تمہیں معاف کر دوں۔۔۔ جو میرا بیڑہ غرق کرنے چلا تھا۔ اس وقت کیوں نہ سوچا۔‘‘
’’ کیا نہ سوچا۔‘‘ فاروق کے لہجے میں حیرت تھی۔
’’ اسے چاہیے تھا ہمارا کچھ تو لحاظ کرتا۔۔۔ اس نے پولیس کو ساری کہانی سنانے کا فیصلہ کر لیا۔۔۔ ہم نے اسے پالا پوسا ۔۔۔ بڑا کیا، تعلیم دلائی اور یہ ہمارے احسانات کا یہ بدلہ دینے چلا تھا۔۔۔ ہمیں پولیس کے حوالے کرنا چاہتا تھا۔۔۔ سو ہم نے بھی فیصلہ کر لیا۔۔۔ ہم اسے کیوں نہ موت کے حوالے کردیں۔‘‘
’’ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا۔۔۔ آپ تو ان کے ماں باپ ہیں۔۔۔ یہ آپ کو پولیس کے حوالے کیوں کرنا چاہتے تھے؟‘‘
’’ میں نے کہا نا۔۔۔ ہر بات بتانے والی نہیں ہوتی۔۔۔ اچھا بس۔۔۔ بہت ہو گئیں باتیں۔۔۔ وقت تیزی سے گزرتا جا رہا ہے۔۔۔ ہم پھنس نہ جائیں۔‘‘
’’ہم نے اتنے سنگ دل ماں باپ آج تک نہیں دیکھے۔‘‘
’’چلو آج دیکھ لو۔۔۔ حسرت نہ رہ جائے۔‘‘ بیگم کپاڈیہ ہنس پڑی۔
’’ آپ ۔۔۔ آپ ماں ہیں نوروز کی۔۔۔ کمال ہے۔‘‘
’’ ہم بلا وجہ ڈر رہے ہیں۔ ‘‘ ایسے میں انسپکٹر جمشید نے ہنس کر کہا۔
’’ کیا مطلب۔۔۔کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ان کے پاس جو بم ہیں وہ نقلی ہیں ۔‘‘ فرزانہ کے لہجے میں حیرت تھی۔
’’ نہیں فرزانہ ۔۔۔بم بالکل اصلی ہیں۔۔۔ اس کے باوجود میں یہی کہوں گا۔۔۔ ہم بلاوجہ ڈر رہے ہیں۔‘‘
’’ آپ۔۔۔ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔‘‘ محمود کے لہجے میں حیرت تھی۔
’’ اور دیکھئے۔۔۔ میری طرف۔۔۔ یعنی ایک نظر ادھر بھی۔‘‘ انسپکٹر جمشید کی شوخ دار آواز ابھری۔
’’ آپ کی طرف دیکھیں۔۔۔ لیکن کیوں۔۔۔ آپ کی طرف تو ہم دیکھتے ہی رہتے ہیں۔‘‘
’’ پھر بھی دیکھ لو۔۔۔ تمہارا کیا حرج ہے؟‘‘ انسپکٹر جمشید نے برا سا منہ بنایا۔
’’ ہاں بھئی۔۔۔ دیکھ لو۔۔۔ کوئی حرج نہیں۔‘‘ فرزانہ نے شوخ آواز منہ سے نکالی۔
’’ یہ تم کیا ڈرامہ سا کر رہے ہو۔۔۔ذرا بھی کوئی غلط حرکت کی توتو۔۔۔ ہولناک دھماکہ ہو گا۔‘‘
’’اور ساتھ میں خود تم دونوں کے بھی چیتھٹرے اڑ جائیں گے۔۔۔ تم ٹکڑوں میں تقسیم ہوجاؤ گے۔۔۔ اور تم نے ابھی تک میری طرف نہیں دیکھا۔۔۔ میرے ہاتھ میں تم لوگوں کے لیے کچھ ہے۔‘‘
دونوں یک دم ان کی طرف مڑے اور پھر ان کے منہ سے مارے خوف کے نکلا۔’’نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔!!‘‘
ان کے ہاتھ میں ایک اخبار تھا۔۔۔ اس پر ایک بہت نمایاں تصویر تھی۔

*۔۔۔*

تصویر پر نظر پڑتے ہی دونوں بری طرح اچھلے۔ ان کے رنگ اڑ گئے۔ 
’’ یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا۔‘‘ بابر کپاڈیہ کے منہ سے نکلا۔
’’ یہ آپ کی تصویر ہے مسٹر کپاڈیہ۔۔۔ لیکن اس وقت آپ کا نام بابر کپاڈیہ نہیں تھا۔۔۔ بہرام خان تھا۔۔۔ اور بہرام خان فرضی نام تھا۔۔۔ آپ کا اصل نام بابر کپاڈیہ ہی ہے ۔۔۔ آپ نے جرم کا راستہ اختیار کیا۔۔۔ ایک گھر کو لوٹا۔۔۔ لیکن پولیس نے آپ کا سراغ لگا لیا۔ آپ گرفتار ہو گئے۔۔۔ کیا آپ کو معلوم ہے۔۔۔ آپ کو گرفتار کرانے والا کون تھا؟‘‘
’’ نن۔۔۔ نہیں۔۔۔ مجھے یاد نہیں۔‘‘ اس نے کھوئے کھوئے لہجے میں کہا۔
’’وہ میں تھا۔۔۔ اس ڈاکے کی تفتیش میرے ذمہ لگی تھی۔۔۔ میں اس وقت محکمے میں بالکل نیا نیا تھا۔۔۔ انسپکٹر جمشیدکو اس وقت کوئی جانتا تک نہیں تھا۔۔۔ اس لیے میری کامیابی بڑے آفیسر نے اپنے نام ڈال لی تھی۔۔۔ پھر آپ پر مقدمہ چلا۔۔۔ مجھے کئی بار عدالت میں جانا پڑا۔۔۔ اس طرح آپ کا چہرہ میرے دماغ میں نقش ہو گیا۔۔۔ آپ کو جیل بھیج دیا گیا۔۔۔ اس کے بعد میرا ٹرانسفر دوسرے شہر ہو گیا۔۔۔ کچھ مدت بعد یہ خبر سننے میں آئی کہ بہرام خان جیل سے فرار ہو گیا ہے۔۔۔ اس دن کے بعد اس کی کوئی خبر نہ مل سکی۔۔۔ اب جب یہاں میں نے آپ کو دیکھا تو میرے دماغ میں نقش آپ کی تصویر ابھر آئی۔۔۔ میں حیران رہ گیا۔۔۔ ساتھ میں مجھے آپ کے کالر پر تین ستارے بنے نظر آئے۔۔۔ ان تین ستاروں نے تو میرے ہوش اڑا دیئے۔ شہر کا اسٹار گینگ کے بارے میں میں ایک مدت تک تحقیقات کرتا رہا تھا۔۔۔ تھری سٹار گینگ کے چند افراد کے کالر پر میں نے تین ستارے دیکھے تھے۔ وہ ان تین ستاروں سے ایک دوسرے کو پہچانتے تھے۔۔۔ یہ تین ستارے دیکھتے ہی میرے ذہن میں ایک شخص کا نام گونج اٹھا۔۔۔ میں آپ کو بتاؤں۔۔۔ اس کا نام کیا تھا؟‘‘
’’ کیا تھا۔۔۔؟‘‘ بابر کے منہ سے نکلا۔
’’ اس کا نام تھا ماسٹر سابان۔‘‘
’’ کیا !!!‘‘ دونوں چلائے۔
’’ماسٹر سابان اپنے چند ساتھیوں کے سامنے گرفتار کیا گیا تھا۔۔۔ اور ایسا پہلی بار ہو رہا تھا کہ اس گینگ کے کچھ لوگ گرفتار ہوئے تھے۔۔۔ انہیں جیل بھیج دیا گیا۔ اس کے بعد یہ گینگ غائب ہو گیا۔۔۔ پر اس کی کوئی خبر سننے میں نہ آئی۔۔۔ جو لوگ گرفتار ہوتے تھے ۔۔۔ وہ جیل سے رہا ہو کر اپنے گھروں کو چلے گئے۔۔۔ میں چونکہ اس گینگ کی ٹوہ میں تھا، اس لیے میں نے ان رہا ہونے والوں کی نگرانی شروع کرائی۔۔۔ لیکن ان کی کوئی مجرمانہ سرگرمی معلوم نہ ہو سکی۔۔۔ اس طرح میں نے یہ جان لیا کہ یہ لوگ جرم کی دنیا سے الگ ہو گئے ہیں۔ جب میں نے یہاں آپ کو دیکھا تو میرے دماغ میں ایک جھماکا سا ہوا۔ میں سمجھ گیا کہ ہو نہ ہو۔۔۔ مسٹر بابر کپاڈیہ دراصل تھری اسٹار گینگ کے سرغنہ ہیں۔۔۔ اور یہ ماضی کے بہرام خان ہیں۔۔۔ لیکن بہرام خان کا نام چھوڑ کر انہوں نے جرائم کی دنیا میں پھر سے قدم رکھ دیا اور تھری اسٹار گینگ بنا ڈالا۔۔۔ ان کی وارداتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ لیکن جب اس گینگ کے کچھ لوگ گرفتار ہوئے تو باقی لوگ زیر زمین چلے گئے بلکہ غائب ہو گئے۔ وہ اس حد تک خوف زدہ ہوئے کہ انہوں نے کام شروع نہیں کیا۔۔۔ البتہ یہ ایک دوسرے سے ملتے جلتے رہتے تھے۔ شاید اپنی پرانی یادیں تازہ کرتے تھے۔ ان تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات کہی جا سکتی ہے مسٹر بابر کپاڈیہ کہ آپ اس گینگ کے سرغنہ تھے۔۔۔ ماسٹر سابان آپ کا ایک قریبی ساتھی تھا۔۔۔ اور جب میں اس تک پہنچ گیا۔ تو اس کے گھر میں موجود ایک ساتھی لڑکی نے آپ کو اطلاع دی۔ آپ نے اسے حکم دیا کہ ماسٹر سابان کو فوری طور پر ختم کر دو اور تم خود فرار ہو جاؤ۔ وہ لڑکی واقعی چھلاوہ تھی۔۔۔ وہ ماسٹر سابان کو ختم کرکے اس قدر رفتار سے بھاگی کہ میں بھی اسے پکڑ نہیں سکا۔ خیر کوئی بات نہیں۔۔۔ ہم اسے گرفتار کرلیں گے ۔۔۔ ان کے سابقہ جرائم کی سزائیں انہیں دلوائیں گے۔ اب رہا آپ کا مسئلہ تو جناب اگر آپ میں خود کو اڑانے کی ہمت ہے تو ایسا کر گزریں۔۔۔ پہلے مجھے حیرت ہے۔۔۔ آپ کیسے باپ ہیں۔۔۔ آپ کیسی ماں ہیں۔۔۔ کہ اپنے بیٹے کو بھی اپنے ساتھ بم سے اڑانے پر تلے ہیں۔ یہ بات اب تک میری سمجھ میں نہیں آئی۔۔۔ دوسری بات یہ کہ آخر آپ لوگ اپنے بیٹے کو موت کے گھاٹ کیوں اتارنا چاہتے ہیں ۔ اس وقت تک اس سلسلے میں اتنی کوشش کی گئی کہ بیان سے باہر ہے لیکن آپ دونوں نے اپنی زندگیوں کو بھی داؤ پہ لگا دیا۔۔۔ کیا آپ اس سوال کا جواب دینا پسند کریں گے۔‘‘ 
یہاں تک کہہ کر انسپکٹر جمشید خاموش ہو گئے اور لگے ان دونوں کی طرف دیکھنے۔ 
’’انسپکٹر جمشید ۔۔۔ تمہاری تمام باتیں درست ہیں۔۔۔ میں ہی اس گینگ کا باس تھا۔۔۔ یہ سب میرا کیا دھرا ہے اور تم اس کیس میں بری طرح شکست کھا گئے ہو۔۔۔ ہم تم سب کو ختم کردیں گے۔ اور خود بھی ختم ہوجائیں گے۔۔۔ اس طرح یہ کہانی یہیں ختم ہوجائے گی۔ اسے یوں کہہ سکتے ہیں ۔۔۔ ہم تو ڈوبے ہیں صنم۔۔۔ تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔‘‘
’’ اچھی بات ہے۔۔۔ میں نے بھی تمہیں نشانہ پر لے رکھا ہے۔۔۔ اور اگر تم نے بم اپنے جسم سے الگ کرکے ایک طرف نہ رکھ دیئے تو میں تم دونوں کو نشانہ بنا ڈالوں گا۔‘‘
’’ اس سے کیا ہوگا۔۔۔ بم تو پھر بھی پھٹیں گے۔‘‘
’’ کوئی پروا نہیں۔۔۔ ہماری زندگی ہوگی تو ہم ان بموں سے بچ جائیں گے اور اگر ہمارا وقت آگیا ہے تو ہم کر ہی کیا سکتے ہیں۔۔۔ تم ہمیں موت سے تو ڈرا نہیں سکتے ہماری تو زندگی ہی اسی لیے ہے ہم تو ہزاروں بار موت کے منہ میں جاتے جاتے بچے ہیں ۔۔۔ تم صرف یہ بتاؤ کہ اپنے بیٹے کی جان کے دشمن کس لیے بن رہے ہو۔۔۔ یہ اس کیس کی سب سے زیادہ حیرت انگیز بات ہے اور ہمیں اب تک اس سوال کا جواب نہیں ملا۔‘‘
’’ میں ۔۔۔ میں بتاتا ہوں ۔‘‘
’’خاموش۔۔۔ ‘‘ بابر کپاڈیہ غرایا۔
’’ آخر اب بات کو چھپا کر تم کیا فائدہ اٹھا لو گے۔‘‘
’’پتا نہیں ۔۔۔ کوئی فائدہ ہو گا یا نہیں ۔۔۔ اسی بات کو چھپانے کے لیے تو یہ ساری کوششیں کی ہیں اب تک اور اب اس قدر آسانی سے بتا دوں۔ نہیں ۔ میں چاہتا ہوں ۔۔۔ جن لوگوں نے میراگیم خراب کیا۔۔۔ وہ اس راز کو مرتے دم تک نہ جان سکیں اور اسی حالت میں رات کو نیند جا سوئیں۔‘‘
’’توبہ ہے۔۔۔ تم سے مسٹر بہرام خان۔۔۔ مم۔۔۔ میرا مطلب ہے۔۔۔ مسٹر بابر کباڈیہ۔۔۔ ‘‘ فاروق نے منہ بنایا۔
’’ بھائی کپاڈیہ نہیں۔۔۔ کباڈیہ ۔۔۔ کتنی بار ان صاحب کا نام لیا گیا ہے اور تم اب بھی کباڑیہ کہہ رہے ہو۔‘‘ محمود نے منہ بنایا۔
’’ہاں کہہ رہا ہوں۔۔۔ کہوں نہ تو کیا کروں۔۔۔ یہ کپاڈیہ ہوں یا کباڑیہ ۔۔۔ ہمیں اس سے کیا۔۔۔ ہمیں تو غرض اس سے ہے کہ یہ گرفتار ہوں اور ہمیں یہ بات معلوم ہو جائے کہ یہ اس بے چارے نوروز کو کیوں ہلاک کرنا چاہتے ہیں!!‘‘ فاروق نے جلدی جلدی کہا۔
’’ہاہاہاہا۔۔۔ کیسی الجھن محسوس کر رہے ہو تم۔۔۔ کررہے ہو ناں‘‘ وہ ہنسا۔
’’ہاں! کررہے ہیں۔ تو پھر تمہیں اس سے کیا؟۔۔۔ ہم الجھن محسوس کریں ۔۔۔ بات کریں۔مجھے اس سے یہ کہ مجھے مزہ آرہا ہے۔‘‘
’’ خوب خوب۔ موت کے منہ پر کھڑے ہو اور مزہ کررہے ہو۔ شاباش ہے تم پر۔‘‘
’’ وہ تو تم بھی کھڑے ہو۔‘‘
’’ابا جان! اگر آپ اجازت دیں تو میں سب بتادوں۔۔۔ فرزانہ سن آواز میں مسکرا ئی۔
’’ سب بتا دوں۔‘‘ انسپکٹر جمشید نے حیران ہو کر پوچھا۔
’’ یہ کہ یہ دونوں اپنے بیٹے کو کیوں ہلاک کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔۔۔ اب تو خیر یہ نہیں بتائیں گے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کیا کرسکیں گے کہ ریموٹ بموں کو پھاڑ ڈالیں اور سب کچھ ختم ہوجائے۔ اس سے پہلے انہوں نے کس قدر کوششیں کیں ۔۔۔ یہ بات اﷲ کو منظور نہیں تھی۔ اس سے ایک تو یہ بات ثابت ہو گئی کہ جب تک اﷲ کا حکم نہ ہو۔۔۔ کوئی کسی کی جان نہیں لے سکتا۔۔۔ اور دوسری بات یہ کہ انسان کچھ بھی کرلے ہوتا وہی ہے جو اﷲ کو منظور ہوتا ہے اب سنئے۔۔۔ میں آپ کو بتاؤں کہ یہ ایسا کیوں کرنا چاہتے تھے؟‘‘
’’ہر گز نہیں بتا سکو گی تم۔۔۔ تمہارے اندازے غلط ثابت ہوجائیں گے۔‘‘
’’ نہیں۔۔۔ ایسی بات نہیں۔۔۔ آپ کے بیٹے کو دراصل یہ راز معلوم ہو گیا تھا کہ آپ کا ماضی میں کیا کردار رہا ہے یہ بات اس بے چارے کو رات کسی وقت معلوم ہو گئی ۔۔۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ صبح سیر کے بہانے پولیس اسٹیشن جا کر ساری کہانی سنا دے گا اور اپنے ماں باپ کو گرفتار کرا دے گا۔ اس طرح یہ صبح اٹھ کر معمول کے مطابق سیر کے لیے نکلا تھا۔ لیکن دوسری طرف کپاڈیہ اور بیگم کپاڈیہ کو یہ معلوم ہو چکا تھا کہ ان کے بیٹے نے ان کی باتیں سن لیں ہیں۔ لہٰذا مسٹر کپاڈیہ۔۔۔ تم نے اپنے سابقہ گینگ کو تین آدمیوں کو ٹھکانہ لگانے کے لیے بھیجا اور وہ یہ کام کرنے لگے تھے کہ محمود اور فاروق وہاں پہنچ گئے۔ ہم نے نوجوان کو بچانے کی کوشش کی لیکن اس وقت تک وہ مار چکے تھے۔ اس طرح ہم نے شدید زخمی حالت میں انہیں یہاں پہنچا دیا۔ اب ظاہر ہے انہیں یہ پریشانی لاحق ہو گئی کہ اگر نوروز کو ہوش آگیا تو ان کا راز ظاہر ہوجائے گا اور وہ سب گرفتار ہوجائیں گے۔ لہٰذا تھری اسٹار گینگ حرکت میں آگیا۔۔۔ اب کپاڈیہ صاحب انہیں ہدایات دے رہے تھے اور وہ ہدایات پر عمل کر رہے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اس کمرے میں نوروز پر بار بار حملہ کرنے کی کوشش کی گئی۔۔۔ اور یہ بات ہم پہلے ہی محسوس کر چکے تھے کہ اب مجرم لوگ آرام سے نہیں بیٹھیں گے۔۔۔ ضرور اس نوجوان کو ہلاک کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ ہے کل کہانی۔‘‘ فرزانہ یہاں تک کہہ کر خاموش ہوگئی۔
’’اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی ماں باپ ایسا کرسکتے ہیں۔۔۔ اپنی جان بچانے کے لیے اپنی اولاد کو ہلاک کرسکتے ہیں۔۔۔ ماں باپ تواولاد پر خود قربان ہوجاتے ہیں۔۔۔ یہ دونوں کیسے ماں باپ ہیں۔۔۔ ہیں جی۔۔۔‘‘ انسپکٹر جمشید نے برا سا منہ بنایا۔
’’ میں بتاتا ہوں۔۔۔ میں ان کا بیٹا نہیں ہوں۔۔۔ انہوں نے تو مجھے اغوا کیا تھا۔ ‘‘ نوروز پکار اٹھا۔ 
’’ کب!!!‘‘ 
وہ ایک ساتھ چلا اٹھے ۔ادھر سب چلائے اور کپاڈیہ اور بیگم کپاڈیہ کے پیروں پر کوئی چیز گری۔

*۔۔۔*

چلانے کے چکر میں وہ اس چیز کی طرف کوئی توجہ نہ دے سکے۔۔۔ یوں بھی وہ چیز غیر محسوس طور پر ان کے پیروں تک پہنچی تھی۔۔۔ اچانک ان دونوں کے ہاتھ بلند ہوئے اور سروں کو چھو گئے ۔۔۔ انہوں نے اپنے سروں کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیا تھا۔
’’ ارے۔۔۔ یہ ہمارے سروں کو کیا ہوا۔‘‘
ہاتھ سروں کی طرف لے جاتے ہوئے انہیں اس بات کا بھی خیال نہ رہا کہ اب ان کے ہاتھ ریموٹ کنٹرول پر نہیں رہے۔۔۔ یہ دیکھ کروہ مسکرا دیئے ۔۔۔ اور پھر وہ سر پکڑ کر بیٹھتے چلے گئے۔ 
’’چلو بھئی۔۔۔ ان کے بم اتار لو اور ان کی پنیں نکال دو۔۔۔ فاروق نے کام دکھا دیا۔۔۔ پروفیسر داؤد کی دی ہوئی چیزیں ایسے ہی موقعوں کے لیے ہیں۔۔۔ ‘‘ انسپکٹر جمشید کی آواز ابھری۔
جلد ہی بم بے کار کر دیئے گئے اور انہیں باندھ لیا گیا۔۔۔
’’تو آپ ان کے بیٹے نہیں ہیں۔‘‘
’’نہیں۔۔۔ ان کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی۔۔۔ یہ اس سلسلے میں بہت پریشان تھے۔ انہوں نے پروگرام بتایا کہ ایک خوب صورت سا بچہ اغوا کرلیتے ہیں۔۔۔ ہم اس بچے کو پال لیں گے۔ یہ بات طے کرنے کے بعد انہوں نے بچے کی تلاش شروع کر دی۔۔۔ اس طرح انہیں میں پسند آگیا۔ اور یہ میرے ماں باپ کی بدقسمتی تھی ۔۔۔ ضرور ان سے کوئی ایسا گناہ سرزد ہو گیا ہوگا۔۔۔ جس کی اﷲ تعالیٰ نے انہیں سزا دی۔ اس بات کو انہوں نے چھپائے رکھا۔۔۔ اغوا کی واردات بھی انہوں نے خود ہی کی تھی۔ یعنی اس سلسلے میں اپنے کسی کارکن سے کام نہیں لیا تھا۔۔۔ تاکہ راز کسی تیسرے کو معلوم نہ ہو۔پتا نہیں گذشتہ رات انہیں کیا ہوا۔۔۔ دونوں اپنے کمرے میں یہ باتیں لے کر بیٹھ گئے۔۔۔ اس میں ایسے دوسرے جرائم کا بھی فخریہ ذکر کرتے رہے۔۔۔ اور میں باہر سے گزر رہا تھا کہ میرے کانوں میں الفاظ پڑ گئے۔۔۔ میں بہت حیران ہوا اور پھر میں دروازے سے لگ کر بیٹھ گیا۔۔۔ رات کا وقت تھا۔۔۔ بیرونی دروازہ اندر سے بند کیا جاچکا تھا۔۔۔ ملازمین سوچکے تھے۔۔۔ اور یہ دونوں باتیں کررہے تھے۔ میں سن رہا تھا۔ اس وقت مجھے پتا چلا ۔۔۔ یہ دونوں تو کسی تھری سٹار گروہ کے سرغنہ رہ چکے ہیں۔ ان کا تو پورا گینگ تھا۔۔۔ جو شہر میں دندنا یا کرتا تھا۔ پھر ان کے کچھ ساتھی گرفتار ہو گئے تو یہ اس خوف سے زیر زمین چلے گئے کہ ان کے گرفتار ساتھی ان کا پتا پولیس کو بتا دیں گے۔ اس طرح یہ ایک مدت تک غائب رہے۔۔۔ پھر شرافت کا لبادہ اوڑھ کر ایک کاروباری آدمی کی حیثیت میں سامنے آئے۔۔۔ اور روز بروز مشہور ہوتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ شہر کی امیر شخصیت بن گئے۔ لیکن کسی نے کہا ہے نا۔۔۔ جرم چھپ نہیں سکتا۔۔۔ ایک روز ظاہر ہو کر رہتا ہے۔۔۔ سوان کا جرم اس طرح ظاہر ہونا تھا۔۔۔ یہ ہے میری کہانی تو۔‘‘
’’لل۔۔۔لیکن ۔۔۔ سوال تو یہ ہے کہ آپ کس کے بیٹے ہیں۔۔۔ آپ کے ماں باپ کہاں رہتے ہیں۔۔۔‘‘
’’ مجھے نہیں معلوم۔۔۔ یہ تو یہی بتا سکتے ہیں۔۔۔ اف مالک۔۔۔ میرے ماں باپ میری یاد میں کتنا تڑپے ہوں گے۔۔۔ انہوں نے کس قدر آنسو بہائے ہوں گے۔‘‘
’’خیر ۔۔۔ انہیں ہوش میں لے آتے ہیں۔۔۔‘‘
انہیں ہوش میں لانے کی تدبیر کی گئی۔۔۔ جلد ہی انہوں نے آنکھیں کھول دیں۔۔۔ بڑبڑا کر اٹھ بیٹھنے کی کوشش کی۔۔۔ لیکن انہیں تو باندھ دیا گیا تھا۔
’’تم دونوں کا کھیل ختم ہو گیا ہے۔۔۔ جرائم کی دنیا کے دو مشہور آدمی اب قانون کی گرفت میں ہیں۔۔۔ تم نے یوں تو بے شمار گھناؤنے جرم کیے۔۔۔ لیکن اس بچے کو اغوا کرنے کا جرم سب سے بڑا تھا۔۔۔ تم نے یہ احساس بھی نہیں کیا۔۔۔ کہ اس بے چارے کے ماں باپ مچھلی کی طرح تڑپتے رہے ہوں گے۔۔۔ مدتوں انہیں کسی کل چین نہیں آیا ہوگا۔۔۔ اف مالک۔۔۔ اب ذرا بتا دو۔۔۔ وہ بے چارے کون ہیں۔۔۔ یہ کن کا بیٹا ہے؟‘‘
بابر کپاڈیہ اور بیگم کپاڈیہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے ان کی طرف دیکھتے رہے۔ شاید ان کے پاس کہنے کے لیے اب کچھ نہیں رہ گیا تھا۔۔۔ اپنے جرائم کی تفصیل تو خیر انہیں اب بتانا ہی تھی۔۔۔ اور اپنے باقی رہ جانے والے ساتھیوں کے بارے میں بھی بتانا تھا۔۔۔ لیکن وہ تو سب سے پہلے نوروز کے ماں باپ کے بارے میں جاننا چاہ رہے تھے۔۔۔ آخر بابر کے ہونٹ ہلے۔
’’ یہ سیٹھ اشرف ساہو کا بیٹا ہے۔‘‘
’’ اوہ۔۔۔ وہ تو کافی مشہور آدمی ہیں۔۔۔ ہاں یاد آرہا ہے۔۔۔ کسی زمانے میں اپنے بیٹے کی گمشدگی 
کے بڑے بڑے اشتہارات وہ شائع کراتے رہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں بڑے بڑے انعامات کا بھی اعلان کیا تھا۔‘‘
’’ ہاں، یہ انہیں کا بیٹا ہے۔‘‘
’’ ہم ابھی اور اسی وقت وہاں جائیں گے۔۔۔ افسوس نوروز خود وہاں جانے کے قابل نہیں۔۔۔ انہیں یہاں لانا ہوگا۔۔۔ ویسے ڈاکٹر صاحب اب نوروز کی حالت کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟‘‘
’’ یہ اب خطرے سے نکل آئے ہیں۔۔۔ ان شاء اﷲ بہت جلد صحت یاب ہوجائیں گے۔‘‘
’’ کیا ہم ان کے والدین کو یہاں لا سکتے ہیں۔‘‘
’’نہیں ابا جان، اس سے پہلے ہمیں ان لوگوں کا انتظام کرنا ہوگا۔۔۔ ظاہر ہے۔۔۔ ان کے بہت سے ساتھی آزاد ہیں۔۔۔ اور آج بھی بابر کپاڈیہ کے ساتھ ہیں۔۔۔ اگرچہ مجرمانہ کام نہ کرتے ہوں۔‘‘ محمود بولا۔
’’ ہاں! تم فکر نہ کرو۔۔۔ ویسے اب پہلے والا خطرہ باقی نہیں رہا۔۔۔ ہم یہ خبر اس وقت نشر کر دیتے ہیں کہ بابر کپاڈیہ ۔۔۔ جو کہ تھری اسٹار گینگ کا سرغنہ ہے۔۔۔ پکڑا جا چکا ہے۔۔۔ یہی نوروز کو ہلاک کرنے کی سرتوڑ کوشش کرتا رہا ہے۔‘‘
’’ ہاں! یہ ٹھیک رہے گا۔۔۔ اس خبر سے ان کے ساتھی بھاگ نکلیں گے اور ادھر ادھر چھپ جائیں گے۔‘‘
’’ بالکل ٹھیک۔‘‘
اور پھر انہوں نے اس ترکیب پر عمل کیا۔ خوب زورو شور سے اس خبر کو پھیلا دیا۔۔۔ تھری اسٹار گینگ کا سرغنہ بابر کپاڈیہ اور اس کی بیگم کی گرفتاری کی خبر پھیلتی چلی گئی۔۔۔ اس پر بھی انہوں نے یہ احتیاط کی کہ ہسپتال کے اردگرد خفیہ فورس قائم کر دی۔۔۔ اس کمرے اور کمرے کے باہر تو خاص طور پر اپنے خاص خاص کارکن تعینات کر دیئے۔ جب ان کا اچھی طرح اطمینان ہو گیا تو اس وقت وہ سید اشرف ساہو کے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔۔۔ اس وقت انہیں ایک خاص خوشی کا احساس ہو رہا تھا۔
سیٹھ اشرف ساہو کی کوٹھی انہیں فوراً ہی مل گئی۔۔۔ دور دور تک لوگ انہیں جانتے تھے۔۔۔ ان کے درد سے واقف تھے ۔۔۔ ان کے لیے ہمدردی محسوس کرتے تھے۔۔۔ لہٰذا انہوں نے فوراً ہی انہیں بتا دیا کہ ان کی کوٹھی کون سی ہے۔
’’چلو محمود۔۔۔ آج تم ہی خوش گوار ترین فرض ادا کرو۔ گھنٹی کا بٹن دباؤ۔۔۔ عام طور پر تو ہم دکھ بھری اطلاعات ہی دینے کے لیے آتے ہیں۔‘‘
محمود مسکرا دیا اور گاڑی سے اتر کر گھنٹی کا بٹن دبایا۔۔۔ دروازہ فورا کھل گیا۔۔۔ اور کسی نے کہا۔
’’آگیا میرا بیٹا۔۔۔‘‘
اور یہ آواز ایک خاتون کی تھی۔ گویا وہ نوروز کی ماں تھی۔انہوں نے دیکھا۔۔۔ وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکی تھی۔۔۔ فوراً ہی ادھیڑ عمر کا ایک شخص اس کی طرف بڑھا۔
’’آؤ کنول اندر جاؤ۔۔۔ میں ان حضرات سے مل کر آتا ہوں ۔‘‘
’’تت ۔۔۔ تو ۔۔۔ تو یہ لوگ میرے بیٹے کو نہیں لائے۔‘‘
’’تم اندر چلو نا۔‘‘
وہ جانے کے لیے مڑ گئی۔۔۔ اس وقت اشرف ساہو ان کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔ ایسے میں انسپکٹر جمشید نے کہا۔
’’انہیں روک لیجئے۔‘‘
’’ جی۔۔۔ کیا مطلب؟‘‘
’’ ہم آپ کے لیے ایک خوشی کی خبر لائے ہیں۔۔۔ اس سے بڑی خوشی کی خبر کوئی ہو نہیں سکتی آپ کے لیے۔‘‘
’’ جی۔۔۔ کیا مطلب۔۔۔ کیا آپ۔۔۔ تت تو۔۔۔ تو کیا آپ میرے بیٹے کے بارے میں کوئی خبر لائے ہیں۔‘‘
’’ ہاں !‘‘ انہوں نے فوراً کہا۔
’’ نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔!!! آپ ایسے ہی کہہ رہے ہیں۔۔۔ بس یونہی۔۔۔ مجھے خوش کرنے کے لیے۔‘‘
’’ایسی بات نہیں۔۔۔ ہمارے پاس واقعی آپ کے لیے خوشی کی خبر ہے۔۔۔ آپ کا بیٹا مل گیا ہے۔‘‘
’’ کیا۔۔۔ کیا۔۔۔ واقعی۔۔۔ یہ ۔۔۔ یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔ میں اس کے لیے رو رہی ہوں۔۔۔ کب سے تڑپ رہی ہوں۔۔۔ کتنے سالوں سے میں دروازے کے، آس پاس رہتی ہوں۔۔۔ کہ نہ جانے کب وہ آجائے۔ آپ آئے تو ہیں۔۔۔ اور بیٹے کے ملنے کی خبر بھی سنا رہے ہیں۔ بیٹا آپ کے ساتھ نہیں ہے۔‘‘
’’ ہم اسے ساتھ نہیں لا سکے تھے۔۔۔ البتہ ہم آپ کو اس کے پاس لے جاتے ہیں۔‘‘
’’بیگم ذرا چپ رہو۔۔۔ مجھے پوچھنے دو۔۔۔ ‘‘ اشرف ساہو بے تابانہ بولے۔
اب انسپکٹر جمشید نے تعارف کروایا۔۔۔ وہ حیرت زدہ رہ گئے۔۔۔ پھر مختصر طور پر یہ بتایا کہ واقعی ان کا بیٹا مل گیاہے۔۔۔ اور وہ ان کے ساتھ چل کر اس سے مل لیں۔‘‘
انہیں کسی طرح بھی یقین نہیں آرہا تھا۔۔۔ آخر کار وہ ان کے ساتھ کار میں بیٹھ گئے۔
اب وہ اسپتال آئے۔۔۔ یہاں ہر طرح خیریت تھی۔۔۔ وہ اندر داخل ہوئے اور ان دونوں سے بولے۔
’’وہ رہا آپ کا بیٹا مل لیں اس سے ۔‘‘
وہ بے تحاشہ اس کی طرف بڑھے اور اس سے لپٹ لپٹ کر رونے لگے۔۔۔
’’ذرا احتیاط کریں۔۔۔ آپ کا بیٹا بہت زخمی ہے۔‘‘
’’ کیا کہا۔۔۔ زخمی۔‘‘ ماں چیخ اٹھی۔
’’ اطمینان رکھیں۔۔۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ یہ بالکل ٹھیک ہے۔‘‘
وہ پھر اس سے لپٹ گئے۔۔۔ اب ان کی آنکھوں سے مسلسل آنسو جاری ہو گئے۔۔۔ آنسو بھی عجیب چیز ہیں۔۔۔ غم کے مواقع پر تو نکلتے ہی ہیں۔۔۔ خوشی کے مواقعوں پر بھی نکل آتے ہیں جب وہ خوب آنسو بہا چکے اور خوب مل چکے اور جب انہیں یقین آگیا کہ وہ واقعی ان کا بیٹا ہے تو انسپکٹر جمشیدنے انہیں کرسیوں پر بٹھا لیا اور انہیں ان کے بیٹے کی گمشدگی کی کہانی سنانے لگے۔

*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top