skip to Main Content

مغرور شہزادی

شمشاد خان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جرمنی کی لوک کہانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہت عرصے پہلے کی بات ہے۔ ایک بادشاہ تھا۔ اس کی ایک خوبصورت اور اکلوتی بیٹی تھی۔ اپنی خوبصورتی اور دولت کی وجہ سے وہ بہت مغرور اور گستاخ ہوگئی تھی۔ جب بھی کہیں سے اس کے لیے شادی کا پیغام آتا وہ اسے ٹھکرا دیتی اور اس کا خوب مذاق اڑاتی تھی۔

ایک دن بادشاہ نے ایک بڑی دعوت کی اور اس میں شہزادی سے شادی کرنے والے تمام امیدواروں کو بلایا۔ سب لوگ اپنے اپنے مرتبے کے لحاظ سے کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ شہزادی اس دعوت میں اپنی کنیزوں کے ساتھ بڑے مغرورانہ انداز میں آئی۔ وہ جس امیدوار کے پاس سے گزرتی اس کو بڑی حقارت سے دیکھتی۔ جب وہ ایک شہزادے کے پاس پہنچی جو بہت موٹا تھا تو اس نے اپنی کنیزوں سے ہنستے ہوئے کہا، “یہ تو گول ٹب ہے۔”

دوسرے امیدوار کو دیکھ کر اس نے کہا، “کیسا کھمبے کی طرح لگتا ہے۔”

ایک شہزادہ بہت چھوٹا لگا تو اس نے کہا، “ذرا چھوٹو موٹو کو دیکھو۔”

ایک نواب بہت گورا تھا، شہزادی نے اس کو سفید چوہا کہا۔ ایک امیر کا رنگ سرخ تھا، اس نے اسے “مرغ کی کلغی” کہہ کر پکارا۔ اسی طرح وہ ہر امیدوار کی بےعزتی کرتی رہی، لیکن وہ ایک بادشاہ کو دیکھ کر تو بہت ہنسی، کیوں کہ اس کی داڑھی تھی۔ اس نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا، “ذرا اسے دیکھو! اس نے چہرے پر کیسی جھاڑ پھوس اگا رکھی ہے۔”

بادشاہ نے جب دیکھا کہ اس کی بیٹی نے مہمانوں کی بہت بےعزتی کی ہے تو اسے بہت غصہ آیا۔ اس نے بھرے دربار میں یہ اعلان کیا کہ شہزادی پسند کرے یا نہ کرے، مگر اب میں اس کی شادی کسی فقیر سے کروں گا۔ اس اعلان کے بعد تمام لوگ چلے گئے۔

کچھ ہی دیر بعد ایک آوارہ گرد گویّا آیا جو گلی کوچوں میں گھوم کر گانا گایا کرتا تھا۔ اس نے شاہی محل کے نیچے کھڑکی کے قریب کھڑے ہوکر گانا گانا شروع کردیا۔ بادشاہ نے اس کی آواز سنی تو ایک خادم کو حکم دیا کہ اس فقیر کو اندر بلا لاؤ۔ خادم پھٹے پرانے کپڑوں والے فقیر کو لے آیا۔ اس فقیر گویے نے بادشاہ اور شہزادی کے سامنے بہت اچھا گانا گایا اور بادشاہ سے انعام مانگا۔ بادشاہ نے کہا، “تم نے بہت اچھا گانا سنایا ہے۔ میں تمہیں بہت اچھا انعام دوں گا۔ میں اپنی بیٹی کی شادی تم سے کروں گا۔”

جب شہزادی نے یہ سنا تو وہ بدحواس ہوگئی۔ وہ بہت روئی پیٹی، مگر بادشاہ نے اس کی ایک نہ سنی۔ بادشاہ نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا، “میں نے مہمانوں کے سامنے قسم کھائی تھی کہ تمہاری شادی کسی فقیر سے کروں گا۔ اب میں وہ قسم پوری کر رہا ہوں۔”

یہ کہہ کر بادشاہ نے قاضی کو بلایا اور مغرور شہزادی کی شادی آوارہ گرد گویے کے ساتھ کرادی اور پھر حکم دیا کہ تم اپنے شوہر کے ساتھ جانے کی تیاری کرو۔

شہزادی روتی پیٹتی فقیر کے ساتھ چل دی۔ راستے میں وہ ایک شکار گاہ سے گزرے۔ اتنی بڑی شکار گاہ کو دیکھ کر وہ حیران رہ گئی۔ اس نے فقیر سے پوچھا، “یہ شکار گاہ کس کی ہے؟”

“میں نے سنا ہے کہ تم نے ایک داڑھی والے بادشاہ کا مذاق اڑایا تھا، یہ شکارگاہ اسی کی ہے۔ اگر تم اس سے شادی کرلیتیں تو یہ تمہاری ملکیت ہوجاتی۔” فقیر نے جواب دیا۔

“آہ! یہ میں نے کیا کیا؟” اس نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔

اس کے بعد وہ بہت خوبصورت باعوں میں پہنچے۔ ان کو دیکھ کر شہزادی نے پھر پوچھا، “یہ کس کے ہیں؟”

“یہ باغ بھی اسی داڑھی والے کے ہیں۔” فقیر نے آہستہ سے کہا۔

شہزادی نے افسوس بھرے لہجے میں کہا، “میں بھی کتنی بدنصیب ہوں۔”

پھر وہ ایک بڑے عظیم الشان شہر میں داخل ہوئے۔ اتنا بڑا اور خوبصورت شہر دیکھ کر شہزادی حیران رہ گئی۔ اس نے پوچھا، “اس شہر کا مالک کون ہے؟”

فقیر نے اسے بتایا، “یہ شہر داڑھی والے بادشاہ کے ملک کا پایۂ تخت ہے۔ اگر تم اس سے شادی کرلیتیں تو یہ سب کچھ تمہارا ہوتا۔”

“اوہ! میں نے بہت غلطی کی۔ کاش میں اس سے شادی کرلیتی۔” اس نے پچھتاتے ہوئے کہا۔

فقیر شوہر نے ناراض ہوتے ہوئے کہا، “مجھے اس سے کوئی مطلب نہیں، مگر تم میرے ہوتے ہوئے دوسرے مرد کی بات کیوں کر رہی ہو، کیا مجھ میں کوئی کمی ہے؟”

اس طرح کی باتیں کرتے ہوئے وہ ایک چھوٹی سی جھونپڑی کے قریب پہنچے۔

“کیسی بدنما اور چھوٹی سی جھونپڑی ہے، یہ کس کی ہے؟” شہزادی نے پوچھا۔

“یہ میرا گھر ہے اور یہی وہ جگہ ہے جہاں ہمیں زندگی گزارنی ہے۔”

“تمہارے نوکر کہاں ہیں؟”

“ہمیں نوکروں سے کیا کام! تم ہر کام کر سکتی ہو، اب آگ جلاؤ اور میرے لیے کھانا پکاؤ۔ میں بہت تھک گیا ہوں۔” فقیر نے کہا۔

چوں کہ شہزادی کو کھانا پکانا نہ آتا تھا، اس لیے فقیر نے اس کی مدد کی اور کچھ دیر بعد انہوں نے الٹا سیدھا کھانا پکا کر کھالیا اور سو گئے۔ دوسری صبح فقیر نے اسے جگایا اور گھر صاف کرنے اور دوسرے کام کرنے کو کہا۔

شہزادی تمام دن کام کرتی رہی، اوپر سے جلی کٹی باتیں بھی سنتی مگر صبر کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ اسی طرح انہوں نے کچھ دن گزارے۔ پھر ایسا وقت آیا کہ ان کے پاس کھانے تک کے لیے کچھ نہ رہا۔

ایک دن فقیر نے کہا، “میں نے جو کچھ کمایا تھا خرچ ہوگیا۔ اب تمہاری کمانے کی باری ہے۔ میں تمہیں بید لا کر دیتا ہوں۔ اس سے تم ٹوکریاں بن لینا۔”

یہ کہہ کر وہ جنگل گیا اور بید کاٹ لے آیا۔ شہزادی نے ٹوکریاں بننی شروع کردیں۔ اس نے پہلے کبھی کوئی ایسا محنت کا کام نہیں کیا تھا، اس لیے اس کی انگلیاں زخمی ہوگئیں اور ان سے خون بہنے لگا۔

یہ دیکھ کر اس کے شوہر نے کہا، “میرا خیال ہے یہ کام تم نہیں کر سکتیں۔ میں تمہیں کچھ سوت لا کر دیتا ہوں، اس سے کپڑا بن لینا۔”

مگر وہ یہ بھی نہ کر سکی۔ فقیر نے کہا، “تم تو میرے لیے بالکل بےکار ہو۔ تم کوئی کام نہیں کرسکتیں۔ تم سے شادی کرکے مجھے بڑا نقصان ہوا ہے۔ بہرحال میں کوشش کرتا ہوں کہ تمہارے لیے مٹی کے برتن لادوں۔ تم بازار جا کر ان کو بیچ دیا کرنا۔”

مغرور شہزادی نے اکڑ کر کہا، “مگر جب میں بازار میں کھڑی ہوں گی تو میرے ملک کے لوگ مجھے اس حال میں دیکھ کر خوب ہنسیں گے۔”

فقیر نے کہا، “یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔ اگر تم بھوک سے مرنا نہیں چاہتیں تو تمہیں یہ کام کرنا پڑے گا۔”

مٹی کے برتن بیچنے کا کام بہت اچھا چل رہا تھا۔ لوگ جب ایک خوبصورت لڑکی کو بازار میں برتن بیچتے دیکھتے تو اس پر ترس کھا کر کچھ نہ کچھ خرید لیتے۔ برتن بک گئے تو فقیر نے اور برتن لا کر دے دیے۔ اسی دوران ایک غصیل بدمزاج سپاہی وہاں سے گزرا۔ اس نے بازار کے بیچ میں برتن رکھے ہوئے دیکھ کر انہیں لات مار کر توڑ دیا اور کہا کہ آئندہ اس طرح راستہ مت گھیرنا۔

شہزادی بہت پریشان ہوئی۔ اس نے سارا واقعہ گھر آکر اپنے شوہر کو سنایا۔

“تم انتہائی بےوقوف ہو، تم سے کس نے کہا تھا کہ بیچ بازار میں برتن لے کر بیٹھ جاؤ۔ آخر وہاں سے لوگوں کو گزرنے میں دشواری ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ بھی تمہارے بس کا کام نہیں ہے۔ خیر میں شاہی محل جاؤں گا۔ ہوسکتا ہے کہ وہاں تمہارے لیے کوئی کام نکل آئے۔ “

یہ کہہ کر وہ شاہی محل روانہ ہوگیا۔

شام کو فقیر نے واپس آکر کہا، “شاہی محل میں تمہارے لیے مددگار باورچن کی جگہ مل گئی ہے۔ اب کم از کم ہمیں کھانے کو خوب مل جایا کرے گا۔”

اور اس طرح مغرور شہزادی ایک مددگار باورچن بن گئی۔ وہ ہر روز صبح سے شام تک باورچی خانے کے سارے کام کرتی اور شام کو لوگوں کے آگے کا بچا ہوا کھانا لے کر گھر آجاتی اور اس طرح دونوں میاں بیوی کا گزارا ہوجاتا۔

محل میں آئے ہوئے اسے کچھ ہی دن گزرے تھے کہ اس نے سنا کہ محل میں کوئی شادی کی تقریب ہونے والی ہے۔ مقررہ دن جب مہمان آنے شروع ہوئے تو وہ باورچی خانے کی کھڑکی سے انہیں دیکھ رہی تھی۔ نقیب اور چوبدار، زرق برق کپڑوں میں مہمانوں کا استقبال کر رہے تھے۔ ہر طرف بڑی شان و شوکت اور دھوم دھام نظر آرہی تھی۔ لیکن شہزادی اپنی قسمت پر آنسو بہا رہی تھی اور اپنے غرور و تکبر اور بےوقوفی پر پچھتا رہی تھی۔ اسی دوران کچھ خادمائیں آئیں اور انہوں نے اس کو بہت سے مزیدار کھانے دیے جو اس نے ٹوکری میں رکھ لیے اور گھر کی طرف چل پڑی۔

ابھی وہ محل کے دروازے سے گزر ہی رہی تھی کہ اچانک ایک بہت ہی زرق برق لباس والے ایک شاندار اور خوبصورت شخص نے اس کا راستہ روک لیا۔ شہزادی نے نگاہ اٹھا کر دیکھا کہ وہی داڑھی والا بادشاہ تھا جس کا اس نے خوب مذاق اڑایا تھا۔ وہ خوف اور شرم سے کانپنے لگی۔ بادشاہ اسے لے کر ہال میں پہنچا۔ اتنے سارے لوگوں کو دیکھ کر اسے اپنے اوپر قابو نہ رہا اور گھبراہٹ میں ٹوکری اس کے ہاتھ سے گر گئی اور اس میں سے کھانا نکل کر چاروں طرف بکھر گیا۔ تمام درباری ہنسنے لگے۔ شہزادی کا یہ حال تھا کہ کسی طرح زمین پھٹ جاتی تو وہ اس میں سما جاتی۔ اس نے جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑالیا اور بھاگنا چاہتی تھی کہ بادشاہ نے لپک کر اسے دوبارہ پکڑ لیا اور بڑی نرمی سے بولا، “ڈرو مت، کیا تم مجھے نہیں پہچانتیں؟ میں وہی آوارہ گرد گویا ہوں جو تمہارے ساتھ جھونپڑی میں رہتا ہے۔ میں وہی سپاہی ہوں جس نے تمہارے برتن توڑے تھے۔ یہ سب کچھ میں نے اس لیے کیا تھا کہ میں تمہیں پسند کرتا تھا اور تم سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ اب تمہارے غرور کا علاج ہوچکا ہے اور تمہیں اچھا سبق مل گیا ہے۔ پچھلی باتوں کو بھول جاؤ، دیکھو آج ہماری شادی کی تقریب ہورہی ہے۔”

اسی وقت کنیزیں آئیں اور اسے اپنے ساتھ لے گئیں۔ شہزادی کو نہلا دھلا کر دلہن کا لباس پہنایا گیا۔ جب وہ دوبارہ ہال میں آئی تو دیکھا کہ اس کے والدین اور اس کے تمام درباری بھی وہاں جمع ہیں۔ سب لوگوں نے اسے مبارک باد دی۔

اب شہزادی بالکل بدل چکی تھی۔ اس کا غرور، اکڑ اور دوسروں سے نفرت ختم ہو چکی تھی۔ اس نے زندہ رہنے کا ڈھنگ سیکھ لیا تھا۔​

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top