ایک نمبر
آر ایم راہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوید اسکول کے سہہ ماہی ٹیسٹ کے لیے پھر تیاری کر رہا تھا۔ اسے کسی اور چیز کا ہوش ہی نہیں تھا۔ کھیل کو د کو بالکل ہی خیر باد کہہ دیا تھا۔ اس کے دوست اسے کرکٹ کھیلنے کے لیے بلانے آتے اور وہ یہ کہہ کر کہ ’’میں ٹیسٹ کی تیاری کر رہا ہوں۔‘‘ انہیں مایوس لوٹا دیتا۔ اس کے دوست کہتے ایسا پڑھا کو تو نہ دیکھا نہ سنا۔
دراصل یہ سب کچھ صرف ایک نمبر کے لیے ہورہا تھا۔ حیران ہوگئے ناکہ صرف ایک نمبر کے لیے اتنی تیاری۔ دراصل ہر انسان کا ایک نمبر ہوتا ہے، اگر وہ اسے پہنچان لے تو پھر کامیابی اس کے قدم چومتی ہے، بات یہ تھی کہ اس کا ایک کلاس فیلو سہیل اس کی طرح ذہین اور محنتی تھا۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ہر ٹیسٹ میں سہیل ایک نمبر اس سے زیادہ لیتا تھا اور یوں نوید دوسرے نمبر پر آتا تھا۔ بس اسی ایک نمبر کے حصول کے لیے وہ اتنی تنگ ودو کر رہا تھا۔ وہ سوچتا کہ سہیل آخر کیوں ہمیشہ اس سے ایک نمبر آگے ہوتا ہے۔ اس ایک نمبر نے اسے پریشان کردیا تھا۔
پھر یہ ہوا کہ ٹیسٹ کا دن آگیا اور گزر بھی گیا۔ نوید ٹیسٹ دے کر خوش خوش گھر کی طرف ہولیا۔ اگلے دن نتیجہ ملنے کو تھا اور وہ سوچ رہا تھا کہ اب کہ یہ ایک نمبر اس کے قبضے میں ہوگا۔ اسی ایک نمبر کے لیے ہی تو اس نے زبردست تیاری کی تھی۔ چلتے چلتے جب کسی نے اسے آواز دی تو وہ ٹھہر گیا۔ مڑ کر دیکھا تو اس کے ایک نمبر کا ڈاکو یعنی سہیل کھڑا مسکرارہا تھا۔ آج اس کے چہرے پر بھی خوشی کے سائے لہرا رہے تھے۔ مسکراتے ہوئے اس کے سفید دانتوں کی چمک بھی دکھائی دے رہی تھی۔ اس کی ایک خوبی تھی جسے ہر ایک پسندیدگی کی نظر سے دیکھتا تھا، اور وہ تھی اس کی صفائی پسندی، آج اس کا لباس بھی معمول سے کچھ زیادہ ہی دمک رہا تھا، بالکل اس کے خوش خوش چہرے کی طرح سہیل کہتا تھا، مجھے میل اور گندگی سے سخت نفرت ہے۔
جب سہیل اس کے قریب آگیا تو نوید نے چہک کر پوچھا۔ ’’کیوں بھئی ، مجھ سے کیا کام پڑ گیا، میرے ایک نمبر کے ڈاکو!‘‘
سہیل نے اس کی بات پر قہقہہ لگا کر کہا۔ ’’لگتا ہے اس بار یہ ایک نمبر تم لے اڑو گے۔ تم نے تیاری بھی تو مجھ سے زیادہ کی ہے۔‘‘
’’بس ڈاکو جی، اپنی طرف سے تو بھرپور کوشش کی ہے۔ اب آگے اللہ مالک ہے۔‘‘ نوید نے مسکراتے ہوئے کہا۔
سہیل بولا۔ ’’بھئی اپنا یہ قلم لو، تم کلاس میں بھول آئے تھے۔‘‘
’’اوہ۔۔۔ شکریہ بھئی شکریہ۔‘‘ نوید نے چونک کر کہا اور قلم جیب میں ڈالنے لگا، سہیل بولا۔ ’’ ارے یہ تمہاری جیب اتنی گندی کیوں ہے۔ اوہ یہ تو قلم کی سیاہی ہے۔‘‘
’’ہاں یار، وہ کیا ہے کہ قلم کا ڈھکن کھل گیا تھا۔ ’’نوید نے شرمندگی سے کہا۔
سہیل نے کہا۔‘‘ یار اب تم بچے تو نہیں رہے ہو، صفائی ستھرائی کا خیال رکھا کرو، دیکھو کتنا برا لگ رہا ہے۔‘‘
’’وہ کیا ہے کہ۔ ‘‘ نوید کہنے لگا۔ ’’پتا نہیں یہ صفائی مجھے کیوں اتنی مشکل لگتی ہے۔ مجھ سے تو صفائی کا خیال نہیں رکھا جاتا۔‘‘
’’ہاں اور یہی وجہ ہے کہ تم اکثر بیمار رہتے ہو۔ ‘‘ سہیل نے لقمہ دیا۔
’’یہ تو ہے‘‘ نوید نے سرہلا کر کہا۔ ’’لیکن ۔۔۔ خیر میں کوشش کروں گا۔‘‘
اس نے کہا اور سہیل سے ہاتھ ملا کر اپنے راستے پر مڑ گیا، سہیل اسے جاتا دیکھتا رہا ، پھر افسوس کے ساتھ سرہلاتے ہوئے اپنے گھر کی طرف ہولیا۔
اگلے دن کلاس ٹیچرز نے ٹیسٹ کے نتائج کا اعلاج کیا تو حسب سابق سب سے زیادہ نمبر لینے والا سہیل ہی تھا، نتیجہ سنتے ہی نوید کے چہرے پر افسردگی پھیل گئی۔ اس کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو ہوگئے۔ اس نے سوچا میں نے اتنی شدید محنت کی، اتنی سخت تیاری کی، تمام سوالات کے جوابات بالکل درست دیئے پھر کیا وجہ ہے کہ سہیل اس بار بھی ایک نمبر مجھ سے زیادہ لے گیا۔ تب اسے خیال آیا کہ ٹیچر نے میرے ساتھ زیادتی کی ہے۔ یہ سوچتے ہی وہ اپنی جگہ سے ایک دم اٹھا اورٹیچر کو مخاطب کر کے بولا۔‘‘ سر! میں کچھ پوچھنا چاہتا ہوں‘‘
ٹیچر اس کی طرف متوجہ ہوگئے۔‘‘ ہاں نوید بیٹا، پوچھو، کیاپوچھنا چاہتے ہو؟‘‘
چندلمحوں کے لیے تو وہ چپ چاپ کھڑا رہا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کس طرح بات کرے، پھر ہمت کر کے بولا۔ ’’سر! رزلٹ میں میرے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔‘‘
یہ سننا تھا کہ ساری کلاس کو سانپ سونگھ گیا ۔ ٹیچر الگ سے سناٹے میں آگئے۔ وہ اس بات پر جز بز ہوگئے اور جلدی سے اپنی عینک آنکھوں پر درست کر کے بولے۔‘‘ برخوردار! ذرا وضاحت سے سمجھائیے، آپ کے ساتھ کیا زیادتی ہوئی ہے؟‘‘
نوید نے جی کڑا کر کے کہا۔’’ میں نے اس ٹیسٹ کے لیے دن رات ایک کر دیئے تھے، پرچے میں جوابات لکھتے ہوئے میں نے کوئی کسر نہ چھوڑی اور نتیجہ نکلا تو اس کے باوجود ایک نمبر سہیل ہی کو زیادہ ملا۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے۔ وہ کیوں ایک نمبر زیادہ کا مستحق ٹھرتا ہے؟‘‘
’’تو یہ بات ہے۔‘‘ ٹیچر نے اطمینان کا سانس لے کر کہا اور کرسی پر بیٹھ گئے۔ ایک بار پھر عینک ناک پر درست کر کے بولے۔ ’’برخوردار! بات دراصل یہ ہے کہ آپ کے اور سہیل کے نمبر تو یقیناًایک جیسے آنے چاہئیں لیکن پھر بھی وہ ایک نمبر زیادہ کا مستحق ہے۔‘‘
’’آخر کیوں؟‘‘ نوید سے رہا نہ گیا۔
’’یہی پوچھنا چاہتے ہونا۔‘‘ ٹیچر بولے۔‘‘ تو سنو اس ایک نمبر کاراز ہے صفائی ستھرائی میں۔ آپ کی کاپی میں جابجا سیاہی کے دھبے پڑے ہوتے ہیں۔ آپ کہیں بھی صفائی کا خیال نہیں رکھتے۔ جب کہ سہیل نہ صرف اپنی صفائی کا خیال رکھتا ہے بلکہ اس کی کاپی بھی بالکل صاف ستھری ہوتی ہے، اس کی لکھائی بھی صاف اور واضح ہوتی ہے۔ بس یہ ایک نمبر اسی صفائی کا ہے۔۔۔ اب سمجھ گئے نا!‘‘ یہ سننا تھا کہ نوید پر گھڑوں پانی پھر گیا۔ شرم سے اس کا سر جھک گیا۔
ء۔۔۔ء