چچا چھکّن نے جھگڑا چکایا
امتیاز علی تاج
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلی گرمیوں میں اتوار کا روز تھا۔ہمارے ہاں چراغ میں بتّی پڑتے ہی کھانا کھا لیا جاتا ہے۔بچے کھانا کھا کر سو گئے تھے۔چچی نے کھانا نمٹاکر عشاء کی نماز کی نیت باندھی تھی ،نوکر باورچی خانے میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے،چچا چھکّن بنیان پہنے،تہمد باندھے،ٹانگ پر ٹانگ رکھے،چار پائی پر لیٹے مزے مزے سے حقے کے کش لگا رہے تھے کہ دفعتہ گلی میں سے شور وغُل کی آواز آئی۔
بُندو،امامی،مودا کھانا چھوڑ دروازے کی طرف لپکے،چچا بھی لپک کر اٹھ بیٹھے اور کوئی نظر نہ آیا تو چچی کی طرف دیکھا،چچی نے سلام پھیرتے ہوئے منہ اُدھر موڑا،آنکھیں چار ہوئیں تو چچا نے پوچھا۔
’’یہ شورکیسا ہے؟‘‘چچی ماتھے پر تیوری ڈال کر وظیفہ پڑھنے لگیں۔
چچا چھکّن کچھ دیر انتظار کرتے رہے کہ شاید کوئی نوکر لڑکا پلٹ کر آئے اور کچھ خبر لائے۔ویسے چچی سے برابر پوچھتے رہے۔
’’کوئی آتا نہیں!۔۔۔کہاں بیٹھ رہے سب کے سب؟۔۔۔دیکھتی ہو ان کی حرکتیں؟معلوم نہیں کیا واردات ہو گئی!‘‘
لیکن جب نہ چچی نے جواب دیا اور نہ کوئی لڑکا واپس آیا تو مجبوری کو اٹھے اور جوتا پہن کر خود باہر نکلنے کی تیاری کی۔
چچی بولیں’’چلے ہوتو کسی کے جھگڑے میں نہ پڑنا۔‘‘
چچا بولے’’میرا سر بھرا ہے۔بازاری لوگوں کے جھگڑے سے ہمیں کیا سروکار۔‘‘
زنان خانے سے نکل مردان خانے میں آئے۔ڈیوڑھی میں قدم رکھا تو دیکھا گھر کے سامنے بھیڑ جمع ہے۔چچا کو توقع نہ تھی کہ اتنی جلدی موقع پر جا پہنچیں گے۔کُچھ گھبرائے۔آگے بڑھنے کے لئے ابھی تیّار نہ تھے،واپس ہٹنے کو جی نہ چاہتا تھا۔چنانچہ آپ نے جلدی سے دیّا گُل کرکے ڈیوڑھی کا دروازہ بھیڑ دیا اور دیر تک درز سے آنکھ لگائے صورت حال ملاحظہ فرماتے رہے۔
معلوم ہوا جھگڑا دو ہمسایوں کے درمیان ہے جو سامنے کے مکان میں رہتے ہیں،ایک اوپر کی منزل میں،دوسرا نیچے کی منزل میں۔ہاتھاپائی تک نوبت پہنچ گئی تھی لیکن لوگوں نے اب دونوں کو الگ الگ کر کے سنبھال رکھا ہے اور میر باقر علی انہیں سمجھا بجھا کرتقریباً ٹھنڈا کر چکے ہیں۔
چچا سے رہا نہ گیا۔یہ بات انہیں کیوں کر گوارا ہو سکتی تھی کہ ان کے ہوتے ساتے محلے کا کوئی اور شخص اس قسم کے قصوں میں پنچ بن بیٹھے،چنانچہ آپ تہمد کس بنیان نیچے کھینچ دروازہ کھول باہر کھڑے ہوئے اور سرپرستانہ انداز میں بولے۔’’ارے بھئی کیا واقعہ ہو گیا؟‘‘
میر باقر علی نے کہا’’اجی کچھ نہیں۔یوں ہی ذرا سی بات پران خان صاحب اور مولوی صاحب میں جھگڑا ہو گیا تھا،میں نے سمجھا دیا ہے دونوں کو۔‘‘
وہ تو سمجھ گئے مگر چچا بھلا کہاں سمجھتے تھے،موقع پر جا پہنچے،بولے’’مگر کیا بات ہوئی؟یہ تو کچھ ایسا نظر آتا ہے جیسے خدا نخواستہ فوجداری تک نوبت پہنچ گئی تھی۔‘‘
میر باقر علی نے ٹالنا چاہا۔’’اجی اب خاک ڈالئے اس قصے پر،جو ہونا تھا ہو گیا۔ہمسایوں میں دن رات کا ساتھ،کبھی کبھار شکایت پیدا ہو ہی جاتی ہے۔
اب بھی چچا کی تسکین نہ ہوئی،بولے’’پر زیادتی آخر کس کی طرف سے ہوئی؟‘‘
خاں صاحب بولے۔’’پوچھئے ان مولوی صاحب سے جوبڑے متقی بنے پھرتے ہیں۔ڈاڑھی تو بالشت بھر بڑھا رکھی ہے لیکن حرکتیں رذیلوں کی سی ہوں توڈاڑھی سے کیا فائدہ؟‘‘
چچا چونک کر بولے۔’’اوہو یہ قصہ تو ٹیڑھا معلوم ہوتا ہے!‘‘
اب مولوی صاحب کیسے چپ رہ سکتے تھے،بولے’’صاحب ان کو کوئی چپ کرائے۔میں بڑی دیر سے طرح دیے جا رہا ہوں اور یہ جو منہ میں آئے بکے چلے جاتے ہیں۔اس کا نتیجہ ان کے حق میں اچھا نہ ہوگا۔‘‘
خان صاحب کڑک کر بولے۔’’ابے جا،چار بھلے آدمی بیچ میں پڑ گئے جو میں رک گیا،نہیں تو نتیجہ تو آج ایسا بتاتا کہ چھٹی کا دودھ یادآجاتا۔‘‘
مولوی صاحب نے تن کر فرمایا۔’’طاقت کے گھمنڈ میں نہ رہناخان صاحب! انگریز کا راج ہے،جی ہاں،اور یہاں بھی کوئی ایسے ویسے نہیں ہیں۔ہم بھی ایسے ہتھیاروں پر اتر آئے تو یاد رکھیے ورنہ،جی ہاں۔‘‘
خان صاحب بے قابو ہو گئے۔مکا تان کر آگے بڑھا چاہتے تھے کہ لوگوں نے بیچ بچاؤ کرکے روک لیا۔مولوی صاحب آستینیں چڑھاتے چڑھاتے رہ گئے،باقرعلی صاحب نے پریشان ہو کر چچا چھکّن سے کہا۔’’دونوں کے دونوں اچھے خاصے سمجھ گئے تھے۔آپ نے پھر دونوں کو بھڑا دیا۔‘‘
چچا بولے۔’’لاحول ولا قوۃ۔کہنے لگے کہ آپ نے بھڑا دیا۔اجی حضرت میں تو صرف اتنا پوچھ رہا تھا کہ قصور کس کا ہے۔آپ جو بڑے پنچ بن کر گھر سے نکل کھڑے ہوئے تو اتنا معلوم کر لیا ہوتا کہ زیادتی کس کی ہے اور اصل واقعہ کیا ہے؟‘‘
باقر علی نے پھر بات ٹالنی چاہی۔’’اجی کہاں اب سرِراہ قصہ سنیے گا،جانے دیجیے،جو ہوا سو ہوا،میں تو ان دونوں کی شرافت کی داد دیتا ہوں کہ جو ہم نے کہا،انہوں نے مان لیا،بات رفت گزشت ہوئی،اب آپ کیا گڑے مردے اکھیڑنے آگئے۔‘‘
چچا نے دیکھا،میر باقر علی چھائے چلے جا رہے ہیں،آگ ہی تو لگ گئی لیکن سنبھل کر بولے۔’’صاحبِ من آپ کو اس محلے میں آئے ابھی عرصہ ہی کتنا ہوا۔کَے آمدی و کَے پیرشدی اور ہماری تو نال اسی محلے میں گڑی ہوئی ہے۔اب آپ جانے دیجئے نا اس بات کو،بازی بازی باریش بابا ہم بازی؟اور سرِراہ کا کیا ہے،یہ جھگڑا ہم تک آج نہ پہنچتا کل پہنچ جاتا۔سو اب بھی کیا مضائقہ ہے۔سامنے ہی تو غریب خانہ ہے،اندر چل بیٹھیں،دو منٹ میں قصہ طے ہوا جاتا ہے۔مجھے تویہ ہر گز گورا نہیں کہ جس محلے میں سبھی رہتے ہوں وہاں ہمسایوں میں سر بازار جوتی پیزار ہوا کرے۔‘‘
یہ کہہ کر چچا نے داد طلب نگاہوں سے مجمع کو دیکھا۔بولے ’’کیوں صاحب!خدا لگتی کہیے،یہ بھلا کوئی شرافت ہے؟‘‘
مجمع میں سے تائید کی بھن بھناہٹ سی سنائی دی۔میرصاحب خاموش ہو کے رہ گئے۔چچا بولے’’تو آپ دونوں صاحب اندرتشریف لے آئیے نا۔اور میر صاحب اگر چاہیں تو میر صاحب بھی آسکتے ہیں۔‘‘باقی لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا۔’’آپ لوگ جا سکتے ہیں،یہاں کوئی بھانڈ تو ناچیں گے نہیں جو آپ کو مدعو کروں۔آپس کے جھگڑے طے کرانا مغز پاشی کا کام ہے،آپ لوگ اپنے گھر جا کر آرام کیجیے۔‘‘
لیجیے صاحب چچا قاضی القضاۃ بن گئے،مدعی اور مدعا علیہ میر صاحب کو ساتھ لیے گھر میں آئے۔گھر پہنچ کر پہلے مردانے ہی سے فرامین کی ایک فہرست صادر ہوئی کہ بُندو لیمپ لائے،اور مُودا برف کا پانی بنائے،اور امامی حقہ تازہ کرکے پہنچائے۔اور بندو لیمپ لا چکنے کے بعد خاصدان لے کر آئے،اور مودا پانی لا چکنے کے بعد اُگالدان لا کر رکھے،اور امامی حقے سے فراغت پا کر پنکھا جھلے۔
سب کو دیوان خانے میں بٹھایا،خود یہ کہہ کر اندر گئے کہ میں ابھی حاضر ہوا۔اندر جا کر بنیان پر چکن کا کرتہ پہنا۔پہن ہی رہے تھے کہ چچی نے جلدی جلدی رکعت ختم کرکے سلام پھیر کے پوچھا۔’’کیا بات ہے؟‘‘
چچا بے پروائی کے انداز میں بولے۔’’عجب حالت ہے لوگوں کی،نہ دن کو چین لینے دیتے ہیں نہ رات کو۔ان سامنے والے خان صاحب اور مولوی صاحب کا جھگڑا ہو گیا۔مصیبت میں میری جان پڑگئی۔سب مُصِر ہیں کہ آپ بیچ میں پڑ کے فیصلہ کرا دیجیے۔بات ٹالی بھی نہیں جا سکتی،محلے کا معاملہ ٹھہرا۔بہرحال برسر اولاد آدم ہر چہ آید بگزرد۔تو تم نماز سے فارغ ہو کر پان کے کچھ ٹکڑے لگا کے بھیج دینا۔‘‘
چچی جل کر بولیں۔’’یہ شوق بھی پورا کر لیجیے۔‘‘
چچا کرتے کے بٹن لگاتے ہوئے باہر نکلے،دیوان خانے میں پہنچ کر آرام کرسی پر دراز ہو گئے،ٹانگیں سمیٹ کر اوپر دھر لیں۔بولے’’میں حاضر ہوں،فرمائیے کیا بات ہوئی؟سارا واقعہ بیان کیجیے۔لیکن مختصر طور پر۔‘‘
مولوی صاحب اور خان صاحب دونوں کی تیوری چڑھی ہوئی تھی،منہ پھلائے لال لال آنکھوں سے ایک اِس طرف ایک اُ س طرف تک رہا تھا۔چچا کا تقاضا سن کردونوں کے دونوں کچھ کسمسائے مگر چپ کے بیٹھے رہے۔میر صاحب نے مُہر سکوت توڑی۔’’حضرت بات تو اصل میں بڑی معمولی تھی۔‘‘
چچا نے کہا۔’’آپ تمہید کو جانے دیجیے،مطلب کی بات کہیے۔‘‘
میر صاحب نے غصے کو پی کر کہا۔’’تو اور کیاکہوں۔بات حقیقت میں نہایت معمولی ہے،لیکن ۔۔۔‘‘
خان صاحب سے ضبط نہ ہو سکا۔’’کوئی آپ کی بہو بیٹیوں کو یوں دیکھتا اور آپ اسے معمولی بات کہتے تو جانتا۔‘‘
چچا کرسی پر اکڑوں بیٹھ گئے۔’’مستورات کا واقعہ ہے تو واقعی حضرت اسے معمولی بات کہنا تو بڑی زیادتی ہے آپ کی۔خان صاحب آپ خود ہی جو واقعہ ہے بیان کیجیے۔‘‘
باقر علی صاحب خاموش ہو گئے۔خان صاحب کی حوصلہ افزائی ہوئی۔بولے۔’’آپ سا منصف مزاج بزرگ پوچھے گا تو بیان کروں گا ہی،آپ سے کیا پردہ ہے۔‘‘
چچا پھول گئے۔کچھ کہنا ضروری معلوم ہوا۔’’نہیں نہیں کوئی بات نہیں۔آپ بلا تکلف کہئے۔‘‘
خان صاحب نے کہا۔’’آپ کو علم ہی ہے کہ اس سامنے کے مکان کی نچلی منزل میں ہم رہتے ہیں اور اوپر کی منزل میں ایک کھڑکی ہے جس سے ہمارے مکان کے صحن میں نظر پڑتی ہے۔‘‘
چچا نے با ت کاٹ کر فرمایا۔’’جی ہاں جی ہاں،میری دیکھی ہوئی کیا،میرے سامنے بنی اوراس ایک کھڑکی کا کیا ذکر،اس سارے مکان کی تعمیر میں میرا بہت کچھ دخل رہا۔مالک مکان فضل الرحمن خان کے مجھ سے مراسم تھے۔حیدر آباد جانے سے پہلے ہر روز شام کو ملنے آتے تھے اور سچ پوچھئے اُنہیں یہ مشورہ بھی میں نے ہی دیا تھا کہ خالی زمین پڑی ہے اور کوڑیوں کے مول بک رہی ہے۔تو کچھ ایسی صورت کرنی چاہئے کہ کرائے کی ایک سبیل نکل آئے۔تو انہوں نے یہ گویا مکان بنایا۔خیر یہ تو جملۂ معترضہ تھا،آپ بات کہئے۔‘‘
خان صاحب نے سوچا کہ بات کہاں تک کی تھی۔بولے’’جی تو اوپرکی منزل میں ایک کھڑکی ہے کہ اس سے ہمارے ہاں کے صحن میں نظر پڑتی ہے۔ہم اس مکان میں پہلے سے رہتے ہیں۔یہ حضرت بعد میں آئے۔آتے ہی ہم نے ان سے کہہ دیا کہ مولوی صاحب اس کھڑکی میں اگر آپ تالا ڈلوا دیں تو مناسب ہے۔ورنہ عورتوں کاسامناہوا کرے گااور مفت میں کوئی نہ کوئی قصہ کھڑا ہو جائے گا۔‘‘
چچا نے داددی۔’’بہت مناسب کارروائی کی آپ نے۔قانونی نقطۂ نظر سے گویا آپ نے ایک ایسی پیش بندی کر لی کہ بعد میں اگر کسی قسم کی بھی شکایت پیدا ہوتو آپ کو گرفت کا جائز موقع ملے۔بہت ٹھیک۔جی تو پھر؟‘‘
خان صاحب دادسے بہت مسرور ہوئے۔’’خدا حضور کا بھلا کرے۔میں نے سوچا نئے آدمی ہیں۔کیوں نہ پہلے ہی سے خبر دار کر دوں۔سو صاحب انہوں نے بھی مجھے یقین دلایا کہ کھڑکی میں تالا ڈال دیا گیا ہے۔اور میں بے فکر ہو گیا۔اب جناب آج صبح کو کیا ہوا۔کہ۔۔۔‘‘
’’یہ لیجئے۔ٹھنڈا پانی پیجئے۔آپ بھی لیجئے مولوی صاحب۔پانی دے بے میر صاحب کو۔۔۔جی تو آج صبح ۔۔۔ابے رکھ دے میز پر خاصدان،سرپر کیوں سوار ہو گیا ہے۔اور وہ امامی کہاں مر رہا ہے؟ابھی تک حقہ نہیں بھرا گیا؟جی صاحب آپ کہے جائیے۔میں سن رہا ہوں۔ہاں اور وہ اگالدان؟کہہ بھی دیا تھا،پھر بھی یاد نہیں رہا۔بڑے نالائق ہو تم لوگ۔آپ فرمائیے نا خان صاحب؟‘‘
خان صاحب نے کچھ دیر سکوت کا انتظار کیا،آخر بولے۔’’جی تو آج صبح میں ادھر دکان پر روانہ ہوا ،ادھر اوپر کی منزل میں ایک بچے نے کھڑکی کھول دی۔عورتیں صحن میں بیٹھی تھیں،انہوں نے کھڑکی بند کرنے کو کہا تو یہ حضرت خود کھڑکی میں آن موجود ہوئے اور بدیں ریش و فش عورتوں کو دیکھنے لگے۔اب آپ ہی فرمائیے کہ یہ شریفوں اور مولویوں کی سی باتیں ہیںیالچوں اور شہدوں کی سی حرکتیں؟‘‘
چچا نے عالم استعجاب میں آنکھیں کھولیں،گردن جھکا لی۔اور پھر ایک حاکمانہ انداز میں سر پھیر کر مولوی صاحب کی طرف دیکھا،بولے۔’’مولوی صاحب یہ تو آپ نے ایسی نا مناسب اور خلاف شرع حرکت کی جس پر آپ کو جس قدر الزام دیا جائے بجا ہے۔‘‘
مولوی صاحب دیر سے خاموش بیٹھے دیکھ رہے تھے کہ چچا ہمدردانہ انداز سے خان صاحب کی گفتگو سن رہے ہیں۔اب چچا نے انہیں مخاطب کیا تو وہ بھڑک اٹھے ۔’’سبحان اللہ!آپ بھی عجب سادہ لوح شخص ہیں۔جو کچھ کسی نے افترا باندھا،جھٹ اس پر ایمان لے آئے۔واہ صاحب واہ!‘‘
چچا کویہ انداز کلام کسی قدر ناگوار گزرا۔’’تو آپ کو یہ خیال ہے کہ میں خان صاحب کی ناجائز حمایت کر رہا ہوں؟‘‘
مولوی صاحب بولے۔’’ناجائز حمایت تو ہے ہی۔آپ پہلے میری عرض بھی تو سنیے کہ میں کیا کہتا ہوں۔‘‘
چچا بے ضابطگی کا الزام سن کر چڑ گیے۔بولے۔’’تو بیان کیجیے کہ آپ کیا عرض کرنا چاہتے ہیں۔مگر عرض ہو ،طول نہ ہو،مجھے اختصار بہت مرغوب ہے۔‘‘
مولوی صاحب بولے۔’’جی میں بہت مختصر طور پر سب کچھ عرض کیے دیتا ہوں ۔ہم نے مکان میں آتے ہی کھڑکی میں تالا ڈال دیاتھا۔چنانچہ آج تک کبھی کوئی وجۂ شکایت پیدا نہیں ہوئی۔آج اتفاقیہ بچے کے ہاتھ چابی لگ گئی اور اس نے کھڑکی کھول دی۔اور کھڑکی میں کھڑا ہو کر ان کے بچوں کو آوازیں دینے لگا۔میں نے جب۔۔۔‘‘
لیکن بیان ختم ہونے سے پہلے ہی چچا نے جرح شروع کر دی۔’’تو آپ کا بیان یہ ہے کہ آوازیں دینے کے لیے کھڑکی کا تالا کھولا تھا محض آوازیں دینے کی لیے محض؟خوب۔اس کے لیے بھلا کھڑکی کھولنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘
مولوی صاحب بولے۔’’آخر بچہ ہی تو تھا۔اسے بھلا نیک و بد کی کیا تمیز۔اسے تھوڑا ہی معلوم تھا کہ صاحب یہ تالا نہ کھولنا چاہیے اوروہ کھڑکی بند رہنی چاہیے۔چابی مل گئی تھی،تالے پر نظر پڑی،کھول ڈالا۔‘‘
چچا ہونٹ سکوڑ سکوڑ کر اور آنکھ میچ کر منہ سر ہلاتے رہے گویا مولوی صاحب کے اس جواب میں بھی انہیں ایسے ایسے معانی نظر آرہے ہیں جودوسروں کے فہم سے بالا تر ہیں۔
مولوی صاحب نے اپنا بیان جاری رکھا۔’’میں نے کھڑکی جو کھلی دیکھی تو فوراً بند کرنے کو لپکا اور کواڑ بند کرکے اسی وقت تالا لگا دیا۔‘‘
چچا نے پھر ٹوکا۔’’کیوں حضرت یہ آپ کے گھر میں تالا کھولنا تو بچوں کو بھی آتا ہے مگر بندکرنا آپ کے سوا کسی کو نہیں آتا؟خوب!‘‘
میر باقر علی صاحب بولے۔’’حضرت یہ ایک اضطراری حرکت تھی جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں اس کھڑکی کے بند رکھنے کا ہر وقت خیال رہتا تھا کھلی دیکھی تو یکلخت بند کرنے کو لپکے۔‘‘
مولوی صاحب نے مزید صفائی کے خیال سے کہا۔’’خدا شاہد ہے جومجھے یہ گمان بھی گزرا ہو کہ صحن میں مستورات موجود ہوں گی، یا میں نے اس طرف نظر بھی ڈالی ہو۔یہ سراسر بہتان ہے کہ میں کھڑا رہا بلکہ میں نے تو بعد میں نیچے کہلا بھی بھیجا کہ مجھے بڑا افسوس ہے کہ بچے نے کھڑکی کھول دی تھی۔‘‘
میر صاحب نے مولوی صاحب کے چال چلن کے متعلق شہادت دی۔’’مولوی صاحب جب سے یہاں آئے ہیں میں انہیں جانتا ہوں۔میرے بچوں کو پڑھاتے ہیں،روز کا آناجانا ہے اور میں وثوق سے کہتا ہوں کہ یہ اس قسم کے آدمی نہیں،چنانچہ میں نے خان صاحب سے بھی یہی کہا تھا کہ مستورات کو غلط فہمی ہو گئی ہوگی ورنہ مولوی صاحب سے کسی برے خیا ل کی توقع نہیں ہو سکتی۔‘‘
لیکن چچا بھلا کسی دوسرے کی رائے کو کب خاطر میں لاتے ہیں۔بولے’’دلوں کا حال خدا وند عالم بہتر جانتا ہے اور اس کے متعلق کچھ کہنے کی جرأت کرنا میری رائے میں کفر ہے۔بہر حال ابھی سب کچھ کھلا جاتا ہے۔تو جناب اتوار کے روز آپ گھر ہی میں رہتے ہیں؟بجا۔۔۔تو سوال یہ ہے کہ اگر کھڑکی کھلنی تھی تو اتوار ہی کے روز کیوں کھلی جب آپ گھر میں موجود تھے؟کسی اور دن کیوں نہ کھلی؟‘‘
یہ کہہ کر چچا نے نتھنے پھلا کر فاتحانہ انداز سے باری باری سب پر یوں نظر ڈالی گویا کوئی بڑا اہم نکتہ نکال کر مولوی صاحب کو لا جواب کر دیا ہے۔
مولوی صاحب اس استدلال سے پریشان سے ہو گئے تھے۔بولے’’حضرت!اس بات کی اہمیت کچھ واضح طورپر میری سمجھ میں نہیں آئی۔باقی واقعہ یہ ہے کہ کھڑکی کی چابی گچھے میں ہے،گچھا میرے پاس رہتا ہے جب میں گھر پر ہوں گا تبھی گچھا گھر پر ہوگا اور اسی وقت کھڑکی کھلنے کا امکان بھی ہے۔‘‘
چچا کو اس جواب کی توقع نہ تھی ۔سر پیچھے کو ڈال کرسی پر لیٹ گئے اور بولے۔’’اب یہ آپ کی کج بحثی ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اس با ت کا جواب آپ کے پاس کچھ نہیں۔‘‘
مولوی صاحب نے نامعلوم دانستہ یا نادانستہ چچا کو تھوڑا ساروغنِ قاز ملا۔بولے’’صاحب جو اصل واقعہ تھا وہ تو میں نے عرض کر دیا اب آپ اپنی علمیت اور قابلیت سے جو نکتہ چاہیں نکال سکتے ہیں اور مجھ سے جاہل کی کیا بساط کہ بحث میں آپ سے پیش چل سکے۔‘‘
چچا خوش ہو گئے۔مولوی صاحب کے خلاف جو جذبہ اندرہی اندر کام کر رہا تھاٹھنڈا پڑ گیا۔ایسے انداز میں ہنس پڑے گویا دانستہ محض تفریح کی غرض سے منطق کے شعبدے دکھا رہے تھے۔مسکرا کر بولے۔’’معلوم ہوتا ہے آپ کو بھی منطق سے دل چسپی ہے۔۔۔لے آیا بے حقہ؟رکھ دے ادھر،اچھا اُدھر ہی رکھ دے۔لیجیے مولوی صاحب!نہ نہ لیجیے نا،ذرا تمباکو ملاحظہ فرمائیے گا،براہِ راست مرادآباد سے منگواتا ہوں ورنہ یہاں کا تمباکو توآپ جانئے نرا گوبر ہوتا ہے۔مراد آباد میں ایک عزیز ہیں،کلکٹری میں پیش کار ہیں مگر صاحب ان کے رسوخ کا کیا کہنا کبھی کبھار یاد کر لیتے ہیں۔‘‘
مولوی صاحب نے حقے کے کش لگانے شروع کیے۔خان صاحب نے دیکھا کہ چچا تو مولوی صاحب پر ریشہ خطمی ہوئے جا رہے ہیں ،غصے سے لال پیلے ہو گئے۔بولے۔ ’’جس بات کے لیے آپ نے ہمیں بلایا تھا ۔وہ تو ۔۔۔‘‘
چچا نے بات کاٹ کر کہا۔’’جی ہاں دیکھئے،میں عرض کرتا ہوں۔تو جناب من باقی رہا اس جھگڑے کا قصہ ،توخان صاحب میری ذاتی رائے پوچھئے تو تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجا کرتی۔دنیا میں آج تک جتنے بھی جھگڑے ہوئے،ہمیشہ ان کا تعلق فریقین سے رہا ہے۔‘‘
خان صاحب نے بے اختیار پوچھا ۔’’اس جھگڑے میں میرا کیا قصور تھا؟‘‘
چچا نے جواب دیا۔’’ارے بھائی کچھ نہ کچھ ہوتا ہی ہے نا۔تمہارا نہ سہی تمہارے گھر والوں کا سہی مثلاً اب بھلا انہیں اس وقت صحن میں بیٹھنے کی کیا ضرورت تھی؟کوئی وہاں باغ تو لگا ہوا نہیں۔آپ کہیں گے کہ وہ آپ کے گھر کا صحن تھا۔ ذرا دیر کو مان لیا کہ تھا مگر پھر اوپر کھڑکی کی طرف دیکھنا کیا ضرور تھا؟ویسے میرا کوئی برا مقصد نہیں،تاہم دیکھئے نا کہ بات کو بڑھایا جائے تو کچھ کی کچھ ہو جاتی ہے۔مطلب میر ایہ ہے کہ ایسے معاملوں میں تو جتنا چھانو اتنی ہی کر نکلتی ہے۔‘‘
میر صاحب اس کارروائی سے تنگ آچکے تھے ۔بولے۔’’اجی اب قصور ایک کا تھا یا دونوں کا،اس بحث سے آخر کیا حاصل۔آپ اس قصے کو کسی ایسی طرح چکائیے کہ آئندہ ان دونوں صاحبوں کا اطمینان ہو جائے۔میں نے تو یہ تجویز کیا تھا کہ آئندہ کی اطمینان کی غرض سے مولوی صاحب کی کھڑکی میں خان صاحب اپنا تالا ڈال دیں۔‘‘
چچا صاحب نے کن اکھیوں سے میر صاحب کی طرف دیکھ کر پوچھا۔’’کیا مراد؟‘‘
میر صاحب نے کہا’’مراد یہ ہے کہ مولوی صاحب کے مکان کی وہ کھڑکی مقفل رہے اور اس کی چابی اطمینان کی غرض سے خان صاحب اپنے پاس رکھیں۔‘‘
تجویز چچا کو معقول معلوم ہوئی لیکن چونکہ میر صاحب کی طرف سے پیش ہوئی تھی اس لئے قبول کرنے کو دل نہ چاہا۔بولے۔’’نہیں نہیں نہیں نہیں۔یہ تو کچھ۔۔۔اوہوں۔۔۔کچھ نہیں۔کچھ نہیں۔اس طرح تو۔۔۔یعنی خواہ مخواہ خان صاحب اپنا ایک تالا بیکار کر ڈالیں۔اور اپنے گھر میں کسی دوسرے کا ایسا دخل کسی غیرت مند کو کب گوارا ہو سکتاہے؟یہ تالا والا کچھ نہیں،کوئی اور تجویز ہونی چاہیے،کوئی معقول تجویزجو طرفین کے لیے فائدہ مند بھی ہو اور اطمینان کا باعث بھی ہو۔کیوں صاحب!اگر کھڑکی چنوا دی جائے تو کیسا ہے؟‘‘
خان صاحب بولے۔’’اول تو مالک مکان اب یہاں ہے نہیں اور اگر اسے لکھا بھی جائے تو وہ اسے منظور نہ کرے گا۔میں نے ایک مرتبہ کی تھی یہ تجویز پیش، وہ کہنے لگے کہ اس کھڑکی کے بند ہونے سے کمرہ تاریک ہو جائے گا۔‘‘
چچا نے کہا۔’’یہ دوسری بات ہے ورنہ تجویز خوب تھی۔اپنا ہمیشہ کے لیے یہ قصہ ختم ہو جاتا۔مثلاً آپ دونوں کے چلے جانے کے بعد کوئی اور دو کرائے دار آکر آباد ہوتے تو ان میں کسی قسم کی بد مزگی کا امکان نہ رہتا۔آیا نا خیال شریف میں؟مگر یہ کمرے میں اندھیرا ہو جانے کا سوال بے شک ٹیڑھا ہے۔خیر نہ سہی یوں،کسی اور ترکیب سے کام لے لیجئے۔ترکیبیں بہت،بے حد و شمار،مجھے تو صرف آپ لوگوں کی سہولت کا خیال ہے،ورنہ میں تو تجویزوں کا انبار لگا دوں پریشان کر دوں آپ کو۔بڑے بڑے قصے چکائے ہیں۔اس ایک کھڑکی بے چاری کی کیا حقیقت ہے۔تو یوں کیوں نہ کیجیے ،مثلاً آپ دونوں میں سے ایک صاحب مکان خالی کر دیں اور کسی دوسری جگہ جا رہیں۔کیوں صاحب کیارائے ہے؟‘‘
خان صاحب اور مولوی صاحب پہلے کچھ منہ ہی منہ میں بولے ،پھر خان صاحب نے کہا۔’’صاحب میں تو مکان چھوڑ نہیں سکتا،کہاں نیا مکان تلاش کرتا پھروں؟‘‘
مولوی صاحب نے بھی معذوری ظاہر کی۔’’حضرت میرے لیے تویہ فل الحال نا ممکن ہے،اتنے کرائے میں اس قدر گنجائش بھلا اور کہاں ملے گی!‘‘
چچاکی بے حد و حساب تجویزوں کا ذخیرہ اس پہلی ہی تجویز کے بعد ختم ہو چکا تھا۔’’اب یوں آپ ہر تجویز میں مین میخ نکالنے لگے تو طے ہو چکا آپ کا جھگڑا یعنی مکان بدلنے میں آخر قباحت ہی کیا ہے؟سیدھی سی بات ہے بھئی نہیں نبھتی الگ ہو جاؤ،نہ رہے بانس نہ بجے بنسری۔کیا آپ کے خیال میں اس مکان کے سوا شہر بھر میں اور معقول مکان نہیں؟یا اور مکان بال بچے دار لوگوں کے رہنے کے لئے نہیں بنوائے گئے؟انکار کی کوئی وجہ بھی تو ہونی چاہیے، اس سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ آپ لوگ صلح صفائی پر آمادہ نہیں اور چاہتے ہیں کہ روز اسی قسم کے قصے کھڑے ہوا کریں۔ایسی حالت میں میرا کوئی تجویز پیش کرنا دشوار ہے،آپ خود آپس میں نمٹ لیجئے۔‘‘
میر صاحب بے چارے پریشانی کے عالم میں یہ باتیں سن رہے تھے اور کرسی پر بار بار پہلو بدلتے تھے آخر نہ رہاگیا ،ہمت کر کے بولے۔’’میں نے تو عرض کیا نا کہ دونوں کے لیے بہترین ترکیب وہی ہے کہ کھڑکی میں تالا لگا رہے اور اس کی چابی ۔۔۔‘‘
چچاجل گئے’’اجی آپ کیا ایک واہیات سی بات کو چمٹ گئے ہیں اور بار بار پیش کئے جا رہے ہیں۔چابی تالا،چابی تالا یعنی آپ نے تو کچھ ایسا سمجھ رکھا ہے جیسے ایک تالے کی دوسری کنجی بنوائی ہی نہیں جا سکتی۔‘‘
میر صاحب نے بھی جل کر جواب دیا۔’’پھر یوں تو دیوار کی اینٹیں نکال کر بھی جھانکا جا سکتاہے۔‘‘
بات چچا کی سمجھ میں نہ آئی ۔بولے۔’’تبھی تو کہا تھا کہ ایک صاحب نقل مکان کر لیں۔نا مانیں تو اس کا کیا علاج ۔اچھی بات ہے،وہ ان کی عورتوں کو دیکھاکریں ،یہ ان کی عورتوں کو تاکا کریں ۔‘‘
خان صاحب تاؤ کھا گئے،بگڑ کر بولے۔’’دیکھئے صاحب منہ سنبھال کر بات کیجئے عورتوں کا نام یوں ہی نہیں لیا جاتا،یہ ناموس کا معاملہ ہے،ہم غریب سہی مگر نکٹے نہیں۔‘‘
چچا کچھ کسمسائے،میر صاحب گھبرائے،مولوی صاحب اٹھ کھڑے ہوئے،بولے۔’’تو میں اب اجازت چاہتا ہوں،گھر پربال بچے پریشان ہو رہے ہوں گے۔جب کوئی بات طے ہو چکے تو مجھے اطلاع دے دیجیے گا۔‘‘
خان صاحب نے اٹھ کر انکاہاتھ پکڑ لیا۔’’تمہارے بال بچے ہیں،ہمارے بال بچے نہیں؟پہلے فیصلہ ہو جائے پھر جانے دوں گا۔‘‘
مولوی صاحب نے ہاتھ چھڑانا چاہامگر خان صاحب کی گرفت مضبوط تھی،بولے۔’’تو اپنا تالا لاؤ اور کھڑکی میں ڈال دو۔‘‘
خان صاحب بولے۔’’تالا تم دو،چابی میرے پاس رہے گی۔‘‘
چچا کوتو یہ تجویز شروع ہی سے نا مرغوب تھی،بولے’’تالا یہ کیوں دیں؟بے پردگی تمہاری عورتوں کی ہوتی ہے یا ان کی؟‘‘
چچا کی تائید سے مولوی صاحب کو بھی حوصلہ ہوا،بولے۔’’دیکھئے تو سہی۔‘‘
خان صاحب کو آگ لگ گئی۔بڑھ کر مولوی صاحب کی گردن میں ہاتھ ڈالا۔مولوی صاحب کے گلے سے ایک اس قسم کی آواز نکلی جیسے ذبح ہوتے ہوئے بکرے کے گلے سے نکلتی ہے۔
میر صاحب’’ہائیں ہائیں‘‘کرتے لپک کر اٹھے۔
چچا بولے۔’’یہ ہاتھا پائی ٹھیک نہیں۔‘‘
خان صاحب نے میر صاحب کو دھکیلا تو وہ لڑکھڑاتے ہوئے دیوار سے جا لگے۔
چچا نے ہاتھ پکڑنا چاہا تو ایک زناٹے کا تھپڑ انہیں بھی رسید کیا۔
میر صاحب تو چپکے کھڑے رہ گئے۔چچا دو قدم پیچھے ہٹ کر بولے۔’’ہائی یو!‘‘
لیکن خان صاحب کس کی سنتے ہیں،مولوی صاحب کو گردن سے پکڑ کر دھکیلتے ہوئے باہر نکل گئے۔
میر صاحب آوازیں سنتے ہی پھر باہر کو لپکے۔
چچا چپ چاپ جہاں تھے،وہیں کے وہیں کھڑے گال سہلاتے رہے۔
کھڑے ہی تھے کہ پردہ اٹھا،چچی اندر آگئیں غصے کے مارے چہرہ تمتما رہا تھا،بولیں۔’’میں نہ کہتی تھی کہ پرائے قصے میں دخل نہ دینا مگر میری بات اس کان سن اس کان اڑا دی۔ اب آیا ہوگا جھگڑا چکانے کا مزہ۔دوکوڑی کا شخص بے آبرو کر گیا۔‘‘
چچا اس کے لئے تیار نہ تھے،بے قابو ہو گئے،’’دیکھو اس وقت منہ سے بات نہ کرو،ورنہ خدا جانے میں کیا کر بیٹھوں گا۔‘‘
چچی جل کر بولیں۔’’اب اور کیا کروگے،گھر کی عزت خاک میں ملا دی،محلے میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا،ابھی کچھ اور کرنے کے ارمان باقی ہیں؟‘‘
چچا سے جواب بن نہ پڑا ،’’عزت تھی تو ہماری تھی ،تمہاری نہ تھی ، تمہیں کیا؟‘‘
چچی بولیں۔’’یہ عمر ہونے کو آئی،بچوں کے باپ بن گئے اور بے عزت ہوتے شرم نہیں آتی۔‘‘
اس کے جواب میں چچا نے گھر اور بچوں کے متعلق اس قسم کے نا مبارک الفاظ دہن مبارک سے نکالے جنہیں بیان کرنے سے میں قاصر ہوں۔غرض یہ کہ محلے کے جھگڑے کی آواز گھر میں آ رہی تھی اور گھر کے جھگڑے کی آواز محلے میں پہنچ رہی تھی۔ما بخیرشما بسلامت۔