skip to Main Content
ایک اور قائد اعظم

ایک اور قائد اعظم

نجیب احمد حنفی

……………………………………………………….

اسے آئینے میں اپنے بجائے قائداعظم کاعکس نظر آرہا تھا۔

…………………………..…………………………..

شاید ’’ایک اور قائداعظم‘‘ جنم لے چکے تھے۔
ببلو پر بس ایک ہی دھن سوار ہوگئی تھی۔ ان کی بس ایک ہی خواہش تھی اور ان کے نزدیک بہت چھوٹی سی۔ قائداعظم سے ملاقات۔ کیا میں قائداعظم سے مل سکتا ہوں؟ اگر مل سکتا ہوں تو کیسے؟ ان سے ملنے کے لئے کیا طریقہ استعمال کرنا پڑے گا؟ مجھے ان سے کون ملا سکتا ہے؟ یہ وہ سوالات تھے جو ہر وقت ان کے دماغ میں کلبلاتے رہتے۔ انہی خیالات میں گم رہنے کی وجہ سے وہ غائب دماغ بھی ہوگئے تھے۔ جب ان کی سائنس کی مس نے کلاس میں اُن سے ٹی وی اور ریڈیو کے موجد کا نام پوچھا تو ببلو نے اس طرح جواب دیا۔
’’ٹی وی جان لوگی بیئرڈ نے، ریڈیو مارکونی نے بنایا، جبکہ پاکستان قائداعظم نے بنایا‘‘۔
’’ارے یہاں قائداعظم کہاں سے آگئے‘‘۔ مس نے حیرانی سے پوچھا۔
’’مس وہ۔۔۔‘‘ ببلو کھسیانا ہوکر سر کھجانے لگا اور مس سمیت ساری کلاس ہنس پڑی، اسی طرح جب، جب ان کی امی نے ان سے بازار سے انڈے منگوائے تو وہ اڈے لاتے وقت بھی قائداعظم سے ملنے کے خیالی پلاؤ پکا رہے تھے۔ ابھی خیال ہی خیال میں وہ قائداعظم سے ہاتھ ملانے ان کے نزدیک پہنچے ہی تھے کہ دھڑام سے نیچے گرے دیکھا تو واٹر بورڈ والوں نے نئی لائن کے لئے گڑھا کھود رکھا تھا۔ ببلو کے کپڑے بھی گندے ہوگئے اور کہنی بھی چھل گئی۔ بارہ میں سے دس انڈے بھی ٹوٹ گئے۔ ببلو کو بڑا غصہ آیا۔ چوٹ لگنے یا انڈے ٹوٹنے پر نہیں، بلکہ اس بات پر کہ وہ قائداعظم سے ہاتھ کیوں نہ ملا سکے۔
ببلو کو قائداعظم سے اتنی محبت کیسے ہوئی؟ وہ ان سے ملنے کو اتنے بے تاب کیوں تھے؟ اس کی اصل وجہ تو یہی تھی کہ ان کے دادا جان نے تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا تھا۔ وہ مسلم لیگ نیشنل گارڈ میں بھی رہے۔ اسی وجہ سے انہیں کئی بار قائداعظم سے ملنے کے یادگار مواقع ملے۔ دادا جان جب ببلو کو تحریکِ پاکستان کے واقعات سناتے تو اس میں قائداعظم سے اپنی یادگار ملاقاتوں کے بارے میں بھی بتاتے۔ جب ببلو قائداعظم کی باوقار شخصیت، بارعب آواز اور حوصلہ مندی کے بارے میں سنتا تو ان سے ملاقات کی خواہش اس کے سینے میں مچلنے لگتی، بلکہ اب تو اس نے ایک جنوں کی سی کیفیت اختیار کرلی تھی۔ کاش کبھی میں ان کو اپنے سامنے دیکھ سکوں۔ وہ دادا کی باتیں سنتا اور انہی حسین یادوں میں گم رہتا۔
’’یار میرے پاس ایک ٹوٹکا ہے تمہارے مسئلے کا‘‘۔ ببلو کے پکے دوست شارق نے انکشاف کی جو ببلو کی خواہش سے اچھی طرح واقف تھا اور پوری کلاس میں بقراط کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔
’’وہ کیا جلدی بتاؤ؟‘‘ ببلو بے چین ہوگیا۔
’’دیکھو میں نے ایک جگہ پڑھا ہے کہ اگر سونے سے پہلے سو مرتبہ آپ کسی شخص کا نام لیں تو وہ آپ کو خواب میں نظر آئے گا۔ تم بھی یہ کرکے دیکھو حقیقت میں نہیں تو خواب میں تو تم انہیں دیکھ ہی لوگے‘‘۔ شارق عرف بقراط نے ٹوٹکا بتایا۔
’’اوہ زبردست‘‘۔ ببلو خوش ہوگیا، کیونکہ خواب اسے خوب یاد رہتے تھے۔
’’رات کو سونے سے پہلے ببلو نے بجائے سو مرتبہ کے دو سو مرتبہ قائداعظم قائداعظم کا نام لیا۔ آدھی رات تک تو ملاقات کی خوشی میں اس کو نیند ہی نہ آئی۔ صبح اُٹھتے ہی ببلو نے اپنے خوابوں کو یاد کرنا شروع کیا۔
’’ایک خواب میں تو اس نے کلاس میں بلکہ شاید پورے اسکول میں ٹاپ کیا تھا۔ دوسرا خواب۔۔۔ کچھ عجیب سا ہی تھا۔ قائداعظم کا کوئی خواب اسے نظر نہ آیا تھا، البتہ اعظم بھائی جن کی ٹیم سے ببلو کی ٹیم ہمیشہ میچ ہارتی تھی ان سے وہ خواب میں جیت چکے تھے‘‘۔
’’دھت تیرے کی‘‘۔ ببلو جھنجھلا اُٹھا اور ٹوٹکے کو کوستے ہوئے بستر سے اُٹھ کھڑا ہوا۔
چند دن ہی گزرے تھے کہ اب ببلو کو اپنی خواہش پوری ہوتی نظر آرہی تھی۔ کیونکہ اسکول سے واپسی پر وہ اپنے دوست کے ساتھ اس کے گھر چلے گئے جو دوسرے علاقے میں تھا۔ واپسی پر انہوں نے ایک ایسا بورڈ دیکھا جو ان کو خوشی سے نہال کرگیا۔ بورڈ عامل بنگالی کا تھا جس پر ہر خواہش پوری ہونے کے علاوہ یہ بھی تحریر تھا کہ روحوں سے ملاقات کا خاص انتظام ہے۔
ببلو کی تو باچھیں کھل گئیں۔ اگلے دن شام کو وہ تیار ہوکر سیدھے عامل بنگالی کے ٹھکانے پہنچ گئے۔ اندر گھستے ہی انہیں عجیب سی بو اور پراسرار ماحول کا سامنا کرنا پڑا، مگر وہ اندر چلتے ہی چلے گئے۔
’’کہو کیسے آنا ہوا؟‘‘ عامل بنگالی نے سوال کیا۔
’’میں قائداعظم سے ملنا چاہتا ہوں‘‘۔
’’قائداعظم سے؟‘‘ عاصم بنگالی زور سے ہنسا۔
’’اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے تم نے باہر لکھا تو ہے روحوں سے ملاقات کا‘‘۔ ببلو کو بڑا غصہ آیا مگر ضبط کرگیا۔
’’ہاں ہاں تم بالکل ان سے مل سکتے ہو، بلکہ میں تمہیں بتاؤں میں تقریباً ہر ہفتے ان سے ملتا ہوں، وہ اکثر یہاں آتے ہیں‘‘۔ عامل بنگالی نے گویا دھماکہ کردیا۔
’’ہر ہفتے مگر وہ کیسے؟‘‘ ببلو نے بے چینی سے پوچھا۔
’’بھئی ایک وظیفہ ہے جو میں نے افریقہ سے سیکھا ہے، مگر اس کی فیس پانچ سو روپے ہے‘‘۔
’’یہ لو پانچ سو اور جلدی سے بتاؤ‘‘۔ ببلو نے اپنی عیدی کے پیسے عامل بنگالی کو بے صبری سے پکڑائے جسے انہوں نے کرکٹ کی کٹ خریدنے کے لئے رکھے تھے۔ عامل بنگالی نے تیزی سے وہ نوٹ اپنے ڈبے میں ڈالے اور وظیفہ بتانے لگا۔
’’ایک اندھیرے کمرے میں ایک اگربتی، ایک موم بتی اور ایک چراغ ترتیب سے اپنے آگے رکھ لینا۔ اس کے بعد آنکھیں بند کرکے ایک ہزار مرتبہ ’’آنا، جانا، مانا، شانا‘‘ پڑھنا تھوڑی دیر بعد آہستہ آہستہ آنکھ کھولنا تو سامنے ہی قائداعظم بیٹھے ہوں گے‘‘۔
’’بس اتنا آسان، ٹھیک ہے میں بالکل ایسا ہی کروں گا‘‘۔ ببلو نے یہ کہتے ہی واپسی کی راہ لی۔

 *۔۔۔*۔۔۔*

’’آنا، جانا، مانا، شانا‘‘۔ ’’آنا، جانا، مانا، شانا‘‘۔ ببلو کا وظیفہ جاری تھا۔ اپنے گھر کی اوپری منزل پر اندھیرے کمرے میں چراغ، اگربتی اور موم بتی سامنے رکھ کر وہ کامل بنگالی کا دیا ہوا وظیفہ تقریباً مکمل کرنے ہی والے تھے کہ انہیں کسی بو کا احساس ہوا، مگر چونکہ عامل بنگالی نے وظیفہ پورا ہونے تک انہیں آنکھ کھولنے سے منع کیا تھا، اس لئے انہوں نے جلدی جلدی وظیفہ مکمل کیا اور آہستہ آہستہ ایک آنکھ کھولنی شروع کی۔ سامنے کا منظر ان کے ہوش اُڑا دینے کے لئے کافی تھا۔ موم بتی نیچے گر چکی تھی اور نیچے بچھی چادر پر آگ لگی ہوئی تھی۔
’’بچاؤ‘‘۔ ببلو نے ایک زوردار چیخ ماری۔
’’سارے گھر والے دوڑے دوڑے اوپر پہنچ گئے۔ ببلو کے ابو نے جلدی سے پانی پھینک کر آگ بجھائی۔
’’کیا ہوا ببلو یہ کیسے ہوا؟‘‘ ببلو کی بڑی بہن نے ببلو سے پوچھا جس کا چہرہ خوف سے فق ہوگیا تھا۔
’’ارے اس کو معلوم نہیں کیا ہوگیا ہے ہر وقت نہ جانے کن خیالوں میں گم رہتا ہے۔ میں تو کہتی ہوں اسے کسی ڈاکٹر کو دکھاؤ‘‘۔ ببلو کی امی کے لہجے میں پریشانی تھی۔ اچھا بس ٹھیک ہے، میں اسے سمجھادوں گا۔ اب سب نیچے چلو‘‘۔ دادا جان نے سب کو چلنے کا اشارہ کیا۔

 *۔۔۔*۔۔۔*

’’کیا بات ہے ببلو، کیا تمہاری امی کی بات صحیح ہے؟‘‘ دادا جان اپنے کمرے میں ببلو سے مخاطب تھے۔
’’نہیں دادا جان ایسی تو کوئی بات نہیں‘‘۔ ببلو نے ڈرتے ڈرتے کہا۔
’’مگر پھر تم یہ اوٹ پٹانگ حرکتیں کیوں کرتے رہتے ہو اور یہ اندھیرے میں موم بتی کیوں جلائی تھی‘‘۔
’’دادا جان! سچ سچ بتاؤں‘‘۔
’’ہاں ہاں کیوں نہیں‘‘۔ دادا نے ہمت بندھوائی۔
’’دادا جان میں قائداعظم کو دیکھنا چاہتا تھا‘‘۔
’’قائداعظم کو؟‘‘ دادا جان نے اسے حیرانی سے دیکھا۔
’’ہاں وہ عامل بنگالی ہے نا۔ اس نے مجھے یہ وظیفہ بتایا تھا۔ قائداعظم سے ملاقات کرنے کا‘‘۔
’’مگر تم قائداعظم سے کیوں ملنا چاہتے ہو؟‘‘ دادا کی حیرانی برقرار تھی۔
’’دادا جان وہ مجھے بہت اچھے لگتے ہیں۔ آپ جب بھی ان کے واقعات اور ان کی باتیں بتاتے ہیں۔ میرا دل چاہتا ہے میں بھی ان سے ملوں۔ ان کو اپنے سامنے د یکھوں‘‘۔
’’اچھا تو یہ بات ہے‘‘۔ دادا نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
’’دیکھو ببلو مجھے یہ جان کر نہایت خوشی ہے کہ قائداعظم سے تمہیں اتنی محبت ہے اور تم انہیں اپنے سامنے دیکھنا چاہتے ہو۔ مگر کیا قائداعظم کو دیکھ لینا ہی ان سے محبت کرنا ہے؟ اصل بات تو تب ہو جب تم قائداعظم کی اچھی اچھی باتوں پر عمل کروں۔ ان کی دیانت، جذبہ، ان کا مسلمانوں کے لئے درد، ان کی محنت اور ذہانت، کیونکہ آدمی جب کسی کو اپنا آئیڈیل بناتا ہے تو اس پر اُس کی عادات کو اپنانے کی کوشش کرتا ہے جس سے اس کی اپنی شخصیت بھی اپنی پسندیدہ شخصیت میں ڈھلنے لگتی ہے اور دراصل یہی محبت کی نشانی ہے‘‘۔
ببلو غور سے دادا کی بات سُن رہا تھا۔
’’اور ہاں یاد آیا، ایک مرتبہ جب قائداعظم ہمارے اسکول میں آئے تھے تو انہوں نے ایک بچے سے پوچھا کہ وہ بڑا ہوکر کیا بنے گا تو اس بچے نے فوراً جواب دیا ’’قائداعظم بنوں گا‘‘۔ قائداعظم اس جواب سے بہت خوش ہوئے اور کہا کہ واقعی پاکستان کو ابھی ایک اور قائداعظم کی ضرورت ہے۔ کیا تمہیں اس سے کچھ سمجھ میں آتا ہے‘‘۔ دادا نے ببلو سے پوچھا اور ببلو اثبات میں سر ہلانے لگا۔
ببلو وہاں سے اپنے کمرے میں آگیا اور سونے کے لئے بستر پر لیٹ گی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ وہ کس طرح قائداعظم کی باتوں پر عمل کرسکتا ہے کہ اچانک اسے ان کا مشہور قول یاد آگیا۔ ’’کام، کام اور صرف کام‘‘۔
’’اوہ، میرا اردو کا ہوم ورک تو ابھی باقی ہے۔ آج تو اِدھر اُدھر کی باتوں میں، میں اسے بھول ہی گیا‘‘۔ ببلو بڑبڑایا۔ ٹھنڈ کی وجہ سے اسے بستر سے نکلنے کو بالکل جی نہیں چاہ رہا تھا، مگر اس کے سامنے پھر قائداعظم کا قول آگیا۔
’’میں ہوم ورک ضرور کروں گا‘‘۔ ببلو پکا ارادہ کرتے ہوئے بستر سے نیچے اُتر آیا۔ کچھ دیر میں ہوم ورک ختم ہوگیا۔
’’اور کوئی کام؟‘‘ ببلو سوچنے لگا۔
’’ارے، اتنا اہم ترین کام تو میں بھول ہی گی، عشاء کی نماز‘‘۔ ببلو اپنے کارناموں کے باعث ہونے والی پریشانی میں نماز پڑھنا بھول گیا تھا۔
جلدی سے وضو کرکے اس نے نماز پڑھی اور بستر پر لیٹ گیا۔
’’چلو آج سے دادا جان کی نصیحت کے مطابق میں نے عمل شروع کردیا ہے۔ انشاء اللہ میں قائداعظم کی اچھی اچھی باتوں پر عمل کرکے ان جیسا ہی بننے کی کوشش کروں گا‘‘۔ ببلو یہ سوچتے ہوئے نیند کی وادیوں میں کھوگیا۔

 *۔۔۔*۔۔۔*

صبح جب ببلو منہ ہاتھ دھوکر کنگھا کرنے کے لئے آئینے کے سامنے گیا تو ٹھٹھک کر رہ گیا۔ خوشی میں اس کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی۔ اسے آئینے میں اپنے بجائے قائداعظم کاعکس نظر آرہا تھا۔
شاید ’’ایک اور قائداعظم‘‘ جنم لے چکے تھے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top