skip to Main Content

احمد کی مرغی محمود کے گھر

میرزاا دیب
۔۔۔۔۔

احمد اسکول سے گھر آیا، کتابیں میز کے اوپر رکھیں،منھ ہاتھ دھو کر اطمینان کے ساتھ چائے پی اور ابھی خالی پیالی تپائی پر رکھی ہی تھی کہ اس کی چھوٹی بہن عالیہ بھاگتی ہوئی آئی اور مسکرا کر بولی:
”بھائی جان!ایک خوش خبری سنیں گے؟“
”خوش خبری!ضرور سناﺅ۔کیا تمہاری سال گرہ ہے۔کہیں سے مٹھائی کا بھرا ہوا ڈبا آیا ہے یا باجی پاس ہوگئی ہیں؟“عالیہ نفی میں سر ہلاتی رہی۔
”تو پھر کیا خوش خبری ہے؟“
”آپ کی وہ مرغی ہے نا سرخ رنگ کی، بڑی پیاری ہے؟“
”اس نے انڈا دیا ہے، مگر انڈے تو وہ دیتی ہی رہتی ہے؟“
”بھائی جان!آپ اسکول گئے اور واپس آگئے۔وہ گھر سے نکلی اور لوٹی نہیں۔“
”کیا میری مرغی گم ہوگئی ہے؟“
عالیہ ہاں میں سر ہلانے لگی۔
”کہاں گئی؟کیوں گئی؟آئی کیوں نہیں؟“احمد نے ایک ساتھ یہ سوال کر دیے۔
”ہم کچھ نہیں جانتے بھائی جان!بس یہ جانتے ہیں کہ وہ دالان میں پھر رہی تھی کہ دروازے سے باہر چلی گئی۔پہلے بھی جایا کرتی تھی اور تھوڑی دیر میں واپس آجاتی تھی۔اب کے نہیں آئی۔“
”تلاش کرو۔“
”بہت ڈھونڈا۔نہیں ملی۔کوئی لے گیا ہے۔“
”کون لے گیا ہے؟“
”بھائی جان!اگر ہمیں یہ علم ہوتا کہ کون لے گیا ہے تو وہاں جا کراسے لے نہ آتے۔“
احمد نے غصے سے اپنا دایاں پاﺅں زمین پر پٹخا اور یہ کہہ کر باہر چلا گیا،”میں خود ڈھونڈتاہوں۔“
وہ ہمسایوں کے گھر جاجا کر مرغی ڈھونڈنے کی کوشش کررہا تھا کہ اس کا کلاس فیلو شمیم جو ہکلا کر بات کرتا تھا،اسے ملا اور اسے اشارے سے ایک طرف لے جاکر رازدارانہ لہجے میں بولا:
”تتتما پ ننی مممرغی ڈھونڈررہے ہونا۔“
”ہاں دیکھی کہیں؟“
شمیم نے اپنامنھ اس کے کان کے قریب کرلیا،”وووہ محمودللےگگیاہہے۔“
محمود لے گیا ہے؟“
”مممیںننےاسکےہاہاتھمیں دےکھیتھی“
”وہی لے گیا ہوگا،اس کے ہاں اپنی مرغیاں بھی ہیں۔“
احمد، شمیم کو ساتھ لے کر محمود کے گھر جانا چاہتا تھا کہ ادھر سے ان کے تایا جان آگئے۔ان کے پوچھنے پر احمد نے مرغی کے کھوجانے اور اسے محمود کے ہاتھ میں دیکھنے کا واقعہ سنایا۔
”تو اب تم اس کے گھر جا رہے ہو؟“تایا جان نے پوچھا۔
”جی ہاں،اس سے اپنی مرغی مانگوں گا۔“
”پہلے گھر چلو۔“اور یاتا جان احمد اور شمیم کو گھر لے گئے۔
”دیکھو برخوردار!یہ کوئی بات نہیں کہ شمیم نے تمہاری مرغی محمود کے ہاتھ میں دیکھی اور تم چلے اس کے گھر مرغی مانگنے۔ہوسکتا ہے شمیم کی نظروں نے دھوکا کھایا ہو۔وہ تمہاری مرغی نہ ہو؟“
”وہ میری ہی مرغی ہوگی۔شمیم اسے کئی بار دیکھ چکا ہے۔اس نے میری مرغی پہچان لی۔“
”ججی ہاںمم میں نے اسے پ پ۔“
”پہچان لیا تھا۔یہی کہنا چاہتے ہو!“تایا جان نے شمیم سے مخاطب ہو کر پوچھا۔
شمیم نے ہاں کردی۔
”دیکھو احمد!جب تک پوری تحقیق نہ کرلی جائے کسی پر الزام نہیں لگانا چاہئے۔“تایاجان نے فرمایا۔
احمد کی باجی بھی آگئی تھیں۔انہوں نے تایا جان کی تائید کرتے ہوئے کہا،”محمود ایک فسادی لڑکاہے،خواہ مخواہ جھگڑا کھڑا کردے گا۔“
”درست کہا ہے تم نے۔“احمد کی امی وہاں آگئی تھیں اور انہوں نے اپنی بڑی بیٹی کی بات سن لی تھی۔
”میں سمجھتا ہوں احمد،تمہاری باجی نے جس خطرے کا اظہارکیا ہے وہ غلط نہیں ہے۔ویسے بھی محاورہ ہے کہ احمد کی پگڑی محمود کے سراور تمہارے سر پر کبھی پگڑی نہیں دیکھی گئی۔اس لیے محمود کے سر پر بھی نہیں ہو سکتی۔“تایا جان مسکرا کر کہنے لگے۔
”تایا جان! یہ بات محاورے کی نہیں ہے۔یہ پگڑی کا معاملہ نہیں ہے،مرغی کا معاملہ ہے۔“
”دیکھو بھئی محاورہ غلط نہیں ہو سکتا۔“
تایا جان کے الفاط سن کر احمد نے اپنا ہاتھ فضا میں لہرایا اور کہنے لگا،محاورہ غلط نہیں ہو سکتا ، مگر مرغی چوری ہوسکتی ہے اور چور محمود ہے۔“
”ایک اور محاورہ بھی ہے۔“باجی بولیں۔
”کیا محاورہ ہے؟“تایا جان نے پوچھا۔
”محاورہ ہے کہ احمد کی داڑھی بڑی یا محمود کی۔“
”ہاں یاد آگیااس محاورے کا مطلب ہے فضول بحث و تکرار ےہاں ہو رہی ہے ۔پہلے تصدیق ہونی چاہئے کہ تمہاری مرغی محمود کے گھر میں ہے یا نہیں۔“تایا جان نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔
عالیہ جو بڑی خاموشی سے گفت گو سن رہی تھی بولی،”میں تصدیق کر سکتی ہوں۔“
”وہ کیسے؟“عالیہ کی امی بولیں۔
”امی!وہ ایسے کہ میں محمود کی بہن کی کتاب لے آئی تھی،واپس کرنے جاتی ہوں۔محمود کی مرغیاں دالان میں ہوتی ہیں۔دالان میں سے گزر کر آگے جاﺅں گی۔دیکھ لوں گی کہ میری مرغی وہاں ہے یا نہیں۔“
سب نے اس کی تائید کی۔عالیہ تیزی سے چلی گئی۔سب بے قراری سے اس کا انتظار کرنے لگے۔چند منٹ بعد عالیہ لوٹ آئی۔اس کی سانس پھولی ہوئی تھی۔
”بلکل ٹھیک ہے۔“
”کیا بالکل ٹھیک ہے؟“
”مرغی وہاں ہے۔“
”اب بنی بات۔احمد محمود کے ہاں جا سکتا ہے اپنی مرغی مانگنے۔“
احمد شمیم کے ساتھ نکلنے لگا تو اس کی امی کہنے لگیں،”احمد لڑائی جھگڑا نہیں کرنا۔“
تایا جان نے کہا،”ہمیں اپنے احمد پر پورا اعتماد ہے۔“
احمد شمیم کو اپنے ساتھ لے کر محمود کے ہاں پہنچ گیا۔محمود نے انہیں اپنے ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور آنے کی وجہ پوچھی۔احمد نے بڑے نرم لہجے میں کہا،”وہ بھائی محمود،ہوا یوں کہ میری مرغی سیر و تفریح کے لیے گھر سے باہر جایا کرتی تھی۔آج وہ دور چلی گئی اور راستہ بھول گئی ۔“
”راستہ بھول گئی۔اوہو۔آپ نے اخبار میں تلاش گم شدہ کا اشتہار دیا ہوتا۔“محمود بولا۔
”جی نہیں اس کی ضرورت پیش نہیں آئی۔وہ غلطی سے آپ کے گھرمیں چلی گئی۔“
”میرے گھر میں چلی گئی؟“محمود نے بہ ظاہر حیرت سے پوچھا۔
”جی ہاں، وہ آپ کے ہاں ہے۔“
محمود فریب کارانہ طور پر مسکرایا،”آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔آپ جیسے عقل مند لڑکے کی مرغی بھی عقل مند ہوگی۔وہ گھر کا راستہ نہیں بھول سکتی۔“
یہ بات سن کر شمیم کہنے لگے،”مم میں نے وہ مرغی آپ کےہہہاتھ میں ددیکھی تتھی۔“
محمود نے اسی انداز میں ہکلا کر کہا،”ووہ ممیںمارکیٹسسے خرخریدکرلایا تھتھا۔“
شمیم نے منھ بسورلیا۔احمد اور محمود ہنس پڑے۔
”مجھے یقین ہے میری مرغی آپ ہی کے ہاں موجود ہے۔“
”ٹھیک، سو فی صد ٹھیک!آپ کی مرغی میرے پاس ہے تو آپ اس کی نشانیاں بتادیں۔اگر یہ نشانیاں ٹھیک ہوئیں تو مرغی آپ کی،یہ تو آپ کر سکتے ہیں نا؟“
”کر سکتا ہوں۔“
”تو کیجئے۔بتائیے آپ کی مرغی کا رنگ کیاہے؟“
احمد فوراً بول اٹھا،”سرخ!“
”مرغی کا رنگ سرخ اور وزن کتنا ہے؟“
”وزن؟“
”جی ہاں، اس کا وزن کتنا ہے؟“
”میں نے اسے کبھی نہیں تولا اور تولنے کی ضرورت بھی کیاتھی؟“
”پھر بتائیے مجھے کیسے معلوم ہو کہ آپ درست کہتے ہیں۔اچھا آپ یہ فرمائیے اس کے پروں کی تعداد کیاہے؟“
”آپ تو مذاق کررہے ہیں۔“
”میں مذاق بالکل نہیں کررہا۔آپ سے آپ کی مرغی کی نشانی پوچھ رہا ہوں۔“
احمد اٹھ کھڑا ہوا اور غصے سے جانے لگا۔شمیم بھی اس کے پیچھے پیچھے جانے لگا۔محمودنے زور سے قہقہہ لگایا اور یہ قہقہہ احمد کو بہت برا لگا،مگر وہ گھر سے نکل گیا۔
”کیوں بھئی،کیا بات ہے منھ لٹکائے ہوئے آرہے ہو؟“تایا جان نے احمد کو مایوسی کی حالت میں دیکھ کر پوچھا۔احمد نے جو کچھ ہوا تھا سنادیا۔
”یہ محمود تو میری توقع سے زیادہ ذہین ثابت ہوا ہے۔خیر آﺅ اب میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں ۔راستے میں محمود کے سوالوں کے جواب سوچیں گے۔“احمد، شمیم اور تایا جان محمود کے گھر چلے گئے۔
”محمودبیٹا!“
”جی فرمائیے۔“
”تمہارے اور احمد کے درمیان ایک جھگڑا پیدا ہوگیا ہے۔میں چاہتا ہوں یہ جھگڑا ختم ہو جائے۔دوستوں میں جھگڑا ہرگز نہیںہونا چاہیے۔“
”تایا جان!آپ اس کے بھی بزرگ ہیں اور میرے بھی۔آپ فیصلہ کردیں،میں اس فیصلے کو فوراً مان جاﺅں گا۔“
”یہ تمہاری سعادت مندی ہے محمود بیٹا۔“
”یہ اپنی مرغی کی صحیح نشانیاں بتادے،مگر یہ نشانیاں بتا ہی نہیں سکا۔“محمود نے کہا۔
”کیوں احمد!اگر تمہاری مرغی ہے تو اس کی ساری نشانیاں تمہیں معلوم ہوں گی۔“
”میں بتانے کی کوشش کرتا ہوں۔“احمد نے کہا۔
”لو محمود! پوچھو اس سے۔“
محمود نے پہلا سوال کیا،”مرغی کا رنگ؟“
احمد نے فوراً جواب دیا،”سرخ۔“
”درست ہے۔“محمود نے سر ہلا کر کہا۔
”مرغی کا وزن؟“
احمد سوچ میں پڑگیا،محمود اپنی کامیابی پر مسکرانے لگا۔
تایا جی کہنے لگے،”احمد !محمود نے جو سوال کیا ہے اس کا جواب دو۔“
”جواب دیتا ہوں جی،میری مرغی کا وزن ڈھائی کلو ہے۔“
”ڈھائی کلو۔محمود! تم کیا کہتے ہو۔“تایا جی نے پوچھا۔
”میں نہیں مانتا۔“محمود کا جواب تھا۔
”تو بیٹا!تول کر دیکھ لو۔ابھی صحیح وزن معلوم ہو جائے گا۔“
محمود اٹھ کر چلا گیا۔واپس آیا تو اس کے ہاتھوں میں مرغی اور ترازو تھا۔مرغی کو تولا گیا تو اس کا وزن ڈھائی کلو سے دو چھٹانک کم نکلا۔یہ دیکھ کر محمود خوشی سے اچھل پڑا۔
”کیوں احمد!جھوٹا الزام لگاتے ہو۔“تایا جان غصے سے بولے۔
”میری سنیے تایا جان۔“
”سناﺅ۔“
”میر مرغی کا وزن ڈھائی کلو تھا۔گھر سے بچھڑ کر اتنی اداس ہوئی،اتنی اداس ہوئی کہ اس کا وزن دو چھٹانک کم ہو گیا۔“یہ سن کر محمود کچھ پریشان ہو گیا۔
”بات معقول ہے محمود بیٹا!تم بھی یقینا اسے معقول سمجھو گے۔کوئی اور نشانی پوچھو۔“
”پوچھتا ہوں۔اس کے پروں کی تعداد بتاﺅ؟“
”جی میری مرغی کے پروں کی تعداد نو ہزار نو سو ننانوے ہے۔“
”غلط۔“محمود بول اٹھا۔
”درست۔“احمد نے اصرار کیا۔
”میں کہتا ہوں یہ غلط ہے۔“
”میں کہتا ہوں درست ہے۔“
دونوں جھگڑنے لگے۔
”جھگڑتے کیوں ہو۔ابھی اس کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔محمود بیٹا!“
”فرمائیے تایا جان۔“
”مرغی تمہارے پاس ہے نا۔“
”ہے جی۔“
”پر گن لو۔معلوم ہو جائے گا احمد ٹھیک کہتا ہے یا غلط۔“
محمود کے چہرے کا رنگ زرد پڑگیا۔
”محمود بیٹا! کیا سوچتے ہو؟“
محمود کچھ سوچتا رہا پھر مرغی احمد کی طرف بڑھا کر بولا،”میں اپنے کیے پر نادم ہوں تایا جان ۔“
”شاباش محمود بیٹا!سعادت مند اولاد کوئی بری حرکت کرے اور پھر اس پر ندامت کا اظہار کرے تو اللہ پاک اسے معاف کردیتا ہے۔“
”میں نے دل سے ندامت کا اظہار کیا ہے۔“محمود سر جھکا کر بولا۔
چائے پینے کے بعد تایا جان، احمد اور شمیم چلنے لگے۔ہاں ان کے ساتھ احمد کی مرغی بھی تھی۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top