عجیب مہمان
اشتیاق احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہمان کے آنے کی اطلاع ہمیں اباجان نے دی تھی۔ہم اسکول سے آئے تو انہوں نے بتایا کہ آج رات ٹھیک آٹھ بجے ہمارے ہاں ایک مہمان آنے والے ہیں۔اس کے علاوہ انہوں نے ہمیں کوئی بات نہ بتائی کہ وہ کو ن ہیں، ہمارے کیا لگتے ہیں،کہاں سے آئیں گے اور کیوں آئیں گے۔
ہم نے یہ باتیں ان سے پوچھیں بھی،لیکن انہوں نے اور کچھ نہ بتایا۔ہم نے امی جان کو کریدا تو انہوں نے بتایا کہ وہ بھی اتنا ہی کچھ جانتی ہیں جتنا کہ ہم۔اس کا مطلب یہ تھا کہ مہمان امی جان کے لیے بھی اجنبی ہی تھا۔اب تو ہم بے چینی سے ان کا انتظار کرنے لگے اور سوچنے لگے کہ آخر اس رازداری کی کیا ضرورت ہے۔اباجان مہمان کے بارے میں سب کچھ بتا کیوں نہیں دیتے۔
ٹھیک آٹھ بجے دروازے کی گھنٹی بجی۔اباجان مہمان کو لینے بھی نہیں گئے تھے۔جب ہم نے ان سے کہا کہ کیا آپ مہمان کو لینے نہیں جائیں گے تو انہوں نے کہا،اس کی ضرورت نہیں، وہ خود بخود پہنچ جائیں گے۔گھنٹی کی آواز سنتے ہی ہم نے ٹائم پیس کی طرف دیکھا اور سمجھ گئے کہ مہمان آگئے ہیں۔اباجان دروازہ کھولنے جا چکے تھے۔ہم صحن میں بیٹھے تھے اور نظریں دروازے پر لگی تھیں۔آخر مہمان اباجان کے ساتھ اندر داخل ہوئے۔وہ ایک نوجون آدمی تھی۔شلوار قمیص پہنے ہوئے تھے۔ہاتھ میں ایک چھوٹا سا بیگ تھا۔ان کی آنکھوں میں بہت تیز چمک تھی۔ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ ناچ رہی تھی۔سیدھے ہماری طرف آئے۔ہم جلدی سے اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔
”السلام علیکم!“انہوں نے ہم سے کہا۔
”وعلیکم السلام!“ہم نے ان کے سلام کا جواب دیا اوران کے بیٹھنے کے بعد ہم بھی بیٹھ گئے۔
ملازم نے جلدی جلدی کھانا لگایا۔کھانے سے پہلے مہمان نے کہا:
”بچو!تم سوچ رہے ہوگے کہ میں کون ہوں۔اگر میں یہ بتا دوں کہ میں کون ہوں تو تم اچھل پڑوگے،لیکن میں ایسا نہیں کروں گا۔ہاں!اگر تم یہ بتا دو کہ میں کون ہوں تو میں تمہیں ایک سو روپے انعام دوں گا۔“
بات بہت عجیب تھی۔بھلا ہم یہ کیسے بتا سکتے تھے کہ وہ کون ہیں جب کہ امی جان تک کو ان کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا۔اگر کچھ جانتے تھے تو صرف ابا جان اور وہ ہمیں کچھ بتانے کے لیے تیار نہیں تھے۔آخر میں نے کہا:
”چچا جان!بھلا ہم یہ بات کیسے بتا سکتے ہیں۔ہم کوئی نجومی تو ہیں نہیں۔“
”نجومی تو نہیں ہو،لیکن خدا نے تمہیں عقل تو دی ہے۔اس عقل سے کام لے کر معلوم کرو کہ میں کون ہوں اور سو روپے انعام حاصل کرلو۔“
”چچا جان!کیا یہ بات ہمیں ابھی اور اسی وقت بتانی ہوگی۔“اخلاق نے کہا۔
”نہیں بھئی،میں تمہیں ایک ہفتے کی مہلت دیتا ہوں۔اگر ایک ہفتے تک تم اس مسئلے کو حل نہ کر سکے تو تمہاری ہار کا اعلان کردیا جائے گا۔“ مہمان نے کہا۔
”میراخیال ہے کہ میں بھی بچوں کے ساتھ شامل ہوجاتی ہوں،کیونکہ مجھے بھی آپ کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے۔“امی نے نئی بات کہی۔
”مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔آپ خوشی سے ان کے ساتھ مل کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کرسکتی ہیں کہ میں کون ہوں؟“
امی جان سمیت ہماری تعداد پانچ ہوچکی تھی۔ ہماری اس ٹیم میں ان کے شامل ہونے سے ہمیں خوشی بھی ہوئی اور حوصلہ بھی۔امی جان مہمان سے پوچھ رہی تھیں:
”بھائی جان ! کیا ہم آپ کے کمرے اور سامان کو بھی دیکھ سکتے ہیں،تاکہ آپ کے بارے میں کچھ جاننے میں مدد مل سکے۔“
”ہاں ہاں ضرور ۔آپ لوگ بڑی خوشی سے میری ہر چیز کا جائزہ لے سکتے ہیں،مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا، میں اپنا کمرہ اور اپنا بیگ وغیرہ بھی کھلا رکھا کروں گا تاکہ آپ جس وقت چاہیں،دیکھ سکیں۔“
”بس ٹھیک ہے۔اب ہمیں امید ہے کہ ہم بہت جلد آپ کے بارے میں سب کچھ جان جائیں گے۔“میں نے کہا۔
اس کے بعد ہم پانچوں ڈرائنگ روم میں جمع ہو ئے۔مہمان اور ابا جان سونے کے لیے جا چکے تھے،لیکن ہم سونے سے پہلے کچھ مشورہ کرنا چاہتے تھے۔سب کے بیٹھنے کے بعد امی جان بولیں:
”کسی بھی کام کو کرنے کے لیے اسے کرنے کا طریقہ معلوم ہونا چاہیے۔اگرچہ ہم میں سے کسی نے بھی آج سے پہلے اس قسم کا کام نہیں کیا، پھر بھی اگر ہم آپس میں مشورہ کرکے یہ کام شروع کریں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ اسے نہ کر سکیں۔“
”آپ نے بالکل ٹھیک کہا امی جان!ہم آپ کی ہدایات کے مطابق کام کریں گے۔اب بتائیے،ہم یہ کام کس طرح شروع کریں۔“ آفتاب نے کہا۔
”ہمارے پاس کافی وقت ہے۔اس لیے آج سب لوگ آرام کریں۔ہم کل سے یہ کام شروع کریں گے۔مہمان جب ناشتا کرنے کے لیے ناشتے کی میز پر چلے جائیں گے تو ہم ان کے کمرے میں داخل ہو جائیں گے اور ان کی چیزوں کو دیکھیں گے۔“امی جان نے کہا۔
”یہ تو ٹھیک ہے،لیکن جب تک ہم ناشتے کی میز پر نہ پہنچ جائیں گے،مہمان اور ابا جان ناشتا شروع نہیں کرسکیںگے۔“
”تو پھر میں یہ کام اشفاق کے سپرد کرتی ہوں۔ہم سب ناشتے کی میز پر موجود رہیں گے اور اشفاق مہمان کے کمرے میں جاسوسی کے فرائض انجام دے گا۔“
”یہ ترکیب بالکل ٹھیک رہے گی۔“ہم سب نے ایک ساتھ کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرے دن پروگرام کے مطابق اشفاق ناشتے کی میز سے غائب تھا۔ہم سمجھ گئے کہ وہ مہمان کے کمرے میں جا چکا ہے۔مہمان اس وقت میز پر موجود تھے۔چائے پیتے ہوئے انہوں نے کہا:
”کیوں بھئی! کیا تم لوگوں نے میرے بارے میں کچھ معلوم کرنے کی کوشش شروع کردی ہے۔“
”جی ہاں!ہم یہ کام شروع کر چکے ہیں اور امی جان ہمارا ساتھ دے رہی ہیں۔“میں نے کہا۔
”بہت خوب!دیکھنا یہ ہے کہ تم لوگ کتنے پانی میں ہو۔دراصل یہ پروگرام اس لیے بنایا گیا ہے کہ تمہارے اباجان نے اپنے خطوں میں تمہاری ذہانت کی کئی بار بہت تعریف کی ہے۔میں نے بھی اپنے خطوں میں یہ ذکر کیا کہ یہ آپ کو میرے بارے میں کچھ نہ بتائیں اور میں یہاں آنے کے بعد ان کا امتحان لوںگا۔“
”چچا جان!کیا اس سلسلے میں ہم آپ سے کچھ سوال کر سکتے ہیں؟“اخلاق نے پوچھا۔
”ہاں ہاں ۔۔۔۔کیوں نہیں۔“
”تو پھر میرا پہلا سوال یہ ہے کہ کیا آپ کا یہاں آنے کا پہلے ہی سے پروگرام تھا،یا آپ یہاں صرف ہماری ذہانت کا امتحان لینے آئے ہیں۔“میں نے پوچھا۔
”نہیں،یہاں آنے کا پروگرام تو بہت پہلے سے تھا۔“
”کیا آپ پہلے بھی کبھی اس گھر میں آ چکے ہیں؟“ آفتاب نے پوچھا۔
”ہاں!“انہوں نے جواب دیا۔
”یہ کب کی بات ہے؟“امی جان نے سوال کیا۔
”آج سے کوئی پندرہ سال پہلے۔“
”اوہ!یہ تو ہماری پیدا ئش سے بھی پہلے کی بات ہے۔“میں نے چونک کر کہا۔
”ہاں! بلکہ یوں کہہ لیں کہ آپ کے ابا جان اور امی جان کی اس وقت شادی بھی نہیں ہوئی تھی۔“
”اس سے ایک بات ثابت ہوتی ہے کہ ابا جان سے آپ کے تعلقات بہت پرانے ہیں۔“اخلاق بولا۔
”ہاں!یہ ٹھیک ہے۔“مہمان بولے۔
”آپ کس شہر سے آئے ہیں؟“میں نے پوچھا۔
”افسوس!میں آپ لوگوں کو یہ بات نہیں بتا سکتا۔“
”چلئے،خیر کوئی بات نہیں۔آپ اتنا بتا دیں کہ کیا کام کرتے ہیں۔“اخلاق نے پوچھا۔
”یہ بھی نہیں بتایا جا سکتا۔“وہ مسکرائے۔
آخر ہم نے سوالات کا سلسلہ بند کردیا۔سب ناشتا کر چکے تھے،اس لیے اٹھ کھڑے ہوئے ۔ہم پروگرام کے مطابق ڈرائنگ روم میں آئے، کیونکہ اشفاق کو ڈرائنگ روم میں ہی آنا تھا۔جب ہم ڈرائنگ روم میں آئے تواشفاق وہاں پہلے سے ہی موجود تھا اور کسی گہری سوچ میں گم بیٹھا تھا۔
۔۔۔۔۔
”معلوم ہوتا ہے کوئی تیر مارکر آئے ہو۔“امی جان بولیں۔
”نہیں تو امی جان! مجھے تو تیر چلانا آتا ہی نہیں۔“اشفاق نے معصومیت سے کہا اور سب کو ہنسی آگئی۔
”مذاق چھوڑو اور یہ بتاﺅ کہ کیا معلوم ہوا ہے۔“اخلاق نے کہا۔
”اگر سب لوگ مجھے بڑا جاسوس ماننے کا وعدہ کریں تو میں کچھ بہت ہی کام کی باتیں بتا سکتا ہوں۔“اشفاق نے کہا۔
”اور اگر ہم یہ وعدہ نہ کریں تو تم ہمیں کچھ نہیں بتاﺅ گے؟“
”نہیں۔۔۔بتاﺅں گا تو میں پھر بھی،کیونکہ اس کے بغیر ہم اس کام کو مکمل نہیں کر سکیں گے۔“اشفاق نے کہا اور ایک بار پھر سب ہنسنے لگے۔
”چلو بتاﺅ۔وقت ضائع نہ کرو۔“
”تو سنیے۔میں مہمان کے کمرے میں داخل ہوا۔پورے کمرے پر ایک نظر ڈالنے پر مجھے کوئی خاص بات نظر نہ آئی۔ میں نے ایک ایک چیز کا تفصیل سے معائنہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔سب سے پہلے میں نے آتش دان سے ان کا کنگھا اٹھا کر دیکھا۔“
”بے وقوف ہو تم۔بھلا کنگھے سے کیا بات معلوم ہو سکتی ہے۔“مجھے ایک دم غصہ آگیا۔
”بھئی پہلے سن تو لو، یا پھر تم خود یہ بتا دو کہ کس چیز سے کوئی بات معلوم ہونے کی امید ہے۔“امی نے نرمی سے کہا۔پھر اشفاق سے بولیں:”ہاں!تم اپنی بات جاری رکھو۔“
”جی،بہت اچھا۔ہاں تو میں نے کنگھے کو غور سے دیکھا۔اس میں کچھ بال الجھے ہوئے تھے۔وہ جاپان کا بنا ہوا تھا۔۔۔۔“
”اس لیے تم نے سوچا کہ مہمان جاپان سے آئے ہیں۔“آفتاب نے مذاق اڑانے کے انداز میں کہا،اشفاق نے اس کی بات کاٹ کر کہا:
”اگر تم آرام سے نہیں سنو گے تو میں آگے ایک لفظ نہیں بتاﺅں گا۔جاﺅ جاکر خود جاسوسی کرلو۔“اشفاق نے جل کر کہا۔
”بری بات ہے آفتاب۔بات پوری سن لو،پھر اپنی کہنا۔“امی جان نے آفتاب کو پیار سے ڈانٹا۔
”بہت بہتر امی جان۔“آفتاب نے کہا اور اشفاق نے پھر کہنا شروع کردیا۔
”میں نے کنگھا واپس رکھ دیا اور مہمان کی پتلون جو ان کے سرہانے لٹک رہی تھی،اتارلی۔اس کی جیبوں کی تلاشی لی تو اس میں سے ایک بٹوہ نکلا۔اس بٹوے میں سوسو کے نوٹ بھرے تھے اور۔۔۔“
”تم نے کوئی نوٹ نکالا تو نہیں؟“اخلاق نے جلدی سے کہا۔
”میں اتنا بے ایمان نہیں ہوں۔“اشفاق نے تلملا کر کہا۔
”چلو ٹھیک ہے آگے بتاﺅ۔“
”اس بٹوے میں نوٹوں کے علاوہ ایک تصویر بھی تھی۔“
”اور وہ تصویر مہمان کی ہوگی۔“امی جان بولیں۔
”جی نہیں۔اس تصویر پر دو بچے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے کھڑے ہیں۔ہوسکتا ہے کہ یہ مہمان کے بچپن کی تصویر ہو۔اور ان کے ساتھ ان کا کوئی دوست یا بھائی کھڑا ہو۔“
”ہوں۔بات تو ٹھیک ہے۔کیا تم وہ تصویر لے آئے ہو؟“میں نے پوچھا۔
”جی ہاں! تصویر ہمیں مدد دے سکتی ہے۔اس لیے میں یہ لے آیا ہوں۔“اشفاق بولا۔
”تم نے بہت اچھا کیا۔اب جلدی سے اس تصویر کو نکالو، تاکہ ہم سب دیکھ لیں۔“
”یہ لیجیے۔“
اشفاق نے اپنے بٹوے سے تصویر نکال کر ہم سب کے سامنے رکھ دی۔ہم ایک ساتھ تیزی سے جو اس پر جھکے تو سب کے سر ایک دوسرے سے ٹکرا گئے اور سی سی کرنے لگے۔آخر دوبارہ تصویر پر جھکے اور اسے غور سے دیکھنے لگے۔جیسا کہ اشفاق نے بتایا تھا ،یہ دو بچوں کی تصویر تھی۔دونوں بچے بہت خوب صورت تھے اور چھوٹے بڑے تھے۔
”ان میں سے ایک چھوٹا ہے اور دوسرا بڑا۔“امی بولیں۔
”جی ہاں!اور جہاں تک میرا خیال ہے،بڑے والے بچے کی تصویر ہمارے مہمان کے بچپن کی تصویر ہے۔“آفتاب بولا۔
”ہوں ۔یہی بات معلوم ہوتی ہے۔آنکھوں کی رنگت بھی وہی اور بھنویں ناک کے اوپر آپس میں مل رہی ہیں،مہمان کی بھنویں بھی ناک کے اوپر ملی ہوئی ہیں۔“میں نے کہا۔
”اگر اس بات کو درست مان لیا جائے تو بھی ہم یہ کیسے معلوم کر سکتے ہیں کہ مہمان کون ہے۔“
”بھئی معلوم ہوتے ہوتے ہی ہوگا۔کم از کم ایک چیز تو ہاتھ لگی ہے۔“اشفاق بولا۔
”اچھا خیر!اس کے علاوہ تمہیں کمرے میں اور کیا خاص بات نظر آئی۔“
”مہمان کے جوتے۔“اشفاق بولا۔
”مہمان کے جوتے!“ سب نے حیران ہو کر کہا۔
”ہاں مہمان کے جوتے۔میں نے انہیں الٹ پلٹ کر دیکھا۔ظاہر میں تو وہ عام سے جوتے ہیں،لیکن میرا دل کہتا ہے کہ ان میں کوئی خاص بات ہے۔“
”بھلا جوتوں میں کیا خاص بات ہوسکتی ہے۔“امی جان نے حیران ہوکر کہا۔
”یہ تو جوتے دیکھ کر ہی اندازہ ہو سکتا ہے۔“
”تو ٹھیک ہے۔آج شام کو جب مہمان ابا جان کے ساتھ سیر کے لیے جائیں گے تو ہم سب مل کر ان کا معائنہ کر لیں گے۔اچھا کوئی اور بات جو خاص نظر آئی ہو؟“
”میں ابھی تک ان کا بیگ نہیں دیکھ سکا۔وہ بھی ہم شام کو دیکھ لیں گے۔“
”تو پھر شام تک لیے تفتیش کا یہ کام ختم کیا جاتاہے۔اب ہم گھر کے دوسرے کام کریں گے۔“
۔۔۔۔۔
شام کے وقت مہمان ابا جان کے ساتھ سیر کے لیے چلے گئے تو ہم ان کے کمرے میں داخل ہو گئے ۔اگرچہ اشفاق نے ابھی بیگ بھی نہیں دیکھا تھا،پھر بھی ہم سب سے پہلے ان کے جوتوں کی طرف بڑھے۔وہ سیر کے لیے جاتے وقت ہوائی چپل پہن گئے تھے،اس لیے جوتے کمرے میں ہی ان کی چارپائی کے نیچے موجود تھے۔اشفاق نے جوتے اٹھاتے ہوئے کہا:
”یہ دیکھیں۔۔۔اس کا تلا کتنا موٹا ہے اور جوتے وزن دار کتنے ہیں۔آخر اتنے موٹے تلے کی کیا ضرورت ہے،جبکہ مہمان کافی لمبے آدمی ہیں۔اسی طرح ایڑی بہت اونچی لگی ہوئی ہے۔“
”مجھے تو اس جوتے میں کوئی خاص بات نظر نہیں آتی۔عام سا جوتا ہے اورآج کل اسی قسم کے جوتوں کا فیشن ہے۔“اخلاق نے رائے دی۔
”بالکل ٹھیک۔اس جوتے میں کوئی خاص بات نہیں ہے۔“آفتاب نے اس کا ساتھ دیا۔
”ذرا میں بھی تو ایک نظر دیکھ لوں۔“میں نے جوتا لیتے ہوئے کہا۔میرے ساتھ امی جان بھی جوتا دیکھنے لگیں۔
”یہ ٹھیک ہے کہ یہ جوتا بالکل عام جوتوں جیسا ہے،لیکن اس میں ایک بہت ہی عجیب بات ہے۔“اچانک میں نے کہا اور سب مجھے چونک کر دیکھنے لگے۔
”عجیب بات۔کیا مطلب!“ امی جان نے کہا۔
”دائیں جوتے کی ایڑی بائیں جوتے کی ایڑی سے زیادہ لمبی ہے۔“
”لمبی ہے۔“انہوں نے حیران ہو کر کہا۔
اور پھر ہم نے ایک تنکے کی مدد سے دونوں ایڑیوں کی پیمائش کی۔واقعی دائیں ایڑی لمبائی میں زیادہ تھی،اگرچہ یہ اونچائی میں زیادہ ہوتی تو ہم سوچ سکتے تھے کہ شاید مہمان کی ایک ٹانگ دوسری ٹانگ کے مقابلے میں چھوٹی ہے،لیکن ایڑی تو لمبائی میں زیادہ تھی ا ور یہ واقعی بہت عجیب بات تھی۔
”اور جہاں تک میرا خیال ہے ،لمبی ایڑی والا جوتادوسرے سے کچھ وزنی بھی ہے۔“میں نے دونوں جوتوں کو ہاتھوں میں تولتے ہوئے کہا۔
اب سب نے باری باری دونوںجوتوں کو ہاتھوں میں لے کر دیکھا۔آخر امی جان بولیں:
”اس طرح صحیح اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔کیوں نہ ہم دونوں کو ترازو میں تول کر دیکھ لیں۔“
تجویز معقول تھی۔اس لیے فوراً باورچی خانے سے ترازو لائی گئی۔دونوں جوتوں کو ایک ایک پلڑے میں رکھا گیا اور یہ دیکھ کر سب حیران رہ گئے کہ دائیں پیر کا جوتا وزنی تھا۔
ہم نے اس جوتے کو اٹھا لیا اور باری باری غور سے دیکھنے لگے۔آفتاب کو اس جوتے میں اندر کی طرف ایک کیل تلے کے ساتھ لگی ہوئی نظر آئی۔اس نے اس کیل کو کھینچا تووہ آسانی سے کھنچتی چلی آئی،اور اس کے ہاتھ میں آگئی۔ہم اسے حیرت زدہ نظروں سے دیکھ رہے تھے کہ کوئی چیز فرش پر گری۔چونک کر نیچے دیکھا تو وہ جوتے کی ایڑی کا ایک حصہ تھا۔ہم دھک سے رہ گئے۔جس جگہ سے وہ حصہ الگ ہوکر گرا تھا، وہ اب ایک ننھا سا خانہ نظر آرہاتھا۔اس خانے میں فولاد کی بنی ہوئی ایک چھوٹی سی ڈبیا موجود تھی۔ہم نے جوتے کو اٹھایا تو وہ ڈبیا بھی نیچے آرہی۔
بے چینی کے عالم میں امی جان نے ڈبیا اٹھالی اور اسے کھول کر دیکھا۔اس میں ایک کاغذ تہ کیا ہوا موجود تھا۔کاغذ نکال کر اسے کھولا۔اس کاغذ پر انگریزی میں کچھ لکھا تھا۔ہم سب اسے پڑھنے کے لیے جھک گئے۔ہم اس قدر حیرت زدہ تھے کہ ایک بار پھر ہمارے سر آپس میں زور سے ٹکرائے مگر ہم نے پروا نہ کی اور کاغذ پر لکھی ہوئی تحریر پڑھنے لگے۔
جوں جوں پڑھتے جا رہے تھے،ہماری حیرت بڑھتی جا رہی تھی۔مہمان کے بارے میں ہمیں بہت کچھ معلوم ہو چکا تھا۔مہمان دراصل ہمارے ملک کے ایک جاسوس تھے جو دشمن ملک میں جاسوسی کے لئے آج سے بیس سال پہلے بھیجے گئے تھے۔بیس سال تک یہ اس ملک میں جاسوسی کرتے رہے اور وہاں کی خبریں اپنے ملک کو بھیجتے رہے۔ان کا نام سرفراز احمد لکھا تھا۔
اس کا مطلب یہ تھاکہ اب ہم اپنے مقصد میں کا میاب ہو گئے تھے اور سو روپے جیت چکے تھے۔ہم سب اپنی اپنی جگہ خوش تھے۔جوتے کواسی طرح فٹ کرکے اس کی جگہ پر رکھ کرہم واپس آگئے تھے ۔اب ہم نے بیگ کو دیکھنے کی ضرورت نہیں سمجھی تھی۔سب کے ساتھ اگرچہ میں بھی بہت خوش تھا،لیکن کوئی بات رہ رہ کر مجھے پریشان کر رہی تھی۔وہ کیا بات تھی،یہ میں خود بھی نہیں جانتا تھا۔میرا ذہن بری طرح الجھا ہوا تھا اور میں سوچ میں گم تھا۔سب کے سونے کے بعد بھی میں جاگ رہا تھا۔مہمان اور ابا جان بھی نہ جانے کب کے واپس آکر سو چکے تھے۔ایک میں تھا جو جاگ رہا تھا۔میرا دل کہہ رہا تھا کہ اگرچہ ہم نے مہمان کے بارے میں بہت کچھ معلوم کر لیا ہے،لیکن ابھی کوئی بہت ہی اہم بات رہتی ہے۔اب نہ جانے وہ اہم بات کیا تھی۔میں سوچتا رہا۔۔۔۔سوچتا رہا۔آخر میرے ذہن میں ایک سوال پیدا ہوااور وہ یہ تھا:”آخر مہمان کا ابا جان سے کیا تعلق ہے۔“
اس سوال کے ذہن میں آتے ہی میں نے کچھ سکون محسوس کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ یہی وہ بات ہے جو مجھے پریشان کر رہی تھی۔اب مجھے اس بات کا جواب تلاش کرنا تھا۔
میں غور کرتا رہا۔اس سلسلے میں میں نے مہمان کے بارے میں سوچا، ان کی شکل و صورت کے بارے میں سوچا اور بھی کئی طرح سے اپنی کوشش کی۔پھر اچانک میں بہت زور سے اچھلا۔
میں نے ایک بہت اہم بات معلوم کر لی تھی۔
۔۔۔۔۔۔
دوسرے دن ناشتے کی میز پر ہم نے اعلان کیا کہ ہم مہمان کے متعلق بہت کچھ معلوم کر چکے ہیں۔مہمان یہ سن کر چونکے۔
”کیا آپ بالکل سچ کہہ رہے ہیں۔“
”جی ہاں! اگر آپ اجازت دیں تو ہم بتانا شروع کریں۔“
”ضرور ضرور۔میری طرف سے اجازت ہے۔“انہوں نے خوش ہو کر کہا۔
”اچھا توسنیے۔۔۔“امی جان نے کہناشروع کیا:”آپ کا نام سرفراز احمد ہے۔“
”ارے!“مہمان اچھل پڑے۔
”جی ہاں۔کیا یہ غلط ہے؟“ امی جان نے پوچھا۔
”نہیں، یہ بالکل ٹھیک ہے۔اچھا اور کچھ؟“انہوں نے پوچھا۔
”جی ہاں!آپ ہمارے ملک کے خفیہ جاسوسی کے محکمے سے تعلق رکھتے ہیں اور آپ کو آج سے بیس سال پہلے دشمن ملک میں جاسوسی کے فرائض سرانجام دینے کے لیے بھیجا گیا تھا۔آپ وہاں بیس سال تک یہ کام کرتے رہے ہیں اور وہاں کے ایک شہری کی حیثیت سے رہتے رہے ہیں۔کیا یہ غلط ہے؟“
”نہیں بھئی۔ کمال ہے۔یہ تو آپ نے بالکل ٹھیک بات بتائی ہے۔اور کچھ؟“انہوں نے کہا۔
”اور کچھ کیا۔سب کچھ تو بتا دیا۔“امی جان بولیں۔
”ہاں! یہ بات ٹھیک ہے۔آپ لوگ سوروپے کا انعام جیت چکے ہیں۔یہ لیجیے۔“انہوںے کہا اور جیب میں سے سوروپے نکال کر ہماری طرف بڑھائے۔
”ٹھہرئیے چچا جان!یہ ٹھیک ہے کہ ہم آپ کو بہت کچھ بتا چکے ہیں اور سو روپے کے انعام کے حق دار بن گئے ہیں،لیکن ابھی ایک بات رہتی ہے۔اگر اجازت ہوتو وہ بھی بتا دوں۔“
اباجان اور مہمان کے ساتھ میرے بہن بھائیوں اور امی جان نے بھی مجھے حیران ہوکر دیکھا،کیونکہ ان کے خیال میں تو جس قدر بات ہم نے معلوم کی تھی ،وہ امی جان بتا چکی تھیں۔
”اگر کچھ اور بتانا باقی ہے تو ضرور بتائیں۔“مہمان بولے۔
”تو سنیے۔آپ ہمارے چچا جان ہیں۔“میں نے ایک دم کہا۔
”ہاں بھئی۔وہ تو میں ہوں ہی۔“مہمان نے ہنس کر کہا۔
”یہ تم نے کون سی نئی بات بتائی۔۔۔ظاہر ہے کہ ابا جان کے دوست ہمارے چچا جان ہی ہوں گے۔“
”اور کیا۔۔۔ہم سمجھے تھے،تم کوئی حیران کردینے والی بات بتانے چلے ہو۔“امی جان نے مجھے گھور کر کہا۔
”لائیے چچا جان ۔اب ہمارا انعام۔“اخلاق بولا۔
”ٹھہرو بھئی۔“میں نے جلدی سے کہا۔”آپ لوگ میرا مطلب نہیں سمجھے۔میرا کہنے کا مطلب یہ تھا کہ چچا جان واقعی ہمارے چچا جان ہیں۔“آخر میں نے کہا۔
”چچا جان واقعی ہمارے چچا جان ہیں۔کیا مطلب؟“آفتاب نے حیران ہوکر کہااور سب چونک کر مجھے گھورنے لگے۔
”جی ہاں،یہ ہمارے سچ مچ کے چچا جان ہیں!“
”بھئی صاف صاف کہو۔تم کیا کہنا چاہتے ہو۔“امی جان نے تنگ آکر کہا۔
میں نے جیب سے وہ تصویر نکالی جو چچا جان کے پرس میں سے نکلی تھی اور جس میں دوبچے ہاتھ پکڑے کھڑے تھے۔میں نے ان سب کو یہ تصویر دکھاتے ہوئے کہا:
”یہ دیکھئے۔یہ چچا جان کے بچپن کی تصویر ہے۔اس تصویر میں آنکھوں کو غور سے دیکھیں،بھوری ہیں نا،اور بھنویں ناک کے اوپر آکر مل گئی ہیں۔یہی چیز دوسرے بچے کی تصویر میں ہے۔اب ذرا اباجان اور چچا جان کی آنکھوں اور بھنوﺅں کو غور سے دیکھیں۔“یہ کہہ کر میں خاموش ہوگیا۔
سب نے ابا جان اور چچا جان کی طرف دیکھا اور پھر اچھل پڑے۔دوسری طرف اباجان اور چچا جان مسکرائے جارہے تھے۔
”تم لوگ جیت گئے۔یہ بالکل ٹھیک ہے کہ یہ تمہارے سگے چچا ہیں۔ ان کے بارے میں میں نے تمہیں آج تک اس لیے نہیں بتایا تھا کہ یہ معاملہ بہت ہی رازدارانہ تھا۔