آدم خور
عبدالرشید فاروقی
……..
یوسف کو گھر میں داخل ہوتے دیکھ کر دادا جان نے اُسے اپنے قریب بلایا:
”آگئے، بیٹے! آج کا دن کیسا گزرا؟“
”دادا جان! آج سکول میں ایک دلچسپ بات ہوئی۔“
”دلچسپ بات؟“ دادا جان بولے۔
”جی ہاں، تفریح کے دوران ہم میدان میں کھیل رہے تھے کہ یکا یک گھنے درخت کے قریب، ایک سانپ دکھائی دیا۔ سب لڑکے چیخنے چلانے لگے۔ سانپ زیادہ بڑا نہیں تھا، مگر لڑکے بے حد خوف زدہ تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں پورا سکول میدان میں جمع ہو گیا۔ اُستاد بھی آگئے مگر…“
یوسف خاموش ہوا تو دادا جان نے جلدی سے پوچھا:
”مگر کیا؟“
”مگر کوئی بھی سانپ کو مارنے کی ہمت نہیں کر رہا تھا۔ وہ بڑے مزے سے رینگ رہا تھا۔ میں نے اپنے ہم جماعت عدنان سے کہا کہ بھئی تم تو اتنے بہادر ہو۔ اسے ہلاک کیوں نہیں کرتے، دادا جان!جانتے ہیں، اس نے کیا جواب دیا؟ کہنے لگا، میں نے سانپ کو کبھی نہیں مارا۔ میں نے اور بھی کافی دوستوں سے کہا، لیکن کوئی آگے نہیں بڑھا۔ اُستاد پریشان تو تھے مگر کچھ کرنہیں پا رہے تھے۔ آخر میں نے اُسے مارنے کا فیصلہ کیا لیکن سر گھبرا کر کہنے لگے:
’تم… تم اِسے مارو گے؟‘
میں نے کہا:
’جی ہاں، میں اِسے ماروں گا۔‘
اور پھر دادا جان! میں نے اُسے مار دیا، ایک نوک دار پتھر کچھ اس طرح کھینچ کر اُسے مارا کہ اُس کا سر کچلا گیا۔ سانپ کے مرتے ہی لڑکوں نے مجھے کندھوں پر اُٹھا لیا اور نعرے لگانے لگے۔“
یوسف بات ختم کر کے ایسے ہانپنے لگا، جیسے میلوں کا سفر کر کے آیا ہو۔
دادا جان نے اُسے شاباش دی اور بولے:
”اِسی لیے تو میں کہتا ہوں، تم ایک بہادر لڑکے ہو، لیکن تمہارے اباجان میری بات کا یقین نہیں کرتے۔ شام کو جب انہیں معلوم ہو گا تو کتنا لطف آئے گا۔“
یوسف مسکرانے لگا، پھر بولا:
”دادا جان! کل رات آپ کہہ رہے تھے کہ آپ نے جوانی میں ایک شیر کو ہلاک کیا تھا۔“
”بے شک، میں نے ایک شیر کو ہلاک کیا تھا۔“ دادا جان نے جواب دیا۔
”کیا آپ وہ واقعہ مجھے نہیں سنائیں گے۔“ یوسف نے پوچھا۔
”ضرور سناؤں گا، لیکن ابھی نہیں۔ تم تھکے ہوئے سکول سے آئے ہو۔ تمہیں بھوک بھی ستا رہی ہو گی۔ پہلے یونی فارم بدلو، پھر کھانا کھاؤ اور اس کے بعد تھوڑا آرام کرو۔“ دادا جان نے اُسے پیار کرتے ہوئے کہا۔
”آرام کیا تو شام ہو جائے گی۔“ یوسف نے منہ بنا کر کہا۔
”شام ہونے سے کیا ہوتا ہے؟“ دادا جان مسکرائے۔
”آپ اپنے دوستوں کے ساتھ پارک چلے جاتے ہیں۔“
”تم نے ٹھیک کہا، مگر آج کی ساری شام تمہارے ساتھ گزرے گی۔“ دادا جان نے کہا تو یوسف مسکرانے لگا۔
شام کے وقت دونوں دادا پوتا پارک میں بیٹھے تھے۔ باتیں کرنے کے لیے،انہوں نے ایک الگ تھلگ جگہ کا انتخاب کیا تھا۔ موسم بے حد خوش گوار تھا۔ ٹھنڈی ہوا جسم اور روح کو عجیب سا سرور بخش رہی تھی۔
”دادا جان! اب سنائیے وہ واقعہ۔ آپ نے شیر کو کیسے ہلاک کیا تھا؟“ یوسف نے پوچھا۔
دادا جان نے پیار بھری نظروں سے یوسف کی طرف دیکھا، پھر کہنے لگے:
”بیٹے! یہ 1962ء کی بات ہے۔ میں ان دنوں اپنے ایک بنگالی دوست سے ملنے کے لیے مشرقی پاکستان گیا ہوا تھا۔ وہ سندر بن کے قریب ایک گاؤں میں رہتا تھا۔ سندر بن بنگلہ دیش کا بہت بڑا اور گھنا جنگل ہے۔ اس میں دوسرے جانوروں کے علاوہ شیر اور چیتے بھی پائے جاتے ہیں۔ خیر، ہمارے دن ہنسی خوشی گزر رہے تھے کہ اچانک گاؤں میں ایک عجیب واقعہ ہوا۔“
دادا جان کہتے کہتے رک گئے، پھر یوسف کو پوری طرح چوکس دیکھ کر انہوں نے دوبارہ کہنا شروع کیا:
”گاؤں کا ایک آدمی غائب ہو گیا، وہ گاؤں کے آخری سرے پر، جنگل کے قریب، اپنے کھیت میں کام کر رہا تھا۔ پورے گاؤں نے مل کر اسے بہت تلاش کیا، مگر وہ کہیں نہ ملا۔ پھر یہ سوچ کر لوگوں نے دل کو تسلی دی کہ ممکن ہے، وہ کسی کام سے شہر چلا گیا ہو، لیکن تین دن گزرنے پر بھی وہ واپس نہ آیا تو اس کے گھر والوں کا برا حال ہو گیا۔ گاؤں والوں نے انہیں بہتیری تسلیاں دیں، مگر انہیں کسی کل چین نہ تھا۔
یوسف بیٹے! ابھی لوگ اس واقعے کو بھولے نہیں تھے کہ ایک روز ایک اور آدمی غائب ہو گیا۔ اب لوگوں کو بہت فکر ہوئی۔ کیا مرد کیا عورت، سب ہی پریشان اور فکر تھے۔ نوجوانوں نے اردگرد کے گاؤں کھنکالے، مگر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ یوں لگتا تھا، جیسے ان دونوں کو زمین نے نگل لیا ہو۔
ہر روز، شام کے وقت، لوگ چوپال میں جمع ہوتے، اندازے لگائے جاتے، مگر کچھ نتیجہ نہ نکلتا۔ پتا نہیں، دونوں آدمی کہاں غائب ہو گئے تھے۔ ایک خوف تھا جو گاؤں والوں کے دلوں میں بیٹھ گیا تھا۔
وہ ایک سہانی شام تھی، جب لوگوں کا ایک گروہ میرے پاس آیا۔ اُن کے لٹکے ہوئے، پریشان چہرے دیکھ کر میں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ ایک اور آدمی غائب ہو گیا ہے۔ میرا اندازہ درست نکلا۔ واقعی نذرل کمہار غائب ہو گیا تھا۔ بے چارہ دوپہر کے وقت برابر والے گاؤں میں برتن فروخت کر نے گیا تھا اور شام تک گھر نہیں پہنچا تھا۔ میں فوراً ان کے ساتھ چل پڑا۔
چوپال میں پہلے ہی بہت سے لوگ موجود تھے اور سب اپنی اپنی بولیاں بول رہے تھے۔ آخر طے یہ کیا گیا کہ گاؤں کے نوجوان مل کر ان گمشدہ لوگوں کا سراغ لگائیں گے۔ لوگ میری عزت کرتے تھے اور میری باتوں کو اہمیت دیتے تھے۔ چناں چہ میں نوجوانوں کا لیڈر مقرر ہوا اور پھر ہم نے اپنا کام شروع کر دیا۔ ہم نے ارد گرد کے تمام گاؤں اچھی طرح دیکھ ڈالے، مگر غائب ہونے والے آدمی کہیں نہیں ملے۔
وہ دوپہر کا وقت تھا، جب ہم بیس کے قریب نوجوان جنگل میں گھوم رہے تھے۔ ہمارے ہاتھوں میں موٹے ڈنڈے اور کلہاڑیاں تھیں۔ بندوق گاؤں بھر میں کسی کے پاس نہ تھی۔ ہم لوگ چھوٹے بڑے ٹیلوں اور جھاڑیوں کو غورسے دیکھ رہے تھے۔ ایک بہت گھنی جھاڑی کو دیکھتے ہوئے میری نظر کپڑے کے چیتھڑوں پر پڑی۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو یہ چیتھڑے دکھائے تو اُنہوں نے کہا:
’یہ تو نذرل کے کپڑے ہیں۔‘
’دوستو! یہ چیتھڑے ظاہر کر رہے ہیں، نذرل اب اِس دُنیا میں نہیں ہے اور یہ دیکھو، ان پر خون کے دھبے بھی ہیں۔‘ میں نے کہا۔
’یعقوب بھائی! اِس کا مطلب ہے…‘ ایک نوجوان کہتے کہتے رُک گیا۔
’ہاں، تمہارا خیال درست ہے۔ کوئی درندہ لوگوں کا دشمن ہو گیا ہے۔‘ میں نے کہا۔ میری بات سن کر سب ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
”ہاں، یہ کسی درندے کا کام ہے اور یقینا وہ درندہ شیر ہی ہو گا۔ میں نے کئی آدم خور شیروں کی کہانیاں پڑھی ہیں۔“ میں نے کہا۔
”یوسف بیٹے! جب گاؤں والوں کو پتا چلا کہ کوئی آدم خور شیر لوگوں کو غائب کر رہا ہے تو وہ اور خوف زدہ ہو گئے۔ بہر حال، ہم نوجوانوں نے اس آدم خور شیر کو ہلاک کرنے کا پروگرام بنایا۔
اُس رات جب آسمان پر چاند پوری طرح روشن تھا، ہم جنگل کے اُس حصے میں جا کر چھپ گئے، جس سے کچھ فاصلے پر گاؤں تھا۔ ہمارا خیال تھا کہ شیر جنگل سے نکل کر جیسے ہی گاؤں کی طرف بڑھے گا، ہم اس پر ڈنڈوں اور کلہاڑیوں سے حملہ کر دیں گے۔
بیٹے! آج اپنے اُس منصوبے کا ذکر کر کے مجھے ہنسی آتی ہے، بھلا ایسے بھی کسی آدم خور شیر کو مارا جاتا ہے۔ پوری رات انتظار میں بیت گئی مگر شیر نہیں آیا۔
اگلے دن مجھے شیر پکڑنے کی ایک ترکیب یاد آئی جو میں نے شکار کی ایک کہانی میں پڑھی تھی۔ ترکیب بہت زوردار تھی اور مجھے پورا یقین تھا کہ ہمیں کامیابی ہو گی۔ ہم نے دوپہر کے وقت، جنگل کے پاس،ایک بہت بڑا اور گہرا گڑھا کھودا اور اس پر باریک باریک تیلیوں کی چھت ڈال دی۔ پھر گڑھے کے اُس کنارے پرجو گاؤں کی طرف تھا، ایک موٹی تازی بکری باندھی اور ہم چاروں نوجوان، گڑھے کے قریب ایک درخت پر چڑھ کر بیٹھ گئے۔
ہماری نظریں جنگل کی طرف تھیں اور مجھے پورا یقین تھا کہ شیر ضرور آئے گا۔ ہمیں انتظار کرتے آدھ گھنٹا گزرا تھا کہ شیر جنگل میں سے نکلتا دکھائی دیا۔ وہ بڑے چوکنے انداز میں اس گڑھے کی طرف بڑھ رہا تھا،جس کے دوسری طرف بکری بندھی ہوئی تھی۔ وہ گڑھے سے دس پندرہ فٹ دُور تھا۔ اُس نے ایک دم اپنے جسم کو پیچھے کی طرف سکیڑا اور بکری کی طرف چھلانگ لگا دی، لیکن ہماری توقع کے مطابق، وہ گڑھے کے کنارے پر، بکری کے پاس گرنے کے بجائے گڑھے کی چھت پر گرا اور گڑھے نے اُسے نگل لیا۔
یہ دیکھ کر ہم چاروں جلدی سے نیچے اترے اور گڑھے کے قریب پہنچے۔ شیر غصے سے دھاڑ رہا تھا۔ اس وقت اس کی حالت دیکھنے والی تھی۔
’یعقوب بھائی! جلدی سے اِسے ہلاک کر دو۔ ایسا نہ ہو،یہ باہر نکل آئے۔‘ ایک نوجوان نے کہا۔
’فکر نہ کرو، گڑھے کی گہرائی اتنی ہے کہ یہ باہر نہیں نکل سکتا۔‘ میں نے کہا۔
’تم ابھی، اسی وقت شہر جاؤ اور کسی ایسے آدمی کو بلا کر لاؤ، جس کے پاس بندوق ہو۔‘
اسی وقت دوڑتے قدموں کی آوازیں آئیں۔ پورا گاؤں ہماری طرف بھاگا آرہا تھا۔ ایک نوجوان نے مجھے کندھوں پر اُٹھا لیا۔ گاؤں والے میرے گرد خوشی سے ناچنے لگے۔“
اِتنا کہہ کہ دادا جان خاموش ہو گئے۔
”واہ…دادا جان! آپ نہ صرف بہادر تھے بلکہ ذہین بھی۔‘‘ یوسف نے بڑے جوش سے کہا۔
”کیا مطلب… کیا میں اَب بہادر اور ذہین نہیں ہوں؟“
دادا جان کے کہنے کا انداز ایسا تھا کہ یوسف کھل کھلا کر ہنس پڑا۔
OOO