اگر ایسا ہو جائے
ثناء العزیز
………………………………………
ہم رسالہ نکالنے کے تمام منصوبے بنا چکے تھے لیکن ۔۔۔!!
………………………………………
ہمارا خیال ہے کہ ہم ’’پیدائشی ادیب‘‘ ہیں اور ادب کے جراثیم ہم میں وافر مقدار میں موجود ہیں۔ انہی جراثیموں کو مزید پروان چڑھانے کے لئے ہم دن رات کوشاں رہتے ہیں۔ کئی رسالوں میں بھیجی گئی ہماری ’’شاندار تصنیفات‘‘ کو جب مسلسل ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تو ہمارے اندر انتقامی رویے پرورش پانے لگے، کیونکہ ہمارے خیال کے مطابق وہ ایک ’’عظیم ادیب‘‘ کا مستقبل تاریک کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔ سو ہم نے دل میں الگ ہی ٹھانی اور اپنے ہی جیسے مختلف رسائل کے ایڈیٹروں کے ہاتھوں ستائے ہوئے چند ’’عظیم مصنفوں‘‘ کے ساتھ مل کر ایک نیا رسالہ نکالنے کا منصوبہ بنایا۔ ہمیں یقین تھا کہ ہمارا رسالہ دنیائے ادب میں تہلکہ مچادے گا اور تمام رسائل کے ’’ناکام ایڈیٹر‘‘ ہمیں رشک اور حسد بھری نگاہوں سے دیکھیں گے۔ سو ہم دن رات اسی فکر اور سوچوں کے سمندر میں غوطے لگاتے رہتے۔ دل ہی دل میں منصوبے بناتے رہتے کہ ’’اگر ہم ماہنامہ ’’شکوہ‘‘ کے ایڈیٹر بنے تو۔۔۔‘‘
*ماہنامہ ’’شکوہ‘‘ کے پڑھنے والے قاری کی بھیجی گئی ہر تحریر کو شائع کریں گے تاکہ کوئی ہماری طرح مستقبل کا عظیم ادیب بننے سے محروم نہ ہوجائے۔
* قارئین کے تمام شکوے، شکایات اور حسرتوں کی تکمیل اس رسالے کے ذریعے پوری ہوگی۔
* ردی کی ٹوکری کا داخلہ ہمارے آفس میں ممنوع ہوگا، کیونکہ اس پر معصوم لکھاریوں کی تحاریر کے قتل کا مقدمہ ثابت ہوچکا ہے۔
* رسالے کا ہر سلسلہ ’’انعامی سلسلہ‘‘ اور ہر تحریر ’’انعامی تحریر‘‘ ہوگی۔
* ہر مہینے ایک خاص نمبر نکالا جائے گا۔ اس طرح سال میں بارہ خاص نمبر شائع ہوں گے۔ جن کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
جنوری جنگل نمبر، فروری شرارت نمبر، مارچ بہار نمبر، اپریل کھیل نمبر، مئی گرمی نمبر، جون لوشیڈنگ نمبر، جولائی بارش نمبر، اگست ایمرجنسی نمبر، ستمبر خزاں نمبر، اکتوبر صحت نمبر، نومبر سردی نمبر، دسمبر قارئین نمبر۔
* ہر خاص نمبر میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لئے وہ نمبر اسی ماحول میں ترتیب دیا جائے گا۔ مثلاً ’’جنگل نمبر‘‘ جنگل کے اندر، گرمی نمبر ’’گرمی میں، ’’لوڈشیڈنگ نمبر‘‘ بغیر بجلی کے، ’’بارش نمبر‘‘ بارش میں بھیگتے ہوئے، ’’صحت نمبر‘‘ کھاتے ہوئے اور ’’قارئین نمبر‘‘ ہم نہیں بلکہ قارئین ترتیب دیں گے۔
* رسالے کے صفحات کی تعداد مخصوص نہیں ہوگی بلکہ پورے مہینے موصول ہونے والی تمام تحاریر، مضامین، لطائف اس میں شائع ہوں گے۔
* صفحات کے لحاظ سے ہر مہینے اس کی قیمت مختلف ہوگی کیونکہ یہ آپ کا اپنا رسالہ ہے، اس لئے اسے خریدنا آپ پر ’’فرض‘‘ ہے۔
* تمام قارئین جو کہ اس کے قلمکار ہوں گے ان کے ذمہ ہوگا کہ نہ صرف رسالہ خود خریدیں بلکہ اپنے حلقۂ احباب میں دس افراد میں متعارف کروائیں اور انہیں خود خرید کر دیں۔
* ہر مہینے ایک تقریب کی جائے گی جس میں ہر قلم کار کو ’’پیتل میڈل‘‘ سے نوازا جائے گا۔ (گولڈ میڈل کے حقدار تو صرف ہم ہیں)
* جب قارئین کے تمام شکوے دور ہوجائیں گے تو اس کا نام بدل کر ’’ہنسی خوشی‘‘ یا ’’چین کی بانسری‘‘ رکھ دیں گے۔
* ایڈیٹری کی سیٹ صرف اور صرف ہماری ہوگی اس پر قبضہ کرنے والے پر فردِ جرم عائد کردی جائے گی۔
تمام نکات ذہن میں ترتیب دے کر ہم ہواؤں میں اُڑ رہے تھے۔ ہم نے فوراً اپنے ان دوستوں کو فون کیا جو کہ ہماری طرح عظیم ادیب بننے سے محروم رہ گئے تھے اور انہیں اپنے منصوبے میں شریک کرلیا۔
پہلے دوست نے کہا ’’بہت اچھا خیال ہے لیکن میں تمہارے منصوبے میں شریک نہیں ہوں گا جب تک تم وعدہ نہ کرو کہ ایک نمبر میرے نام سے نکلے گا جس میں صرف میری کہانیاں ہوں گی۔ یعنی ’’جلال نمبر‘‘ میں ’’جلالی کہانیاں‘‘ میں نے بمشکل حامی بھری لیکن ایک نکتے پر ابھی تک چاروں دوستوں میں اتفاق نہیں ہوا ہے۔ وہ مسئلہ ہے ’’ایڈیٹر کون بنے گا‘‘ ہر ایک ایڈیٹر بننے کا شوقین ہے! بہرحال اس مسئلے کے حل ہونے تک قارئین انتہائی دلچسپ، مفید، خوبصورت اور ان کی آرزوؤں، تمناؤں اور حسرتوں کی تکمیل کرنے والے اس رسالے ’’شکوہ‘‘ سے محروم رہیں گے۔