اجی ،لشتم پشتم واہ واہ
سعید لخت
۔۔۔۔۔۔۔۔
جب ہم ساتویں جماعت میں فرسٹ ڈویژن پاس ہوئے تو صاحب بس پوچھو مت۔دنیا بھر کی خوشیاں ہمارے گھر میں سمٹ آئیں۔ابا جان اپنی گھنی مونچھوں میں ہونٹوں پر پھیلتی ہوئی مسکراہٹ چھپانے کی لاکھ کوشش کرتے مگر موتیوں جیسے صاف اور چمک دار دانت تھے کہ نکلے پڑتے تھے۔امی جان کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہ تھا۔ایک تو تھیں ہی سرخ سفید کہ ہاتھ لگائے میلی ہوں۔اس پر خوشی کی لالی۔بس چہرے پر شفق پھوٹی پڑتی تھی۔
ہم سب دالان میں بیٹھے تھے۔امی،ابا،ہم اورہماری خالہ زاد بہن سیما۔شرارت میں ہم سیر تو وہ خیر سے سوا سیر۔بوا کریمن نے چلم بھر کر حقے پر رکھ دی۔ابا جان نے پہلا کش ہی لگایا تھا کہ امی ہاتھ سے ناک دبا کر بولیں’’توبہ!ناک سڑا دی تم نے تو۔یہ موا حقہ کبھی پیچھا بھی چھوڑے گا؟ہر وقت گڑ گڑ گڑ گڑ۔دن بھر کھو ں کھو ں کھوں کھوں۔بڑوں ہی کی دیکھا دیکھی بچے بری عادتیں سیکھتے ہیں۔میرا بس چلے تو ان موئے حقوں کا حقہ پانی بند کر دوں۔۔۔۔۔ہاں تو۔۔۔۔میں کہہ رہی تھی کہ بیٹا خیر سے امتحان میں پاس ہوا ہے، نہ کوئی مٹھائی نہ خوشی۔دنیا سنے گی تو کیا کہے گی؟‘‘
ابا جان بولے’’آج کوئی نرالا تھوڑی پاس ہوا ہے ۔پہلے بھی تو پاس ہی ہوتا رہا ہے ماشاء اللہ۔‘‘
امی ہاتھ ہلا کر بولیں’’ پاس تو ہوتا رہا ہے مگرپھٹ ڈیزن کبھی پاس نہیں ہوا۔۔۔۔‘‘
پھٹ ڈیزن سن کر ہماری توہنسی نکل گئی سیما نے منہ میں ڈوپٹا ٹھونس لیااور ابا جان مسکرا کر بولے پھٹ ڈیزن نہیں ،خدا کی بندی فسٹ ڈویژن ۔‘‘
امی بولیں’’اے وہ پٹ ہو کہ فٹ۔میں نے کون سامڈل پاس کیا ہے۔مجھے کیا پتا کہ موا پھٹ ہوتا ہے کہ فٹ۔‘‘
ابا جان بولے’’مڈل پاس کیا ہوتا توآج یہ بچے کاہے کو ہنستے؟آج ہی انگریزی کی پہلی کتاب منگوا لوسعید سے دو حرف روز پڑھ لیا کرنا۔‘‘
امی ہنس کر بولیں’’اے خاک ڈالو۔اب بڑھاپے میں گٹ پٹ کرنے بیٹھوں گی۔ہاں تو،میں کہہ رہی تھی کہ خدا نے یہ خوشی کا موقع دیا ہے ۔کوئی چھوٹی موٹی دعوت کر ہی ڈالو۔اسی بہانے چار پیارے عزیز ہی اکٹھے ہو جائیں گے۔‘‘
اباجان بولے’’اچھا بھئی،اچھا۔کل شام سب کو بلا لو ۔کھانے کے بعد قوالی بھی ہو گی۔جھنڈے خاں اور منڈے خاں قوالوں کو بلا لیں گے۔‘‘
ہم تالیاں بجا کر بولے’’آہاہاہاہا۔‘‘سیما خوشی سے ناچنے لگی۔
امی بولیں’’تو میں کریمن کے ہاتھ سب کو بلاوابھیجے دیتی ہوں۔‘‘
برسات کے دن تھے مگر آسمان بالکل صاف تھا۔کمرے چھوٹے چھوٹے سے تھے،اس لیے صحن میں شامیانے لگا دیے گئے تھے۔کھانے کے بعد تمام لوگ قرینے سے بیٹھ گئے تو جھنڈے خاں منڈے خاں نے ہارمونیم اور طبلے نکالے۔ہمیں کہیں اور جگہ نہ ملی تو ہم نے کونے میں نارنگی کے پیڑ تلے ڈیرا لگا دیا۔ہمارا لنگوٹیا یار سرمد بھی ہمارے ساتھ تھا ۔اس جگہ بالکل اندھیرا تھا۔ہم تو سب کو دیکھ سکتے تھے مگر ہمیں کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا ،یہاں سے قوالوں تک کا فاصلہ مشکل سے آٹھ دس گز ہو گا۔
ایک تو جھنڈے خاں منڈے خاں کی صورت ہی منحوس تھی ،دوسرے انہوں نے جو گانا شروع کیا وہ فارسی کا تھا۔ہمارے خاک بھی پلے نہ پڑا۔پھر مصیبت یہ کہ ایک ایک شعر کو دس دس بار کہتے۔شور زیادہ مچاتے اور گاتے کم۔
ان میں ایک بڈھا طبلچی بھی تھا۔اس نے اتنی زور سے طبلے پر ہاتھ مارا کہ ہم اچھل پڑے۔جھنڈے خاں کانوں پر ہاتھ رکھ کر زور سے چیخے’’اجی لشتم کے پشتم۔‘‘
منڈے خاں جھوم کر دھاڑے’’اجی واہ وا۔‘‘
جھنڈے خاں پھر زور سے ڈکرائے’’اجی لشتم کے پشتم۔‘‘
اور تمام قوال کانوں پر ہاتھ رکھ کر بولے؛’’اجی واہ وا۔‘‘
غرض آدھ گھنٹے تک وہ یہی لشتم پشتم کرتے رہے۔ہم تنگ آکر بولے’’یار سرمد،یہ تو سخت نا معقول قوال ہیں۔‘‘
سرمد منہ چلاتے ہوئے بولا’’میرا بس چلے تو ان کے حلق میں کپڑا ٹھونس دوں۔‘‘
ہم نے پوچھا’’یہ تو کیا کھا رہا ہے؟‘‘
بولا ’’الائچی دانے‘‘اور یہ کہہ کر اس نے تھوڑے سے ہمیں بھی دے دیئے۔ چھوٹے چھوٹے سے تھے۔گول گول۔
یکایک ہمیں شرارت سوجھی۔بڑی انوکھی اور دلچسپ۔دل مارے خوشی کے دھک دھک کرنے لگا
۔ہم نے ایک الائچی دانہ انگلی کے ناخون پر رکھا اور اسے انگوٹھے سے دبا لیا ۔جوں ہی ایک قوال نے آآآآکر کے منہ پھاڑا ۔۔۔ہم نے الائچی دانہ پوری قوت سے اس کی طرف پھینکا۔الائچی دانہ انگلیوں میں سے ایسا نکلا جیسے کمان سے تیر اور سیدھا اس قوال کے حلق میں گھس گیا ۔وہ خپ خپ خپ خپ کرتا ہوا گھبرا کر اٹھ بیٹھا ۔جھنڈے خاں نے اسے گھور کر دیکھا ۔پھر آنکھیں میچ کر،حلق پھاڑ کر زور سے تان اڑائی’’آآآآ۔
ہم نے دوسرا الائچی دانہ انگلی پر رکھا اور جب جھنڈے خاں نے آآآآکرتے ہوئے ہماری طرف منہ کیا تو ہم نے ایک دم انگلی چھوڑ دی۔نشانے کے ہم پکے تھے ۔الائچی دانہ سن سے انگلیوں میں سے نکلا اور جھنڈے خاں کے منہ میں گھس گیا ۔وہ بھی خپ خپ کرنے لگا۔
انہیں دیکھ کر طبلے والے بڈھے نے گلا صاف کیا اور لگا منہ پھاڑنے۔ہم نے تیسرا الائچی دانہ انگلی پر رکھااور انگوٹھے سے دبا کر اسے چھوڑنا چاہتے ہی تھے کہ ایک دم پیچھے سے کسی نے ہاتھ پکڑ لیا۔پلٹ کر دیکھا تو سیما تھی۔
’’س س سیما۔ت ت تم!‘‘ہماری زبان لڑکھڑاگئی اور خون رگوں میں دوڑتے دوڑتے ایک دم رک گیا۔آہستہ سے بولی’’ذرا ادھر تشریف لائیے ۔اٹھیے۔جلدی کیجئے ۔‘‘
وہ آگے آگے اور ہم پیچھے پیچھے۔صحن پار کر کے کمرے میں پہنچے تو دھیرے سے بولی’’تو یہ آپ تھے۔کیوں؟اگر میں خالو جان سے کہہ دوں تو؟‘‘
ہم گھبرا کر بولے’’تو سیما بہن یہ جو چند بال تمہیں میری کھوپڑی پر نظر آرہے ہیں انہیں ابّا جان کا جوتا اس طرح دھن کر رکھ دے گا جس طرح خیر دین دھنیے نے دادی اماں کے پرانے لحا ف کی روئی دھن کر رکھ دی تھی۔تمہیں یاد ہے،سیما ب ب ب بہن؟‘‘
سیما مسکرا کر بولی’ہاں،یاد ہے۔مگر بہت دنوں کے بعد آج بدلہ لینے کا موقع ملا ہے۔گِنِ گن کے بدلے لوں گی۔‘‘
ہم آنکھوں میں آنسوں بھر کر بولے’’سیما بہن،معاف کر دو۔خدا آپ کو معاف کر دے گا۔اللہ میاں نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی کاایک عیب چھپاتا ہے اللہ اس کے ستر عیب چھپاتا ہے۔‘‘
بولی’’ہم تمہاری طرح چغل خور نہیں۔ہم تمہیں معاف کرتے ہیں۔مگر ایک شرط پر۔۔۔۔۔وعدہ کرو ہمیں روز املیاں لا کر دو گے۔خوب کھٹی کھٹی۔‘‘
ہم نے ہاتھ جوڑ کر کہا ’’میں وعدہ کرتا ہوں سیما بہن۔روز آپ کو املیاں لا کر دیا کروں گا ۔آپ کے حساب کے سوال بھی کر دیا کروں گا ۔عید بقر عیدپر پیسے ملیں گے وہ بھی آپ کو دے دیا کروں گا ۔اور سیما بہن۔۔۔جب میں بڑا ہو جاؤ گا تو راوی کے کنارے آپ کے لیے ایک شان دار محل بنواؤں گا اور اس میں کھٹی املیوں کا ایک عالی شان باغ لگواؤ گا۔ہر درخت کے نیچے آم کے اچار کے مٹکے رکھے ہو ں گے۔‘‘
سیما کے منہ میں پانی بھر آیااور وہ ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگی۔
ہم بولے’’تو اب میں جاؤں سیما،بہن،پیاری بہن،ننھی بہن ؟‘‘
بولی’’ذرا ٹھہریئے ۔تھوڑی سی سزا آپ کو ملنی ہی چاہیے ۔بس ذرا سی۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے سیدھا ہاتھ ٹھوڑی کے نیچے رکھا،سیدھے ہاتھ کی کہنی تلے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی رکھی اور اس طرح جھومی جیسے کچھ سوچ رہی ہو ۔پھر ایک دم ڈانٹ کر بولی’’کان پکڑو…….!‘‘
ہم نے جھٹ کان پکڑ لیے ۔کیا کرتے۔
بولی’’مرغا بنو۔۔۔۔۔!‘‘ہم فورا مرغا بن گئے ۔
بولی ’’ناک سے زمین پر لکیر کھینچو ۔لمبی سی۔‘‘
ہم ایک دم سجدے میں گر پڑے اور ناک سے ایک گز لمبی لکیر زمیں پر کھینچ دی۔
بولی’’ٹھیک ہے۔بس اب جاؤ ۔‘‘
کیسی قوالی اور کہاں کا گانا۔جلدی سے کمرے میں گھسے اور چٹخنی لگا کر سو گئے۔
صبح اتوار تھی۔خوب گھوڑے بیچ کر سوئے۔آنکھ کھلی تو دھوپ پھیل چکی تھی۔دو تین انگڑائیاں لیں، سلیپر پہنے اور غسل خانے کی طرف چلے۔راستے میں ابا جان کا کمرہ تھا۔جب ہم کمرے کے پاس سے گزرے تو اندر سے آواز آئی ’’سعید صاحب ۔۔۔۔۔!‘‘
ایسا معلوم ہوا جیسے زمین نے پیڑ پکڑ لیے ہوں ۔قدم نہ آگے اٹھتے تھے نہ پیچھے۔اتنے میں پھر آواز آئی
’’سعیدصاحب سنا نہیں آپ نے؟‘‘
ہم نے ہونٹوں پر زبان پھیری اور بڑی مشکل سے اٹک اٹک کر بولے ’’اب اب اب ابا جان ، آپ نے مجھے بلایا؟‘‘
آوازآئی ’’جی ہاں ۔میں نے ہی آپ کو بلایا ہے۔ذرا اندر تشریف لائیے۔‘‘
ڈرتے ڈرتے ،لرزتے ،کانپتے اندر گئے ۔ابا جان کے چہرے کے سامنے اخبار تھا۔انھوں نے اخبار کا ورق الٹا اور بولے ’’یہ رات آپ نے کیا حرکت کی تھی ،میاں صاحب زادے؟‘‘
ہمارا یہ حال کہ کاٹو تو لہو نہیں بدن میں ۔سوچتے تھے کہ زمین پھٹ جائے اور اس میں سما جائیں۔چُپ چاپ سر جھکائے کھڑے رہے۔
ابا جان نے اخبار میز پر رکھ دیا اور عینک ماتھے پر کر کے بولے’’بیٹا ، تم نے سمجھا کہ تم جو کچھ کر رہے ہو وہ مذاق ہے۔مگر نا سمجھی میں تم یہ نہ سمجھ سکے کہ بعض مذاق بہت خطرناک ہوتے ہیں ۔فرض کرو ، تمہارا الائچی دانہ منہ میں جانے کے بجائے قوال کی آنکھ میں لگ جا تا تو اس کی آنکھ پھوٹ جاتی ۔تمہارا تو مذاق ہو جاتا اور اس غریب کو ہمیشہ کیلئے اپنی آنکھ سے ہاتھ دھونا پڑتے۔‘‘
اتنا کہہ کر وہ آگے کو جھکے اور ایک ایک لفظ تول تول کر بولے’’بیٹا ،جو بچہ شرارت نہ کرے وہ بچہ نہیں ہوتا ،فرشتہ یا ولی اللہ ہوتا ہے۔مگر۔۔۔۔۔۔ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے ۔ایسی شرارت جس سے دوسروں کو نقصان پہنچے یا ان کا دل دکھے شرارت نہیں شیطانی ہے۔ اور شیطانی کرنا شیطان کا کام ہے ،انسان کا نہیں ۔۔۔۔۔‘‘
ہم شرمندہ ہو کر بولے۔’’ابا جان ،اصل میں شیطان نے مجھے بہکا دیا تھا۔‘‘
بولے’’ہاں ہاں ۔ہم بھی یہی سمجھے تھے ۔بھلایہ کبھی ہو سکتا ہے کہ تم جیسا سجھ دا ر اور عقل مند بچہ ایسی نا سمجھی کی باتیں کرے۔ہمیں امید ہے کہ آئندہ تم ایسی بری حرکت نہیں کرو گے۔‘‘
ہم جلدی سے بولے میں وعدہ کرتا ہوں ،اباجان۔‘‘
خوش ہو کر بولے’’شاباش!جیتے رہو۔اب جاؤ ،جا کر نہاؤ ،ناشتا کرو ۔پھر ہمارے پاس آنا ۔کیرم کھیلیں گے ،سیما کو بھی لیتے آنا۔‘‘
ہم منہ لٹکائے باہر نکلے ۔دالان میں سیما دوپٹا منہ میں ٹھونسے ہنس رہی تھی ۔ہمارے تن بدن میں آگ سی لگ گئی ۔مٹھیاں بھینچ کر اور دانت پیس کر آگے بڑھے تو بولی ’’خالوجان !دیکھئے دیکھئے ۔۔۔۔۔۔۔!‘‘