skip to Main Content

۵ ۔ آزمائش کا زمانہ

نظرزیدی

۔۔۔۔۔۔۔

جب رسول ﷺنے یہ اعلان کیا کہ میں اللہ کا رسولﷺ ہوں اور وہ باتیں بتانے آیا ہوں جن پر عمل کرنے سے سا ری برائیوں کا خاتمہ ہو جائے گااور یہ دنیا ایسی اچھی بن جائے گی کہ امیر ‘غریب سب ہنسی خوشی زندگی گزاریں گے ۔کسی کو معمولی سی تکلیف بھی نہ ہوگی ‘تو ان اچھی باتوں پر عمل کرنے کے بجائے مکہ کے کافر سردار آپ ﷺ کے دشمن بن گئے اورسب یہ کوشش کرنے لگے کہ آپﷺاپنے نئے مذہب کی باتیں کرنا چھوڑدیں ۔
ان کی اس مخالفت کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ اپنی بے عقلی کی وجہ سے وہ برائیوں سے بھرے ہوئے اپنے پرانے مذہب ہی کو بہت اچھا سمجھتے تھے اور چاہتے تھے کہ جس طریقے پر ان کے کافر باپ دادا چلتے تھے اسی پر چلتے رہیں ۔
اس کے علاوہ مخالفت کی دوسری وجہ یہ تھی کہ ان ظالم سرداروں نے ایسے قاعدے اور قانون بنا رکھے تھے کہ غریب غرباء جو محنت مزدوری کرتے تھے اس کا سارا فائدہ خود ہڑپ کر جاتے تھے اور انسانوں کو فائدہ پہنچانے والی جتنی چیزیں تھی ان سب پر خود قبضہ کر رکھا تھا۔
ظلم اور بے انصافی کی اور باتوں کے علاوہ ایک یہی بات بہت بری تھی کہ کمزور مردوں‘عورتوں اوربچوں کو پکڑ کر غلام بنا لیتے تھے اور ان کے ساتھ جانوروں سے بھی برا سلوک کرتے تھے ۔
حضور ﷺنے ان سب بے انصافیوں سے روکا اور یہ تعلیم دی کہ سب انسان رتبے میں برابر ہیں ‘کیونکہ سب ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں ۔رتبہ اور عزت صرف ان کی زیادہ ہے جو اچھے کام کرتے ہیں ۔
کافروں کو دین اسلام کی یہ باتیں بہت بری لگیں اور وہ آپﷺ کے دشمن بن گئے اور کوشش کرنے لگے کہ جس طرح بھی ہو اس نئے دین کو ختم کر دیں ۔
غریب مسلمانوں کو ستانااور پریشان کرنا تو ان کے لیے کچھ بھی مشکل نہ تھا‘چنانچہ وہ غریب مسلمانوں پرطرح طرح کے ظلم کرتے تھے۔آگے چل کے وہ آزاد اور خوش حال مسلمانوں کو بھی ستانے لگے‘بلکہ خاص حضورﷺ کے ساتھ بھی وہ ایسا ہی سلوک کرنا چاہتے تھے‘لیکن ابو طالب کی وجہ سے ایسا نہ کرسکتے تھے۔ابو طالب قریش کے مشہور خاندان بنو ہاشم کے سردار تھے اور اور کافروں کو ڈر تھا کہ اگران کے بھتیجے کو کھلم کھلاستایا‘تو وہ ناراض ہو جائیں گے اور ان کے کہنے سے ان کا پورا خاندان لڑنے مرنے کے لیے تیار ہو جائے گا۔
بادشاہ بنانے کا لالچ
ان سب باتوں پر غورکرکے کافر سرداروں نے ایک دن یہ صلاح کی کہ حضورﷺ سے یہ کہا جائے کہ اگر وہ نئے دین کی باتیں کرنا چھوڑدیں تو انہیں اپنا بادشاہ بنالیں گے اور وہ سب خواہشیں پوری کردیں گے جو وہ چاہیں گے۔
یہ صلاح مشورہ کرکے کافروں نے ایک دن اپنے ایک ساتھی عتبہ بن ربیعہ کو حضور ﷺ کے پاس بھیجا اور اس نے ادھر ادھر کی چند باتیں کرنے کے بعد کہا:’’محمدﷺ ‘اگر اس نئے دین کی باتیں نہ کرو اور ہمارے مذہب کو برا کہنا چھوڑ دوتو ہم تمہیں اپنا بادشاہ بنانے کے لیے تیار ہیں ۔اس کے علاوہ اگر تم یہ چاہتے ہو کہ خوب امیر کبیر بن جاؤ تو بہت ساری دولت بھی دینے کے لیے تیار ہیں اور یہ بھی کر سکتے ہیں کہ تم جس عورت سے شادی کرنا چاہو اس کے ساتھ تمہاری شادی کر دیں ۔‘‘
بادشاہت دنیا کا سب سے اونچا عہدہ ہے۔کوئی اور ہوتا ‘تو عتبہ کی بات ضرورمان لیتا‘لیکن حضور ﷺ نے اس کی بات مان لینے کے بجائے حم سجدہ کی آیات تلاوت فرمائیں۔یہ آیتیں سن کر عتبہ حیران رہ گیا ۔واپس جاکر اپنے ساتھیوں سے یہ کہا :’’اچھی بات یہ ہے کہ تم محمد ؐکو کچھ نہ کہو ‘اسے اس کے حال پر چھوڑ دو‘‘لیکن کافروں نے یہ بات نہ مانی۔
کھلی دشمنی
کافروں کی یہ ترکیب نہ چلی تو وہ کھلی دشمنی پر اتر آئے اور حضورﷺ کو بھی ستانے لگے۔انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ اب ا بو طالب اور ان کے خاندان کے ناراض ہو نے کی بھی پر واہ نہ کریں گے۔
ایک دن رسولﷺ کعبہ شریف میں تشریف لے گئے تو وہاں بیٹھے ہوئے کافروں نے آپؐ کا مذاق اڑایا اور پھر ایک کافر نے آپؐ کی چادر پکڑ کر اس زور سے کھینچی کہ آپؐ کا گلا گھٹنے لگااور آپؐ کو سخت تکلیف پہنچی۔
اس وقت حضرت ابوبکر صدیقؓ وہاں موجود تھے۔انہوں نے یہ دیکھا تو کافروں سے کہا ’’کیا تم لوگ انہیں اس لیے ستا رہے ہو کہ یہ کہتے ہیں میرا رب (پالنے والا)اللہ ہے؟‘‘
حضرت ابو بکر صدیقؓ کی یہ بات سن کر کافروں نے حضورﷺ کو چھوڑ کر انہیں پکڑ لیا اور اس قدر مارا کہ وہ بے ہوش ہوگئے۔
ایک دن رسول اللہ ﷺ کعبہ شریف میں نماز پڑھ رہے تھے۔جب آپ سجدے میں گئے تو ایک کافر عقبہ بن ابی معیط نے آپؐکے کندھوں پر اونٹ کی اوجھڑی رکھ دی ۔آپؐ کے کپڑے غلاظت سے بھر گئے اور آپؐ بہت پریشان ہوئے۔
آپؐ کی بیٹی حضرت فاطمہؓ نے یہ بات سنی ‘تو تشریف لائیں اوراپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے اوجھری ہٹائی ۔حضرت فاطمہ اس وقت کم عمر بچی تھیں ۔اوجھری ہٹاتے ہوئے آپ روتی جاتی تھیں اور کافروں کو بد دعا دیتی جاتی تھیں۔
اسلام کا معصوم حمایتی
جس زمانے میں کافر عام مسلمانوں اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایسا برا سلوک کر رہے تھے ‘ایک کم عمر مسلمان بچے نے بہادری کا ایک ایسا کام کیا کہ جس نے بھی یہ واقعہ سنا، اس بہادر بچے کی تعریف کی اور بہادری کا یہ شاندار واقعہ تا ریخ کی کتابوں میں لکھا گیا ۔
مشہور محدث اور کتاب لکھنے والے عالم حافظ ابن عبدالبر رحمتہ اللہ علیہ نے لکھا ہے ‘ایک دن کچھ مسلمان کعبہ شریف میں نماز پڑھ رہے تھے کہ ابو جہل اور اس کے ساتھی وہاں آگئے اور ان مسلمانوں کو مارنا پیٹنا شروع کر دیا ۔
اب اتفاق ایسا ہوا کہ آپ ؐ کی پھو پھی صاحبہ ‘حضرے ارویٰؓ بنت عبدالمطلب کے کم عمر صاحبزادے جن کا نام طیبؓ تھاوہاں آگئے اور عبادت کرنے والے مسلمانوں پر ظلم ہوتے دیکھا تو شیر کی طرح آگے بڑھے اور ابو جہل ہر حملہ کر کے اسے زخمی کر دیا ۔
حضرت طیبؓ بالکل چھوٹی عمرہی میں مسلمان ہو گئے تھے۔انہوں نے بہادری کا یہ کام کیا ‘تو کافروں نے انہیں پکڑ لیا اور مضبوط رسی سے ان کے ہاتھ اور پاؤ ں باندھ دئیے‘لیکن اسلام کا یہ معصوم حمایتی ذرا نہ گھبرایا ۔یہی کہتا رہا’’تم ظالم اور بے انصاف ہو جو نیکی کے راستے پر چلنے والوں کو ستاتے ہو۔‘‘
حضرت ارویٰ رضی اللہ عنہا نے اپنے بیٹے کی بہادری کا واقعہ سنا تو فرمایا’’میرے بیٹے نے واقعی ایک شاندار کام کیا ہے۔اپنے ماموں کے بیٹے کی حمایت کرنے سے اچھا اور کون سا کام ہو سکتا ہے ۔‘‘
کافروں کی نئی چال
کافروں کو یقین تھا کہ رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کو ستایا جائے گا ‘تو ڈر کر اپنے مذہب اسلام کی باتیں کرنی چھوڑ دیں گے‘لیکن ان کا یہ اندازہ ٹھیک نہ نکلا۔رسولﷺ اور مسلمانوں نے سارے ظلم ہنسی خوشی برداشت کئے ۔اسلام کو ترقی دینے کی کوشش سے رک جانے کی بابت کبھی بھول کر بھی نہ سوچا اور جب کافروں نے یہ حالت دیکھی تو رسول اللہ ﷺ کی کوششوں میں رکاوٹ ڈالنے کا ایک نیا طریقہ سوچا۔اب وہ سائے کی طرح آپؐ کے ساتھ لگے رہتے اور جب آپ کسی سے باتیں کرنے لگتے تو شور مچا دیتے۔’’اس کی باتیں مت سننا ‘یہ جادوگر ہے‘یہ تمہیں تمہارے مذہب سے پھیر دے گا۔‘‘
کبھی کہتے’’اسے ہماری دیوی دیوتاؤں نے بیمار کر دیا ہے‘اسی وجہ سے ایسی الٹی سیدھی باتیں کرتا رہتا ہے۔‘‘غرض اسی طرح کی باتیں کرکے لوگوں کو حضور ﷺ کی باتیں سننے سے روکتے۔
رسول اللہ ﷺکے ایک صحابی حضرت طفیلؓ بن عمرو دوسی بیان کرتے ہیں ’’میں مکہ آیا تو لوگوں نے مجھ سے کہا ۔شہر میں ایک جادو گر پیدا ہو گیا ہے۔تم اس کی باتیں نہ سننا‘جو بھی اس کی باتیں سن لیتا ہے اس پر جادو کا اثر ہو جاتا ہے اور وہ اپنے خاندان اور اپنے گھر والوں کو چھوڑ کر اس جادوگر کا ساتھی بن جاتا ہے ۔میں نے لوگوں کی یہ بات سنی تو مجھے یقین ہو گیا یہ سچ کہہ رہے ہیں اور میں نے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لی کہ جادو گر کی باتیں سن ہی نہ سکوں ‘ لیکن پھر ایسا ہوا کہ ایک جگہ میں نے حضور ﷺ کی باتیں سنیں اور مجھے آپ ﷺ کی باتیں ایسی اچھی لگیں کہ میں سچے دل سے مسلمان ہو گیا۔
اسی طرح ایک بوڑھی عورت کا واقعہ بیان کیا جاتا ہے ۔کافروں نے اسے بھی یہی کہہ کر بہکا دیا تھا کہ ’’ہمارے شہر میں ایک جادوگر پیدا ہوگیا ہے تم اس کی باتیں مت سننا ‘سنو گی تو تمہارا یمان جاتا رہے گا ۔‘‘
ایک دن وہ عورت سامان کی بڑی گٹھڑی اٹھائے بازار سے گزر رہی تھی کہ حضور ﷺ نے اسے دیکھا اور اس پر ترس کھا کر سامان کی بھاری گٹھڑی خود اٹھا لی اور اس کے گھر پہنچا دی۔عورت حضور ﷺ کی اس نیکی سے اتنا خوش ہوئی کہ کہنے لگی ’’بیٹے‘ تو نے میرے ساتھ نیکی کی ہے اس لیے تجھے ایک اچھی بات بتاتی ہوں اور وہ بات یہ ہے کہ ہمارے شہر میں ایک جادوگر ہے اس کی باتیں ہر گز نہ سننا ۔جو بھی اس کی باتیں سنتا ہے اس کا ایمان چھن جاتا ہے ۔‘‘
بوڑھی عورت نے یہ بات ہمدردی کے خیا ل سے کہی ۔اسے معلوم ہی نہ تھاکہ اس کی بھاری گٹھڑی اٹھا کر کون لایاہے۔رسول اللہ ﷺ نے اس کی یہ بات سنی تو اسے بتایا کہ لوگ جسے جادوگر کہتے ہیں وہ میں ہی ہوں ۔
عورت حیران ہو کر کہنے لگی ’’پھر تو لوگ جھوٹے ہیں ‘توتو بہت نیک اور اچھا آدمی ہے۔‘‘
جیسا کہ ان دو واقعوں سے ظاہر ہوتا ہے کافروں کی یہ کوشش بھی کامیاب نہ ہوئی ۔وہ جن لوگوں کو حضور ﷺ کی باتیں سننے سے روکتے تھے وہ کسی نہ کسی طرح آپؐکی باتیں ضرور سنتے تھے اور جب اسلام کی اچھی باتیں سن لیتے تھے ‘تو ان میں سے زیادہ تر مسلمان ہوجاتے تھے۔
حضور ﷺ کی کامیابی دراصل سچائی کی فتح تھی‘کافر چاہتے تھے لوگ جن برائیوں میں پھنسے ہوئے ہیں انہی میں پھنسے رہیں‘لیکن حضور ﷺ یہ فرماتے تھے کہ انسان کو سچی عزت ‘سچی کامیابی‘سچی راحت نیکی کے راستے پر چل کر ہی مل سکتی ہے۔اس لیے سب کو چاہیے بتوں ‘آگ اور ستاروں وغیرہ کو پوجنا اور دوسری سب برائیاں چھوڑ دیں اور ان باتوں کو اپنالیں جنہیں ہر سمجھ دار آدمی اچھا کہتا ہے۔سب اللہ کو مانیں اور صرف اسی کی عبادت کریں۔
یہ باتیں بالکل ٹھیک تھیں ‘لیکن کافروں کی سمجھ میں نہ آتی تھیں اور اسی وجہ سے وہ حضور ﷺ اور عام مسلمانوں کو ستانے اور پریشان کرنے سے باز نہ آتے تھے اور اپنی برائیوں میں بڑھتے ہی جاتے تھے‘یہاں تک کہ انہوں نے غریب مسلمانوں کا جینا دو بھر کر دیا۔
ہجرت کا حکم
کافروں نے جب مسلمانوں کو بہت ہی ستایا ‘تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے رسول اللہ ﷺ نے یہ اجازت دے دی کہ وہ مکہ سے کسی ایسی جگہ چلے جائیں جہاں اطمینان سے زندگی گزار سکیں۔
اس زمانے میں ملک حبشہ پر نجاشی نامی ایک نیک دل عیسائی بادشاہ حکومت کرتا تھا۔رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو حبشہ جانے کا مشورہ دیا اور سن ۵ نبوی میں ‘یعنی حضورﷺ کو نبوت ملنے کے پانچ برس بعد چار عورتیں اور گیارہ مر د ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے۔یہ وہی ملک ہے جس کانام اب ایتھوپیا ہے۔
ہجرت ایسے سفر کو کہتے ہیں جو اپنے ایمان اور اپنے مذہب کی حفاظت کے لئے کیاجائے ۔مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ اگر وہ کسی ایسی جگہ رہتے ہوں جہاں اپنے مذہب کی باتوں پر نہ چل سکتے ہوں ‘تو وہ جگہ چھوڑ کر کسی ایسی جگہ چلے جائیں جہاں آزادی کے ساتھ اپنے مذ ہب کے مطابق زندگی گزار سکیں ۔اس طرح اپنا وطن چھوڑنے والوں کو مہاجر کہتے ہیں اور وطن چھوڑنے کو ہجرت ۔
جو مسلمان ہجرت کر کے مکہ سے حبشہ گئے ان میں رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی حضرت رقیہؓ اور ان کے شوہر حضرت عثمان بن عفانؓ بھی تھے۔اس قافلے کا سردار حضرت عثمان بن مظعونؓ کو بنایا گیا تھا اور مشہور مسلمانوں میں سے حضرت ابو حذ یفہؓ بن عتبہ ‘ ان کی بیوی حضرت سلمہ بنت سہیل ‘ حضرت زبیرؓ بن العوام ۔حضرت مصعبؓ بن عمیر ‘ حضرت عبدالرحمٰنؓ بن عوف ۔حضرت ابو سلمہؓ ۔ان کی بیوی ام سلمہؓ ۔حضرت عامر بن ربیعہ ۔ان کی بیوی حضرت لیلیٰؓ بنت ابی ہشمہ ‘ اور حضرت ابو سیرۃؓ تھے۔
اس قافلے کے بعد مہاجروں کا ایک اور قافلہ حبشہ گیا۔اس قافلے میں زیادہ مہاجر تھے۔ان کے حبشہ پہنچنے کے بعد وہاں مہاجروں کی گنتی ایک سو ہو گئی اور شاہ نجاشی کی نیک دلی کی وجہ سے وہ سب وہاں بہت اطمینان سے رہنے لگے۔
کافروں کا غصہ
مکہ کے کافروں کو جب یہ معلوم ہوا کہ جو مسلمان حبشہ چلے گئے تھے وہ وہاں بہت آرام اور عزت سے رہ رہے ہیں تو ان کا غصہ اور بھڑک اٹھا اور انہوں نے آپس میں مشورہ کر کے یہ فیصلہ کیا کہ اپنے آدمی حبشہ بھیج کر مسلمانوں کو وہاں سے نکلوا دینا چاہیے ۔چنانچہ انہوں نے اپنے دو بہت ہوشیار آدمیوں ‘ عبداللہ بن ابی ربیعہ اورعمرو بن العاص بن وائل کو حبشہ بھیجا اور ان دونوں نے وہاں جا کر شاہ نجاشی سے کہا: ’’اے بادشاہ ہمارے کچھ غلام بھاگ کر آپ کے ملک میں آگئے ہیں انہیں ہمارے حوالے کر دیجئے ۔‘‘
نجاشی بہت عقل مند اور انصاف پسند بادشاہ تھا ۔اس نے ان دونوں کی بات سن کر کہا ۔’’میں اس وقت تک فیصلہ نہیں کر سکتا جب تک ان لوگوں کا جواب نہ سن لوں جن کی تم شکایت کر رہے ہو۔‘‘
یہ کہہ کر نجاشی نے مہاجروں کو بلوایا ۔ان کی طرف سے حضرت جعفر بن ابی طالبؓ نے بات کی۔یہ رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد بھائی تھے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ خوبی دی تھی کہ وہ اپنا مطلب اچھی طرح سمجھا سکتے ۔انہوں نے کہا:
’’اے بادشاہ ‘ہم جاہل تھے۔بتوں کو پوجتے تھے۔مردار کھاتے تھے ۔ہم میں جو لوگ طاقت ور تھے وہ کمزور وں کا حق دبا لیتے تھے ۔یہ حالات تھے جب اللہ تعالیٰ نے ہمارے درمیان اپنا رسولؐ بھیجا ہم اس کے خاندا ن اور اس کی زندگی کے حالات بہت اچھی طرح جانتے تھے۔اس نے نہ کبھی جھوٹ بولا اور نہ کوئی اور گناہ کا کام کیا۔
اس نبیؐ نے ہمیں بتایا کہ عبادت صرف اللہ کی کرنی چاہیے۔بتوں کو پوجنا گناہ ہے۔اس نے ہمیں نصیحت کی۔ہم ہر حالت میں سچ بولیں ۔کسی کا حق نہ ماریں۔رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کریں ۔حرام نہ کھائیں ‘ناحق خون نہ بہائیں ‘یتیم کا مال نہ کھائیں ۔کسی پر جھوٹا الزام نہ لگا ئیں ۔اس نے ہمیں نماز پڑھنے اور زکوٰۃ دینے کا حکم دیا اور جب ہم نے اس کی ان اچھی باتوں پر عمل کیا تو ہماری قوم ہماری دشمن بن گئی ۔ہمیں سخت تکلیفیں دیں اور مجبور کیا کہ ہم پہلے کی طرح برائیوں اور گناہوں سے بھری ہوئی زندگی میں لو ٹ جائیں ۔اور جب ہم نے یہ بات نہ مانی تو ہماری قوم نے ہمیں بہت زیادہ ستایا اور ہم ان کے ظلم سے بچنے کے لیے آپ کے ملک میں آگئے۔‘‘
نجاشی نے پوچھا:’’کیا تمہارا نبی آسمانی کلام بھی سناتا ہے ؟جیسا پہلے نبی اور رسول سناتے تھے۔اگر وہ ایسا کلام سناتا ہے ‘تو اس کا کچھ حصہ ہمیں سناؤ۔‘‘
حضرت جعفرؓ نے جواب میں کہا۔’’ہاں ہمارے نبیﷺ پر اللہ کی آخری کتاب قرآن نازل ہو رہی ہے۔‘‘یہ کہہ کر انہوں نے قرآن مجید کی سورۃ مریم کی کچھ آیتیں پڑھیں اور اللہ کا کلام سن کر شاہ نجاشی پر ایسا اثر ہوا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔دربار میں جو عالم بیٹھے تھے ان کا بھی یہی حال ہوا۔
آپ کو یہ بات ضرور معلو ہو گی کہ حضرت مریم ‘مشہور پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ صاحبہ کا نام ہے ۔قرآن مجید میں سورۃ مریم انہی کے نام پر نازل ہوئی ہے اور اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ حضرت مریم ؑ بہت بڑا درجہ رکھنے والی خاتون تھیں۔
ہمارا خیال ہے پیارے بچے یہ بات بھی جانتے ہوں گے کہ ہمارے مذہب اسلام نے حضرت عیسیٰ ؑ ‘حضرت موسیٰؑ ‘حضرت ابراہیمؑ ‘حضرت نوحؑ وغیرہ سب نبیوں اور رسولوں کے بر حق ہو نے کی گواہی دی ہے اور یہ بات بتائی ہے کہ یہ سب اسلام ہی کا پیغام لے کر آئے تھے۔ان سب نبیوں اور رسولوں کی امتوں کے لوگوں نے یہ گناہ کیا کہ ان کی بتائی ہو ئی اچھی باتوں کو چھوڑ کر اور باتوں کو اپنے مذہب میں شامل کر لیا اور برائی کا راستہ اختیار کر کے ایک دوسرے پر ظلم کرنے لگے۔
حضرت عیسیٰؑ اور حضرت موسیٰؑ کی امتوں نے بھی یہی کیا تھا۔قرآن مجید میں بتایا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کی امت کے لوگ ‘ یعنی یہودی یہ کہتے تھے کہ حضرت عذیر، اللہ کے بیٹے ہیں۔اسی طرح حضرت عیسیٰ ؑ کی امت کے لوگ یعنی عیسائی یہ کہنے لگے تھے کہ حضرت عیسیٰ ؑ ، اللہ کے بیٹے ہیں۔
یہ بات اللہ کی شان کے خلاف ہے کہ انسانوں کی طرح وہ کسی کا باپ ہو۔صحیح بات تو یہ ہے کہ وہ سب کا خالق ‘ یعنی پیدا کرنے وا لا اور سب کا رب ‘ یعنی رزق دینے والا ہے ۔دنیا جہاں میں جو کچھ بھی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے پیدا ہواہے۔
شاہ نجاشی نے حضرت عیسیٰ ؑ کے بارے میں پوچھا۔’’یہ بتاؤ تمہارا نبی ؐ حضرت عیسیٰؑ کے بارے میں کیا کہتا ہے؟‘‘حضرت جعفرؓ نے جواب دیا :’’ہمارے نبی نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ اللہ کے نبی اور اس کے بندے ہیں ۔‘‘
نجاشی نے حضرت عیسیٰ ؑ اور ان کی والدہ صاحبہ حضرت مریمؓ کے بارے میں بالکل سچی باتیں سنیں تو کہا ۔’’خدا کی قسم حضرت عیسیٰ ؑ بالکل ایسے ہی تھے ۔ایک تنکے کے برابر بھی اس سے زیادہ نہ تھے۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے مسلمانوں کو اطمینان دلایا کہ تم لوگوں کو میرے ملک میں کسی طرح کی تکلیف نہ ہو گی۔جب تک دل چاہے تم یہاں رہو۔
مسلمانوں کو یہ تسلی دینے کے بعد شاہ نجاشی نے مکہ سے آئے ہو ئے کافر سرداروں سے کہا :’’ان لوگوں کو تمہارے حوالے نہیں کیا جا سکتا ‘ تم یہاں سے چلے جاؤ ۔‘‘اور وہ مایوس ہو کر لوٹ گئے۔
ایک خوشی بھرا واقعہ
کافر سردار حبشہ سے لوٹ کر مکہ آئے تو اپنی ناکامی پر ان کے ساتھیوں کو بہت غصہ آیا اور وہ جھنجھلا کر رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کو اور بھی ستانے لگے ‘لیکن اللہ تعالیٰ نے انہی دنوں ایک ایسی مہر بانی کی کہ مسلمانوں کو بہت ہی خوشی ہوئی اور ان کی طاقت پہلے سے بڑھ گئی۔
یہ واقعہ حضرت عمر بن خطابؓ کے مسلمان ہو جانے کا ہے۔
حضرت عمرؓ قریش کے ایک بڑے خاندان بنی عدی کے ایک ایسے نوجوان تھے جس کی بہادری اور شہ زوری کی شہرت دور دور پھیلی ہوئی تھی ۔بیان کیا جاتا ہے کہ ان کی انہی خوبیوں کی وجہ سے حضور ﷺ نے ان کے مسلمان ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی تھی۔
حضرت عمرؓ کے مسلمان ہو نے کا واقعہ بھی بہت عجیب ہے۔ایک دن انہوں نے اپنے دل میں یہ ارادہ کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو قتل کر کے وہ جھگڑا ہی ختم کر دیں گے جس کی وجہ سے مکہ کے کافربہت پریشان تھے ۔یہ ارادہ کرکے انہو ں نے تلوار اٹھائی اور رسول اللہ ﷺ کو (نعوذ باللہ ) قتل کر نے کے ارادے سے چلے۔
تلوار ہاتھ میں لیے ‘ماتھے پر غصے سے بل ڈالے تیز تیز چلے جارہے تھے کہ راستے میں ان کے قبیلے کے ایک صاحب نعیم بن عبداللہ ملے ۔نعیمؓ مسلمان ہو چکے تھے ‘لیکن انہوں نے ابھی یہ بات ظاہر نہ کی تھی۔حضرت عمرؓ کر تلوار لئے ہوئے جاتے دیکھا تو پوچھا’’عمر کہاں جارہے ہو؟‘‘
حضرت عمرؓ نے جواب دیا’’محمد ؐ کا کام تمام کرنے جارہا ہوں ۔وہ ہمارے بتوں کے خلاف باتیں کرتے ہیں ‘اور ہمارے باپ داداکے مذ ہب کو غلط بتاتے ہیں ۔آج میں یہ سارا جھگڑا ختم کر دوں گا۔‘‘
حضرت نعیمؓ نے یہ سنا تو فرمایا۔’’عمر،پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو۔شاید تمہیں معلوم نہیں ‘تمہاری بہن اور بہنوئی دونوں مسلمان ہو چکے ہیں ۔‘‘
حضرت عمر نے یہ سنا تو بولے ۔’’اگر یہ بات سچ نکلی تو پہلے ان دونوں ہی کا کام تمام کروں گا۔‘‘یہ کہہ کر رخ بدلااور اپنی بہن فاطمہؓ بنت خطاب کے گھر پہنچ گئے۔وہ اس وقت قرآن مجید کی آیتوں کی تلاوت کر رہی تھیں‘حضرت عمرؓ کی آواز سنی تو وہ ورق چھپادئیے جن پر آیتیں لکھی ہوئی تھیں اور دروازہ کھول دیا ۔
حضرت عمرؓ نے گھر میں داخل ہو کر سوال کیا۔’’تم لوگ کیا پڑھ رہے تھے ؟‘‘
ان کی بہن نے ادھر ادھر کی باتیں کر کے اصل بات چھپانی چاہی۔حضرت عمرؓ غصے میں بھر گئے اور اپنے بہنوئی حضرت سعید بن زیدؓ کو مارنے لگے۔بہن نے روکا تو انہیں بھی زخمی کر دیا اور جب یہ حالت ہو ئی تو فاطمہؓ نے کہا’’سنوعمرؓ‘ہم واقعی مسلمان ہو گئے ہیں اور اب اس مذہب کو کسی حالت میں نہیں چھوڑسکتے۔‘‘
حضرت عمرؓ اپنی بہن کا بہتا ہوا خون دیکھ کر نرم پڑچکے تھے ۔دوسرے یہ بھی خیال آیا کہ جب مذہب کے لیے یہ دونوں جان دینے کے لیے تیار ہو گئے ہیں وہ ضرور سچا ہے!چنانچہ کہنے لگے۔’’اچھا تو یوں کرو جو کچھ تم پڑھ رہے تھے مجھے دو۔‘‘
حضرت فاطمہؓ نے کہا۔’’اس حالت میں تمہیں وہ پاک کلام نہیں دیا جا سکتا ۔پہلے نہا دھو کر اپنے آپ کو پاک کرو ‘ پھر اللہ کا کلام پڑھو۔‘‘
حضرت عمرؓ نے یہ بات فوراً مان لی ۔انہوں نے غسل کیا اور اس کے بعد ان کی بہن نے انہیں قرآن مجید کی آیتیں سنائیں ۔
حضرت عمرؓ مکہ کے دوسرے کافر سرداروں کی طرح رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کے سخت دشمن تھے ۔ان کی دشمنی کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو قتل کرنے کا ارادہ کر کے گھر سے چلے تھے ‘لیکن قرآن سنا تو ان پر ایسا اثر ہوا کہ اسی وقت مسلمان ہونے کے لیے تیار ہو گئے اور اسی ارادے سے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
رسول ﷺاس وقت کوہِ صفاکے نزدیک ایک صحابی کے گھر تشریف رکھتے تھے ۔آپﷺکے پاس بہت سے صحابی بیٹھے تھے۔ انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز سنی تو پریشان ہوئے ‘لیکن حضرت حمزہؓ نے فرمایا ’’گھبرانے کی ضرورت نہیں ‘اگر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بری نیت سے آیا ہے ‘تو اسی کی تلوار سے اس کا سر کاٹ دیا جائے گا۔‘‘پھردروازہ کھول کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا ’’عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کس نیت سے آئے ہو؟‘‘
حضرت عمرؓ نے جواب دیا:مسلمان ہونے کے لیے۔‘‘اور ان کی یہ بات سن کر صحابہ نے اونچی آواز میں اللہ اکبر کا نعرہ مارا کہ مکہ کی پہاڑیاں گونج اٹھیں۔رسولﷺ نے بھی خوشی ظاہر فرمائی ۔
اس موقع پرحضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مسلمان ہونے کا واقعہ بیان کرنا بھی مناسب ہے۔حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘حضورﷺ کے چچا تھے ۔اس کے علاوہ اس رشتے سے حضور ﷺ کے دودھ شریک بھائی بھی تھے کہ انہوں نے حضرت ثوبیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا دودھ پیا تھا جن کا دودھ کچھ دن حضورﷺ نے بھی پیا تھا ۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی بہت بہادر اور طاقتور تھے ‘لیکن مکہ کے دوسرے کافروں کی طرح وہ بھی رسول ﷺ کو اللہ کا رسول نہ مانتے تھے ۔
ایک دن ایسا ہوا کہ ابو جہل نے جو اسلام اور مسلمانوں کا سخت دشمن تھا ۔رسول ﷺکی شان میں بہت گستاخی کی۔رسول ﷺ تو اپنی عادت کے مطابق ابو جہل کی بکواس سن کر خاموش رہے ‘لیکن ایک قریشی سردار عبداللہ بن جدعان کی ایک کنیز نے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ بات بتائی کہ ظالم ابو جہل نے آج آپ کے بھتیجے کی شان میں گستاخی کی ہے ۔
حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کمان کندھے پر ڈالے شکار سے واپس آرہے تھے ۔کنیز کی بات سنی تو گھر جا نے کے بجائے ابو جہل کی تلاش میں روانہ ہوگئے ۔ابو جہل اس وقت کعبہ شریف میں بیٹھا اپنے دوستوں سے گپیں ہانک رہا تھا ۔
حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے پا س جا کر بہت زور سے اپنی کمان اس کے سر پر ماری اور کہا ’’غور سے سن لے ‘میں بھی مسلمان ہو گیا ہوں ۔بتا اب تو کیا کہتا ہے ۔؟‘‘
کمان لگنے سے ابو جہل زخمی ہو گیا تھا ‘حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ بات سن کر ڈر گیا اور انہیں جواب بھی نہ دے سکا ۔
پہاڑ ی درے کے قیدی
حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ا ور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مسلمان ہو جانے کی وجہ سے اگر چہ مسلمانوں کو بہت قوت حاصل ہوگئی تھی۔وہ اب کعبہ میں جاکر نماز ادا کرنے لگے تھے‘لیکن کافروں کی دشمنی میں کمی نہ آئی تھی ‘بلکہ ان کا غصہ کچھ اور بڑھ گیا تھا۔چنانچہ اسی غصے میں انہوں نے ایک دن یہ فیصلہ کیاکہ بنو ہاشم ‘یعنی رسولﷺ اور آپ ؐ کے خاندان سے بول چال بند کر دی جائے۔کوئی شخص ان سے کسی قسم کا تعلق نہ رکھے ۔یہاں تک کے ان کے ہاتھ کوئی چیز فروخت کرے اور نہ ان سے کوئی چیز خرید ے۔
یہ فیصلہ کر کے انہوں نے یہ ساری باتیں باقاعدہ لکھوائیں اور وہ کاغذ کعبہ شریف کے پردے پر لٹکا دیا۔کہا جاتا ہے یہ معاہدہ منصور بن عکرمہ بن عامر نے لکھا اور لوگوں سے یہ بات منوانے کے لیے ابو جہل ‘ابی لہب‘امیہ بن خلف ‘ولید بن مغیرہ‘منبہ بن الحجاج‘عاص بن وائل اور عاص بن ہاشم وغیرہ کافروں نے بہت کوشش کی ۔
ابوطالب نے یہ بات سنی تو سمجھ گئے کہ ہمارے مخالف اپنی کوششوں میں ناکام ہونے کی وجہ سے غصے میں پاگل ہو گئے ہیں اور اب وہ میرا لحاظ بھی نہ کریں گے ۔انہوں نے اپنے خاندان کے لوگوں کو اکٹھاکیا اور مشورہ دیا ’’مناسب یہ ہے کہ خاندان بنی ہا شم کا ہر شخص شہر چھوڑ کر کسی ایسی محفوظ جگہ چلا جائے جہاں دشمن آسانی سے نقصان نہ پہنچا سکیں ۔‘‘
سب نے کہا ۔’’یہ بات بالکل ٹھیک ہے۔‘‘اور پھر یہ صلاح ٹھہری کہ ہمیں پہا ڑی گھاٹی میں چلے جانا چاہیے اور جب تک یہ اطمینان نہ ہو جائے کہ اب کوئی نہ ستاسکے گا،وہیں رہنا چاہیے۔
یہ فیصلہ کر کے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے خاندان کے سب مرد ‘عورتیں اور بچے ایک پہاڑی گھاٹی میں چلے گئے ۔ اس گھاٹی کو شعب ابی طالب کہا جاتا ہے ۔اس گھاٹی میں جانے کی وجہ یہ تھی کہ اس کے مالک بنو ہا شم ہی تھے اور یہ جگہ ایسی محفوظ تھی کہ کوئی ایکا ایکی حملہ کر کے نقصان نہ پہنچا سکتا تھا۔
جس دن حضور ﷺ اور آپؐ کے خاندان کے لوگ شعب ابی طالب میں داخل ہوئے سن ۷ نبوی ؐ کے مہینے محرم کی سات تاریخ تھی۔
یہ فیصلہ کر کے کافر بہت خوش ہو ئے۔انہیں یقین تھا ان لوگوں سے سب ملنا جلنا چھوڑ دیں گے اور کھانے پینے کی کوئی چیز نہ ملے گی ‘تو گھبرا کر نئے دین کو چھوڑ دیں گے ۔انہوں نے اپنی طرف سے یہ کوشش بھی کی کہ اس فیصلے پر پوری طرح عمل کیا جائے ۔وہ نہ بنی ہاشم کے ہاتھ کوئی چیزفروخت کرتے تھے اور نہ ان سے کوئی چیز خریدتے تھے ۔یہاں تک کہ اگر باہر کا کوئی سوداگر مکہ آتا تو اسے بھی بنی ہاشم کے ساتھ لین دین کرنے سے روک دیتے تھے۔
بنی ہاشم شعب ابی طالب میں ایک روایت کے مطابق دو برس اور دوسری روایت کے مطابق کچھ دن کم تین برس رہے اوراس عرصے میں انہوں نے بہت سی تکلیف اٹھائی ‘بھوک مٹا نے کے لیے انہوں نے درختوں کے پتے اور سوکھا چمڑہ تک ابال کر کھایا‘لیکن اپنے ایمان پر قائم رہے۔ان کے بچوں نے بھی بہت تکلیفیں اٹھائیں اور اپنے بزرگوں کی طرح انہوں نے بھی یہ سب تکلیفیں ہنسی خوشی برداشت کیں۔
اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اگر کوئی سچائی پر قائم رہے ‘ تو غیب سے مدد کی جاتی ہے ۔سچائی کے راستے پر چلنے والوں کو جو تکلیفیں پہنچتی ہیں وہ تو صرف انہیں آزمانے کے لیے ‘یعنی یہ معلوم کرنے کے لیے آتی ہیں کہ وہ گھبرا کر سچائی کے راستے سے ہٹ تو نہیں جاتے ‘چنانچہ اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کے مطابق رسول اللہ ﷺ اور آپؐ کے ساتھیوں کی یہ آ زمائش بھی ختم ہو گئی۔
کہا جاتا ہے یہ معاہدہ ختم کر نے کا خیال سب سے پہلے ایک شخص ہشا م بن عمر و کے دل میں آیا۔وہ ایک خاتون عاتکہ بنت عبدالمطلب کے بیٹے زہیر بن ابی امیہ کے گھر گیا اور ان سے کہا ’’بنو ہا شم کو پہاڑ کی گھاٹی میں قید کر کے ہم لوگوں نے اچھا نہیں کیا ۔اگر تم میرا ساتھ دو تو یہ معاہدہ ختم کرنے کی کو شش کی جائے ۔‘‘
زہیر بن امیہ نے یہ بات مان لی اور پھر ان دونوں نے معطم بن عدی ۔ابوالبختر ی اور زمعہ بن الاسود بن عبدالمطلب کو اپنا ساتھی بنایا اور سب نے مل کر ابو جہل اور ابولہب وغیرہ بڑے بڑے کافر سرداروں سے کہا ۔’’تم نے بنی ہاشم کے بارے میں جو فیصلہ کیا ہے اسے ختم کر دو!یہ کھلا ظلم ہے۔‘‘جب انہوں نے یہ بات نہ مانی تو مطعم بن عدی نے آگے بڑھ کر وہ معاہدہ کعبہ کے دروازے سے اتار لیا اور کافر یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ معاہدہ قدرتی طور پر پہلے ہی ختم ہو چکا تھا ‘ایک لفظ’’با سمک اللہم‘‘کے سوا کاغذ پر لکھے ہوئے سارے حروف دیمک نے چاٹ لیے تھے۔
ایک روایت یہ بھی ہے کہ اللہ نے رسول اللہ ﷺ کو پہلے ہی یہ بات بتا دی تھی کہ دشمنوں نے کعبہ کے دروازے پر جو معاہدہ لٹکایا تھااسے دیمک چاٹ گئی ہے۔رسول اللہ ﷺ نے یہ بات اپنے چچا ابو طالب کو بتائی تھی اور انہوں نے کافر سرداروں سے کہا تھا۔
’’تم وہ کاغذ کعبہ کے دروازے سے اتار کر دیکھو ‘اگر میرے بھتیجے کی بات سچ ثابت نہ ہوئی تو میں اسے تمہارے حوالے کر دوں گا ۔ اگر اس کی بات ٹھیک نکلی تو تم وہ معاہدہ ختم کر دینا۔‘‘
کافروں نے یہ بات مان لی تھی اور جب حضور ﷺ کی بات سچ نکلی تو معاہدہ ختم کر دیا گیا تھا۔بہر حال جس طرح بھی ہوا وہ معاہدہ ختم ہو گیا جس کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ اور آپؐ کے خاندان کو تین سال سخت مصیبتیں اٹھانی پڑی تھیں ۔جس دن یہ معاہدہ ختم ہوا حضور ﷺ کی عمر ۴۹ برس تھی۔
غم کاسال
شعب ابی طالب سے آکر بنو ہاشم پھر اپنے گھروں میں رہنے لگے اور حضرت رسول اللہ ﷺ نے پہلے کی طرح اسلام کی تبلیغ شروع کر دی ۔تبلیغ کا مطلب ہے نیکی کی باتیں دوسروں کو بتانا اور سمجھانا اور ایسا کر نا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔
رسول اللہ ﷺ اور آپؐ کے گھر والے ۱۰ نبوی میں شعب ابی طالب سے باہر آئے اور یہ سال رسول اللہ ﷺ کے لیے بہت ہی غم بھرا ثابت ہوا۔
پہلی بات تو یہ ہوئی کہ رسول اللہ ﷺ کے محبت کرنے والے چچا ابوطالب کا انتقال ہوگیا ۔وہ عمر میں حضورﷺ سے ۳۵ برس بڑے تھے اس حساب سے انتقال کے وقت ان کی عمر ۸۵ برس تھی۔
مولانا شبلی نعمانی نے اپنی مشہور کتاب سیرۃ النبی ؐ میں ابو طالب کی بیماری کے دنوں کا ایک واقعہ لکھا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺکے نزدیک سب سے قیمتی چیز دین اسلام ہے اور جو خوش نصیب سچے دل سے اس دین کو مان لیتے ہیں ‘ان کا درجہ بہت بڑھ جاتا ہے۔
مولانا شبلی لکھتے ہیں ایک دن رسولﷺ ابو طالب سے ملنے کے لیے ان کے گھر گئے تو بیماری کی وجہ سے وہ بہت تکلیف محسوس کر رہے تھے۔حضور ﷺآئے توکہنے لگے :’’بیٹے اپنے اللہ سے دعا کرو میری تکلیف دور ہو جائے۔‘‘
اپنے پیارے چچا کی یہ بات سن کررسول ﷺ نے دعا مانگی اور دعا کے اثر سے ان کی تکلیف ختم ہو گئی ۔
حضرت ابو طالب فرمانے لگے :’’بیٹے !معلوم ہوتا ہے اللہ تمہاراکہا پورا کرتا ہے۔‘‘
یہ بات سن کر رسول ﷺنے فرمایا :’’چچا اگر آپ مسلمان ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ آپ کا کہا بھی پورا کرنے لگے گا۔‘‘
ابو طالب کے بارے میں یہ بات خاص طور سے بتانے کے قابل ہے انہوں نے ساری زندگی رسول ﷺ سے سچی محبت کی اور ان کی مدد کرتے رہے۔حضور ﷺ کی مدد کرنے اور آپ ﷺ سے محبت رکھنے کی وجہ سے مکہ کے کافر ان کے دشمن بن گئے اور انہیں نقصان پہنچانے کی دھمکیاں دیتے رہے ‘لیکن انہوں نے با لکل پروا نہ کی۔دین کی ترقی کے کاموں میں سچے دل سے حضور ﷺ کے ساتھی رہے ‘لیکن اپنی نیک دلی کے باوجودمسلمان نہ ہوئے اور اسی وجہ سے رسول ﷺ نے بیماری کی حالت میں بھی انہیں یہ بات بتائی کہ جب تک کوئی شخص مسلمان نہ ہو اللہ کی سب رحمتوں کا حق دار نہیں بنتا۔
اس برس رسول ﷺ کو دوسرا بہت بڑا صدمہ یہ پہنچاکہ آپﷺکی بیوی حضرت خدیجہؓ کا انتقال ہو گیا۔جس وقت ان کا انتقال ہوا ان کی عمر ۶۵ برس تھی۔
حضرت خدیجہؓ مصیبت کے زمانے میں سچے دل سے رسول اللہ ﷺ کی ساتھی رہی تھیں اور جیسے ہی یہ سنا کہ حضور ﷺکو اللہ تعالیٰ نے نبوت کا مر تبہ بخشا ہے، فوراً مسلمان ہو گئی تھیں ۔انہیں یہ عزت حاصل ہے کہ عورتوں میں سب سے پہلے وہی مسلمان ہوئیں ۔
ان سب اچھی باتوں کی وجہ سے حضور ﷺ کو اپنی ان بیوی سے بہت محبت تھی ۔وہ فوت ہوئیں تو حضور ﷺ کو بہت ہی صدمہ ہوا ۔
ان دو بڑے صدموں کی وجہ سے جو حضور ﷺ کو پہنچے اس سال‘ یعنی ۱۰ نبوی کو عام الحزن ‘یعنی غم کا سال کہتے ہیں۔
ام المومنین حضرت خدیجہ کبریٰؓ کو حجون کے مقام پر دفن کیا گیا۔یہ بات دیکھنے کے لیے کہ قبر ٹھیک بنی ہے یا نہیں ‘رسول اللہ ﷺ خود ان کی قبر میں اترے ۔اس وقت تک نماز جنازہ پڑھنے کا حکم نہ ہوا تھا۔اس لیے ان کی نماز جنازہ نہ پڑھی گئی۔
طائف کا سفر
ابو طالب اور حضرت خدیجہؓ کے انتقال کے بعد کا فروں کا ظلم اور بڑھ گیا ۔پہلے تو وہ ابو طالب کا تھوڑا بہت لحاظ رکھتے تھے اور ان سے کچھ ڈرتے بھی تھے‘وہ اس دنیا میں نہ رہے تو گویا ظالموں کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہ رہا اور وہ رسول اللہ ﷺ کو پہلے سے زیادہ ستانے لگے۔
اللہ کے ان دشمنوں کی ہمت یہاں تک بڑھی کہ وہ سائے کی طرح آپ ﷺ کے پیچھے لگے رہتے ۔آپﷺ جہاں تشریف لے جاتے ۔کافروں میں سے کوئی نہ کوئی وہاں پہنچ جاتا تھا اور آپ ﷺ کو جھوٹا کہتا اور آپﷺ پر طرح طرح کے الزام لگاتا ۔آپﷺ کی باتیں سننے سے لوگوں کو روکتا۔
جب یہ حالت دیکھی تو حضور ﷺ نے یہ ارادہ فرمایا کہ آس پاس کی بستیوں میں جا کر اللہ کے بندوں کو اللہ کے دین کی باتیں بتائیں ۔یہ فیصلہ فرمانے کے بعد آپ ﷺ نے ایک بستی طائف جانے کا ارادہ فرمایا اور حضرت زید بن حارثہ کو ساتھ لے کر طائف کی طرف روانہ ہو گئے۔طائف کو مکہ کا جڑواں بھائی شہر کہا جاتا تھا۔
یہ شہر مکہ سے جنوب مغرب کی طرف ہے اور اچھے موسم اور عمدہ زمین کی وجہ سے اس کے کھیتوں اور باغوں میں خوب پیداوار ہوتی ہے۔اس زمانے میں اس شہر میں رہنے والے اچھے خاصے امیر تھے۔ خاص طور سے طائف کے تین سردار عبدیالیل ‘ مسعود اور حبیب بہت خوشحال تھے ۔یہ تینوں سگے بھائی تھے ۔
حضور ﷺ طائف تشریف لے گئے تو پہلے ان تینوں بھائیوں سے ملے اور انہیں یہ بات بتائی کہ میں اللہ کا رسولؐ ہوں اور تمہیں اللہ کے دین کی باتیں بتانے آیا ہوں ۔
حضور ﷺ کی یہ بات سن کر ان تینوں نے آپ ؐ کا مذاق اڑایا ۔ایک بولا:’’اگر تجھے اللہ نے اپنا رسول ؐ بنایا ہے تو کعبہ کا پر دہ چاک کر دیا۔‘‘
دوسرا بولا: ’’کیا اللہ کو کوئی اور آدمی نہ ملا تھا جو تجھے اپنا رسول ؐ بنایا۔‘‘
تیسرے نے کہا:’’میں تجھ سے بالکل بات نہ کروں گا ‘ کیونکہ اگر تو سچ مچ اللہ کا رسول ہے‘تو تیرے ساتھ بات کرنابے ادبی ہے۔اور اگر رسول نہیں تو جھوٹے آدمی سے بات کرنا مناسب نہیں۔‘‘
یہ کہہ کر ان بے عقلوں نے شہر کے آوارہ لڑکوں اور غنڈوں کو اشارہ کردیا اور وہ حضور ﷺ کو ستانے اور آپ ؐ کا مذاق اڑانے لگے۔ ان شریروں نے اپنی جھولیوں میں پتھر بھر لیے اور حضور ﷺ کی طرف پھینکنے لگے اور ان کی اس حر کت سے حضور ﷺ بہت زخمی ہوگئے۔
تا ریخ لکھنے والے علماء نے لکھا ہے ‘اس شہر کے ظالم لوگوں نے حضور ﷺکے ساتھ بہت ہی برا سلوک کیا ۔ زخموں کی تکلیف سے آپؐ بیٹھ جاتے تو وہ آپ ؐ کی بغلوں میں ہاتھ ڈال کر آپ ؐ کو کھڑا کر دیتے اور پھر پتھر مارنے لگتے ۔ایسی تکلیفیں اٹھاتے ہوئے بھی حضور ﷺ نے بہت کوشش کی کہ یہ لوگ اللہ کے دین کی باتیں سنیں اور برائی کا راستہ چھوڑ کر نیکی کی راہ اختیار کر لیں ‘لیکن کسی نے آپ ؐ کی باتوں پر دھیان نہ دیا اور مایوس ہوکر آپ ﷺبستی سے باہر آگئے ۔
طائف کے لوگوں کے برے سلوک اور زخموں کی تکلیف سے آپؐ بہت پریشان تھے ۔شہر سے نکل کر ایک باغ کے قریب بیٹھ گئے ۔یہ باغ دو نیک دل بھائیوں کا تھا ۔ان میں سے ایک کانام عتبہ بن ربیعہ اور دوسرے کا نام شیبہ بن ربیعہ تھا۔انہوں نے حضور ﷺ کو بیٹھتے ہوئے دیکھا‘تو اپنے غلام کے ہاتھ انگوروں کا ایک گچھا بھیجا۔
جو غلام انگوروں کا گچھا لے کر آیاوہ عیسائی تھا اور اس کانام عداس تھا۔بیان کیا جاتا ہے اس نے رسول اللہ ﷺ کی باتیں سنیں تو مسلمان ہو گیا۔
رسول اللہ ﷺ کی دعا
رسول اللہ ﷺ طائف کے سخت دل کافروں کے برے سلوک سے ایسے رنجیدہ ہوئے کہ آپؐ نے اللہ تعالیٰ سے فریاد کی ۔آپ ؐ کی یہ دعا اثر اور درد سے بھری ہوئی ہے ۔آپؐ نے فرمایا:
’’اے اللہ ! اپنی بے سرو سامانی اور میری جو بے ادبی کی گئی ہے اس کے لیے تیرے حضور فریاد کرتا ہوں ۔تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔کمزوروں اور غریبوں کا تو ہی ہے اور میرا مالک بھی تو ہی ہے ۔(تو نے) مجھے کس کے حوالے کر دیا ہے ۔کیا اس کے جو سیدھے منہ بات نہیں کرتا ‘یا اس دشمن کے جو کام پر قابو رکھتا ہے ۔اگر تو مجھ سے ناراض نہیں تو مجھے اس کی پر وا نہیں ‘تیری رحمت میرے لیے کافی ہے۔میں تیری ذات کے نور کی پناہ چاہتا ہوں جس سے سب اندھیرے روشن ہو جاتے ہیں ‘ تیری پناہ چاہتا ہوں ‘ کہ تیرا غصہ اور تیری ناراضی مجھ پر اترے ۔مجھے تیری ہی رضامندی اور پسند درکار ہے ‘نیکی کرنے اور بدی سے بچنے کی طاقت مجھے تیری ہی طرف سے ملتی ہے ۔‘‘
بیان کیا جاتا ہے کہ اس وقت پہاڑوں کا فرشتہ حاضر ہوااور کہا:’’یا رسول اللہ ﷺ ‘ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ اگر آپ ؐ فرمائیں تو دونوں پہاڑوں کو ان ظالمون کے اوپر گرا دوں ؟‘‘
رسولاللہ ﷺ نے فرمایا : ’’نہیں مجھے امید ہے ان کی اولاد میں ایسے لوگ پیدا ہو ں گے جو اللہ تعالیٰ کو مانیں گے اور اس کی عبادت کریں گے ۔‘‘
یہاں کچھ دیر آرا م کرنے کے بعد رسول اللہ ﷺ مکہ کی طرف روانہ ہوئے ۔چند دن مقام نخلہ میں ٹھہرے اور پھر غار حرا میں تشریف لے گئے ۔یہاں سے آپ ؐ نے مکہ کے ایک نیک دل سردار مطعم بن عدی سے کہلوایا ۔’’اگر تم پسند کرو تو مجھے اپنی پناہ میں لے لو ۔‘‘
اس زمانے میں یہ قاعدہ تھا کہ مشکل کے وقت اگر کوئی شخص کسی کو اپنی پناہ میں لے لیتا تھا ‘ یعنی اس بات کا ذمہ دار بن جاتا تھا کہ اسے کسی قسم کا نقصان نہ پہنچنے دیا جائے گا ‘ تو یہ وعدہ پکا ہوتا تھا اور پھر وہ اس شخص کی پوری پوری حفاظت اور مدد کرتا تھا جسے اپنی پناہ میں لے لیتا تھا۔
مطعم بن عدی نے رسول اللہ ﷺ کو اپنی پناہ میں لینے کا اعلان کر دیا اوراپنے ساتھ شہر میں لے آیا۔
بیان کیا جاتا ہے مطعم کی اس نیکی کو رسول اللہ ﷺ نے ہمیشہ یاد رکھا ۔اس کا انتقال ہوا تو آپ ؐ کے شا عر صحابی ‘ حضرت حسان بن ثابتؓ نے اس کی یاد میں غم بھرے شعر لکھے ۔ایسے شعروں کو جو کسی مرنے والے کی یاد میں لکھے جاتے ہیں مرثیہ کہا جاتا ہے۔
اس باب میں بچوں نے رسول اللہ ﷺکی زندگی کے جو حالات پڑھے ان سے خاص طور پر یہ سبق ملتا ہے کہ جو لوگ کوئی اچھا یا بڑا کام کرتے ہیں ‘انہیں تکلیفیں ضرور اٹھانی پڑتی ہیں اور ایسے لوگوں کی بڑائی کی نشانی یہ ہے کہ وہ ان تکلیفوں کو ہنسی خوشی برداشت کرتے ہیں ۔
ان بڑے آدمیوں کو تکلیفیں اور مصیبتیں پہنچنے کی خاص وجہ یہ ہوتی ہے کہ جب وہ برائیوں کا خاتمہ کرکے دنیا کو اچھا بنانا چاہتے ہیں ‘تو شیطان اور اس کے چیلے چانٹے ان کے دشمن بن جاتے ہیں اور انہیں نیکی کے کاموں سے روکنا چاہتے ہیں ۔
مثال کے طور پر اس بات کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی ایماندار سپاہی چوروں کو چوری کرنے سے روکے‘تو وہ اس کی اس کوشش کو ضرور برا سمجھیں گے اور کوشش کریں گے کہ سپاہی اپنی کوششوں میں کامیاب نہ ہو‘بس اسی طرح برائی کے راستے پر چلنے والے نیک لوگوں کو نیکی سے روکتے اور ستاتے ہیں ۔
یہ بات ہم نے اس طرح کھول کر یوں لکھی ہے کہ پیارے بچے اچھی طرح سمجھ لیں کہ نیکی کے راستے پر چلنے والوں کو کچھ نہ کچھ تکلیف ضرور پہنچتی ہے ‘لیکن یہ تکلیف اور دکھ اس انعام کے مقابلے میں بالکل معمولی ہوتا ہے جو نیکی کرنے والوں اور نیک بننے والوں کو ملتا ہے ۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top