افریقہ کا شیر
احمد عدنان طارق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پڑھیے ایک ایسے ننھے شیر کی کہانی جو خود کو افریقہ کا سب سے بہادر شیر سمجھتا تھا لیکن پھر ہوایوں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئیے میں آپ کو آج ایک شیر کے بچے کی کہانی سناتا ہوں۔۔۔ جس کا نام شیرو تھا۔ وہ ابھی بہت چھوٹا تھا لیکن اسے یقین تھا کہ وہ براعظم افریقہ کا سب سے بہادر شیر ہے۔ جب اس کی ماں اسے اور اس کے بہن بھائیوں کو شکار پر جھپٹنا سکھاتی تو وہ ماں پر ہی جھپٹ پڑتا اور غراتا رہتا۔ جب وہ اُنھیں بتاتی کہ خود کو صاف کیسے رکھنا ہے تو وہ خود کو صاف کرنے کے بجاے اپنی چھوٹی بہن کا منھ چاٹنا شروع کر دیتا اور وہ بے چاری اس پر غرانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کرسکتی تھی۔
جب ماں سارے بچوں کو پانی پلانے کسی جوہڑ کے کنارے لے جاتی تو وہ اتنے زور سے پانی میں چھلانگ مار دیتا کہ اردگرد کھڑے اس کے سب بہن بھائی بھیگ جاتے۔ دوسری شیرنیاں اس ننھے شیرو سے بہت تنگ تھیں۔ وہ شیرو کی ماں سے کہتیں: ’’اپنے بچے کو تمیز سکھاؤ ورنہ یہ یقیناًکسی دن کسی بڑی مشکل میں پھنس جائے گا۔‘‘
ایک دن شیرو کی ماں نے اپنے بچوں کو سمجھاتے ہوئے کہا: ’’ میرے نزدیک رہنا ورنہ تم زخمی ہوسکتے ہو۔‘‘ وہ جھاڑیوں سے رینگتی ہوئی چھپتی چھپاتی جارہی تھی اور سبھی ننھے بچے اس کے پیچھے پیچھے تھے۔ شیرو سب سے آخر میں تھا۔ لمبی لمبی گھاس سے اس کے پیٹ میں گدگدی ہورہی تھی۔ اس کو بہت ہنسی آرہی تھی لیکن اس وقت وہ بہت مؤدب بنا ہوا تھا اور ماں کے کہنے پر عمل کررہا تھا۔ لہٰذا وہ بھی ماں کی نقل میں رینگتے ہوئے چلتا رہا۔ صرف اس نے اپنے بھائی جو اس سے آگے آگے چل رہا تھا کی کھڑی دُم پر نظر رکھی ہوئی تھی۔ چلتے چلتے شیرو کو بہت بے چینی اور اُکتاہٹ سی محسوس ہونے لگی تھی۔
اس نے کچھ سوچا اور خود سے کہنے لگا: ’’ ایک بہادر شیر کا بچہ کبھی ہمت نہیں ہارتا۔‘‘ یہ سوچ کر وہ دوبارہ چلنے لگا۔ آخر لمبی گھاس کا میدان اُنھوں نے عبور کر لیا۔ اب ان کے سامنے ایک چٹیل میدان تھا۔ شیرو نے سر اُٹھا کر دیکھا تو اس کی مایوسی کی انتہا نہیں رہی کہ جس کھڑی دُم کا وہ اب تک تعاقب کرتا ہوا آرہا تھا وہ اس کے کسی بھائی یا بہن کی دُم نہیں تھی بلکہ ایک چھوٹے سے ہاتھی کے بچے کی دم تھی۔ کہیں بے دھیانی میں چلتے چلتے وہ اپنوں سے بچھڑ گیا تھا۔ کیونکہ جس دُم کا وہ پیچھا کررہا تھا وہ دُم تبدیل ہوگئی تھی۔ اب وہ مکمل طور پر راستہ بھول چکا تھا۔ وہ چِلّاچِلّا کر ماں کو پکارنا چاہتا تھا لیکن پھر اسے یاد آیا کہ وہ تو افریقہ کا سب سے بہادر شیر ہے۔
آپ کا کیا خیال ہے اس نے کیا کیا ہوگا؟ وہ ہاتھی کے بچے کی ماں کی طرف سیدھا گیا اور اپنی پوری طاقت سے اس پر دھاڑا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اس سے ہتھنی ڈر جائے گی اور وہ کبھی بھی یہ جرأت نہیں کرسکتی کہ اس کی دھاڑ کا جواب دھاڑ سے دے۔ واقعی یہی ہواکہ اس کی ننھی دھاڑ کے جواب میں ہتھنی نہیں دھاڑی۔ اس کے بجاے اس نے اپنی بڑی سی سونڈ فضا میں بلند کی اور اتنی زور سے چنگھاڑی کہ وہ پیروں سے اُکھڑتاہوا فضا میں بلند ہوا اور اڑتا ہوا زور سے ایک درخت کے تنے سے جا ٹکرایا۔ شیرو بے چارہ کھڑا ہوا تو اس نے محسوس کیا کہ اس کے گھٹنے بج رہے ہیں اور ان میں سے عجیب عجیب سی آوازیں نکل رہی ہیں۔
اس نے سوچا کہ بے شک اس ہتھنی کی چنگھاڑ بہت ہی خوفناک تھی لیکن پھر بھی وہ افریقہ کا سب سے بہادر شیر ہے۔ وہ کھلے میدان میں چل پڑا۔ دوپہر ہوچلی تھی اور گرمی بلا خیز تھی۔ جلد ہی شیرو کی آنکھیں نیند سے بند ہونے لگیں۔ اس نے خود سے کہا: ’’میرا خیال ہے کہ کسی درخت کے ساے میں مجھے اونگھ لینا چاہیے۔‘‘ اور پھر درخت کی شاخوں میں خود کو چھپانے کے لیے چڑھنے لگا۔ لیکن پھر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ درخت پر تو کوئی اور جانور قبضہ کرکے بیٹھا ہوا ہے۔ یہ جانور ایک بڑا سا تیندوا تھا۔ شیرو کو غصہ آگیا اس نے دل میں سوچا کہ اس جانور کو بتانا ہی پڑے گا کہ براعظم افریقہ کے جنگلوں میں کس کی حکومت ہے؟ اس نے یہ سوچ کر اپنے ننھے پنجے ہوا میں لہرائے۔ تیندوے نے سر اٹھا کر شیرو کی طرف دیکھا اور پھر اس کے پنجوں میں سے تیز دھار بلیڈ کی طرح کے ناخن برآمد ہوئے۔ اس نے جو اپنا پنجہ لہرایا تو شیرو کو یوں لگا جیسے بجلی کوند گئی ہو۔ اگرچہ شیرو کے جسم کے کسی حصے سے اس کا پنجہ نہیں لگا لیکن اس کی تیزی سے جو شیرو کی آنکھیں چندھیائیں تو وہ درخت سے سیدھا زمین پر آگرا۔
بے چارہ شیرو ہمت کرکے اُٹھا تو اس نے دیکھا اس کی ٹانگیں خوف سے لرز رہی ہیں۔ اس کے ذہن میں پھر خیال آیا کہ تیندوے کے پنجے بلاشبہ بہت تیز اور بڑے تھے مگر بلاشبہ وہ افریقہ کے جنگلوں کا سب سے بہادر شیر ہے۔ وہ دوبارہ اُٹھا اور میدان میں آگے کو روانہ ہوگیا۔ کچھ دیر گزرنے کے بعد اسے شدید بھوک لگنے لگی۔ اس نے خود سے کہا: ’’ مجھے اب کھانے کے لیے کچھ بندوبست کرنا چاہیے۔‘‘ تب ہی اس کی نظر گھاس میں لیٹے ہوئے ایک جانور پر پڑی جس کے سارے جسم پر دھبے تھے۔ اس نے سوچا کہ یہ جانور کوئی مزیدار چیز لگتا ہے۔ وہ دھبوں والے جانور پر لپکا۔ یہ دھبوں والا جانور چیتا تھا۔ بجلی کی سی تیزی سے چیتا وہاں سے دوڑا۔ اس نے شیرو کو دیکھے بغیر سمجھا کہ پتا نہیں کون سی آفت آن پڑی ہے لیکن جیسے ہی وہ دوڑا اس کی دُم اتنے زور سے شیرو کے جسم سے ٹکرائی جس سے وہ لٹو کی طرح گھوما اور لڑھکنیاں کھاتا ہوادور جا گرا۔ جب شیرو کی لٹو کی طرح لوٹنیاں بند ہوئیں تو وہ اٹھا۔ اس نے دیکھا اس کا سارا جسم کانپ رہا تھا۔
خدا کی پناہ۔۔۔ چیتا واقعی بہت تیز رفتار جانور ہے پھر اس کے منھ سے بڑی کمزور آواز میں نکلا: ’’لیکن میں ابھی بھی افریقہ کا سب سے بہادر شیر ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ پھر میدان میں آگے کو روانہ ہوگیا۔
اب اندھیرا ہوچلا تھا اور شیرو کے دل میں بڑی شدت سے یہ خواہش جاگ رہی تھی کہ وہ کاش اپنی ماں اور بہن بھائیوں کے ساتھ ہوتا۔۔۔ وہ خود سے کہنے لگا: ’’پتا نہیں انھیں اب تک یہ معلوم بھی ہوا ہے یا نہیں کہ میں ان کے ساتھ نہیں ہوں۔ ‘‘ جیسے ہی اس کے منھ سے یہ کلمات ادا ہوئے۔ دو ننھے ننھے آنسو اس کی آنکھوں سے نکلے اور اس کی گالوں پر پھسل گئے۔ اسے سردی لگ رہی تھی۔ وہ تھکا ہوا تھا اور بھوک کی شدت سے اُس کا بُرا حال تھا۔ آخر وہ جھاڑیوں میں چھپ کر سوگیا۔ کچھ دیر بعد شیرو کسی آواز سے جاگا۔ جو اتنی زوردار اور اُونچی تھی جو اس نے آج تک نہیں سنی تھی۔حتیٰ کہ یہ آواز ہاتھی کی چنگھاڑ سے بھی زیادہ بلند تھی۔ اس آواز سے رات کا سناٹا اور سکوت درہم برہم ہو گیا اور شاخوں پر پتے لرزنے لگے۔ آواز قریب سے قریب تر آتی جا رہی تھی اور وہ جانور جس کی یہ آواز تھی وہ بھی نزدیک تر آرہا تھا۔
شیرو جہاں چھپا ہوا تھا وہاں سے اس نے باہر جھانک کر دیکھا تو اس نے پیلے اور سنہرے رنگ کا ایک بڑا سا جانور دیکھا ۔ جس کی بڑی بڑی آنکھیں اندھیرے میں چراغ کی طرح روشن تھیں۔ اس کے چہرے پر سنہری ایال تھی اور اس کے سرخ جبڑے کھلے ہوئے تھے ۔ جس میں سے بڑے بڑے سفید شکاری دانت صاف دکھائی دے رہے تھے۔ شیرو کے جسم کا رواں رواں کانپنے لگا۔ وہ اپنی دُم دبا کر بھاگنے ہی والا تھاکہ اس جانور نے دھاڑنا بند کر دیا اور شیرو کے پاس آکر رک گیااور شیرو سے اپنی بھاری بھر کم آواز میں کہنے لگا: ’’شیرو ادھر آؤ۔ یہ میں ہوں تمھارا بابا جان۔ میں تمھیں گھر لے کے جانے آیا ہوں۔ اب میری پیٹھ پر سوار ہوجاؤ۔ میرے ننھے بچے۔‘‘
اس کی آواز میں شیرو کے لیے ملائمت بھری ہوئی تھی ۔ لہٰذا شیرو جست لگا کر اپنے باپ کی کمر پر سوار ہو گیا اور سواری کرتے ہوئے گھر واپس آگیا۔ جب وہ گھر پہنچے تو اس کے باپ نے اس کی ماں سے کہا کہ میرا ننھا بچہ بہت بہادر ہے اور اس نے تمام وقت بڑی ہمت اور بہادری سے تنہا گزارا ہے۔ اس کے بہن بھائی اپنے باپ کی یہ بات انتہائی انہماک سے سن رہے تھے۔
*۔۔۔*
نئے الفاظ:
جھپٹنا: چھلانگ لگا کر دبوچ لینا
غُرّانا: غصّے سے آواز نکالنا
جوہَڑ: تالاب
مؤدب: ادب کرنے والا
عبور کرنا: پار کرنا
تعاقب: پیچھا کرنا
چِنگھاڑنا: ہاتھی کا چِلّانا
کوند: بجلی کی چمک
چُندھیانا: بہت روشن چیز پر نظر پڑنے سے آنکھوں کا نہ کُھلنا
سُکوت: خاموشی
ملائمت: نرم مزاجی
انہماک: غور، دلچسپی