skip to Main Content

سال گرہ

سعید لخت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابّا جان کمرے میں بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے کہ امی جان لپک جھپک اندر داخل ہوئیں اور ماتھے پر ہاتھ مار کر بولیں’’توبہ ہے!جب دیکھو کوئی کتاب،جب دیکھو کوئی رسالہ،جب دیکھو کوئی اخبار ناک سے لگا ہے۔‘‘

پاس ہی ہم بیٹھے سیما کے ساتھ کیرم کھیل رہے تھے۔ابا جان نے عینک کے اوپر سے ہماری طرف دیکھااور مسکرا کر بولے’’سعید بیٹے،ذرا دیکھنا ۔اخبار میری ناک سے لگا ہے کہ آنکھوں سے؟‘‘

امی جان کرسی گھسیٹ کر پاس ہی بیٹھ گئیں اور بولیں’’اے وہ ناک سے لگا ہو کہ آنکھوں سے ۔لگاہروقت رہتا ہے۔توبہ!ایسا بھی کیا پڑھنا۔یاد ہے،اتنی بڑی بڑی آنکھیں تھیں تمہاری۔اب سکڑتے سکڑتے بٹن کے برابر رہ گئی ہیں۔‘‘

’’اماں لاحول ولا قوۃ الا باللہ‘‘اباجان بولے’’چھوڑو ان باتوں کو ۔لو ایک خبر سنو۔لکھا ہے’’پشاور ۲۸جون۔کل یہاں ایک۔۔۔‘‘

امی جان نے اخبار چھین کر پرے پٹخ دیااور بولیں’’اپنی خبر بعد کو سنانا پہلے میری خبر سن لو۔لاہور۲۹جون۔پرسوںیکم جولائی بروز اتوار،برخوردار سعید میاں کی بارہویں سالگرہ ہے اور ان کے والد صاحب کو خبر ہی نہیں ۔وہ بیٹھے اخبار پڑھ رہے ہیں۔‘‘ٍ

ابا جان اچھل کر بولے’’پرسوں سعید کی سال گرہ ہے؟ارے واہ وا!چلو،اسی خوشی میں چلم بھر لاؤ۔‘‘

’’اے نوج جو میں تمہاری چلمیں بھروں‘‘امی جان نے تنک کر کہا۔پھر سیما سے بولیں’’اے سیما،لپک کے جا اپنی امی کو بلا لا۔کہنا جیسی بیٹھی ہویا لیٹی ہو ویسے ہی چلی آؤ۔‘‘

سیما سر کھجاتے ہوئے بولی’’اے خالہ جان،وہ تو نہا رہی ہیں۔‘‘

اماں لاحول ولا قوۃ ‘‘ابا جان ہنس کر بولے’’کہنا نہا کر آئے۔‘‘

ہما ری خالہ جان ،خدا بخشے ،لاکھوں میں ایک تھیں۔نام تو تھاشمسہ مگر امی انہیں شمسو کہتیں۔وہ ہمارے پڑوس ہی میں رہتی تھیں۔ان کی ایک ہی بچی تھی،سیما۔اسے ہی اللہ آمین سے پال پوس کر آٹھ سال کا کیا تھا۔

تو خیر صاحب،ہماری ان خالہ کی ایک عادت بڑی دلچسپ تھی۔ہمیشہ ایک بات کو دو دفعہ کہا کرتیں ۔ایک دفعہ چڑیا گھر دیکھ کر آئیں تو ہم سے بولیں’’اے بیٹے،وہ موا ہاتھی تو دیو تھا۔دیو تھا۔مجھے دیکھ کر موئے نے سونڈ جو اٹھائی اٹھائی تو میرا کلیجا دھک سے رہ گیا،رہ گیا۔‘‘

خالہ سے تو ہم کچھ کہتے نہیں تھے،بزرگ تھیں اور بزرگوں سے مذاق کرنا سخت بد تمیزی ہے۔ہاں سیما کوچھیڑا کرتے’’بی سیما،کیا کر رہی ہو؟کر رہی ہو۔چلو ،کیرم کھیلیں۔کھیلیں۔‘‘سیما بے چاری جل بھن کر راکھ ہو جاتی۔دونوں آنکھیں میچ لیتی اور ننھا منا ہاتھ آگے نکال کر خالہ جان سے کہتی:

’’اے امی ،کتنی دفعہ آپ سے کہا ہے،ایک بات کو دو دفعہ نہ کہا کرو۔لوگ ہنستے ہیں۔‘‘

خالہ بے چاری،بھولی بھالی،ٹھوڑی پر انگلی رکھ کر بڑے بھول پن سے کہتیں’’اے بیٹی،ہوش کی دوا ۔دوا کر۔میں کب کہتی ہوں ۔کہتی ہوں‘‘ہم دونوں ہاتھوں سے منہ دبا کر ہنسی روکتے اور سیما ’’ہائے اللہ!‘‘کہہ کر سر پکڑکر بیٹھ جاتی۔ 

تو وہ قصہ کہاں سے چھوڑا تھا ہم نے؟ہاں،یاد آیا۔۔۔۔۔تو بھئی،سیما گئی خالہ شمسو کو بلانے اور تھوڑی دیر میں کیا دیکھتے ہیں کہ خالہ جان سر پر تولیہ لپیٹے ، سلیپرگھسیٹتی چلی آرہی ہیں۔آتے ہی بولیں ’’اے آپا ،خیر تو ہے؟خیر تو ہے؟اس لڑکی نے تو میرا دل دہلا دیا۔دہلا دیا۔‘‘ابا جان بولے’’بات یہ ہے بی شمسو کہ پرسوں سعید کی سالگرہ ہے ۔میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اس سال ہم لوگ یہ سال گرہ شہر سے باہر کسی باغ میں منائیں گے ۔منیر موٹر لے آئے گا ۔ساون کا مہینہ ہے،اس بہانے سیر سپاٹا بھی ہو جائے گا۔تمہاری کیا رائے ہے؟‘‘

خالہ جان بولیں’’اے لو۔نیکی اور پوچھ پوچھ۔پوچھ پوچھ۔‘‘خدا جانے یہ دو دن کیسے کٹے۔اتوار کے دن صبح ہی صبح منیر بھائی موٹر لے آئے اور ابا جان ،امی،خالہ،بھابھی جان،سیما اور ہم موٹر میں بیٹھ کرباغ میں پہنچ گئے۔آسمان پر گھنگھور گھٹائیں جھوم رہی تھیں۔کبھی بجلی چمکتی کبھی گڑ گڑ بادل گرجتا اور کبھی ہلکی ہلکی پھوار پڑنے لگتی۔ابا جان ایک درخت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔بھابھی جان نے اسٹو جلا کر کڑھائی میں گھی ڈالا۔میٹھی اور نمکین چیزیں گھر ہی سے بنا لائے تھے۔صرف پوریاں پکنی تھیں۔امی اور سیما میدے کے پیڑے بناتی جاتیں اور خالہ جان پوریاں بیل کر بھابی جان کو دیتی جاتیں۔ہم نے تھوڑا سا میدہ لے کر ہاتھی گھوڑے بنانے شروع کر دئیے ۔ایک دم سیما نے جھپٹا مار کر میدہ ہمارے ہاتھ سے چھین لیااور بولی’’اب آپ دودھ پیتے بچے تو ہیں نہیں کہ ایسے کھیل کھیلیں۔ما شاء اللہ۱۲ سال کے ہو گئے ہیں۔‘‘

ہمیں بڑا غصہ آیا۔تن فن کر بولے’’اسے سمجھا لیجئے ،خالہ جان۔ایمان سے،میرا غصہ بہت خراب ہے۔احسان فراموش کہیں کی۔‘‘

امی ہنس کر بولیں’’اے بیٹے،تو نے اس پر کون سا احسان کیا ہے؟ذرا میں بھی تو سنو ں۔‘‘

ہم بولے’’امی میں روز اسے سائیکل پر اسکول چھوڑنے جاتا ہوں۔‘‘

امی بولیں’’اے بیٹے،جاتا ہے تو کیا ہوا؟آخر تیری بہن ہے۔غیرتھوڑی ہے۔‘‘

ہم بولے ’’امی جان یہ راستے بھر مجھے گھونسے مارتی جاتی ہے۔چڑیل کہیں کی۔‘‘

خالہ جان ٹھوڑی پر انگلی رکھ کر بولیں’’اے بیٹی،شاباش ہے۔شاباش ہے۔ایک تو وہ تجھے سائیکل پر بٹھا کر اسکول لے جاتا ہے،اوپر سے تو اُس کے گھونسے مارتی ہے۔مارتی ہے۔‘‘

سیما تڑخ کر بولی ’’امّی ،آپ کو پتا نہیں یہ کتنا شیطان ہے۔اتنی تیز سائیکل چلاتا ہے کہ مجھے ہول آتا ہے۔کلیجا دھک دھک کرنے لگتاہے میرا۔۔۔۔‘‘

اماں لاحول ولا قوۃ ۔‘‘ابا جان اٹھ کر بیٹھ گئے۔’’جس محفل میںیہ سعید صاحب اور بی سیما جمع ہو جائیں گے سارا مزہ کر کرا کر دیں گے۔‘‘

ہم بولے’’ابا جان،دیکھئے ،میں کچھ کہتا ہوں؟یہی میرے ساتھ لڑتی ہے۔‘‘

سیما چمک کر بولی’’ہاں،میں ہی لڑتی ہوں۔آپ تو جیسے بہت شریف ہیں۔آج سے میرے ساتھ بات مت کرنا۔‘‘

’’کون کرتا ہے تمہارے ساتھ بات ؟‘‘ہم نے منہ چڑا کر کہا ’’آج سے بول چال ختم۔کُٹّی۔کُٹّی ۔چھو۔‘‘

سیما نے میدہ طباق میں پٹک دیااور منہ پھلا کر بیٹھ گئی۔اباجان بولے’’توبہ ہے بھئی۔اماں منیر میاں ،تم ہی اس محفل کو گرماؤ گے ۔کوئی برساتی گیت سناؤ۔ تم تو بہت اچھے شاعر ہو۔‘‘

منیر بھائی شرمانے لگے تو ابا جان بولے’’اوہواپنے ابّا جان کے سامنے گاتے ہوئے شرم آتی ہے۔اچھا چلو بھئی ہم تمہیں ایک گیت سناتے ہے۔‘‘یہ کہہ کر ابا جان نے گلا صاف کیا اور دھیمے دھیمے سروں میں گانے لگے۔

’’مینہ کی لگی جھڑی ہے رے دن رات برسے پانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ساون کی رت سہانی

ادھر سے امی جان نے تان اڑائی

جھولے پڑے ہیں باغوں میں ،برکھا برس رہی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چھم چھم برس رہی ہے

بھیّا سے کہیو لائیں وہ چندری رنگا کے دھانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ساون کی رت سہانی

ابا جان بولے’’واہ وا!غضب کر دیا ۔کیا شعر کہا ہے۔مگر بھئی،یہ سیما کے منہ سے اچھا لگے گا۔بیٹی سیما،ذرا سنانا تو۔‘‘

سیما کا منہ پھول کر کپا ہو گیاتھا۔اس نے غصے بھری نظروں سے ہمیں دیکھا،سر کو ہلکا سا جھٹکا دیااور منہ موڑ کر بیٹھ گئی۔

خدا جانے ابا امی کے گانے کا اثر تھا یاکیاکہ ایک دم بجلی زور سے چمکی اور ہولناک گرج کے ساتھ موسلادھار بارش ہونے لگی ۔کیسی سال گرہ اور کیسا کھانا پینا ۔جلدی جلدی سامان سمیٹا اور موٹر کی طرف بھاگے۔بھائی جان، ابا جان اور امی آگے بیٹھ گئے اور ہم ،سیما،بھابھی جان اور خالہ جان پیچھے۔ جگہ کم تھی اس لیے ہم نیچے پیروں میں بیٹھنے لگے تو خالہ جان بولیں’’اے بیٹا ،میری گود میں بیٹھ جا۔بیٹھ جا۔‘‘مگر ہم نہیں مانے ۔

موٹر چلی تو ابا جان امی سے بولے ’’کھڑکی بند کر لو۔بوچھاڑ آرہی ہے۔بھیگ جاؤ گی۔‘‘

بھائی جان نے گردن گھما کر پیچھے دیکھا اور بھابھی جان سے بولے’’رشیدہ،تم بھی کھڑکی بند کر لو۔تمہیں پہلے ہی زکام کی شکایت ہے۔‘‘

سیما مسکرا کر ہم سے بولی’’اب تم تھک گئے ہو گے۔لو،میری جگہ بیٹھ جاؤ۔میں نیچے بیٹھے جاتی ہوں۔‘‘ہم تو بہانہ ڈھونڈ رہے تھے۔جھٹ اچک کر خالہ جان کے برابر بیٹھ گئے۔ابا جان ہنس کر بولے ’’ارے بھئی،بہن بھائیوں میں صلح ہو گئی۔مبارک ہو چلو،اسی خوشی میں چلم بھر لاؤ۔‘‘

امی جان بولیں’’اے سٹھیا گئے ہو؟یہاں موئی چلم کہاں دھری ہے؟‘‘

خالہ جان گم سم بیٹھی برستے ہوئے بادلوں کو تک رہی تھیں۔ہم نے ان کے گلے میں بانہیں ڈال دیں اور پیار سے بولے’’خالہ جان،کھڑکی بند کر دیجئے۔خدا نا خواستہ،شیطان کے کان بہرے،آپ کو کچھ ہو گیا تو پھر مجھے ایسی خالہ کہاں ملے گی؟کہا ں ملے گی۔‘‘

خالہ جان کا چہرہ گلاب کے پھول کی طرح کھل اٹھا۔ہنس کر بولیں’’چل ہٹ مکار۔باتیں بنانا تو کوئی تجھ سے سیکھے۔تجھ سے سیکھے۔‘‘

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top