اعتراف
سید کاشان جعفری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واشنگٹن کے کلب میں اُس دن ایک طویل عرصے کے بعد ہلچل اور گہما گہمی نظر آرہی تھی۔ گزشتہ کئی سالوں سے جاری ویت نامی اور امریکی جنگ نے ان کلبوں کی رونقوں کو نگل لیا تھا۔ اب چونکہ پچھلے دو ماہ سے یہ جنگ ختم ہوچکی تھی، سب ہی فوجی اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹ رہے تھے تو ان کلبوں کی رونق بحال ہونے لگی تھی۔
گہما گہمی اور پُرامن ماحول کی اس فضا میں وہاں موجود افسر جنگ سے متعلق اپنے تجربات، احساسات اور جذبات سے اپنے ساتھیوں کو آگاہ کررہے تھے۔
کلب کے ایک مخصوص دروازے کے دائیں گوشے میں رکھی سفید رنگ کی کرسیوں پر کیپٹن جانسن، میجر کیتھران اور میجر رابرٹ بیٹھے آپس میں گفتگو کررہے تھے۔ میجر رابرٹ جو دس بارہ دن قبل ہی ویت نام کے محاذ سے واپس آئے تھے اپنے برابر کی کرسی پربیٹھے جانسن سے کہہ رہے تھے۔
’’یار۔۔۔ تم بھی اپنا کوئی تجربہ، کوئی واقعہ سناؤ یوں ہونٹوں پر تالا ڈالے خاموش کیوں بیٹھے ہو۔۔۔‘‘
میجر رابرٹ کی اس بات پر جانسن نے اپنے اطراف پر ایک سرسری نظر ڈالی، پھر کچھ سوچتے ہوئے بولے، یوں تو مجھے وہاں کے بہت سے قصے، واقعات اور حالات یاد ہیں۔ لیکن ایک حادثہ بہت ہی خاص ہے۔ اتنا کہ شاید میں چاہتے ہوئے بھی اُسے زندگی بھر فراموش نہ کرسکوں۔ اس واقعے نے مجھے بے حد متاثر کیا ہے۔ تم بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہوگے۔ لو سنو۔
چند لمحے خاموش رہنے کے بعد اُس نے خلاؤں میں کچھ دیکھا۔ جیسے سامنے کوئی منظر دیکھ رہا ہو۔ پھر ایک لمبی سانس لیتے ہوئے اُس نے کہنا شروع کیا۔ یہ واقعہ جنگ ختم ہونے سے تقریباً تین ماہ پہلے کا ہے۔ اُن دنوں میں ویت نام کے جنوبی محاذ پر اپنے فرائض انجام دے رہا تھا۔ میرے فرائض میں ویت نام کے اُن لوگوں کو گرفتار کرنا اور ان کے متعلق معلومات حاصل کرنا شامل تھا جو ویت نامی لڑاکوں کے لئے جاسوسی کرتے تھے۔ ابتدائی ایک دو ماہ میں مجھے اور میرے ساتھیوں کو کئی کامیابیاں حاصل ہوئیں، ہم نے کئی ویت نامی جاسوسوں کو گرفتار کیا اور ان کی کارروائیوں کو ناکام بنادیا۔
لیکن تیسرے مہینے ہمیں ایک عجیب پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ ہم جس جاسوس کو گرفتار کرنے کے لئے اُس کے ٹھکانے پر پہنچتے وہ پہلے ہی سے وہاں سے غائب ہوچکا ہوتا۔ اس کے علاوہ کبھی کبھی تو ہمارے مورچوں پر بھی بھرپور حملہ ہوتا اور ہمیں سخت جانی و مالی نقصان اُٹھانا پڑتا۔ ان حملوں سے محسوس ہوتا جیسے دشمن ہماری ہر ہر حرکت سے بخوبی واقف ہے۔
کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا، یہ سب کیا اور کیسے ہورہا ہے۔ تقریباً ایک ہفتہ بڑی پریشانی اور شدید مشکلات میں تحقیق کے بعد مجھے یہ سراغ ملا کہ پنیہ نامی شہر سے تقریباً دو میل کے فاصلے پر شمال میں کسی آبادی میں سرخ رنگ کے ایک پرانے دو منزلہ بنگلے میں ایک اَدھیڑ عمر شخص رہتا ہے جس کے متعلق جاسوس ہونے کا شبہ کیا جاسکتا ہے۔ اس اہم اطلاع کو ہم نے بڑی مشکل اور سخت تحقیق کے بعد حاصل کیا تھا۔ اپنے دو قابلِ اعتماد ساتھیوں کیپٹن ولیم اور لیفٹیننٹ جان کے ساتھ صلاح و مشورہ کرنے کے بعد اُس جاسوس کو پکڑنے کی خفیہ اسکیم تیار کرلی۔
مجھے بخوبی یاد ہے اُس روز ہفتے کا دن تھا۔ اپنی اسکیم کے مطابق بہت ہی خفیہ اور محتاط انداز میں ہم اپنے کیمپ سے نکلے۔ سردی بہت سخت تھی۔ اُس سردی سے محفوظ رہنے کے لئے ہم نے لمبے اوورکوٹ اور ویتنامی ٹوپی سر پر پہن رکھی تھی، تاکہ کوئی ہمیں امریکی فوجی نہ سمجھے۔
اسکیم کے مطابق ہمیں بیس پچیس منٹ کے لئے اُس آبادی (جہاں مطلوبہ بنگلہ تھا) کے گیٹ کے پاس ایک دکان نما ہوٹل میں بیٹھ کر وقت گزارنا تھا۔
’یہ کیوں ؟۔۔۔ یعنی کس لئے۔۔۔؟؟‘‘ رابرٹ نے حیرت سے اس کی بات کاٹتے ہوئے سوال کیا۔
’’یہ اس لئے ضروری تھا جانسن نے جواب دیتے ہوئے کہا اُس آبادی یا قرب و جوار کے کچھ چھوٹے شہروں میں جنگ کے دنوں میں محفوظ رہنے کے لئے آبادی کے داخلی راستوں پر گیٹ بنادیئے گئے تھے تاکہ کوئی اجنبی یا بیرونی شخص آبادی میں نہ آسکے، خصوصاً امریکی۔
رات کو آٹھ بجے یہ گیٹ بند کردیئے جاتے، چونکہ اُس دن ہمیں رات نو بجے تک اس بنگلے میں پہنچنا تھا اور پھاٹک سے بنگلے تک پیدل کا راستہ تقریباً آدھے گھنٹے کا تھا، یہی وجہ تھی کہ آبادی میں آٹھ بجے سے پہلے داخل ہوکر بقیہ آدھا گھنٹہ یعنی ساڑھے آٹھ بجے تک کا وقت اُس دکان نما ہوٹل میں بیٹھ کر گزارا جائے۔
وہ ہوٹل سیمنٹ کی چادروں کے شیڈ میں دو چھوٹے چھوٹے کمروں میں بنا ہوا تھا۔ ایک خاص بات اُس ہوٹل سے متعلق یہ تھی کہ ہمارے امریکی فوجی بھی اکثر اس ہوٹل میں کافی پینے کے لئے جایا کرتے تھے اور کافی پیتے ہوئے باتیں کرکے اپنا وقت گزارتے تھے۔ اُس ہوٹل کا مالک ایک بوڑھا ویتنامی تھا اور تیرہ، چودہ سال کی عمر کا ایک لڑکا اس کا ملازم تھا جو چھوٹے موٹے کام مثلاً گاہکوں کو کافی دینا، میزوں پر سے خالی کپ اُٹھا کر کچن میں پہنچانا یا گاہکوں کی بتائی ہوئی چھوٹی موٹی خدمت انجام دیتا تھا۔
مجھے یاد ہے۔۔۔ ٹھیک آٹھ بجے۔۔۔ اُس نے ایک طویل گہری سانس لیتے ہوئے جانسن سے کہا ہم تینوں ہوٹل میں پہنچ گئے۔ بیس پچیس منٹ کا وقت دیکھنے والوں کو محسوس نہ ہو، اس لئے لیفٹیننٹ جان نے جو مقامی زبان سے بخوبی واقف تھا، وہاں کام کرنے والے اُس نوعمر لڑکے سے تین کپ کافی لانے کے لئے کہا۔
کافی آنے تک میں نے سوچا ابھی تک تو اسکیم اور پروگرام کے مطابق سب ہی کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے، لیکن آگے بھی ہمیں کامیابی ملے گی یا نہیں۔۔۔ شاید میرے چہرے کے تاثرات، گھبراہٹ یا پریشانی ولیم نے محسوس کرلی۔۔۔ اُس نے انگریزی میں کہا بنگلے کا راستہ تو ٹھیک سے یاد ہے ناں۔۔۔
’’ہاں، ہاں، بالکل صحیح یاد ہے۔۔۔ تم فکر نہ کرو۔۔۔ میں نے بااعتماد لہجے اور ٹھوس الفاظ میں کہا۔
اُسی لمحے پیچھے کی میز کے پاس کھڑا وہ نوعمر لڑکا ہم سے نظریں بچا کر ہوٹل سے باہر نکلا اور تیزی سے کچے راستے پر دوڑنے لگا۔
اُس کے یوں اچانک بھاگنے پر ہمیں کچھ شک سا ہوا۔ ایک لمحہ بھی ضائع کئے بغیر جانسن نے اُس بوڑھے سے بڑی سختی سے دریافت کیا۔ یہ لڑکا اچانک اس طرح کہاں بھاگ گیا ہے؟۔۔۔
’’جج۔۔۔جج۔۔۔جی۔۔۔ وہ اپنے گھر گیا ہے۔۔۔ روز اسی طرح بھاگ کر اپنے گھر چلا جاتا ہے۔۔۔ بچہ ہے ناں۔۔۔ صاحب جی۔۔۔‘‘
ہمیں بوڑھے کی بات میں حقیقت نہیں بناوٹی پن محسوس ہوا جیسے وہ ہم سے کچھ چھپانے کی کوشش کررہا ہے۔
میں نے گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے جان سے کہا ’’’ابھی ہمارے پاس کچھ وقت ہے۔ تم جلدی سے بچے کا پیچھا کرو اور اُسے پکڑو۔۔۔ میں تمہارے پیچھے پیچھے اسی راستے پر آرہا ہوں اور کیپٹن ولیم کو میں نے ہوٹل میں ہی رُک کر بوڑھے پر نظر رکھنے کی تاکید کی۔
اُس کے بعد میں اُس طرف تیزی سے بڑھا جدھر جان بچے کا پیچھا کرتا ہوا گیا تھا۔ ابھی میں نے ڈیڑھ دو سو میٹرکا فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ ایک جھاڑی کے پاس اندھیرے میں جان اُس بچے کو پکڑے ہوئے نظر آگیا۔ میرے قریب پہنچنے پر اُس نے بتایا اس بچے کا کوئی نہ کوئی تعلق اُن جاسوسوں کے ساتھ ضرور ہے۔۔۔ یہ انگریزی زبان سمجھتا ہی نہیں بخوبی بول بھی سکتا ہے۔
تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ہمارے آنے کی اطلاع دینے کہیں جارہا تھا۔ کچھ پریشانی اور گھبراہٹ کے سے عالم میں میں نے کہا ۔۔۔ لیکن اگر ہم اسی سے پوچھ گچھ کرتے رہے اور بنگلے پر صحیح وقت پر نہ پہنچے تو ہمارا پلان ناکام ہوجائے گا۔ جان نے اپنا خیال ظاہر کرتے ہوئے کہا۔ اس مسئلے سے ہم بعد میں نمٹ لیں گے۔
میں نے اس کی بات سے اتفاق کیا اور اس کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے اُس سے کہا کہ وہ اس بچے کو کیپٹن ولیم کے پاس ہوٹل میں چھوڑ آئے تاکہ یہ اور بوڑھا ہماری واپسی تک ولیم کی نگرانی میں رہیں۔
پھر میں نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہا۔۔۔ میں آہستہ آہستہ بنگلے کی طرف بڑھتا ہوں اور تم یہ کرو کہ جتنی جلدی ممکن ہوسکے میرے پاس پہنچنے کی کوشش کرو اور پھر میں بنگلے کی طرف بے حد محتاط انداز میں بڑھنے لگا۔
لیفٹیننٹ جان اُس بچے اور بورھے کو ہوٹل میں تیسرے ساتھی کیپٹن ولیم کی نگرانی میں چھوڑ کر دس پندرہ منٹ میں مجھ سے آن ملا۔
راستے کی اس غیر متوقع صورتحال میں تبدیلی کے باوجود ہم تیزی سے بنگلے کی طرف بڑھنے لگے۔ مجھے وقت تو ٹھیک سے یاد نہیں، مگر شاید بیس منٹ میں ہم اُس گلی کے کونے تک پہنچ گئے جس میں پانچویں نمبر پر وہ بنگلہ تھا۔
ہمیں اپنا ہر قدم بہت سوچ سمجھ کر اور پھونک پھونک کر اُٹھانا تھا، ہم نے گلی میں آگے بڑھنے سے پہلے گلی کا جائزہ لیا۔ سخت سردی کی اُس رات میں دور دور تک سناٹا اور خاموشی پھیلی ہوئی تھی۔ میں نے چند قدم اور آگے بڑھائے، اُسی دوران بنگلے سے کچھ پہلے اندھیرے میں ایک سایہ اُبھرا۔ ہم فوراً ایک مکان کی آڑ میں ہوگئے۔ غور سے دیکھنے پر ہم نے محسوس کیا کہ اُس گلی کا چوکیدار ہوگا کیونکہ سائے کی پوشاک کسی نگران جیسی ہی تھی، چند لمحے چوکیدار کے دور نکل جانے کے انتظار میں گزارنے کے بعد جیسے ہی وہ گلی کے دوسری طرف مڑا میں نے پیچھے سے اور جان نے آگے سے تیز تیز قدم بڑھاتے ہوئے بنگلے میں قدم رکھا۔
جانسن نے کلب کی دیوار کی طرف دیکھتے ہوئے جیسے اُسی منظر کو اپنے سامنے محسوس کیا ہو۔ پھر بڑی سنجیدگی سے رابرٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔۔۔ میجر رابرٹ۔۔۔ میں نے جنگ کے دوران گھنے جنگلوں میں چھپ کر کتنی ہی راتیں گزاری ہیں۔ لیکن اُس رات بنگلے میں چھائے گھور سیاہ اندھیرے اور خاموش ماحول جیسا خوفناک منظر میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔۔۔
بنگلے میں داخل ہوتے ہی میں نے ٹارچ کو ذرا سا بلند کرتے ہوئے روشن کیا۔ دوسری طرف جان نے بھی میری پیروی میں اپنی ٹارچ روشن کی، یہ بنگلے میں داخل ہوجانے کا اشارہ تھا۔
جب اُس دو منزلہ بنگلے کی جس میں چار کمرے نیچے اور تین کمرے اوپر تھے ہم نے تلاشی لی تو جیسا کہ ہمیں نقشے سے معلوم ہوا تھا کہ دوسری منزل سے باہر جانے کے لئے ایک ہی راستہ سیڑھیاں تھیں جن کا دروازہ پچھلے برآمدے میں کھلتا تھا، اسی لئے میری اسکیم کے مطابق جان نے بنگلے میں داخل ہوتے ہی اُن سیڑھیوں کے دروازے پر ایک مخصوص قسم کا تالا لگادیا جسے اگر کوئی کھولنے کی کوشش کرے تو اس کا الارم بج جائے اور ہمیں خبر مل جائے۔
پہلے ہم نے نیچے کے کمروں کی تلاشی لی، وہاں کوئی شخص تو کیا کوئی چھوٹی موٹی چیز بھی ایسی نہیں مل سکی جو وہاں کسی کے رہنے کا احساس دلا سکتی ہو۔ چند ہی منٹوں میں نیچے کی تلاشی لے کر ہم اوپر پہنچ گئے، اوپر بھی اندھیرا نیچے کی ہی طرح تھا، لیکن پہلے دو کمروں میں تھوڑا بہت فرنیچر نظر آیا۔ مگر اُس پر بھی دھول جمی ہوئی تھی جیسے اُسے مدت سے کسی نے استعمال ہی نہ کیا ہو۔ پھر ہم بڑی احتیاط سے تیسرے کمرے میں پہنچے، اس کمرے سے مدھم مدھم روشنی آرہی تھی۔
مگر وہاں ایک میز، کرسی اور زیرو واٹ کے بلب کے علاوہ اور کچھ نہ تھا، جلتے بلب سے یہ اندازہ تو لگایا جاسکتا تھا کہ کہیں نہ کہیں کوئی تو موجود ہوگا ہی۔
ایک اور کوشش کی۔۔۔ ہم نے بنگلے کا کونا کونا بڑی باریک بینی اور احتیاط سے چھان مارا، لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات رہا، یعنی ہمیں ملا کچھ بھی نہیں۔ یہاں تک کہ کوئی کاغذ، کوئی ایسی چیز بھی ہمارے ہاتھ نہ لگ سکی جس سے ہم اپنی کارروائی آگے بڑھاسکیں۔
ہم دونوں نے بڑی مایوسی سے ایک دوسرے کا چہرہ دیکھا۔ اس دوران نیچے سے ہماری جیپ پہنچ جانے کی آواز سنائی دی۔ ہمارا اب یہاں مزید رکنا قطعی مناسب نہیں تھا۔ اس لئے ہم باہر آکر جیپ میں بیٹھ گئے اور ڈرائیور کو چلنے کا اشارہ کیا۔
ہوٹل سے ہم نے کیپٹن ولیم، اُس نوعمر لڑکے اور ہوٹل کے بوڑھے مالک کو بھی اپنے ساتھ لے لیا۔
حیرت کی بات یہ تھی کہ یہ دونوں ساری کارروائی کے دوران ولیم کی نگرانی میں قید رہے۔ یعنی اُن میں سے کوئی بھی بنگلے تک کوئی اطلاع دینے یا خطرے سے آگاہ کرنے نہیں گیا تھا۔ کیمپ پہنچ کر اُس رات تقریباً 12 بجے تک اُن دونوں سے طرح طرح کے پیچیدہ سوالات کئے جاتے رہے، مگر سب بے سود ہی رہا۔ سوچا، اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی اور تیسرا خطرے سے آگاہ کردینے والا ہو؟۔۔۔ آخر وہ جاسوس وہاں سے کہاں غائب ہوگیا یہ اور ایسے کئی سوال رہ رہ کر میرے ذہن میں اُٹھ رہے تھے۔ میں نے بوڑھے اور نوعمر لڑکے پر سختی بھی کی۔ لیکن اُن سے کچھ بھی معلوم نہ ہوسکا۔ کبھی کبھی مجھے اُس بچے کی معصومیت اور بھولپن پر ترس بھی آتا۔ یہ بھی سوچتا کہیں یہ دونوں بے قصور ہی نہ ہوں۔ میں خواہ مخواہ ان پر سختی کررہا ہوں۔ اسی خیال کے تحت میں نے ان دونوں کو چھوڑ دینے کا فیصلہ کرلیا۔
اب چونکہ سب ہی قیدیوں کو رہا کیا جارہا تھا، اس لئے مجھے بھی ان دونوں کو آزاد کردینا پڑا اور میں نے اُن دونوں کو آزاد کردیا۔
کچھ دنوں بعد فوجیوں کی واپسی شروع ہوگئی، مجھے بھی وطن واپسی کے احکامات مل گئے۔
’’تو کیا تمہیں اُس جاسوس کے متعلق کچھ بھی معلوم نہیں ہوسکا؟‘‘ میجر نے بڑی دلچسپی اور حیرت سے سوال کیا۔
کیپٹن جانسن کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آگئی۔ اُس نے میجر کو جواب دیتے ہوئے کہا ’’سنو۔۔۔ میں تمہیں اب وہی تو بتانے جارہا ہوں۔۔۔ آخر ہماری اسکیم میں کہاں کیا خامی رہ گئی تھی جو ہم کامیاب نہیں ہوسکے۔ اس سوال نے ان دنوں میرا سکون ہی ختم کردیا تھا۔ بس اُٹھتے بیٹھتے یہی سوال مجھے برابر تنگ کرتا رہتا۔ اسی سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے جس دن مجھے وطن واپس لوٹنا تھا، اپنا سامانِ سفر باندھنے کے بعد اُس شام میں پھر اُس آبادی میں پہنچ گیا۔
سب سے پہلا حیرت ناک جھٹکا جو مجھے لگا وہ آبادی کے گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہی لگا، کیونکہ وہاں وہ ہوٹل تو کیا اس ہوٹل کی دکانیں تک نظر نہیں آرہی تھیں، زمین بالکل میدان پڑی تھی، میری آنکھوں کو یقین ہی نہ آیا، میں نے سوچا شاید میں غلط جگہ آگیا ہوں، مگر یہ میرا محض خیال تھا۔ میں صحیح جگہ پہنچا تھا، بس وہ ہوٹل اپنی جگہ نہیں تھا اور نہ ہی اُس ہوٹل کا کوئی نام و نشان۔
اب میرا تجسس اور بڑھ گیا۔ قدم خودبخود سرخ بنگلے کی طرف اُٹھ گئے اور بنگلے کے قریب پہنچتے ہی میرے بڑھتے قدم ٹھٹھک کر رہ گئے، کیونکہ بنگلے کے اطراف زمین و آسمان کا فرق نظر آرہا تھا۔ اُس رات سیاہ اندھیرے کی جگہ پورے بنگلے پر چمچماتی جھلملاتی روشنیوں کا ہجوم تھا، فضا میں ویتنامی موسیقی گونج رہی تھی۔ مجھے اندر جانا چاہئے یا نہیں؟۔۔۔ اس سوال نے میرے پیروں میں زنجیر سی ڈال دی۔ اسی لمحے میری نظریں اوپر اُٹھیں۔ میں نے دیکھا کوئی اوپر سے مجھے میرا نام لے کر پکار رہا ہے۔۔۔ میرے اوپر کی طرف دیکھنے پر اُس نے مجھے اندر آنے کے لئے کہا۔
اُس آواز میں کیسی کشش تھی، کیسا جادو سا تھا میں سوچے سمجھے بغیر ہی بنگلے میں داخل ہوگیا۔
دروازے کے سامنے ہی ایک لمبی سی کرسی پر ایک چھوٹے قد کا گوری رنگت اور سنجیدہ چہرے والا شخص بیٹھا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی اُس نے مسکراتے ہوئے میرا نام لے کر سوال کیا ’’ہیلو، کیپٹن جانسن۔۔۔ اِدھر کیسے آنا ہوا۔۔۔؟‘‘
’’میں کچھ جاننے کے لئے یہاں آیا ہوں‘‘۔ اس کے جواب میں، میں نے کہا۔
میں جانتا ہوں، تم یہاں کیا جاننے کے لئے آئے ہو۔۔۔ پھر اُس نے سارے رازوں پر سے جن کے سوالات جاننے کے لئے میں اتنے دنوں سے بے چین تھا اور ذہنی طور پر پریشان بھی، اُس شخص نے چند ہی لمحوں میں پردہ اُٹھادیا۔۔۔ اُس نے کہا سنو کیپٹن جانسن۔۔۔ اُس رات جس جاسوس کوپکڑنے کے لئے اس بنگلے میں آئے۔۔۔ وہ کوئی اور نہیں میں خود ہی ہوں اور یہ دونوں ۔۔۔ (میرے سامنے کے دروازے سے اُسی ہوٹل کے بوڑھے مالک اور نوعمر ملازم بچے کو آتے دیکھ کر اُس نے کہا) انہیں تو تم پہلے ہی سے جانتے ہو۔۔۔ لیکن پھر بھی ان کا اصل کردار اصل تعارف تو کراہی دوں۔۔۔ یہ نوعمر لڑکا جس سے تم نے میری بابت میری حقیقت جاننے کے لئے کافی سختیاں کیں، میرا اکلوتا حقیقی بیٹا ہے۔۔۔ اور یہ بوڑھا جسے تم ہوٹل کے مالک کی حیثیت سے جانتے ہو میرے والد ہیں۔ ان دونوں نے جنگ کے دوران اپنے وطن کی خدمت کے لئے میرے ساتھ مل کر وہ کام کیا جو اب تاریخی اہمیت اختیار کرگیا ہے اور جسے آنے والی نسلیں ہمیشہ ہمیشہ یاد رکھیں گی۔ یہ کام وہ ہے جسے بڑے بڑے ماہر، تربیت یافتہ امریکی افسر بھی انجام نہیں دے سکتے۔
حالانکہ مجھے تو تم کو یہ سب بتانا نہیں چاہئے تھا۔ لیکن میرے بیٹے نے مجھے بتایا کہ تم نے انہیں اپنی قید میں رکھتے ہوئے بھی دوسرے امریکی فوجی افسران کے مقابلے میں نرمی سے کام لیا اور اس بچے پر زیادہ سختی نہیں کی۔۔۔ دوسرے یوں بھی بتا رہا ہوں کہ اب جنگ ختم ہوگئی ہے۔ امریکی فوجی ہمارے وطن، ہماری زمین پر سے واپس جارہے ہیں، ہم فاتح ہیں، اس لئے میں تمہیں ایک ہاری ہوئی فوج کا افسر سمجھتے ہوئے تمہارے تجسس کو دور کرنے کے لئے بتا رہا ہوں۔ یاد رکھنا تم کبھی بھی کسی بھی قوم کے جذبہ حریت پر غالب نہیں آسکتے۔ ہر قوم اپنی آزادی کی حفاظت اپنی جانوں سے بڑھ کر کرتی ہے اور پھر اُس نے مجھے سب کچھ بتادیا۔
میں تو اس کی سچ بیانی سُن کر بس پھٹی پھٹی حیرت زدہ نظروں سے اُسے دیکھتا کا دیکھتا رہ گیا۔ شاید مجھے خاموش حیرت زدہ دیکھ کر ہی اُس نے مجھ سے کہا۔ ’’کیوں کیپٹن۔۔۔ ابھی اور بھی کچھ جاننا چاہوگے؟‘‘
میں نے اقرار میں سر ہلادیا اور اپنے لہجے میں نرمی پیدا کرتے ہوئے کہا ’’پلیز۔۔۔ اُس رات ہمیں یہ بھی بتادیں کہ آپ کو ہمارے چھاپہ مارنے کی خبر کیسے ملی اور آپ یہاں سے کیسے بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے؟‘‘۔
’’سنو کیپٹن۔۔۔ اُس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا اب تک تمہیں یہ تو معلوم ہو ہی چکا ہوگا کہ میرا بیٹا اور میرے والد دونوں ہی جاسوسی کرنے کے لئے بظاہر ہوٹل کا کاروبار کرتے تھے۔ تمہارے فوجی افسران اور ان کے معاونین اُس ہوٹل میں اکثر آتے، کافی پیتے۔ وقت گزاری کے لئے باتیں بھی کرتے۔ وہ یہ سمجھتے کہ یہ بوڑھا اور نوعمر لڑکا انگریزی زبان نہیں جانتے ہوں گے، بڑی لاپروائی سے گفتگو کرتے، اپنی گفتگو میں وہ اپنے پروگرام، اپنی اسکیمیں بھی ایک دوسرے کو بتا دیتے جو ہمیں پہنچ جاتیں، یہ کام میرا نوعمر بیٹا اور تجربہ کار بوڑھے والد کرتے۔۔۔ اب رہی یہ بات کہ اُس رات کی بات بھی مجھے تمہارے ہی اپنے لوگوں سے معلوم ہوئی ہوا یوں کہ تمہارے کچھ ذمہ دار فوجی افسران ہمارے ہوٹل میں بیٹھے باتیں کررہے تھے کہ جانسن یعنی تم خصوصی طور پر اس علاقے کی جاسوسی کررہے ہو۔۔۔ اور یہاں کے جاسوسوں کو پکڑنے کی اسکیم بنارہے ہو۔۔۔ یہ خبر ملتے ہی میں اپنی حفاظت کے لئے اور محتاط ہوگیا۔
ہم تینوں نے یہ طے کیا کہ میرا بیٹا آبادی کا گیٹ بند ہوتے ہی زیادہ سے زیادہ ساڑھے آٹھ بجے تک روز مجھے دن بھر کی رپورٹ پہنچا دیا کرے گا۔ اگر کسی دن یہ ساڑھے آٹھ بجے تک نہ پہنچ سکے تو سمجھ لیا جائے کہ یہ کسی مشکل میں پھنس گیا ہے اور خطرے سے آگاہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
یہی پوزیشن اُس رات ہوئی، میں نے خطرہ بھانپتے ہوئے چوکیدار کا بھیس بدلا اور اس بنگلے سے نکل کر اپنے دوسرے خفیہ محفوظ مقام تک پہنچ گیا۔ میں آپ اور آپ کے ساتھی کے سامنے ہی سے تو گیا تھا، چوکیدار کے بھیس میں۔
اب ساری باتیں صاف ہوچکی تھیں، میں سمجھ گیا تھاکہ ویت نامی شہریوں نے اپنے وطن کی حفاظت میں ہمیں کتنی بڑی مات دی تھی اور یہ تین ہی نہیں امریکیوں کو ویت نام سے باہر نکالنے میں سارے ہی ویت نامی شانہ بشانہ دیوار بن کر کھڑے ہوگئے تھے۔ میں نے ان کے جذبہ حب الوطنی کا کھلے دل سے اعتراف کیا اور پھر واپسی کے لئے اُٹھ کھڑا ہوا۔ یہ کہتے ہوئے جانسن نے بات مکمل کردی۔