اللہ پر بھروسا
طالب ہاشمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دکھ ہو یا سکھ ہر حا ل میں اللہ تعالیٰ پر توکل یابھروسا کرنا ایک ایسی صفت ہے جو اللہ تعالیٰ کا بہت پسند ہے او ر اس نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ جو شخص اللہ پر بھروسا کرتا ہے،اللہ اس کے لئے کافی ہے۔اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرنے کی دو صورتیںہیں ،ایک یہ آدمی اپنا ہرکام محنت اور توجہ سے کرے مگر اپنی محنت اور کوشش کا نتیجہ اللہ پر چھوڑ دے اور بھلائی کی امید رکھے۔دوسری صورت یہ ہے کہ نیکی کا کام کرتے ہوئے کسی سے نہ ڈرے ۔بری سے بری مصیبت میں بھی اللہ پر بھروسہ رکھے اور یہ یقین رکھتے ہوئے کہ اللہ اس کی حفاظت کرنے والا ہے،ہر مصیبت کا ہمت سے مقابلہ کرے۔
ہمارے رسولِ پاک ﷺ نے لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا شروع کیا اور ان کو بتوں کی پوجا کرنے اور برے کاموں سے منع کیا تومکہ کے وہی لوگ جو آپ کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے،آپ کے دشمن بن گئے اور آپ کو طرح طرح سے ستانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی لیکن آپ نے ہمیشہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھنے کا جو نمونہ آپ کی پاک زندگی میں ملتا ہے اسی کی چند جھلکیاں ملاحظہ کیجئے۔
جس زمانے میں رسولﷺ نے مکہ کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کا آغاز کیا،آپ اکیلے ہی حرم کعبہ میں چلے جاتے تھے اور وہاں سب کے سامنے اللہ کی عبادت کرتے رہتے۔ایک دفعہ چند شریر کافر وں نے منصوبہ بنایا کہ جب آپ حرم شریف میں آئیں ،وہ آپﷺ کو شہید کردیں۔آپ کو ان کے منصوبے کی اطلاع مل گئی لیکن آپ نے کچھ پروا نہ کی اور وضو کرکے اللہ کے بھروسے پر بے دھڑک حرم شریف میں تشریف لے گئے۔آپ کا حوصلہ دیکھ کر کسی کو آپ پر ہاتھ اٹھا نے کی جرات نہ ہوئی۔
مکہ سے ہجرت کے وقت رسول ﷺ چند میل فاصلے پر ثور پہاڑ کے ایک غار میں مقیم ہوئے۔دوسرے دن مکہ کے چند کافر آ پ کو تلاش کرتے کرتے غار کے منہ پر پہنچ گئے۔ آپ کے پیارے ساتھی حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے ان کو دیکھ لیا اور گھبرا کر بولے ؟
”یا رسول اللہ !اگریہ لوگ ذرا جھک کر دیکھیں گے تو ہم ان کو نظر آجائیں گے۔“
آپﷺ نے فرمایا:”غم نہ کرو ،اللہ ہمارے ساتھ ہے۔“
اور پھر واقعی اللہ نے آپ کی مدد فرمائی اور کافر آپ کو دیکھ ہی نہ سکے۔
غار ثور میں تین دن رات قیام کرنے کے بعد آپ مدینہ (یثرب)کی طرف روانہ ہوئے تو ایک عرب قبیلے مدلج کے سردار سراقہ بن جعشم نے گھوڑے پر سوار ہوکر آپ کا تعاقب کیا۔حضرت ابو بکر صدیق ؓ پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتے جاتے تھے۔سراقہ کے قریب پہنچنے پر انھوں نے رسولِ پاک ﷺ سے کہا:یا رسو ل اللہ ﷺ! ہمارا پیچھا کرنے والا بہت قریب آگیا ہے۔“
آپﷺ نے اطمینان سے جواب دیا :کچھ فکر نہ کرو اللہ ہماری حفاظت کرنے والا ہے اور پھر واقعی اللہ نے آپ کی حفاظت کی اور سراقہ کو ناکام واپس جانا پڑا۔
ہجرت کے بعد مدینہ میں آپﷺ کے گھر کے باہر صحابہؓ پہرہ دیا کرتے تھے کہ کوئی دشمن آپﷺ کو نقصان نہ پہنچائے ۔ایک رات کو آپﷺ نے اپنا سر مبارک باہر نکال کر صحابہ ؓ کو پہرہ دیتے دیکھا تو فرمایا:”لوگو!واپس جاﺅ میری حفاظت اللہ کرے گا۔
ایک رات مدینہ میں ایک طرف بڑا شور اٹھا۔شہر کے لوگوں نے سمجھا کہ کسی دشمن نے حملہ کردیا ہے۔وہ فوراً تیار ہو کر اس طرف کو دوڑے جدھرشور ہوا تھا۔تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ انھیں رسول پاک ﷺ گھوڑے پر سوار واپس آتے ہوئے ملے۔آپﷺ لوگوں کے تیار ہونے سے پہلے ہی اللہ کے بھروسے پر اکیلے شور والی جگہ کی طرف تشریف لے گئے تھے۔آپﷺ نے صحابہ کرام ؓ سے فرمایا ،”میں شہر کے باہر دیکھ آیا ہوں ،کوئی خطرہ کی بات نہیں،چلو واپس چلیں۔“
ایک دفعہ ایک مہم سے واپس آتے ہوئے رسولِ پاکﷺ اور آپ کے ساتھیوں نے ایک جگہ پڑاﺅ ڈالا اور سب لوگ ادھر ادھر درختوں کے نیچے سو گئے۔رسول ِپاک ﷺ بھی ایک درخت کے نیچے سو رہے تھے کہ ایک کافر بدو ننگی تلوار ہاتھ میں لئے آیا ور آپ کو جگا کر کہنے لگا۔
”اب تم کو کون بچائے گا؟“
آپﷺ نے فرمایا:”اللہ“
اتنا سنتے ہی بدو پر کپکپی طاری ہو گئی اور تلوار اس کے ہاتھ سے گر پڑی۔آ پ نے وہی تلوار اٹھا کر اس سے پوچھا،اب تجھے کون بچائے گا؟“
ڈر کے مارے اس کی زبان گنگ ہو گئی۔آپﷺ نے فرمایا ،”جاﺅ میں بدلہ نہیں لیا کرتا۔“
ایک دفعہ ایک صحابی نے رسول پاک ﷺ سے گفتگو کرتے ہوئے کہہ دیا۔
”جو اللہ چاہے اور آ پ چاہیں۔“آپ ﷺ نے فرمایا ،”تو نے مجھے اللہ کا شریک اور ہمسر بنا دیا ،یوں کہو جو اللہ تعالیٰ چاہے۔“
مطلب یہ کہ ہر معاملے میں صرف اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا چاہئے کہ جو اس کو منظور ہوگا وہی ہوگا ۔وہ ہر انسان کے دل کا حال جانتا ہے۔
رسولِ پا کﷺ کے مدینہ تشریف لانے کے بعد بھی مکہ کے کافر مدینہ کے یہودی اور منافق آپ کے خلاف سازشوں اور شرارتوں میں مشغول رہے جن کے نتیجے میں مسلمان اور کافروں کے درمیا ن لڑائیاں ہوئیں۔تمام مشکلات اور مصیبتوں میں رسولِ پاک ﷺ نے ہمیشہ اللہ پر بھروسہ کیا،کبھی دشمن کی تعداد کو خاطر میں نہ لائے اورنہ کبھی اس کے سازوسامان اور فوجی طاقت کی پروا کی۔