ایک پہاڑ اور گلہری
علامہ محمد اقبال
کوئی پہاڑ یہ کہتا تھا ایک گلہری سے
تجھے ہو شرم، تو پانی میں جا کے ڈوب مرے
ذرا سی چیز ہے اس پر غرور ! کیا کہنا
یہ عقل اور یہ سمجھ ! یہ شعور کیا کہنا
خدا کی شان ہے نا چیز چیز بن بیٹھیں
جو بے شعور ہوں یوں با تمیز بن بیٹھیں
تیری بساط ہے کیا میری شان کے آگے؟
زمیں ہے پست میری آن بان کے آگے
جو بات مجھ میں ہے تجھ کو وہ ہے نصیب کہاں
بھلا پہاڑ کہاں ، جانور غریب کہاں
کہا یہ سُن کے گلہری نے، منہ سنبھال ذرا
یہ کچی باتیں ہیں دل سے ا نھیں نکال ذرا
جو میں بڑی نہیں تیری طرح تو کیا پروا
نہیں ہے تُو بھی تو آخر میری طرح چھوٹا
ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے
کوئی بڑا کوئی چھوٹا یہ اس کی حکمت ہے
بڑا جہان میں تجھ کو بنا دیا اُس نے
مجھے درخت پر چڑھنا سکھا دیا اُس نے
قدم اٹھانے کی طاقت نہیں ذرا تجھ میں
نری بڑائی ہے ! خوبی ہے اور کیا تجھ میں
جو تُو بڑا ہے تو مجھ سا ہُنر دکھا مجھ کو
یہ چھا لیا ہی ذرا توڑ کر دکھا مجھ کو
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی بُرا نہیں قدرت کے کار خانے میں