ایک طوفانی رات
میرزا ادیب
۔۔۔۔۔۔
رات تاریک اور سرد تھی۔صبح سویرے بارش ہونے لگی اور مسلسل دو بجے تک برستی رہی تھی۔شہر کے نشیبی علاقوں میں جا بہ جا پانی جمع ہوگیا تھا،جس سے لوگوں کو آنے جانے میں خاصی دقت پیش آ رہی تھی۔چونکہ بارش کے ساتھ تیز ہوائیں بھی چلی تھیں۔اس لیے قریب قریب آدھے شہر کی بجلی بند ہو گئی تھی،گھروں میں لالٹین اور موم بتیاں جل رہی تھیں،جنکی ہلکی اور مدہم روشنی میں گھر والے اپنے ضروری کام نمٹا رہے تھے۔
اُس رات ایک محلے کے ایک چھوٹے سے مکان کے اندر راشد دروازے کے پاس کرسی پر بیٹھا ہوا کسی سوچ میں گم تھا۔اوپر دیوار کے ساتھ لٹکی ہوئی لالٹین کی روشنی کمرے کے ایک چھوٹے سے حصے پر پڑرہی تھی۔
راشد نویں جماعت کا طالب علم تھا اور اپنی ماں کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کی امی محلے کے لوگوں کے کپڑے سی کر گھر کے اخراجات پورے کر لیتی تھی۔راشد کے ابا جی اس وقت فوت ہو گئے تھے،جب راشد کی عمر سات سال تھی اور وہ دوسری جماعت میں پڑھتا تھا۔
رات کے نو بج گئے تھے۔اس کی امی عام طور پر دس بجے کے بعد سو جاتی تھیں،مگر اس رات ان کی طبیعت قدرے خراب تھی،اس لیے تقریباً آٹھ بجے ہی سو گئی تھیں۔اگر گھر میں بجلی کی روشنی ہوتی تو راشد اپنی عادت کے مطابق کوئی نہ کوئی کتاب پڑھتا اور کتاب پڑھتے پڑھتے سو جاتا،لیکن خاطر خواہ روشنی نہ ہونے کی وجہ سے کچھ بھی پڑھنا اس کے لئے مشکل تھا اور چونکہ اسے نیند بھی نہیں آرہی تھی،اس لیے کرسی پر بیٹھا بیٹھا کتابوں کے بارے میں یا دوستوں کے متعلق سوچ رہا تھا۔سوچتے سوچتے اسے اچانک ایک واقعہ یاد آگیا،جو کئی سال پہلے اسے اس کی امی نے سنایا تھا۔
امی نے بتایا تھا کہ بہت پہلے بھی ایک سرد اور طوفانی رات کو آج ہی کی طرح بجلی بند ہو گئی تھی۔گھر میں کوئی لالٹین بھی نہیں تھی کہ اسے جلا کر روٹی وغیرہ تیار کر لیتی۔اندھیرا بہت زیادہ تھا۔ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا۔تم اپنی خالہ کے گھر گئے ہوئے تھے۔گھر میں کھانے کے لیے روٹی کا ایک سوکھا ٹکرا تک نہ تھا،ایسے میں مجھے کھانے سے زیادہ تمہاری فکر ستا رہی تھی کہ کہیں مجھے اپنے پاس نہ پاکر تم رو نہ رہے ہو۔ایک مرتبہ میں نے گھر سے باہر نکلنے کی کوشش بھی کی کہ خود تمہاری خالہ کے ہاں جا کر تمہیں دیکھ آؤں یا اپنے ساتھ لے آؤں،مگر جیسے ہی پاؤں دروازے سے باہر رکھا،میرا پاؤں گھٹنے تک پانی کے اندر چلا گیا۔اس حالت میں باہر جانا میرے لیے ممکن ہی نہ تھا۔پریشان بیٹھی ہوئی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔میں اس طرف گئی تو آواز آئی:”بہن جی! آپ کو کوئی مشکل تو نہیں۔کوئی کام ہو تو بتائیے،میں حاضر ہوں۔“
میں سخت پریشان تھی اس لیے اسے بتا دیا کہ میرا بیٹا اپنی خالہ کے ہاں نہ جانے کس حال میں ہے،اس کی بڑی فکر ہے۔اس شخص نے میری بہن کا پتا پوچھا اور چلا گیا۔میں اس کی شکل نہ دیکھ سکی۔لالٹین تو اس کے ہاتھ میں ضرور تھی،مگر اس کی روشنی صرف زمین پر پڑرہی تھی۔
وہ اجنبی شخص چلا گیا۔آدھے گھنٹے بعد دروازے پر دوبارہ دستک ہوئی۔دروازے پر گئی تو وہی آواز پھر آئی:”بہن جی! آپ کا بیٹا آپ کی بہن کے ہاں گہری نیند سو رہا ہے۔آپ اس کی فکر بالکل نہ کریں۔لگتا ہے آپ کھانے پینے کا انتظام نہیں کر سکیں،اس لیے میں کچھ کھانے کے لئے لے آیا ہوں اور یہ لالٹین بھی اپنے پاس ہی رکھ لیں۔میں آسانی سے چلا جاؤں گا۔“
یہ کہہ کر اس نے لالٹین دروازے پر رکھ دی اور اس کے ساتھ ہی رومال میں لپٹی ہوئی کوئی شے بھی۔اب کے بھی میں نہ تو اس کی صورت دیکھ سکی اور نہ ہی پوچھ سکی کہ اچھے بھائی! آپ کون ہیں؟کہاں رہتے ہیں؟آپ کی لالٹین کہاں واپس کی جائے؟“
یہ واقعہ جو راشد کی امی نے اسے کبھی سنایا تھا جانے کیسے اس رات اسے یاد آگیا۔
دروازے کے پاس لالٹین جل رہی تھی اور بادل زور سے گرج رہے تھے۔بجلی چمکتی تو کمرے کے سامنے والی دیوار ایک لمحہ کے لئے روشن ہوجاتی۔راشد نے سوچا یقیناوہ رات بھی ایسی ہی طوفانی رات ہوگی اور جس طرح میں جاگ رہا ہوں، اس رات امی بھی اسی طرح جاگ رہی ہوں گی۔
”کیا آج رات بھی دروازے پر دستک ہوگی؟“اس نے سوچا،”نہیں اب ایسا نہیں ہوگا،کیونکہ نہ تو امی بھوک سوئی ہیں اور نہ میں بھوکا رہ کر جاگ رہا ہوں۔ہمیں کوئی فکر بھی نہیں ہے۔“
اس نے اپنے سوال کا خود ہی جواب دے دیا۔
اس وقت اس کی نظر اوپر اٹھی اور پھر ایک اور سوال نے اس کے ذہن میں سر اٹھانا شروع کردیا۔کیایہی وہ لالٹین ہے جو اس رات اجنبی شخص نے امی کو دی تھی؟ہوسکتا ہے وہی ہو،کیونکہ امی اس کی بڑی حفاظت کرتی ہیں۔بجلی چلی بھی جائے تو موم بتی جلا کر کام چلا لیتی ہیں۔یہ لالٹین عام طور پر نہیں جلاتیں۔
”تو آج کیوں جلائی ہے؟“راشد نے خود سے سوال کیا۔
”ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ یہ رات بھی اس رات جیسی ہی طو فانی ہے اور امی کو خیال ہوگا کہ شاید وہ اجنبی اپنی لالٹین لینے کے لیے آ جائے۔“
رات آہستہ آہستہ بیت رہی تھی اور راشد کے ذہن میں اٹھنے والے کئی سوالات اسے بے چین کر رہے تھے۔ایسے میں وہ کرسی سے اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگا۔وہ یہ سوچ رہا تھا کہ کہیں یہ لالٹین یونہی بے کار تو نہیں جل رہی۔ہوسکتا ہے،جس طرح اس رات میری امی میری طرف سے فکر مند تھیں اور بھوکی بیٹھی ہوئی تھیں،میرے محلے میں بھی کہیں کوئی ایسا گھر ہو،جس میں کوئی ضرورت مند پریشان ہو اور اس وقت اس کی ضرورت کے پورا ہونے کا امکان بھی نہ ہو۔
بہت دیر تک ٹہلنے کے بعد وہ کچھ سوچ کر امی کے پاس گیا۔اس کا خیال تھا کہ امی گہری نیند سو رہی ہیں،مگر اس وقت ا سے حیرت ہوئی جب اس نے دیکھا کہ امی کی آنکھ کھلی ہوئی ہے اور وہ اسے دیکھ رہی ہیں۔
”کیوں راشد بیٹا! کیا بات ہے،سوئے نہیں ابھی تک؟“
”نہیں امی! نیند نہیں آ رہی۔“
امی اٹھ کر بیٹھ گئیں۔
”نیند کیوں نہیں آرہی؟“انہوں نے فکرمند انہ انداز میں پوچھا۔
راشد نے بتایا:”امی! مجھے اس رات کا واقعہ یاد آ گیا،وہ واقعہ امی! جس میں ایک اجنبی شخص نے آپ کی مدد کی تھی۔آپ کو کھانا لا کر دیا تھا اور یہ لالٹین بھی آپ کے لیے چھوڑ گیا تھا۔“
”ہاں بیٹا! دنیا میں ایسے نیک لوگ بھی ہوتے ہیں۔کوئی فرشتہ تھا اللہ کا۔میں جان ہی نہ سکی کہ کون ہے اور کون نہیں۔“
راشد چند لمحے خاموش رہنے کے بعد بولا:”امی! یہ بھی تو ممکن ہے کہ ہمارے آس پاس بھی کوئی ایسا ہی گھر ہو،جسے اس وقت کسی مدد کی ضرورت ہو؟“
امی نے راشد کو بازو پھیلا کر گود میں لے لیا:”ہوسکتا ہے بیٹا؟“
”مجھے اجازت دیں امی! میں لالٹین لے کر باہر جاؤں اور کسی کو میری ضرورت ہو تو اس کی مدد کروں۔“
امی سوچ میں پڑ گئیں۔
”امی سوچیے نہیں۔آپ ہی نے تو کہا تھا کہ دنیا میں نیک لوگ بھی ہوتے ہیں۔تو کیا آپ کا بیٹا ان نیک لوگوں میں شامل نہیں ہو سکتا۔“
امی نے اس کے جواب میں بیٹے کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھرتے ہوئے کہا:”جاؤ بیٹا!لالٹین لے جاؤ۔ اللہ تمہاری حفاظت کرے۔“
راشد لالٹین کی مدھم روشنی میں ایک کچے راستے پر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔اس وقت تک وہ جہاں جہاں سے گزرا تھا،تقریباً سبھی گھروں میں روشنی دیکھی تھی۔گھروں کے اندر سے آنے والی آوازیں بھی سنی تھیں۔اپنے محلے سے نکل کر وہ دوسرے محلے میں چلا گیا۔ایک گلی سے گزرتے ہوئے وہ ایک ایسی جگہ پہنچ گیا جہاں روشنی بالکل نہ تھی۔
”ان مکانوں کے اندر کیا لوگ نہیں رہتے!“
یہ سوال اس کے ذہن میں آیا اور اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی لالٹین کی روشنی میں ایک دروازے پر دستک دی۔
”کون ہے؟“یہ آواز کسی بوڑھے آدمی کی معلوم ہوتی ہے!! راشد نے سوچا۔
”جی میں ہوں۔“
”میں کون؟“
”جی راشد۔“
پھر کئی منٹ یوں ہی گزر گئے۔آخر کا ردروازہ کھلا۔راشد نے اپنے سامنے ایک کمزور اور نحیف بوڑھے کو دیکھا۔
”کون ہو تم اور کیا چاہتے ہو؟“بوڑھے نے پوچھا۔
”جناب،رات طوفانی ہے،ایسی رات میں گھر سے باہر نکلنا ذرا مشکل ہے۔آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتائیے۔“
اس لمحے بوڑھے نے جھک کر راشد کو دیکھا ، کچھ توقف کیا اور کہا:”اگر ایسا ہے تو مجھے بازار سے کچھ کھانے کے لئے لادو۔اللہ تمہارا بھلا کرے گا۔“
”ضرور لا دوں گا جناب! مجھے ایک دکان کا علم ہے جو رات بھر کھلی رہتی ہے۔“
”بڑی مہربانی۔یہ لو پیسے۔میرے لئے ایک بن کافی ہوگا۔“بوڑھے نے کرتے کی جیب میں ہاتھ ڈالا۔
”نہیں،بابا جی! میرے پاس اتنے پیسے ہیں کہ آپ کے لئے بن خرید سکوں۔“یہ کہہ کر راشد چل پڑا۔
راشد نے سن رکھا تھا کہ اسپتال کے پاس چند ایسی دکانیں ہیں جو رات بھر کھلی رہتی ہیں۔ایک دکان پر بسکٹ وغیرہ بھی فروخت ہوتے ہیں۔یہ دکانیں وہاں سے کافی دور تھیں۔کیچڑ میں چلنا ویسے ہی مشکل تھا اور اندھیری رات میں تو یہ کام اور بھی مشکل تھا۔راشد ایک بار گر بھی پڑا،مگر اس نے ہمت نہ ہاری اور اپنی منزل پر پہنچ گیا۔وہاں ایک دکان سے اس نے بن،مکھن اور کچھ بسکٹ خریدے اور واپس چلنے لگا۔آدھے پونے گھنٹے کے بعد وہ دوبارہ بوڑھے کے دروازے پر آ گیا۔
”لیجئے باباجی!“
”شکریہ میرے بیٹے! اللہ تیرا بھلا کرے۔“
بوڑھا،راشد کو اپنے کمرے میں لے گیا۔راشد کو چارپائی پر بٹھایا اور خود کھانا شروع کیا۔جب پیٹ بھر گیا تو وہ بولا:”بیٹا! یہ عجیب بات معلوم ہوتی ہے۔“
”کونسی بات باباجی؟“
”بیٹا!آج سے کئی برس پہلے میں نے بھی ایسی ہی ایک طوفانی رات میں ایک عورت کے لئے کھانے کا انتظام کیا تھا۔“
”تو آپ….؟“راشد فقرہ بھی مکمل نہ کر سکا۔یہ سن کر اسے سخت حیرت ہوئی اور وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
”بابا جی! کوئی اور خدمت؟“
”نہیں بیٹا! بہت بہت شکریہ۔“
”ارے بیٹا! لالٹین تو لیتے جاؤ۔“بوڑھے نے راشد کو لالٹین کے بغیر جاتے ہوئے دیکھ کر کہا۔
”باباجی! یہ لالٹین آپ ہی کی ہے۔“اور راشد نے ساری بات سنا دی۔
بوڑھے نے لالٹین اٹھا لی۔
”بیٹا! میں بوڑھا ہو چکا ہوں۔بیمار بھی رہتا ہوں۔مجھے اس کی ضرورت بھی نہیں۔یہ لالٹین تم جیسے نوجوانوں کے لیے ہے۔ہاں اگر ممکن ہو تو روشنی کی علامت کو ایک کے بعد دوسرے ہاتھ میں منتقل کرتے رہنا۔“