ایک اور تارا
حمیرہ خاتون
…………………………………………….
سدرہ وہ بات کہہ سکتی تھی کیوں کہ وہ آج کے دور کی بچی تھی
…………………..…………………………
’’کل اسکول چلو گی؟‘‘ شاہدہ ، تارا سے پوچھ رہی تھی۔’’ہاں، کل سے چلوں گی، تم گھر آجانا لینے کیلئے۔‘‘تارا نے دھیمے لہجے میں کہا۔ تارا کے والد کا ایک ہفتہ پہلے ہی انتقال ہوا تھا لہٰذا تارا اسکول نہیں جا رہی تھی۔ تارا اور شاہدہ ایک ہی محلے میں رہتی تھیں اور ایک ہی پرائیویٹ اسکول میں جماعت نہم میں زیر تعلیم تھیں۔ تارا کا تعلق ایک متوسط طبقے کے خاندان سے تھا جہاں گزارا بڑی مشکل سے ہوتا ہے۔ تارا کی دو بہنیں اور دو بھائی اور تھے۔ بڑی بہن سارہ بی اے میں اور اس سے چھوٹی مائرہ انٹر میں تھی جبکہ دونوں چھوٹے بھائی ہفتم اور پنجم کلاس میں زیر تعلیم تھے۔ تارا کے والد ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازم تھے۔ اس کی بہنیں اور والدہ گھر پر سلائی کیا کرتی تھیں۔ تارا کے والد ایک ہفتہ قبل دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے انتقال فرما گئے تھے۔ تارا کے والد کے انتقال کے بعد زندگی ان کے لیے بہت مشکل ہو گئی تھی کیونکہ دونوں بھائی چھوٹے تھے اور گھر میں اب کمائی کا کوئی ذریعہ نہیں رہا تھا۔ ایک ہفتہ کی چھٹی کے بعد جب تارا اسکول پہنچی تو اسے پتہ چلا کہ نہم جماعت کے رجسٹریشن فارم جا رہے ہیں۔ مس نے پانچ سو روپے فیس منگوائی تھی۔ تارا جانتی تھی کہ والد کے انتقال اور سوئم پر تقریباً دس ہزار روپے خرچ ہو گئے تھے جو اس کی والدہ نے نہ جانے کب سے جمع کر رکھے تھے اور اب ان کے پاس مزیدرقم نہیں تھی۔ تارا وغیرہ کو جیب خرچ بھی کبھی کبھار ملتا تھا جو کہ وہ جمع کر لیا کرتی تھی مگر وہ بھی 230روپے تھے۔ باقی رقم کیلئے وہ کیا کرتی۔ اس نے امی سے ذکر کیا تو امی نے اسے ملک صاحب کی بیگم کے پاس بھیجا جن سے وہ سلائی کا کام لیا کرتی تھیں ۔ انہوں نے سو روپے دے دیئے یہ کہہ کر کہ باقی رقم پہلی کو لے لینا۔ تارا نے ان سے بہت درخواست کی مگر خود ان کے پاس زیادہ رقم نہیں تھی۔ کل فیس جمع کروانے کی آخری تاریخ تھی۔ تارا بے حد پریشان تھی کہ وہ کیا کرے؟ صبح حاضری کے بعد جب مس نازیہ نے تارا سے فیس کا پوچھا تو تارا کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو آگئے۔ مس اسے لے کر کلاس سے باہر چلی گئیں۔ مس نازیہ ایک رحمدل اور ہمدرد استانی تھیں۔ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ کلاس کی لڑکیوں کو تارا کو شرمندہ کرنے کا کوئی موقع ملے۔ تارا نے مس کے پوچھنے پر چپکے سے اپنی جیب سے 330روپے نکال کر ان کے ہاتھ پر رکھ دیئے اور بتادیا کہ اس کے پاس صرف اتنی ہی رقم ہے۔ مس نے گن کر رقم لے لی اور اس سے گھر کے حالات پوچھے۔ علم ہونے پر انہوں نے تارا سے کہا کہ وہ باقی رقم کی فکر نہ کرے۔ دل لگا کر پڑھے اور امتحان کی تیاری کرے کیونکہ اگلے ماہ ان کے ششماہی امتحانات شروع ہونے والے تھے اور مس چاہتی تھیں کہ وہ ہمیشہ کی طرح اوّل آئے۔ اس کے بعد اگلے ماہ مس نے اسے ماہانہ فیس کیلئے بھی نہ کہا۔ تارا بھی پڑھائی میں مگن ہو گئی تھی مگر ساتھ ہی اس نے گھر پر کے جی اور پرائمری کلاسز کے بچوں کو ٹیوشن پڑھانی شروع کر دی تاکہ وہ اپنا خرچہ خود اٹھا سکے۔ اس کی بہنیں اب بھی سلائی کیا کرتی تھیں مگر انہیں بہت کم رقم ملتی تھی۔ ملک صاحب اور ان کی بیگم سلے سلائے کپڑوں کا کاروبار کیا کرتے تھے۔ تارا کی بہنیں ان سے ہی کام لیا کرتی تھیں۔12ٹکڑوں کی پانچ عدد سلائیوں کے وہ 25روپے دیا کرتے تھے مگر ٹیڑھی میڑھی سلائی یا بڑے ٹانکے پر اعتراض کرکے اکثر رقم کاٹ لیا کرتے تھے۔ تارا کی سہیلی شاہدہ کو تارا کے گھر کے تمام حالات کا علم تھا۔ یہ تمام مڈل کلاس طبقے کے لوگ اپنے گھر کا خرچہ بڑی مشکل سے کھینچ تان کر پورا کیا کرتے تھے اور اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھا کرتے تھے۔ شاہدہ کی خالہ نے انہیں سلے سلائے کپڑوں پر شیشوں اور دھاگے کی کڑھائی کا کام بتایا جو کہ ان کے گھر کے قریب ایک سینٹر میں ہوا کرتا تھا وہ گھر پر بھی کام کرنے کو دیاکرتے تھے۔ تارا اپنی بہن سارہ کے ساتھ وہاں گئی۔ کام دیکھا تو اسے بہت مناسب لگا۔ مختلف سائز کی قمیضوں پر گلے، آستین اور دامن کے علاوہ درمیان میں آٹھ عدد پھول بنے ہوئے تھے جن میں شیشے اور موتیاں لگانی تھیں۔ دس روپے ایک قمیض کا معاوضہ تھا۔ سارہ کا خیال تھا کہ وہ دن میں دو قمیضیں آرام سے تیار کر لیا کرے گی مگر جب گھر لا کر کام شروع کیا تو پتا چلا کہ باریک باریک پھولوں میں ستارے، شیشے اور موتیاں ٹانکنے کا کام اتنا آسان نہیں ہے۔ ایک ہی قمیض میں دو دن لگ گئے کیونکہ دیکھنے سے ڈیزائن ہلکا مگر کرنے میں بھاری تھا۔ بہرحال تارا اور اس کی بہنیں اس کام میں لگی رہیں۔ والد صاحب کی کمپنی سے ایک ماہ بعد تقریباً 60ہزار کی رقم ملی تھی جس سے امی نے اوپر دو کمرے بنوا کر کرائے پر اٹھا دیئے تھے۔ کرایہ اور گھر میں کی جانے والی محنت سے مل جل کر گھر کا خرچہ چل ہی رہا تھا ۔ دونوں چھوٹے بھائی اسکول کے بعد درزی اور الیکٹریشن کے پاس بیٹھا کرتے تھے تاکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر بھی سیکھ لیں۔ تارا کے سالانہ امتحان شروع ہونے والے تھے اور تارا پریشان تھی کیونکہ اس کے واجبات زیادہ تھے اور وہ جانتی تھی کہ واجبات ادا کیے بغیر ایڈمٹ کارڈ نہیں ملے گا حالانکہ تارا نے اپنی ٹیوشن سے ہونے والی آمدنی الگ جمع کرکے رکھی تھی مگر اب سے کچھ دن پہلے جب اچانک امی کی طبیعت خراب ہوئی تھی تو اس نے چپ چاپ وہ رقم سائرہ آپی کے حوالے کر دی تھی تاکہ امی کیلئے دوائیں اور انجکشن خریدے جا سکیں۔ مہنگائی میں اضافہ اس قدر تیزی سے ہوا تھا کہ سارے گھر والے سارے دن محنت کے باوجود بھی سو روپے روزانہ بمشکل کمایا کرتے تھے اور خرچ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ اوپر سے والد صاحب کے انتقال کے بعد وقتاً فوقتاً تعزیت کے لیے اور ملنے کے لیے آنے والے مہمانوں کا خرچہ الگ تھا ۔ تارا کی والدہ ایک وضعدار خاتون تھیں۔ لہٰذا انہیں یہ پسند نہیں تھا کہ گھر آئے مہمان سوکھے منہ واپس چلے جائیں ۔ جو دال چٹنی ان کے نصیب میں ہوتی وہ ان کے سامنے رکھ دیتیں مگر یہ تارا جانتی تھی کہ مہنگائی کے اس دور میں مہمان نوازی کس قدر مشکل ہے۔ جبکہ آمدنی کا کوئی مستقل ذریعہ بھی سامنے نہ ہو۔ وہ آپی کے ساتھ اکثر مارکیٹ جایا کرتی تھی اور چیزوں کی قیمتیں سن سن کر حیران ہوتی تھیں۔ ہر مرتبہ قیمت مختلف اور زیادہ ہوا کرتی تھی۔ لوگوں کو ڈھیر ساری شاپنگ کرتے دیکھ کر وہ اکثر سوچا کرتی تھی کہ پتہ نہیں لوگوں کے پاس اتنی رقم کہاں سے آجاتی ہے کہ وہ اتنی ڈھیر ساری شاپنگ آرام سے کر لیتے ہیں یہاں تو یہ حال تھا کہ وہ لوگ اکثر اپنی خواہشات اور ضروریات کو اپنے اندر ہی دفن کر دیا کرتے تھے۔ حالات کی سختی نے تارا کو وقت سے بہت پہلے سمجھ دار اورسنجیدہ کر دیا تھا۔
*۔۔۔*
مس نازیہ نے حاضری لینے کے بعد ایک بار پھر طالبات کو فیس جمع کروانے کی یاد دہانی کروائی۔ پھر اپنا سبق شروع کروا دیا۔ وہ مستقل نوٹ کر رہی تھیں کہ تارا بے حد پریشان لگ رہی تھی۔ پیریڈ ختم ہونے کے بعد انہوں نے تارا کو اپنے ساتھ باہر آنے کیلئے کہا۔ تارا جانتی تھی کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ جب مس اسے آخری وارننگ دے دیں گی۔ وہ ڈرتی ڈرتی باہر آئی۔
’’جی مس!‘‘ اس نے آہستہ سے کہا۔مس نے اس کی طرف دیکھا اور پھر کہا۔
’’ تارا، مجھے آپ سے صرف یہ کہنا ہے کہ آپ فیس کیلئے بالکل پریشان نہ ہوں۔ آپ کی تمام فیس جمع ہو چکی ہے آپ صرف اپنی پڑھائی پر توجہ دیں۔ آپ کو اے ون گریڈ حاصل کرنا ہے۔۔۔ سمجھیں!!‘‘
’’مگر مس۔۔۔!! ‘‘ تارا نے کچھ کہنا چاہا مگرمس نے اسے کوئی موقع نہیں دیا۔
’’ اب اپنی کلاس میں جاؤ۔۔۔ ٹھیک ہے!!‘‘ مس دوسری کلاس میں داخل ہو چکی تھیں۔ تارا کچھ دیر وہیں کھڑی رہی پھر مس نازیہ کیلئے احسان مند دل کے ساتھ واپس کلاس میں آگئی۔رات کو جب تارا سونے کے لیے لیٹی تو اسے مس نازیہ یاد آ گئیں۔ اس نے سوچا کہ وہ ساری رقم لکھتی رہے گی اور جب بڑی ہو کر استانی بن جائے گی تو مس نازیہ کو ساری رقم لوٹا دے گی۔ پھر تارا کو پتہ بھی نہیں چلا کہ کب اس کی فیس جمع ہو جاتی تھی۔ مس نازیہ نے اسے دوبارہ کبھی فیس کیلئے نہیں کہا اور جب وہ میٹرک میں آئی تو پہلے ہی دن مس نازیہ نے اس سے کہا کہ وہ چھٹی میں ان کے پاس پہنچی تو مس نے اسے ایک بڑا سا لفافہ دیا کہ یہ آپ کیلئے ہے ۔ تارا نے کچھ پوچھنا چاہا مگر مس نازیہ نے ہمیشہ کی طرح جلدی سے اسے فارغ کر دیا کہ انہیں گھر جانے کیلئے دیر ہو رہی ہے۔
’’ تارا آپ پریشان مت ہوں۔ گھر جا کر آرام سے اسے دیکھ لیجئے گا۔‘‘ مس نازیہ نے اس کا گال تھپتھپاکر کہا اور خود اسٹاف روم کی طرف بڑھ گئیں۔ تارا بھی گھر کی طرف چل پڑی۔ گھر آکر اس نے لفافہ کھولا تو اس میں میٹرک کے مکمل کورس کے ساتھ اس کا نیا یونیفارم بھی تھا۔ تارا سوچنے لگی کہ مس نازیہ کے احسانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس کو لگتا تھا کہ اس پر ایک بوجھ سا ہے۔ ساری زندگی خودداری سے گزارنے والی تارا کی والدہ نے اپنے بچوں کو بھی کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانے اور کسی کا احسان نہ لینے کی تعلیم دی تھی اور اب تارا کو عجیب سا احساس ہوتا ۔ اسے لگتا کہ ساری لڑکیاں اسے عجیب نظروں سے دیکھتی ہیں کہ اس کی فیس اور اس کا سارا خرچہ مس نازیہ اٹھاتی ہیں حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں تھا ۔ کلاس میں تو دور کی بات کسی ٹیچر کو بھی یہ بات نہیں معلوم تھی کہ تارا کی فیس اور خرچہ کہاں سے پورا ہوتا ہے۔ مس نازیہ بڑی خاموشی اور چپکے سے وقتاً فوقتاً اس کی مدد کر دیا کرتی تھیں مگر پھر بھی تارا کو ان کی رقم، ان کے اچھے سلوک اور ان کے احسانات کا ایک بوجھ اپنے اوپر محسوس ہوتا۔ مس نازیہ اس کی کشمکش کو محسوس کر چکی تھیں۔ اس لیے انہوں نے اسے بلا کر سمجھایا کہ وہ اسے اپنی بڑی بہن کی طرح سمجھے۔ اگر کوئی مسئلہ ہے تو ان سے کہے اور اگر وہ فیس ادا کر رہی ہیں تو صرف اس لیے کہ ایک ذہین طالبہ کا مستقبل خراب نہ ہو اور اس فیس کا صحیح حق یہ ہے کہ وہ اچھے سے اچھے نمبرز حاصل کرے اور پھر تارا نے یہ سوچ لیا کہ وہ مس نازیہ کی اداکردہ اس فیس کے بدلے انہیں بہترین نتائج حاصل کرکے دکھائے گی تاکہ انہیں خوشی ہو کہ ان کی فیس ایک درست طالبعلم پر لگائی گئی ہے۔ اس سوچ نے تارا کے اندر ایک نئی لگن پیدا کر دی۔ وہ ہر طرف سے بے نیاز ہو کر پڑھائی میں جت گئی اور اس محنت کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے میٹرک میں 88فیصدنمبر حاصل کیے۔ مس نازیہ بے حد خوش تھیں اور تارا کی پوری کلاس، اساتذہ اور گھر والے بھی بے حد خوش تھے۔ تارا نے ایک اچھے کالج میں داخلہ لے لیا اب وہ اس قابل ہو گئی تھی کہ شام میں ٹیوشن پڑھا کر اپنی پڑھائی کا خرچہ پورا کر لیتی۔ مس نازیہ اس کیلئے ایک آئیڈیل بن چکی تھیں۔ ان ہی کی وجہ سے اس نے اپنے لیے بھی تدریس کا شعبہ چنا۔ کامیابی ہر قدم پر اس کے ساتھ تھی اور آج وہ ایک بہترین اسکول میں بحیثیت استاد اپنے فرائض انجام دے رہی تھی۔ آج جب وہ اپنی ہشتم کلاس کا پہلا پیریڈ لے کر باہر نکلی تو اس کے پیچھے ہی کلاس کی مانیٹر اور ذہین طالبہ سدرہ بھی نکل آئی اور جب سدرہ نے اسے بتایا کہ اس کی والدہ چاہتی ہیں کہ وہ اب ہشتم کے بعد یہ پرائیویٹ اسکول چھوڑ کر کسی گورنمنٹ اسکول میں داخلہ لے لے کیونکہ سدرہ کے والد کی نوکری ختم ہو گئی تھی اور وہ آج کل بے حد پریشان تھے۔ تو تارا کو لگا کہ جیسے آج ایک اور تارا مس نازیہ کے سامنے کھڑی ہے ۔ بالکل اسی طرح تو اس نے بھی مس نازیہ سے یہی بات کہی تھی ۔ بس فرق اتنا تھا کہ سدرہ کے والد حیات تھے جبکہ تارا کے والد حیات نہیں تھے۔ وقت اسے بہت پیچھے اس کی اسکول کے دور میں لے گیا تھا۔ اسے سب کچھ یاد آرہا تھا اور پھر اس نے بھی مس نازیہ کی طرح سدرہ کو وہی جواب دیا کہ وہ بالکل بے فکر ہو کر اپنی پڑھائی پر توجہ دے ۔ ایسا ہر خیال دل سے نکال دے۔ اس کی پڑھائی کا تمام خرچہ وہ برداشت کرے گی اور کسی کو کبھی پتہ نہیں چلے گا۔
’’مگر مس، یہ تو بہت بڑا قرض ہو جائے گا مجھ پر ۔‘‘ سدرہ نے وہ بات کہہ دی جو وہ کبھی سوچا کرتی تھی مگر مس نازیہ سے کبھی کہنے کی ہمت نہیں کر سکی مگر سدرہ یہ بات کہہ سکتی تھی کیونکہ وہ آج کے دور کی بچی تھی۔
’’یہ قرض نہیں ہے۔ یہ صرف ایک ذریعہ ہے کسی کی مدد کرنے کا۔ اگر تمہیں یہ قرض محسوس ہوتا ہے تو تم بھی جب عملی زندگی میں قدم رکھو تو تمہیں بھی کہیں نہ کہیں کوئی اور سدرہ ملے گی۔ اس کیلئے ایک ذریعہ بن جانا تو سمجھو یہ قرض اتر جائے گا۔ ‘‘ اور سدرہ کا مسکراتا چہرہ اس بات کی گواہی دے رہاتھا کہ وہ یہ بات اچھی طرح سمجھ چکی ہے اور اسٹاف روم میں آکر کرسی پر بیٹھتے ہوئے وہ یہی سوچ رہی تھی کہ مس آج میں نے بھی اپنا قرض ادا کر دیا ۔ آپ یہی چاہتی تھیں نا۔ اسے یاد آیا کہ جب میٹرک کے بعد وہ مس نازیہ سے الوداعی ملاقات کر رہی تھی تو اس نے مس سے کہا تھا کہ تعلیم کے بعد ملازمت شروع کرتے ہی وہ ان کو ساری رقم انہیں لوٹا دے گی کیونکہ وہ ان سب کا حساب رکھتی رہی ہے تو مس نازیہ نے مسکرا کر کہا تھا۔
’’ مجھے اس رقم کی ضرورت نہیں ہے تم دیکھنا کسی نہ کسی موڑ پر تمہیں ایک اور تارا مل جائے گی وہ رقم اسے دے دینا۔ ‘‘ اور آج اسے وہ تارا مل گئی تھی اور اسے یقین تھا کہ سدرہ کو بھی کہیں نہ کہیں ایک اور سدرہ مل جائے گی اور پھر۔۔۔
یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی