الیگزینڈر ڈوما (Alexendar Dumas)
الیگزینڈر ڈوما کو فرانس کا سب سے زیادہ پڑھے جانے والا اور مقبول ادیب کہا جاتا ہے جس کی کہانیوں اور ڈراموں کا متعدد زبانوںمیں ترجمہ ہوا اور اسے دنیا بھر میں شہرت حاصل ہوئی۔
5 دسمبر 1870ء کو وفات پانے والے الیگزینڈر ڈوما نے فرانس کے ایک علاقے میں1802ء میں آنکھ کھولی۔ اس نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد خود کو ایک ڈرامہ نویس کے طور پر منوایا اور بعد کے برسوں میں کہانیاں? لکھیں۔ اس کی کہانیاں بہت زیادہ مقبول ہوئیں۔
فرانس میں ڈوما کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ کسی اور ناول نگار کو نصیب نہیں ہوئی۔ اس کی کہانیوں کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے انھیں مختلف زبانوں جن میں اردو بھی شامل ہے، ترجمہ کیا گیا۔ ڈوما کے ناولوں کو آج بھی دنیا بھر میں نہایت شوق اور دل چسپی سے پڑھا جاتا ہے۔
الیگزینڈر ڈوما کی کہانیوں کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس نے تاریخ اور مہم جوئی کے واقعات کو کہانی سے جوڑ کر اسے نہایت دل چسپ بنا دیا ہے۔ اس کی کہانیاں انتقام اور دولت سے پیدا ہونے والے مسائل یا ایسے واقعات کے گرد گھومتی ہیں جو قارئین کا شوق اور تجسس بڑھاتے ہیں۔ اس کی کہانیاں حیرت انگیز دنیا میں لے جاتی ہیں جہاں قارئین کو سنسنی خیز اور پُرتجسس واقعات اپنی گرفت میں? لے لیتے ہیں۔
ڈوما کی چند کہانیوں میں’’تین بندوقچی‘‘،’’فولادی خود میں انسان‘‘، ’’ملکہ مارگو‘‘اور’’مونٹی کرسٹو کا نواب‘‘اردو میں ترجمہ ہوکر بہت مقبول ہوئیں۔ اس نے اپنی کہانیوں سے شہرت ہی نہیں دولت بھی کمائی، لیکن موت کے وقت وہ مالی مسائل سے دوچار تھا۔
خاص طور پر اس کا ناول ’’مونٹی کرسٹو کا نواب‘‘بہت مشہور ہوا۔ اس ناول کے بعض واقعات اتنے حیرت انگیز اور دل چسپ ہیں کہ قاری اس کہانی کو ختم کیے بغیر نہیں رہ سکتا اور واقعات کا تسلسل اسے صفحہ پلٹنے پر مجبور کرتا چلا جاتا ہے۔
فرانس کے عظیم شہر پیرس میں اپنے وقت کا یہ مقبول کہانی کار آسودہ خاک ہے۔ ڈوما کی کہانیوں پر متعدد فلمیںبھی بنائی گئیں جنھیں بہت پسند کیا گیا۔