آگ
حسین صحرائی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسانی زندگی کی ایک اہم ترین شے کے بارے میں دلچسپ معلومات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آگ ہندی زبان کا لفظ ہے۔ جو مونث ہے۔ لغت میں اس کے سولہ معنی درج ہیں۔
ان میں سے چند اہم معنی یہ ہیں ’’آتش، جلن گرمی، کام کا شوق جذبہ، محبت، دشمنی، جھگڑا، بلا، آفت، حسد غصہ، کھولتا ہوا گرم اور دہکتا ہوا انگارہ‘‘۔
آگ ہے کیا؟ تو جان لیجئے ایک انتہائی خوفناک حرارت جس سے انسان ہی نہیں ہر جان دار خوف کھاتا ہے۔ کیوں نہ کھائے! یہ جھلسا دینے والی حرارت اپنے سامنے آنے والی ہر شے کو جلا کر راکھ کردیتی ہے۔ انسان نے پتھروں کے ٹکرانے سے آگ کی چنگاریاں دیکھی تھیں۔ تو وہ اس سے ڈر کر اس کو پوجنے لگا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ اس نے آگ سے فائدہ اُٹھانے کی ٹھانی اور خطرناک درندوں سے خود کو اس کے ذریعے محفوظ رکھنے اور غذا خصوصاً گوشت بھون کر کھانے لگا۔ ماضی میں جنگوں میں فاتح افواج شہروں، فصلوں، املاک کو آگ لگا کر ہر شے برباد کر ڈالتی تھی۔
اگر آپ سے پوچھا جائے کہ آگ کی تعریف کیا ہے؟ تو لمحہ بھر کے لئے تو آپ پریشان ہوجائیں گے؟ آگ کی بھی کوئی تعریف ہوسکتی ہے؟ یہ تو ہے ہی تکلیف دہ شے۔ جی ہاں ماہرین نے آگ کی تعریف یوں بیان کی ہے۔
’’ایک ایسی قوت اور ایسے کیمیائی عمل کا دوسرا نام آگ ہے۔ جس میں جلانے، اُبالنے، پگھلانے اور روشنی دینے کی صلاحیت ہے‘‘۔
آگ کے کیمیائی اجزاء کی تفصیل یوں ہے۔
’’آگ میں جلنے والی چیز بخارات ہیں۔ جب گرمی سے بخارات اُٹھتے ہیں تو اوپر ہوا میں موجود آکسیجن ان میں مل جاتی ہے اور اس طرح ایک قسم کا مرکب یا Mixture بن جاتا ہے۔ اس مرکب کا درجہ حرارت جب بھی اس حد تک پہنچ جائے کہ اس کو آگ لگ جائے تو جلنا شروع کردے گا‘‘۔
آگ مضر رساں ہونے کے ساتھ ساتھ انسان کی پرانی رفیق بھی ہے۔ یہ لکڑی، کوئلہ اور قدرتی گیس جلانے سے حاصل ہوتی ہے اور بہ مشکل حرارت گھریلو و صنعتی مقاصد میں استعمال ہوتی ہے۔ اسے حد درجہ احتیاط کے ساتھ استعمال کرنا چاہئے۔
آگ کی ایک قسم اور بھی ہے جو حسد کی آگ کہلاتی ہے۔ یہ انتہائی خطرناک ہوتی ہے۔ انسان کی خوبیوں کو برباد کر ڈالتی ہے۔ ہم سب کو اس سے اپنا دامن ہر حال میں بچانے کی کوشش کرنی ہے۔ ہمارے ہر اچھے کام سے ہمارے والدین، اساتذہ خوش ہوتے ہیں۔ وہیں ہمارا رب یعنی اللہ تعالیٰ بھی خوش ہوتا ہے۔ اگر ہم کوئی بُرا کام کرتے ہیں تو ہم اپنے اندر ایک قسم کی بے چینی محسوس کرتے ہیں۔ یہ بے چینی ایک احساس کا نام ہے۔ جسے ’’ضمیر‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ آپ نے سنا ہوگا ’’وہ اپنے ضمیر کی آگ میں جل رہا تھا‘‘۔ ’’اُس کے ضمیر نے ملامت کی‘‘۔ پس معلوم ہوا تیسری آگ ضمیر کی آگ ہے۔ جو انسان کو سچ بولنے پر مجبور کردیتی ہے۔
دنیا میں بعض مرتبہ بڑے بڑے جرائم کے سراغ نہیں ملتے ہیں۔ پھر اچانک ہی کوئی صاحب بیان دیتے ہیں یا اقرار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یوں سچ ظاہر ہوکر رہتا ہے۔ جب ان سے پوچھا جائے۔ آپ اتنا عرصہ کیوں خاموش تھے تو اکثر یہ جواب سننے کو ملتا ہے ’’میں خاموش رہنا چاہتا تھا، لیکن ضمیر کی آگ نے سچ بولنے پر مجبور کردیا۔ آج سچ بول کر میں خود کو بہت ہلکا محسوس کررہا ہوں۔
عزیز طالب علموں! آگ کا تو نام ہی دہشت کردینے کے لئے کافی ہے۔ اس کا تو کام ہی جلانا ہے۔ وہ مادی آگ ہو یا حسد کی آگ یا پھر ضمیر کی آگ ۔ہم سب کا فرض ہے کہ اس سے خود کو محفوظ رکھیں اور دوسروں کو بھی بچانے میں ان کی مدد کریں۔ وہ اس طرح کہ بُرے کاموں سے دور رہیں۔ اچھے کام کریں۔ والدین اساتذہ اور بزرگوں کی دل سے عزت و قدر کریں۔
تو صاحبو! آگ بڑی ہی خطرناک شے ہے جو جلا کر راکھ کر ڈالتی ہے۔ ہمیں دنیا کو ہی نہیں خود کو بھی آگ سے محفوظ رکھنا ہے۔ اس کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم بے خوفی سے سچائی کے سیدھے راستے پر چلتے جائیں۔ تو کہیے آپ آگ سے خود کو دور رکھنے کے لئے تیار ہیں؟