ایک کوڑی اور مکاٹو
نعمان احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مکاٹو کو ایک کوڑی ملی جس سے وہ زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک لڑکا تھا جس کا نام مکاٹو تھا۔ وہ ایک یتیم بچہ تھا۔ اس کے ماں باپ اس کے بچپن ہی میں مرگئے تھے۔ اس کی دیکھ بھال کرنے کے لئے نہ کوئی بہن بھائی تھے نہ رشتہ دار اور دوست۔ اسے اپنے لئے آپ ہی کمانا پڑتا تھا۔ اس نے ہر طرح کے کام کئے۔ کبھی وہ روزی کمانے کے لئے لوگوں کا بھاری سامان ڈھوتا، کبھی جنگل صاف کرتا اور کبھی جانوروں کو راتب کھلاتا۔ اس نے ہر کام کیا۔ وہ کبھی نچلا نہیں بیٹھا۔ وہ کام چور بھی نہیں تھا۔ ہر کام دل لگا کر کرتا۔ اگرچہ سخت محنت مزدوری کے بعد اسے تھوڑی سی رقم ملتی، وہ پھر بھی خوش رہتا۔ اسے معلوم تھا کہ اگر میں کام نہیں کروں گا تو بھوکوں مروں گا۔ وہ جو کام بھی کرتا سوچ سمجھ کر اور محنت سے کرتا۔ وہ بہت خوش مزاج اور ہنس مکھ بھی تھا۔ چنانچہ وہ جس کے ہاں بھی کام کرتا، وہ اس کی تعریف کرتا۔
ایک سہانی شام وہ لکڑی کا ایک بہت بڑا تنا کاٹ کر فارغ ہوا، تو ذرا سانس لینے کے لئے بیٹھ گیا۔ یوں بیٹھے بیٹھے وہ سوچنے لگا کہ مجھے آئندہ کیا کرنا چاہئے۔ وہ انجانے دور دراز علاقوں میں جاکر اپنی قسمت آزمانا چاہتا تھا، کیونکہ اسے نئے نئے کام کرنے کا بہت شوق تھا۔
اس کے مالک نے آکر پوچھا ’’میرے بچے! تم اتنے دھیان سے کیا سوچ رہے ہو؟‘‘
مکاٹو نے شمال مشرق کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’میں وہاں جانا چاہتا ہوں۔ میں نے سنا ہے وہاں کی زمین بہت زرخیز ہے اور وہاں کے لوگ بہت نیک اور رحم دل ہیں۔ کاش میں یہ علاقہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا!‘‘ یہ کہہ کر اس کی آنکھیں شوق سے چمک اُٹھیں۔
مالک بولا ’’جس جگہ تم جانا چاہتے ہو اس کا نام سوکھو تھائی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ سوکھو تھائی کا بادشاہ پرا روانگ بہت ہی رحم دل ہے۔ اگر تم وہاں پہنچ سکو تو شاید تمہاری قسمت چمک اُٹھے‘‘۔
کچھ دنوں بعد مکاٹو نے قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے اپنا گاؤں چھوڑا اور دنیا کی سیر کو نکل کھڑا ہوا۔ وہ مزے لے لے کر نئے اور دلچسپ نظارے دیکھتا، راستے میں لوگوں سے ملتا آگے ہی بڑھتا رہا۔ ایک مہینے کے سفر کے بعد وہ سوکھو تھائی کی سلطنت کی سرحد پر ایک گاؤں میں پہنچ گیا۔
مکاٹو کو ایک بوڑھی عورت دکھائی دی جو پانی کا ایک بہت بڑا گھڑا سر پر رکھے جارہی تھی۔ مکاٹو نے اس سے کہا ’’کیا مجھے ذرا سا پانی پینے کو مل جائے گا؟ مجھے سخت پیاس لگی ہے‘‘۔
بوڑھی عورت نے ایک چھوٹے سے پیالے میں مکاٹو کو پانی دیا، پھر اُس سے پوچھا ’’تم کہاں سے آئے ہو؟ تم بالکل اکیلے کیوں ہو؟ یوں لگتا ہے جیسے تم بہت دور سے آئے ہو‘‘۔
مکاٹو نے پانی پی کر کہا ’’بہت بہت شکریہ!‘‘
بوڑھی عورت نے پھر پوچھا ’’تمہارے ماں باپ کون ہیں؟ کیا تمہارا کوئی رشتہ دار نہیں ہے؟‘‘
مکاٹو نے بتایا ’’نہ میری ماں ہے اور نہ باپ۔ میں مون شہر سے آیا ہوں‘‘۔
’’او میرے خدا! کیا تم واقعی مون شہر سے آئے ہو؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ نہ تم اکیلے سفر کررہے ہو! تم تو اتنے چھوٹے ہو!‘‘
مکاٹو بولا ’’میں سوکھو تھائی کے پراروانگ کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ لوگ کہتے ہیں کہ وہ بہت رحم دل بادشاہ ہیں‘‘۔
بوڑھی عورت نے کہا ’’تم بہت ہمت اور پکے ارادے والے لگتے ہو! آؤ میرے ساتھ۔ کسی کو کیا پتہ، شاید تم پرا روانگ کو دیکھ ہی لو‘‘۔
مکاٹو خوشی خوشی بڑھیا کے ساتھ چلا گیا۔ اس نے سوچا اگر میں اس رحم دل بڑھیا کا کام کروں گا تو مجھے سونے کو جگہ، کھانے کو روٹی تو مل ہی جائے گی اور شاید کسی نہ کسی دن قسمت نے ساتھ دیا تو بادشاہ کو دیکھنا بھی نصیب ہوجائے۔
بڑھیا کا شوہر، پراروانگ کا ایک مہاوت تھا۔ وہ بادشاہ کے دوسرے مہاوتوں کے ساتھ مل کر بادشاہ کے سیکڑوں ہاتھیوں کی دیکھ بھال کرتا۔ مکاٹو اس کام میں اس کا ہاتھ بٹانے لگا۔ وہ ہاتھیوں کے لئے راتب لانے اور ہاتھیوں کے تھان کی صفائی ستھرائی میں اس کی مدد کرتا۔ وہ بہت محنت سے اور دل لگا کر کام کرتا۔ مہاوت اور اس کی بیوی دونوں ہی اس کو بہت پیار کرتے تھے۔
ایک دن آسمان بالکل صاف تھا اور موسم بہت ہی سہانا تھا۔ نہ جانے کیو ں مکاٹو کو یوں لگ رہا تھا کہ آج کا دن بہت نیک ہے۔ جب وہ ہاتھیوں کے تھانوں کی صفائی کررہا تھا تو ایک لمبے قد کا آدمی اندر آیا۔ اس نے بہت ہی شاندار لباس پہن رکھا تھا اور اس کے ساتھ کئی نوکر چاکر تھے۔ یہ پراروانگ خود تھا۔ مکاٹو نے فوراً ہاتھ جوڑ کر اسے جھک کر سلام کیا۔ اس وقت اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔
بڑھیا کا شوہر بھی وہاں موجود تھا، بادشاہ نے اس سے پوچھا ’’یہ لڑکا کہاں سے آیا ہے؟‘‘
مہاوت نے ادب سے جھک کر بتایا ’’یہ لڑکا مون شہر سے آیا ہے۔ اس نے آپ کی تعریف سنی تھی۔ یہ آپ کو دیکھنے کے شوق میں اتنا راستہ پیدل چل کر یہاں پہنچا ہے‘‘۔
’’اس کی عمر کیا ہوگی؟‘‘
’’بادشاہ سلامت! بارہ سال‘‘۔
بادشاہ نے خوش ہوکر کہا ’’خوبصورت اور محنتی لڑکا ہے۔ تم اس کا اچھی طرح خیال رکھنا‘‘۔
جیسے ہی بادشاہ باہر گیا، مکاٹو نے زمین پر ایک کوڑی پڑی دیکھی۔ اس نے فوراً وہ کوڑی اُٹھائی اور بھاگ کر بادشاہ کی خدمت میں جا پیش کی۔ مگر بادشاہ نے مسکراتے ہوئے کہا ’’یہ تم رکھ لو‘‘۔
مکاٹو نے سوچا ’’آہا۔ مزا آگیا۔ بادشاہ نے مجھے ایک کوڑی دی ہے‘‘۔
اس زمانے میں سوکھو تھائی کے لوگ کوڑی کو سکے کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ اگرچہ ایک کوڑی کی ذرا سی حیثیت تھی، پھر بھی مکاٹو تو اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانا چاہتا تھا، کیونکہ یہ تو بادشاہ کا دیا ہوا تحفہ تھا۔ بہت عرصے تک اسے کوئی ایسی تدبیر نہ سوجھی جس سے وہ اس ایک کوڑی سے زیادہ سے زیادہ کما سکتا۔
ایک دن بازار میں وہ پودوں کے بیجوں کی دکان کے سامنے سے گزرا۔ اس نے دکان پر نگاہ ڈالی۔ وہاں اس نے ایک ٹوکری دیکھی جو سلاد کے بیجوں سے بھری ہوئی تھی۔ اس نے سوچا ’’سلاد! ایسے چھوٹے چھوٹے پودے تو میں بھی اُگا سکتا ہوں‘‘۔ پھر اس نے دکان پر بیٹھی ہوئی ہنس مکھ عورت سے پوچھا۔
’’کیا میں سلاد کے بیج خرید سکتا ہوں؟‘‘
اس عورت نے پوچھا ’’ہاں، بیٹا! تمہیں کتنے بیج چاہئیں؟‘‘
مکاٹو بولا ’’میرے پاس تو ایک ہی کوڑی ہے‘‘۔
عورت نے ہنسے ہوئے کہا ’’بس ایک ہی کوڑی! اس سے تو کچھ بھی نہیں خریدا جاسکتا۔ میں تو اتنے بیج تول بھی نہیں سکتی!‘‘
مکاٹو نے بہت شوق سے کہا ’’دیکھیے میں اپنی انگلی بیجوں کے اس ڈھیر میں ڈالتا ہوں اور جتنے بیج بھی انگلی سے لگ جائیں، بس وہ آپ اس کوڑی کے بدلے مجھے دے دیجئے گا‘‘۔
عورت مکاٹو کی یہ تجویز سُن کر بہت ہنسی اور بولی ’’اچھا چلو یوں ہی سہی۔ اپنی انگلی بیجوں میں ڈالو!‘‘
مکاٹو نے کوڑی عورت کو دی۔ پھر اپنی انگلی منہ میں ڈال کر گیلی کی اور بیجوں کے ڈھیر میں ڈال دی۔ جب اس نے اپنی بھیگی ہوئی انگلی ڈھیر میں سے باہر نکالی تو ساری انگلی پر بیج ہی بیج تھے۔
مکاٹو نے بہت حفاظت کے ساتھ سارے بیج اُتار کر اپنی ہتھیلی پر رکھے اور مٹھی کو مضبوطی کے ساتھ بند کرکے وہ خوشی خوشی وہاں سے چلا گیا۔
اب جو اس کے پاس بیج آگئے تو اس نے فوراً زمین میں گوڈی کی اور بیج بو دیئے۔ ہر روز صبح وہ کیاری کو پانی دیتا۔ چند ہی دنوں میں ننھے ننھے پودے نکل آئے۔ پھر مکاٹو نے کچھ اور زمین صاف کی اور کچھ اور بیج بو دیئے۔ یوں چند ہی دنوں میں پورا کچن گارڈن تیار کرلیا۔ وہ اپنے ننھے منے ہرے بھرے کھیت کو دیکھ کر بہت خوش ہوتا۔
مکاٹو نے سوچا ’’اس خوبصورت سلاد کے کچھ گچھے بادشاہ کو بھی پیش کردوں تو کتنا اچھا ہو!‘‘
ایک دن پھر بادشاہ ہاتھیوں کے تھانوں کے پاس سے گزرا۔ مکاٹو بھی موقع کے انتظار میں تھا۔ وہ اپنے گھٹنوں پر جھکا اور تازہ تازہ سلاد کے سب سے بڑے گچھے بادشاہ کی خدمت میں پیش کئے۔
بادشاہ نے حیران ہوکر پوچھا ’’یہ تمہیں کہاں سے ملی؟‘‘
مکاٹو نے خوشی سے مسکراتے ہوئے کہا ’’بادشاہ سلامت! وہ کوڑی جو آپ نے مجھے بخشی تھی، میں نے اس سے بیج خریدے اور یہ سلاد اُگائی‘‘۔
بادشاہ نے حیران ہوکر پوچھا ’’مگر کیسے؟ ایک کوڑی میں یہ سب کیسے ممکن ہوا؟‘‘
مکاٹو نے بادشاہ کو ساری کہانی سنادی۔ بادشاہ کو اس کی عقل مندی اور محنت بہت پسند آئی اور اس نے مکاٹو کو محل میں نوکر رکھ لیا۔
کئی سال اسی طرح گزر گئے۔ مکاٹو اب ایک تندرست، خوبصورت لمبا جوان آدمی بن چکا تھا۔ بادشاہ جو کام بھی اسے سونپتا وہ پوری محنت اور سلیقے سے کرتا۔ بادشاہ اس پر بھروسہ کرنے لگا۔ اسے بڑے سے بڑا عہدہ ملتا گیا، یہاں تک کہ اسے ’’کھن وانگ‘‘ کا خطاب ملا، جس کا مطلب تھا کہ وہ بادشاہ کے دربار میں سب سے اہم آدمی ہے۔ اور بالآخر بادشاہ نے اسے مون شہر کا حاکم بھی بنادیا۔
مون شہر کا وہی یتیم بچہ جس کا دنیا میں کوئی نہیں تھا اپنی محنت اور لیاقت سے وہاں کا بادشاہ بن گیا۔
*۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔*
یہ تمام ٹیمیں تیاریوں کا آغاز کردیتی ہیں اور مختلف سخت مراحل سے گزر کر عالمی کپ تک پہنچتی ہیں اور مین راؤنڈ تک پہنچ کر اپنا پورا زور لگاتی ہیں کہ وہ آخری روز کا میلہ لوٹ لیں، فتح کا تاج اپنے سر پر سجائے وطن واپس لوٹیں اور قومی ہیرو بن جائیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ عالمی کپ ہے کیا بلا؟ اور یہ ٹرافی کہاں سے آئی؟ اس کی ابتداء کیسے ہوئی اور اس پر کیا بیتی؟ دراصل یہ ڈیڑھ دو صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں۔ 19 ویں صدی کے آخر میں انگلینڈ سے اپنی ابتداء کرنے والے کھیل فٹ بال کو ابتدائی طور پر روئی کے گالوں اور گول پھلوں سے کھیلا جاتا تھا، 20 ویں صدی کے آغاز میں اس کھیل نے مقبولیت کی جانب اپنا سفر شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یورپ کے دوسرے ممالک میں پھیلتا چلا گیا، ایک فرانسیسی ’’جیولز ریمٹ‘‘ ان ہزاروں فٹ بال کے شوقین لوگوں کی فہرست میں ضرور شامل ہوگا جو کہ اس کھیل کو اولمپک کے اسٹائل میں دیکھنا چاہتا تھا، 1920ء میں جیولز کی کوششوں میں تیزی آگئی کہ فٹ بال کھیلنے والوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جاسکے، اس کی یہ کوششیں دس سال بعد رنگ لائیں، جب 1930ء میں یوراگوئے نے پہلے عالمی کپ کی میزبانی کا اعزاز حاصل کیا، تیرہ ٹیموں نے اس اولین عالمی کپ میں شرکت کی، اس کے بعد فرانس میں کھیلے جانے والے تیسرے عالمی کپ کے بعد 1959ء میں برازیل نے چوتھے عالمی کپ کا میزبان بننا پسند کیا، اس طرح تیسرے اور چوتھے ورلڈکپ کے درمیان بارہ سال کا وقفہ ہوا جس کی وجہ دوسری جنگ عظیم تھی، بہرحال اس کے بعد سے ہر چار سال کے بعد فٹ بال کا یہ عالمی میلہ لگنے لگا اور دنیا کے مختلف ممالک اس کی میزبانی کے حصول کی دوڑ میں شامل ہوگئے۔پہلے عالمی کپ کی ٹرافی کو مجسمہ ساز ’’ایبل لا فلور‘‘ نے سخت اور ٹھوس سونے سے تیار کیا۔یہ ٹرافی ایک آٹھ سائیڈ والا کپ ہے جس کو فتح کی دیوی نے ٹوکری اُٹھانے والے انداز میں سر پر اُٹھا رکھا ہے اور یہ دیوی انتہائی قیمتی پتھروں پر کھڑی ہوئی ہے، اس ٹرافی کا وزن چار کلوگرام اور اونچائی 30 سینٹی میٹر ہے، اس ٹرافی کا نام پہلے تین عالمی مقابلوں کے لئے فقط عالمی کپ تھا، جنگ عظیم دوئم کے بعد 1959ء میں برازیل میں کھیلے جانے والے چوتھے عالمی کپ سے اس کا خیال پیش کرنے والے فرانسیسی جیولٹ کے نام پر ’’جیولز ریمٹ کپ‘‘ رکھ دیا گیا۔ یہ ٹرافی اپنے اندر ایک عجیب داستان سموئے ہوئے ہے، یہ ٹرافی دو مرتبہ چوری بھی کی جاچکی ہے، پہلی دفعہ جب 1966ء میں لندن میں اس کو نمائش کے لئے رکھا گیا تو یہ غائب ہوگئی، برطانیہ کی ساری پولیس اور سراغ رساں ا دارے اس کی تلاش میں ناکام رہے، پھر ایک چھوٹے سے کتے نے سونگھ کر ایک باغ کی جھاڑیوں میں اس کی نشاندہی کرکے انگلینڈ کی عزت رکھ لی۔ نویں عالمی کپ کے مقابلے اس ٹرافی کے حصول کے لئے ہوتے رہے، یہ عالمی کپ 1970ء میں میکسیکو میں کھیلا گیا جسے جیت کر برازیل نے تین مرتبہ ورلڈ چیمپئن ہونے کا شاندار اعزاز حاصل کیا، اس طرح یہ ٹرافی مستقل طور پر برازیل کو دے دی گئی، مگر 1983ء میں یہ ٹرافی دوبارہ چوری کرلی گئی، اس مرتبہ چور بھی پکڑا گیا جو کہ برازیل کا ہی مقامی باشندہ تھا، لیکن افسوس اور حیرت کی بات ہے کہ ٹرافی پھر بھی نہ مل سکی، کیونکہ ملزم کے بیان کے مطابق ٹرافی اس کے گھر سے بھی کہیں غائب ہوگئی۔ برازیل کی فٹ بال فیڈریشن نے اس ہی کی طرح دوسری ٹرافی بنا کر اپنے پاس محفوظ کرلی ہے، موجودہ عالمی کپ کے فاتح کی ٹرافی فیفا نے 1974ء میں تیار کروائی، اس ٹرافی کے ڈیزائن کو پچاس سے زائد ڈیزائنوں میں سے منتخب کیا گیا اور اسے اطالوی مجسمہ ساز سیلویوگزانیکا نے 20 قیراط ٹھوس سونے سے تیار کیا اس کا وزن پانچ کلوگرام ہے اور اونچائی 36 سینٹی میٹر ہے جسے ’’فیفا ورلڈکپ‘‘ کا نام دیا گیا۔ 9 جولائی کو جرمنی کے شہر برلن میں 18 ویں عالمی کپ کی فاتح ٹیم کو ایک ارب 12 کروڑ 50 لاکھ روپے کے ساتھ یہ تاریخی ٹرافی پیش کی جائے گی۔
پہلے عالمی کپ 1930ء میں یوراگوئے میں ہونے والے فائنل میں لگ بھگ 90 ہزار تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرے ہوئے سانتاریو اسٹیڈیم میں یوراگوئے کی ٹیم پہلے ہاف تک ارجنٹائن سے 2-1 سے خسارے میں تھی، تماشائی میزبان ملک کی شکست کسی صورت بھی برداشت کرنے کے لئے تیار نظر نہیں آرہے تھے، کھلاڑیوں نے نئے ولولے سے میدان میں قدم رکھا، لیکن یوراگوئے ، ارجنٹائن کو چار گول سے شکست دے کر دنیائے فٹ بال کی پہلی عالمی چیمپئن بن گئی۔ ملک میں اس تاریخی کامیابی پر عام تعطیل کا اعلان کردیا گیا، جبکہ دوسری طرف رنر اپ ٹیم ارجنٹائن کے دارالحکومت بیونس آئرس میں مشتعل مظاہرین اپنی ٹیم کی شکست برداشت نہیں کرسکے اور انہوں نے وہاں موجود یوراگوئے کے سفارت خانے کو آگ لگادی۔
فٹ بال کی عالمی تنظیم فیفا کے زیراہتمام ہر چار سال بعد عالمی کپ منعقد ہوتا ہے جس کی میزبانی حاصل کرنے کے لئے ملکوں کے درمیان ایک مقابلہ شروع ہوجاتا ہے اور جب میزبان ملک کا اعلان کیا جاتا ہے تو وہاں باقاعدہ جشن منائے جاتے ہیں اور پھر پوری قوم تین چار سالوں میں مل کر اس عالمی ایونٹ کی تیاریوں میں لگ جاتی ہے۔ نئے اسٹیڈیم تعمیر کئے جاتے ہیں، پرانے گراؤنڈز کی گنجائش اور سہولیات میں اضافہ کیا جاتا ہے، دنیا بھر سے آنے والے شہرۂ آفاق کھلاڑیوں، آفیشلز، مہمانوں اور تماشائیوں کی خوب سے خوب تر خدمت کے لئے تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے اتنے بہتر انتظامات کئے جاتے ہیں کہ کسی کو بھی شکایت کا موقع نہ ملے اور تمام لوگ میچز کے ساتھ ساتھ ہماری مہمان نوازی کو بھی یاد رکھیں۔ فٹ بال کے کھیل کے آسمان پر مختلف ادوار مختلف کھلاڑیوں نے اپنے مسحور کن کھیل سے دنیائے فٹ بال کے شائقین کے دلوں پر راج کیا اور خوب دولت، شہرت اور عزت کمائی، اگر ہم باری باری ان کا نام لینا شروع کریں تو بات کافی آگے نکل جائے گی، لہٰذا مختصراً چند بڑے ناموں پر ہی گزارا کرتے ہیں جنہوں نے دنیا کو اپنے جادوئی کھیل سے دیوانہ بنائے رکھا، ان میں سب سے پہلے جو نام آتا ہے وہ ہے برازیلی سپر اسٹار ’’پیلے‘‘ کا جنہوں نے ایک کھلاڑی کو ہیرو کا درجہ دلانے کے رجحان اور رواج کا آغاز کیا، کھیل میں ان کی مہارت اور گرفت اس تاریخی واقعے سے ثابت ہوتی ہے جس میں ایک میچ کے دوران پیلے کی گول کی جانب لگائی گئی کک پول کے برابر سے چلی گئی، عام لوگوں کے لئے تو یہ عام سی بات تھی، لیکن دنیائے فٹ بال کے اس عظیم فٹ بالر کو اپنی پرفیکشن اور صلاحیت پر مکمل بھروسہ تھا، اسی لئے اس نے اپنی لگائی ہوئی کک کے گول سے باہر جانے کو چیلنج کردیا، دنیا حیران رہ گئی کہ اس کھلاڑی کو کیا ہوگیا؟ پیلے کا دعویٰ تھا کہ اس نے جو کک لگائی ہے وہ سیدھی گول میں جانی چاہئے تھی، گول پوسٹ کی لمبائی کو چیک کیا جائے، کیونکہ میری لگائی ہوئی یہ کک غلط نہیں ہوسکتی!!! کھیل روک دیا گیا، لوگوں کے دلوں کی دھڑکنیں بھی تیز ہوگئیں، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب کیا ہونے والا ہے؟ میچ کے منتظمین اور ریفری سر جوڑ کر بیٹھ گئے، آخر یہ فیصلہ کیا گیا کہ کھلاڑی کے چیلنج کو قبول کیا جائے اور گول پوسٹ کی دوبارہ پیمائش کی جائے اور پھر جب گول پوسٹ کو ناپا گیا تو دیکھنے والے دیکھتے رہ گئے، پیلے سو فیصد پُراعتماد تھا، حیرت انگیز اور ناقابلِ یقین طور پر گول پوسٹ چند انچ کم نکلا اور یہی چند انچ کی کمی سے بال باہر چلی گئی تھی۔ اس تاریخی واقعہ نے پیلے کو ہیرو سے دیوتا کا روپ دے دیا اور وہ صحیح معنوں میں لوگوں کے دلوں پر راج کرنے لگا۔
ارجنٹائن کے ’’میراڈونا‘‘ بھی فٹ بال کی دنیا کے بے تاج بادشاہ کہلائے، اپنے کھیل میں نت نئے انداز اور جادوئی مہارت سے مخالف ٹیموں کے لئے خطرے کا سگنل بنے رہے، بدقسمتی سے اپنے دور کے آخری حصے میں منشیات کے استعمال اور الزامات کے باعث انہیں وقت سے پہلے فٹ بال کو خیر باد کہنا پڑا۔ اس کے بعد متعدد فٹ بالرز شہرت کی بلندیوں پر نظر آئے، فرانس میں کھیلے گئے عالمی کپ 1998ء میں میزبان ملک نے ہوم گراؤنڈ اور کراؤڈ کے سامنے شاندار کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ورلڈ چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا، اس عظیم کارنامے میں مرکزی کردار ’’زین الدین زیڈان‘‘ نے ادا کیا اور اپنے کھیل سے مخالف ٹیموں کو اندوز کرایا، برازیل کے کھلاڑی’’رونالڈینو‘‘ نے بھی اپنے کھیل سے دنیا کو حیران کردیا اور اپنے دیگر شہرت یافتہ ساتھیوں رابرٹو کارلوس اور کپتان ڈونگا وغیرہ کے ساتھ مل کر برازیل کو عالمی کپ کا فاتح بنادیا، اس طرح برازیل جرمنی میں ہونے والے ورلڈکپ کی دفاعی چیمپئن ٹیم ہے جو اپنے اعزاز کا دفاع کرنے کے لئے پوری طرح تیار اور بے تاب ہے۔ انگلینڈ کے عالمی شہرت یافتہ کپتان سپر اسٹار ’’ڈیوڈ بیکھم‘‘ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں، جو بھی شخص فٹ بال سے واقف ہے وہ بیکھم کی طلسماتی شخصیت کے بارے میں ضرور جانتا ہوگا۔ فٹ بال کے آسمان پر چمکتے ان تمام ستاروں کی کہکشاں بہت جلد جرمنی کے میدانوں اور دنیا بھر کے ٹیلی ویژن کی اسکرین پر نظر آنے والی ہیں۔
بہرحال ان تمام تر تاریخی حقائق، اعداد و شمار، واقعات اور اعزازات کے باوجود اسی ماہ جرمنی میں شروع ہونے والے 18 ویں عالمی کپ فٹ بال 2006ء میں کون سا ملک فاتح ہوگا؟ اس کے لئے ہم سب کو اگلے ماہ یعنی 9 جولائی تک انتظار کرنا ہوگا، جب رنگ و نور اور انسانوں کے سیلاب میں تاریخی ٹرافی کامیاب ٹیم کو دی جائے گی۔ فٹ بال ورلڈ کپ کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی ہے جو اسے دوسرے ٹورنامنٹس سے ممتاز کرتی ہے، وہ یہ کہ اس میں شریک کوئی بھی ٹیم آسان یا ہلکی نہیں ہوتی، بلکہ ہر ٹیم ایک سے بڑھ کر ایک ہوتی ہے، یہاں مخالف ٹیم کو کمزور سمجھنے والی ٹیم شکست کا سامنا کرتی نظر آتی ہے، دنیا کی بہترین 24 ٹیمیں ایک دوسرے کے مدمقابل آرہی ہیں۔ جوش، ولولہ، تالیاں، تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرے ہوئے اسٹیڈیم، شور اور رونقیں ورلڈکپ کی جان ہیں۔ ہمارا ملک پاکستان اس کھیل میں ابھی اقوام عالم سے کافی پیچھے ہے، لیکن انشاء اللہ مستقبل میں ہمارے کھلاڑی بھی عالمی سطح پر ملک کا نام روشن کریں گے۔