آسان شکار
اشتیاق احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”جانو! غور سے سنو، سیٹھ کپاڈیا کل رات اپنی بیو ی کے ساتھ دوسرے شہر ایک شادی میں جارہا ہے۔ اس کی عدم موجودگی میں گھر میں صرف بچے ہوں گے، یا پھر سرونٹ کوارٹر میں سویا ہوا ملازم۔ سرونٹ کوارٹر کوٹھی کے پچھلے حصے میں ہے۔ ملازم کی نیند بہت پکی ہے، اس لیے تم وہاں آسانی سے ہاتھ صاف کر سکو گے۔ کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔“
”سیٹھ کپاڈیا کی کوٹھی تو خیر ہم نے دیکھی ہے۔ آج بھی اس طرف کا چکر لگا لیتے ہیں، تاکہ پروگرام طے کر سکیں، لیکن باس! آخر آپ کو یہ معلومات کیسے حاصل ہوجاتی ہیں؟“ جانو کے لہجے میں حیرت تھی۔
”یہ میر ا کام ہے۔ تم اپنا کام کرو اور ہاں! بچے تم تینوں میں سے کسی کا چہرہ نہ دیکھ پائیں، اگر وہ تم میں سے کسی کا چہرہ دیکھ لیں تو پھر انہیں زندہ نہ چھوڑنا، کیوں کہ اس صورت میں ہم مارے جائیں گے۔“
”میں سمجھتا ہوں باس! آپ فکر نہ کریں۔“
”زیورات اس کے سیف کے پچھلے خانے میں ہوتے ہیں، لیکن تم لوگوں کے لیے وہ خفیہ خانہ کھول لینا کچھ بھی مشکل نہیں ہوگا۔ کوئی بات پوچھنا چاہتے ہو تو پوچھ لو، کیوں کہ اس کے بعد میں تم سے رابطہ کل رات گزر جانے پر ہی کروں گا۔“
”یہ معلومات کافی ہیں باس! نقدی کے بارے میں کیا حکم ہے؟ نوٹوں کے نمبر ہوتے ہیں، جو پکڑے جاسکتے ہیں۔“
”ہاں ٹھیک ہے۔ تم صرف زیورات اُٹھانا۔ ان کے پاس زیورات کم نہیں ہیں۔ ان میں ہیروں کے بھی ہیں۔“
”پھر تو مزہ آجائے گا باس!“ جانو نے چٹخا را بھرا، جیسے ہیرے کوئی کھانے کی چیز ہوں۔
باس نے ہنس کر فون بند کر دیا۔ جانو اب اپنے باقی ساتھیوں کو نئی مہم کے بارے میں ہدایات دے رہا تھا۔
٭
”اچھا بچو! اگر تمہارے سالانہ امتحانات کا مسئلہ نہ ہوتا تو ہم تمہیں بھی ساتھ لے چلتے۔ تمہیں ڈر تو نہیں لگے لگا؟“ سیٹھ کپاڈیا نے پوچھا۔
ان کا بیٹا حسن بولا:”جی نہیں، ڈر کی کیا بات ہے؟“
”پھر بھی تم اکرم چاچا کو اپنے کمرے میں بلا لینا۔ وہ آج رات سرونٹ کوارٹر میں نہ سوئیں۔“
”اس کی بھی ضرورت نہیں بابا!“ یہ بات دوسرے بیٹے معاویہ نے کہی۔
”عائشہ! تم ان تینوں سے بڑی ہو۔ تم ان کا خیال رکھو گی اور تم تینوں بڑی بہن کی بات مانو گے۔ آپس میں لڑو گے نہیں۔ ٹھیک ہے؟“
وہ ایک ساتھ بولے: ”آپ فکر نہ کریں بابا!“
”اور آپ اکرم چاچا! آج یہیں ان کے ساتھ والے کمرے میں سو جانا۔ انہیں رات میں کسی چیز کی ضرورت پیش نہ آجائے۔“
اکرم چاچا نے فوراً کہا:”آپ فکر نہ کریں۔“ وہ ان کے بہت پرانے ملازم تھے اور سیٹھ صاحب انہیں پسندکرتے تھے۔ ان کا بہت خیال رکھتے تھے۔ تنخواہ تو ان کی معقول تھی ہی، یوں بھی سیٹھ صاحب ان کے دکھ سکھ میں ہر طرح کام آتے تھے۔ ان کے بیوی بچے گاﺅں میں رہتے تھے۔ کوئی گھریلو مسئلہ پیش آجائے تو سیٹھ صاحب ان کی فوراً مدد کرتے تھے۔ اس طرح اکرم چاچا اس گھر کے ہر فرد کے چاچا تھے۔
”اچھا تو پھر ہم چلتے ہیں۔“
پھر انہوں نے باری باری بچوں کو گلے سے لگایا۔ ان کی والدہ نے بھی پیار کیا اور گاڑی میں بیٹھ گئے۔ بچے کوٹھی کے دروازے پر کھڑے ہاتھ ہلاتے رہے، یہاں تک کہ گاڑی موڑ مڑ گئی۔ اس وقت رات کے آٹھ بج رہے تھے اور موسم شدید سردی کا تھا۔ سردیوں کی راتیں یوں بھی لمبی ہوتی ہیں۔
”اکرم چاچا! آپ آرام کریں، ہمیں تو ابھی نیند نہیں آرہی۔“
”اچھی بات ہے، کسی چیز کی ضرورت ہو یا چائے بنوانی ہو تو آواز دے دیجیے گا۔ میں اُٹھ جاﺅں گا۔“ اکرم چاچا نے کہا۔
”نہیں چاچا! یہ کام ہم خود کر لیں گے۔ آپ کو تنگ نہیں کریں گے۔ بس آپ لمبی تان کر سو جائیں۔“
”اچھا!“ اکرم چاچا نے کہا اورکوٹھی کا گیٹ بند کر کے اندر کی طرف مڑ گئے۔ ان چاروں نے اپنے کمرے کارخ کیا۔ دس بجے کے قریب دروازے پر دستک ہوئی۔ انہوں نے چونک کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
عائشہ بولی:”یہ اس وقت کون آگیا؟“
حسن نے اُٹھتے ہوئے کہا:”میں دیکھتا ہوں۔“
وہ کمرے سے نکل کر گیٹ پر آیا اور بولا:”کون صاحب؟“
”جی، میں ایک بیوہ عورت ہوں۔ میرے بچے کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی ہے اور میرے پاس دوا کے پیسے نہیں ہیں۔ اس قسم کے حالات میں، میں پہلے بھی کئی بار اس دروازے پر آچکی ہوں۔سیٹھ صاحب ہر بار میری مدد کر چکے ہیں۔“
”اچھی بات ہے۔ سردی بہت ہے۔ آپ اندر آجائیں۔ ہم آپ کی مدد کیے دیتے ہیں۔“ یہ کہہ کر حسن نے دروازہ کھول دیا۔ ساتھ ہی وہ زور سے اُچھلا، اس کی آنکھوں میں خوف دوڑ گیا۔ باہر دروازے پر کوئی عورت نہیں چار لمبے تڑنگے مسلح نقاب پوش کھڑے تھے۔ دروازہ کھلتے ہی وہ اندر آگئے۔ ان میں سے ایک نے دروازہ اندر سے بند کر دیا۔ گویا ان میں سے ایک نے آواز بدل کر عورت کی آواز منہ سے نکالی تھی۔
”کک! کیا! کیا مطلب! آپ کک کون ہیں؟“ سب بچوں کے رنگ زرد پڑ گئے تھے۔
”دیکھو بچو! ہم تمہارے لیے بہت اچھے بھی ثابت ہوسکتے ہیں اور بہت برے بھی۔ اگر تم لوگوں نے تعاون کیا تو ہم بہت جلد پُرسکون انداز میں یہاں سے چلے جائیں گے۔“
”آپ! آپ چاہتے کیا ہیں؟“ عائشہ نے کانپتی آواز میں پوچھا۔
”بس کوئی خاص بات نہیں۔ ہم لوگ اس گھر کے زیورات لے جائیں گے۔“
”کک! کیا آپ! آپ چور ہیں؟“ حسن چلا اُٹھا۔
”بھئی، چور کہہ لو، ڈاکو کہہ لو، ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اب تم اچھے بچوں کی طرح ایک طرف بیٹھ جاﺅ اور ہمیں اپنا کام کرنے دو، بلکہ اپنے کمرے میں چلو۔“ اب وہ سب کمرے میں آگئے۔
”استاد! معاف کرنا۔یہ کوئی شرارت کر سکتے ہیں، لہٰذا انہیں باندھ دینا چاہیے۔ ان کے ہونٹوں پر ٹیپ چپکا دینی چاہیے۔ اس صورت میں ہم اپنا کام اطمینا ن سے کر سکیں گے۔“ اس کے ایک ساتھی نے کہا۔
”نن ! نہیں، ہم کچھ نہیں کریں گے۔ آپ ہمیں نہ باندھو۔“
”جیرے! تمہاری بات ٹھیک ہے۔ ان چاروں کو باندھ دیناہی مناسب ہے۔“ انہوں نے جیبوں سے ریشم کی ڈوریاں نکالیں اورانہیں باندھنے لگے۔ ان کا استاد ایک طرف کھڑا یہ کارروائی دیکھتا رہا۔ باندھنے کے بعد انہوں نے ان کے ہونٹوں پر ٹیپ بھی چپکا دی۔
”کیوں بچو! اب تم بات کر سکتے ہو یا نہیں؟“
وہ اوں اوں کر کے رہ گئے۔ اس وقت استاد نے کہا:”آﺅ، ان کے والد کے کمرے میں چلتے ہیں۔ انہیں یہیں پڑا رہنے دو۔“
”لیکن استاد! انہیں اس طرح کھلے کمرے میں چھوڑنا تو مناسب نہیں۔ اس کمرے کا دروازہ باہر سے بند کر دیتے ہیں۔“
”جیرے! تم روز بروز عقل مند ہوتے جارہے ہو۔ ایسے ساتھیوں میں تو کام کا مزہ آتا ہے۔ کمرے کا دروازہ باہر سے بند کر دو۔“
وہ کمرے سے نکل آئے۔ دروازہ باہر سے بند کر دیا گیا۔ اب انہوں نے ایک ایک کمرے کا جائزہ لیا۔ سیف جس کمرے میں نظر آئی، وہ سیٹھ کپاڈیا اور ان کی بیگم کا کمرہ تھا۔
”چلو استاد! اپنا فن آزماﺅ۔“
”فکر نہ کرو،یہ کیا تجوری ہے۔ میرے آگے تو بڑی بڑی تجوریاں ہاتھ جوڑ دیتی ہیں۔“
استاد جانو نے مسکرا کر کہا اور پھر وہ اپنی چابیوں اور مڑے تڑے تاروں کے ساتھ تجوری پر جٹ گیا۔ اس کے تین ساتھی دم سادھے اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔
٭
”اوں! اوں!“ حسن نے منہ سے آواز نکالنے کی کوشش کی۔ عائشہ، معاویہ اور علی نے اس کی طرف دیکھنے کے لیے پلٹیاں سی کھائیں اور دیکھنے کے قابل ہوگئے۔ وہ آنکھوں سے اندرونی دروازے کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔ یہ دروازہ کمرے کا اندرونی دروازہ تھا، جہاں اکرم چاچا سو رہے تھے۔
”کیا کرنا چاہتے ہو؟“ آنکھوں ہی آنکھوں میں عائشہ نے پوچھا۔
حسن نے کوئی جواب نہ دیا، بلکہ خود کو دروازے تک لے جانے لگا۔ اب وہ سمجھے کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے۔ تینوں اس کی طرف پُرامید نظروں سے دیکھنے لگے۔ آخر اس نے خود کو اس دروازے سے ٹکرا دیا۔ ہلکی سی دھم کی آواز سنائی دی۔
”ایک ٹکر اور حسن!“ عائشہ نے آنکھوں میں کہا۔
حسن مسکرا دیا اورپھر خود کو دروازے سے ٹکرانے لگا۔ کئی بار کی دھم دھم نے آخر اکرم چاچا کی نیند میں خلل ڈال دیا۔ چند لمحے تک وہ سوچتے رہے کہ یہ آوازیں کیسی ہیں، لیکن کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ پھر انھوں نے سوچا کہ شاید میں خواب میں یہ آوازیں سنتا رہا ہوں۔یہ خیال آتے ہی انھوں نے آنکھیں بند کر لیں۔ اس وقت پھر دھم کی آواز سنائی دی۔ اکرم چاچا کی آنکھ پھر کھل گئی۔ اب انھوں نے محسوس کر لیا کہ اندرونی دروازے سے کوئی ٹکرایا ہے، تو انہیں خوف محسوس ہوا۔ پھر ہمت کر کے انھوں نے دروازہ کھول دیا۔ دوسری طرف کا منظر دیکھ کر وہ بُری طرح اُچھلے۔ پھر اس سے پہلے کہ وہ خوف زدہ انداز میں چلا اُٹھتے، عائشہ نے منہ سے آواز نکالی۔ اس سے وہ رُک گئے۔ عائشہ نے اپنا منہ اوپر کی طرف کر کے ان کی توجہ ٹیپ کی طرف دلائی۔ کمرے میں بلب پہلے ہی سے روشن تھا اور ڈاکوﺅں نے لائٹ آف کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔
اکرم چاچا فوراً عائشہ پر جھک گئے اور آہستہ آہستہ ٹیپ اتارنے لگے۔ عائشہ نے اس لمحے شدید تکلیف محسوس کی، لیکن مجبوری تھی، یہ کام تو ہونا ہی تھا۔ آخر ٹیپ اُتر گئی۔ اب عائشہ نے اکرم چاچا کے کان میں ساری بات بتائی۔ ان کی آنکھوں میں اور زیادہ خوف بس گیا۔ انھوں نے کہا:”ا ب سوال یہ ہے کہ میں تم لوگوں کو کیسے کھولوں؟ چاقو یا چھری لانے کے لیے مجھے باورچی خانے میں جانا پڑے گا۔ باورچی خانے میں جانے کے لیے مجھے صاحب جی کے کمرے کے سامنے سے گزرنا پڑے گا اور اگر انھوں نے مجھے دیکھ لیا توسارا کام۔“
اکرم چاچا کے الفاظ درمیان میں رہ گئے۔ مارے خوف کے ان کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ اندرونی دروازے میں استاد کا ساتھی کھڑا تھا۔ اس کے ہاتھ میں سیاہ رنگ کا پستول تھا اور پستول کا رُخ ان کی طرف تھا۔
”دھم دھم کی آوازیں اس طرف سے آئی تھیں۔ تم شاید اس گھر کے ملازم ہو، مگر تمہیں تو سرونٹ کوارٹر ہونا چاہیے تھا۔ شاید تم اس ساتھ والے کمرے میں سوئے ہوئے تھے اور سیٹھ کپاڈیا نے تم سے کہا ہوگا کہ بچوں کے پاس سوجانا۔ یہی بات ہے نا؟“
اکرم چاچا نے خوف زدہ انداز میں سر ہلایا۔
”ہوں، تم میرے آگے آگے چلو۔ یاد رکھو! پستول بے آواز ہے۔ کوئی حرکت کرنے کی کوشش کی تو گولی دماغ میں سوراخ کرتی دوسری طرف نکل جائے گی۔ چلو، اپنے صاحب کے کمرے میں۔ استاد سے پوچھنا ہوگا کہ اب کیاکیا جائے اور ہاں! ہاتھ سر سے اوپر اُٹھا دو۔“
اکرم چاچا کے ہاتھ اوپر اُٹھ گئے۔ وہ اس کے آگے آگے چلتے سیٹھ کپاڈیا کے کمرے میں داخل ہوئے تو استاد جانو اور باقی دونوں ساتھی اُچھل پڑے۔
”ارے!یہ کیا! یہ ہم کیا دیکھ رہے ہیں؟“
”بال بال بچے استاد! یہی تو پتا نہیں تھا کہ گھر کا ملازم سرونٹ کوارٹر میں نہیں، ان کے کمرے کے ساتھ والے کمرے میں سویا ہوا ہے اور دونوں کمروں کے درمیان میں بھی ایک دروازہ ہے۔“
”اوہ!“ ان تینوں کے منہ سے نکلا۔
پھر استاد جانو چلایا:”جیرے! یہ تم نے کیا کیا؟“
”کیاکیا استاد!کیا کیا میں نے؟“
”بے وقوف! پہلے تم بہت عقل مند نظر آرہے تھے، اب عقل سے پیدل؟ تم بھول گئے باس کی ہدایت کو؟ باس نے کیا کہا تھا کہ یہ لوگ ہم میں سے کسی کا چہرہ نہ دیکھ پائیں، لیکن انہیں ہم نے باندھ کر کمرے میں بند کرنے کے بعد اپنے چہروں سے نقاب ہٹا دیے تھے اور تم دھم دھم کی آوازیں سن کر اسی حالت میں ان کے سامنے چلے گئے۔“
”اوہ!“ جیرے کے منہ سے نکلا۔
”کیا مطلب؟ اس سے کیا فرق پڑ گیا؟“ اکرم چاچا بولے۔
”اب تم نے ہمارے چہرے دیکھ لیے ہیں، لہٰذا تم پانچوں کو زندہ نہیں چھوڑا جاسکتا۔ جاﺅ، ان چاروں کو اُٹھا کر یہیں لے آﺅ۔“
”نن! نہیں۔“ اکرم چاچا چلا اُٹھے، اب تو اس کی آنکھوں میں سارے جہاں کا خوف سما گیا۔ بدن میں تھرتھری دوڑ گئی اور استاد کے تینوں ساتھی کمرے سے نکل گئے۔ جلد ہی چاروں بچے بھی اس کمرے میں نظر آئے۔
”تت! تم! تم نے سنا! اس شخص نے کیا کہا ہے، چوں کہ ہم نے ان کے چہرے دیکھ لیے ہیں، اس لیے اب ہمیں زندہ نہیں چھوڑا جاسکتا۔“
”نہیں۔“ عائشہ کے منہ سے نکلا۔
”استاد! اگرچہ سردی کا موسم ہے، آس پاس گھروں میں لوگ لحافوں میں دبکے پڑے ہیں، یہاں کی آوازیں ان تک کسی صورت نہیں جاسکتیں، لیکن پھر بھی احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ ان دونوں کے منہ بند کر دیے جائیں، باقی تین کے پہلے ہی بند ہیں۔“
”ٹھیک ہے۔“ استاد نے سر ہلایا۔
جیرے نے اب اکرم چاچا کو بھی باندھ دیا۔ ان کے اور عائشہ کے ہونٹوں پر ٹیپ چپکا دی۔
استاد اس وقت تک تجوری کھول چکا تھا اور وہ اس میں سے زیورات اور جواہرات نکال نکال کر ایک بیگ میں بھر چکے تھے، لیکن ابھی تجوری پوری طرح خالی نہیں ہوئی تھی۔ ان کے دیکھتے ہی دیکھتے انھوں نے تجوری خالی کر دی۔
”چلو جیرے! اب ان کا کام تمام کر دو۔“
ان پانچوں کے جسموں میں تھرتھری دوڑ گئی۔ انھوں نے زور زور سے نفی میں گردنیں ہلاناشروع کیں۔
یہ دیکھ کر جیرا بولا: ”استاد! یہ کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ بے چارے آخری بار کچھ کہہ لیں گے۔ ان کی آواز کہاں باہر چلی جائے گی اور پھر شدید سردیوں کی رات ہے۔ لوگ یوں بھی کمروں کے دروازے بند کیے لحافوں میں دبکے سوئے ہوئے ہیں۔“
”اچھی بات ہے۔ ان کے منہ کھول دو۔“
انھوں نے چاروں کے ہونٹوں سے ٹیپ اُتار دی۔ وہ فوراً ہی گڑگڑانے لگے کہ ہمیں نہ مارو۔ ہماری یہ سار ی دولت لے جاﺅ۔ ہماری زندگیوں کے بدلے تو ہمارے ماں باپ تم لوگوں کو اس سے بھی زیادہ دولت دے دیں گے اور کسی کو بھی تم لوگوں کے بارے میں کچھ نہیں بتائیں گے۔ ہم بھی اپنے ماں باپ کو یا پولیس کو کچھ نہیں بتائیں گے، بلکہ ہم تو ماں باپ کو ویسے ہی روک دیں گے۔ وہ پولیس کو بلائیں گے ہی نہیں۔ دیکھو، رک جاﺅ، یہ ظلم نہ کرو۔ اللہ کے لیے! ہمیں نہ مارو۔ ہمیں نہ مارو۔
وہ کہتے جارہے تھے اور ان کی سسکیاں بلند ہوتی جارہی تھیں۔ آنسو ان کی آنکھوں سے زارو قطار بہہ رہے تھے۔ ان کی آہ و زاری نے ڈاکوﺅں کو سوچ میں ڈال دیا۔ انھوں نے ایک دوسرے کی طر ف دیکھا۔
”اور اگر انھوں نے ہمارے حلیے بتا دیے تو؟“ استاد نے پریشانی کے عالم میں کہا۔
”ہم وعدہ کرتے ہیں۔ دیکھو! وہ اوپر الماری پر قرآن کریم رکھا ہے۔ تم کہو تو ہم اس پر ہاتھ رکھ کر وعدہ کرتے ہیں۔ ہم اپنے ماں باپ کو تم لوگوں کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتائیں گے۔ انہیں پولیس میں رپورٹ بھی درج نہیں کرانے دیں گے۔“
”کیوں استاد! کیا کہتے ہو؟“
”دیکھ لو بھئی، کہیں مارے نہ جائیں۔ انہیں بچاتے بچاتے خود جیل نہ چلے جائیں۔ وہ بھی ایک دو سال کے لیے نہیں سالہا سال کے لیے۔“
”ہم نے وعدہ کیا تو ہے۔ ہم سے قرآن کریم پر ہاتھ رکھوا کر وعدہ لے لو۔“
اب پھر ان تینوں نے استاد کی طرف دیکھا، آخر جانو نے کہا: ”اچھی بات ہے۔ قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھاﺅ، ہمارے بارے میں کسی کو کچھ بھی نہیں بتاﺅ گے۔“
”ٹھیک ہے، رکھو ہاتھ اور کھاﺅ قسم۔“ جیرے نے کہا۔
”ہم ایسے ہاتھ کیسے رکھ دیں؟ وضو کر کے ہاتھ لگا سکتے ہیں۔“
”چلو، وضو کرو۔“
اب ان پانچوں نے وضو کیا، پھر قرآن پر ہاتھ رکھ کر ان سے وعدہ کیا کہ ان کے حلیوں کے بارے میں کسی قسم کی کوئی بات نہیں بتائیں گے اور سیٹھ کپاڈیا کو پولیس میں رپورٹ درج کرانے سے بھی روک دیں گے۔
یہ وعدہ لے کر انھوں نے زیورات کا بیگ اُٹھایا اور کوٹھی سے نکل گئے۔ ان کے جانے کے بعد اکرم چاچا نے گیٹ بند کر لیا۔ اب وہ اندر آئے اور صحن میں بچھی کرسیوں پر بیٹھ کر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔
”ایسا لگتا ہے، جیسے ہم نے کوئی خواب دیکھا ہے۔“ عائشہ بڑبڑائی۔
”تجوری کھلی پڑی ہے، یہ خواب کیسے ہوسکتا ہے؟“
”اللہ کو یہی منظور تھا۔ ہم خوش قسمت ہیں۔ جانیں بچ گئیں۔“ اکرم چاچا نے کہا اور پھر بقیہ رات انھوں نے آنکھوںمیں کاٹی۔ صبح نو بجے گاڑی کے ہارن کی آواز نے انہیں چونکا دیا۔ انھوں نے جلدی سے تجوری کا دروازہ بند کر دیا۔ رسیوں کے ٹکڑے وغیرہ وہاں سے صاف کر دیے۔ پھر اپنے والدین کا استقبال کرنے کے لیے گیٹ کی طرف دوڑ پڑے۔
”السلام علیکم بچو! سناﺅ، رات کیسے گزری؟“
”وعلیکم السلام! اللہ کا شکر ہے، بہت اچھی گزری۔“ وہ ایک ساتھ بولے۔
”لیکن تم لوگوں کے چہرے اُترے اُترے محسوس ہورہے ہیں، اور تو اور اکرم چاچا بھی بجھے بجھے ہیں۔“
”نہیں، ابو! یہ بالکل ٹھیک ہیں۔ کیوں اکرم چاچا؟“
”بالکل، اللہ کی بہت مہربانی ہے۔“
پھر وہ سب باغ میں آبیٹھے۔ سیٹھ کپاڈیا نے ایک بارپھر سب کے چہروں کا جائزہ لیا اور بولے:”کیا کوئی بات ہوگئی ہے؟ رات کو کچھ ہوا ضرور ہے۔ تم لوگوں کے چہرے چغلی کھا رہے ہیں۔“
”جی، جی ہاں، میں بتاتی ہوں، لیکن آپ کو ہم سے وعدہ کرنا ہوگا۔ ہم نے کسی کو ایک وعدہ دیا ہے۔ آپ ہمارے وعدے کو نبھائیں گے۔ اس کے خلاف نہیں کریں گے۔“
”اچھا ٹھیک ہے۔ تم بات بتاﺅ۔ ہم بہت بے چینی محسوس کر رہے ہیں۔“
اب عائشہ نے ساری بات تفصیل سے سنا دی، جو بیتی تھی۔ پھر وہ خاموش ہوگئی۔ سیٹھ کپاڈیا اُچھل کر کھڑے ہوگئے اور پکار اُٹھے:”اُف! یہ بہت بُرا ہوا۔“ وہ ایک دم گھبرا گئے۔
”کیا ہوا ابو! بہت بُرا کیسے ہوگیا، ہم سب کی جانیں بچ گئیں، بُرا کیسے ہوگیا؟“
”بُرا ایسے ہوا کہ جوزیورات وہ لے گئے، سب کے سب نقلی تھے۔“
”کیا!“ وہ چلا اُٹھے۔
تھوڑی دیر تک ان سب پر سکتے کی حالت طاری رہی، آخر عائشہ بولی:”لیکن ابو! بُری بات کیسے ہوگئی؟ یہ تو اور زیادہ اچھی بات ہوگئی۔ ہمارے زیورات بھی بچ گئے اور جانیں بھی محفوظ ہیں۔“
”لیکن تم نے جانیں اصلی زیورات کے بدلے میں بچائی ہیں۔ ہمیں شکر اس بات پر کرنا تھا کہ چلو، زیور گئے تو کیا ہوا، جانیں تو بچ گئیں۔ اصلی زیورات اس سیف میں توتھے ہی نہیں۔ اسٹور میں جو پرانی سیف ہے، وہ تو ہم اس میں رکھتے ہیں۔ اب میں انہیں کس طرح پیغام دوں کہ آﺅ، میرے بچوں کی زندگیوں کے بدلے میں اصل زیورات لے جاﺅ۔ یہ افسوس مجھے زندگی بھر رہے گا۔ افسوس صد افسوس۔ یہ غم مجھے مار ڈالے گا۔ اکرم چاچا! تم سن رہے ہو۔ یہ غم میری جان لے لے گا۔“
”نہیں مالک! نہیں۔ آ پ اس غم سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔ میں ان میں سے ایک کو پہچانتا ہوں۔ وہ آپ کے قریبی دوست شاہ نواز سارو کی کوٹھی میں رہتا ہے۔“
”اوہ! اوہ! تب پھر ہم اسے پیغام دیںگے۔ وہ چاروں آ کر اصل زیورات لے جائیں۔“
دوسرے دن شاہ نواز ساروکے ملازم کو یہ تحریری پیغام ملا:
”محترم بھائی! ان بچوں کو بالکل معلوم نہیں تھا کہ اس تجوری میں نقلی زیورات ہیں۔ ساری کہانی سن کر مجھے بہت دکھ ہوا۔ میں اپنے بچوں کی زندگیوں کے بدلے میں نقلی زیورات دے کر خوش نہیں رہ سکوں گا۔ آپ لوگ آکر اپنے زیورات لے جائیں۔ آپ کا دوست، آپ کا ہمدرد۔
سیٹھ کپاڈیا۔“
جیرے کو یہ پیغام ملا تو اس نے اپنے تینوں ساتھیوں کے سامنے رکھ دیا۔ پھر انھوں نے اپنے باس کے سامنے رکھا۔ انہیں دنیا گھومتی ہوئی محسوس ہوئی۔ آخر اس کے دوسرے دن سیٹھ کپاڈیا کو ان پانچوں کی طرف سے یہ تحریر ملی:
”سیٹھ کپاڈیا!
ہمارے بھائی! ہمارے دوست! آپ نے ہمیں اس دنیا کا اصلی رخ دکھا دیا ہے۔ ہمیں اب آپ کے زیورات کی کوئی خواہش نہیں رہی۔ ہم پانچوں خود کو قانون کے حوالے کر رہے ہیں۔
فقط والسلام!
استاد جانو، جیرا، رانو، باقر اوران کا ساتھی شاہ نواز سارو۔“
٭٭٭