skip to Main Content
آخر کب تک۔۔۔۔۔؟

آخر کب تک۔۔۔۔۔؟

قمر السحر انصاری

…………………….

صبح کے چھ بج رہے تھے۔ آسمان پر چھائے ہوئے کالے بادل تیز ہوا کے دوش پر کبھی نیلے آسمان کو ڈھانپ رہے تھے اور کبھی نیلا آسمان بادلوں کی اوٹ سے زمین پر جھانک رہا تھا۔ اُف!۔۔۔ کب ختم ہوگا ہوا اور بادلوں کی آنکھ مچولی کا یہ کھیل؟۔۔۔ یہ بادل برس کیوں نہیں جاتے۔۔۔ رو کیوں نہیں دیتے۔۔۔ اپنے دل کا غبار نکال کیوں نہیں دیتے۔۔۔ ؟ شاید یہ بھی کمزور ہیں میری طرح۔۔۔؟ تیز ہوا سے بار بار ہار رہے ہیں۔ نہیں نہیں۔۔۔ میں کمزور تو نہیں ہوں۔ اس نے اپنے آپ سے خود کلامی کی۔ مجھے کس بات کا غم ہے۔۔۔ میں تو خوش ہوں۔۔۔ بہت زیادہ۔۔۔ لاشعوری طور پر اُس نے قہقہہ لگایا اور اُسے پتہ بھی نہ چلا۔ قہقہے کی آواز پر اُسے احساس ہوا کہ وہ ہنس رہا ہے۔ میرے پاس کس چیز کی کمی ہے۔۔۔ سب کچھ تو ہے میرے پا۔۔۔ بنگلہ۔۔۔ گاڑی۔۔۔ نوکر چاکر۔۔۔ بینک بیلنس۔۔۔ کیا کچھ نہیں ہے میرے پاس ۔۔۔ مگر ہاں۔۔۔ ہاں کمی ہے۔۔۔! کہاں ہیں وہ سب۔۔۔؟ میرے بچے۔۔۔؟ میرے بیٹے۔۔۔؟ اب وہ غیر ارادی طور پر کرسی سے اُٹھ کر ہری ہری گھاس پر ٹہلنے لگا تھا۔ موگرے کے پھول تیز ہوا کے دوش پر اِدھر سے اُدھر ہچکولے کھا رہے تھے۔ ہوا کے کاندھوں پر ان کی خوشبو دور دور تک پھیل رہی تھی۔
ابو۔۔۔! جب ہمارا بڑا سا گھر بنے گا تو ہم اس میں ایک بہت بڑا سا لان بھی بنوائیں گے اور اس میں بہت سارے پھولوں کے پودے بھی ہوں گے اور۔۔۔ اور ابو! اس میں موگرے کے پودے تو ضرور لگائیں گے۔ ہاں بیٹا!۔۔۔ ضرور۔ اُس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہاں کوئی نہ تھا۔ موگرے کے بڑے بڑے سفید پھول مسکرا رہے تھے۔ شاید میری بے بسی پر مسکرا رہے تھے۔ یا شاید مجھے بھی مسکرانے کا درس دے رہے ہیں کہ خوش رہنے کا سبق ہم سے سیکھو۔ مگر کیسے۔۔۔؟ میں کیسے خوش رہوں۔۔۔؟ کس کے لئے خوش رہوں۔۔۔؟ شاید میں چیخنا چاہتا ہوں۔۔۔ اُف میرا سر درد سے پھٹ جائے گا۔ میں کہاں جاؤں۔۔۔؟ یہ وقت گزرتا کیوں نہیں۔۔۔؟ اُس نے کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی کی طرف دیکھا۔ نو بج رہے تھے۔ اُف ۔۔۔! صرف نو بجے ہیں۔ کب گزرے گا یہ وقت۔ کب شام ہوگی۔۔۔؟ کب دن ختم ہوگا۔۔۔؟ اُس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر بھینچ لیا۔ صاحب جی۔۔۔! چھوٹے صاحب کا فون ہے۔ وہ کرسی سے اُچھل کر کھڑا ہوگیا۔ اُسے لگا کہ اُس کے جسم میں زندگی واپس آگئی ہے۔ اُس نے جھٹ کارڈلیس رحیمو کے ہاتھ سے چھینا اور کانوں سے لگالیا۔ کیسے ہیں ابو جان۔۔۔! ٹھیک ہوں اُسے اپنی آواز لرزتی ہوئی محسوس ہوئی۔ مبارک ہو ابو جان! آپ دادا بن گئے ہیں۔ اچھا۔۔۔! خوشی سے وہ جھوم اُٹھا کیسا ہے۔۔۔؟ کس پر گیا ہے۔۔۔؟ میرا پوتا کیسا ہے۔۔۔؟ فرطِ جذبات سے الفاظ بے ترتیب ہوکر اُس کی زبان سے پھل رہے تھے۔ ابو جان۔۔۔! بالکل آپ پر گیا ہے۔ ناک تو بالکل آپ کی ناک کی طرح ہے۔ بیٹے۔۔۔! واپس آجاؤ۔ اُسے اپنی آواز گہری کھائی سے آتی ہوئی محسوس ہوئی، کیونکہ اُسے جواب کا علم تھا۔ ابو! ابھی تو تین چار سال تک بالکل بھی ممکن نہیں ہے۔ کاروباری مصروفیات ہی اتنی زیادہ ہیں۔ آپ یاسر بھائی کو بلوا لیجئے۔ اچھا ابو۔۔۔! رحیمو کو ریسیور دیجئے۔ اگلے دو تین منٹ تک وہ رحیمو کو اُس کا خیال رکھنے کی ہدایات دیتا رہا اور پھر رحیمو کارڈ لیس لئے اُس کی جانب بے چارگی سے دیکھتا ہوا اندر کی جانب چل دیا۔ اُسے اپنے گالوں پر کوئی گرم سی چیز بہتی ہوئی محسوس ہوئی۔ ہاتھ لگا کر دیکھا تو اُسے پتہ چلا کہ وہ رو رہا ہے۔ اُس نے فوراً اپنے ہاتھ اپنے چہرے پر پھیرے تاکہ آنکھوں کے راستے بہنے والا یہ دکھ کوئی دوسرا نہ دیکھ لے اور اس پر ترس نہ کھائے۔ کیوں وہ کمزور تو نہیں تھا۔ ہاں شاید وہ کمزور نہیں تھا۔۔۔ بالکل بھی نہیں۔۔۔

*۔۔۔*۔۔۔*

وہ بار ماضی کے جھروکوں میں جھانکنے پر مجبور تھا۔ کیونکہ اُس کے پاس یہی ایک راستہ تھا، اپنے آپ کو مصروف رکھنے کا۔۔۔ وقت گزارنے کا۔۔۔ انہی یادوں کے سہاروں تو وہ زندہ تھا۔ شاید یہی یادیں اُس کا سرمایۂ حیات تھیں۔
نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ یاسر باہر نہیں جائے گا۔ ان دونوں بچوں کے علاوہ ہمارا کون ہے۔ ہم یہاں کیا کریں گے ان کے بغیر۔ ان کی ماں اپنے اور اس کے بچوں کی ترقی کی راہ میں دیوار بن رہی تھی۔ لیکن اُسے معلوم تھا کہ یہ دیوار ریت کی دیوار ہے جو ہوا کے ایک ہی تیز جھونکے سے گر جائے گی اور بالآخر یہ دیوار گرگئی۔ اُس کی تاویلوں اور دلیلوں کے آگے وہ بے چاری ان پڑھ عورت کیا کرسکتی تھی۔ کلیجے پر پتھر رکھ کر مان ہی گئی۔ اُس نے اُسے اچھی زندگی، آسائشوں، عیش و آرام، گاڑی، بنگلے اور دولت کے حسین سپنے جو دکھائے تھے اور ان خوابوں کی تعبیر اسی صورت میں ممکن تھی جب اس کے دونوں بیٹے باہر جاکر کماتے۔ وہ بے چاری تو شاید بند آنکھوں سے خواب چنتی تھی۔ لیکن وہ۔۔۔ وہ تو کھلی آنکھوں سے بھی خواب دیکھنے لگا تھا۔ بڑا بیٹا باہر چلا گیا اور نوٹ چھاپنے کی مشین بن گیا۔ وہ بڑے فخر سے کہتا ’’دیکھو نیک بخت!۔۔۔ یہاں رہتے ہوئے یہ سب ممکن تھا۔ ہمارا بیٹا اتنا کما سکتا تھا؟‘‘ اور وہ بے چاری ہولے سے مسکرا دیتی۔ اُس کی مسکراہٹ میں بعض اوقات ایک عجیب طرح کی بے چارگی ہوگی۔۔۔ عجیب سی اُداسی۔۔۔ پانچ سال کے اندر اندر وہ کچی آبادی کے 80 گز کے مکان سے 500 گز کے بنگلے میں شفٹ ہوگئے۔ چھٹے سال دوسرے بھائی کو بھی بڑے بیٹے نے اپنے پاس بلالیا اور۔۔۔ اور دونوں میاں بیوی اتنے بڑے گھر میں اِدھر سے اُدھر پھر کر اپنی اولاد کی کمائی پر رشک کیا کرتے۔ وہی رشتے دار جو غریبی کے دنوں میں ان کو گھاس تک ڈالنا گوارا نہ کرتے تھے، اب بڑے فخر سے لوگوں کے سامنے اپنے رشتے دار کی حیثیت سے ان کا تعارف کرواتے۔ اُس کے قدم زمین پر نہ ٹکتے تھے کہ اب سب ہمارے سامنے جھکتے ہیں۔ لیکن۔۔۔ رفتہ رفتہ اُس کا یہ جوش ٹھنڈا پڑنے لگا۔ اُسے لگتا کہ کچھ کمی ہے۔۔۔ ماں کی نظریں یا تو دروازے پر ٹنگی ہوتیں یا کان ٹیلی فون کی گھنٹی کی جانب لگے رہتے۔ وہ عورت تھی۔۔۔ کمزور تھی۔۔۔ ماں تھی۔۔۔ مجبور تھی۔ اُس کی آنکھوں کے بند بار بار ٹوٹ جاتے اور ان سے پانی رستا رہتا۔ وہ بولائی بولائی اِدھر سے اُدھر پھرتی رہتی۔ اُس کی یہ حالت اُسے اپنی ہی نظروں میں مجرم بنا رہی تھی۔ اُس کا بھی دل چاہتا کہ اُس کے ساتھ مل کر روئے۔ اپنی تنہائی پر۔۔۔ اپنی بے بسی پر۔۔۔ اپنی ہوس پر۔۔۔ مگر بار بار اُس کی انا آڑے آجاتی کہ اُس نے کوئی غلط فیصلہ نہیں کیا ہے۔ بچوں کا مستقبل بنانے کے لئے یہ ضروری تھا۔ وہ اپنے آپ کو تسلیاں دیتا۔۔۔ اور۔۔۔ اور پھر وہ ڈوب گئی۔ اپنے ہی آنسوؤں میں۔۔۔ ہمیشہ کے لئے۔ اور وہ تنہا رہ گیا۔ بیٹوں نے فون کئے، تعزیت کی، نہ آسکنے کی مجبوریاں بیان کیں اور وہ مان گیا ہمیشہ کی طرح۔
آہ۔۔۔! دس سال گزر گئے۔۔۔ کب تک انتظار کروں۔۔۔؟ کب تک۔۔۔؟ وہ چیخنے لگا۔ صاحب جی۔۔۔! آپ رو رہے ہیں۔۔۔؟ نہیں نہیں میں رو تو نہیں رہا۔ اُس نے جلدی جلدی آنکھوں کو مسلا۔ رحیمو اُس کے لئے نیند کی گولیاں لایا تھا، اُس نے دوائیں اور پانی کا گلاس لے کر ٹیبل پر رکھا۔ صاحب جی! یہ ارشد صاحب دے گئے تھے۔ منی آرڈر کا لفافہ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے اُس نے کہا اور لفافہ اس کے ہاتھ میں تھما کر وہ باہر چلاگیا۔ اُس نے لفافہ اُٹھایا اور وارڈروب کے اُس خانے میں رکھ دیا جہاں پہلے ہی کئی لفافے کھلنے کے انتظار میں پڑے ہوئے تھے۔ اُس نے نیند کی گولیاں کھائیں اور پانی پی کر بستر پر لیٹ گیا۔ آخر اگلے دن پھر جو اُٹھنا تھا۔۔۔ انتظار کے لئے۔۔۔ تنہائی سے دوستی کے لئے اور۔۔۔ اور پھر نیند کی گولیاں کھا کر سوجانے کے لئے۔۔۔ لیکن کب تے۔۔۔؟ آخر کب تک۔۔۔؟۔۔۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top