حافظ جی
سعید لخت
۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دن جب ہم نے بی پڑوسن کا گھڑا غُلّا مار کر توڑ دیا تو بڑی گڑ بڑ مچی۔ابا جان شام کو گھر آئے تو امی بولیں ’’اے ،میں نے کہا سنتے ہو؟اپنے لاڈلے کے لچھن تو دیکھو ۔اس نے تو سارا محلہ سر پر اٹھا رکھا ہے‘‘
ابا جان بولے ’’لاحول ولا قوّۃ ۔حد کر دی ۔اتنا سا بچہ محلہ کیسے اٹھا سکتا ہے ‘‘
امی بولیں ’’اے،تمہیں تو سوجھتا ہے مذاق۔میں کہتی ہوں ،اللہ رکھے اب یہ پانچ سال کا ہو گیا ہے ۔اب اس کی پڑھائی کا بھی توکچھ بندوبست کرو۔یہ کب تک یو نہی مارا ماراپھرتا پھرے گا؟‘‘آپا جان کوتو ہم سے خدا واسطے کا بیر تھا ۔سر پر ڈوپٹاٹھیک کرتے ہوئی بولیں ’’ابا جان،ایمان سے ،یہ بہت شیطان ہو گیا ہے ۔کل میں سہیلیوں سے بیٹھی باتیں کر رہی تھی کہ پیچھے سے آکر ایک دم میری پیٹھ پر چڑھ گیا اور چٹیا کھینچ کر بولا
’’چل،بھاٹی لوہاری دو آنے سواری۔‘‘
ہم چیخ کر بولے ’’جھوٹ۔ہم نے کب دو آنے کہا تھا ۔ہم نے تو تین آنے کہا تھا ۔‘‘
ابا جان ہنسی روک کر بولے ’’لا حو ل ولا قوۃ ۔یعنی حد کر دی ۔‘‘
امی نے ابا جان کی ناک کے سامنے انگلی نچائی اور بولیں ’’اے،حد نہیں کرے گا تو کیا کرے گا ؟آخر بیٹا کس کا ہے ؟‘‘
ابا جان سوچتے ہوئے بولے’’بیٹا کس کا ہے!………….لا حو ل ولا قوۃ ۔ارے بھئی ،بیٹا ہمارا ہے اور کس کا ہوتا ۔تم بھی حد کرتی ہو ۔‘‘
’’اے،تم تو حدیں کھودتے رہو گے اور بچے کا ستیا ناس ہو جائے گا ‘‘امی جان جھلا کر بولیں ’’میں کہتی ہوں اسے اسکول میں بھرتی کرا دو ۔ڈنڈے کھا کر آپ ٹھیک ہو جائے گا ۔‘‘
ابا جان چونک کر بولے ’’ایں! بھرتی کرا دوں ؟ یعنی اسکول نہ ہوا کوئی فوج پلٹن ہو گئی۔حد کر دی۔‘‘
’’خدایا میری توبہ !‘‘امی جان سر پکڑ کر بیٹھ گئیں ’’تم سے تو وہ بات کرے جو دس سیر گھی اور دو بوری بادام کھا کر آیا ہو ۔‘‘
اچھا بھئی ناراض مت ہو ‘‘ابا جان صلح کرتے ہوئے بولے ’’اسکول میں تو میں اسے داخل کرا دوں مگر تمہیں معلوم ہے وہ کتنی دور ہے۔اتنا سا بچہ اکیلا وہا ں تک کیسے جائے گا ؟…….ارے ہاں،یہ اپنے محلے کے حافظ جی کو تو ہم بھول ہی گئے ۔محلے کے بچے ان ہی کے پاس تو پڑھتے ہیں۔‘‘
اے لو۔میری سمجھ پر پتھر پڑیں ۔حافظ جی کا تو مجھے خیال آیا ہی نہیں ‘‘امی جان خوش ہو کر بولیں ’’بس بس،کل ہی چار آنے کی جلیبیاں لے جا کر اسے حافظ جی کے حوالے کر دو۔‘‘
چنانچہ صاحب ،خدا تمہارا بھلا کرے اور ساتھ میں ہمارا بھی ،صبح کو ابا جان چوّنی کی جلیبیاں لائے اور ہمیں حافظ جی کے سپرد کر آئے ۔
اللہ نے دنیا میں عجیب عجیب چیزیں پیدا کی ہیں ۔ان چیزوں میں ایک عجیب چیزحافظ جی بھی تھے۔دبلے پتلے چیچک سے بھرا چہرہ۔سر پر ترکی ٹوپی ۔لمبی سی ڈاڑھی ۔جب غصہ آتا تو ٹوپی کا پھندنا کھڑا ہو جاتا اور چہرہ لال بھبھو کا ہو جاتا ۔جنم کے اندھے تھے مگر آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے پتلیوں کے بجائے آنکھوں میں کانچ کی گولیاں رکھی ہیں ۔
حافظ جی حافظ بھی تھے اور قاری بھی ۔اس لیے حلق میں بولتے تھے ۔جب ابا جان چلے گئے تو انھوں نے ہمیں ادھر ادھر سے ٹٹول کردیکھا اور پھر بولے’’ کیا نام ہے تم عارا؟‘‘
ہم نے کہا ’’س س س سعید۔‘‘
بولے ’’اچھا۔چلو،قاعدہ کھولو۔‘‘
قاعدہ ہمیں ابا جان نے گھر میں پڑھا دیا تھا۔ہم نے فر فر سنا دیا۔حافظ جی بہت خوش ہوئے ۔بولے’’عرے تو تو بہت تیز ہے۔عیں۔‘‘
پہلا دن تو ساتھ خیریت کے گزر گیا لیکن دوسرے دن ہماری شامت آگئی ۔حافظ جی نے ہمیں الف لام میم کا پارہ شروع کروایا ۔بولے ’’پڑھو ،اعوذ باللہ۔‘‘
ہم نے کہا ’’اعوذ باللہ۔‘‘
بولے’’اَ اُو نہیں اَعُو۔عو۔عو۔عین کو حلق سے نکالو۔‘‘
ہم نے بہتیر ا زور لگایا مگر عین حلق سے نہیں نکلی۔اب تو حافظ جی بہت گر م ہوئے۔بایاں ہاتھ گھما کر ہماری گردن پر جو مارا تو ہم قلا بازی کھا کر دور جا گرے۔ حافظ جی نے ٹانگ پکڑ کر ہمیں کھینچ لیا اور کمر پر ایک زور سے دھموکا لگا کر بولے ’’ہاں ۔کہو اعو۔ عو۔عو۔‘‘
حافظ جی کو شایدکسی حکیم نے بتایا تھا کہ جب تک دو چار بچوں کو مارو گے نہیں تب تک تمہارا کھا نا ہضم نہ ہو گا ۔روزانہ کسی نہ کسی کی شامت آتی۔شروع کے ایک دو ہفتے ہم پر بہت سخت گزرے۔نئے نئے تھے۔کبھی مار کھائی نہ تھی۔مگر پھر ہم بھی چنٹ ہو گئے۔ہم نے اپنے بچاؤ کیلئے ایک ترکیب سوچ لی تھی۔جب حافظ جی ہمیں مارنے کو لپکتے تو ہم پاس بیٹھے کسی بچے کا ہاتھ پکڑ کر حافظ جی کے ہاتھ میں تھما دیتے ۔حافظ جی کو کچھ دکھائی تو دیتا نہیں تھا ۔وہ اس غریب کو ہی دھننا شروع کر دیتے۔
حافظ جی کو مرغا بنوانے کا بھی بہت شوق تھا۔مارتے مارتے تھک جاتے تو کہتے ’’چل،مرغا بن۔جب تک میں نہ کہوں ،کان نہ چھوڑنا۔‘‘بے چارہ بچہ ڈر کے مارے مرغا بن جاتا ۔ادھر وہ مرغا بنتا اور ادھر ہم اس کی پیٹھ پر سوار ہو جاتے ۔وہ درد کے مارے چیختا’’حافظ جی!ہائے،حافظ جی!‘‘حافظ جی کہتے ’’ہوں۔ اب چیختا ہے ۔سبق کیوں یاد نہیں کیا تھا ؟‘‘
صبح کو حافظ جی کا لڑکا انھیں مدرسہ چھوڑ جاتا۔مگر چھٹی کے بعد مدرسے کے بچے باری باری انھیں گھر پہنچانے جاتے۔جب ہما ری باری آتی تو بڑی گڑ بڑ ہوتی۔حافظ جی ایک ہاتھ ہمارے کاندھے پر رکھ لیتے۔ہمارے پیر تو زمین پر ہوتے اور آنکھیں آسمان پر ،جہاں رنگ بڑنگی پتنگیں اڑ رہی ہوتیں ۔راستے میں کوئی گڑھا یا نالی آتی تو سب سے پہلے اس میں ہم گرتے اور پھر حافظ جی بھی اللہ کا نام لے کر گر پڑتے۔
ہر بچہ حافظ جی کو مہینے میں چار آنے دیتا تھا ۔ہمارا گھرانا ذرا بڑا تھا ۔ہم آٹھ آنے دیتے تھے ۔اس کے علاوہ حافظ جی مہینے میں دو تین ختم بھی پڑھتے تھے ۔اس طرح انہیں آٹھ دس روپے ماہ وار کی آمدنی ہو جاتی تھی۔سستا سمے تھا ۔ ایک آنے کی چار روٹیاں ملتی تھی اور سالن مفت۔غریب غربا ء بھی لنگوٹی میں پھاگ کھیلتے تھے۔
ہمارے ابا جان نے ہمیں ختم میں جانے کو منع کر دیا تھا مگر توبہ کیجئے ۔جہاں مٹھائی کی بات ہو وہاں کون ایسا بچہ ہو گا جو نہ جائے ہم بھی بچوں کے پیچھے پیچھے ہو لیتے۔
اگر مرنے والا امیر ہوتا تو حافظ جی بہت دیر تک دعا مانگتے اور بچے بھی خوب زور زور سے آمین کہتے اور مردے کو جنت میں پہنچا کر ہی دم لیتے۔غریب ہوتا تو حافظ جی اُسے دو چار منٹ ہی میں ٹرخا دیتے اور بچے بھی بڑی مری ہوئے آواز میں آمین کہتے ۔بلکہ آپ سے کیا
پردہ،ہم تو چپ ہی رہتے اور دل میں سوچتے کہ ایسے آدمی کے مرنے کا کیا فائدہ جس کے ختم پر ایسی سڑی بسی مٹھائی ملے۔
معصوم بچے ،انہیں کیا پتا کہ موت کیا ہوتی ہے اور زندگی کسے کہتے ہیں ۔ انہیں مٹھائی کھانے کو ملتی تو بہت خوش ہوتے اور صبح کو جب مدرسے آتے تو ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے:
’اللہ میاں !آج بھی کوئی مُردہ مر جائے!‘‘