ابھی کرتی ہوں۔۔۔
انیسہ سلیم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’شہلا ، گڑیا ۔ذرا یہ کپڑے الماری میں رکھ دو‘‘
امی نے شہلا کو آواز دی
’’ابھی رکھتی ہوں‘‘ ۔شہلا نے حسب عادت جو اب دیا اور اپنی کہانی میں مگن ہو گئی ۔کہانی تھی ہی اتنی دلچسپ ۔دس منٹ میں کہانی ختم ہوئی تو شہلا امی کاکام بھول چکی تھی ۔
’’شہلا بیٹی ،نماز پڑھ لی ۔‘‘
’’ابھی پڑھتی ہوں ۔‘‘ شہلا حسب عادت بول اٹھی ذرا یہ دوا وور دیکھ لو ں۔‘‘ شہلا کی نظر یں T.Vاسکرین پر تھیں ۔جہاں کر کٹ میچ چل رہا تھا دو اوور ،(over) کے بعد صو رت حال اسقد ر دلچسپ ہو گئی کہ نما زکا دھیان ہی نکل گیا ۔’’بیٹا اسکول کے جو تے پا لش کر لو، امی نے رات یاد دہانی کروائی ۔
’’ابھی کرتی ہو ں ‘‘۔پھر وہی بھول کا سلسلہ ۔اور صبح اسکول کے لئے دیر سے آنکھ کھلی ۔جو تے پا لش کئے بغیر ہی پہنے گئے ۔ڈانٹ کے ساتھ۔اور یہ ایک دن کی با ت نہیں ۔شہلا کا روز کا معمو ل تھا۔
’’ابھی کر تی ہوں ‘‘
’’ابھی اٹھا تی ہوں ‘‘
’’ابھی رکھتی ہو ں ‘‘
یہ جملے بطور عادت اس کے منہ سے پھسل پڑتے ۔کام دھر اکا دھرا رہتا ۔امی کی ڈانٹ غصہ اور خفگی کے باوجود اس کی عادت کم ہو نے کے بجائے بڑھتی چلی جا رہی تھی ۔اور آج تو غضب ہو گیا ۔امی نے دودھ چولہے پر رکھا اور چھو ٹے اسد کو کھا نا کھلا نے بیٹھ گئیں شہلا کو آواز دی۔
’’شہلا ۔ دودھ چولہے پر ہے ۔ذرا دیکھ لو ‘‘
’’ابھی دیکھتی ہوں ‘‘ جو اب بڑی سعادت مند ی سے دیا گیا مگر عمل ؟ پھر کیا تھا ۔!دودھ بے چار ا کچھ اُبل گیا کچھ جل گیا ۔امی کا تو غصے کے ما رے بر احال ۔اتنی ڈانٹ پڑ ی کہ شہلا کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔قصور تھا لہٰذا سر جھکا ئے سہتی رہی ۔امی کا غصہ رات گئے تک نہ اتر ا تھا ۔بچو ں کو سلا نے کے بعد امی نے سارا معاملہ ابو کے سامنے رکھ دیا ۔’’چھٹی جما عت میں آگئی ہے ۔اتنا ساکام نہیں کر سکتی ‘‘۔
امی کی با ت میں وزن تھا ۔’’اور با ت آج کی نہیں ۔ ہر کام میں یہ ہی ہو تا ہے ۔‘‘
’’ابھی اٹھا تی ہوں ۔ابھی کر تی ہوں ۔ابھی اٹھا تی ہوں ‘‘
’’اوراس کے بعد کا م ۔۔۔وہیں کا وہیں ‘‘
ابو مسکر اتے ہو ئے سنتے رہے ۔
’’آپ تو بس اپنی اولا د کے کا رناموں پر خوش ہو تے رہئے ‘‘
امی ابو کی مسکر اہٹ سے اور جل گئیں
’’ارے بھئی ۔نا راض کیوں ہو رہی ہو ۔ایک تر کیب ہے میر ے پاس ‘‘
امی کی نا راضگی دیکھ ابو جلد ی سے بو ل اٹھے ۔
’’کیا ۔؟‘‘امی نے پو چھا
پھر تر کیب سن کر مسکرا ئیں۔’’ہا ں ہے تو اچھی ‘‘
’’امی نا شتہ ۔۔۔!‘‘شہلا نے اسکول کے لئے تیا ر ہوتے ہوئے آواز لگا ئی ۔
’’ابھی لا رہی ہوں ‘‘۔امی نجانے کن کن کاموں میں مصر وف تھیں ۔
’’امی ،وین آجا ئے گی ۔‘‘ شہلا پھر بو لی
اتنے میں امی نا شتہ لے آئیں ۔شہلا نے جلد ی جلدی منہ چلا یا اور اللہ حافظ کہہ کر اسکول چل دی ۔ڈھنگ سے نا شتہ نہ کر نے کی وجہ سے اسکول میں طبیعت اکتائی اکتائی رہی ۔چھٹی ہو ئی تو جا ن میں جان آئی گھر پہنچنے تک بھو ک نے بر احال کر دیا تھا ۔
’’امی کھا نا ۔‘‘ شہلا نے دروازے ہی سے ہا نک لگائی۔ اور منہ ہا تھ دھو کر یونیفارم بد لے بغیر کھا نا کھانے بیٹھ گئی ۔آج امی نے بھی یونیفارم تبدیل کر نے پر اصر ار نہیں کیا ۔نوالہ منہ میں ڈالتے ہو ئے سالن قمیض پر گر گیا ۔
’’اوہ ۔‘‘امی نے صرف اتنا کہا۔
’’سوری مام ،دھو دیں گی نا ‘‘شہلا کو یونیفارم تبدیل نہ کر نے کا اب احساس ہو اتھا ۔
’’ابھی دھودوں گی ‘‘
امی میر ے موزے بھی بہت گند ے ہو گئے ہیں ‘‘
’’ابھی دھودونگی ‘‘
’’ اور امی میرے انگلش کے ٹیسٹ پر سائن بھی کر نی ہے ۔
’’ اچھا ‘‘۔امی بو لیں
’’اورامی میر ے بیگ کا ہینڈل نکل گیا ہے ‘‘
’’ابھی مو چی کے پا س بھجواتی ہوں ۔‘‘
*۔۔۔* ۔۔۔*
اگلی صبح پُر ہنگامہ صبح بن کر نمودار ہوئی ۔سورج تومشرق ہی سے نکلا مگر شہلا کے چودہ طبق روشن کر گیا ۔
یونیفارم پر تیل کا دھبہ اپنی جگہ موجود تھا ۔
’’امی آپ نے دھویا نہیں ‘‘۔
’’ارے یہ رہ گیا ‘‘۔امی عام لہجے میں بولیں ۔
’’لا ؤ اسے ابھی دھودوں ‘‘ امی نے اس کے ہا تھ سے قمیض لی اور بیسن پر رگڑ کر دھو یا اوراسے استر ی سے سکھانے لگیں ۔
شہلا نے جو تے پا لش کر نے کے لئے اٹھا ئے تو یا د آیا ’’موزے ‘‘
’’امی ،موزے کدھر ہیں ؟‘‘
’’ اف ! دوبا رہ یا د کیو ں نہیں دلایا تھا ‘‘ امی جھنجلاکر بولیں ۔
’’اب میں کیا پہنو ں؟ ‘‘ شہلا کی آنکھو ں میں نمی اتر آئی ۔
’’پرانے موزوں کے تھیلے میں سے ڈھونڈ لو ۔۔کچھ نہ کچھ تو مل جائے گا ‘‘
امی استر ی کر تے ہو ئے بو لیں ۔
’’ امی اس میں تو سب بے ڈھنگے ہیں ‘‘ شہلا تھیلا لئے بیٹھی تھی
’’ یہ والا ۔۔۔اور وہ پیلے کے نیچے والا لے لو ۔‘‘ امی نے دورہی سے اشارہ کیا ۔’’امی یہ توچھوٹا بڑا ہے ۔اور اس میں سوراخ بھی ہے ‘‘
’’بھئی آج گزاراکر لو ۔اب کیا کر سکتے ہیں ‘‘
امی سخت لہجے میں بولیں ۔اسی بھاگم دوڑی میں تیا ری اور ناشتہ کیا گیا ۔وین آنے میں پا نچ منٹ تھے۔
’’ اچھا ۔اللہ حا فظ ‘‘کہہ کر شہلا نے بیگ اٹھا یا۔
’’یہ کیا ۔۔؟‘‘شہلا کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
’’ امی یہ جڑوایا نہیں ۔‘‘؟ شہلا ابھی تک بے یقینی کی کیفیت میں تھی ۔’’ امی ،میں نے آپ کو بتایا تھا ‘‘ شہلا کی آواز خا صی بلند اور تیز ہو گئی تھی ۔اور اس کے اس طرح زور سے بو لنے پر ابو نے قرآن پڑھتے ہو ئے اسے خشمگیں نگاہوں سے دیکھا ۔
’’ افوہ۔! اتنے کا م ہو تے ہیں ۔میں بھی بھول سکتی ہوں ‘‘۔
امی ایک پرانا بیگ لئے کھڑی تھیں ۔’’ لو اس میں رکھ لو۔ آج تو ۔‘‘
جلدی جلدی شہلا نے امی کی مدد سے اس میں کتا بیں ٹھو نسی ۔۔۔’’ اتنا خر اب بیگ ۔دوسال پر انا ‘‘وہ یہ صرف دل میں سو چ کر رہ گئی کچھ کہنے کا وقت ہی نہیں بچا تھا ۔وین کے ہارن پر گیٹ کی جا نب بھاگ کھڑی ہو ئی ۔
دوسرا پیریڈ انگلش کا تھا کل مس نے سختی سے ٹیسٹ پر سائن کر وا کر لانے کیلئے کہا تھا ۔شہلا مطمئن تھی کہ امی نے سائن کر دی ہوگی ۔لیکن جب کاپی کھولی تو پیر وں سے زمین کھسک گئی ۔سائن کا پی پر موجو د نہ تھی ۔
’’ شہلا آپ نے ٹیسٹ میں اچھے نمبر لئے ہیں پھر سائن کیوں نہیں کروائی ‘‘مس نے پوچھا
’’وہ ۔۔۔وہَ مس ہم نے ۔ہم نے امی سے کہا تھا ۔‘‘
شہلا کے لہجے میں ہکلاہٹ آگئی تھی ۔
’’پھر آپ نے چیک کیو ں نہیں کیا ؟‘‘َ مس کے سوال کا کو ئی جو اب نہ تھا ۔لہٰذ اپو را پیریڈکھڑا ہو نا پڑا۔ شرمندگی الگ رہی ۔
*۔۔۔* ۔۔۔*
’’امی نے تو کہا تھا ۔ ابھی کر تی ہوں‘‘ شہلا نے کئی بارسوچا ۔’’شہلا، آپ بھی تو یہ کر تی ہیں ‘‘ ابو اسے سمجھارہے تھے ۔’’کام وقت پر نہ ہو تو اپنی قدروقیمت کھوبیٹھتا ہے‘‘۔
’’ یہ بچپن کی عادتیں مشکل سے چھوٹتی ہیں ،اچھی ہوں یا بری ۔اس لئے آپ کو چاہئیے کہ اچھی عادتیں اپنا لیں تاکہ وہ ہمیشہ قائم رہیں۔اوربری عادتوں کو ابھی سے چھوڑدیں ‘‘۔ابو نرم لیکن دوٹوک لہجے میں اسے سمجھا رہے تھے۔
’’ آج کے بعد آپ کو ہر کام وقت پر کر نا ہے‘‘
’’وعدہ ۔‘‘
’’وعدہ ،انشاء اللہ‘‘ ۔شہلا بولی
*۔۔۔* ۔۔۔*
’’شہلا، گڑیا بستر بچھادو ‘‘
’’جی ۔ابھی کر تی ہوں ‘‘شہلا حسب عادت بولی پھر فوراً ہی چونک پڑی ۔کمانڈو فور ہا تھ سے رکھی اور بستر بچھانے لگی۔ امی اس کی فرمانبرداری پر سجدہ شکربجالائیں ۔
*۔۔۔* ۔۔۔*