skip to Main Content
اچھا والا پارک

اچھا والا پارک

ببلومیاں کا موڈ آج خراب تھا۔ بات تو چھوٹی سی تھی لیکن ببلو کے نزدیک بہت بڑی تھی۔ اسی وجہ سے ببلو چادر میں منہ لپیٹے پڑا تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ ببلو میاں کو الہ دین پارک بہت پسند تھا۔ وہ ہر مہینہ اپنے امی ابو اور چھوٹی بہن کے ساتھ الہ دین پارک گھومنے ضرور جاتے تھے۔ وہاں کے جھولوں کی سیر کرنے میں ببلو میاں کو بہت مزا آتا تھا اور خاص طور پر واٹر پارک میں اونچی والی سلائیڈ تو انہیں بہت ہی پسند تھی۔ وہاں کا سمندر کی لہروں جیسا سوئمنگ پول، ٹھنڈی ٹھنڈی آئسکریم ببلو میاں کو بہت اچھی لگتی تھی۔بس یہ سمجھ لیں کہ الہ دین میں تو ببلو میاں کی جان تھی۔ اور آج تو غضب ہوگیا۔ ببلو میاں کے ہم جماعت راشد نعیم کلاس میں سب کو بتا رہے تھے کہ وہ کل الہ دین پارک گئے تھے اور کل ہی وہاں ہر ایک نیا جھولا لگا ہے جو کہ بہت تیز اور خطرناک ہے۔ ببلو میاں تو راشد کی بات سنتے ہی غصے میں میں لال پیلے ہوگئے۔
’’یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ الہ دین میں نیا جھولا لگے اور مجھے پتا نہ چلے میں آج ہی ابو سے کہہ کر ضرور الہ دین پارک جاؤں گا۔‘‘ ببلو نے دل ہی دل میں سوچا تھا۔ مگر جب ببلو میاں نے شام کو ابو کے دفتر سے گھرآنے پر ان سے الہ دین چلنے کی فرمائشی کی تو ابو نے صاف انکار کردیا۔
ابو نے کہنا تھا کہ ابھی دو ہفتے پہلے ہی تو پارک گئے تھے اب کیا روز روز صرف الہ دین پارک ہی جاتے رہیں گے۔
بس ابو کا اتنا کہنا تھا کہ ببلو میاں کا موڈ خراب ہوگیا اور وہ اپنے کمرے میں جاکر ناراضگی کے انداز میں بستر پر لیٹ گئے۔
’’ببلو بیٹا کھانا کھالو کھانا ٹھنڈا ہورہا ہے۔‘‘ امی آواز دیتی ہوئیں ببلو کے کمرے میں آگئیں۔
’’میں کھانا نہیں کھاؤں گا میں آپ سب سے ناراض ہوں۔ ابو بھی خراب ہیں اور آپ بھی خراب ہیں‘‘۔ ببلو نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔
’’وہ کیوں؟‘‘ ببلو کی باتیں سن کر امی کی ہنسی نکل گئی۔
’’میں نے آج الہ دین جانا تھا وہاں پر نیا جھولا لگا ہے اور میں نے اپنے سب دوستوں کو بتایا تھا کہ میں کا انہیں اس نئے جھولے کے بارے میں بتاؤ گا مگر ابو مجھے الہ دین نہیں لے جارہے‘۔ ببلو کی شکل رونے والی ہورہی تھی۔‘‘
’’اچھا یہ بات ہے چلو میں تمہارے ابو کو یہیں بھیج دیتی ہوں پھر تم دونوں ملکر فیصلہ کرلینا۔‘‘ امی مسکراتے ہوئے بولیں۔
’’ارے بھئی کیا ہورہا ہے۔ کیا کھسر پھسر چل رہی ہے؟‘‘ ابو نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا۔
’’ارے وہی الہ دین جانے کی ضد، ببلو آپ سے ناراض ہے کہہ رہا ہے میں کھانا بھی نہیں کھاؤں گا‘‘۔ امی ابوسے بولیں۔
کیوں بھئی یہ تو بہت بری بات ہے۔ کھانا کھانے سے منع کرنے پر تو اللہ میاں بہت ناراض ہوتے ہیں۔‘‘ ابو نے ببلو کو سمجھایا۔
’’بس میں آپ سے کٹی ہوں۔ آپ مجھے الہ دین کیوں لے کر نہیں گئے۔‘‘ببلو منہ بناتے ہوئے بولا۔
’’ارے ابھی کچھ دن پہلے ہی تو گئے تھے چلو اچھا یہ بتاؤ آج کیادن ہے‘‘۔
’’بدھ‘‘ ببلو نے مختصراً جواب دیا۔
’’ٹھیک ہے ترسوں ہفتہ کی شام کو ہم لوگ الہ دین چلیں گے خوش‘‘۔
ابو نے گویا ببلو کے دل کی بات کہہ دی۔
’’وعدہ‘‘ ببلو نے خوشی سے پوچھا۔
’’ہاں ہاں پکا وعدہ مگر آپ اپنا ہوم ورک بھی پورا کرلیجئے گا اور تیسرا کلمہ جو آپ کو کچا پکا یاد ہے اسے بھی صحیح سے یاد کریے گا تب ہی ہم الہ دین جاسکیں۔‘‘ ابو نے ببلو کے ذمہ بھی کام لگا دیے۔
’’ٹھیک ہے‘‘ ببلو کی خوشی چھپائے نہ چھپتی تھی وہ چھلانگ مارکر کھانا کھانے کے لیے بستر سے اتر آیا۔

*۔۔۔*۔۔۔*

آج ببلو نے دوپہر سے ہی ابو کا انتظار شروع کردیا تھا ’’امی ابو کب آئیں گے وہ بار بار گھڑی دیکھتا ہوا۔ امی سے پوچھ رہا تھا۔
’’ارے آنے ہی والے ہوں گے اب بار بار تنگ مت کرو۔‘‘ امی نے ببلو کو گھورتے ہوئے جواب دیا۔
اچانک دروازے کی گھنٹی بجی ببلو نے جلدی سے دروازہ کھولا تو باہر ابو جان کھڑے تھے۔
’’السلام علیکم‘‘ ببلو نے ابو کو سلام کیا۔
’’وعلیکم اسلام‘‘ ابو نے اندر آتے ہوئے جواب دیا۔
’’ابو آج الہ دین جانا ہے آپ کو یاد ہے نا۔‘‘ ببلو نے یاد دہانی کروانی۔
’’ہاں ہاں بالکل یاد ہے۔ بس کپڑے بدل کر اور چائے وائے پی کر چلیں گے۔‘‘ ابو نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
ببلو نے الہ دین جانے کے لئے نئی والی کالی پینٹ اور پیلی شرٹ پہنی تھی اور جو گرز بھی پہنے تھے۔ جبکہ اسکی چھوٹی بہن مریم نے گلابی فراک پہنی تھی۔
’’ببلو بیٹا نے آج اسکول میں کیا پڑھا کچھ تو بتاؤ۔‘‘ ابو چائے پیتے ہوئے بولے۔ 
’’ابو پڑھا تو بہت سارا مگر ایک بات سمجھ میں نہیں آئی۔‘‘ ببلو نے جواب دیا۔
’’ وہ کیا بیٹا‘‘۔ ابو نے پوچھا۔
’’ابو ہماری اسلامیات کی مس کہہ رہیں تھیں کہ جو لوگ اچھے اچھے کام کرتے ہیں وہ بعد میں جنت میں جائیں گے۔ وہاں پر درخت ہوں گے پانی کی نہریں ہوگی۔ کھانے پینے کی چیزیں ہوں گی۔ ابو کیا جنت الہ دین پارک جیسی ہوگی۔‘‘ ببلو نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔
’’ارے الہ دین تو بہت چھوٹی سے جگہ ہے۔ جنت تو بہت بڑی اور خوبصورت ہے۔‘‘ ابو نے جواب دیا۔
’’وہاں پر جھولے ہوں گے ببلو نے پوچھا۔
’ہاں بہت سارے ایک سے ایک‘‘ ابو نے جواب دیا۔
’’اور پانی والے سوئمنگ پول!
’’ارے وہاں پانی تو کیا شہد اور دودھ بھی بہہ رہے ہونگے۔ ‘‘ ابو بولے۔
’’واقعی؟ اور وہاں پر آئسکریم ہوگی؟‘‘
’’ہاں وہ بھی بہت ساری ہوگی۔‘‘
’’اور چاکلیٹ؟‘‘
’’ارے بہت سی چاکلیٹ‘‘
’’اور دنگ دانگ چنگم (ڈنگ ڈنگ چیونگم)؟‘‘ ببلو کی چھوٹی بہن مریم نے بھی اپنا سر ہلاتے ہوئے پوچھا وہ بڑی غور سے ان کی باتیں سن رہی تھی۔
’’ہاں ہاں وہاں سب کچھ ہوگا جو آپ مانگیں گے وہ مل جائے گا۔‘‘ ابو مریم کو پیار کرتے ہوئے بولے۔
’’یعنی اچھا والا الہ دین پارک‘‘۔ ببلو نے دوبارہ کنفرم کیا۔
’’ہاں بس یہی سمجھ لو۔‘‘
’’وہاں کون جائے گا۔‘‘ ببلو نے پھر پوچھا۔
’’بھئی جو بچے اچھے کام کرتے ہیں نمازیں پڑھتے ہیں۔ قرآن پڑھتے ہیں اپنے امی ابو کو تنگ نہیں کرتے وہ سب جنت میں جائیں گے اچھا ببلو آپ یہ بتائیں آپ کتنے سال کے ہیں؟‘‘ابو نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔
’’دس سال چار مہینے کا‘‘۔ ببلو فخر سے بولا۔
’’دیکھیں آپ دس سال کے ہوگئے مگر آپ صرف جمعہ کی نماز پڑھتے ہیں اور بقیہ نمازیں گول، اور جب آپ کے قاری صاحب آتے ہیں تو کبھی آپ کے پیٹ میں درد ہونے لگتا ہے اور کبھی سر میں اس طرح تو آپ جنت میں نہیں جاسکتے۔‘‘ ابو نے ببلو کو سمجھایا۔
’’ابو میں اب سے نمازیں بھی پڑھوں گا اور قرآن بھی اور امی کی سب باتیں سنوں گا پھر تو میں اچھے والے الہ دین پارک میں جاؤنگا نا۔‘‘ ببلو پر امید لہجے میں بولا۔ 
’’ہاں ۔ ہاں بالکل‘‘۔ ابو خوشی سے بولے۔
’’چلیں بھی دیر ہورہی ہے۔‘‘ امی نے ابو کی توجہ وقت کی طرف کراتے ہوئے کہا۔
’’امی مغرب کی اذان ہو رہی ہے اب تو نماز پڑھ کر ہی چلیں گے ورنہ اگر راستے میں نماز نکل گئی تو میں اچھے والے الہ دین پارک میں کیسے جاؤں گا۔‘‘ ببلو امی کو بتاتے ہوئے بولا۔ امی ابو ہنسنے لگے جب کہ ببلو سوچ رہا تھا کہ میں نے ابو سے یہ توپوچھا نہیں کہ اچھے والے الہ دین پارک میں اسکول بھی جانا پڑے گا یا نہیں۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top