آخری وار
اعظم طارق کوہستانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُس نے ہوش وخرد سے بیگانہ ہو کراپنے پھول جیسے نرم و نازک کلائیوں والے ہاتھوں کو مکے کی شکل دی اور اس گرانڈیل جسم کے مالک اسرائیلی فوجی کے پیٹ میں گھونسوں کی بارش کردی۔
’’ تم نے میری ماں پرہاتھ اٹھایا۔‘‘ ننھا حسن ہذیانی انداز میں چیخا۔ ’’میں تمہیں جان سے مار دوں گا۔‘‘ لیکن شایدننھے حسن کی یہ حرکت اسرائیلی فوجی کو سخت نا پسند آئی۔ دوسرے لمحے اسرائیلی فوجی کا ہاتھ بلند ہوااور رائفل کے زور داربٹ نے ننھے حسن کے ہوش وحواس پر اندھیرے کی چادر تان دی تھی۔
وہ ہوش میں آیا تو اس کی معصوم دنیا اندھیر ہوچکی تھی۔ اس کے باپ کو ’’کارل‘‘کے حکم پر اسرائیلی فوجیوں نے اپنی بے رحم گولیوں سے بھون ڈالا تھا۔ اس کے باپ کا قصور کیا تھا؟ صرف یہی کہ اس نے کارل کے خون آشام اورگھناؤنے جرم کو بے نقاب کرنے کے لیے اپنے قلم کااستعمال کیا تھا۔ اس کے باپ نے ایک سچ سے پردہ اُٹھایا تھاکہ ’کارل نے اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے درندہ صفت فوجیوں کے ہاتھوں غریب اورنہتے فلسطینیوں پر آگ و آہن کے دروازے کھول دیے ہیں۔‘
طلسم ٹوٹا اورخیال کے ۱۸؍ برسوں پہلے کے واقعات کے ان دھندلکوں سے وہ نکل آیا۔ سورج نے اپنی حدت کم کرلی تھی۔ لیکن اس کے باوجود دوگرم گرم آنسو اس کی آنکھوں سے لڑھک کرزمین میں جذب ہوگئے۔ اندھیرا اُجالے پرحاوی ہونے لگا تھا۔ تیز ہوا کے دوش پراڑتے ہوئے پرندے بھی اب اپنے آشیانوں کی سمت چل پڑے تھے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
یہودیوں کے قبضے سے فلسطین آزاد کرانے والے آزادی کے متوالوں میں وہ بھی شامل تھا۔ کارل کی موت اس کی زندگی کا اہم مقصد تھا۔ کارل کے حکم پرجن تین فوجیوں نے اس کی زندگی کی رونقیں اندھیر نگری میں بدلی تھیں ان تینوں کو ایک جھڑپ میں اس کے چچا نے جہنم واصل کردیا تھا لیکن وہ خود بھی بری طرح زخمی ہوئے ۔چند دنوں کی شدید علالت کے باعث شہید ہوگئے مگرجاتے جاتے حسن سے وعدہ لے گئے کہ کارل اور اس جیسے سیکڑوں درندہ صفت اسرائیلی فوجیوں کو جہنم واصل کرنا ہے۔
کارل کو ختم کرنا ایک مشکل کام تھا۔ وہ ’’موساد‘‘ جیسی بدمعاش تنظیم کے شعبہ جاسوسی کا انچارج تھا۔ کمانڈوز اس سے سایے کی طرح چمٹے رہتے تھے۔ لیکن یہ مشکلات حسن کے عزم وحوصلے کی راہ میں حائل نہ ہوسکیں۔ اسے اپنے ایک فلسطینی سائنسدان دوست سے ایک ایسی پستول ملی کہ اگراسے کسی اخبار میں لپیٹ کربغل میں دبالی جاتی اور شکار پر نشانہ تان کر ہلکا سا زور دے دیا جاتا تو گولی چل پڑتی ۔۔۔ وہ اپنے دوست کی اس حیرت انگیز ایجاد سے بھر پور فائدہ اُٹھانا چاہتا تھا اور اپنے سائنسدان دوست کابے انتہا مشکور تھا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
اسرائیل کی بقاء و سلامتی کے حوالے سے ہونے والی اس تقریب کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں ہر خاص و عام یہودی کو شرکت کی اجازت تھی۔ حسن نے بھی اس دن اپنا حلیہ عام یہودیوں کی طرح بنایا۔ منصوبے کے مطابق اخبار اس نے ہاتھ میں یوں لیا جیسے جلدی میں اس نے اخبار تو خرید لیا ہو لیکن پڑھ نہ سکا ہو۔ اسے اپنے ایک ساتھی سے معلوم ہوا تھا کہ اس تقریب میں کارل کی شرکت یقینی ہے ۔ تقریب میں یہودیوں کی ڈیڑھ گھنٹہ کی ہرزہ سرائی سننے کے بعد بالآخر وہ لمحہ بھی آپہنچا جب کارل کو اپنے خیالات کے اظہار کے لیے ڈائس پر بلایا گیا۔ کارل ایک مشہور یہودی پیشوا کا بیٹا بھی تھا اس لیے اس قسم کی تقریبات میں اس کی شرکت یقینی ہوتی تھی۔ پردے کے پیچھے سے کارل نمودار ہوااور سیدھا ڈائس پر پہنچا۔ جب فلسطین کے حوالے سے کارل نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے اپنے سے پہلے آنے والے تمام مقرروں کو پیچھے چھوڑا توحسن مزید برداشت نہ کرسکا۔ اس نے چاروں جانب تیکھی نظروں سے دیکھا۔۔۔کسی کو اپنی جانب متوجہ نہ پا کر حسن اٹھ کھڑا ہوا۔ اخبار اس کے بغل میں تھا۔ کارل کوپستول کے نشانے پر رکھا۔ اس سے پہلے وہ گولی چلاتا ۔۔۔ اس کے پیچھے سے کسی شخص نے اس کا جبہ پکڑ کر اسے بیٹھنے کے لیے کہا۔ بس یہیں اس کا توازن بگڑا ۔۔۔گولی چلی۔۔۔مگر نشانہ خطا ہوچکا تھا۔ گولی کا چلنا تھا کہ ہال میں بھگڈر مچ گئی۔ ایک افراتفری کا عالم تھا۔ بزدل یہویودں کا جدھر منھ اٹھا اسی طرف کو بھاگ کھڑے ہوئے۔ اپنی اس ناکامی پر اُس کا دل چاہا کہ اس شخص کو گولی مار دے جس کے جبہ کھینچنے کی وجہ سے یہ معاملہ بگڑا تھا۔ حسن نے بھگڈر کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
دروازے پرنوک دار دستک ہوئی۔ میز کے پیچھے بیٹھے ہوئے پستہ قد کے مالک ’’کارل‘‘ نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا۔
’’ یس کم اِن۔‘‘ یہ کارل کا مخصوص ملازم تھا جس کے ہاتھ میں ایک خوب صورت کور میں لپٹاگفٹ پیک موجود تھا۔
’’سر !یہ امریکا سے آپ کے لیے آیا ہے۔‘‘ ملازم کے ہونٹ ہلے۔
’’ہوں۔‘‘ کارل نے خوش گوار انداز میں زور سے ہنکارا بھرا۔ گفٹ پیک میز پر رکھ کر اسے جانے کا اشارہ کیا۔
چپڑاسی کے باہر جاتے ہی کارل نے فوراً گفٹ پیک کھولا۔ کارل اکثر وبیشتر امریکا جاتا تھا جہاں اس کے کافی دوست رہتے تھے۔۔۔وہ یہی سوچ رہا تھا کہ انھیں میں سے کسی دوست نے یہ تحفہ اس کے لیے بھیجا ہے۔
’’ارے یہ کیا۔۔۔! اس میں تو میراپسندیدہ برانڈ کا سگار ہے۔‘‘ کارل بچوں کی طرح خوش ہوتے ہوئے بڑبڑایا۔
’’مجھے معلوم ہے یہ یقیناًاینڈریسن نے بھیجا ہوگا۔‘‘ اینڈریسن کا خیال آتے ہی اس کے لبوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی اور کارل نے بغیر کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر سگار کا ’’بینڈ‘‘ کھولا۔ بینڈ کو کھلنا تھا کہ ایک نامانوس سی بو اس کے نتھنوں سے ٹکرائی اور سگار کا ’’رسیا‘‘ کارل بالآخر حسن کے ہاتھوں مارا گیا۔ کارل کو سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں اس ہتھیار کے بارے میں سب کچھ یاد آگیا تھا لیکن اب شاید اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ دوسرے لمحے اس کی گردن ایک جانب ڈھلک گئی۔
*۔۔۔*۔۔۔*
حسن کو اپنے ذرائع سے پتا چلا کہ کارل کوسگارکا جنون کی حد تک شوق ہے۔ سگار کا سن کر حسن کے ذہن میں جھماکا سا ہوا۔ امریکی سی آئی اے (خفیہ تنظیم) کی ایجاد کو اس نے ان ہی کی حلیف تنظیم موساد کے ایک اہم رکن اور شعبہ جاسوسی کے انچارج پر آزمانے کافیصلہ کیا۔ پہلامرحلہ توسگار کی تلاش تھی۔ لیکن اس کا یہ اہم مسئلہ امریکا میں مقیم اس کے دوست شیخ طاہر نے ایک امریکی پولیس کو ۱۰۰۰۰ ڈالر دے کر حل کردیا۔ سگار کواگر وہ فلسطین سے ہی کارل کے پاس بھیج دیتا تو وہ چوکنا ہوجاتا اورشاید سگار پہچان جاتا کیوں کہ آخر وہ بھی ایک جاسوس تھا۔۔۔ اس لیے حسن نے بغیر کوئی رسک لیے امریکا کا طویل سفر کیا اور وہیں سے اسے گفٹ پیک کی شکل میں کارل کے پتے پر روانہ کردیا۔ کارل اس ایجاد سے بخوبی واقف تھا لیکن اپنے اس جنونی شوق کی بدولت عالم بالا کو روانہ ہوگیا تھا۔
دوسرے دن کے تمام بڑے اخبارات کی شہ سرخی یہ تھی۔
’’رکن موساد اور شعبہ جاسوسی کے انچارچ ’’کارل‘‘ سگار کے ذریعے قتل۔‘‘
خبرپڑھ کرحسن کو اپنے دل میں طمانیت کا احساس ہوا اور دوسرے لمحے اس کی پیشانی سجدہ شکر کے لیے بارگاہ ایزدی کے سامنے جھک گئی۔
*۔۔۔*۔۔۔*