الوداع
حفصہ نصیر احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ شاہین نہ کسی قید کو جانتے ہیں اور نہ ہی ہتھیار ڈالنے کے پابند
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دن آہستہ آہستہ سرک کر شام میں ڈھل رہا تھا جب اس نے ڈھاکہ ایئرپورٹ سے باہر قدم رکھا تھا۔ 34سال بعد اس سرزمین پر قدم دھرتے ہوئے اس کا دل ہلکے سے کانپا تھا۔ دل ہی کیا اس کی پوری ہستی کسی طوفان کی زد میں تھی۔ اس پر کیا بیت رہی تھی یہ وہی جانتا تھا۔ اپنی اندرونی حالت کو نظر انداز کرکے اپنی آنکھوں کو ادھر سے ادھر حرکت دیتے ہوئے وہ اپنے میزبان کی تلاش میں مصروف ہو گیا۔
’’السلام علیکم سر، نور الحسن صاحب ہیں ناں‘‘ جواب دیتے ہوئے اس نے تصدیق چاہی۔
’’ٹھیک پہچانا ہے محسن صاحب آپ نے۔‘‘ نور الحسن نے مسکراتے ہوئے اس کے بیگ کی جانب ہاتھ بڑھایا تو اس نے منع کرتے ہوئے خود بیگ اٹھانا چاہا۔
’’تکلیف نہ کریں بھئی گاڑی ذرا دور کھڑی ہے۔‘‘ نورالحسن نے آگے بڑھ کر بیگ اٹھا لیا۔
’’سفر خیریت سے گزرا سر؟‘‘ نور الحسن نے اسے خاموش دیکھ کر پوچھا۔
’’بالکل خیریت سے گزرا ہے مگر آپ مجھے ہوٹل چھوڑ دیجئے گا۔ میں آرام کرنا چاہوں گا۔ اب کی دفعہ اس نے بمشکل مسکراتے ہوئے کہا۔ اس کے بعد ہوٹل تک کا راستہ خاموشی سے کٹا۔
’’ میں آپ کو ٹھیک آٹھ بجے لینے آؤں گا۔‘‘ نورالحسن نے اسے آئندہ کا پروگرام بتایا۔
’’جیسے آپ کی مرضی۔‘‘ اس نے ہاتھ ملاتے ہوئے اسے الوداع کیا۔ اس کا کمرہ فرسٹ فلور پر تھا۔ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے وہ اپنے آپ سے الجھ رہا تھا۔
’’ مجھے یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔‘‘ اس نے اپنے آپ سے سوال کیا۔
مگر یہ میرا جنم بھومی ہے اور آنا تو بہرحال میری مجبوری ہے۔‘‘ اس نے خود کو خود ہی مطمئن کرنا چاہا۔
’’ اس سرزمین نے اس سے کیا کچھ نہ چھینا تھا۔ اس کا بچپن ، دو بہنیں، تین بھائی اور اسلامی اخوت و محبت کا رشتہ۔‘‘ ہوٹل کی کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے وہ بڑبڑایا تو اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔
’’ مجھے قبرستان بھی جانا ہوگا اپنی لاڈلی بہنوں اور پیارے سے بھائی کے پاس ۔کرسی پر سر ٹکاتے ہوئے اس نے بے بسی سے ارادہ باندھا۔
ٹھیک آٹھ بج کر پندرہ منٹ پر وہ نورالحسن کے ساتھ جا رہا تھا۔ اسے اس کی کمپنی نے تین روزہ دورے پر بنگلہ دیش بھیجا تھا۔ تمام رستے وہ طے شدہ شیڈول پر بات چیت کرتے رہے۔
’’سر! صرف تین دن وہ بھی اس خوبصورت دیش میں زیادتی نہیں ہے؟‘‘ نورالحسن مسکراتے ہوئے یکدم پوچھنے لگا۔
’’زیادتی۔۔۔؟‘‘ محسن نے نہ سمجھنے والے انداز سے اس کی طرف دیکھا۔
’’میرا مطلب ہے یہ دن تو کام کی مصروفیات میں گزر جائیں گے آپ تفریح نہ کر پائیں گے۔‘‘ نور الحسن نے وضاحت پیش کی تو وہ مسکرا کر رہ گیا۔دونوں جس بین الاقوامی کمپنی میں ملازم تھے اس میں ان کا عہدہ ایک سا تھا۔ مگر نور الحسن محض اس کی عمر کے پیش نظر اس کو ’’سر ‘‘ کہہ کر مخاطب کر رہا تھا۔
’’زیادتی تو مجھے یہاں بھیجنے والوں نے کی ہے۔‘‘ دل میں درد کی لہر جاگی اور پورے جسم میں دوڑنے لگی۔پھر جتنی دیر وہ نورالحسن کے ساتھ مختلف امور سرانجام دیتا رہا اس درد کو دبانے کی سعی لاحاصل میں مزید بے کل ہو گیا۔ جب نورالحسن نے اسے ہوٹل میں اتارا اس وقت رات کے دو بج رہے تھے۔ اسے صرف اتنا یاد تھا کہ اس نے بستر پر سر رکھا تھا اور نیند مہربان ہو گئی تھی۔
*۔۔۔*۔۔۔*
محسن کی آنکھ اس وقت کھلی تھی جب سورج کی سنہری کرنوں کی دستک اس کے کمرے کی کھڑکی پر مسلسل ہونے لگی۔ بیدار ہونے کے بعد وہ کھڑکی کے پاس آکھڑا ہوا۔ ایسی روشن اور چمکیلی صبح سے کبھی اسے آشنائی تھی جب وہ یہاں کا باسی تھا۔ اخبار کمرے کے دروازے پر حسب معمول پڑا تھا۔ اس نے اخبار اٹھا کرایک طرف رکھ دیا کیونکہ اخبار کی زبان کبھی وہ ٹوٹی پھوٹی جانتا تھا مگر اب قطعی اجنبی تھی۔
’’ آج میرا ڈھاکہ میں آخری دن ہے۔‘‘ ناشتے کیلئے تیار ہو کر ڈائننگ ہال میں جاتے ہوئے اس نے سوچا۔ گزرنے والے دونوں دن اس کا کڑا امتحان لے گئے تھے۔ ہر ہر موڑ پر وہ ٹھٹکا تھا۔ ہر راستے کو کھوجا تھا۔ مگر یہ تلاش، یہ کھوج درد بڑھانے لگیں تھیں۔ 11بجے نورالحسن اسے لینے آگیا تھا اپنے معمول کے مطابق
’’ آج ہم صرف ایک فیکٹری کا وزٹ کرکے فارغ ہو جائیں گے۔‘‘ نورالحسن نے اسے گھڑی دیکھتے ہوئے بتایا۔
’’ میں بھی جلدی فارغ ہونا چاہتا ہوں۔‘‘ محسن کی آواز قدرے آہستہ تھی۔ اس دفعہ استفہامیہ نگاہیں نور الحسن کی تھیں۔
’’دراصل میں تھوڑا سا اس شہر میں گھومنا چاہتا ہوں۔‘‘ محسن نے بتایا۔
’’بالکل میری کوشش بھی یہی ہو گی۔‘‘ نور الحسن نے اسے اطمینان دلایا اور پھر یہ جلدی اس وقت تک ان کے ہمراہ رہی جب تک وہ دونوں مصروف رہے۔
’’سر! پہلے قومی شہیدوں کی یادگار پر چلیں؟‘‘ فراغت پاتے ہی نورالحسن نے اس سے پوچھا۔
’’قومی شہید‘‘ یہی لفظ اسے بم کی طرح لگا۔
’’ نہیں بھئی مجھے قبرستان سے ذرا پہلے اتار دینا۔‘‘ محسن نے انکار کرتے ہوئے کہا۔
’’سر! نورالحسن نے ڈھاکہ یونیورسٹی کے سامنے گاڑی روک کر اسے مخاطب کیا۔
’’ یہ میری مادر علمی ہے میں آپ کو دکھاتا ہوں اس یونیورسٹی میں ایک انجانی کشش ہے جو ایک بار آتا ہے بار بار آنے کی تمنا کرتا ہے میں تو اکثر یہاں آتا ہوں۔‘‘
’’نہیں یار! میں نے واپس جانا ہے میں اس کشش کا متحمل نہیں ہو سکتا ہوں۔‘‘ محسن نے ہنس کر ٹالا اسے اپنے تینوں بیٹے یاد آئے جنہوں نے کوئی فرمائش کرنے کے بجائے اسے جلدی آنے کی تلقین کی تھی۔
’’نورالحسن ! مجھے یہاں اتار دو۔‘‘ ایک جانی پہچانی جگہ دیکھ کر اس نے اپنے میزبان کو پکارا۔ نورالحسن نے گاڑی روک دی۔
’’سر! آپ یہاں۔۔۔؟‘‘ اسے حیرت ہوئی۔
’’مجھے تھوڑا کام ہے میں خود ہی واپس ہوٹل چلا جاؤں گا۔‘‘ محسن نے گاڑی سے اترتے ہوئے کہا تو اس نے کندھے اچکاتے ہوئے گاڑی موڑ لی۔
*۔۔۔*۔۔۔*
’’ مسلسل ایک گھنٹے کی تلاش، کھوج اور محنت کے باوجود وہ نامراد رہا۔ سورج بھی آگ برسا رہا تھا۔ محسن نے بے بسی سے ایک بار نگاہ اٹھائی ۔ شہر خموشاں میں حد نگاہ تک قبریں تھیں مگر جن دس اکٹھی قبروں کو وہ تلاش رہا تھا وہ نظروں سے اوجھل تھیں۔ ہر چیز بدل چکی تھی۔ تھک ہار کر وہ کپڑوں کی پرواہ کیے بغیر زمین پر بیٹھ گیا۔ صرف ایک چیز نہیں بدلی تھی۔اس کے آنسو جو ہر دم اس کے ساتھ رہے تھے۔
’’ جب وہ دس سال کا تھا اور آخری بار اس قبرستان میں آیا تھا تو اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی برسات جاری تھی۔ آج 34سال بعد آیا تھا تو وہ آنسو اپنی جگہ موجود تھے۔‘‘
’’ کتنا خوبصورت گھر تھا ان کا ۔‘‘ اس کا دل ماضی میں کھو گیا۔
دو بہنیں، چار بھائی اور ماں باپ۔ اسی سرزمین پر وہ پیدا ہوا تھا اور دس سال یہیں رہا تھا ہنسی خوشی۔ پھر خوشیاں کھو گئیں۔ سارے رشتے چھوٹ گئے۔ دشمن نے آہستہ آہستہ نفرتوں کا زہر گھولا۔ علیحدگی رقص کرتی فاتح بن گئی۔ لوگ سانحہ سمجھ کر بھول گئے۔
’’ بابا جان! ہمیں اہم مشن پر جانا ہے۔ واپسی کی کوئی امید ہمارے ہمراہ نہیں ہے۔‘‘ اس کے دونوں جڑواں بھائی باپ سے اجازت طلب کر رہے تھے اور ماں ٹکٹکی باندھے ان کے چہروں کو دیکھ رہی تھی۔ محسن ماضی کا لمحہ بہ لمحہ سفر طے کررہا تھا۔ منظر اس کی آنکھوں کے سامنے دھند لا رہے تھے مگر مٹے نہیں تھے۔
بابا صحیح کہتے تھے کہ حسن اور احسن میں صرف ’’الف‘‘ کافرق ہے دونوں ہر کام ساتھ کرتے تھے۔ یک جان دو قالب تھے۔ دفاع وطن کیلئے رضاکارانہ دونوں نے جانیں پیش کرتے ہوئے ’’الشمس‘‘ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ جس دن وہ ماں باپ کی دعائیں لیے گئے تھے اسی رات افواہ گردش کرنے لگی تھی۔ ’’ہتھیار ڈال دیئے گئے ہیں‘‘ اس کے بعد سے اس کے بھائیوں کی کوئی خبر نہ آئی اور اس کی آنکھیں ایک بار ان کو دیکھ لینے کیلئے مچلتی رہیں۔
’’ لیکن حسن، احسن اور ان جیسے ان گنت گم نام جیالے ہتھیار ڈالنے کے حکم کے پابند نہ تھے۔ ان شاہینوں کو قید کرنا کہاں ممکن تھا۔ وہ تو راہ حق کے مسافر تھے!! صلہ سے بے نیاز!!
یہ کہاں کھوئے تھے؟؟ جنگلوں میں گم ہو کر ان کی زرخیزی بڑھا گئے تھے یا پہاڑوں کے سینوں میں رازوں کی طرح کھو گئے۔ حق کے پرستار دلدلوں میں اتر گئے تھے۔ حیات کے پنچھی حیات جاوداں پا کر اڑ گئے۔ روح پرواز کر گئی تھی اور جسم خاک میں مل کر خاک ہو گئے تھے۔
’’کتنی دلدلی اور خونی ہے یہ سرزمین۔‘‘محسن مٹی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بڑبڑایا ۔ آنکھیں آنسوؤں کی مالا پرو رہی تھی۔
محسن یاد کرنے لگا کہ کس طرح وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ ہجرت کرکے پاکستان آیا تھا۔ اس کی ماں پھر چند ماہ بعد ہی زندگی سے بیزار ہو کر موت کا دامن تھام گئی تھی اور وہ اپنے باپ کی امید کا مرکز بن کر آگے ہی آگے بڑھتا رہا۔
محسن زمین سے اٹھا اور شہر خموشاں کے باسیوں کو الوداع کرتا ہوا باہر نکل آیا۔
’’ اس یونیورسٹی میں بڑی کشش ہے۔‘‘ نور الحسن کا کہا ہوا جملہ اسے یاد آیا تو مسکرا دیا۔ وہ دونوں بھی تو ڈھاکہ یونیورسٹی کے طالب علم تھے جو یونیورسٹی کی کشش میں اس کے آس پاس ہی جان جانِ آفریں کو سونپ گئے ہوں گے۔اس نے رک کر سوچا اور پھر چلایا۔ مگر دھیرے دھیرے چلتی ہوئی ہوا وہیں تھی جو بڑی دور سے چلتی ہوئی اس سرزمین تک آئی تھی۔ اب اندھیرے غاروں، بلند و بالا پہاڑوں، جنگلوں ، گنگا کے پانیوں، پٹ سن کی دھرتی میں ، تہہ خاک سوئے ہوئے شہبازوں، شیر دل مجاہدوں سے سرگوشیاں کررہی تھی، دور بہت دور ان کے وطن کے ذرے ذرے کا پیغام پہنچا رہی تھی۔
*۔۔۔*۔۔۔*