ایک دن کی دوستی
نیاز محمد موسیٰ خیل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سمندروں کی لہروں سے جنم لینے والی دوستی، جو امر کہانی بن گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سمندر خاموش تھا۔ اس وقت جہاز بڑے آرام سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا۔ میں جہاز کے کیبن نمبر10 میں تھا اور میرے ساتھ ایک فلسطینی باشندہ ہم سفر تھا، جس نے باہمی تعارف کے دوران اپنا نام احمد بتایا تھا۔
اس وقت صبح کے سات بج رہے تھے۔ سورج ابھی نکلنے والا تھا، ا س لئے میں باہر نکلا اور جہاز کے عرشے پر آگیا۔ یہاں بڑا دلفریب منظر تھا۔ صبح ہوچکی تھی اور سورج آہستہ آہستہ اپنی کرنیں بکھیر رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے بہت دور مشرق کی سمت آگ کا ایک گول سا دائرہ نیلگوں پانیوں میں سے اُبھر رہا ہو۔
احمد اور میں ساؤتھ ویلز کی بندرگاہ سے اس جہاز پر سوار ہوئے تھے۔ ہمارے علاوہ جہاز میں اور بھی کافی زیادہ مسافر تھے۔ اتفاق سے ہم دونوں کو ایک ہی کیبن الاٹ ہوا تھا، یعنی کیبن نمبر10۔
احمد ایک پچیس سالہ خوش شکل اور اسمارٹ نوجوان تھا۔ اس سے باہمی تعارف کے علاوہ اور بھی کئی موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ عام طور پر، جہاں تک میرا مشاہدہ ہے، دورانِ سفر فلسطینی باشندے کافی سنجیدہ رہتے ہیں اور زیادہ گفتگو سے اجتناب برتتے ہیں۔ لیکن یہاں صورتحال مختلف تھی۔ مجھ سے زیادہ احمد بے تکلف ہوا جارہا تھا۔
’’انسان گفتگو سے پہچانا جاتا ہے‘‘۔ میں اس قول پر سو فیصد یقین رکھتا ہوں، کیونکہ میں ذاتی طور پر اس سلسلے میں کافی تجربہ رکھتا ہوں اور اب ایک اور تجربہ احمد کی صورت میں میرے سامنے تھا۔ اس سے گفتگو کرکے میں نے اندازہ لگایا کہ وہ ایک پُرخلوص اور ملنسار انسان ہے۔ ابھی ہمارے سفر کے محض چند گھنٹے ہی بیتے ہوں گے، مگر ان چند گھنٹوں میں مجھے ایسا لگا، جیسے ہم برسوں سے ایک دوسرے سے واقف ہوں۔
میں کچھ دیر عرشے پر کھڑا اس سہانے اور دلکش موسم سے لطف اندوز ہوتا رہا، پھر ناشتے کا خیال آتے ہی اپنے کیبن کی سمت ہولیا۔ وہاں جاکر احمد کو نیند سے بیدار پایا۔ وہ منہ ہاتھ بھی دھو چکا تھا اور محض میرے انتظار میں بیٹھا تھا۔ ہم دونوں جہاز کے کیفے ٹیریا گئے، لیکن وہاں کوئی خاص رش نہیں تھا۔ اِکا دُکا مسافر ناشتے میں مصروف تھے، جن میں ہم دونوں بھی شامل تھے۔ ناشتے سے فارغ ہوکر ہم باہر آئے اور فیصلہ کیا کہ عرشے پر جاکر کھلی فضا میں گفتگو کی جائے، لیکن یہ کیا!۔۔۔ دو تین گھنٹے قبل جب میں عرشے پر آیا تھا تو اُس وقت آسمان بالکل صاف اور نیلگوں تھا، لیکن اب اتنے مختصر وقت میں ہر طرف بادل ہی بادل دکھائی دے رہے تھے۔ میری حیرت احمد نے یہ کہہ کر ختم کردی کہ سمندر کے موسم پر کبھی بھی اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔
یہ بتانا میں بھول گیا تھا کہ سمندری سفر کرنے کا یہ میرا پہلا اتفاق تھا۔ شاید اسی وجہ سے بھی مجھے ہر چیز سُہانی اور عجیب لگ رہی تھی۔ گفتگو کو آگے بڑھانے کے لئے میں نے احمد کو شیکسپیئر کا ایک قول سنایا۔ شیکسپیئر نے کہا تھا ’’دنیا میں دو چیزیں پراسرار ہیں، جن میں سے ایک سمندر ہے‘‘۔
’’واقعی!‘‘ احمد مسکرایا۔ پھر بات آگے بڑھائی۔ ’’سمندر واقعی پراسرار عجوبہ ہے۔ جتنے بھی دریا اس میں مل جائیں، یہ پھر بھی پیاسا ہی رہے گا‘‘۔
ہماری بے تکلف اور دوستانہ گپ شپ ابھی جاری تھی کہ بارش شروع ہوگئی۔ ہم دوڑتے دوڑتے اور ایک دوسرے کو چھیڑتے چھیڑتے اپنے کیبن میں گھس گئے۔ بارش نے اب موسلا دھار صورت اختیار کرلی۔
میں نے سنا تھا کہ عموماً اس طرح کی بارشیں سمندروں پر طوفانی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔ یہ سوچ کر نجانے کیوں مجھے خوف لاحق ہونے لگا، جو بظاہر میرے چہرے سے صاف ظاہر ہورہا تھا۔ اسی لئے احمد غور غور سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔ خوف کے یہ عجیب آثار کم کرنے کے لئے میں نے سرہانے رکھی کتاب اُٹھائی اور اس کا مطالعہ کرنے لگا۔
کچھ دیر بعد میں نے کتاب سے نظریں ہٹا کر احمد کی طرف دیکھا۔ وہ گہری سوچوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ اسی دوران کیبن کا دروازہ زور زور سے بجنے لگا۔ احمد ایک ہی جست میں دروازے تک پہنچا اور اسے کھول دیا۔ جہاز کا کپتان اور معاون عملہ سامنے کھڑا تھا اور ایک ہی سانس میں ہمیں کیبن سے نکل جانے کی تاکید کررہا تھی، بظاہر بارش طوفانی ہوچکی تھی۔
میں اور احمد دوڑتے ہوئے باہر آئے۔ باہر آکر ایک خوفناک منظر ہمارے سامنے آکھڑا ہوا۔ بڑی بڑی اور خطرناک موجیں جہاز پر ضربیں لگا رہی تھیں، جن کی وجہ سے جہاز ہچکولے کھانے لگا تھا۔ ایسا لگتا تھا، جیسے پوری کائنات کسی جھولے میں جھول رہی ہو۔ ہر طرف ’’بچاؤ بچاؤ‘‘ کی چیخیں فضا کو چیر رہی تھیں۔ جیسے ہی ہم دونوں کیبن سے نکل کر اوپر کی طرف دوڑے، اسی لمحے ہمارے کیبن سے پانی کا ایک دیو ہیکل ریلا ’’شوں‘‘ کی آواز کے ساتھ ہماری طرف بڑھنے لگا۔ جس کا مطلب تھا کہ سمندری موجیں جہاز کے نچلے حصوں میں داخل ہوگئی تھیں۔
ہم دونوں اوپر عرشے پر آئے۔ وہاں مسافروں کا ایک جمِ غفیر دکھائی دیا۔ ہر طرف نفسا نفسی کا عالم تھا۔ میں اور احمد ایک دوسرے کے ہاتھ مضبوطی سے تھامے ہوئے تھے۔ ابھی ہم اس آفت سے بچ نکلنے کی کوئی تدبیر سوچ ہی رہے تھے کہ یکدم ’’کھرچ کھرچ‘‘ جیسی آوازیں چیخیں بن کر فضا میں گونجیں۔ اس کے بعد مجھے کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ صرف اتنا پتہ چلا کہ اب ہم سمندری پانی میں ہاتھ پاؤں مار رہے تھے۔ اوسان بحال ہوئے تو میں نے دیکھا کہ جہاز دو حصوں میں تقسیم ہوکر ٹوٹ گیا تھا اور اب رفتہ رفتہ ڈوبنے لگا تھا۔ حیرت انگیز طور پر احمد اور میں اب بھی ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ تھے۔ خوش قسمتی سے احمد کو کچھ نہ کچھ تیرنا آتا تھا اور اسی کے سہارے وہ مجھے بھی ڈوبنے سے بچانے کی کوشش کررہا تھا۔ اچانک مجھے دور کھلے سمندر میں ایک بڑا سا تختہ دکھائی دیا، جو شاید اس بدقسمت جہاز کے کسی حصے کا تھا۔ میں نے اشارہ کرکے احمد کو تختے کی طرف متوجہ کیا، جس پر وہ مجھے گھسیٹنے کے سے انداز میں اُس طرف لے جانے لگا۔ تختے کے انتہائی قریب پہنچ کر مجھے اندازہ ہوا کہ وہ تو صرف ایک ہی شخص کا بوجھ بڑی مشکل سے سہار سکتا ہے۔ میں ویسے بھی اب کافی حد تک ہار مان چکا تھا اور اب تک محض اللہ ہی کے سہارے زندہ تھا، اس لئے اخلاقی طور پر احمد کا تختے پر زیادہ حق تھا۔ دوسری طرف احمد کو تیرنا بھی آتا تھا اور جسمانی طور پر وہ مضبوط اعصاب کا مالک تھا، اس لئے امکان یہ تھا کہ وہ بچ کر نکل جانے کے قابل ہے، جبکہ میں!۔۔۔
بس یہ سوچ کر میں نے اپنے آپ سے ایک سجھوتہ کرلیا اور احمد کو آگے بڑھانے کے لئے اُس کا ہاتھ پکڑنا چاہا، لیکن یہ کیا؟۔۔۔ احمد وہاں سے غائب تھا۔ میں نے دونوں ہاتھ تختے پر رکھ کر پیچھے کی طرف دیکھا۔ میری نظر پانی کے ایک گول دائرے پر پڑی، جو بڑی تیزی سے لٹو کی طرح گھوم رہا تھا۔ یہ منظر بڑا دلخراش تھا اور مجھے یہ حقیقت بتا رہا تھا کہ احمد میری خاطر جان بوجھ کر خود کو ڈبو چکا تھا۔
میں تختے پر لیٹ گیا اور پانی مجھے نامعلوم سمت لے جانے لگا۔ میرا چہرہ آنسوؤں سے بھر گیا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ اس دوستی کو کیا نام دوں؟ ایک دن کی دوستی، یا۔۔۔۔۔۔!