skip to Main Content

نانی ٹخّو

سعید لخت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گھنگھورگھٹا تلی کھڑکی تھی،پر بوند ابھی نہیں پڑی تھی ۔ہمارے گھر زنانہ میلاد شریف تھا اور ملانیاں ابھی تھوڑی دیر ہوئی مولود پڑھ کر گئی تھیں۔جو رشتے کی عورتیں دور محلے کی تھیں،انہیں امی نے روک لیا تھا کہ بہن،اس وقت کہاں جاؤ گی ؟نہ رکشا نہ تانگا اورپھر مینہ کا ہر دم دھڑکا۔صبح کو چلی جانا۔آسمان پر بادل گرج رہے تھے اور بجلی ایسی لپکیں مار رہی تھی کہ زمین سے لگ لگ جاتی تھی ۔اس ڈر سے کہ کہیں بارش نہ آجائے ،چارپائیاں برآمدے میں بچھائی گئی تھیں۔بائیں طرف کونے میں ہمارا پلنگ تھا۔

ہمارے برابر ہماری خالہ زاد بہن سیما کا۔اس کے بعد نانی ٹخو کا اور پھر امی اور دوسری عورتوں کے۔اب ان نانی ٹخو کا حال سنو۔

یہ نانی ٹخو سارے شہر کی نانی تھیں۔ ستر سال سے زیادہ عمر ہو گی ۔منہ میں دانت نہ پیٹ میں آنت ۔کمر جھک کے زمین کو لگ گئی تھی ۔چلتیں تو ایسے جیسے آٹھ کا ہندسہ لڑھکتا چلا جا رہا ہے ۔شہر میں کہیں شادی بیاہ ہو تو نانی ٹخو سب سے پہلے موجود ۔چاہے جان پہچان ہو یہ نہ ہو ۔لوگ انہیں نانی سیدانی کہتے تھے مگر ہم بچو نے ان کا نام نانی ٹخو رکھا تھا۔

گیارہ بج چکے تھے مگر باتوں کی کھچری پک رہی تھی ۔ایکا ایکی امی کو کچھ خیال آیا اور وہ ہم سے بولیں’’بیٹا سعید،صبح کو جا کر اس موئے ٹال والے سے کہنا کہ ساری گیلی لکڑیاں ہمارے گھر ہی ڈال گیا ہے ۔توبہ! آنکھیں پھوٹ گئیں پھونکتے پھونکتے اور لکڑیاں تھیں کہ جلنے کا نام ہی نہ لیتی تھیں۔‘‘

ہم بولے ’’امی یہ صحبت خان بڑا لڑاکا آدمی ہے۔ لوگ اسے مصیبت خان کہتے ہیں ۔زیادہ تین پانچ کرو تو کہتا ہے ،’’خوچہ بھئی ،لکڑی گیلا ہے تو کیا ہوا ۔چولھے میں جلے گا تو سوکھ جائے گا۔‘‘

سیما بولی’’تو آپ اس سے لاتے ہی کیوں ہیں؟دو قدم آگے بڑھ کر دوسرے ٹال سے لے آیا کیجئے ۔‘‘

’’جی ہاں۔زبان ہلا دینا بہت آسان ہے اور کرنا بہت مشکل‘‘ہم نے کہا’آپ ہی اسکول سے واپس آتے وقت لیتی آیا کیجئے نا۔‘‘

لیجئے خالہ جان !‘‘سیما ہاتھ نکال کر بولی ’’بھلا کہیں لڑکیاں بھی لکڑیاں لاتی ہیں؟‘‘

’’جی ہاں۔لڑکیاں ہوائی جہاز چلا سکتی ہیں ،توپوں اور بندوقوں سے لڑ سکتی ہیں ،لکڑیاں کیوں نہیں لا سکتیں ؟اور پھر لکڑی اور لڑکی میں فرق ہی کتنا ہے ۔کاف کو یے سے ملا دو تو لڑکی بن گئی اور لام سے ماؤ تو لکڑی۔۔۔۔۔۔‘‘

اس پر اتنے زور کا قہقہہ پڑا کہ برآ مدے کی چھت ہلنے لگی ۔امی نے بڑے پیار سے ہماری طرف دیکھا اور انجم آپا سے بولیں ’’بڑا سمجھ دار بچہ ہے ،ماشاء اللہ ۔چھٹی جماعت میں فسٹ آیا تھا ۔اپنے ابا سے تو ایسی بحثیں کرتا ہے کہ وہ بیچارے حقہ لے کر بیٹھک میں بھاگ جاتے ہیں۔پر بیٹی،ہے بہت شریر۔‘‘

انجم آپا بولیں’’اے خالہ،تیز دماغ کے بچے شریر ہوا ہی کرتے ہیں ۔‘‘

واہ!رٹا لگا کر فسٹ آئے تو کیا آئے ۔۔۔؟‘‘سیما منہ بنا کر بولی’’اس طرح تو طوطا بھی فسٹ آ سکتا ہے ۔‘‘ایک دن بڑا مزہ آیا،خالہ جان۔ذرا سنیے ۔آپ کمرے میں بیٹھے جھوم جھوم کر جغرافیہ رٹ رہے تھے ۔مان سون ہوائیں با رش برماتی ہیں۔بارش برماتی ہیں ۔میں نے کہا ’’بھائی جان ،بارش برسانا تو سنا تھا ،یہ برمانا کیا ہوا؟‘‘بولے’’بکو مت!کتاب میں ایسا ہی لکھا ہے ۔‘‘میں نے کتاب دیکھی۔اس میں چھپائی کی غلطی سے برسانا کی س موٹی ہو کر م بن گئی تھی۔۔۔۔ہی ہی ہی ۔۔۔‘‘ہم نے غصے سے کہا ’’امی!اسے سمجھا لیجئے ۔۔۔ایسانہ ہو کہ میری تلوار تڑپ کر نیام سے نکل آئے اور میدانِ جنگ میں کشتوں کے پشتے لگ جائیں۔‘‘

’’اے بیٹا !خدا کا نام لے‘‘امی بولیں ’’کیسی بری فالیں منہ سے نکالتا ہے ۔ویسے ہی سنا ہے جنگ چھڑنے والی ہے ۔۔۔۔چل بتی بجھا دے اور پنکھا تیزکر دے۔نیند آرہی ہے ۔موا حبس کتنا ہے ۔اری ناصرہ !تجھے ہوا آرہی ہے؟‘

ناصرہ باجی پرلے کونے میں سے بولیں’’ہاں،کبھی کبھی کوئی بچا کھچا جھونکا آہی جاتا ہے۔ارے سعید،یہ پرویز کی سیٹی اپنے پاس رکھ لے،صبح اٹھے ہی بجا بجا کر سب کو جگا دے گا۔‘‘

ہم نے سیٹی لے کر تکیے کے نیچے رکھ لی اور بتی بجھا کرلیٹ گئے۔مگر نیند کوسوں دور تھی۔اتنا بڑا برآمدہ اور ایک پنکھا ۔پسینے چھوٹ رہے تھے ۔تھوڑی دیر بعد سب سو گئے اور برآمدہ ہلکے بھاری سریلے اور بے سرے خراٹوں سے گونجنے لگا ۔ان میں نانی ٹخو کے خرا تے سب سے بلند تھے۔وہ ایسی ڈراؤنی آوازیں نکال رہی تھیں جیسے بلیاں لڑ رہی ہوں۔

ہم نے بے چینی سے کروٹ بدلی تو سیما بولی’’بھائی جان ،جاگ رہے ہو؟‘‘

’’تمہیں بھی نیند نہیں آرہی۔۔۔۔؟‘‘ہم نے پوچھا ۔

’’نیند کیا خاک آئے گی‘‘وہ بولی ’’ایک تو گرمی اور اوپر سے نانی ٹخو کے خراٹے ۔۔۔۔کوئی کہانی سنائیے۔‘‘

’’کہانی سناؤں کہ تماشا دکھاؤں؟‘‘

یہ کہہ کر ہم نے نانی ٹخو کی طرف دیکھا ۔وہ چٹ لیتی بالکل بے خبر سو رہی تھیں اور سانس کے ساتھ ان کے ہونٹ ایسے پھڑ پھڑارہے تھے جیسے لوہار کی دھونکنی سے بھٹی میں شعلے پھڑ پھڑاتے ہیں۔

’’تماشا۔۔۔۔۔؟‘‘وہ کہنی کہ بل اٹھ کر بولی’’تماشا کیسا؟‘‘

’’ایسا دل چسپ اور مزے دار کہ تم نے کبھی نہ دیکھا ہو گا‘‘ہم نے کہا اور تکیے کی طرف ہاتھ بڑھایا۔

’’دکھائیے۔۔۔‘‘وہ آہستہ سے بولی۔اندھیرے میں اس کی آنکھیں حیرت اور دل چسپی سے چمک رہی تھیں

’’پہلے وعدہ کرو کہ بھانڈا نہیں پھوڑو گی کیوں کہ جوتے کھانے کا خطرہ ہے۔‘‘

’’جوتے پڑے تو دونوں آدھوں آدھ کر لیں گے‘‘وہ بولی ’’شروع کے تم کھا لینا اور آخر کے میں ۔‘‘

’’آخر کے کیوں؟‘‘ہم نے پوچھا۔

بولی ’’آخر میں مارنے والے کے ہاتھ جو تھک جاتے ہیں۔‘‘

’’بڑی ہوشیار ہو۔پھربھی امتحان میں تھرڈ آتی ہو۔‘‘

’’تمہاری طرح رٹا جو نہیں لگاتی ،جناب !۔۔۔دماغ سے کام لیتی ہوں۔اچھا،چھوڑو ان با توں کو۔تماشا دکھاؤ۔‘‘

ہم نے تکیے کے نیچے سے سیٹی نکالی اور چپکے سے سیما کے پلنگ پر چلے گئے۔نانی ٹخو کو تن بدن کا ہوش نہ تھا۔ایسی سو رہی تھیں جیسے اب کبھی نہیں اُٹھیں گی۔ہم نے سیٹی ان کے منہ میں ٹھونسی اور دونوں ہونٹ بند کر دیئے ۔بے چاری کا پوپلا منہ تھا ۔سیٹی ہونٹوں سے ایسے چپک گئی جیسے لیئی لگا دی گئی ہو۔اب جو نانی ٹخو سانس لیتی ہیں تو آواز نکلتی ہے’’پھر رر پیں۔پھر ر ر پیں۔‘‘سیما کا یہ حال کہ ہنسی روکے نہ رُکے۔

ہم جلدی سے اپنے پلنگ پر آگئے اور ایسے بن گئے جیسے پتا ہی نہیں کہ کیا ہو رہا ہے ۔ادھر نانی ٹخو بر ابرپھر ر ر رپیں پھر ر ر ر پیں کئے جا رہی تھی

یکا یک نا نی ٹخو نے لمبی گہری سانس لی اور سیٹی میں سے ایسی زور کی آ واز نکلی کہ امی گھبرا کر اٹھ بیٹھیں ۔انہوں نے حیرت سے نانی ٹخو کو دیکھا اور بولیں

’’اے نانی!او نانی!یہ کیا کر رہی ہو؟‘‘

نانی ٹخو بولی’’پھر ر ر رپیں۔۔۔۔‘‘

اس پر امی کا پارہ چڑھ گیا ۔چلا کر بولیں ’’اے بی ذرا اس بوڑھیا کو تو دیکھو ۔وہی مثل ہے کہ بوڑھے منہ مہا سے،لوگ کریں تماشے۔یہ عمر اور یہ چونچلے۔اے نانی!سیٹی بجانے کے لیے رات ہی رہ گئی تھی۔سارے گھر کی نیند حرام کر دی ہے لے کے۔‘‘

یہ کہہ کر انہوں نے نانی ٹخو کو زور سے جھنجھورا ۔وہ سمجھیں کوئی آفت آگئی ہے۔جلدی سے جوتیاں ہاتھ میں لیں اور ہو ہو کرتی صحن میں دوڑنے لگیں ۔شور سن کر تمام عورتیں جاگ گئیں ۔انہوں نے سمجھا کوئی چور گھس آیا ہے ۔سب بے تحاشہ چیخنے لگیں ۔اس چیخم دھاڑ میں بچوں کی بھی آنکھ کھل گئی اور انہوں نے ایسی دہائی دی کہ سارا گھر سر پر اٹھا لیا۔

غل غپاڑے کی آواز بیٹھک میں گئی تو ابا جان ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھے ۔ان دنوں ڈاکے بہت پڑ رہے تھے ۔وہ سمجھے ڈاکوؤ ں نے حملہ کر دیا ہے۔جھٹ بندوق لے کر اندر گھس آئے ۔کچھ دیرہکا بکا کھڑے نانی اور امی کو گھورتے رہے ،پھر بولے ’’لا حول ولا قوۃ ۔۔۔۔!یعنی ،یہ کیا ہو رہا ہے۔۔۔۔۔؟حد ہو گئی۔۔۔۔میں کہتا ہوں یہ پاگلوں کی طرح شور کیوں مچا رہی ہو؟‘‘

امی ہانپتی ہوئی بولیں ’’اس بوڑھیا نے تو قیامت برپا کر دی ۔غضب خدا کا ! ایک تو سیٹی بجا رہی تھیں اور میں نے روکا تو بھاگنا شروع کر دیا۔‘‘

’’سیٹی بجا رہی تھیںَ ‘‘ابا جان تعجب سے بولے ’’لا حول ولا قوۃ !دماغ چل گیا ہے اس کا ؟‘‘

سیما منہ میں دوپٹا ٹھونسے ہنسی روکنے کی کوشش کر رہی تھی ۔آخر اس سے ضبط نہ ہو سکا تو کھل کھلا کر ہنس پڑی ۔

ابا جان نے مڑ کر حیرت سے اسے دیکھا اور بولے ’’اس کا کیا مطلب؟یہ لڑکی کیوں ہنس رہی ہے؟اے لڑکی!سچ سچ بتا کیا معاملہ ہے؟ورنہ یاد رکھ ،میری بندوق بھری ہوئی ہے ۔‘‘

بندوق کا نام سنا تو سیما کی روح فنا ہو گئی ۔جلدی سے تھوک نگل کر بولی’ب ب بات یہ ہے ۔۔۔۔۔خ خ خالو جان ۔۔۔۔کہ نانی ٹخو کے منہ میں بھائی جان نے سیٹی ٹھونس دی تھی اور…….‘‘

’’اے ہے!‘‘امی نے سر پر ہاتھ مار کر کہا ’’تو یہ سعید صاحب کی کارستانی تھی؟‘‘

’’کہاں ہے،یہ سعید کا بچہ۔۔۔۔؟‘‘ابا جان نے ہما ری طرف بڑھتے ہوئے کہا اور پاس آکر کان پکڑ کرجو کھینچا تو ہم ایک دم اسٹینڈ اپ ہو گئے۔’’چل، میرے پاس بیٹھک میں سونا ۔شیطان کہیں کا !‘‘

اس دن سے نانی ٹخو ہمارے گھر کبھی نہیں آئیں ۔خدا انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے!

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top