اُجالا
ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ایک ایسے جزیرے پر آ گیا تھا جہاں دنیا کی معلومات سے بے خبر قبیلہ آباد تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہیل کی ٹکر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پُرسکون سمندر کے سینے کو چیرتا ہوا بحری جہاز اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھا۔ لوگ دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد خوش گپیوں میں مصروف تھے کہ اچانک پُرسکون سمندر میں ہلچل محسوس ہونے لگی، جس سے جہاز ہچکولے لینے لگا۔ یہ د یکھ کر لوگ گھبراہٹ کے عالم میں جہاز کے عرشے کی جانب لپکے۔ لوگوں نے دیکھا کہ ایک بہت بڑی وہیل مچھلی تیزی سے جہاز کی جانب بڑھ رہی ہے۔
جہاز کا عملہ ابھی اس غیر متوقع صورتحال کا جائزہ لے رہا تھا کہ دیو قامت وہیل مچھلی نے جہاز کو اتنی زور سے ٹکر ماری کہ جہاز کا ایک حصہ ٹوٹ کر سمندر میں دُور جاگرا۔ سمندر کا پانی جہاز کے ٹوٹے ہوئے حصے میں تیزی سے داخل ہونے لگا۔ جہاز کے عملے نے فوری طور پر حفاظتی کشتیاں بھی سمندر میں اُتاریں اور لوگوں کو جہاز سے ان کشتیوں میں منتقل کرنے لگے۔ ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ وہیل مچھلی ایک بار پھر جہاز سے ٹکرائی۔ ٹکر اتنی شدید تھی کہ جہاز کا باقی ماندہ حصہ بھی ٹوٹ پھوٹ گیا اور حفاظتی کشتیاں ہچکولے کھانے لگیں۔ بے شمار لوگ پانی میں ڈبکیاں کھانے لگے اور کچھ لوگ تباہ شدہ جہاز کے تختوں پر بیٹھ کر اپنی جان بچانے کی کوشش کرنے لگے۔ ان میں کپڑے کا بہت بڑا تاجر عبداللہ اور اس کا بیٹا عطاء اللہ بھی شامل تھا۔
عبداللہ تباہ شدہ ایک تختے سے چمٹ کر مشکل وقت میں کام آنے والی قرآنی اور مسنون دعائیں پڑھ رہا تھا۔ کسی نے صحیح کہا ہے کہ مشکل میں جب کوئی اللہ تعالیٰ کو سچے دل سے پکارتا ہے تو اللہ اُس کی پکار کو سنتا ہے اور اس کی مدد کرتا ہے۔ عبداللہ کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ سمندری ہوا سے لکڑی کا تختہ قریبی جزیرے کی طرف بڑھنے لگا۔ چند ہی منٹ میں عبداللہ ایک جزیرے کے کنارے پر پہنچ گیا، لیکن اس کے بیٹے عطاء اللہ کا کچھ پتا نہیں تھا کہ وہ کہاں ہے۔ عبداللہ نے ڈرتے ہوئے جزیرے پر قدم رکھا۔ جہاز کے حادثے اور لکڑی کے تختے پر گزرنے والے اذیت ناک لمحات نے عبداللہ کو نڈھال کردیا تھا۔ اس نے دھوپ کی شدت سے بچنے کے لئے ایک سایہ دار درخت کے نیچے پناہ لے لی۔ درخت کی چھاؤں اور ساحلِ سمندر سے آنے والی ٹھنڈی ہوا سے عبداللہ کی آنکھیں بوجھل ہونے لگیں اور وہ جلد ہی نیند کی وادی میں کھوگیا۔ ابھی وہ گہری نیند سویا ہوا تھا کہ اچانک کسی نے اس کو کندھے سے پکڑ کر ہلایا۔ عبداللہ ہڑبڑا کر اُٹھا تو اس نے دیکھا کہ ایک آدمی غصے کے عالم میں اُسے گھور رہا ہے۔
’’تم کون ہو اور ہمارے جزیرے میں کیا لینے آئے ہو؟‘‘ جزیرے کے آدمی نے کُھردرے لہجے میں پوچھا۔
’’میں مصیبت کا مارا ایک مسافر ہوں۔ ہمارا تجارتی جہاز وہیل مچھلی کی ٹکروں سے تباہ ہوگیا۔ قسمت اچھی تھی کہ مجھے ٹوٹے ہوئے جہاز کا ایک تختہ مل گیا۔ میں اس پر چمٹ کر بیٹھ گیا۔ سمندری ہوا کا رُخ اِس جزیرے کی طرف تھا۔ اس لئے میں جزیرے کے کنارے پر پہنچ گیا۔ لیکن میرے بیٹے عطاء اللہ کا کچھ علم نہیں کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں؟‘‘ عبداللہ نے افسردہ لہجے میں بتایا۔
’’اس جزیرے میں ہمارے سردار کی اجازت کے بغیر کوئی نہیں رہ سکتا۔ تمہیں میرے ساتھ سردار کے پاس جانا ہوگا، لیکن تم کیونکہ جہاز کے حادثے کی وجہ سے بُری طرح تھکے ہوئے ہو، اس لئے کچھ دیر آرام کرلو۔ تمہیں بھوک بھی لگی ہوگی، میں تمہارے لئے جنگلی پھلوں کا انتظام کرتا ہوں‘‘۔ جزیرے کے آدمی کی زبان سے نرم لہجے میں نکلنے والے اِن الفاظ نے عبداللہ کے جسم و جان میں نئی روح پھونک دی۔
تھوڑی دیر میں جزیرے کا آدمی تروتازہ جنگلی پھل لے کر آگیا، جن کا ذائقہ مالٹے کی طرح تھا۔ عبداللہ نے اللہ کا نام لے کر اس سے اپنی بھوک مٹائی۔ پھل کھانے سے نڈھال جسم میں توانائی آئی تو عبداللہ نے درخت کے تنے کا سہارا لے کر اُٹھنا چاہا، لیکن کمزوری کی وجہ سے اس کے لئے کھڑا ہونا ممکن نہیں تھا۔ جزیرے کے آدمی نے یہ دیکھ کر ایک جنگلی پودے کے کچھ پتّے دو پتھروں کے درمیان رکھے اور ان کو پیس کر عبداللہ کے منہ میں ڈال دیا۔ جنگلی پودے کے پتوں میں نجانے کیا تاثیر تھی کہ عبداللہ میں بہت جلد اتنی ہمت آگئی کہ وہ درخت کے سہارے کے بغیر اُٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ یہ دیکھ کر جزیرے کے آدمی نے عبداللہ کو اپنے پیچھے آنے کا حکم دیا۔ عبداللہ آہستہ آہستہ چلنے لگا۔ جزیرے کے آدمی نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو دونوں کے درمیان خاصا فاصلہ تھا۔ اس آدمی کو احساس ہوا کہ اسے آہستہ چلنا چاہئے، تاکہ عبداللہ اُس کا ساتھ دے سکے۔ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے وہ تھوڑی دیر میں ایک چبوترے کے پاس پہنچ گئے۔ جس پر مخصوص لباس اور وضع قطع والا آدمی بیٹھا ہوا تھا۔ جزیرے کے آدمی نے اُسے جھک کر سلام کیا اور عبداللہ کے متعلق بتایا۔
عبداللہ نے دیکھا کہ چبوترے کے اردگرد جزیرے کے لوگ خاموشی سے بیٹھے ہوئے تھے اور اپنے سردار کی باتیں خاموشی سے سُن رہے تھے۔ سردار نے عبداللہ کو تیکھی نظروں سے دیکھ کر کہا:
’’ہمارے جزیرے کا ایک دستور ہے کہ یہاں کسی اجنبی کو ٹھہرنے کی اجازت نہیں۔ ہاں ایک شرط ہے کہ وہ جزیرے کے لوگوں کے لئے کوئی مفید کام کرے تو اُسے یہاں ٹھہرنے کی اجازت مل سکتی ہے‘‘۔
’’میں سمندری گھاس سے چٹائیاں بنانا جانتا ہوں۔ جزیرے کے لوگوں کے لئے یہ کام کرسکتا ہوں‘‘۔ عبداللہ نے جواب دیا۔
’’ٹھیک ہے اگر تم جزیرے کے لوگوں کے کام آؤگے تو تم جزیرے میں رہ سکوگے‘‘۔ سردار نے عبداللہ کو جزیرے میں رہنے کی اجازت دیتے ہوئے کہا۔
٭….٭….٭
سردارکے سامنے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جزیرے کے کنارے پر عبداللہ نے چھوٹی سی جھونپڑی بنالی۔ جھونپڑی کے اوپر ایک لمبے بانس پر اپنی پگڑی کا کپڑا اِس اُمید کے ساتھ باندھ دیا کہ سمندری ہوا سے جب یہ جھنڈے کی طرح لہرائے گا تو ممکن ہے تجارتی جہاز سے بچ جانے والے لوگ اُسے تلاش کرتے ہوئے ادھر آنکلیں تو اس جھنڈے کو پہچان کر اُسے جزیرے سے نکال لے جائیں۔ عبداللہ سارا دن سمندر کے کنارے اُگی ہوئی لمبی لمبی گھاس کو خشک کرکے انہیں اتنی صفائی سے دھاگوں سے جوڑتا کہ خوبصورت چٹائی بنتی چلی جاتی۔ جزیرے کے لوگ اگرچہ ایک سردار کے ماتحت تھے، لیکن ہر کسی کا پوجا پاٹ کا طریقہ الگ الگ تھا۔ کوئی صبح سویرے سورج کو سجدہ کررہا ہوتا، کوئی پتھر کی مورتی کی پوجا میں مصروف ہوتا، کوئی آگ کو دیوتا سمجھ کر اُس کے سامنے سر ٹیک رہا ہوتا۔ ایسے میں عبداللہ سب سے جُدا طریقے سے، دن میں پانچ مرتبہ مغرب کی جانب رُخ کرکے کانوں میں اُنگلیاں دے کر آہستہ آواز میں کچھ بول ادا کرتا۔ اس کے بعد چٹائی پر کھڑے ہوکر سینے پر ہاتھ باندھ لیتا۔ کچھ دیر بعد تھوڑا سا جھکتا، اس کے بعد ذرا کھڑے ہوکر، چٹائی پر سر ٹیک دیتا۔ کبھی دو بار اور کبھی چار بار یہ عمل کرنے کے بعد عبداللہ چٹائی پر بیٹھ کر دائیں اور بائیں جانب دیکھتا۔ اس کے بعد ہاتھ اُٹھا کر منہ میں آہستہ آہستہ کچھ پڑھتا اور پھر چہرے پر ہاتھ پھیر کر دوبارہ چٹائیاں بنانے میں مصروف ہوجاتا۔
عبداللہ کی ان حرکات و سکنات نے جزیرے کے ہر آدمی کے دل میں تجسس پیدا کردیا تھا کہ وہ یہ سب کچھ کیا اور کیوں کرتا ہے؟ یہ بات جزیرے کے سردار تک پہنچ گئی۔ ایک دن اُس نے جزیرے کے تمام لوگوں کو اپنے چبوترے کے پاس جمع کیا اور عبداللہ کو حکم دیا کہ وہ بتائے کہ دن میں پانچ بار کیا عجیب و غریب حرکات و سکنات کرتا ہے؟
عبداللہ کے لئے یہ بہت اچھا موقع تھا۔ اُس کی دلی خواہش تھی کہ کبھی کوئی ایسا موقع آئے کہ وہ جزیرے کے لوگوں تک اسلام کا پیغام پہنچاسکے۔ عبداللہ نے جزیرے کے سردار اور تمام لوگوں سے مخاطب ہوکر پوچھا:
’’آپ میں سے جو لوگ آگ کو مقدس سمجھ کر پوجتے ہیں، کیا وہ آگ پانی سے بجھائی نہیں جاسکتی؟‘‘
’’کیوں نہیں پانی سے آگ بجھ جاتی ہے‘‘۔ مجمع میں سے دو تین آوازیں ایک ساتھ بلند ہوئیں۔
’’جب آگ میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ خود کو بجھنے سے بچا سکے تو بھلا وہ آگ آپ لوگوں کے لئے کیا کرے گی؟‘‘ عبداللہ نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔
اس سوال کا جواب آگ کے پجاریوں کے پاس نہیں تھا۔ اس لئے خاموش ہوکر بیٹھ گئے۔ اس کے بعد عبداللہ نے پتھر کی مورتیوں کو پوجنے والوں سے پوچھا:
’’پتھر کی مورتیاں خود اپنے ہاتھ سے بنانا اور پھر اُن کے سامنے سر ٹیکنا کیسا لگتا ہے؟‘‘
’’یہ مورتیاں ہمارے دل کی مرادیں پوری کرتی ہیں‘‘۔
’’اپنے ہاتھ سے بنائی ہوئی پتھر کی مورتیاں، جو نہ دیکھ سکتی ہیں اور نہ سُن سکتی ہیں، جنہیں اُٹھا کر کہیں پھینک دیا جائے تو وہ بے حس و حرکت پڑی رہتی ہیں۔ کیا یہ مورتیاں آپ کے دل کی مرادیں پوری کرسکتی ہیں؟‘‘ عبداللہ کے اس سوال کا جواب بھی کسی سے نہ بن پڑا تو اُس نے درختوں کی پوجا کرنے والوں سے مخاطب ہوکر کہا:’’درخت جسے تم نے دیوتا سمجھ رکھا ہے۔ ایک زوردار آندھی اور طوفان کے ذریعے زمین پر گر سکتا ہے۔ جو خود اپنی حفاظت نہ کرسکے، وہ آپ لوگوں کی کیا حفاظت کرے گا؟‘‘
چاروں جانب خاموشی اور سناٹا چھاگیا۔ کسی نے کبھی اُن لوگوں سے ان کے دیوی دیوتا کے متعلق اس طرح کے سوال پوچھے ہی نہیں تھے، اس لئے کسی سے کوئی جواب نہیں بن رہا تھا۔ آخر جزیرے کے سردار نے خاموشی توڑتے ہوئے عبداللہ سے پوچھا:
’’اب تم بتاؤ، کس چیز کی پوجا کرتے ہو؟‘‘
یہ سُن کر عبداللہ نے اپنی بات کا آغاز اس طرح کیا: ’’میں اُس عظیم ہستی کی پوجا کرتا ہوں، جس نے یہ زمین، آسمان، چاند ستارے، آگ، پانی، ہوا، پہاڑ، درخت اور سب کچھ بنایا ہے۔ وہ عظیم ہستی اللہ تعالیٰ ہے۔ جس نے خود ہمیں بھی پیدا کیا ہے اور اس کائنات کی ہر چیز اُس کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ اس لئے میں اُس کی پوجا کرتا ہوں۔ صبح ہو، دوپہر ہو، شام ہو یا رات کا وقت ہو، پانچ بار اُسی کے سامنے سر جھکاتا ہوں۔ دُعا کے لئے ہاتھ اُٹھاتا ہوں اور۔۔۔‘‘
عبداللہ کی بات جاری تھی کہ سردار نے تجسس سے پوچھا: ’’جس کی تم پوجا کرتے ہو، وہ کہاں ہے اور اس سے کس طرح ملاقات ہوسکتی ہے؟‘‘
’’اللہ تعالیٰ نظر آنے والی ہستی نہیں ہے، اگرچہ وہ ہر جگہ، حتیٰ کہ ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے‘‘۔ عبداللہ نے بتایا۔
’’جب ہم اللہ تعالیٰ کو دیکھ نہیں سکتے، ملاقات نہیں کرسکتے تو یہ سارے کام جو تم کرتے ہو، تمہیں کس نے بتائے اور سمجھائے ہیں؟‘‘ سردار نے اُلجھے ہوئے انداز میں پوچھا۔
اِس دنیا اور پوری کائنات کا خالق و مالک، جسے ہم اللہ تعالیٰ کہتے ہیں۔ اُسے نہ ہم دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی اُس کی آواز سُن سکتے ہیں۔ اس نے جب انسانوں کو پیدا کیا تو اُن کی ہدایت و رہنمائی کے لئے انہی میں سے اعلیٰ اخلاق و کردار والے منتخب افراد کو اپنا نمائندہ بنایا۔ ان کو ہم نبی، رسول اور پیغمبر کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے احکامات اور تعلیمات انہی کے ذریعے لوگوں تک پہنچائی ہیں‘‘۔ عبداللہ نے تفصیل سے بتایا۔
’’جب ہم تمہارے اللہ کو نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ سُن سکتے ہیں تو اُس کے نمائندوں ہی کی باتیں ہمیں بتائیں‘‘۔ سردار نے عبداللہ کی گفتگو میں دلچسپی لیتے ہوئے کہا۔
’’میں آپ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے ان سب نمائندوں کی باتیں تو نہیں بتا سکوں گا، البتہ اِس دنیا اور تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجے جانے والے آخری نبی، جو تمام انبیاء کے سردار بھی ہیں، اُن کی کہانی سناؤں گا‘‘۔ عبداللہ نے سردار کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ہمیں اپنے آخری نبیﷺ کی کہانی ضرور سنائیں‘‘۔ سردار اور دوسرے لوگوں نے یک زبان ہوکر کہا۔
’’یہ کہانی اتنی مختصر نہیں کہ آج ہی مکمل ہوجائے۔ اس کو سنانے کے لئے کئی دن لگیں گے‘‘۔ عبداللہ نے بتایا۔
’’ہم اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر ہر روز ایک آدھ گھنٹہ یہ کہانی ضرور سنیں گے‘‘۔ سردار نے فیصلہ کن انداز میں جواب دیا۔
’’یہ کہانی اتنی سچی اور پیاری ہے کہ میں زندگی بھر سناتا رہوں اور آپ لوگ سنتے رہیں تو پھر بھی ختم نہ ہو۔ لیکن میں اس سچی اور پیاری کہانی کے خاص خاص واقعات کو مختصر طور پر بیان کروں گا، تاکہ اسے چند روز میں مکمل کرسکوں۔ یہ کہہ کر عبداللہ نے کہانی اس طرح شروع کی:
’’اِس کہانی کا آغاز ایسے جزیرے سے ہوتا ہے، جس کے تین طرف سمندر ہے۔۔۔‘‘ عبداللہ نے ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ ایک آدمی نے درمیان میں ٹوک کر کہا: ’’ہمارے جزیرے کے تو چاروں طرف سمندر اور پانی ہی پانی ہے‘‘۔
’’کہانی خاموشی سے سنو۔ درمیان میں نہ ٹوکو‘‘۔ سردار نے آدمی کو سخت لہجے میں کہا۔
’’میں بتا رہا تھا کہ‘‘۔۔۔ عبداللہ نے دوبارہ بات شروع کرتے ہوئے کہا: ’’تین طرف سمندر والے اس جزیرے کو جزیرہ نما عرب کہا جاتا ہے۔ اس کے ایک طرف ملک عراق اور شام ہیں، اور دوسری طرف یمن اور مصر کے علاقے ہیں۔ اس جزیرہ نما عرب کے شہر مکہ میں ڈیڑھ ہزار سال پہلے ایک بچہ پیدا ہوا۔22اپریل571عیسوی،9ربیع الاول کو پیر کا دن تھااور موسم بہار کی صبح تھی۔ بچے کی پیدائش سے پہلے اُس کے باپ کا انتقال ہوچکا تھا،البتہ اُس کے دادا زندہ تھے، وہ بچے کو اللہ کے گھر خانہ کعبہ میں لے گئے۔ جب بچے کی عمر سات دن ہوئی تو عقیقے کے لئے جانور ذبح کئے گئے اور بچے کے سر کے بال اُتروائے گئے۔ اُس زمانے میں مکہ شہر کے لوگ اپنے بچوں کی پیدائش کے بعد قریبی گاؤں کے صاف ستھرے اور صحت افزا ماحول میں پرورش کے لئے بھیج دیتے تھے۔ اس بچے کو قبیلہ بنو سعد کی خاتون حلیمہ سعدیہ نے گود لے کردوسال دودھ پلایا۔ اس کے بعد وہ بچے کو مکہ لے کر آئیں تو اُس کی والدہ نے حلیمہ سعدیہ کی خواہش پراُسے دوبارہ گاؤں کے پُرفضا ماحول میں بھیج دیا۔ اس دوران ایک عجیب واقعہ رونما ہوا۔ ایک دن وہ بچہ، حلیمہ سعدیہ کے بچوں کے ساتھ جنگل میں گیا ہوا تھا کہ اچانک دو فرشتے انسانوں کی شکل و صورت میں ظاہر ہوئے، انہوں نے بچے کے سینے سے دل کو نکالا۔ اُسے دھو کر صاف کیا اور پھر سینے میں بند کردیا۔۔۔‘‘
’’یہ کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘ کئی آوازیں ایک ساتھ اُبھریں۔
’’جس عظیم ہستی اللہ نے ہمیں پیدا کیا ہے، اُس کے لئے ایسا کرنا بالکل مشکل نہیں ہے‘‘۔ عبداللہ یہ کہہ کر کچھ دیر کے لئے خاموش ہوگیا۔
’’اِس کے بعد کیا ہوا؟‘‘ سردار نے عبداللہ کو متوجہ کرتے ہوئے کہا۔
’’حلیمہ سعدیہ کے بچوں نے یہ دیکھا تو وہ بہت ڈرے۔دوڑ کر حلیمہ سعدیہ کے پاس آئے اور کہنے لگے’’مکہ سے آنے والے بچے کو قتل کر دیا گیا۔‘‘گھر کے افراد فوراً وہاں پہنچے۔انہوں نے دیکھا کہ بچے کا رنگ اُڑا ہوا تھا۔ لیکن یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک معجزہ تھا۔۔۔‘‘ عبداللہ نے یہاں تک کہا تھا کہ ایک آدمی نے پوچھا: ’’یہ معجزہ کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’ہر آدمی درمیان میں روک کر عبداللہ سے بات نہ پوچھے۔ جو بات سمجھ میں نہ آئے تو میرے علاوہ آپ میں سے پانچ لوگ، راکو ،باکو، شاکو،ساگو اور تاکو پوچھ لیا کریں۔ باقی لوگ خاموشی سے کہانی سنیں‘‘۔
سردار نے جیسے ہی اپنی بات مکمل کی، عبداللہ نے بتانا شروع کیا: ’’معجزہ اس انوکھے واقعے کو کہا جاتا ہے جس میں انسان کی اپنی کوشش اور ارادے کا عمل دخل نہیں ہوتا، بلکہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اُس کے کسی برگزیدہ بندے کے ہاتھوں ظاہر ہوتا ہے اور اتنانرالا ہوتا ہے کہ بڑے سے بڑا عقل مند انسان بھی اُس کو سمجھ نہیں سکتا کہ وہ کس طرح رونما ہوا‘‘۔
’’اِس معجزے کے علاوہ حلیمہ سعدیہ کا گھرانا، جو بہت غریب تھا۔ اس بچے کی وجہ سے ان کے گھر میں خوشحالی آگئی۔ حلیمہ سعدیہ نے مزید دو سال پرورش کرنے کے بعد چار سال کی عمر میں بچے کو مکہ آکر اُس کی ماں کے حوالے کردیا۔ بچے کی ماں نے حلیمہ سعدیہ کو بہت دعائیں دیں کہ اُس نے بچے کی بہت اچھے طریقے سے دیکھ بھال کی ہے۔
جب بچے کی عمر چھ سال ہوئی تو اُس کی والدہ کے دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی کہ بچے کو اس کے باپ کی قبر دکھائی جائے۔ اصل میں وہ خود بھی چاہتی تھیں کہ یثرب میں اپنے مرحوم شوہر کی قبر پر جائیں۔ یثرب، جو بعد میں مدینہ منورہ کہلایا۔ وہاں سے مکہ واپسی کے دوران ابواء کے مقام پر بچے کی والدہ بیمار ہوگئیں اور وہیں اُن کا انتقال ہوگیا۔۔۔‘‘ عبداللہ نے ابھی اتنا کہا تھا کہ سردار کے منہ سے بے اختیار نکلا: ’’بے چارہ معصوم بچہ! پیدائش سے پہلے باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا اور صرف چھ سال کی عمر میں ماں بھی اِس دنیا سے چلی گئی‘‘۔
’’یہی نہیں، بلکہ جب وہ بچہ، ماں کی خادمہ اُمِ ایمن کے ساتھ واپس مکہ پہنچا تو تھوڑے ہی عرصے بعد بچے کو دل و جان سے پیار کرنے والے دادا کا بھی انتقال ہوگیا‘‘۔ عبداللہ نے بتایا۔
’’پھر کیا ہوا؟ ماں اور دادا کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد بچے کو کس نے پالا؟‘‘ شاکو نے افسوس بھرے لہجے میں پوچھا۔
’’ماں اور دادا کے بعد چچا ابو طالب نے بچے کو بہت اچھے طریقے سے پالنا شروع کیا۔ مکہ کے لوگ اپنے بچوں کو سخت جان بنانے اور آئندہ کی سختیوں اور مشکلات کو برداشت کرنے کی تربیت دینے کے لئے، انہیں مکہ کے گرد و نواح میں بکریاں چرانے کے لئے بھیج دیا کرتے تھے۔ گھاس پھوس چرنے والے تمام جانوروں میں سب سے چالاک اور پھرتیلا جانور بکری ہے۔ ہمارے ہاں بکری کے متعلق مشہور ہے کہ اگر کوئی غم، فکر اور پریشانی نہ ہو تو بکری پال لو۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ بکری ایک پَل میں یہاں اور دوسرے پَل میں کہیں دوسری جگہ ہوتی ہے۔ اِس لئے بکریاں پالنا بہت مشکل اور مشقت والا کام ہے۔ چچا ابو طالب نے بچے کی تربیت کے لئے اس طریقے کو اپنایا، تاکہ آنے والے دنوں میں اُن کا پیارا بھتیجا ہر قسم کے گرم سرد اور مشکل حالات کو ثابت قدمی سے برداشت کرسکے‘‘۔
’’کیا اس بچے کے ساتھ بچپن میں کوئی انوکھا واقعہ بھی پیش آیا؟‘‘ راکو نے پوچھا۔
’’ابو طالب تجارت کے لئے شام جایا کرتے تھے۔اِ س مرتبہ جانے لگے تو بچے کی جُدائی کا غم ستانے لگا۔انہوں نے بچے کو ساتھ لے جانے کا فیصلہ کیا،چنانچہ اس بچے نے تجارتی قافلے کے ساتھ ملک شام کی طرف پہلا سفر کیا۔شہربُصریٰ میں عیسائیوں کے پادری’’بحیرا‘‘نے قافلے میں اس بچے کودیکھا تو اسے بازو سے پکڑ لیااور بولا:’یہ دنیا کے سردار ہیں۔اللہ انہیں تمام جہانوں کے لئے رحمت بنائے گا۔‘
لوگوں نے بڑی حیرانی سے پوچھا:’تمہیں کیسے پتا چلا؟‘
اُس نے جواب دیاکہ’جب تم لوگوں کا قافلہ گھاٹی کے اِس طرف آیا تو ہر ایک پتھر اور درخت سجدے کے لئے جھک گیا اور یہ دونوں چیزیں نبی کے علاوہ کسی اور انسان کو سجدہ نہیں کرتیں۔‘
پھر اس نے قافلے کی دعوت کی اور ابو طالب سے کہا:’اس بچے کو یہیں سے واپس بھیج دیں کیوں کہ یہودیوں اور رومیوں سے اس کی جان کو خطرہ ہے۔‘
ابو طالب نے جب یہ سنا تو بچے کو مکہ واپس بھجوا دیا۔‘‘
’’یہ تو واقعی بڑا انوکھا واقعہ ہے۔بچے کے بچپن کا کوئی اور واقعہ بھی ہے؟‘‘تاکو نے کہا۔
’’میرا خیال ہے کہ آج اتنا ہی کافی ہے۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ یہ کل سناؤں گا‘‘۔ عبداللہ نے کہا۔
٭….٭….٭
پتھر کا فیصلہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موسم خوشگوار تھا۔ رات کی بارش سے ہر چیز نکھری نکھری نظر آرہی تھی۔ جزیرے کے سب لوگ، سردار کے ساتھ عبداللہ کا انتظار کررہے تھے، جو ساحل سمندر پر اپنی جھونپڑی سے یہاں پہنچنے والا تھا۔ عبداللہ نے آتے ہی فضا میں ہاتھ بلند کیاتو سب لوگ ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔
عبداللہ نے لوگوں کی حیرانی دور کرتے ہوئے بتایا کہ ’’فضا میں ہاتھ بلند کرنے سے میرا مقصد آپ کا حال دریافت کرنا تھا‘‘۔ یہ سننا تھا کہ سب لوگوں نے جواب میں سر ہلایا کہ وہ خیریت سے ہیں۔ سردار نے عبداللہ کو چبوترے پر اپنے قریب بیٹھنے کے لئے کہا۔ عبداللہ نے چبوترے پر بیٹھتے ہی اپنی بات کا آغاز کیا:
’’بارہ سال کا بچہ وقت گزرنے کے ساتھ بڑا ہونے لگا۔ بچپن سے جوانی کا سفر عام طور پر بڑا خطرناک ہوتا ہے۔ مکہ شہر کا ماحول ایسا تھا کہ ہر فرد کے لئے گناہ اور بُرائی کے دروازے کھلے ہوئے تھے۔ بُرے کام، کھلے عام کرکے فخر کیا جاتا تھا۔ ایسے ماحول میں اس نوجوان نے ہر قسم کی برائیوں سے دُور رہ کر صاف ستھری اور پاکیزہ زندگی کو اختیار کی۔ مصیبت زدہ کی مدد کرنا، ہر حال میں سچ بولنا، وعدے کو ہر قیمت پر پورا کرنا، سب کی خیر خواہی چاہنااور ہر اچھے کام میں دوسروں کے ساتھ تعاون کرنا اُس نوجوان کا معمول بن گیا۔ اُسے جہاں کہیں ایسا موقع نظر آتا جس میں مظلوم وبے کس افراد کی مدد کے لیے آواز بلند کی جارہی ہوتی،وہ اُس میں شریک ہو جاتا۔’حلف الفضول‘کی تنظیم میں بھی یہ نوجوان شریک تھا۔ اس تنظیم کو مکہ کے بڑے بڑے قبائل کے سرداروں نے قائم کیا تھا، جس کا مقصد یہ تھا کہ قبائل کو آپس میں لڑنے سے روکا جائے۔ کمزور لوگوں کو ظالموں کے ظلم سے بچایا جائے۔ اس تنظیم کی بنیاد قبیلہ جرہم کے تین سرداروں فضل بن وداعہ، فضل بن فضالہ اور فضل بن حارث نے رکھی تھی۔ لفظ فضل چونکہ ان تینوں سرداروں کے نام کا حصہ تھا۔ اس لئے لوگوں نے اسے حلف الفضول کا نام دیا۔ حلف وعدے کو کہتے ہیں اور فضول اس لئے کہا گیا کہ فضل نام کے تین سرداروں نے یہ حلف اُٹھایا تھا۔ ان تینوں سرداروں نے جس بات پر حلف لیا، وہ یہ تھی کہ ہم کسی پر ظلم نہیں ہونے دیں گے۔ جس پر ظلم کیا جائے گا اُس کی مدد کریں گے اور ظالم کو سزا دیں گے۔ یہ اُس زمانے کا حلف تھا جب قبیلہ جرہم مکہ میں زمزم کے چشمے کے آس پاس آباد ہوا۔ وقت گزرنے کے ساتھ حلف الفضول ماضی کا حصہ بن گیا۔ اس حلف پر دوبارہ عمل کرنے کا خیال اُس وقت آیا جب مکہ شہر کے لوگوں نے ایک بار پھر ظلم و ستم کا بازار گرم کردیا تھا‘‘۔
’’مکہ کے لوگوں نے کس قسم کا ظلم و ستم شروع کردیا تھا؟‘‘ شاکو نے سوال کیا۔
’’غریب اور بے بس لوگ تو ایک طرف، دوسرے شہروں سے آنے والے سوداگر بھی مکہ کے لوگوں کے ظلم و ستم سے محفوظ نہیں تھے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ۔۔۔‘‘عبداللہ نے شاکو کے سوال کا جواب دیتے ہوئے بتانا شروع کیا:’’ قبیلہ بنو زبید کا ایک سوداگر سامانِ تجارت لے کر مکہ شہر آیا۔ مکہ کے ایک سردار عاص بن وائل نے اُس سوداگر سے کچھ سامان خریدا، لیکن قیمت ادا کرنے سے انکار کردیا۔ اِس کھلی بے انصافی پر سوداگر نے دوسرے قریشی سرداروں سے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ عاص بن وائل سے میرے سامان کی قیمت دلوائی جائے۔ لیکن قریشی سرداروں نے اُس کی فریاد اور مطالبے پر کوئی دھیان نہ دیا۔اُ س آدمی نے پہاڑ پر چڑھ کردرد بھرے اشعارپڑھے تو مکہ کے اس نیک دل نو جوان کے چچازبیر نے کوشش کی اور ایک قریشی سردار عبداللہ بن جُدعان سے مشورہ کرکے عاصم بن وائل سے سوداگر کے مالِ تجارت کی قیمت وصول کرکے اُسے دینے کا فیصلہ کیا۔ اس کام میں مکہ شہر کے کچھ اور اچھے لوگوں کو بھی اپنے ساتھ ملالیا گیا۔
اس مقصد کے لئے سب سے پہلے سردار عبداللہ بن جدعان کے گھر پر اجلاس ہوا۔ جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ جس طرح قبیلہ بنو جرہم نے برائیوں کے خاتمے کے لئے حلف الفضول کے نام سے تنظیم بنائی تھی، ہمیں بھی اسی طرح کی تنظیم بنانی چاہئے اور یہ حلف اُٹھانا چاہئے کہ کسی شخص کے ساتھ بے انصافی نہیں ہونے دیں گے۔ اس اجلاس میں اُس نوجوان نے بھرپور شرکت کی اور دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر یہ عہد کیا کہ اگر کوئی کسی کو ناحق ستائے گا تو مظلوم کو ظلم سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی‘‘۔
’’نئے سرے سے قائم ہونے والی تنظیم ’’حلف الفضول‘‘ میں بھی فضل نام کے لوگ شامل تھے؟‘‘ تاکو نے پوچھا۔
’’مزے کی بات یہ ہے کہ نئے سرے سے بننے والی تنظیم حلف الفضول میں شامل لوگوں میں سے کسی کا نام بھی فضل نہیں تھا۔ لیکن انہوں نے ماضی کی اچھے مقاصد کے لئے قائم ہونے والی تنظیم کی یاد میں اس کا نام حلف الفضول ہی رکھا۔ اس تنظیم کے قائم ہونے سے سوداگر زبیدی کی رقم ہتھیا لینے والے عاص بن وائل سے اُ س کے سامانِ تجارت کی ساری رقم لے کر دی گئی۔
اس طرح ہر معاملے میں امانت و دیانت اور بھلائی و نیکی کے ہر کام میں آگے رہنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ مکہ شہر میں ہر کوئی اس نوجوان کو صادق اور امین کہہ کر پکارنے لگا۔۔۔‘‘ عبداللہ ذرا سانس لینے کے لئے رُکا تو راکو نے پوچھا ’’پھر کیا ہوا؟‘‘
’’پھر یہ ہوا کہ ۔۔۔ ‘‘عبداللہ نے بتانا شرع کیا: ’’مکہ شہر میں قریشی خاندان کی بہت امیر، لیکن بیوہ خاتون خدیجہ بنت خویلد رہتی تھیں۔ وہ بہت عقلمند اور نیک خاتون تھیں۔ اس لئے ہر کوئی انہیں طاہرہ یعنی پاکیزہ کہتا تھا۔ خدیجہ بنت خویلد، مختلف سوداگر وں کے ذریعے سامانِ تجارت دوسرے ممالک میں بھجواتی تھیں۔ جب وہ واپس آتے تو اپنا منافع رکھنے کے بعد لوگوں کو اُن کا حصہ دے دیتی تھیں۔
جب خدیجہ بنت خویلد کو مکہ شہر میں موجود صادق و امین کہلانے والے نوجوان کا پتا چلا تو انہوں نے انہیں پیغام بھیجا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اُن کا سامانِ تجارت لے کر دوسرے ملک جائیں‘‘۔
’’کیا نوجوان نے خدیجہ بنتِ خویلد کا سامانِ تجارت دوسرے ملک لے جانے کی پیشکش قبول کرلی؟‘‘ تاکو نے پوچھا۔
’’ہاں نوجوان نے خدیجہ بنت خویلد کا سامانِ تجارت، ملک شام لے جانا قبول کرلیا۔ تجارتی قافلہ روانہ ہوا تو خدیجہ نے اپنے خادم خاص’ میسرہ‘ کو ہمراہ بھیج دیا۔ میسرہ دورانِ سفر اور سامان کی فروخت کے موقع پر نوجوان کے تمام معاملات کا بغور جائزہ لیتا رہا۔ اُس نے دیکھا کہ اس بار اُس کی مالکہ خدیجہ بنتِ خویلد کے سامانِ تجارت پر دوسرے سوداگروں کے مقابلے میں بہت زیادہ منافع ہوا ہے۔ میسرہ نے سفر سے واپس آکراِس نوجوان کے اوصاف اور حرکات و سکنات سے اپنی مالکہ خدیجہ بنت خویلد کو آگاہ کیا‘‘۔
’’کیا مکہ شہر کی اس امیر خاتون نے اس نوجوان کی امانت و دیانت سے خوش ہوکر اُسے ضرورت سے زیادہ منافع دیا؟‘‘ باکو نے سوال کیا۔
’’خدیجہ بنت خویلد، نوجوان کی امانت و دیانت سے اس قدر متاثر ہوئیں کہ زیادہ منافع تو ایک طرف، خود کو اس نوجوان کے حوالے کرنے کا فیصلہ کرلیا، اور۔۔۔‘‘
’’کیا مطلب۔۔۔؟‘‘ سردار نے حیرت سے پوچھا۔
’’مطلب یہ کہ ۔۔۔‘‘ عبداللہ نے بتانا شروع کیا:’’ خدیجہ بنتِ خویلد، نوجوان کے اخلاق و کردار اور امانت و دیانت سے اتنی متاثر ہوئیں کہ انہوں نے اپنی ایک سہیلی کے ذریعے نوجوان سے شادی کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ نوجوان کو جب یہ پیغام ملا تو اس نے اپنے چچا ابوطالب سے مشورہ کی۔ چچا کے مشورے سے نوجوان نے رشتہ منظور کرلیا اور مکہ شہر کی اس محترم خاتون سے شادی ہوگئی۔ شادی کے وقت نوجوان کی عمر پچیس سال اور خدیجہ بنتِ خویلد کی عمر چالیس سال تھی‘‘۔
’’مکہ کی سب سے دولت مند خاتون سے شادی کے بعد تو نوجوان کے وارے نیارے ہوگئے ہوں گے۔ عیش و عشرت کا سلسلہ شروع ہوگیا ہوگا؟‘‘ شاکو نے خیال ظاہر کیا۔
’’وہ نوجوان جو ابتدائی عمر میں پورے شہر میں نیک اور صادق و امین کے طور پر مشہور ہو، وہ بھلا نیکی اور بھلائی کے کاموں کو چھوڑ کر عیش و عشرت میں کیسے مبتلا ہوسکتا تھا۔ اس نوجوان نے شادی کے بعد نیکی کے کاموں میں اور بھی زیادہ حصہ لینا شروع کردیا۔
اگر کوئی بااثر شخص کسی غریب آدمی کو تنگ کرتا یا زیادتی کرتا تو یہ نوجوان اُس غریب آدمی کی ہر ممکن مدد کرتا۔ بیوہ عورتوں کو بازار سے سودا سلف لاکر دیتا اور ان کے گھر کے دوسرے کام بھی خوشی سے کرتا۔ یہ نوجوان دانائی اور عقل مندی میں بھی اہلِ مکہ میں سب سے ممتاز تھا۔ عبداللہ نے بتایا۔
’’اس بات کا اندازہ کس طرح ہوتا ہے کہ جوان دوسرے لوگوں سے زیادہ عقل مند اور داناتھا؟‘‘ تاکو نے پوچھا۔
’’صرف ایک واقعے سے آپ لوگ اِس جوان کی ذہانت و عقل مندی کے قائل ہوجائیں گے۔ واقعہ اس طرح ہے۔۔۔‘‘ عبداللہ نے بتانا شروع کیا:
’’مکہ خشک پہاڑوں کے درمیان گھرا ہوا شہر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اُس کے نیک بندے اور پیغمبر ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کے ذریعے عبادت کے لئے مکہ میں اللہ کا گھر بنایا، جسے خانہ کعبہ کہتے ہیں۔ خانہ کعبہ شہر کے درمیان میں نشینی علاقے میں تھا۔ اس لئے جب کبھی بارشوں سے سیلاب آتا تو سارا پانی خانہ کعبہ کے اردگرد جمع ہوجاتا، جس سے اس کی عمارت کو نقصان پہنچتا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ خانہ کعبہ کی عمارت سیلابوں کی وجہ سے اتنی کمزور ہوگئی کہ کسی وقت بھی گرسکتی تھی۔ اس لئے مکہ شہر کے سرداروں نے خانہ کعبہ کو نئے سرے سے تعمیر کرنے کا پروگرام بنایا۔ تعمیر کا کام شروع ہوا تو سب لوگوں نے اس میں جوش و خروش سے حصہ لیا۔ یہاں تک کہ عمارت مکمل ہوگئی۔ اب صرف ایک خاص کام باقی رہ گیا۔ وہ کام مقدس پتھر، حجرِ اسود کو خانہ کعبہ کی دیوارمیں نصب کرنے کا کام تھا۔۔۔‘‘ عبداللہ ذرا سانس لینے کے لئے رُکا تو باکو نے فوراً پوچھا: ’’ساری عمارت مکمل ہونے کے بعد ایک پتھر کو عمارت میں لگانا کون سا مشکل کام تھا‘‘۔
’’حجرِ اسود کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام خانہ کعبہ کی تعمیر کررہے تھے تو یہ پتھر جنت سے خانہ کعبہ کی دیوار میں لگانے کے لئے بھیجا گیا۔ اس لئے اسے مقدس سمجھا جاتاہے۔ مکہ شہر کے ہر قبیلے کا سردار چاہتا تھا کہ وہ اس پتھر کو اپنے ہاتھوں سے خانہ کعبہ کی دیوار میں نصب کرے۔اِس بات پر جھگڑااِتنا بڑھا کہ لوگوں نے آپس میں لڑنے کے لیے تلواریں نکال لیں۔ اس نازک موقع پر مکہ کے ایک بزرگ سردار ابو امیّہ بن مغیرہ مخزومی نے مشورہ دیا کہ کل صبح سویرے جو شخص سب سے پہلے خانہ کعبہ میں داخل ہو، اُس کواِس مسئلے کے حل کے لئے کہا جائے۔ سب لوگوں نے بوڑھے سردار کی بات مان لی اور اگلے روز صبح ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ تمام لوگوں نے دیکھا کہ صبح سویرے سب سے پہلے خانہ کعبہ میں داخل ہونے والا وہی جوان تھا، جسے سب لوگ صادق اور امین کے نام سے پکارتے تھے۔ نوجوان نے مسئلے کے حل کے لئے مقدس پتھر بڑی سی چادر کے درمیان میں رکھا اور تمام سرداروں سے کہا کہ وہ چادر کو اُٹھا کر خانہ کعبہ کی اس دیوار کے پاس لے کر جائیں، جہاں اُسے نصب کرنا ہے۔ جب مقدس پتھر مقررہ جگہ پر پہنچا تو اس نوجوان نے اپنے ہاتھوں سے حجر اسود کو وہاں نصب کردیا۔ اس طرح مکہ شہر بہت بڑے خون خرابے سے بچ گیا‘‘۔
’’اس کے علاوہ بھی کوئی خاص کام نوجوان نے انجام دیا؟‘‘ راکو نے پوچھا۔
’میرے خیال میں آج کہانی یہیں ختم کرتے ہیں، کل آپ لوگوں کو مزید تفصیلات سے آگاہ کروں گا‘‘۔ یہ کہتے ہوئے عبداللہ چبوترے سے اُتر کر اپنی جھونپڑی کی طرف چل دیا۔
٭….٭….٭
آزمائش کے دن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورج پوری آب وتاب سے چمک رہا تھا۔سمندر کی ٹھنڈی ہواکی وجہ سے گرمی کا احساس نہیں ہو رہا تھا۔جزیرے کے لوگ عبد اللہ سے کہانی سننے کے لیے جمع ہو رہے تھے۔تھوڑی دیر میں عبداللہ اپنی جھونپڑی کی طرف سے آتا ہوا دکھائی دیا۔اسی دوران میں سردار بھی چبوترے پر اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھ چکا تھا۔
عبداللہ نے آتے ہی فضا میں ہاتھ بلند کیاتو لوگوں نے حیرت کا اظہار نہیں کیا، کیونکہ گزشتہ روز عبداللہ نے انہیں اس کا مطلب بتادیا تھا۔
عبداللہ نے چبوترے پر سردار کے قریب بیٹھتے ہی کہانی کا آغاز اس طرح کیا:
’’حلف الفضول کے قیام کے بعد جوان، نیکی اور بھلائی کے کاموں میں حسبِ معمول مصروف تھا۔بلکہ خدیجہ جیسی امیر کبیر خاتون سے شادی کے بعد تو خود کو اچھائی اور بھلائی کے کاموں میں اور زیادہ مصروف کرلیا۔
جوان جب کبھی اپنے اردگرد کے ماحول کا جائزہ لیتا تو اُسے چاروں جانب خرابیوں اور برائیوں کا احساس ہوتا۔شراب نوشی،بت پرستی،جوا اور بے حیائی ان کے معاشرے کالازمی حصہ بن چکے تھے۔وہ یہ تو کہتے تھے کہ اللہ ایک ہے لیکن ساتھ میں بتوں کی پوجا بھی کرتے تھے،انہیں اپنا مشکل کشا اور معبود سمجھتے تھے۔ مکہ شہر سے اِن خرابیوں اور برائیوں کو کس طرح دُور کیا جائے؟ اسی حوالے سے غور و فکر کرنے کے لئے نوجوان مکہ شہر سے چند کلومیٹرکے فاصلے پر ستو اور پانی لے کر ایک غار میں جانے لگا۔ اس غار کا نام ’’حراء‘‘ تھا۔ نوجوان اِس غار میں کئی کئی دن قیام کرکے اپنے اردگرد کے ماحول پر غور و فکر کرتااور سوچتا کہ زندگی کیاہے؟کائنات کیا ہے؟کائنات کیوں تخلیق کی گئی؟سورج،چاند،ستارے اور یہ تمام چیزیں کیسے معرض وجود میں آئیں؟زندگی کا آغاز کیسے ہوا؟یہی وہ دن تھے جب وہ جوان غوروفکرکے ساتھ عبادت کو بھی لازمی سمجھنے لگا تھا۔اس وقت جوان کی عمر چالیس(40)برس کو پہنچ چکی تھی۔
ایک دن کیا ہوا کہ جوان معمول کے مطابق غور و فکر میں مصروف تھا کہ غار کے اندر کسی اور کی موجودگی کا احساس ہوا۔ جوان نے گھبرا کر اِدھر اُدھر دیکھا تو اسی دوران اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے والا فرشتہ جبریل ظاہر ہوا۔ اُس نے آتے ہی جوان سے کہا: ’’پڑھیے!‘‘ جوان نے جواب دیا:’’ میں پڑھنا نہیں جانتا۔۔۔‘‘ عبداللہ کی بات جاری تھی کہ باکو نے جلدی سے پوچھا: جوان پڑھنا نہیں جانتا تھا تو پھر کیا ہوا؟‘‘
’’میں یہی بتانے لگا تھا۔۔۔‘‘ عبداللہ نے اپنی بات دوبارہ شروع کرتے ہوئے کہا:’’ جب جوان نے جواب دیا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا تو اُس فرشتے نے جوان کو سینے سے لگا کر دبایا اور پھر کہا: ’’پڑھیے!‘‘ یہ سوال و جواب تین بار ہوئے۔ اس کے بعد فرشتے نے کہا:
’ پڑھیے! اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا،اُس نے انسان کوایک جمے ہوئے خون سے پیدا کیا۔ پڑھیے!اورآپ کا رب ہی سب سے زیادہ کرم کرنے والا ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا۔اُس نے انسان کو وہ علم سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا‘۔
’’یہ کہہ کر فرشتہ واپس چلا گیا اور جوان۔۔۔‘‘ عبداللہ کی بات جاری تھی کہ سردار نے کہا :
’’میں نے تو کہانی کے شروع کے واقعات سُن کر ہی کہہ دیا تھا کہ یہ کہانی کسی عام آدمی کی نہیں ہوسکتی، یہ تو بھگوان کے کسی اوتار کی کہانی ہے‘‘۔
’’آپ کا اندازہ درست ہے۔ جس جوان کی میں کہانی سنا رہا ہوں، ان کا نام محمدﷺ ہے۔ یہ نام اُن کے دادا عبدالمطلب نے رکھا تھا۔ جبکہ اُن کی والدہ نے ان کا نام احمد رکھاتھا۔ آپ لوگ جان ہی گئے ہیں کہ جس کہانی کا آغاز میں نے بچے سے کیا تھا اور اب اس کی جوانی تک کے حالات و واقعات تک پہنچا ہوں۔ اب کہانی کے دوران اس جوان کو ’’رحمتِ دو جہاںﷺ‘‘ کے نام سے پکاروں گا‘‘۔ عبداللہ نے کہا۔
’’میں نے سُنا ہے کہ مختلف زمانوں اور مختلف علاقوں میں بھگوان کے اوتار آتے رہے ہیں۔ تم جس اوتار کو رحمتِ دوجہاںﷺ کا نام دے رہے ہو، وہ تمہارے لئے تو رحمتِ دوجہاں ہوسکتے ہیں،ہمارے لئے نہیں، کیونکہ ہمارے تو اپنے دیوی دیوتا ہیں، جن سے ہم ہر مشکل میں مدد مانگتے ہیں‘‘۔ سردار نے عبداللہ کو بتایا۔
’’میں نے آپ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے آخری نبی کو رحمتِ دوجہاںﷺ ماننے کے لئے اصرار تو نہیں کیا، میں نے آپ لوگوں کی خواہش اور مطالبے پر رحمتِ دوجہاںﷺ کے حالات و واقعات پر مشتمل سچی کہانی شروع کی تھی۔ اگر آپ اسے مزید سننا نہیں چاہتے تو میں زبردستی نہیں کرسکتا۔ جب تک کوئی بحری جہاز میری مدد کے لئے نہیں آتا، اس وقت تک آپ لوگوں کی شرط کے مطابق سمندری گھاس کی چٹائیاں بنا کر دیتا رہوں گا‘‘۔ یہ کہہ کر عبداللہ چبوترے سے اُترا اور اپنی جھونپڑی کی جانب جانے لگا۔
جزیرے کے سردار اور دوسرے لوگوں کے لئے عبداللہ کا یہ فیصلہ بہت غیر متوقع تھا۔ کچھ لمحے تو انہیں کچھ سمجھ نہ آیا۔ پھر سردار نے راکو سے کہا کہ عبداللہ کو عزت و احترام سے واپس چبوترے پر لے کر آؤ۔ ہم ساری کہانی اطمینان اور سکون سے سنیں گے‘‘۔
سردار اوردوسرے لوگوں کے اصرار پرعبداللہ واپس چبوترے پر آیا تو اس نے دوبارہ کہانی شروع کرتے ہوئے کہا:
’’ فرشتہ جبریل اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا کر واپس چلا گیا تو رحمتِ دوجہاںﷺ پریشانی کے عالم میں گھر آئے اور اپنی بیوی حضرت خدیجہؓ سے فرمایا: ’’مجھے کپڑا اُوڑھادو۔ مجھے کپڑا اُوڑھادو‘‘۔ اس کے بعد غارِ حرا میں رونما ہونے والا سارا واقعہ سنایا۔
حضرت خدیجہؓ نے سارا واقعہ سن کر کہا کہ:’اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا۔آپ رشتے ناتے جورٹے ہیں۔سچ بولتے ہیں۔ناداروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔فقیروں کو اپنی کمائی سے حصہ دیتے ہیں اور ناگہانی مصائب میں مصیبت زدہ لوگوں کی امداد کرتے ہیں‘ اس تسلی آمیز گفتگو کے بعد حضرت خدیجہؓ رحمتِ دوجہاںﷺ کو اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ وہ آسمانی کتاب انجیل کے عالم تھے۔ وہ جانتے تھے کہ اللہ کا آخری نبی دنیا میں آنے والا ہے۔ اس لئے اُس نے رحمتِ دوجہاںﷺ سے غارِ حرا والا سارا واقعہ سننے کے بعد کہا:’آپ تو بڑے خوش نصیب ہیں۔یہ تو وہی فرشتہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام پر نازل کیا تھا۔لیکن یہ بات یاد رکھیں کہ ایک وقت آئے گا جب آپ کی قوم آپ کو جھٹلائے گی۔تکلیفیں دے گی اور آپ کو اپنے آبائی وطن مکہ سے نکال دے گی۔کاش! میں اس وقت تک زندہ رہوں اور آپ کی زبردست مدد کرسکوں‘‘۔
’’کیا ورقہ بن نوفل کی بات سچ ثابت ہوئی؟‘‘ باکو نے پوچھا۔
’’رحمتِ دوجہاںﷺ کے پاس جب دوبارہ فرشتہ جبریل آیا تو اس نے آپ کو اللہ تعالیٰ کا یہ حکم پہنچایا کہ آپ اٹھ کھڑے ہوں اورلوگوں کو تمام معبودوں کو چھوڑ کر صرف ایک اللہ کی بندگی کی طرف بلائیں۔یہ باتیں رحمتِ دوجہاںﷺ نے سب سے پہلے اپنے گھر والوں کو بتائیں، جنہیں سنتے ہی آپ کی بیوی حضرت خدیجہؓ مسلمان ہوگئیں۔ اس کے بعد آپﷺ کے چچازاد بھائی حضرت علیؓ بھی مسلمان ہوگئے۔ حضرت علیؓ کی عمر اس وقت صرف دس سال تھی۔ اسی طرح آپ کے خادم زید بن حارثہ اور قریبی دوستوں میں حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بھی اسلام قبول کرلیا۔
اپنے عزیز و اقارب تک خاموشی سے اسلام کی دعوت پہنچانے کا یہ سلسلہ تین سال تک جاری رہا۔ جس کے نتیجے میں چالیس کے قریب لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ تین سال کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم پر رحمتِ دوجہاںﷺ نے عام لوگوں کو دینِ اسلام کی طرف بلانے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لئے آپﷺ مکہ شہر کے قریب صفا پہاڑ پر تشریف لے گئے اور لوگوں کو پکارا:
’ یا صباحاہ! یا صباحاہ!‘
عربوں کے ہاں یہ معمول تھا کہ جب وہ کوئی خطرہ محسوس کرتے تو لوگوں کو مدد کے لئے اس انداز میں پکارتے تھے۔
مکہ شہر کے لوگ یہ آواز سُن کر صفا کے پاس جمع ہوگئے اور رحمتِ دو جہاںﷺسے بلانے کی وجہ پوچھی۔ آپﷺ نے لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا: ’اگر میں آپ سے یہ کہوں کہ اس پہاڑ کی دوسری جانب دشمن کی فوج حملے کے لئے تیار کھڑی ہے تو کیا تم میری اس بات کو سچ مان لوگے؟‘ یہ سُن کر سب لوگوں نے ایک ساتھ کہا کہ ہم اس بات کو سچ مان لیں گے۔ کیونکہ آپ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔
یہ سُن کر رحمتِ دوجہاںﷺ نے لوگوں سے فرمایا ’خبردار ہوجاؤ کہ میں تمہیں ایک سخت عذاب سے ڈرا رہا ہوں جو بہت جلد آنے والا ہے‘۔
ورقہ بن نوفل نے جس خدشے کا اظہار کیاتھا، اُس کا آغاز ہوگیا۔ رحمتِ دوجہاںﷺ کی بات سُن کر آپ کا چچا ابولہب سخت ناراض ہوا، اس نے آپ کو بہت بُرا بھلا کہا اور سخت غصے میں کہا :
’تیراستیاناس ہو، تم نے ہمیں اس مقصد کے لئے بلایا تھا۔‘
ابولہب ناراض ہوکر دوسرے لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر رحمتِ دوجہاںﷺ کو بُرا بھلا کہتا ہوا چلا گیا۔
’’اتنی معمولی سی بات پر ورقہ بن نوفل کی بات سچ ثابت نہیں ہوتی۔ ابولہب اور دوسرے لوگوں نے سخت لہجے میں باتیں کرنے کے علاوہ اورتو کچھ نہیں کیا‘‘۔ ساگو نے کہا۔
’’میں نے ابھی آپ لوگوں کو بتایا ہے کہ صفا پہاڑ والا واقعہ، ورقہ بن نوفل کے خدشات کا آغاز تھا اختتام نہیں تھا‘‘۔ عبداللہ نے وضاحت کی۔
’’پھر کیا ہوا؟‘‘ تاکو نے بے چینی سے پہلو بدلتے ہوئے پوچھا۔
’’صفا پہاڑ والے واقعے کے بعد اللہ تعالیٰ کے پیغام کو ایک ایک آدمی تک پہنچانے کے لئے رحمتِ دوجہاںﷺ مکہ شہر کی گلیوں اور بازاروں میں کھڑے ہوکر تقریریں کرنے لگے۔ لوگوں کو بُری باتیں چھوڑ کر اچھے کاموں کی طرف بلانے لگے۔ رحمتِ دوجہاںﷺ یہ سب کچھ اہلِ مکہ کی خیر خواہی اور بھلائی کے لئے کررہے تھے۔ انہیں دوزخ کی آگ سے بچانے اور نعمتوں بھری جنت کی طرف لے جانے کی کوشش کررہے تھے، لیکن معاملہ اس کے اُلٹ ہوا۔ مکہ کے لوگ، رحمتِ دوجہاںﷺ کے دشمن بن گئے اور آپ کو اس کام سے روکنے کی کوشش کرنے لگے۔
مکہ کے بااثر سرداروں نے اسی پر بس نہیں کی، بلکہ وہ لوگ جو رحمتِ دوجہاںﷺ کی باتیں سُن کر مسلمان ہوگئے تھے، ان کے بھی سخت خلاف ہوگئے۔ لیکن اس کا اُلٹا اثر یہ ہوا کہ تمام تر سختیوں اور مخالفتوں کے باوجود رحمتِ دوجہاںﷺ کے ساتھیوں میں آہستہ آہستہ اضافہ ہونے لگا۔
یہ دیکھ کر مکہ کے سردار رحمتِ دوجہاںؐﷺکے دل و جان سے دشمن بن گئے۔ اُن کا جی چاہتا تھا کہ وہ آپ ﷺکو قتل ہی کردیں، لیکن وہ آپﷺ کے بہت وسیع اور بااثر خاندان سے ڈرتے تھے۔ کفار مکہ نے سوچا کہ آپﷺ کے چچا ابو طالب نے اسلام قبول نہیں کیا، اس لئے انہیں کہا جائے کہ وہ اپنے بھتیجے کو نیا مذہب پیش کرنے سے منع کریں۔
یہ سوچ کر مکہ شہر کے تمام بڑے بڑے سردار آپﷺ کے چچا ابو طالب کی خدمت میں حاضر ہوکر کہنے لگے:
’ابو طالب! آپ کے بھتیجے نے ہمارے بتوں کو برا بھلا کہا ہے۔ہمارے دین کو حقیر قرار دیا ہے۔ہماری عقلوں کو حماقت زدہ کہا ہے اور ہمارے باپ دادا کو گمراہ قراردیاہے،لہٰذا یا تو آپ انہیں اس سے روک دیں یا ہمارے اور ان کے درمیان سے ہٹ جائیں کیوں کہ آپ بھی ہماری ہی طرح اُن سے مختلف دین پر ہیں۔ہم خود ان سے نپٹ لیں گے۔‘
’’ابو طالب نے مکہ کے سرداروں کو کیا جواب دیا؟‘‘ راکو نے پوچھا۔
’’ابو طالب نے سرداران مکہ کی دھمکی سُن کر اپنے بھتیجے سے کہا ’مجھ پر اتنا بوجھ نہ ڈالو کہ میں اس بوجھ کو اُٹھا نہ سکوں‘‘۔ عبداللہ نے بتایا۔
’’اس کے جواب میں بھتیجے نے کیا کہا؟‘‘ باکو نے پوچھا۔
’’رحمتِ دوجہاںﷺ نے اپنے چچا ابو طالب کو بہت اطمینان اور سکون سے جواب دیا:’ اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر چاند اور دوسرے ہاتھ پر سورج بھی رکھ دیں، پھر بھی وہ کام نہیں چھوڑوں گا، جو کررہا ہوں۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا پیغام چار سُو پھیل جائے یا اسی کوشش میں میری جان چلی جائے‘‘۔ عبداللہ نے بتایا۔
’’کیا ابو طالب نے یہ سُن کر اپنے بھتیجے کو تنہا چھوڑ دیا؟‘‘ ساگو نے پوچھا۔
’’ابو طالب نے سردارانِ مکہ کی دھمکیوں کی پروا کئے بغیر اپنے بھتیجے سے کہا ’’تم جو کام کررہے ہو، شوق سے کرتے رہو، میں ہر حال میں تمہارا ساتھ دوں گا‘‘۔ عبداللہ نے بتایا۔
’’کیا مکہ کے سردار ابو طالب کا یہ جواب سُن کر خاموش ہوگئے اور انہوں نے محمد(ﷺ) کے خلاف محاذ آرائی ختم کردی؟‘‘ یہ سوال تاکو نے پوچھا تھا۔
’’قریشی سردار جن میں ابولہب، ابوجہل، امیہ بن خلف اور عاص بن وائل پیش پیش تھے، وہ رحمتِ دوجہاںﷺکو تو نقصان نہ پہنچا سکے،البتہ اِس کاسارا غصہ بے چارے غریب مسلمانوں پر اُتارنے لگے۔ ان غریب مسلمانوں میں حضرت بلالؓ، حضرت عمار بن یاسرؓ، ان کے والد اور والدہ کو سردارانِ مکہ نے بہت تنگ کیا۔ ظلم و ستم کی انتہا کردی۔ حضرت بلالؓ مکہ کے بہت ہی ظالم سردار امیہ بن خلف کے غلام تھے۔ اسلام قبول کرنے کی وجہ سے امیہ بن خلف حضرت بلالؓ کو سخت دھوپ میں گرم ریت پر لٹا دیتا۔ کبھی پیروں میں رسی باندھ کر آوارہ لڑکوں کے حوالے کردیتا، جو انہیں تپتی ریت اور گلیوں میں گھسیٹتے پھرتے۔ امیہ بن خلف اُن سے کہتا:’ جب تک تم محمد(ﷺ) کا مذہب نہیں چھوڑوگے ،تمہیں اس وقت تک سخت سے سخت سزا دیتا رہوں گا‘‘۔
’’کیا بلالؓ نے اتنی سختیوں اور مصائب کے بعد محمد(ﷺ) کا دین چھوڑ دیا؟‘‘ راکو نے افسوس بھرے لہجے میں پوچھا۔
’’نہیں ایسا نہیں ہوا۔ حضرت بلالؓ نے ہر قسم کی تکلیف اور سختی برداشت کرلی، لیکن محمد(ﷺ) کے لائے ہوئے دین سے منہ موڑنے سے انکار کردیا، یہاں تک کہ رحمتِ دوجہاںﷺ کے بہت اچھے اور گہرے دوست حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت بلال کو امیہ بن خلف سے خرید کر آزاد کردیا‘‘۔ عبداللہ نے جواب دیا۔
’’عمار بن یاسر اور اُن کے والد، والدہ کے ساتھ کیا ہوا؟‘‘ باکو نے پوچھا۔
’’حضرت عمار بن یاسر، ان کے والد حضرت یاسر بن عامر اور والدہ حضرت سُمَیّہ بنِ خُباط مکہ کے قبیلے بنو مخزوم کے سردار ابو حذیفہ کے غلام تھے۔ابو حذیفہ نے انہیں آزاد کر دیا۔ابو حذیفہ کی وفات کے کچھ عرصے بعد رحمت دو جہاں ﷺ نے لوگوں کو اسلام کی طرف بلانا شروع کیاتو حضرت یاسر،حضرت سمیہ اور حضرت عمار بن یاسررضی اللہ عنہم نے اسلام قبول کر لیا۔ابو حذیفہ کے وارثوں کو جب ان تینوں کے متعلق پتا چلاکہ انہوں نے محمد(ﷺ) کا دین اپنا لیا ہے تو انہوں نے اُن پر ظلم و ستم کی انتہا کردی۔ حضرت سمیہ بنتِ خباط عمر رسیدہ خاتون تھیں۔یہ ظالم انہیں لوہے کی زرہ پہنا کر شدید دھوپ میں کھڑا کردیتے۔ دھوپ میں لوہے کی زرہ آگ کی طرح گرم ہوجاتی تو سمیہ بنتِ خباط کو سخت تکلیف ہوتی، لیکن وہ صبر کا دامن نہ چھوڑتیں۔ ظلم و ستم کا یہ سلسلہ جاری تھا کہ ایک دن ابوجہل نے خنجر مار کر حضرت سمیہ بنتِ خباط کو شہید کردیا، اور۔۔۔‘‘ عبداللہ کی بات جاری تھی کہ سردار بے اختیار بول پڑا: ’’یہ کتنے ظالم سردار تھے جو مرد تو ایک طرف، بوڑھی عورتوں پر بھی ظلم و ستم کرنے سے باز نہ آئے‘‘۔
’’ظلم و ستم کا یہ سلسلہ انہی افراد پر ختم نہیں ہوگیا، بلکہ یہ سلسلہ پھیلتا چلا گیا۔ اس کے متعلق میں کل بتاؤں گا‘‘۔ عبداللہ نے گفتگو کو سمیٹتے ہوئے کہا۔
٭….٭….٭
حبشہ کا دربار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سمندر سے آنے والی ہوا بند تھی۔ دھوپ میں خاصی شدت تھی، اس لیے درختوں کی چھاؤں کے باوجود چبوترے اور ارد گرد کی جگہ پر بیٹھے ہوئے لوگ گرمی محسوس کر رہے تھے۔ ایسے میں عبداللہ نے اپنی گفتگو کا آغاز کیا:
’’سرداران مکہ کی جانب سے غریب مسلمانوں کو ہر لحاظ سے تنگ کرنے کا سلسلہ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ رحمت دوجہاںﷺ کا تعلق کیوں کہ قریش کے مشہور اور بااثر خاندان بنو ہاشم سے تھا، اس لیے سرداران مکہ کو خطرہ تھا کہ اگر محمدﷺ کے ساتھ بھی ایسا رویہ رکھا گیا تو ان کا خاندان مرنے مارنے پر تیار ہو جائے گا۔ اس خدشے کے پیشِ نظر انہوں نے ظلم و ستم کے بجائے حرص و لالچ کا داؤ چلانے کا فیصلہ کیا۔‘‘
’’وہ داؤ کیا تھا؟‘‘ تاکو نے پوچھا۔
’’مکہ کے سرداروں نے سوچا کہ محمدﷺ کو ان کے ارادوں سے باز رکھنے کے لیے طرح طرح کے لالچ دیے جائیں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے صلاح مشورہ کرکے عتبہ بن ربیعہ کو آپ کی خدمت میں بھیجا۔ اس نے ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد مطلب کی بات یوں شروع کی:’ محمد (ﷺ)! اگر تم نئے دین کی باتیں نہ کیا کرو اور ہمارے مذہب کو بْرا بھلا کہنا چھوڑ دو تو ہم تمہیں اپنا بادشاہ بنانے کو تیار ہیں۔ اس کے علاوہ مال ودولت چاہتے ہو تو ہم تمہارے لیے دولت کے ڈھیر لگا دیں گے اور اگر کسی عورت سے شادی کرنا چاہو تو مکہ کی سب سے حسین و جمیل عورت سے تمہاری شادی کر دیں گے۔‘‘
’’کیا محمد (ﷺ) نے یہ پیشکش قبول کرلی؟‘‘ راکو نے پوچھا۔
’’نہیں، بالکل نہیں! رحمتِ دو جہاں ﷺ نے عتبہ کی پیشکش کے جواب میں سورہ حٰم ٓالسجدہ کی ابتدائی آیات تلاوت کیں۔ یہ آیات اتنی اثر انگیز تھیں کہ عتبہ سن کر حیران رہ گیا۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا کہ محمد (ﷺ) جو کچھ کہتا ہے، وہ سچ ہے۔ اس لیے وہ سرداران مکہ کے پاس واپس آیا تو اس کے لہجے میں سختی کے بجائے نرمی تھی۔ اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا:
’میں نے ایک ایسا کلام سنا ہے کہ اللہ کی قسم !ویسا کلام کبھی نہیں سنا۔ اللہ کی قسم! نہ وہ شعر ہے، نہ جادو ہے اور نہ کہانت ہے۔ قریش کے لوگو! میری بات مانو اور اس کو اس کے حال پر چھوڑ دو۔‘‘ عبداللہ نے بتایا۔
’’عتبہ کا یہ مشورہ سن کر سرداران مکہ کو سخت غصہ آیا۔ وہ کہنے لگے تم پر بھی اس کی زبان کا جادو چل گیا ہے۔ یہ سن کر عتبہ کہنے لگا:’ اس شخص کے بارے میں میری یہی رائے ہے۔ اب تمہیں جو ٹھیک معلوم ہو، وہ کرو۔‘‘ عبداللہ نے بتایا۔
’’پھر یہ ہوا کہ ۔۔۔‘‘عبداللہ نے بتانا شروع کیا:’’ ایک دن رحمتِ دو جہاں ﷺ خانہ کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے۔ ایسے میں ایک سردار عقبہ بن ابی معیط وہاں آ یا۔ اس نے آپ کو نماز پڑھتے دیکھا تو اپنی چادر اتاری اور اسے رسی کی طرح بل دے کر آپﷺ کی گردن مبارک میں ڈال دی، پھر اسے خوب کستا چلا گیا۔ اس طرح آپ کی گردن خوب کسی گئی لیکن آپ اسی اطمینان سے سجدے میں رہے۔ ایسے میں آپ کے گہرے دوست حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ ادھر آ نکلے۔ یہ منظر دیکھ کر وہ فوراً آگے بڑھے۔ انہوں نے عقبہ کو دھکا دیا اور چادر آپ کے گلے سے ہٹا دی۔اس پر اُس نے رحمتِ دو جہاںﷺ کو چھوڑ کر حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کو پکڑ لیا اور اس قدر مارا کہ وہ بے ہوش ہوگئے۔
اسی طرح ایک دن رحمتِ دو جہاںﷺ خانہ کعبہ میں عبادت میں مصروف تھے کہ سجدے کے دوران میں اسی سردار عقبہ بن ابی معیط نے ابو جہل کے کہنے پر آپ کے کندھوں کے درمیان پیٹھ پر اونٹ کی اوجھڑی ڈال دی جس سے آپ کے کپڑے گندگی سے خراب ہو گئے اور اس کے بوجھ سے سر اٹھانا مشکل ہو گیا۔آپ کی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو پتا چلا، وہ ابھی بچی تھیں، دوڑتی ہوئی آئیں اور گندی اوجڑی کو اپنے ابا جان کی پیٹھ سے ہٹایا اور ساتھ ہی ابوجہل اور اس کے ساتھیوں کو خوب برا بھلا کہا۔ ‘‘
’’مخالفت کا یہ انداز تو بہت برا اور گھٹیا ہے۔‘‘ تاکونے افسوس بھرے لہجے میں کہا۔
’’مخالفت کے اس گھٹیا انداز کو اپنانے کے بعد بھی مکہ کے سردار اسلام کی دعوت کو پھیلنے سے نہ روک سکے تو انہوں نے ایک نیا حربہ اپنانے کا فیصلہ کیا۔‘‘ عبداللہ نے تاکو کے جواب میں بتایا۔
’’یہ حربہ کیا تھا؟‘‘ یہ سوال راکو نے کیا تھا۔
وہ حربہ یہ تھا کہ سرداران مکہ اور اُن کے ساتھیوں میں سے کوئی نہ کوئی رحمت دوجہاںﷺ کے ساتھ سائے کی طرح لگا رہتا۔ جہاں کہیں آپ کسی آدمی کو اچھائی اور بھلائی کی بات بتانے لگتے تو وہ اس موقعے پر شور مچا کر کہنے لگتا:’ اِس کی بات نہ سنو، یہ جادوگر ہے اور یہ تمہیں تمہارے دین سے دور لے جائے گا۔‘‘
’’کیالوگ اہل مکہ کے اس پروپیگنڈے سے متأثر ہوئے اور انہوں نے محمد(ﷺ)کی بات ماننے سے انکار کر دیا؟‘‘ساگو نے پوچھا۔
’’نہیں ، اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈے بھی لوگوں کومحمد ﷺ کی باتیں سننے سے نہ روک سکے بلکہ دن بدن اُن کے ماننے والوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔اِس صورتِ حال سے سردارانِ مکہ مکمل طور پر بوکھلا گئے،چنانچہ انہوں نے فیصلہ کیاکہ جو مردو عورت مسلمان ہو،اُس کو خوب مارا جائے۔اِس فیصلے کے بعد قریش مکہ نے ظلم و ستم کا بازار اور زیادہ گرم کر دیا۔‘‘
’’سردارانِ مکہ کے اِس فیصلے کے بعدمحمد(ﷺ)نے کیا لائحہ عمل طے کیا۔‘‘تاکو نے دریافت کیا۔
’’مکہ کے سردار تو پہلے ہی غریب مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑرہے تھے۔اب جب انہوں نے اس بات کی عام اجازت دے دی تو اہل مکہ نے مسلمانوں کا جینا دوبھر کر دیا۔اِس صورتِ حال سے تنگ آکر رحمت دو جہاں ﷺ نے فیصلہ کیا کہ وہ مسلمان جو مسلسل سردارانِ مکہ کے ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے ہیں،وہ کسی دوسرے ملک میں پناہ لے لیں۔اُس زمانے میں جزیرۂ عرب کے قریب ملک حبشہ میں ایک نیک دل بادشاہ ’اصحمہ نجاشی‘ حکومت کرتا تھا۔اُس زمانے میں حبشہ کے ہر بادشاہ کو نجاشی کہا جاتا تھا،چنانچہ 12 مرداور 4عورتیں مکہ سے ہجرت کرکے حبشہ چلے گئے۔دوسری مرتبہ 83مرداور 18عورتیں مکہ سے حبشہ کی طرف روانہ ہوئے۔اِن میں رحمت دو جہاں ﷺ کے چچا ابوطالب کے بیٹے حضرت جعفر طیارؓ بھی تھے۔‘‘
’’ہجرت سے کیا مراد ہے؟‘‘تاکو نے پوچھا۔
’’ہجرت دراصل اس سفر کو کہتے ہیں جو اپنے ایمان اور دین کی حفاظت کے لئے اپنے گھر بار کو چھوڑ کرکیا جائے۔اللہ تعالیٰ کی جانب سے مسلمانوں کو یہ اجازت ہے کہ اگر وہ کسی ایسی جگہ رہتے ہوں جہاں وہ اپنے دین اور ایمان پر عمل کرنے میں مشکل محسوس کریں تو اس جگہ کو چھوڑ کر کسی ایسی جگہ چلے جائیں جہاں وہ آزادی سے اپنے دین پر عمل کر سکیں۔اپنا وطن چھوڑنے والے ایسے لوگوں کو مہاجر کہا جاتا ہے اور وطن چھوڑنے کو ہجرت کہتے ہیں۔‘‘عبداللہ نے بتایا۔
’’یہ دیکھ کر مکہ کے سردار تو خوش ہوئے ہوں گے کہ ان کے ڈر سے مسلمانوں نے مکہ شہر کو چھوڑنا شروع کر دیا ہے؟‘‘راکو نے عبداللہ سے معلوم کیا۔
’’مکہ کے سرداروں کو جب پتا چلا کہ کچھ مسلمان مرد اور عورتیں ہجرت کرکے حبشہ چلے گئے ہیں اور وہاں امن و سکون کی زندگی گزار رہے ہیں تو انہیں سخت غصہ آیا۔انہوں نے آپس میں مشورہ کرکے فیصلہ کیا کہ اپنے نمائندے حبشہ کے باد شاہ نجاشی کے دربار میں بھیج کر مسلمانوں کو حبشہ سے نکلوایا جائے۔اس مقصد کے لئے انہوں نے عبد اللہ بن ربیعہ اور عمرو بن عاص کو بہت سے تحفے دے کر ملک حبشہ بھیجا۔انہوں نے بادشاہ نجاشی کے دربار میں حاضر ہو کر قیمتی تحفے پیش کئے اور کہا:
’اے باد شاہ!ہمارے کچھ لوگ مکہ شہر سے بھاگ کر آپ کے ملک آگئے ہیں۔انہوں نے ایک نیا دین ایجاد کیا ہے جسے ہم جانتے ہیں نہ آپ۔ہمیں آپ کی خدمت میں اُن کے قبیلے کے بڑے لوگوں نے بھیجا ہے تاکہ آپ انہیں واپس بھیج دیں۔‘‘
’’کیا نجاشی بادشاہ نے مکہ شہر سے ہجرت کرنے والے مرد اور عورتوں کو ان کے ساتھ واپس بھیج دیا؟‘‘باکو نے پوچھا۔
’’نجاشی بہت انصاف پسند بادشاہ تھا۔اس نے عبداللہ بن ربیعہ اور عمرو بن عاص کی باتیں سن کر جواب دیا کہ:’ جب تک میں مکہ سے آنے والے لوگوں سے بات نہ کر لوں،اُس وقت تک انہیں تمہارے حوالے نہیں کر سکتا۔‘
نجاشی نے مکہ سے ہجرت کرکے آنے والوں کو اپنے دربار میں طلب کیا اور پوچھا کہ’ تم لوگوں نے وہ کون سا دین اختیار کر لیا ہے جس کی وجہ سے تمہیں اپنا ملک چھوڑنا پڑ اور تم میرے دین میں بھی داخل نہیں ہوئے۔‘
یہ سن کر اُن سب کی طرف سے رحمت دو جہاں ﷺ کے چچازاد بھائی حضرت طیارؓ نے تقریر کی:
’اے بادشاہ!ہم جاہل تھے،مردار کھاتے تھے،بتوں کو پوجتے تھے۔ہم میں سے جو لوگ طاقت ور تھے،وہ کمزوروں کا حق دبا لیتے تھے۔پڑوسیوں کو تنگ کرنا ہمارا معمول تھا، اُن سے بد سلوکی کرکے ہم خوش ہوتے تھے، دوسروں کی برائیاں کرتے تھے۔رشتے داروں سے تعلق توڑتے تھے۔ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے درمیان اپنا نبی بھیجا جن کا اعلیٰ نسب،سچائی،امانت اور پاک دامنی ہمیں پہلے سے معلوم تھی۔اس نبی نے ہمیں بتایا کہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں،اُس کا کوئی شریک نہیں۔تم اور تمہارے باپ دادا جن بتوں کی پوجا کرتے ہو،انہیں چھوڑ دو۔وہ صرف پتھر کے بت ہیں۔کسی کا نہ کچھ بنا سکتے ہیں اور نہ بگاڑ سکتے ہیں۔یہی نہیں،اُس نے ہمیں سچ بولنے،امانت ادا کرنے،رشتے داریاں قائم کرنے،پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرنے،حرام کاموں سے باز رہنے اور ناحق خون خرابے سے منع کیا۔اِس کے ساتھ ساتھ بے حیائی کے کاموں سے روک دیا۔جھوٹ بولنے ،یتیموں کا مال کھانے اور پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے سے باز کیا۔اس کے علاوہ بھی اسلام کے احکامات سکھائے۔ہم نے اس پیغمبر کو سچا جانا اور اسلام قبول کر لیا۔جب ہم لوگوں نے اتنی اچھی باتوں پر عمل شروع کیا تو مکہ کے سردار اور ان کی ہاں میں ہاں ملانے والے لوگ ہماری جان کے دشمن بن گئے،اس لئے ہم ان کے ظلم و ستم سے بچنے کیلئے آپ کے ملک حبشہ میں پناہ لینے کے لئے آگئے۔اے بادشاہ!ہم تو یہ امید لے کر آئے ہیں کہ یہاں ہم پر ظلم نہیں ہوگا۔‘‘
’’اس کے جواب میں نجاشی نے کیا کہا؟‘‘ساگو نے پوچھا۔
عبد اللہ نے ساگو کے سوال کے جواب میں بتانا شروع کیا:’’نجاشی بادشاہ نے حضرت جعفرؓ بن ابو طالب کی یہ بات سن کر پوچھا:’تمہارے نبی جو کچھ(قرآن مجید) لے کر آئے ہیں،اس میں سے تمہیں بھی کچھ آتا ہے؟‘
حضرت جعفرؓ نے کہا:’ہاں!‘
نجاشی بادشاہ کہنے لگا:’ذرا مجھے بھی پڑھ کر سناؤ؟‘
چنانچہ حضرت جعفرؓ نے قرآن مجید کی سورۂ مریم کی چند آیات تلاوت کیں۔نجاشی بادشاہ حضرت عیسیٰ ؑ کا پیروکار تھااور عربی زبان اچھی طرح جانتا تھا،اس لئے وہ یہ آیات سن کر بہت متأثر ہوااور اس قدر رویاکہ اس کی داڑھی تر ہو گئی،پھرکہنے لگا:’یہ کلام اور وہ کلام جو عیسیٰ ؑ لے کر آئے تھے ،دونوں ایک ہی طاقِ شمع سے نکلے ہوئے ہیں۔‘‘
’’اُن قریشی نمائندوں کا کیا بنا؟‘‘شاکو نے سوال کیا۔
’’نجاشی نے اُن سے کہا:’تم لوگ لوٹ جاؤ۔اللہ کی قسم!میں اِن لوگوں کوتمہارے حوالے نہیں کروں گااور نہ ان کے خلاف کوئی چال چلی جا سکتی ہے۔‘‘عبداللہ نے جواب دیا۔
’’کیا وہ واپس مکہ چلے آئے؟‘‘راکو نے پوچھا۔
’’نہیں وہ مکہ نہیں آئے،دوبارہ لوٹ آئے۔دوسرے دن عمرو بن عاص نے ایک اور تدبیر اختیار کی جو پہلے سے زیادہ خطرناک تھی۔وہ ایک بار پھر نجاشی کے دربار میں حاضر ہوئے اور اُس سے کہا:’اے بادشاہ!آپ ان سے پوچھیں ،یہ عیسیٰ ؑ کے بارے میں ایک بڑی بات کہتے ہیں۔‘
اس پر نجاشی نے مسلمانوں کو بلوایااور عیسیٰ ؑ کے متعلق دریافت فرمایا تو حضرت جعفرؓ نے جواب دیا:’ہمارے نبی ﷺنے ہمیں بتایا ہے کہ عیسیٰ ؑ اللہ کے بندے،اُس کے رسول،اُس کی روح اور وہ کلمہ ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے کنواری پاک دامن مریم ؑ کی طرف بھیجا تھا۔‘
یہ سن کر نجاشی نے فوراً ایک تنکا اٹھایا اور بولا:’اللہ کی قسم!جوکچھ تم نے کہاہے ،اِس سے عیسیٰ ؑ اِس تنکے کے برابر بھی بڑھ کر نہیں تھے۔‘
پھر اُ س نے مسلمانوں سے کہا:’جہاں چاہوامن سے رہو،کسی نے اگر تمہیں گالی دی تو اُ س پر تاوان لگا دیا جائے گا۔مجھے گوارا نہیں کہ میں تم میں سے کسی شخص کو تنگ کروں اور اُس کے بدلے مجھے سونے کا پہاڑ مل جائے۔‘
’’حضرت جعفر(رضی اللہ عنہ)سے گفتگوکے بعد نجاشی نے مکہ کے سرداروں کی جانب سے بھیجے جانے والے نمائندوں عبداللہ بن ربیعہ اور عمروبن عاص کو کیا جواب دیا؟‘‘یہ سوال سردار نے پوچھا۔
’’نجاشی بادشاہ نے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی باتیں سن کر اپنے حاشیہ نشینوں سے کہا :’مکہ کے سرداروں کے نمائندوں کو اُن کے تحفے واپس کرو،مجھے ان کی کوئی ضرورت نہیں ہے، نہ ہم مہاجرین کو ان کے حوالے کر سکتے ہیں۔‘‘
’’جب مکہ کے سرداروں کے نمائندے نجاشی بادشاہ کے دربار سے ناکام و نامراد ہوکر واپس مکہ پہنچے تو پھر کیا ہوا۔‘‘ تاکو نے پوچھا۔
’’وہ دونوں نجاشی بادشاہ کا جواب سن کر اپنا سا منہ لٹکائے واپس چلتے بنے۔ ان کا زور نجاشی پرتو چل نہیں سکتا تھا، البتہ انہوں نے مکہ میں رہ جانے والے مسلمانوں پر سخت ظلم ڈھانے شروع کر دیے۔ ظلم و جبر کا یہ سلسلہ پوری شدت سے جاری تھا کہ مسلمانوں کے لئے دو خوشی بھرے واقعات رونما ہوئے۔‘‘
راکو نے جلدی سے پوچھا ’’وہ خوشی بھرے واقعات کون سے ہیں؟‘‘
’’پہلا واقعہ رحمتِ دو جہاں ﷺ کے چچا حمزہ رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے کا ہے۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ قریش کے سب سے طاقتور اور مضبوط جوان تھے۔ ان کے اسلام قبول کرنے کا سبب یہ بنا کہ ایک روز ابوجہل صفا پہاڑ کے نزدیک رحمت دوجہاں ﷺ کے پاس سے گزرا تو آپ کو تکلیف پہنچانے کے ساتھ برابھلا کہنے لگا۔ آپ خاموش رہے اور اسے کوئی جواب نہ دیا۔ اس بدبخت نے ایک پتھر اٹھا کر آپ کے سر پر دے مارا جس سے آپ کے سر مبارک پر سخت چوٹ آئی اور خون بہنے لگا۔ قریش کے ایک سردار عبد اللہ بن جدعان کی ایک لونڈی صفا پہاڑ پر واقع اپنے مکان سے یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی۔ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شکار کا بہت شوق تھا۔ اس لیے وہ اکثر گھر سے باہر رہتے تھے، چنانچہ جب وہ گھر آئے تو اس لونڈی نے یہ سارا واقعہ انہیں سنایا۔ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ غصے سے بھڑک اُٹھے اور انہوں نے تہیہ کرلیا کہ جوں ہی ابوجہل کا سامنا ہوگا، وہ اس کی مرمت کر دیں گے، چنانچہ وہ ایک لمحہ رکے بغیر دوڑتے ہوئے مسجد حرام میں آئے اور سیدھے ابوجہل کے سر کے پاس کھڑے ہوگئے، اسے بُرا بھلا کہنے کے بعد فرمانے لگے: ’اے بُزدل! تو میرے بھتیجے کو گالی دیتا ہے، آج سے میں نے اس کا دین قبول کرلیا ہے، اگر کر سکتے ہو تو مجھ پر نکتہ چینی کرو۔ اس کے بعد زور سے اس کے سر پر کمان مار کر اس کا سر شدید زخمی کر دیا۔ اس واقعے سے مکے والوں کو سمجھ آگئی کہ رحمت دوجہاں ﷺ کو اب قوت اور حمایت حاصل ہو گئی ہے۔ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اب ضرور اپنے بھتیجے کا دفاع کریں گے، چنانچہ وہ رسول اللہﷺ کو جو تکلیف دیتے تھے اس سے بہت حد تک محتاط ہوگئے۔‘‘
’’خوشی بھرا دوسرا واقعہ کیا ہے؟‘‘ ساگو نے پوچھا۔
’’یہ واقعہ مکہ کے خاندان بنو عدی کے ایک جو ان کے اسلام قبول کرنے کا تھا۔ اس جوان کی بہادری اور شہ زوری کی دھوم اور شہرت پورے عرب میں پھیلی ہوئی تھی۔ وہ جو ان مسلمانوں کی مخالفت میں ہر وقت پیش پیش رہتا تھا۔ یہ جوان حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے صرف تین دن بعد رحمتِ دو جہاں ﷺ کی اللہ تعالیٰ سے کی گئی دعاء کے نتیجے میں مسلمان ہو گیا۔‘‘
’’اس جوان کانام کیا تھا اور وہ دعاء کیا تھی؟ ‘‘باکو نے پوچھا۔
’’اس جوان کا نام عمر بن خطاب تھا۔ رحمتِ دو جہاں ﷺ نے اللہ سے دعا کی :’اے اللہ! عمر بن خطاب اور ابو جہل بن ہشام میں سے جو شخص تیرے ہاں زیادہ محبوب ہے،اُسکے ذریعے سے اسلام کو قوت عطا فرما۔‘
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی دعا قبول فرمائی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلمان ہو گئے۔ اللہ کے ہاں ان دونوں میں سے زیادہ محبوب حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے۔‘‘
’’عمر بن خطاب اور حمزہ جیسے جری و بہادر جوانوں کے اسلام قبول کرنے سے تو سردارانِ مکہ کی ہمت جواب دے گئی ہو گی ؟‘‘راکو نے پوچھا۔
’’حضرت عمر بن خطاب اور حمزہ رضی اللہ عنہماکے اسلام لانے کے بعد مسلمانوں کی قوت میں اگرچہ اضافہ ہوگیا تھا اور وہ خانہ کعبہ میں نماز بھی پڑھنے لگے تھے لیکن مکہ کے سردار اپنی چالوں سے باز نہ آئے۔ انہوں نے باہم مل کر فیصلہ کیا کہ بنو ہاشم کے لوگ جنہوں نے محمد ﷺ کا دین قبول کرلیا ہے، ان کے ساتھ بول چال بند کر دی جائے۔ اُن کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق نہ رکھا جائے یہاں تک کہ اُن کے ہاتھ نہ کوئی چیز فروخت کی جائے اور نہ خریدی جائے۔
یہ فیصلہ کرکے مکہ کے سرداروں نے اسے تحریری صورت میں خانہ کعبہ کی دیوار کے ساتھ لگا دیا۔ یہ معاہدہ بغیض بن عامر نے لکھا اور ابو جہل، ابولہب، امیہ بن خلف، ولید بن مغیرہ اورعاص بن وائل جیسے سردارانِ مکہ نے اس کی بھرپور تائید کی۔
یہ ساری صورتحال دیکھ کر رحمتِ دو جہاں ﷺ کے چچا ابوطالب سمجھ گئے کہ سردار مکہ اپنی ہر چال میں ناکامی کے بعد اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے ہیں۔ سردار ابوطالب نے اس سنگین صورتحال کے پیشِ نظر اپنے خاندان کے تمام لوگوں کو اکٹھا کرکے مشورہ کیا کہ مناسب یہی ہے کہ بنو ہاشم کے تمام لوگ مکہ شہر سے کسی ایسی محفوظ جگہ پر چلے جائیں جہاں سرداران مکہ کی جانب سے کسی قسم کے نقصان کا اندیشہ نہ ہو۔‘‘
’’بنو ہاشم کے لوگ مکہ چھوڑ کر کس جگہ گئے ؟‘‘باکو نے سوال کیا۔
’’بنو ہاشم کے تمام لوگ مکہ کے ایک قریبی پہاڑ کی گھاٹی میں چلے گئے جو خاندان کے سربراہ ابو طالب کی مناسبت سے شعب ابی طالب کے نام سے مشہور تھی۔ اس گھاٹی میں پناہ لینے کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ اس کے مالک ابوطالب تھے۔ اس کے علاوہ یہ جگہ اتنی محفوظ تھی کہ کوئی اچانک حملہ کرکے انہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا تھا۔ بنو ہاشم کے ساتھ ایک اور خاندان بنو مطلب بھی اس گھاٹی میں آگیا۔
بنو ہاشم اوربنومطلب نے ابوطالب کا بھرپور ساتھ دیا۔ سب کے سب گھاٹی میں چلے آئے۔ فرق صرف یہ تھا کہ مسلمانوں نے دین کی وجہ سے گھاٹی کو آباد کیا اور ان کے عزیز جو ان کے ساتھ آئے تھے ،اُنہوں نے خاندانی اور نسبی تعلق نبھایا۔ البتہ ان خاندانوں کے جو لوگ کافر سرداروں کے حامی تھے، وہ اس گھاٹی میں نہ آئے۔‘‘
’’ابوطالب اور ان کے خاندان کے شعب ابی طالب میں پناہ لینے کے بعد کیا ہوا؟‘‘ساگو نے پوچھا۔
’’سرداران مکہ بہت خوش تھے کہ ہمارا منصوبہ کامیاب ہو گیا اور اُن کا خیال تھاکہ اب تمام لوگ اُن سے ملنا جلنا چھوڑ دیں گے اور کھانے پینے کی بھی کوئی چیز نہیں ملے گی تو وہ گھبرا کر محمدﷺکا ساتھ چھوڑ کر ہم سے آ ملیں گے۔ سردارانِ مکہ نے بھرپور کوشش کی کہ بنو ہاشم سے بائیکاٹ کے فیصلے کی پوری پابندی کی جائے۔ وہ نہ خود گھاٹی میں پناہ لینے والوں سے ملتے اورنہ باہر سے آنے والوں کو اُن سے ملنے دیتے۔‘‘
’’پناہ لینے والے خاندان کب تک شعب ابی طالب میں محصور رہے اور انہوں نے وہاں زندگی کے دن کس طرح گزارے؟‘‘تاکو نے پوچھا۔
’’یہ لوگ شعب ابی طالب میں تقریباً تین سال تک رہے۔اس طویل عرصے میں انہوں نے کمال ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا۔ کھانے پینے کے سامان کے لیے سرداران مکہ کے سامنے جھولی پھیلانے کے بجائے انہوں نے اوران کے چھوٹے چھوٹے بچوں نے بھوکا پیاسا رہنا گوارا کر لیا۔سخت بھوک میں درختوں کے پتے اور چمڑا تک اُبال کر کھایا لیکن ان کے عزم اور ارادے میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی۔‘‘
’’محمد( ﷺ) کے ساتھی اگر اللہ کو ماننے والے تھے توپھر وہ اس مشکل میں کیوں مبتلا ہوئے ؟‘‘راکو نے پوچھا۔
’’ایمان کا کمزور درجہ رکھنے والا ہرفرد یہ سوچ سکتا ہے کہ جب رحمتِ دو جہاں ﷺ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے تھے تو پھر انہیں اور ان کے ماننے والوں کو اس سخت آزمائش میں کیوں مبتلا کیا گیا۔ اس کاجواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر کوئی حق اور سچ پر ڈٹا رہے تو پردۂ غیب سے اس کی مدد کی جاتی ہے۔ سچائی نیکی اور بھلائی کے راستے پر چلنے والوں کو جو تکالیف پہنچتی ہیں، وہ صرف ان کے آزمانے کے لیے آتی ہیں کہ وہ گھبرا کر سچائی اور بھلائی کے کام سے ہٹ تو نہیں جاتے۔ آخر کار اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ختم ہوگئی۔‘‘ عبداللہ نے بتایا۔
’’یہ آزمائش کیسے ختم ہوئی؟‘‘ راکو نے پوچھا۔
’’ ایک دن رحمتِ دو جہاں ﷺ کی بیوی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے حکیم بن حزام پھوپھی کے لیے کھانے کا کچھ سامان لے کر نکلے۔ راستے میں ابو جہل نے اُن کا راستہ روک لیا اور دھمکیاں دیں۔ ایسے میں ایک اور سردار آ گیا۔ تفصیل سن کر اس نے کہا:’ اگر ایک شخص اپنی پھوپھی کے لیے غلّہ لے کرجاتا ہے تو تم کیوں روکتے ہو؟ اس سردار کی بات سن کر ابو جہل کو غصہ آیا اور اس نے اسے بُرا بھلا کہا۔
پھر کچھ نیک دل لوگوں میں اس ظالمانہ معاہدے کو ختم کرنے کا خیال آیا تو رات کے وقت کچھ لوگوں نے میٹنگ کی۔ اس کے بعد اگلے دن صبح کے وقت خانہ کعبہ میں یہ لوگ جمع ہوئے۔ پہلے انہوں نے طواف کیا۔ ان میں سے ایک نے کہا:’ جب تک انسانیت کے خلاف اس معاہدے کو ختم نہیں کیا جاتا، میں چین سے نہیں بیٹھوں گا۔‘
اس پر ابو جہل نے اس کی مخالفت کی، تب چار لوگوں نے باری باری اس معاہدے کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا۔ اس طرح بنو ہاشم اوربنومطلب کو سنگ دلانہ معاہد سے نجات ملی۔‘‘
’’اس کے بعد کیا ہوا؟ ‘‘ساگو نے جیسے ہی یہ سوال کیاتو عبداللہ نے بتایا کے آج کی گفتگو کا وقت ختم ہوگیا ہے،اللہ نے چاہا توکل پھر ملاقات ہوگی۔
٭….٭….٭
آسمان کی سیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فضا خاصی سوگوار تھی۔ ماحول پر خاموشی چھائی ہوئی تھی۔سردار چبوترے پر سر جھکائے بیٹھا تھا۔چبو ترے کے اردگرد لوگ بھی خاموش بیٹھے ہوئے تھے کہ عبداللہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا چبوترے کی جانب بڑھا۔
عبداللہ کو بتایا گیا کہ سردار کا بچہ کئی روز سے بیمار ہے اور اب اس کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی ہے۔ اس لئے ماحول پر خاموشی چھائی ہوئی ہیں۔ یہ سن کر عبداللہ نے کہا: ’’غم اور خوشی تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہوتے ہیں۔ جب انسان کو خوشی میسر آتی ہے تو اس کی مسرت کی انتہا نہیں ہوتی اور جب غم یا تکلیف پہنچتی ہے تو پریشان ہو جاتا ہے۔ انسان کو جب خوشی ملے تو اسے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور جب غم یا تکلیف پہنچے تو اس پر صبر کرنا چاہیے۔
میں آپ سب لوگوں کو بالعموم اور سردار کو بالخصوص کہنا چاہتا ہوں کہ وہ پریشانی کے اِس عالم میں صبر سے کام لیں، اللہ تعالیٰ سے اچھی امید رکھیں۔انسان جب خود کسی تکلیف یا مصیبت سے دوچار ہوتا ہے،تب ہی اسے دوسروں کی تکلیف اور مصیبت کا احساس ہوتا ہے۔‘‘ عبداللہ نے سردار کو تسلی دینے کے بعد اپنی بات کا آغاز اس طرح کیا:
’’گزشتہ روز میں نے آپ لوگوں کو شعب ابی طالب کا واقعہ اور وہاں سے بنو ہاشم اور بنو مطلب کی نجات کا بتایا تھا۔ اب تین سالہ آزمائش کے دور کے بعد ا بھی لوگوں نے اطمینان اور سکون کا سانس بھی نہیں لیا تھاکہ رحمت دو جہاں ﷺ کو دل و جان سے چاہنے والے اور اپنا سب کچھ نچھاور کرنے والے چچا ابوطالب کا چند روزہ بیماری کے بعد 85 سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ ابھی اس صدمے کے اثرات باقی تھے کہ رحمت دوجہاںﷺ کی جانثار بیوی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ انتقال کے وقت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر 65 سال تھی۔ ‘‘عبداللہ نے بتایا۔
’’یہ واقعی بہت بڑے صدمے تھے جن سے محمد ﷺ دوچار ہوئے۔‘‘ سردار نے افسوس بھرے لہجے میں کہا۔
’’خیال تھا کہ ان عظیم صدموں سے دوچار خاندان بنو ہاشم کے لیے سرداران مکہ کے دل نرم پڑ گئے ہوں گے لیکن ایسا نہ ہو سکا بلکہ اس کا اُلٹا اثر یہ ہوا کے ابو طالب کے بعد سرداران مکہ زیادہ نڈر اور بے خوف ہوگئے۔ سردار ابوطالب سے تو وہ ڈرتے تھے، لیکن اب ان کا ڈر بالکل ختم ہو گیا تھا۔ اب ان ظالموں کا ہاتھ روکنے والا کوئی بھی نہیں تھا۔
رحمتِ دو جہاں ﷺ نے جب دیکھا کہ مکہ شہر میں سرداران مکہ کی بھرپور مخالفت کی وجہ سے اللہ کا پیغام پھیلانے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں تو انہوں نے اردگرد کی بستیوں میں جا کر اللہ کا پیغام پھیلانے کا پروگرام بنایا۔ اس پروگرام کے تحت آپ نے سب سے پہلے طائف جانے کا فیصلہ کیا۔ رحمتِ دو جہاں ﷺ اپنے خادم زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر طائف روانہ ہوئے۔ یہ شہر مکہ سے جنوب مغرب کی جانب تقریباً 60 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ اچھی زمین اور اچھے موسم کی وجہ سے یہ علاقہ سرسبزو شاداب تھا۔ لوگ بہت خوش حال اور کھاتے پیتے تھے۔ ان میں سے تین سردار عبد یا لیل249مسعود اور حبیب بہت زیادہ مال دار تھے۔ یہ تینوں حقیقی بھائی بھی تھے۔ رحمتِ دو جہاں ﷺ نے طائف کے سب سے زیادہ مال دار اور بااثر ان تینوں بھائیوں سے ملنے کا فیصلہ کیا۔‘‘ عبداللہ نے بتایا۔
’’مکہ شہر سے آنے والے معزز خاندان کے ایک معزز فرد ہونے کی وجہ سے ان سرداروں نے محمد(ﷺ) سے بہت اچھا سلوک کیا ہوگا؟‘‘ راکو نے خیال ظاہر کیا۔
جب رحمتِ دو جہاںﷺ ان سرداروں سے ملنے کے لئے ان کے ہاں پہنچے اور انہیں بتایا کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور تمہیں اللہ کا پیغام سنانے آیا ہوں تو تینوں نے آپ کا بہت مذاق اڑایا۔ ان میں سے ایک بولا: ’کیا اللہ کو رسول بنانے کے لئے تمہارے علاوہ کوئی اور نہیں ملا۔‘
دوسرے نے کہا:’ اگر اللہ نے تمہیں اپنا رسول بنایا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ کعبے کا پردہ پھاڑ ڈالے۔‘
تیسرے نے کہا: ’میں تم سے بالکل بات نہیں کروں گا۔ اگر تم واقعی اللہ کے رسول ہو تو تمہاری بات کو رد کرنا میرے لیے انتہائی خطرناک ہے اور اگر تم نے اللہ کے بارے میں جھوٹ کہا ہے تو پھر جھوٹے آدمی سے بات کرنا کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔‘
رحمتِ دو جہاںﷺ نے دس دن طائف میں قیام کیا۔ اس دوران میں آپ ان کے ایک ایک سردار کے پاس تشریف لے گئے اور ہر ایک سے گفتگو کی لیکن سب کا ایک ہی جواب تھا کہ تم ہمارے شہر سے نکل جاؤ، چنانچہ انہوں نے شہر کے آوارہ لڑکے اور اوباش نوجوان اکٹھے کرلیے اور انہیں آپ کو ستانے اور ان کا مذاق اڑانے کا حکم دیا۔ ان برے لڑکوں اور غنڈوں نے رحمتِ دو جہاں ﷺ کو بُرا بھلا ہی نہیں کہا بلکہ آپ کو پتھر مار مار کر زخمی بھی کر دیا۔ زخموں سے خون بہہ کر آپ کے دونوں جوتے خون آلود ہو گئے۔ آپ کے غلام نے ڈھال بن کر پتھروں کو روکنے کی کوشش کی تو ان کے سر میں کئی جگہ چوٹیں آئیں۔ اس رنج و غم کی شدت سے آپ کی طبیعت نڈھال اور دل پاش پاش تھا۔ واپس آتے ہوئے جب آپ قرنِ منازل پہنچے تو اللہ کے حکم سے حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے۔ ان کے ساتھ پہاڑوں کا فرشتہ بھی تھا۔ جبریل علیہ السلام نے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا:’ طائف والوں نے جو کچھ آپ سے کیا ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے دیکھ لیا ہے۔ اُس نے آپ کے پاس پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے تا کہ اسے ان کے بارے میں جو چاہیں، حکم دیں۔‘ پھر اس فرشتے نے رحمتِ دو جہاں ﷺ کو آواز دی اور سلام کرنے کے بعد کہا: ’اگر آپ حکم دیں تو اس شہر کے ظالم لوگوں کو دونوں پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھ دو ں۔‘
رحمتِ دو جہاںﷺ نے فرشتے کی بات سن کر فرمایا: ’نہیں میں ایسا کلمہ نہیں کہوں گا۔ مجھے امید ہے کہ ان کی اولاد میں سے ایسے لوگ ضرور پیدا ہوں گے جو صرف ایک اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔‘‘
’’کتنے حوصلے اور صبر و استقامت کی بات ہے۔ مجھ جیسا آدمی ہوتا تو پہاڑوں کے فرشتے کو فوراً حکم دیتا کہ ان برے اور سنگ دل لوگوں کو دونوں پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھ دو۔‘‘سردار نے کہا۔
رحمتِ دو جہاں ﷺ محض نام کے رحمتِ دو جہاں نہیں تھے۔ ان کا ہر قول اور فعل، ہر حال میں رحمت اور شفقت سے بھر پور ہوتا تھا۔
مکہ کے راستے میں واقع وادئ نخلہ میں آپ چند دن کے لیے ٹھہر گئے۔ اس دوران میں اللہ تعالیٰ نے آپ کے پاس جنوں(جنات) کی ایک جماعت بھیجی جس نے قرآن مجید کی تلاوت سن کر اسلام قبول کرلیا۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے آپ کو اس واقعے کی اطلاع دی اور آپ کی دعوت کی کامیابی کی بشارتیں آپ کو سنائیں اور اس بات کی وضاحت بھی کی کہ کائنات کی کوئی بھی طاقت اس دعوت کی کامیابی کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی۔ اس غیبی مدد اور ان بشارتوں کے سامنے مایوسی کے وہ سارے بادل چھٹ گئے جو طائف سے نکلتے وقت گالیاں اور پتھر کھانے کی وجہ سے آپ پر چھائے تھے۔چنانچہ آپ نے فوراً مکہ پلٹنے اور نئے سرے سے اسلام کی دعوت و تبلیغ کے کام میں گرم جوشی سے لگ جانے کا پختہ ارادہ کر لیا۔ آخر رحمتِ دو جہاں ﷺ وہاں سے روانہ ہوئے اور مکہ کے قریب پہنچ کر حراء پہاڑ کے دامن میں ٹھہر گئے۔ پھرمکہ کے مختلف سرداروں کو پیغام بھیجا کہ وہ آپ کو پناہ دیں لیکن سب نے معذرت کر لی۔ آخر آپ نے ایک نیک دل اور با اثر شخص مطعم بن عدی کو پیغام بھجوایا کہ اگر آپ سرداران مکہ کے مقابلے میں مجھے پناہ دیں تو میں اس کے لئے آپ کا شکر گزار ہوں گا۔ مطعم بن عدی نے آپ کی حفاظت اور مدد کرنا قبول کرلیا اور اس کا سرعام اعلان کردیا۔ مکہ کے سرداروں نے یہ سنا تو وہ کچھ عرصے کے لیے اپنے بُرے ارادوں سے باز آگئے۔ مطعم بن عدی کا جب انتقال ہوا تو رحمتِ دو جہاں ﷺنے اُس کی نیکی اور بھلائی کا کھلے دل سے اعتراف کیا اور ہمیشہ اس کی نیکی یاد رکھی۔۔۔‘‘عبداللہ ذرا سانس لینے کے لئے رکا تو باکو نے پوچھا۔’’ پھر کیا ہوا؟‘‘
’’پھر یہ ہوا کہ۔۔۔‘‘ عبداللہ نے بتانا شروع کیا:’’ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب اور پیارے بندے محمد ﷺ اور آپ کے جاں نثار ساتھیوں کوہر لحاظ سے جانچ اور پرکھ لیا کے یہ لوگ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لانے والے ہیں تو مشکلات و مصائب کے بعد آسانیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔‘‘
’’وہ کیسے؟ ‘‘ساگو نے جلدی سے پوچھا۔
’’وہ اس طرح کہ۔۔۔‘‘عبداللہ بتانے لگا:’’ ایک رات رحمتِ دو جہاں ﷺ خانہ کعبہ میں آرام فرما رہے تھے کہ وہ فرشتہ جس نے غار حرا میں آپ کو سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا تھا، وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔۔۔‘‘
’’اس فرشتے کا نام جبریل تھانا!‘‘تاکو نے عبداللہ کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی بتا دیا۔
’’آپ تو میری باتیں بڑی دل چسپی اور غور سے سن رہے ہیں۔ اسی لئے جھٹ سے فرشتے کا نام بتا دیا ہے۔‘‘ عبداللہ نے حیرت سے کہا۔
’’یہ سچی کہانی اتنی دلچسپ ہے کہ اس کی ایک ایک بات ذہن نشین ہوتی جا رہی ہے۔‘‘ تاکونے خوشی سے بتایا۔
’’جبریل فرشتے نے حاضر ہو کر آپ سے کیا کہا؟‘‘راکو نے پوچھا۔
’’جبریل علیہ السلام نے آپ کے پاس حاضر ہو کر آپ کا پیٹ مبارک سینے سے ناف تک چاک کیا اور آپ کے دل کو باہر نکالا، پھر اسے ایمان و حکمت سے بھرے ایک طشت سے دھو کر اور ایمان و حکمت سے بھر کر اس کی جگہ پر لوٹا دیا، پھر وہاں سے چل پڑے۔ سب سے پہلے آپ جبریل علیہ السلام کے ساتھ بیت المقدس پہنچے۔ وہاں آپ نے مسجد اقصیٰ میں تمام انبیاء کے ساتھ نماز پڑھی۔ آپ نے نماز میں امامت کے فرائض انجام دیے۔
اس کے بعد آپ ﷺ نے جبریل علیہ السلام کے ساتھ آسمانوں کا سفر شروع کیا۔۔۔‘‘عبداللہ کی بات جاری تھی کہ باکو نے حیرت سے پوچھا:’’ آسمانوں کا سفر کس طرح ممکن ہے؟‘‘
’’پوری کائنات کو بنانے والی ہستی اللہ تعالیٰ کے لیے یہ کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔۔۔‘‘عبداللہ نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’اس سفر کے لیے اللہ تعالیٰ نے خاص سواری بھجوائی تھی جسے ’بُراق‘ کہتے ہیں۔ اس کی رفتار اتنی تیز تھی کہ یہ اپنا قدم وہاں رکھتی تھی جہاں اس کی نگاہ کی آخری حد ہوتی تھی۔ براق کے ذریعے سے آپ نے تمام آسمانوں کی سیر کی۔ آخر میں ایک مقام سدرۃ المنتہیٰ آیا۔
یہاں اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے آپ سے بات چیت کی اور آپ کو تین تحفے عطا فرمائے۔ پہلا تحفہ مسلمانوں کو دن رات میں پانچ بار نماز ادا کرنے کی صورت میں ملا۔ دوسرا تحفہ سورۂ بقرہ کی آخری دو آیتیں تھیں اور تیسرا تحفہ یہ تھا کہ آپ کی امامت میں سے جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائے گا، اس کے کبیرہ گناہوں کی معافی کا اعلان تھا۔‘‘
’’یہ جو ہر روز تم دن میں پانچ بار منہ ہاتھ اور پاؤں دھو کر اور کپڑا بچھا کر اُٹھتے بیٹھتے ہو اور پھر منہ دائیں بائیں پھیر کر اٹھ جاتے ہو، کیا اسے نماز کہتے ہیں؟‘‘ ساگو نے پوچھا۔
’’تم نے بالکل درست اندازہ لگایا ہے۔ میں ہر روز پانچ بار نماز ادا کر کے اپنے رب کا شکر بجا لاتا ہوں۔ ‘‘عبداللہ نے بتایا۔
’’محمد( ﷺ )آسمانوں پر کتنے مہینے یا سال رہے؟ ‘‘تاکو نے سوال کیا۔
’’رحمتِ دو جہاں ﷺ کی سیرت، یعنی آپ کی زندگی کے حالات و واقعات لکھنے والوں نے لکھا ہے کہ آپ نے مکہ سے بیت المقدس تک اور وہاں سے سات آسمانوں سے اوپر تک کا سفر رات کے بہت تھوڑے سے وقت میں طے کر لیا تھا۔‘‘عبداللہ نے بتایا۔
’’مکہ کے عام لوگوں اور خاص طور پر سرداران مکہ نے اس واقعے کے متعلق کیا ردعمل ظاہر کیا؟‘‘تاکو نے دریافت کیا۔
’’جب صبح ہوئی تو رحمتِ دو جہاںﷺ نے مکہ والوں کو ان بڑی بڑی نشانیوں کے بارے میں بتایا۔ ابوجہل نے جب یہ سنا کہ محمدﷺرات کو مکہ سے بیت المقدس گئے ہیں تو اُس نے توہین آمیز انداز میں کہا:’ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی آدمی راتوں رات مکہ سے بیت المقدس جا کر واپس بھی آ جائے۔ یہ قطعی ممکن نہیں۔ اس کے جواب میں آپﷺ نے فرمایا:’ میں جو کہہ رہا ہوں وہ بالکل سچ ہے۔‘
ابوجہل نے یہ سن کر بہت سے لوگوں کو آپﷺ کے گرد جمع کر لیا اور یہ سب مل کر آپ کا مذاق اڑانے لگے۔
رحمتِ دو جہاں ﷺ نے پھر فرمایا: ’میں واقعی رات کو مکہ سے بیت المقدس اور وہاں سے آسمانوں پر گیا اور پھر مکہ واپس پہنچا ہوں۔‘ پھر آپ نے انہیں کچھ نشانیوں کے بارے میں وضاحت سے بتایا۔
سرداران مکہ یہ سن کر آپ کا اور زیادہ مذاق اڑانے لگے۔ وہ اس بات پر یقین کرنے کے لئے قطعاً تیار نہیں تھے کہ مکہ سے بیت المقدس کا کئی ہفتوں کا سفر ایک رات میں طے ہو سکتا ہے۔
سرداران مکہ میں سے ایک نے رحمت دوجہاں ﷺ کے انتہائی قریبی ساتھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے اس واقعے کا ذکر کیا۔
اس کا خیال تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی اس بات پر یقین نہیں کریں گے۔ اس طرح محمدﷺ اپنے قریبی دوست اور ساتھی سے محروم ہو جائیں گے لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سارا واقعہ سن کر کہا:’ اگر یہ سب کچھ رحمتِ دو جہاں ﷺ نے کہا ہے تووہ بالکل سچ کہتے ہیں، میں اس بات کی تصدیق کرتا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ اس واقعے کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ صدیق کے لقب سے مشہور ہوگئے۔ صدیق کا مطلب ہے بڑا سچا۔
اب سرداران مکہ نے آپ کو آزمانے کا فیصلہ کیا، اکٹھے ہو کر آپ ﷺ کے پاس آئے اور پوچھنے لگے:’ آپ ہمیں بیت المقدس کی نشانیاں بتائیں؟‘
رحمتِ دو جہاں ﷺ نے اس سے پہلے بیت المقدس دیکھا نہ تھا اور نہ اس رات اس کی نشانیاں یاد رکھی تھیں۔ لیکن اللہ نے بیت المقدس آپ کی آنکھوں کے سامنے کر دیا۔ آپ اس کو دیکھتے جاتے اور اس کی نشانیاں بتاتے جاتے۔ آپ نے بیت المقدس کی ایک ایک نشانی اور جگہ بتائی۔ وہ آپ کی تردید نہ کر سکے بلکہ یہ اعتراف کیا کہ جہاں تک بیت المقدس کی نشانیوں کا تعلق ہے، وہ آپ نے بالکل ٹھیک بیان کی ہیں۔
انہوں نے اپنے ایک قافلے کے متعلق سوال کیا جو ملک شام سے آرہا تھا۔ آپ نے اس قافلے کے اونٹوں کی تعداد اور قافلے کے سب سے اگلے اونٹ کے بارے میں بتایا۔ غرض آپ نے سب باتیں تفصیل سے بیان فرمائیں۔ یہ ساری باتیں سن کر ان کی زبانیں بند ہوں گئیں، لیکن ایمان ان کی قسمت میں نہیں تھا، اس لئے وہ اسے آپ کے جادو کا کرشمہ کہنے لگے۔ ‘‘عبداللہ نے تفصیل سے بتایا۔
’’اِس اہم واقعے کے بعد کیا ہوا؟‘‘ راکو نے پوچھا۔
’’واقعہ معراج کے بعد حالات نے کیا رخ اختیار کیا ؟ اس کے متعلق آپ لوگوں کو کل بتاؤں گا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے عبداللہ نے اپنی جھونپڑی کی راہ لی۔
٭….٭….٭
ناکام سازش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چبوترے کے اردگرد لوگ تو بیٹھے تھے، لیکن سردار موجود نہیں تھا۔ عبداللہ کے پوچھنے پر تاکو نے بتایا کہ قریبی جزیرے کا سردار، ہمارے سردار کے بیمار بچے کا حال پوچھنے آیا تھا۔ اس لئے انہیں یہاں آنے میں تاخیر ہوگئی ہے، بس آنے ہی والے ہوں گے۔ تاکو نے ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ دور سے سردار آتا ہوا نظر آیا۔ سردار چبوترے پر پہنچا تو عبداللہ نے بیمار بچے کا حال پوچھا ۔ سردار نے بتایا کہ بچہ اب پہلے سے بہت بہتر ہے، عبداللہ نے یہ سن کر اللہ کا شکر ادا کیا اور اپنی بات کا وہیں سے آغاز کیا، جہاں سے بات ختم کی تھی۔
’’ جزیرۃ العرب کے مختلف علاقوں کے قافلے جب مکہ شہر پہنچتے تو آپﷺ ان قافلوں کے ساتھ آنے والے لوگوں کو بتاتے کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ اگر تم میری باتیں مان لوگے تو دنیا و آخرت دونوں جگہ کامیاب اور کامران ہو گے۔
مکہ کے سردار، ان قافلوں کے ساتھ آنے والے لوگوں کو رحمتِ دو جہاںﷺسے ملنے سے روکنے کی کوشش کرتے اور انہیں بتاتے کہ نعوذ باللہ محمد(ﷺ) جادوگر ہیں۔ اُن کے جادو سے بچ جاؤ۔ لیکن سردارانِ مکہ کی یہ کوششیں ناکام ہوتی چلی گئیں۔
ان چھوٹے بڑے قافلوں میں سے ایک بار ایک یثرب کے قافلے والوں سے ملاقات کے لئے رحمتِ دو جہاںﷺتشریف لے گئے۔ انہیں بتایا کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانے کے لئے کام کررہا ہوں۔‘‘
’’کیا اس قافلے کے لوگوں نے بھی مکہ کے سرداروں کی باتوں میں آکر محمد(ﷺ) کی بات سننے سے انکار کردیا؟‘‘ باکو نے سوال کیا۔
’’نہیں، ایسا نہیں ہوا، بلکہ انہوں نے رحمتِ دو جہاںﷺ کو خوش دلی سے خوش آمدید کہا۔
یثرب سے آنے والے اس قافلے کے لوگوں نے سُن رکھا تھا کہ ملک عرب میں ایک نبی پیدا ہوگا، جو اللہ کے سچے دین کی باتیں بتائے گا۔ عقبہ کی گھاٹی میں قیام پذیر اس قافلے کے لوگ، جن کا تعلق یثرب کے قبیلہ خزرج سے تھا۔ انہوں نے رحمتِ دو جہاںﷺ سے جب یہ باتیں سنیں تو انہیں یقین ہوگیا کہ یہ وہی نبی ہیں جن کے بارے میں وہ سنتے آئے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور اسلام قبول کرلیا۔ یثرب کے یہ چھ خوش نصیب لوگ تھے۔ جنہیں اہلِ یثرب میں سب سے پہلے مسلمان ہونے کا اعزاز حاصل ہوا‘‘۔ عبداللہ نے بتایا۔
’’اس کے بعد کیا ہوا؟‘‘ ساگو نے پوچھا۔
’’ایک سال بعد یثرب سے بارہ لوگ حج کے لئے مکہ آئے اور عقبہ ہی میں ٹھہرے۔ رحمتِ دو جہاںﷺکو ان کی آمد کا معلوم ہوا تو آپﷺ عقبہ تشریف لے گئے۔ ان بارہ کے بارہ لوگوں نے اسلام قبول کرلیا۔ اس موقع پر رحمتِ دو جہاںﷺ کے روبرو ان بارہ لوگوں نے عہد کیا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت اور بندگی نہیں کریں گے۔ چوری نہیں کریں گے۔ حرام کاموں سے بچیں گے۔ کسی پر جھوٹا الزام نہیں لگائیں گے۔ نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے اور اللہ کی نافرمانی نہیں کریں گے۔ اس واقعہ کو عقبہ کی پہلی بیعت کہتے ہیں۔
حج کے بعد یثرب کے ان بارہ لوگوں کے ساتھ رحمتِ دو جہاںﷺ نے اپنے دو جاں نثار ساتھیوں مصعب بن عمیرؓ اور عبداللہ ابنِ مکتومؓ کو بھیجا۔ یثرب میں دونوں پچھلے سال اسلام قبول کرنے والے چھ لوگوں میں سے ایک اسدؓ بن زرارہ کے مہمان بنے اور لوگوں کو دین کی باتیں بتانے لگے۔
اس وقت تک یثرب کے قبائل میں سے صرف قبیلہ خزرج کے لوگ مسلمان ہوئے تھے۔ قبیلہ اوس کے لوگوں نے اس جانب توجہ ہی نہ دی۔ ایک دن حضرت مصعب بن عمیرؓ نے قبیلہ اوس کے لوگوں تک اسلام کا پیغام پہنچانے کا پروگرام بنایا۔اس مقصد کے لیے وہ اسعد بن زرارہؓ اور چند مسلمانوں کے ہمراہ قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذاور اُسید بن حُضَیر کے باغ میں چلے گئے۔سعد بن معاذ اور اسید بن حضیر کو پتہ چلاتو سعد نے اسید بن حضیر سے کہا:’ذرا جاؤ اور ان دونوں کوجو ہمارے نادان لوگوں پھسلا کران کے دین سے ہٹانے آئے ہیں،جھڑک دو اور ہمارے محلے سے نکال دو۔میں یہ کام خود سرانجام دیتا لیکن اسعد میرا خالہ زاد بھائی ہے،اس لیے میں تمہیں بھیج رہا ہوں۔‘‘
’’جس طرح طائف کے تین سردار بھائیوں نے محمد(ﷺ) کو طائف سے نکالنے کے لئے بُرے لڑکے اور غنڈے لگادیئے تھے۔ کیا یہاں مصعب بن عمیر کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ پیش آیا؟‘‘ تاکو نے سوال کیا۔
’’اسید بن حضیر،سعدبن معاذکے کہنے پر سخت غصے کے عالم میں باغ میں پہنچا اور آتے ہی حضرت مصعب بن عمیرؓ کو بُرا بھلا کہنے لگا۔ حضرت مصعب بن عمیرؓ یہ سب کچھ خاموشی سے سنتے رہے۔ اسید بن حضیرکو یہ دیکھ کر سخت حیرت ہوئی کہ اس کی سخت کلامی کا مصعب بن عمیرؓ پر کچھ اثر نہیں ہوا۔ اس بات نے اسید کو سوچنے اور سمجھنے پر مجبور کردیا۔
یہی وہ موقع تھا جب حضرت مصعب بن عمیرؓ نے اسید کو بہت پیار اور نرمی سے سمجھایا کہ میں تو آپ لوگوں کی بھلائی اور فائدے کے لئے کچھ باتیں بتانے کے لئے آیا ہوں۔ اگر آپ لوگ ان باتوں کو مان لیں تو اللہ تعالیٰ تمہیں اس دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کی زندگی میں بھی عزت دے گا۔۔۔‘‘ عبداللہ ذرا سانس لینے کے لئے رکا تو راکو نے بے تابی سے پوچھا’’پھر کیا ہوا؟‘‘
’’پھر یہ ہوا کہ۔۔۔ ‘‘عبداللہ نے اپنی بات دوبارہ شروع کرتے ہوئے کہا:
’’حضرت مصعبؓ بن عمیر کی باتیں سُن کر اسید بن حضیرکہنے لگا:’تم نے انصاف کی بات کی ہے۔‘ حضرت مصعب بن عمیرؓ نے موقع غنیمت جانتے ہوئے اسلام کی بات شروع کی اورقرآن مجید کی تلاوت کرنے لگے۔ اسید نے کب قرآن مجید سنا تھا۔ قرآنی آیات سنتے ہی اس کی دلی کیفیات تبدیل ہونے لگیں اور پھر وہ لمحۂ سعادت آیا کہ اسید نے اسلام قبول کرلیااور کہا:’میرے پیچھے ایک اور شخص ہے۔اگر وہ تمہارا پیروکار ہو گیاتوکوئی تمہارا مخالف نہیں رہے گا۔‘‘
’’کیا سعد بن معاذ نے بھی ان کی بات مان لی؟‘‘باکو نے پوچھا۔
’’اُسیدؓ جب سعد بن معاذ کے پاس پہنچے تو کہنے لگے:’میں نے انہیں سمجھا دیا ہے لیکن وہاں بنو حارثہ کے لوگ آکر تمہارے خالہ زاد اسعدبن زرارہ کو قتل کرنا چاہتے ہیں۔سعد غصے کے عالم میں فوراً! وہاں پہنچے کہ کہیں ان کے بھائی کو قتل نہ کر دیا جائے۔اس نے وہاں پہنچ کر دیکھا کہ اسعد اور مصعب رضی اللہ عنہما بڑے اطمینان سے وہاں بیٹھے ہیں۔وہ انہیں برا بھلا کہنے لگا۔مصعب بن عمیرؓ اور اسعدؓ نے پہلے کی طرح ساری باتیں تحمل اور بردباری سے سنیں۔ جب سعد بن معاذ نے دل کی بھڑاس نکال لی تو حضرت مصعب بن عمیر نے نرمی، پیار اور محبت سے اسلام کے متعلق بتایا اور سمجھایا تو سعد بن معاذ نے بھی اپنے چچازادبھائی اسید بن حضیر کی طرح اسلام قبول کرلیا۔ ان دونوں کے مسلمان ہونے کے ساتھ ہی ان کے قبیلے کے بے شمار مرد اور عورتیں بھی مسلمان ہوگئیں۔ اس طرح یثرب میں مسلمانوں کو خاصی طاقت حاصل ہوگئی‘‘۔
’’اسلام قبول کرنے کے بعد قبیلہ اوس کے یہ سردار محمد(ﷺ) کو ملنے مکہ شہر گئے؟‘‘ ساگو نے معلوم کیا۔
’’ایک سال بعد یثرب کے لوگ حج کی نیت سے مکہ پہنچے۔ انہوں نے عقبہ کے مقام پر ہی قیام کیا۔ یثرب سے آنے والے ان لوگوں کی تعداد 75 تھی۔جن میں تہتر73مرداور دو خواتین شامل تھے۔ اور ان میں قبیلہ اوس کے دونوں سردار بھائی بھی شامل تھے۔ جب یہ قافلہ عقبہ میں قیام پذیر تھا تو رحمتِ دو جہاںﷺ اپنے چچا حضرت عباس کے ساتھ عقبہ کے مقام پر تشریف لائے اور ان لوگوں کو اسلام کی تعلیمات کے متعلق بتایا۔ اس موقع پر ان لوگوں نے اسلام کے نام پر رحمتِ دو جہاںﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی، اس بیعت کو ’عقبہ ثانی‘ یا عقبہ کی دوسری بیعت کہا جاتا ہے‘‘۔ عبداللہ نے بتایا۔
’’اس بیعت کے بعد کیا ہوا؟‘‘ تاکو نے پوچھا
’’جن لوگوں نے رحمتِ دو جہاںﷺ کے مبارک ہاتھ پر عقبہ کے مقام پر بیعت کی انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ رحمتِ دو جہاںﷺ مکہ شہر کو چھوڑ کر ان کے شہر یثرب میں آجائیں۔ وہاں ہم آپ کی ہر طرح سے مدد اور تعاون کریں گے‘‘۔
’’کیا محمد(ﷺ) نے یثرب جانے کی دعوت قبول کرلی؟‘‘ راکو نے سوال کی۔
’’عقبہ کے مقام پر بیعت کرنے والے یثرب کے لوگوں کو رحمتِ دو جہاںﷺکے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب نے مخاطب کرکے کہا ’’رحمتِ دو جہاںﷺ کو اپنے ساتھ یثرب لے جانا آسان کام نہیں ہے۔ آپﷺ کو یثرب لے جانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ لوگ پورے جزیرۃ العرب کو اپنا دشمن بنالیں گے۔ ایسا نہ ہو کہ پورے عرب کی مخالفت اور دشمنی آپ لوگوں کو رحمتِ دو جہاںﷺ کا ساتھ چھوڑنے پر مجبور کردے۔کل کو ان کا ساتھ چھوڑنے سے بہتر ہے کہ ابھی سے انہیں چھوڑ دو کیوں کہ وہ اپنی قوم اور شہر میں بہرحال عزت و حفاظت سے ہیں۔‘‘
’’یثرب کے لوگوں نے اس کے جواب میں کیا کہا؟‘‘ باکو نے معلوم کیا۔
’’رحمت دو جہاںﷺکے مبارک ہاتھ پر بیعت کرنے والے اہل یثرب نے بڑی جرات اور دوٹوک انداز میں جواب دیا کہ دنیا ادھر کی ادھر ہوجائے، ہم کسی بھی حالت میں رحمت دو جہاںﷺ کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔‘‘پھرانہوں نے رحمت دوجہاں ﷺسے کہا:’لیکن ایسا نہ ہو کہ جب اللہ آپ کو غلبہ عطاء فرمائے تو آپ ہمیں چھوڑ کر اپنی قوم کی طرف پلٹ آئیں۔‘‘
’’یثرب کے لوگوں کے دو ٹوک اعلان اور فیصلے کا محمد (ﷺ) نے کیا جواب دیا؟ ‘‘ ساگو نے پوچھا۔
’’رحمت دو جہاںﷺ نے اہل یثرب کے ان نمائندہ لوگوں کا دو ٹوک جواب سننے کے بعد اعلان کیا کہ اب میرا جینا اور مرنا آپ لوگوں کے ساتھ ہوگا۔‘‘ عبدﷲ نے بتایا۔
’’کیا محمد (ﷺ) بیعت عقبہ میں شامل یثرب کے لوگوں کے ساتھ ہی مکہ سے یثرب روانہ ہوگئے؟‘‘ تاکو نے پوچھا۔
’’نہیں، ایسا فوری طور پر نہیں ہوا، بلکہ یثرب کے قافلے کی واپسی کے بعد رحمتِ دو جہاںﷺنے مکہ میں موجود مسلمانوں کو اجازت دے دی کہ وہ سردارانِ مکہ کے ظلم و ستم سے بچنے کے لیے یثرب جا سکتے ہیں۔ اس حکم کے ملتے ہی مسلمانوں نے ایک ایک کرکے مکہ سے یثرب ہجرت شروع کر دی۔‘‘عبدﷲ نے بتایا۔
’’مکہ کے سردار تو خوش ہوں گے کہ ان لوگوں کے جانے کے بعد، وہ لوگ جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے، انہیں اسلام لانے سے باز رکھ سکیں گے۔‘‘ راکو نے خیال ظاہر کیا۔
’’ایسی بات نہیں ہوئی، بلکہ سردارانِ مکہ نے بھرپور کوشش کی کہ کوئی مسلمان مکہ چھوڑ کر یثرب نہ جانے پائے۔ اس مقصد کے لیے وہ یثرب جانے والوں کو زبردستی روک لیتے، انہیں مارتے پیٹتے اور ان کا سامان تک چھین لیتے لیکن اس سب کچھ کے باوجود بہت تھوڑے عرصے میں دو سو سے زیادہ مسلمان مکہ سے ہجرت کرکے یثرب پہنچ گئے۔‘‘
’’اس صورتحال میں سردارانِ مکہ نے کیا حکمت عملی اختیار کی؟‘‘ باکو نے پوچھا۔
’’مکہ کے سرداروں نے جب دیکھا کہ مسلمانوں کو مدینہ جانے سے روکنے کی ان کی ہر کوشش اور ہرطریقہ ناکام ہو گیا ہے تو انہوں نے آپس میں صلاح مشورہ کرکے ایک انتہائی خطرناک منصوبہ تیار کیا۔‘‘
’’وہ خطرناک منصوبہ کیا تھا؟‘‘ ساگو نے معلوم کیا۔
’’ خطرناک منصوبہ یہ تھا کہ مسلمانوں کو یثرب جانے سے روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ (نعوذ باﷲ) رحمتِ دو جہاںﷺکو قتل کر دیا جائے۔‘‘
’’ کیا۔۔۔؟ مکہ کے سردار ظالم و جابر سہی لیکن وہ محمد (ﷺ) کے قریبی رشتے دار بھی تھے۔ انہیں ایساانتہائی خطرناک فیصلہ کرنے کی جرات کیسے ہوئی؟‘‘ تاکو نے شدت جذبات میں پوچھا۔
’’قتل کی یہ انتہائی خطرناک تجویز، اسلام کے سب سے بڑے دشمن ابوجہل نے دی تھی۔ تجویز یہ تھی کہ مکہ شہر کے ہر قبیلے سے ایک ایک نوجوان کو لیا جائے اور رات کی تاریکی میں یہ سب مل کر محمد (ﷺ) کے گھر پر حملہ کرکے انہیں (نعوذ باﷲ) قتل کر دیں۔ جب اتنے زیادہ قبائل کے نوجوان حملہ آور ہوں گے تو رات کی تاریکی میں کچھ پتا نہیں چلے گا کہ کس قبیلے کے نوجوان نے قتل کیا ہے۔ اس طرح کسی ایک قبیلے پر الزام نہیں آئے گا اورقبیلہ بنو ہاشم کے لیے یہ ممکن نہیں ہوگا کہ اتنے سارے قبائل سے مقابلہ کر سکے یا بدلہ لے سکے۔لہٰذا وہ دِیَت(خوب بہا)لینے پر راضی ہو جائیں گے اور ہم دیت ادا کر دیں گے۔‘‘ عبدﷲ نے بتایا۔
’’ کیا مکہ کے سرداروں نے اس خطرناک تجویز پر عمل کیا؟ ‘‘راکو نے پوچھا۔
’’مکہ کے سردار اس خطرناک تجویز پر عمل درآمد کے لیے ابھی منصوبہ تیار کر رہے تھے کہ ﷲ کی جانب سے رحمتِ دو جہاںﷺ کو اس بات کی اجازت مل گئی کہ وہ مکہ شہر چھوڑ کر کسی محفوظ جگہ چلے جائیں۔ یہ اجازت ملتے ہی رحمت دو جہاںﷺ نے اپنے جاں نثار ساتھی ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ مل کر یثرب جانے کی تیاریاں شروع کر دیں۔
ایک تاریک رات، جب ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا ۔ مکہ کے بدبخت اور برے سرداروں نے عرب کے مختلف قبائل کے نوجوانوں کو رحمتِ دو جہاںﷺ کے گھر کے چاروں جانب بٹھا دیا۔ تاکہ جب آپ منہ اندھیرے نماز فجر کے لیے گھر سے مسجد جانے کے لیے نکلیں تو مختلف قبائل کے یہ جنگجو اچانک حملہ کرکے آپ کو (نعوذ باﷲ) قتل کر دیں۔
رحمتِ دو جہاںﷺ کو جب سردارانِ مکہ کے اس سارے منصوبے کی خبر ہوئی تو آپﷺ نے اپنے بستر پرعلیؓ کو لٹا دیا اور خود گھر سے باہر آگئے۔‘‘
عبدﷲ کی بات جاری تھی کہ باکو نے جھٹ سے کہا: ’’ پھر تو عرب کے مختلف قبائل کے جنگجو نوجوانوں نے محمد(ﷺ) پر اچانک حملہ کر دیا ہوگا؟‘‘
’’انسانوں کے منصوبے اور ارادے ﷲ تعالیٰ کے مقابلے میں مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہوتے ہیں۔ اس پوری کائنات ، جس میں زمین و آسمان پہاڑ اور درخت ، سورج ، چاند ستارے اور ہر چیز شامل ہے۔ کسی ایک درخت کا چھوٹا سا پتہ بھی اس کے علم اور حکم کے بغیر زمین پر نہیں گر سکتا۔ یہ تو پھر ﷲ کے محبوب اور رحمتِ دو جہاںﷺکی زندگی کی حفاظت کا معاملہ تھا ۔ اس کیفیت میں آپ ﷺکا بال تک بیکا کون کر سکتا تھا۔‘‘ عبدﷲ نے تفصیل سے بتایا۔
’’ محمد (ﷺ) اپنے گھر سے بحفاظت نکل کر کہاں گئے؟‘‘ ساگو نے سوال کیا۔
’’اپنے گھر سے بحفاظت نکل کر رحمتِ دو جہاںﷺ سب سے پہلے اپنے جاں نثار دوست اور ساتھی ابوبکر صدیقؓ کے گھر پہنچے۔ وہاں سے وہ ابوبکر صدیقؓ کے ہمراہ یثرب کی جانب روانہ ہوئے۔‘‘ عبدﷲ نے بتایا۔
’‘’سردارانِ مکہ نے جن جنگجو نوجوانوں کو محمد(ﷺ) کے گھر کے اردگرد حملے کے لیے بٹھایا تھا۔ تاریک رات کے بعد جب صبح کی روشنی پھیلی تو انہوں نے کیا کیا؟‘‘ تاگو نے پوچھا۔
’’رحمتِ دو جہاںﷺ جو پورے عرب میں صادق و امین کے نام سے مشہور تھے۔ انہوں نے اپنے پیارے چچازاد بھائی حضرت علیؓ کو مکہ کے لوگوں کی امانتیں حفاظت کے ساتھ واپس کرنے کی غرض سے ہجرت والی رات اپنے بستر پر سُلا دیا تھا تاکہ صبح بیدار ہو کر ان سب لوگوں کی امانتیں واپس لوٹا دیں، جنہوں نے وہ امانتیں رحمت دو جہاںﷺ کے پاس رکھوائی ہوئی تھیں۔
مقررہ وقت سے کچھ پہلے ایک نامعلوم شخص سرداران مکہ کے پاس آیا اور پوچھا کہ آپ لوگ کس کا انتظار کر رہے ہو؟‘
انہوں نے کہا:’محمد(ﷺ)کا۔‘
وہ کہنے لگا:’تم لوگ ناکام ہو گئے ۔اللہ کی قسم! محمد(ﷺ)تو تمہارے سروں میں مٹی ڈالتے ہوئے نکل چکے ہیں۔انہیں یقین نہ آیااور انہوں نے آپ کے دروازے کی درز سے جھانک کردیکھا تو آپ کے بستر پر ایک شخص لیٹا ہوا نظر آیاجس نے آپ کی چادر مبارک اوڑھ رکھی تھی۔یہ دیکھ کر سرداران مکہ کہنے لگے :’محمد(ﷺ) تو ادھر سوئے ہوئے ہیں،چنانچہ وہ صبح تک وہیں ڈٹے رہے۔جب صبح ہوئی تو حضرت علی آپ کے بستر سے اٹھے تو اُن سرداران کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔انہوں نے حضرت علیؓ سے پوچھا: ہمیں بتاؤ کہ محمد(ﷺ) کہاں ہیں؟ حضرت علیؓ نے طنزیہ جواب دیا کہ گھر سے باہر تو آپ لوگ موجود تھے۔ آپ کو پتا ہوگا کہ وہ کہاں گئے ہیں۔ یہ جواب سن کر جنگجو نوجوان سخت غصے میں آگئے ۔ انہوں نے حضرت علیؓ کو خوب ڈرایا، دھمکایا اور مارا پیٹا لیکن اس سے کچھ حاصل نہ ہوا تو منہ لٹکا کر وہاں سے چلے گئے۔‘‘
’’ کیا محمد (ﷺ)نے یثرب جانے کا پروگرام راتوں رات بنایا تھا؟‘‘ راگو نے سوال کیا۔
’’رحمتِ دو جہاںﷺ نے یثرب جانے کا پروگرام راتوں رات نہیں بنایا تھا، بلکہ اس کے لیے کئی روز تک سوچ سمجھ کرباقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی تھی۔رحمتِ دو جہاںﷺ نے یثرب جانے کے لیے وہ راستہ اختیار نہیں۔ جس پر عام طور پر قافلے سفر کرتے تھے۔ یثرب مکہ سے شمال کی جانب تھا جبکہ رحمتِ دو جہاںﷺ نے یثرب کی جانب روانگی کا پروگرام اس طرح ترتیب دیا کہ مکہ سے جنوب کی جانب واقع غار ثور کو اپنا پہلا پڑاؤ تجویز کیا۔ غارِ ثور مکہ شہر سے کچھ فاصلے پر محفوظ جگہ تھی۔ اس غار میں کئی روز قیام کیا جا سکتا تھا۔ غار ثور میں قیام کے دوران یہ انتظام کیا گیا کہ عبداللہ بن ابو بکرؓ سرداران مکہ کی سرگرمیوں سے آگاہ کرنے کے لیے رات کے وقت غار میں آیا کریں گے۔اسی طرح ابو بکرؓ کے آزاد کیے ہوئے غلام عامر بن فہیرہؓ ہر روز بکریاں چراتے رات گئے غار کے منہ پر آجایا کریں گے اور دودھ دوہ کر دے دیا کریں گے اور اسماء بنت ابو بکرؓ رات کی تاریکی میں کھانا دے جایا کرتیں۔ ایک قابل اعتماد آدمی عبدﷲ بن اریقط کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ سواری کے دو اونٹ ہر وقت تیار رکھے، تاکہ ہجرت کے وقت انہیں استعمال کیا جا سکے اور سب سے اہم بات یہ کہ غارِ ثور کا انتخاب اس لیے کیا گیا کہ مکہ شہر سے یہاں تک کا راستہ بہت پتھریلا اور دشوار گزار تھا اور یہ غار جنگل بیابان میں ایسی جگہ تھا جہاں سانپوں اور دوسرے خطرناک جانوروں نے یہاں اپنے ٹھکانے بنا رکھے تھے۔ اس لیے کوئی اس غار کی جانب جانے کا سوچتا بھی نہیں تھا۔‘‘ عبدﷲ نے بتایا۔
’’یہ تو واقعی زبردست تدبیر اور منصوبہ تھا۔‘‘ سردار نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا۔
’’رحمت دو جہاںﷺ نے اپنے جاں نثار دوست اور ساتھی ابوبکرؓ کے ساتھ رات کی تاریکی میں مکہ سے غار ثور کا سفر بہت احتیاط سے کیا، تاکہ کسی کو اس کی خبر نہ ہو سکے۔ غارثور میں پہنچے تو ابوبکر صدیقؓ نے غار کو اچھی طرح صاف کیا تاکہ رحمتِ دو جہاںﷺ وہاں آرام کر سکیں۔۔۔‘‘ عبدﷲ کی بات جاری تھی کہ باگو نے پوچھا۔
’’محمد (ﷺ) جنہیں مکہ کے سرداروں نے بہت مہارت اور منصوبے کے تحت قتل کرنے کا پروگرام بنایا تھا۔ جب وہ اس منصوبے میں بری طرح ناکام ہو گئے تو اس کے بعد انہوں نے کوئی یا منصوبہ بنایا؟ یا خاموش ہو کر بیٹھ گئے۔‘‘
’’مکہ کے سردار جو رحمتِ دو جہاںﷺ کے خون کے پیاسے تھے۔ وہ منصوبے کی ناکامی کے بعد خاموش ہو کر بیٹھنے والے کہاں تھے۔ انہوں نے فوراً سب لوگوں کو جمع کیا اور بہت بڑے مجمع میں اعلان کیا گیا کہ جو آدمی محمد (ﷺ) اور ان کے ساتھ ابوبکر صدیقؓ کو زندہ پکڑ کر لائے گا یا قتل کرکے ان کے سر لائے گا تو اسے دو سو انتہائی قیمتی اونٹ انعام میں دیئے جائیں گے۔‘‘
’’اتنے بڑے کام کا اتنا معمولی معاوضہ؟‘‘ ساگو نے حیرت سے کہا۔
’’ یہ اس دور کا واقعہ ہے جب جزیرۃ العرب میں اونٹ کو’’صحرا کا جہاز‘‘ کہا جاتا تھا۔ اس لیے دو سواونٹوں کا انعام اتنا بڑا انعام تھا کہ جس نے سنا وہ حیرت زدہ رہ گیا اور ہر کوئی رحمتِ دو جہاںﷺ اور آپ کے دوست اور ساتھی ابوبکر صدیقؓ کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ اسی تلاش میں کچھ لوگ غار ثور تک بھی جا پہنچے۔ جب ابوبکر صدیقؓ نے یہ دیکھا تو گھبرا گئے۔ لیکن رحمتِ دو جہاںﷺ نے فرمایا کہ یہ ہم تک نہیں پہنچ سکتے اور واقعی ایسا ہی ہوا، کیونکہ ﷲ کے حکم سے مکڑی نے غار کے منہ پر جالا بن دیا تھا، جس سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ برسوں سے کوئی اس غار میں داخل نہیں ہوا۔‘‘ عبدﷲ نے بتایا۔
’’ اس کا مطلب ہے کہ مکہ سے یثرب تک ہجرت کے دوران کوئی محمد(ﷺ) اور ان کے ساتھی ابوبکرصدیقؓ تک نہ پہنچ سکا۔‘ ‘ تاکو نے خیال ظاہر کیا۔
’’ نہیں ایسی بات نہیں، ہجرت کے سفر کے دوران جب رحمتِ دو جہاںﷺ اور آپ کے جاں نثار ساتھی ابوبکر صدیقؓ قبیلہ بنی مدلج کے قریب سے گزر رہے تھے تو ایک واقعہ رونما ہوا۔۔۔‘‘
’’وہ کیا واقعہ تھا؟‘‘ راگو نے جلدی سے پوچھا۔
آج کافی وقت ہو گیا ہے ۔ اب باقی گفتگو کل ہو گی۔ عبدﷲ نے چبوترے سے اترتے ہوئے کہا۔
٭….٭….٭
انوکھا واقعہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”عبدﷲ جو کہانی سنا رہا ہے، مجھے تو وہ واقعی سچی کہانی لگ رہی ہے۔“ باکو نے چبوترے کے قریب بیٹھے ہوئے تاکو سے کہا۔
”مکہ کے جنگجو نوجوانوں کے موجودگی میں گھر سے نکل کر ابوبکر صدیقؓ کے گھر پہنچ جانا اور غار ثور کے باہر مکڑی کا جالا بن دینا اور اسی طرح کی دوسری باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ عبدﷲ ، ایک سچے انسان کی کہانی سنا رہا ہے۔ اس لیے ….“ راکو ، ساگو سے رازدارانہ انداز میں بات کر رہا تھا کہ اسی دوران عبداللہ چبوترے تک پہنچ چکا تھا۔
عبدﷲ کے چبوترے پر پہنچتے ہی چاروں جانب خاموشی چھا گئی۔ ہر کوئی منتظر تھا کہ عبدﷲ کل والے واقعے سے اپنی بات شروع کرے۔ عبدﷲ نے چاروں جانب نظر دوڑاتے ہوئے اپنے قریب بیٹھے ہوئے سردار کی جانب ایسے دیکھا ، جیسے اجازت طلب کر رہا ہو کہ میں اپنی گفتگو شروع کروں۔ سردار نے عبدﷲ سے کہا کہ کل جہاں بات ختم ہوئی تھی، وہاں سے دوبارہ بات شروع کرو۔
”میں بتا رہا تھا کہ ….“ عبدﷲ نے گفتگو شروع کرتے ہوئے کہا:
رحمت دوجہاںﷺ نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ یثرب کی جانب دوبارہ سفر شروع کیا۔دورانِ سفر کھانے پینے کی چیزیں ختم ہو گئیں تو راستے میں بستی کی تلاش شروع ہوئی،جہاں سے کھانے پینے کی کچھ چیزیں لی جا سکیں۔ابھی تھوڑی دور گئے تھے کہ راستے میں قدید کے مقام پرایک بدو خاندان کا خیمہ نظر آیا۔نبی ﷺ نے دیہاتی خاتون ام معبد سے کھانے پینے کی چیزطلب کی تو ام معبد نے بتایا کہ خشک سالی کے ان دنوں میں صرف ایک کمزور سی بکری ہے جس کے تھنوں کا دودھ خشک ہو چکا ہے….“عبداللہ نے ابھی اتنا ہی کہا تھاکہ باکو نے جلدی سے پوچھا:
”ام معبد کے ہاں کھانے پینے کی کوئی چیز نہ ہونے کی وجہ سے محمد(ﷺ)اور ان کے ساتھیوں کا کیا بنا؟“
”میں یہی بتانے لگا تھا….“عبداللہ نے گفتگو کا سلسلہ دوبارہ شروع کرتے ہوئے کہا:”رحمت دوجہاں نے ام معبد کی کمزوراور مریل بکری کے تھنوں کو اپنا مبارک ہاتھ لگایاتو ان سے اتنا زیادہ دودھ نکلا کہ سب لوگوں کا پیٹ بھر گیابلکہ مزید دودھ کا برتن بھر گیا۔اس کے بعد یہ مختصر قافلہ پھر اپنے سفر پر روانہ ہو گیا۔تھوڑی دیر بعد ام معبد کا شوہر گھر آیاتو دودھ سے بھرا برتن دیکھ کر حیرت میں پڑ گیا،چنانچہ اپنی بیوی سے پوچھنے لگا کہ یہ کہاں سے آیاہے؟بیوی نے بکری سے حاصل ہونے والے دودھ اور مسافروں کا ذکر کیا۔یہ سن کر ابو معبد نے کہا:’یہ وہی مسافر لگتا ہے جس کو قریش مکہ تلاش کر رہے ہیں۔“
”اس سفر میں اور بھی کوئی عجیب واقعہ پیش آیا؟“راکو نے پوچھا۔
”ہاں ایک واقعہ اس سے بھی عجیب پیش آیا….“عبداللہ نے بتانا شروع کیا: ”ہوا یوں کہ جب رحمت دوجہاںﷺ اور آپ کے جاں نثار دوست ابوبکر صدیقؓ اپنے دوساتھیوں کے ساتھ ام معبد کے خیمے سے آگے گئے تو آپ کا گزر ایک ساحل کے قریب سے ہوا ۔اس کے پاس ہی قبیلہ بنو مدلج کے علاقے سے گزر رہے تھے کہ کسی نے اس قبیلے کے سردار سراقہ بن مالک کو بتایا کہ سردارانِ مکہ نے جس کے سر کی قیمت دو سو قیمتی اونٹ لگائی ہے، وہ ابھی ادھر سے گزرے ہیں۔ سراقہ نے یہ سنا تو اپنے تیز رفتار گھوڑے پر بیٹھا اور رحمت دو جہاں اور ابوبکر صدیقؓ کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ جلد ہی سراقہ ان کے سر پر پہنچ گیا۔ یہ دیکھ کر ابوبکر صدیقؓ گھبرائے تو رحمتِ دو جہاں نے فرمایا گھبراؤ نہیں، ﷲ ہمارے ساتھ ہے۔ ان الفاظ کا کہنا تھا کہ سراقہ کے گھوڑے نے اچانک ٹھوکر کھائی اور وہ زمین پر آرہا۔ سراقہ کپڑے جھاڑ کر اٹھا اور دوبارہ گھوڑے پر سوار ہو گیا لیکن ایک بار پھر گھوڑے نے ٹھوکر کھائی ، جس سے سراقہ سر کے بل زمین پر گرا۔ سراقہ نے اس کو اتفاقی بات سمجھ کر تیسری بار گھوڑے کو آگے بڑھانا چاہا تو گھوڑے کے پاؤ ں زمین میں دھنسنے لگے۔ سراقہ نے جب یہ دیکھا تو وہ بری طرح گھبرا گیا۔ اس نے دور ہی سے اونچی آواز میں بتایا کہ میرا نام سراقہ بن مالک ہے۔ رحمتِ دو جہاں نے ابوبکر صدیقؓ سے فرمایا کہ اس سے پوچھو کہ وہ کیا چاہتا ہے؟ اس کے جواب میں سراقہ نے بتایا میں دو سو اونٹوں کے لالچ میں آپ کے تعاقب مےں آیا تھا۔پھر سراقہ رحمت دوجہاں ﷺ کے پاس آیا اور آپ کے لوگوں کے عزائم سے آگاہ کیا۔اس واقعے سے سراقہ پر یہ حقیقت آشکار ہو چکی تھی کہ رحمت دوجہاں ﷺ کا دین غالب آکر رہے گا۔سراقہ نے آپ کو مال و اسباب کی پیش کش کی تو آپ نے کوئی بھی چیز لینے سے انکار کر دیا اور صرف اتنا کہا کہ ’ہمارے بارے میں کسی کو مت بنانا۔‘
سراقہ کو یقین تھا کہ محمد (ﷺ) نے جو کچھ فرمایا ہے، آنے والے وقت میں یہ سچ ثابت ہوگا۔ اس لیے اس نے رحمت دو جہاں سے گزارش کی کہ مجھے ایک تحریر لکھ دیں جس میں میری جان کی امان ہو۔ اس پر رحمت دو جہاں کے حکم پر عامر بن فہیرہؓ نے چمڑے کے ایک ٹکڑے پر یہ تحریر لکھ کرسراقہ کو دے دی۔“
’’محمد(ﷺ) اور ان کے ساتھی کتنے دنوں بعد یثرب پہنچے؟‘‘ساگو نے پوچھا۔
’’یثرب سے پہلے راستے میں ایک چھوٹی سی بستی قُباء آتی ہے۔ غار ثور سے بستی تک پہنچنے میں رحمتِ دو جہاں ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو دس دن لگے۔ قباء میں آپ نے کلثوم بن ہِدم رضی اللہ عنہ کے ہاں قیام کیا۔ اس قیام کے دوران میں ہی آپ کے چچازاد حضرت علی رضی اللہ عنہ لوگوں کی امانتیں لوٹا کرقباء پہنچ گئے۔ اس دوران میں دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر ایک مسجد تعمیر کی گئی جو آج بھی مسجد قباء کے نام سے مشہور ہے۔‘‘ عبداللہ نے بتایا۔
’’قباء سے یثرب پہنچنے میں کتنے دن لگے اور یثرب والوں نے آپ سے کیا سلوک کیا۔؟‘‘تاکو نے معلوم کیا۔
’’رحمتِ دو جہاں ﷺ نے قباء بستی میں چار دن قیام فرمایا۔ اس کے بعد اپنے جاں نثار ساتھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ قصواء اونٹنی پر بیٹھ کر یثرب روانہ ہوئے۔قباء سے روانگی سے قبل آپ نے اپنے ننھال بنو نجار کو پیغام بھیجا تو وہ آپ کی حفاظت کے لئے تلوار لٹکائے حاضر ہوگئے۔ ان کی رفاقت میں آپ نے یثرب کا رخ کیا۔ راستے میں بنو سالم کی بستی میں نماز جمعہ کا وقت ہوگیا تو آپ ﷺ نے وہاں سو آدمیوں کو جمعہ کی نماز پڑھائی۔ اسلام میں یہ پہلا جمعہ تھا۔ نماز کے بعد آپ نے دوبارہ یثرب کا رخ کیا۔ اس وقت لوگ استقبال کے لیے امڈ پڑے تھے۔
جب آپ شہر میں داخل ہوئے تو لوگوں نے آپ کا ایسا شاندار استقبال کیا کہ اس کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔ اس روز سے یثرب ’مدینۃ النبی‘ بن گیا۔ اس موقعے پر انصار کی بچیوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ وہ خوشی کے ساتھ پڑھ رہی تھیں:
ہم پر مدینے کے اطراف سے
چودھویں کا چاند طلوع ہوا ہے
جب تک اللہ کو پکارنے والا پکار ے
ہم پر اللہ کا شکر واجب ہے
اے ہم میں بھیجے گئے (نبی!)
آپ ایسے دین کے ساتھ آئے ہیں
جس کی اطاعت فرض ہے
رحمتِ دو جہاں ﷺکے خادم خاص حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے اُس دن سے زیادہ مبارک اور خوشی کا دن نہیں دیکھا جس دن رحمتِ دو جہاں ﷺ مدینہ تشریف لائے۔
رسول اللہﷺانصار کے جس محلے سے بھی گزرتے وہ آپ کی اونٹنی کی نکیل پکڑ لیتے اور عرض کرتے :آپ ﷺکے کھانے پینے اور حفاظت کا سامان موجود ہے، آپ ہمارے ہاں تشریف لائیے! مگر آپ ﷺ ایک ہی جواب دیتے :
’اونٹنی کا راستہ چھوڑ دو، یہ اللہ کے حکم کی پابند ہے۔‘
’’قصواء اونٹنی اللہ کے حکم کی پابند تھی تو آخر وہ کہاں اور کس کے پاس جا کر رکی؟‘‘ راکو نے پوچھا۔
’’اونٹنی جب اس مقام پر پہنچی جہاں آج مسجد نبوی ہے تو بیٹھ گئی، لیکن آپ ﷺ نیچے نہیں اُترے، یہاں تک کہ وہ اُٹھ کر دور تک گئی، پھر مڑ کر دیکھنے کے بعد پلٹ آئی اور اپنی پہلی جگہ پر دوبارہ بیٹھ گئی۔ اس کے بعد رحمتِ دو جہاں ﷺ نیچے تشریف لے آئے تو حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے جلدی سے آپ کا کجاوہ اُٹھا لیا اور اپنے گھر لے کر چلے گئے، چنانچہ رحمتِ دو جہاں ﷺ ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر میں تشریف لے گئے جہاں آپ نے قیام فرمایا۔ ‘‘عبداللہ نے بتایا۔
’’ابو ایوب انصاری کے گھر میں قیام کے بعد محمد( ﷺ) کس کے ہاں چلے گئے؟ ‘‘باکو نے سوال کیا۔
’’حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر کے سامنے خالی جگہ جہاں آپ کی قصواء اونٹنی بیٹھی تھی۔ آپ نے اس جگہ مسجد بنانے کی خواہش ظاہر کی تو معلوم ہوا کہ یہ زمین دو یتیم بچوں سہل بن عمرو اور سہیل بن عمرو کی ہے۔ آپ نے زمین کے مالک بچوں کو قیمت دینے کی کوشش کی تو انہوں نے قیمت لینے سے انکار کردیا۔ مگر آپ نے بطو رحکم انہیں قیمت وصول کرنے کا کہا تو وہ زمین کی رقم لینے پر آمادہ ہوگئے۔
زمین خریدنے کے بعد اس پر مسجد کی تعمیر کچی اینٹوں اور گارے سے مکمل کی گئی۔ فرش پر ریت اور کنکریاں بچھائی گئیں اور کھجور کے تنوں کے اوپر کھجورکی خشک ٹہنیاں بچھا کر چھت بنائی گئی۔ بارش ہوتی تو چھت ٹپکنے لگتی اور مسجد کے اندر کیچڑ ہو جاتی تھی۔
مسجد کے ساتھ کچی اینٹوں اور گارے سے دو کمرے بنائے گئے۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے ہاں قیام کے بعد رحمتِ دو جہاں ﷺ اپنے اہل خانہ کے ساتھ ان چھوٹے چھوٹے دو کمروں میں منتقل ہوگئے۔ ‘‘عبداللہ نے باکو کے سوال کے جواب میں تفصیل سے بتایا۔
’’محمد( ﷺ) نے مدینہ پہنچ کر سب سے پہلے کیا کام کیا؟‘‘ ساگو نے پوچھا۔
’’ساگو کا سوال بہت اہم ہے لیکن آج آپ لوگوں نے کہانی کا خاصا حصہ سن لیا ہے۔ اب باقی باتیں کل ہوں گی۔‘‘ یہ کہتے ہوئے عبداللہ نے سردار سے اجازت لی اور اپنی جھونپڑی کی طرف چل دیا۔
٭….٭….٭
جھگڑے کا فیصلہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چبوترے کے قریب عجیب ہنگامہ برپا تھا۔ سردار لوگوں کو بار بار خاموش ہونے کے لئے کہہ رہا تھا، لیکن کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ عبداللہ وقت مقررہ پر اپنی جھونپڑی سے وہاں پہنچا تو ہنگامے میں مصروف لوگ ایک دم خاموش ہوگئے۔ سردار کو سخت حیرت ہوئی کہ جس ہنگامے کو وہ آدھے گھنٹے سے ختم کرنے کے لیے زور لگا رہا تھا، عبداللہ کے آتے ہی تمام لوگ بالکل خاموش ہو کر اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے ہیں۔
عبداللہ نے سردار سے پوچھا کہ’’ یہ ہنگامہ کس بات پر ہورہا تھا ؟‘‘
سردار نے بتایا کہ چند سال پہلے ہمارے جزیرے کے قریب ایک چھوٹا سا جزیرہ تھا جس کی آبادی تقریبا ڈیڑھ سو افراد سے زیادہ نہیں تھی۔ ایک بار سمندری طوفان کی وجہ سے یہ چھوٹا سا جزیرہ ڈوب گیا۔ جزیرے کے لوگوں نے کشتیوں پر بیٹھ کر بڑی مشکل سے جان بچائی لیکن پھر بھی کئی لوگ سمندری طوفان کی نذر ہوگئے۔ تقریباً سو کے قریب لوگ ہمارے جزیرے تک پہنچنے میں کامیاب ہوسکے۔ ہم نے ہمدردی کے جذبے کے تحت شمال کی جانب ساحل سمندرکے کنارے انہیں رہنے کے لئے ایک جگہ دے رکھی ہے۔ یہ لوگ و ہیں رہتے ہیں، انہیں ہمارے لوگوں کے ساتھ میل ملاپ کی اجازت نہیں۔ اگر ان کے پالتو جانور اپنی مخصوص حدود سے باہر آکر ہماری فصلوں یا درختوں کو نقصان پہنچائیں تو اس کا سختی سے جواب دیا جاتا ہے۔ اس وجہ سے کئی بار آپس میں ہنگامہ اور تصادم بھی ہو جاتا ہے۔
آج بھی ایسی صورت حال پیش آئی ہے۔ ان لوگوں کے پالتو جانور ہمارے کھیتوں میں گھس آئے تھے جس سے کئی لوگوں کی فصلیں خراب ہوگئی ہیں۔ ہمارے لوگوں کا مطالبہ ہے کہ ان غیر لوگوں کو یہاں سے نکال دیا جائے۔ یہ کسی دوسرے جزیرے میں جا کر رہیں۔ یہ وہ ہنگامہ ہے جو اس وقت ہو رہا تھا اور اس کا حل سمجھ میں نہیں آ رہا۔ ‘‘سردار نے بے بسی کے عالم میں عبداللہ کو بتایا۔
’’کل میں نے سب سے اچھی اور سب سے سچی کہانی کو جس جگہ چھوڑا تھا، اس جگہ ساگو نے پوچھا تھا کہ محمد (ﷺ) نے مدینہ آکر سب سے پہلے کیا کام کیا تھا۔ وقت کی کمی کی وجہ سے میں نے ساگو سے کہا تھا کہ اس کے متعلق اگلے روز بتاؤں گا۔
عجیب اتفاق ہے کہ آج میں جس بات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں، وہ بات اگر آپ لوگوں کی سمجھ میں آ گئی تو یہ روز روز کی لڑائی اور جھگڑا ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا۔۔۔‘‘ عبداللہ کی بات جاری تھی کہ سردار نے جلدی سے پوچھا۔’’وہ کیسے؟‘‘
’’میں نے کل جہاں سے کہانی چھوڑی تھی، وہاں سے دوبارہ شروع کروں گا تو آپ لوگوں کو اپنے مسئلے کا حل سمجھ میں آجائے گا۔۔۔‘‘
عبداللہ نے کہا نی دوبارہ شروع کرتے ہوئے کہا:
’’رحمت دو جہاں ﷺ نے مدینہ پہنچ کر سب سے پہلا کام یہ کیا کہ وہ لوگ جو ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تھے، انہیں مہاجر کہا جاتا تھا اور وہ لوگ جو مدینہ کے رہنے والے تھے اور جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا، انہیں انصار کہا جاتا تھا۔ انصار نے مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ آنے والے مسلمانوں کو اپنا مہمان بنایا تھا۔ عربی زبان میں انصار مدد کرنے والوں کو کہتے ہیں، اس لئے مدینہ کے مسلمان انصار کہلائے۔ رحمتِ دو جہاں ﷺ نے انصار اور مہاجرین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انصار سے مخاطب ہو کر فرمایا: ’آج سے یہ تمہارے بھائی ہیں۔‘
اس کے بعد رحمتِ دو جہاں ﷺ ایک ایک مہاجر اور ایک ایک انصاری کو بلاتے اور فرماتے:’ آج سے تم دونوں بھائی بھائی ہو۔ اس طرح۔۔۔‘‘عبداللہ کی بات جاری تھی کہ سردار نے کہا:’’ بس ،بس! میری سمجھ میں ساری بات آ گئی ہے۔ میرے جزیرے اور ساتھ وا لے ڈوبے ہوئے جزیرے کے لوگوں کے درمیان لڑائی اور فساد کا ایک ہی حل ہے کہ ان دونوں کو آپس میں بھائی بھائی بنا دیا جائے۔ میں آج اعلان کرتا ہوں۔۔۔‘‘سردار نے ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ وہ لوگ جو کچھ دیر پہلے آپس میں لڑ جھگڑ رہے تھے، انہوں نے آپس میں بغل گیر ہونا شروع کر دیا۔ جزیرے پر رہنے والے ہر فرد کے لیے یہ انوکھا منظر تھا کہ کئی سال سے معمولی باتوں پر لڑنے اور جھگڑنے والے لوگ آپس میں گلے مل رہے تھے اور شیر و شکر ہو رہے تھے۔
’’آج میرے لیے خوشی و مسرت کا یہ بہت بڑا واقعہ ہے۔ خوشی کے اس موقع پر میری جانب سے جزیرے کے تمام لوگوں کے لئے رات کے کھانے کی دعوت عام ہوگی اور کھانے کی اس تقریب کے خاص مہمان عبداللہ ہوں گے۔‘‘ سردار نے جیسے ہی اعلان کیا، چاروں جانب ’ہمارا سردار زندہ باد، ہمارا سردار زندہ باد‘ کے نعرے گونجنے لگے۔
نعروں کی شدت میں کمی واقع ہوئی تو عبداللہ نے سب سے اچھی اور سب سے سچی کہانی کا سلسلہ دوبارہ شروع کرتے ہوئے کہا: ’’انصار اور مہاجرین کے درمیان قائم ہونے والا بھائی چارہ دنیا کی منفرد مثال تھی۔ مسلمانوں کے درمیان قائم ہونے والا یہ رشتہ اتنا مضبوط تھا کہ انصار نے اپنے مہاجرین بھائیوں کو اپنے کاروبار اور جائیداد تک میں ساتھی بنالیا۔ جس کے پاس دو گھر تھے، اس نے ایک گھر اپنے مہاجر بھائی کو دے دیا اور اگر کسی کے پاس گھر کا سامان نہ تھا تو اپنا آدھا سامان اپنے مہاجر بھائی کے حوالے کردیا۔ دوسری طرف مہاجر بھی ایسے تھے جو اپنے انصاری بھائیوں پر بوجھ بننے کے بجائے محنت مزدوری اور چھوٹا موٹا کاروبار کر کے اپنی روزی کمانے لگے۔‘‘
عبداللہ سانس لینے کے لئے رکا تو باکو نے کہا:’’ میرے خیال میں کہانی ختم ہوگئی ہے۔ اب تو سب لوگ آرام وسکون سے رہنے لگے ہوں گے اور اپنے اپنے کاروبار میں مگن ہوگئے ہوں گے؟‘‘
’’ابھی تو کہانی جاری ہے اور اس میں آگے کئی اتار چڑھاؤ آنے والے ہیں۔ اس لئے خاموشی سے کہانی سنتے جائیں۔‘‘ عبداللہ نے یہ کہتے ہوئے دوبارہ کہانی شروع کی:
’’یثرب شہر جو رحمتِ دو جہاں ﷺ کی تشریف آوری کے بعد مدینۃ النبی بن گیا تھا،پھر اسے صرف مدینہ کہا جانے لگا۔ اس شہر میں یہودیوں کا بڑا اثر تھا۔ زمینوں اور جائیداد کے زیادہ تر یہی مالک تھے۔ بازاروں میں اکثر دکانیں انہی کی تھیں۔ تجارت بھی انہی کے ہاتھ میں تھی۔‘‘
’’یہ یہودی کون تھے؟‘‘ساگو نے پوچھا۔
’’رحمت دوجہاں ﷺ سے پہلے جو نبی آئے، ان میں حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی شامل تھے۔ان کے ماننے والوں کو یہودی کہا جاتاہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جوآسمانی کتاب نازل ہوئی،اس کا نام توریت ہے۔اس کتاب میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ماننے والوں کو نیکی اور اچھائی کی باتیں بتائی تھیں اور حکم دیا کہ ان سب باتوں پر عمل کرو لیکن انہوں نے اپنے نبی کو چھوڑ کر بری باتوں پر عمل کرنا شروع کر دیا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ نے ناراض ہو کر ان کی ساری شان و شوکت ختم کردی۔
مدینہ میں جو یہودی آباد تھے،وہ بھی اپنے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات چھوڑ چکے تھے اور برے کاموں پر عمل کرنا شروع کر دیا تھا۔‘‘
’’اس کے باوجود مدینہ میں تجارتی اور مالی لحاظ سے یہودیوں کو برتری حاصل تھی۔یہ تو حیرت کی بات ہے۔‘‘تاکو نے کہا۔
’’اللہ تعالیٰ کا یہ اصول ہے کہ وہ نافرمانی کرنے والوں کو ڈھیل دیتا رہتا ہے۔انہیں دنیا میں بظاہر کامیابیاں بھی حاصل ہوتی ہیں جن سے دوسرے لوگ متأثر اور مرعوب ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔لیکن یہ دوسرے لوگوں کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے راستے پر قائم رہتے ہیں یا نا فرمانوں کی کامیابیوں کو دیکھ کر وہ بھی ان کے ساتھی بن جاتے ہیں۔‘‘عبداللہ نے بتایا۔
’’محمد(ﷺ) کی مدینہ آمد پر یہودیوں نے کیا ردعمل ظاہر کیا؟‘‘ راکو نے پوچھا۔
’’یہودی اگرچہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ماننے والے تھے، لیکن اپنے نبی کی تعلیمات کو چھوڑ دینے کی وجہ سے ان کے اندر دنیا کی محبت اتنی زیادہ رچ بس چکی تھی کہ وہ اپنے علاوہ کسی کو کچھ سمجھتے ہی نہیں تھے۔ اس لیے انہوں نے مدینہ میں رحمتِ دو جہاں ﷺ کی آمد پرقطعاً خوشی کا اظہار نہ کیا بلکہ اندر ہی اندر اُن کے خلاف سازشوں میں مصروف ہوگئے۔‘‘
’’اس صورتحال میں محمد(ﷺ) نے کیارد عمل ظاہر کیا؟‘‘ باکو نے دریافت کیا۔
’’رحمتِ دو جہاںﷺ نے یہودیوں کے بُرے ارادوں کو بھانپ لیا تھا لیکن آپ نہیں چاہتے تھے کہ مدینہ میں آتے ہی ان برے لوگوں سے الجھ کر اصل دعوت، یعنی اللہ کا پیغام عام کرنے سے آپ کی توجہ ہٹ جائے، اس لئے آپ نے اپنا مشن جاری رکھنے کے لئے مدینہ کے یہودی سرداروں کو اپنے پاس بلا کر ایک معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کو میثاقِ مدینہ کہا جاتا ہے۔‘‘ عبداللہ نے بتایا۔
’’میثاقِ مدینہ میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان کن باتوں پر اتفاق ہوا؟‘‘ ساگو نے پوچھا۔
’’اس معاہدے میں طے ہوا کہ مسلمان اور یہودی اپنے اپنے مذہب پر آزادی سے عمل کریں گے اور مذہب کے علاوہ دوسری باتوں میں دونوں ایک جماعت سمجھے جائیں گے۔ اگر ایک مسلمان صلح کر لے تو وہ سب مسلمانوں کی طرف سے صلح سمجھی جائے گی۔ اگر کسی دشمن سے مسلمانوں کی لڑائی ہو گی تو یہودی مسلمانوں کا ساتھ دیں گے اور ان کے دشمن سے لڑیں گے۔ اگر کوئی دشمن مدینہ پر حملہ کرے گا تو مسلمان اور یہودی مل کر اس کا مقابلہ کریں گے اور اگر صلح ہوجائے تو دونوں کی طرف سے صلح سمجھی جائے گی۔ اس کے علاوہ اگر مسلمانوں اور یہودیوں میں کسی بات پر جھگڑا ہو گا کو اُس کا فیصلہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کریں گے۔‘‘ عبداللہ نے بتایا۔
’’یہودیوں کے ساتھ اس معاہدے کے بعد تو چاروں جانب امن و سکون ہو گیا ہو گا۔‘‘ تاکو نے خیال ظاہر کیا۔
’’نہیں! ایسی بات نہیں، یہودیوں کی ہزارہا سال کی تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے تو اپنے نجات دہندہ اللہ کے نبیوں سے بھی وفا نہیں کی تھی۔ وہ تو اپنے معمولی فائدے کی خاطر انہیں قتل تک کرنے سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ وقتی طور پر توسکون ہوگیا لیکن وہ موقعے کی تلاش میں تھے کیونکہ مکہ سے مدینہ آنے والے مسلمانوں کی وجہ سے یہودیوں کی تجارت اور سودی کاروبار کو نقصان پہنچا تھا۔ مکہ سے آنے والے مسلمانوں میں تاجر بھی تھے، اس لئے مدینہ میں ان کی کاروباری اجارہ داری بھی ختم ہو گئی تھی، اس لیے انہیں مسلمانوں پر سخت غصہ تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہودیوں کا ایک سردارحیی بن اخطب اور اس کا بھائی ابویاسر ایک دن رحمت دوجہاں ﷺ کی محفل میں سارا دن بیٹھے رہے۔ جب وہ شام کوواپس گھر پہنچے تواُس سردار کے بھائی نے پوچھا کے تمہارا اِس نبی کے متعلق کیا خیال ہے؟ حیی بن اخطب نے جواب دیا:’ جب تک میری زندگی ہے میں ہر حال میں محمد(ﷺ) سے دشمنی رکھوں گا۔‘‘ عبداللہ نے بتایا۔
’’یہودیوں کایہ رویہ تو بہت برا تھا۔‘‘ تاکونے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا۔
’’یہودیوں کی شاید فطرت ہی ایسی ہے کہ جو انہیں امن مہیا کرتا ہے، اسے بھی سانپ کی طرح ڈسنے سے باز نہیں آتے۔ رحمتِ دو جہاں ﷺ نے میثاق مدینہ کے ذریعے سے انہیں امن وسکون کی کھلی ضمانت دے دی تھی، لیکن وہ مسلمانوں کو ہر موقعے پر نقصان پہنچانے کی کوشش میں مصروف رہتے تھے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ مدینہ کے دو قبائل اوس اور خزرج کے جن لوگوں نے اسلام قبول کرلیا تھا، ایک یہودی شاعر نے دونوں قبائل کے لوگوں کی موجودگی میں ماضی کی باہمی جنگوں کے حوالے سے اشعار پڑھے تو دونوں قبائل کے لوگ ماضی کی تلخ باتیں یاد کرکے ایک دوسرے سے لڑنے مارنے پر تیار ہوگئے۔ جب رحمتِ دو جہاں ﷺ کو یہودیوں کی مکارانہ سازش کا پتا چلا تو آپ فوراً وہاں تشریف لے گئے اور دونوں قبائل کے لوگوں کو یہودی سازش سے آگاہ کیا اور دونوں قبائل ایک بار پھر شیروشکر ہوگئے۔
یہودیوں کی بات چلی ہے تو یہ بھی بتادوں کہ مکہ کے مسلمان جب ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تومدینہ کے انصاراپنے مہاجر بھائیوں کی دل وجان سے خدمت کرنے لگے۔ یہ دیکھ کر یہودی بڑی مکاری سے انصار مدینہ سے کہتے کہ تم اپنے بال بچوں کا بھی خیال کرو۔ اپنا تمام مال واسباب مکہ کے ان مہاجرین پر خرچ کردو گے تو تم غریب اور مفلس ہو جاؤ گے۔‘‘ عبداللہ نے بتایا۔
’’توبہ۔۔۔ توبہ! یہودی تو واقعی بہت بری قوم ہے۔ بھگوان اس قوم سے سب کو بچائے۔ ‘‘راکو نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا۔
’’یہودیوں کے اشتعال دلانے پر مکہ کے سرداروں نے کب مدینہ پر حملہ کیا اور اس کا نتیجہ کیا نکلا۔ اس کے متعلق بات کل گی۔‘‘ عبداللہ نے یہ کہا اور اپنی جھونپڑی کی جانب چل دیا۔
٭….٭….٭
شکست کا داغ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بوڑھے برگد کے گھنے سائے میں چبوترے پر سردار اور چبوترے کے اردگرد جزیرے کے سب لوگ خاموشی سے بیٹھے ہوئے تھے۔اِن میں وہ لوگ بھی موجود تھے جو قریبی جزیرے کے سمندر میں ڈوب جانے کی وجہ سے کئی سال سے اس جزیرے میں رہ رہے تھے اور ابھی کل ہی ان دونوں جزیروں کے لوگوں میں صلح صفائی ہوئی تھی۔ چاروں جانب خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ لگتا تھا کہ کسی کا بڑی بے چینی سے انتظار ہو رہا ہے۔ ایسے میں عبداللہ نے چبوترے کے پاس پہنچ کر لوگوں کا حال احوال پوچھا تو لوگوں کی خواہش تھی کہ عبداللہ جلد از جلد بتانا شروع کرے کہ مکہ کے سرداروں نے کب اور کیسے مدینہ پر حملہ کیا اور کامیابی کس کو ملی۔
عبداللہ نے لوگوں کی دلی کیفیات کا اندازہ لگاتے ہوئے گفتگو کا آغاز اس طرح کیا:’’ جب رحمتِ دو جہاںﷺ ہجرت کر کے یثرب پہنچے تو وہاں ایک با اثر آدمی عبداللہ بن اُبی بھی تھا جسے اہلِ یثرب اپنا سردار بنانا چاہتے تھے، لیکن نبی ﷺکی آمد سے اس کی سرداری دھری کی دھری رہ گئی۔ اس بنا پر اس نے آپ کی مخالفت شروع کر دی۔ مشرکین مکہ پہلے ہی آپ سے سخت دشمنی رکھتے تھے۔ انہوں نے غنیمت سمجھتے ہوئے عبد اللہ بن ابی کو ایک دھمکی آمیز خط لکھا جس میں انہوں نے صاف صاف کہہ دیا:’ تم نے محمد(ﷺ) کو پناہ دے رکھی ہے۔ اس سے لڑائی کرو یا اسے فوراً یثرب سے نکال دو، ورنہ ہم حملہ کرکے تمہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے۔‘‘
’’اس با اثر آدمی نے تو بے چارے مسلمانوں کو یثرب سے نکال دیا ہوگا؟‘‘ با کو نے افسوس بھرے لہجے میں کہا۔
’’نہیں! جب وہ خط عبد اللہ بن ابی کو ملا تو اس نے اپنے تمام ساتھیوں کو اکٹھا کیا اور انھیں خط سنایا۔ اس کے نتیجے میں تمام نے مل کر رحمتِ دو جہاںﷺکے ساتھ جنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔۔۔‘‘
ابھی بات جاری تھی کہ شاکو نے پوچھا:’’ کیا جنگ ہوئی؟‘‘
’’نہیں۔۔۔‘‘عبداللہ نے بات شروع کرتے ہوئے کہا:’’ نبی کریمﷺ کو جب علم ہوا تو آپ ان کے پاس گئے اور کہا:’ تم لوگ قریش کی دھمکی سے ڈر گئے اور ان کی باتوں میں آ گئے۔ اس طرح تم خود کو اتنا نقصان پہنچاؤ گے کہ قریش مل کر بھی تمہیں اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ تم نے سوچا ہے کہ تم اپنے بیٹوں اور بھائیوں سے لڑو گے؟‘
یہ سن کر انہوں نے جنگ کا ارادہ ترک کر دیا۔ اُدھر مکہ کے کافر سردار بُری طرح پیچ و تاب کھا رہے تھے اور مسلسل حملے کی دھمکیاں دے رہے تھے۔ ادھر عبداللہ بن ابی بھی ان کی مدد کا تہیہ کر چکا تھا۔ مسلمان خطرات میں گھرے ہوئے تھے۔ اِن پُر خطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے قریش مکہ سے لڑائی کی اجازت نازل فرمائی، چنانچہ رحمتِ دو جہاں ﷺ نے فوجی طلا یہ گردی کا انتظام فرمایا جس کا سالار اپنے کسی صحابی کو بنا دیتے۔ ا سے سریہ کہا جاتا ہے اور کبھی آپﷺ خود بھی ان کے ساتھ جاتے۔ اسے غزوہ کہتے ہیں۔‘‘
’’اِس طلایہ گردی کا مقصد کیا تھا؟‘‘ ساگونے معلوم کیا۔
اِس طلایہ گردی کے کئی مقاصد تھے، مثلاً: دشمن کی نقل و حرکت کا پتا لگانا، مدینہ کے اطراف کو محفوظ رکھنا کہ کہیں دشمن اچانک حملہ نہ کر دے۔ قریش پر دباؤ ڈالنا تا کہ انہیں اپنی تجارت اور جان و مال کے خطرے کا احساس ہو جائے اور وہ اپنے مکروہ عزائم سے باز آ جائیں۔ مدینہ کے اردگرد میں جو قبائل آباد ہیں، ان سے دوستی کی جائے اور تعاون اور جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا جائے۔ نیز قول و عمل کے ذریعے سے اُن تک اسلام کی دعوت پہنچائی جائے۔ یثرب کے مشرکوں، یہودیوں اور آس پاس کے بدوؤں کو یہ احساس دلایا جائے کہ مسلمان طاقتور ہیں اور اب انھیں اپنی پرانی کمزوری سے نجات مل گئی ہے۔‘‘
’’یہ سلسلہ کب تک جاری رہا؟‘‘ راکو نے پوچھا۔
’’یہ سلسلہ تقریباً ایک سال جاری رہا۔ جس سے قریش مکہ پر یہ حقیقت آشکار ہو گئی کہ مسلمان انتہائی بیدار مغز ہیں اور اُن کے ایک ایک قافلے پر نظر رکھتے ہیں اور اگر مسلمان چاہیں تو ان کے علاقے میں جا کرانہیں مار سکتے ہیں اور ان کا مال و اسباب اٹھا کر لا سکتے ہیں۔لہٰذا شام کی طرف ان کی تجارت مستقل خطرے میں ہے۔یہ جان کر انہوں نے مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے والی اپنی دھمکی کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کر لیا۔‘‘
’’محمد(ﷺ) نے اِس سلسلے میں کیا کیا؟‘‘سردار نے پوچھا۔
’’اِس سلسلے میں نبی ﷺ نے یہ تد بیرکی کہ قریش مکہ کی تجارت بند کر دی جائے تاکہ وہ حملے کا خیال دل سے نکالنے پر مجبور ہو جائیں،چنانچہ آپ قریش کا ایک بہت بڑا قافلہ روکنے کے لیے نکلے۔لیکن وہ بچ کر شام چلا گیا۔آپ نے اسے واپسی پر روکنے کا ارادہ فرمایا۔جب اُ س قافلے نے شام سے واپسی کا رُخ اختیار کیاتو آپ نے اپنے جاں نثاروں کو قافلے کو روکنے کا حکم دیا۔
قریش کے قافلے میں ایک ہزار اونٹ تھے۔اُن پر کم از کم پچاس ہزار دینا ر کا مال لَدا ہوا تھا۔قافلے کا سردار ابو سفیان تھا اور اس کے ساتھ چالیس آدمی تھے۔ابو سفیان بہت ہوشیار آدمی تھا،اس نے مسلمانوں کی اطلاع ملتے ہیں قافلے کا رخ تبدیل کر دیااور مکے میں اطلاع بھجوادی کہ مسلمان ہمارے قافلے کو روکنے کے لیے نکل آئے ہیں۔یہ اطلاع ملتے ہی سارے کافر سردار تیرہ سو(1300)کا لشکر لے کر نکلے۔جب ابو سفیان بچ کر نکل گیا تو اس نے پیغام بھیجا کہ ہم صحیح و سالم مکہ پہنچ گئے ہیں۔‘‘
عبداللہ کی بات جاری تھی کہ ساگو نے جھٹ سے کہا:’’تجارتی قافلہ حفاظت سے واپس پہنچنے پر مکہ کے سرداروں نے مدینہ پر حملے کا پروگرام ملتوی کر دیا ہوگا؟‘‘
’’اِس موقع پر کچھ لوگوں کی یہی رائے تھی کہ تجارتی قافلہ حفاظت کے ساتھ واپس آگیاہے،اس لیے مدینہ پر حملے کا پروگرام ملتوی کر دیا جائے لیکن سرداران مکہ میں سے ابو جہل نے اہل مکہ سے پر جوش خطاب میں کہا کہ اب جبکہ ہم نے مدینہ پر حملے کی تیاری مکمل کر لی ہے اور ہمارے جوان لڑنے مرنے کے لیے تیار ہیں تو اس موقعے کو ضائع نہ کیا جائے اور پوری قوت کے ساتھ مسلمانوں کو کچل کر رکھ دیا جائے۔ابو جہل کے اس جذباتی خطاب نے لوگوں کے اندر ’ماریں گے یا مر جائیں گے‘ جیسی کیفیت پیدا کر دی۔ اِس لیے مکہ کے کافروں نے مدینہ پر حملہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔البتہ بنو زہرہ کے سردار’اخنس بن شُرَیق‘ نے ابو جہل کی بات ماننے سے انکار کر دیااور اپنے قبیلے کے تین سو(300)افراد لے کر واپس چلا گیا۔اس طرح مکی لشکر کی تعداد ایک ہزار(1000)رہ گئی۔‘‘
’’اِس مقابلے میں مسلمانوں کا کیا رد عمل تھا؟‘‘تاکو نے پوچھا۔
’’رحمتِ دوجہاں ﷺ نے جب دیکھا کہ مکہ سردار مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے عزائم لے کر مدینہ پر حملہ آور ہونا چاہتے ہیں تو آپ نے مہاجرین اور انصار کو جمع کیااور انہیں ساری صورت حال سے آگاہ کیا اور دونوں سے رائے طلب کی کہ اس صورت حال میں کیا کیا جائے؟
اِس پر مہاجرین میں سے حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ نے خطاب کیا۔بعد میں مقداد بن عمروؓ نے اٹھ کر کہا:’’اللہ کے رسول ﷺ! ہم آپ کو وہ جواب نہیں دیں گے جو بنی اسرائیل نے اپنے نبی موسیٰ علیہ السلام کو دیا تھا کہ تم اور تمہارا ر ب جا کر لڑو،ہم یہیں بیٹھے ہیں،بلکہ ہم آپ کی چاروں طرف لڑیں گے۔اس کے بعد انصار میں سے حضرت سعد بن معاذؓ نے اٹھ کر کہا:’اللہ کے رسول ﷺ! ہم آپ پر ایمان لائے ہیں اور آپ کی اطاعت و فرماں برداری کا پختہ عہد کر چکے ہیں، اس لیے آپ جو بھی حکم دیں گے ہم اُسے ہر حال میں بجالائیں گے۔اگر آپ ہمیں ساتھ لے کر سمند رمیں کودنا چاہیں تو ہم اس کے لیے بھی تیار ہیں۔‘‘
’’مہاجرین ا ور انصار کے بھرپور تعاون اور دو ٹوک اعلان کے بعد محمد(ﷺ) نے کیا فیصلہ کیا؟‘‘ راکو نے معلوم کیا۔
’’رحمتِ دوجہاں ﷺ نے مدینہ سے 148کلو میٹر کے فاصلے پر بدر کے میدان میں سرداران مکہ اور ان کے لاؤ لشکر کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔مہاجرین اور انصار دونوں کو ملا کر 313جاں نثار بے سروسامانی کے عالم میں مکہ کے ایک ہزار مسلح جنگجوؤں سے مقابلہ کرنے کے لیے نکلے تھے۔تین سو تیرہ مجاہدین کے پاس 148کلو میٹر لمبا سفرطے کرنے کے لیے صرف 70اونٹ اور دو گھوڑے تھے۔اس لیے اکثر مجاہدین نے اتنا طویل سفر پیدل ہی طے کیا۔دشمن سے مقابلے کے لیے تیر،تلواریں اور نیزے بھی مطلوبہ تعداد میں نہیں تھے،لیکن اس سب کچھ کے باوجود تین سو تیرہ مجاہدین کا جذبۂ ایمانی ہزار ہا دشمنوں پر بھاری تھا۔‘‘
’’جنگ کب اور کس طرح شروع ہوئی؟‘‘باکو نے پوچھا۔
’’جنگ کاآغاز اسلامی مہینے رمضان المبارک کی 17تاریخ کو بدر کے میدان میں اس طرح ہوا کہ۔۔۔‘‘عبداللہ نے بتانا شروع کیا:
’’سرداران مکہ کی فوج کا ایک بڑا سالارعتبہ اپنے بھائی شیبہ اور بیٹے ولیدکے ساتھ اپنے لشکر سے باہر آیا اور غرور و تکبر سے مسلمانوں کو للکار کر کہا کہ کون ہمارا مقابلہ کرے گا؟اس کے جواب میں رحمت دوجہاں ﷺنے حضرت عبیدہ بن حارثؓ،حضرت حمزہؓ اور حضرت علیؓ کو ان تینوں کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان جنگ میں بھیجا۔شیبہ کو حضرت حمزہؓ نے ،ولید کو حضرت علیؓ نے قتل کر دیا اور سالار عتبہ کو عبیدہ بن حارثؓ نے زخمی کر دیا اور خود بھی لڑتے ہوئے زخمی ہو گئے۔حضرت حمزہ اور علی اپنے اپنے شکار سے فارغ ہو کر عتبہ کی طرف متوجہ ہوئے اور اسے ہلاک کر دیا اور اپنے ساتھی عبیدہؓ کو زخمی حالت میں اٹھا کر واپس لے آئے۔‘‘
’’سردارانِ مکہ کی فوج کے بڑے سالار،اُس کے بیٹے اور بھائی کی ہلاکت کے بعد دشمنوں کی فوج میدان جنگ سے بھاگ گئی ہوگی؟‘‘ساگو نے خیال ظاہر کیا۔
’’جیسے ہی سرداران مکہ کی فوج کے تین اہم لوگ مارے گئے تو دشمنوں کی فوج کے سپہ سالار ابو جہل نے فوراًفوج کی کمان سنبھال لی اوراپنی فوج کو جوش دلاتے ہوئے کہاکہ ہمارے تین لوگ جلد بازی کی وجہ سے مارے گئے ہیں۔ہم تو مسلمانوں کو تہس نہس کر دیں گے۔اس جوشیلے خطاب کے ساتھ ہی مسلمانوں پر کھلے عام حملہ کر دیا گیا۔
اس کے جواب میں رحمت دوجہاں ﷺ نے بھی مسلمانوں کو جوابی حملہ کرنے کا حکم دے دیا۔دونوں جانب سے تابڑ توڑ حملے شروع ہو گئے۔گھمسان کی جنگ میں اللہ تعالیٰ کی مددسے مسلمان، مکہ کے سرداروں کی فوج کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے۔اس جنگ میں صرف چودہ(14)مسلمان شہید ہوئے جبکہ سردار ان مکہ کی فوج کے چھ بڑے سرداروں سمیت ستّر(70)لوگ مارے گئے اور70ہی گرفتار ہوئے اور دشمن کا بے شمار مال و اسباب بھی ہاتھ آیا۔‘‘عبد اللہ نے بتایا۔
’’بدر کے مقام پر مسلمانوں سے شکست فاش کھانے کے بعد مکہ کے سردار ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئے ہوں گے؟‘‘تاکو نے پوچھا۔
’’بدر کے میدان میں ہونے والی حق و باطل کی پہلی جنگ میں سرداران مکہ کی فوج کی شکست نے ان کی کمر توڑ کر رکھ دی۔مکہ کے لوگ ابھی شکست کے صدمے سے دوچار تھے کہ مدینہ میں بسنے والی عیّار و مکار یہودی قوم کا ایک سردار کعب بن اشرف اپنے چالیس جنگ جو ساتھیوں کے ساتھ مکہ آیااور سرداران مکہ کو تسلی دی اور ان کا حوصلہ بڑھایاکہ تم لوگ دوبارہ مدینے پر حملہ کرو،ہم مدینے کے اندر رہتے ہوئے محمد(ﷺ)کے ساتھ کیے گئے معاہدے کو توڑ کر تمہاری بھرپور مدد کریں گے اور مسلمانوں کوشکست فاش سے دوچار کریں گے۔اس موقع پر مدینہ کے ایک رئیس عبداللہ بن ابی نے بھی مکہ آکر قریش کے سرداروں کو جوش دلایا کہ تم لوگ دوبارہ بھرپورتیاری کرکے مدینے پر حملہ کرو،ہم مدینے کے اندر سے مسلمانوں سے بد عہدی کرتے ہوئے تمہاری بھرپور مدد کریں گے۔‘‘عبداللہ نے بتایا۔
’’کیا مکہ کے سرداروں نے مدینہ کے یہودیوں کی پیش کش قبول کرکے مسلمانوں کے خلاف جنگ کا پروگرام بنایا؟‘‘راکو نے پوچھا۔
’’مکہ کے سرداروں کو جنگ بدر میں شکست کا اتنا بڑا داغ لگا تھا کہ وہ اس داغ کو کسی نہ کسی طرح دھونا چاہتے تھے،اس لئے انہوں نے یہودیوں کے سربراہ کعب بن اشرف اور مدینہ کے سردار عبداللہ بن ابی کی جانب سے بھرپور مدد کی پیش کش قبول کرتے ہوئے صرف ایک سال بعد مسلمانوں کے خلا ف دوبارہ جنگ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔‘‘
’’یہ جنگ کب اور کہاں ہوئی؟‘‘باکو نے سوال کیا۔
’’جنگ کب اور کہاں ہوئی اور اس کا کیا نتیجہ نکلا۔اس کے متعلق آپ لوگوں کو کل بتاؤں گا۔‘‘یہ کہتے ہوئے عبداللہ چٹائیاں بُننے کے لئے اپنی جھونپڑی کی جانب چل دیا۔
٭….٭….٭
بدلے کی آگ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سردارچبوترے پر اور باقی لوگ اس کے ارد گرد بیٹھے عبداللہ کا انتظار کر رہے تھے لیکن یہ انتظار لمبا ہوتا جا رہا تھا، پہلے کبھی ایسا نہیں ہواتھا۔عبداللہ ہر روز وقت مقررہ پر چبوترے پر پہنچ جاتا تھا۔سردار نے کچھ دیر انتظار کے بعد تاکو سے کہا کہ وہ جھونپڑی میں جا کر دیکھے کہ کہیں عبداللہ بیمار تو نہیں ہے۔
تھوڑی دیر بعد عبداللہ تاکو کے سہارے آہستہ آہستہ چلتا ہوا چبوترے کی طرف آرہا تھا۔چبوترے کے قریب پہنچ کر اس نے معمول کے مطابق ہاتھ ہلا کر لوگوں کا حال معلوم کیا،لیکن آج اس کی آواز میں کمزوری صاف محسوس کی جا سکتی تھی۔
سردار نے عبداللہ سے حال احوال پوچھا تو عبداللہ نے بتایا کہ کل چٹائیاں بُنتے ہوئے ایک چھوٹے سے کیڑے نے اسے کاٹ لیا تھا۔میں نے کوئی پروا نہ کی اور اپنے کام میں لگا رہا لیکن کچھ دیر بعد کیڑے کے زہر نے اثر دکھانا شروع کر دیا اور مجھے بخار ہو گیا۔رات بھر بخار میں مبتلا رہا جس کی وجہ سے طبیعت بہت خراب ہو گئی،اس لئے آج وقت پر چبوترے کی جانب نہیں آسکا۔یہ سن کر سردار نے ساگو سے کہا کہ سامنے پتھروں کے قریب اُگی ہوئی جھاڑی کے پتے توڑ کر لے آؤ۔ساگو جلدی سے پتے لے آیا تو ان پتوں کو دو پتھروں میں پیس کرعبداللہ کو کھلایا گیا۔ تھوڑی دیر بعدعبد اللہ کی طبیعت بحال ہونے لگی۔
سردار نے عبداللہ سے کہا کہ وہ آج آرام کرے۔ہم سچی کہانی کاباقی حصہ کل سنیں گے۔اس کے جواب میں عبداللہ نے کہا کہ اب میری طبیعت بہتر ہو رہی ہے،اس لیے اب اسے سچی کہانی سنانے میں مشکل پیش نہیں آئے گی۔میرا تو ایمان ہے کہ میں آپ لوگوں کو سچی کہانی سناؤں گا تو اس کی بر کت سے میں بالکل صحت مند ہو جاؤں گا۔‘‘
’’یہ تو آپ نے عجیب بات بتائی ہے۔‘‘سردار نے حیرت سے کہا۔
’’میں کل بتا رہا تھا کہ۔۔۔‘‘عبداللہ نے اپنی بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا:
’’جنگ بدر میں مسلمانوں سے شکست کھانے کے بعد مکہ کے سردار اس ناکامی کا بدلہ لینے کے لیے سخت بے چین تھے۔اس بے چینی اور انتقام کی آگ پر مدینہ کے سردار کعب بن اشرف اور عبداللہ بن ابی کی شرانگیزیوں نے جلتی پر تیل کاکام کیا۔
مکہ کے سرداروں نے ارد گرد کے قبائل کے جنگجو اکٹھے کئے اور زیادہ سے زیادہ سامانِ جنگ جمع کر لیا اور ابو سفیان کی سپہ سالاری میں مدینہ پر حملے کے لیے پیش قدمی شروع کر دی۔‘‘
’’مسلمانوں کو جب اہل مکہ کی مدینہ کی جانب جنگ کے لیے پیش قدمی کا پتا چلا تو انہوں نے جواب میں کیا کیا؟‘‘تاکو نے پوچھا۔
’’رحمت دوجہاں ﷺ کو جب پتا چلا کہ سرداران مکہ تین ہزارمسلح جنگجوؤں کے ساتھ مدینہ پر حملہ آور ہونے کے لیے روانہ ہو چکے ہیں تو آپ نے اپنے جاں نثار صحابہ کو مشورے کے لیے جمع کیا۔کچھ صحابہ نے۔۔۔‘‘عبداللہ نے ابھی اتنا ہی کہاتھا کہ راکو نے پوچھا:’’صحابہ سے کیا مراد ہے؟‘‘
’’صحابہ دراصل لفظ صحابی کی جمع ہے۔ صحابی کا معنی’ساتھی‘ ہے۔رحمت دوجہاں ﷺ کے وہ ساتھی جو آپ پر ایمان لائے،دل وجان سے آپ کا ہر موقع پر ساتھ دیااور ایمان ہی کی حالت میں فوت ہوئے،انہیں صحابی کہا جاتا ہے۔‘‘عبداللہ نے لفظ ’صحابہ‘ کا مطلب بتانے کے بعد اپنی بات دوبارہ شروع کرتے ہوئے کہا:
’’کچھ صحابہ نے رائے دی کہ دشمن کی فوج کا مقابلہ مدینہ شہر کے اندر رہ کر کیا جائے۔کچھ پر جوش صحابہ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ دشمن کا مقابلہ شہر سے باہر نکل کر کھلے میدان میں کیا جائے۔ ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ نماز عصر کا وقت ہو گیا۔نما زکے بعد رحمت دوجہاں ﷺ گھر تشریف لے گئے۔نیچے اوپر دو زرہیں پہنیں،تلوار اور ہتھیاروں سے آراستہ ہو کر باہر تشریف لائے ۔یہ اس رائے کی تائید تھی کہ آپ ﷺ شہر سے باہر نکل کر کھلے میدان میں اسلام کے دشمنوں سے مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’سرداران مکہ تین ہزار کی مسلح فوج کے ساتھ مدینہ پر چڑھائی کرنے کے لیے آرہے تھے ،اس کے مقابلے میں مسلمانوں کی فوج کی تعداد کتنی تھی؟‘‘باکو نے سوال کیا۔
’’مسلمانوں کی فوج کی تعداد صرف ایک ہزار تھی۔ لیکن جنگ شروع ہونے سے کچھ دیر پہلے یہ تعداد ایک ہزار کے بجائے سات سو رہ گئی۔۔۔‘‘عبداللہ کی بات جاری تھی کہ سردار اوردوسرے لوگوں نے ایک ساتھ چونک کر پوچھا :
’’یہ کیوں اور کیسے ہوا؟‘‘
’’مسلمان جب ہجرت کرکے مکہ سے مدینہ پہنچے تو بہت سے لوگوں نے سچے دل سے اسلام قبول کر لیا،لیکن ان کے ساتھ ساتھ مدینے میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا تھااور اکثر مسلمانوں کی مخالفت کرتے تھے۔جب اللہ تعالیٰ نے جنگ بدر میں مسلمانوں کو شاندارفتح عطاء فرمائی تو ایسے لوگوں کے لئے اپنا وقار برقرار رکھنا مشکل ہو گیا چنانچہ انہوں نے اوپر اوپر سے اسلام قبول کر لیا اور در پردہ یہودیوں اور اہل مکہ سے رابطہ کرکے سازشوں کا جال بچھاتے رہے۔
ایسے لوگوں کو جو ظاہری طور ہر مسلمان ہوں لیکن دل سے اسلام پر ایمان نہ لائے ہوں ، منافق کہا جاتا ہے۔
ایسے لوگوں کا رئیس عبداللہ بن ابی تھاجس کا ذکر پہلے کر چکا ہوں۔جب رحمت دوجہاں ﷺ کی مدینہ آمد سے اس کا باد شاہ بننے کا خواب خاک میں مل گیا تو اسے اس بات کا بہت دکھ اور رنج ہوا۔اس نے مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی قوت اور طاقت کو دیکھتے ہوئے اوپر اوپر سے اسلام قبو ل کر لیا لیکن اندر سے وہ مسلمانوں کی جڑیں کاٹنے کے لیے بے چین رہتا تھا۔
یہ عبداللہ بن ابی ہی تھا جو سرداران مکہ سے احد کے مقام پر جنگ سے کچھ ہی دیر پہلے اپنے تین سو کے قریب منافق ساتھیوں کو لے کر مسلمانوں کی فوج سے الگ ہو گیا۔اس کا منصوبہ یہ تھاکہ اس اقدام سے مسلمانوں کے حوصلے پست ہو جائیں گے اور سرداران مکہ کی فوج کو مسلمانوں پر برتری حاصل ہو جائے گی۔یوں اس کی بادشاہت کے راستے میں روڑے اٹکانے والے مسلمانوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔
عبداللہ بن ابی نے سوچا کہ ایک ہزار کی فوج میں سے جب تین سو جنگجو اچانک الگ ہوں گے تو مسلمانوں کے ہاتھ پاؤں پھول جائیں گے اور سرداران مکہ کے مقابلے میں شکست ان کا مقدر بن جائے گی۔لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ایسی کوئی بات نہ ہوئی البتہ دو قبیلوں نے کچھ پریشانی کا اظہار کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی پریشانی کو دور کرکے انہیں مطمئن کر دیا۔رحمت دوجہاں ﷺ نے دشمن سے لڑنے کے لیے مدینہ شہر سے چھ سات کلو میٹر کے فاصلے پر اُحد کا مقام منتخب کیا۔اللہ کے رسول ﷺ نے اپنی فوج کو احد پہاڑ کے قریب اس طرح ٹھہرایا کہ پہاڑ فوج کی پشت کی طرف اور مدینہ سامنے کی طرف۔اس پہاڑ میں ایک قدرتی راستہ بھی تھا جسے درہ کہتے ہیں۔جنگی نقطۂ نظر سے خطرہ تھا کہ جنگ کے دوران میں اگر دشمن فوج چکر کاٹ کر پہاڑ کی دوسری جانب پہنچ جائے تو اس درے سے گزر کر مسلمان فوج پر حملہ کرکے شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔
اس خطرے کے پیش نظر اللہ کے رسول ﷺ نے پچاس تیر اندازوں کو اس پہاڑی درے کی حفاظت کے لیے مقرر کر دیا اور انہیں حکم دیاکہ جنگ کے دوران میں جو بھی صورت حال ہو،درے کو کسی بھی صورت میں خالی نہ چھوڑ ا جائے ۔جنگ شروع ہوئی تو تین ہزار کی فوج کے مقابلے میں صرف سات سو مجاہدین پر مشتمل فوج نے اتنی جرأت اور بہادری دکھائی کہ دشمن فوج کے لوگ بھاگنے لگے۔ جب درے میں موجود تیر اندازوں کی بڑے تعداد اپنی ذمہ داری کو چھوڑ کر دشمن کی بھاگتی فوج کا چھوڑا ہوا مال غنیمت اکٹھا کرنے کے لیے میدان جنگ میں کود پڑی۔درے میں موجود پچاس تیر اندازوں کے نگران عبد اللہ بن جبیرؓ نے انہیں بہت روکا لیکن انہوں نے کہا اب تو دشمن شکست کھا چکا ہے۔اس پہاڑی درے میں رکنے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘
’’پہاڑی درے کا آپ خصوصی طور پر ذکر کر رہے ہیں۔کیا درہ چھوڑنے کی وجہ سے کوئی واقعہ رونما ہوا تھا؟‘‘ساگو نے پوچھا۔
’’رحمت دو جہاں ﷺ نے پہاڑی درے کی حفاظت کے لئے جن پچاس تیر اندازوں کو مقرر کیا تھا، انہیں بڑی سخت تاکید کی تھی کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے درے کو نہیں چھوڑنا کیوں کہ ذرا سی غفلت یا کوتاہی سے جنگ کے دوران میں دشمن کی جانب سے پہاڑی درے سے مسلمانوں پر حملہ ہو سکتا ہے۔یہ خدشہ درست ثابت ہوا۔خالد بن ولید جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے،وہ دشمن فوج کے ایک دستے کے سردار تھے۔انہوں نے جب دیکھاکہ پہاڑی درے کی حفاظت کے لئے بہت کم تیر انداز رہ گئے ہیں تو انہوں نے پہاڑی درے پر موجود تیر اندازوں کوشہید کر دیا اور اس کے بعد مال غنیمت سمیٹنے والی مسلمان فوج پر پیچھے سے حملہ کر دیا۔یہ حملہ اتنا اچانک اور شدید تھا کہ کچھ پتا نہیں چل رہا تھا کہ ایک دم کیا ہو گیا۔اس اچانک حملے کے نتیجے میں ستر مسلمان شہید ہو گئے جبکہ بے شمار زخمی ہوئے۔زخمیوں میں رحمت دو جہاں ﷺ بھی شامل تھے۔درے کے تیر اندازوں نے اللہ کے رسول ﷺ کے حکم کی تعمیل نہ کی تو اللہ تعالیٰ نے رحمت دو جہاں ﷺ کے احکام کی نافرمانی پر مسلمانوں کی فتح کو شکست میں بدل دیا۔‘‘عبداللہ نے بتایا۔
’’کیاجنگ احد کے نتیجے میں مکہ کے سرداروں نے مسلمانوں کو شکست دے کر مدینہ پر قبضہ کر لیا؟‘‘ تاکو نے سوال کیا۔
’’جنگ احد میں مسلمانوں کو شکست نہیں ہوئی تھی۔ درحقیقت ﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں پر واضح کیا تھا کہ اگر تم ﷲ اور اس کے رسولﷺکے احکامات کو نہیں مانو گے تو کسی بھی وقت کامیابی، ناکامی میں بدل سکتی ہے۔ خالد بن ولید اور ان کے مسلح دستے کے اچانک حملے سے مسلمانوں کو وقتی طور پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن جلد ہی رحمت دو جہاںﷺ کے جاں نثار مجاہد آپﷺ کے اردگرد جمع ہو گئے اور دوبارہ صف بندی کرکے دشمنوں کی فوج کی جانب بڑھے۔ یہ دیکھ کر دشمن فوج نے پسپائی اختیار کرنے میں عافیت جانی۔ مکہ کے سرداروں کی فوج مدینہ کو تو فتح نہ کر سکی ۔ البتہ جنگ سے واپسی پر دشمن فوج کے سپہ سالار ابوسفیان نے اعلان کیا کہ اب فیصلہ کن جنگ اگلے سال ہو گی۔ اس کے جواب میں رحمت دو جہاںﷺ کی جانب سے حضرت عمر فاروقؓ نے ابو سفیان سے کہا کہ ہمیں تمہارا چیلنج قبول ہے۔‘‘
’’ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جنگ احد ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہوئی۔ البتہ بھگوان کی طرف سے مسلمانوں کو اپنے نبی کی بات نہ ماننے کی سزا ملی۔‘‘ راکو نے اپنی رائے پیش کرتے ہوئے کہا۔
’’ راکو کی رائے بالکل درست ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے اس سنگین غلطی سے سبق سیکھا۔ ﷲکے حضور توبہ استغفار کیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آنے والے دن مسلمانوں کی کامیابیوں اورکامرانیوں کا پیغام لے کر آئے۔ یہ کامیابیاں اور کامرانیاں کیا تھیں۔ ان کا ذکر آئندہ گفتگو میں ہوگا۔ اس وقت میں اپنی بات کو یہیں ختم کرتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر عبدﷲ آہستہ قدموں سے اپنی جھونپڑی کی طرف بڑھنے لگا۔
٭….٭….٭
انوکھی تدبیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات بھر کی مسلسل بارش سے صبح موسم بہت خوشگوار ہو گیاتھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ اس خوشگوار اور سہانے موسم میں عبدﷲ اپنی جھونپڑی کے باہر اداس اور غمگین بیٹھا ہوا تھا۔ اسے اپنے بیوی بچے شدت سے یاد آرہے تھے۔ اس کے ساتھ ہی اسے یہ غم بھی کھائے جا رہا تھا کہ بحری جہاز کے حادثے میں وہ اپنے بیٹے عطاء ﷲ سے جدا ہو گیا تھا۔ پتا نہیں وہ زندہ بھی ہے یا نہیں۔ انہی سوچوں میں گم عبدﷲ نے عہد کیا کہ اگر وہ اس جزیرے سے خیر و عافیت کے ساتھ اپنے گھر پہنچ گیا اور اس کا بیٹا عطاء ﷲ بھی زندہ سلامت ہوا تو وہ اپنے بیٹے کے ساتھ مل کر زندگی کا باقی حصہ ﷲ کے بندوں تک ﷲ اور اس کے رسولﷺ کا پیغام پہنچانے میں صرف کرے گا۔
عبدﷲ نجانے کب تک انہی خیالات میں گم رہتا کہ اسے احساس ہوا کہ چبوترے پر جانے کا وقت ہو گیا ہے۔ عبدﷲ جلدی سے تیار ہوا اور چبوترے کی جانب چل دیا۔ چبوترے پر سردار اور اردگرد لوگ بیٹھے عبدﷲ کا انتظار کررہے تھے۔ عبدﷲ نے معمول کے مطابق لوگوں کی خیریت معلوم کرنے کے لیے فضا میں ہاتھ بلند کیااور چبوترے پر بیٹھ کرگفتگو کا آغاز اس طرح کیا:
’’غزوۂ احد میں مسلمانوں کو جو نقصان اٹھانا پڑا،اس کے اثرات بہرحال اچھے نہ تھے۔دشمنوں نے سمجھا کہ مسلمان کمزور ہو گئے ہیں،اس لیے وہ کھل کر مد مقابل آگئے جس سے کئی واقعات ایسے پیش آئے جو مسلمانوں کے حق میں بہتر نہیں تھے۔‘‘
’’کیا سرداران مکہ نے دوبارہ مدینے پر حملہ کر دیا تھا؟‘‘راکو نے جلدی سے کہا۔
’’مسلمانوں کے دشمن صرف سرداران مکہ ہی نہیں تھے بلکہ مدینے کے ارد گرد بھی بہت سے قبیلے مسلمانوں کے مخا لف اوران کے خون کے پیاسے تھے۔جنگ بدر میں مسلمانوں کی شاندار کامیابی نے ان پر رعب طاری کر دیاتھااور وہ اپنے برے عزائم سے باز رہے ۔لیکن احد کی لڑائی میں مسلمانوں کو جو تکلیف پہنچی،اس سے انہوں نے مسلمانوں کو کمزور خیال کیا اور انہیں مزید نقصان پہنچانے کا منصوبہ بنایا،چنانچہ عضل اور قارہ قبیلے کے کچھ لوگ رحمت دو جہاں ﷺ کے پاس آئے اور کہا کہ ہمارے ہاں اسلام کا بڑا چرچا ہے ،لہٰذا آپ کچھ لوگوں کوہمارے ساتھ بھیج دیں تاکہ وہ لوگوں کو اسلام کی تعلیمات سے آگاہ کریں۔نبی ﷺ نے اپنے دس صحابہ کو ان کے ہمراہ کر دیا۔جب یہ لوگ رجیع کے مقام پر پہنچے تو ان لوگوں نے دھوکے سے ان صحابہ کو شہید کر دیا۔‘‘
’’کس قدر برے تھے یہ لوگ کہ دھوکے سے ان بے چاروں کو قتل کر دیا۔‘‘تاکو نے افسوس بھرے لہجے میں کہا۔
’’جب محمد(ﷺ) کو اس واقعے کا پتا چلا تو انہوں نے کیاکیا؟‘‘ساگو نے پوچھا۔
’’ابھی آپ کو اس واقعے کی اطلاع نہیں ملی تھی کہ اس سے بھی زیادہ دلخراش واقعہ پیش آگیا۔‘‘
’’وہ واقعہ کیا تھا؟‘‘باکو نے پوچھا۔
’’نجد کا ایک شخص ابو براء عامر بن مالک جو مُلَا عِبُ الأَسِنَّہ(نیزوں سے کھیلنے والا)کے لقب سے مشہور تھا،رحمت دوجہاں ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔آپ نے اسے اسلام کی دعوت دی تو اس نے اسلام تو قبول نہیں کیالیکن اسلام سے دوری بھی اختیار نہیں کی۔اس نے آپ ﷺ سے عرض کی کہ اگر آپ اپنے صحابہ کو اسلام کی دعوت کے لئے نجد بھیجیں تو مجھے امید ہے کہ وہ لوگ آپ کی بات مان لیں گے۔آپ ﷺ نے فرمایا:’مجھے اہل نجد سے خطرہ ہے۔‘ تو وہ کہنے لگا:’آپ کے ساتھی میری پناہ میں ہوں گے،چنانچہ رحمت دوجہاں ﷺ نے اپنے ستر (70)صحابہ کو اس کے ساتھ کر دیا۔جب یہ لوگ معونہ کے کنویں پر پہنچے تو انہوں نے اپنے ایک ساتھی حضرت حرامؓ کو نبی ﷺ کا خط دے کر وہاں کے سردار عامر بن طفیل کے پاس بھیجا۔عامر نے خط دیکھے بغیرہی حضرت حرامؓ کو شہید کر دیا اور مختلف قبیلوں کو اکٹھا کرکے مسلمانوں پر حملہ کر دیا اور دو کے سوا سب کو شہید کردیا۔‘‘
’’محمد(ﷺ)کو اس کی خبر کب ملی اور انہوں نے کیا کیا؟‘‘سردار نے پوچھا۔
’’اس سے پہلے رجیع والے واقعے اور اس حادثے کی خبر رحمت دوجہاں ﷺ کو ایک ہی رات میں ملی ۔ان عظیم سانحات نے جنگ احد کی یاد تازہ کر دی تھی۔آپ ﷺ کو ان واقعات سے جس قدر غم اور دکھ پہنچا، اس قدر احد کے شہداء کا غم بھی نہیں پہنچا تھا،چنانچہ آپ پورا مہینہ اُن کے لیے بد دعاء کرتے رہے۔‘‘
’’آپ نے بتایا تھا کہ اس سانحے سے دو آدمی بچ گئے، وہ کون تھے اور ان کا کیا بنا؟‘‘راکو نے معلوم کیا۔
’’اُن میں سے ایک حضرت کعب بن زیدؓ اور دوسرے عمرو بن امیہ ضمریؓ تھے۔حضرت کعبؓ ان لوگوں میں تھے جنہیں شہید کر دیاگیا تھا،لیکن انہیں ابھی سانس آرہا تھا،چنانچہ انہیں فوراً وہاں سے اٹھا لیا گیا اور علاج کیا گیا تو یہ تندرست ہو گئے۔حضرت عمرو بن امیہ کو زندہ قید کر لیا گیا اور بعد میں آزاد کر دیا گیا۔یہ مدینہ واپس آرہے تھے ،راستے میں ایک درخت کے سائے میں آرام کے لئے اتر پڑے ۔ وہیں ایک قبیلے کے دو آدمی بھی آکر سو گئے۔یہ اگرچہ غیر مسلم تھے لیکن ان کا مسلمانوں سے معاہدہ تھا ۔حضرت عمروؓ کو اس معاہدے کا علم نہ تھا۔انہوں نے اپنے ساتھیوں کے انتقام میں ان کو قتل کر دیا۔مدینہ پہنچ کر انہوں نے نبی ﷺ کو اس بارے میں بتایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’تم نے ایسے دو آدمیوں کو قتل کیا ہے جن سے ہمارا معاہدہ تھا،لہٰذا اب ہمیں ان کو خون بہا(دیت)دینا ہوگی۔‘پھر آپ خون بہا اکٹھا کرنے کے لئے یہودیوں کے ایک قبیلے بنو نضیر کے پاس گئے۔آپ کے ساتھ چند صحابہ بھی تھے۔آپ نے انہیں صورت حال بتائی اور معاہدے کے مطابق خون بہا میں تعاون کرنے کو کہا۔یہودیوں نے کہا کہ آپ ادھر تشریف رکھیں،ہم ابھی آپ کی ضرورت پوری کر دیتے ہیں۔یہ کہہ کر وہ تنہائی میں جمع ہوئے اور مشورہ کیا کہ کیوں نہ ہم محمد(ﷺ)کو قتل کر دیں۔ایک شخص یہ چکی لے کر اوپر جائے اور اسے محمد(ﷺ) کے سر پر دے مارے۔اس طرح (نعوذ باللہ)وہ مر جائیں گے اور ہماری جان چھوٹ جائے گی۔‘‘
’’کیایہودی اس سازش میں کامیاب ہو گئے؟‘‘باکو نے پوچھا۔
’’اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے اپنے نبی کو اس سازش سے آگاہ کر دیا۔آپ فوراً وہاں سے نکلے اور تمام صحابہ کو اکٹھا کرکے یہودیوں کے اس قبیلے کومدینے سے نکا ل دیا۔‘‘
’’یہودی مدینہ چھوڑ کر کہاں گئے؟‘‘ساگو نے پوچھا۔
’’ مدینہ چھوڑ کر یہودی خیبر میں جا بسے۔‘‘عبد اللہ نے بتایا۔
’’اب تو مسلمان سکون کی زندگی بسر کرنے لگے ہوں گے کیوں کہ برے لوگوں سے ان کو نجات مل گئی تھی۔‘‘سردار نے کہا۔
’’ایک سال سے زیادہ عرصہ تک مسلسل فوجی کارروائیوں کے بعد جزیرہ نما ئے عرب میں سکون چھا گیا تھا اور ہر طرف امن و امان کا دور دورہ تھا۔لیکن بدنام زمانہ قوم یہود کو یہ امن و سکون کب گوارا تھا،چنانچہ انہوں نے مسلمانوں سے اپنی جلا وطنی کا انتقام لینے کا پروگرام بنایا۔اِس کے لیے بنو نضیر کے 20سردار مکے میں گئے اور سرداران مکہ کو مسلمانوں کے خلاف جنگ کے لیے آمادہ کیا اور اپنی مدد کایقین دلایا۔یہودیوں نے مسلمانوں کا وجود ہمیشہ کے لیے مٹانے کاعزم کر رکھا تھا، اس لیے انہوں نے عرب بھر کے قبائل سے بھرپور انداز میں رابطہ کیا۔بنو عطفان،بنو کنانہ،بنو سُلیم،بنو مصطلق کے علاوہ بنو اشجع،بنو مرّہ،بنو اسد اور اس طرح کے کئی قبائل کے ہزاروں جنگجو نو جوانوں کو مدینے پر فیصلہ کن حملہ کرنے کے لیے تیار کر لیا۔
دوسری طرف ابو سفیان اور اس کی فوج جنگ احد کے بعد واپس مکہ پہنچی تو مکہ کے لوگوں نے باتیں بنائیں کہ اس جنگ میں مکہ کے سرداروں کو کچھ حاصل نہیں ہوا۔ مدینہ میں مسلمانوں کی حکومت اسی طرح موجود ہے۔ محمد (ﷺ) جنہیں ختم کرنے کے لیے مکہ کے سردار ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں وہ پہلے کی طرح زندہ سلامت ہیں۔ اس لیے جزیرۃ العرب کے اتنے زیادہ قبائل کے جنگجوؤں کو جمع کرکے مدینہ لے جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ابوسفیان اور اس کے دوسرے ساتھیوں تک عام لوگوں کی یہ باتیں پہنچیں تو انہوں نے سوچا کہ واقعی مسلمانوں کے جانی نقصان کے علاوہ انہیں سرے سے کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔‘‘
’’ اس صورتحال میں ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں نے کیا سوچا؟‘‘ باکو نے پوچھا۔
’’ابوسفیان نے مکہ کے لوگوں کی یہ باتیں سن کر کہا کہ جنگ احد میں ہم نے مسلمانوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔اب ایک اور بڑے حملے کی کسرباقی رہ گئی ہے۔ اس لیے ہم بہت جلد عرب بھر کے قبائل کے زیادہ سے زیادہ جنگجوؤں کو جمع کرکے مدینہ پر حملہ کرکے اس کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے۔‘‘
’’ کیا یہ خالی دھمکی تھی یا ابوسفیان اور مکہ کے سرداروں نے واقعی عرب بھرکے جنگجوؤں کو جمع کرکے مدینہ پر حملہ کیا؟‘‘ ساگونے سوال کیا۔
’’ ابو سفیان اور اس کے ساتھی سردارانِ مکہ نے خالی دھمکی نہیں دی تھی۔ انہوں نے مسلمانوں کا وجود ہمیشہ کے لیے مٹانے کا عزم کر رکھا تھا۔اس لیے انہوں نے عرب بھر کے قبائل سے بھرپور انداز میں رابطہ کیا۔ بنو ہوازن، بنو کنانہ، بنو سلیم، بنو مالک بن کنانہ، بنو حرث، بنو مصطلق کے علاوہ بنو اشجع، بنو مرہ، بنو اسعد ، بنو ذوبیان، بنو اسد ، بنو العشر، بنو شبیع، بنو حجاش اور اس طرح کے لاتعداد قبائل کے ہزاروں جنگجو نوجوانوں کو مدینہ پر فیصلہ کن حملہ کرنے کے لیے تیار کر لیا۔ ‘‘ عبدﷲ نے بتایا۔
’’عرب قبائل پر مشتمل اتنی بڑی فوج کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلمانوں نے کیا حکمت عملی اختیار کی؟‘‘ تاکو نے پوچھا۔
’’رحمت دو جہاںﷺ کو جب پتا چلا کہ سردارانِ مکہ عرب قبائل پر مشتمل بہت بڑی فوج کے ساتھ مدینہ منورہ پر حملہ آورہونے والے ہیں تو آپﷺنے اپنے جاں نثارصحابہؓ سے مشورہ کیا کہ اتنی بڑی فوج کا کس طرح مقابلہ کیاجائے۔ مختلف صحابہ کرامؓ نے اپنی سوچ اور سمجھ کے مطابق رائے دی۔ حضرت سلمان فارسیؓ جن کا تعلق ملک فارس،یعنی ایران سے تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے ہاں دشمن کے حملے سے بچنے کے لیے شہر کے اردگرد خندق کھود لی جاتی ہے۔ یہاں مدینہ کے جنوب میں کھجور کے گھنے باغات ہیں، مشرق اور مغرب کی طرف نوکدار پتھروں والی جگہ ہے۔ صرف احد پہاڑ کی جانب لڑائی کا ایک میدان ہے۔ اس لیے احد پہاڑ کے سامنے چھ کلو میٹر لمبی خندق کھود لی جائے ۔یہی وہ کھلا راستہ تھا جہاں سے دشمن مدینہ میں داخل ہو سکتا تھا۔ احد پہاڑ کے علاقے میں واقع زمین سخت پتھریلی تھی۔ اس لیے اتنی لمبی چوڑی خندق کھودنا آسان کام نہیں تھا۔ لیکن ﷲ کے رسولﷺ نے دس دس صحابہ کے گروپ بنا کر، ہر گروپ کے ذمے چالیس ہاتھ خندق کھودنے کیلئے لگائی اور اس طرح شدید بھوک اور پیاس کے عالم میں رحمت دو جہاں ﷺ کے جاں نثاروں نے چار کلو میٹر لمبی،سات میٹر چوڑی اور پانچ سے آٹھ میٹر گہری خندق سردارانِ مکہ کی بہت بڑی فوج کی آمد سے پہلے مکمل کر لی۔‘‘ عبدﷲ نے بتایا۔
’’اتنی پتھریلی زمین میں انتہائی مشکلات کے عالم میں چار کلومیٹر لمبی خندق کھودنے کا مسلمانوں کو فائدہ بھی ہوا؟‘‘ راکو نے معلوم کیا۔
’’دس ہزار جنگجوؤں پرمشتمل، سردارانِ مکہ کی فوج اپنے سپہ سالار ابو سفیان کی قیادت میں، مدینہ میں داخل ہونے کے لیے اُحد کے میدان کی جانب بڑھی توان کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ مسلمانوں نے مدینہ اور اہل مدینہ کی حفاظت کے لیے خندق کی صورت میں عجیب و غریب انتظام کر رکھا ہے۔ جزیرۃ العرب کے لوگوں کی زندگی میں یہ پہلا واقعہ تھاکہ کسی جنگ کے موقع پر مقابلے میں خندق کھود کردشمن کا مقابلہ کیا جائے۔‘‘عبدﷲ نے بتایا۔
’’مسلمانوں کی اس حکمت عملی کے جواب میں سردارانِ مکہ کی جنگجو فوج نے کیا طریقہ کار اختیار کیا؟‘‘ باکو نے پوچھا۔
’’سردارانِ مکہ کی فوج کئی روز تک صورت حال کا جائزہ لیتی رہی کہ مدینہ پر کس طرح اور کس سمت سے حملہ کیا جائے۔خندق کو عبور کرنا آسان کام نہیں تھا۔ اس لیے خندق کے دونوں جانب سے صرف تیر اندازی ہی کی جاسکتی تھی۔ یہ سلسلہ تقریباً ایک ماہ جاری رہا۔ابوسفیان کی قیادت میں دس ہزار جنگجوؤں پر مشتمل فوج مسلسل ایک ماہ شدید سردی میں بیکار پڑی رہی۔ واپسی کا خیال ، لڑے بغیر واپس جانا ان کے لیے شکست کے برابر تھا،جبکہ مزید قیام مشکل تر ہوتا جا رہا تھا۔
ایک روز سردارانِ مکہ کی فوج کے چار گھڑ سوار، ایسی جگہ سے خندق عبور کرنے میں کامیاب ہو گئے جہاں خندق کی چوڑائی کچھ کم تھی۔ یہ چاروں نامور اور بہادر جنگجو، عمرو بن عبدِوُدّ،عکرمہ ، نوفل بن عبداللہ اور ضراربن خطاب تھے۔ ان میں سے عمرو بن عبدود اتنا بہادر تھا کہ اسے ایک ہزار جنگجوؤں کے برابر سمجھا جاتا تھا۔خندق پار کرتے ہی عمرو بن عبدود نے مسلمانوں کو للکارتے ہوئے کہا:’ کون ہے جو میرے مقابلے میں آئے گا؟‘ یہ سن کر حضرت علیؓ رحمت دو جہاںﷺ کی اجازت سے مقابلے کے لیے آگے بڑھے۔ دونوں میں مقابلہ شروع ہوا تو عمرو بن عبدود نے پہلے حملہ کرتے ہوئے اتنا کاری وار کیا کہ اس کی تلوار نے حضرت علیؓ کی ڈھال کو کاٹتے ہوئے ان کے چہرے کو زخمی کر دیا۔ اس کے جواب میں حضرت علیؓ نے ایسی پھرتی اور بھرپور طاقت سے تلوار کا وار کیا کہ عمرو بن عبدود چکرا کر زمین پر گرا اور دم توڑ گیا۔ عرب کے اتنے بڑے بہادر اور جنگجو کا انجام دیکھ کر باقی تین سواروں نے جان بچانے کے لیے بھاگنے کی کوشش کی۔ ان میں سے نوفل بن عبداللہ خندق پار کرتے ہوئے مارا گیا۔ جبکہ عکرمہ اور ضرار خندق پار کرکے واپس جانے میں کامیاب ہوگئے۔‘‘
’’سرداران مکہ کے چار گھڑ سواروں کے خندق پار کرکے حملے کے بعد کیا باقاعدہ جنگ شروع ہوگئی؟‘‘ ساگو نے سوال کیا۔
’’ مسلمانوں کی جانب سے مدینہ اور اہل مدینہ کی حفاظت کے لیے خندق کا تجربہ، سردارانِ مکہ کی افواج کو ناکوں چنے چبوانے کا ذریعہ بنا۔ خندق پار کرکے چار گھڑ سواروں کے حملے میں عمرو بن عبدود اور نوفل بن عبداللہ کی ہلاکت نے سردارانِ عرب کی افواج کے حوصلے پست کر دیئے۔ اسی دوران ﷲ تعالیٰ کی جانب سے غیبی مدد کے طور پر ایسی زبردست آندھی چلی کہ دشمن فوج کے خیمے اکھڑ گئے ۔ جانور خوفناک آدھی کی وجہ سے ڈر کر بھاگنے لگے۔ ان کا سارا سامان اِدھر اُدھر بکھر گیا۔ ابوسفیان اور دوسرے سردارانِ مکہ پہلے ہی خندق کے مسلسل محاصرے سے تنگ آچکے تھے۔ اس لیے انہوں نے یہی غنیمت جانا کہ محاصرہ ختم کرکے واپسی کا سفر اختیار کیا جائے۔ ﷲ تعالیٰ نے تین ہزار مسلمانوں کے مقابلے میں دس ہزار جنگجو نوجوانوں پر مشتمل فوج کو لڑے بغیر شکست سے دوچار کر دیا۔‘‘
’’باقاعدہ جنگ کے بغیر عرب بھر کے جنگجو قبائل کی اتنی بڑی فوج کی شکست کے بعد مسلمانوں پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے؟‘‘ تاکو نے معلوم کیا۔
’’جنگ خندق نے مسلمانوں کی پورے جزیرۃ العرب میں دھاک بٹھا دی۔ اسی حوالے سے باقی باتیں کل بتاؤں گا۔ یہ کہتے ہوئے عبدﷲ نے سردار اور دوسرے لوگوں سے اجازت چاہی اور اپنی جھونپڑی کی طرف چل دیا۔
٭….٭….٭
کامیابیوں کا آغاز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورج طلوع ہوئے خاصی دیر ہو گئی تھی، لیکن اس کی کرنوں میں گرمی کی شدت محسوس نہےں ہو رہی تھی۔ عبدﷲ نے آسمان کی طرف دیکھا تو بادلوں کا دور دور تک نام و نشان نہےں تھا۔ آج سورج کو کیا ہو گیا ہے؟ اس کی روشنی بہت ہلکی اور اس کی کرنوں میں گرمی کی شدت نہیں ہے۔ اس کی کیاوجہ ہو سکتی ہے؟ اچانک اسے خیال آیا کہ کبھی کبھار سورج یا چاند کو گرہن لگ جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے سورج یا چاند کی روشنی مخصوص وقت کے دوران ہلکی ہو جاتی ہے۔
سورج گرہن کا سلسلہ جاری تھا کہ چبوترے پر جانے کا وقت ہو گیا۔ عبداللہ نے سن رکھا تھا کہ سورج گرہن کے موقع پر رحمتِ دو جہاں ﷺ عام نمازوں سے مختلف اور طویل دو رکعت نماز ادا کیا کرتے تھے۔ عبداللہ نے وضو کے بعد دو نفل ادا کیے اور اللہ کا ذکر کرتے ہوئے چبوترے کی جانب چل دیا۔ وہ چبوترے کے قریب پہنچا تو وہاں نہ سردار موجود تھا اور نہ جزیرے کا کوئی اور آدمی تھا۔ وہاں تو خاموشی اور ہُو کا عالم طاری تھا۔
عبداللہ کو یہ دیکھ کر سخت حیرانی ہوئی کہ سب لوگ کہاں چلے گئے ہیں۔ عبداللہ ہمت کر کے سردار کے ڈیرے پر پہنچا۔ اس نے دیکھا کہ سردار ایک ٹانگ پر کھڑا اپنی زبان میں مسلسل مخصوص الفاظ”ہاہو،ہاہو“ کے انداز میں کچھ پڑھ رہا ہے۔ عبداللہ نے سردار کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے اونچی آواز میں پکارا تو سردار نے ایک ٹانگ پر کھڑے کھڑے عبداللہ سے خوفزدہ لہجے میں پوچھا کہ وہ اس وقت یہاں کیا لینے آیا ہے۔
”آج چبو ترے پر نہ آپ موجود تھے اور نہ جزیرے کا کوئی اور آدمی پہنچا ہے، اس لیے میں آپ سے معلوم کرنے کے لیے یہاں آگیا۔ “عبداللہ نے بتایا۔
”آج سورج عجیب انداز میں طلوع ہوا ہے۔ لگتا ہے ہمارے دیوتا دیوی ہم سے ناراض ہو گئے ہیں۔ جزیرے پر کوئی مصیبت یا تباہی نازل ہونے والی ہے۔ “سردار نے ایک ٹانگ پر کھڑے کھڑے جواب دیا۔
”میرے خالق ومالک اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے کچھ بھی نہیں ہوگا۔ آپ جزیرے کے تمام لوگوں کو لے کر چبوترے پر آجائیں۔ آج میں آپ لوگوں کو سب سے سچی کہانی کا اگلا حصہ سنانے سے پہلے سورج کی جو حالت ہے، اس کے متعلق بتاؤں گا….“عبداللہ نے ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ سورج کی ہلکی کرنیں ایک دم روشن اور تیز ہو گئیں۔ یہ دیکھ کر عبداللہ نے کہا:” یاللہ! تیرا شکر اور احسان ہے کہ تو نے ہمیں سورج گرہن سے نجات دی۔“
”یہ اچانک سورج کی کرنیں پھر سے روشن کیسے ہو گئی ہیں۔ یہ سب کیا ہے؟“سردار نے حیران ہوکر عبداللہ سے پوچھا۔
”میں یہ سب کچھ اس وقت بتاو¿ں گا جب آپ جزیرے کے تمام لوگوں کو لے کر چبوترے پر آ جائیں گے۔ میں آپ لوگوں کا وہیں انتظار کروں گا۔“ یہ کہتے ہوئے عبداللہ چبوترے کی جانب چل دیا۔
تھوڑی دیر میں سردار اور باقی لوگ چبوترے کے ارد گرد جمع ہوکر عبداللہ کی جانب بے چینی سے دیکھنے لگے۔ عبداللہ نے جب تمام لوگوں کو اپنی جانب متوجہ دیکھا تو اپنی بات کا آغاز اس طرح کیا:
”آج صبح میں نے سورج کی کرنوں کو بہت ہلکا اور مدہم سا دیکھا تو مجھے سخت حیرت ہوئی، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ سورج کو اچانک کیا ہو گیا ہے؟ ابھی میں انہی سوچوں میں گم تھا کہ مجھے اچانک یاد آیا کہ یہ تو سورج گرہن ہے اور….“ابھی عبداللہ نے اتنا ہی کہا تھا کہ راکو نے جلدی سے پوچھا: ”سورج گرہن کیا ہوتا ہے؟“
”سورج گرہن یہ ہوتا ہے کہ….“عبداللہ نے بتانا شروع کیا:” دن کے وقت سورج کا آدھا، مکمل یا کچھ حصہ روشنی سے محروم ہو جائے تو اسے سورج گرہن کہتے ہیں۔“
”سورج گرہن کیوں لگتا ہے؟“ با کو نے جاننا چاہا۔
”آپ لوگوں کی دلچسپی کے لئے بتانا چاہتا ہوں کہ اللہ نے جو کائنات بنائی ہے اس میں زمین، سورج ،چاند اور دوسرے ستارے اور سیارے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنے مخصوص مقام پر مسلسل حرکت کر رہے ہیں اور چل رہے ہیں۔ جب کبھی سورج اور زمین کے درمیان کچھ دیر کے لیے چاندآ جاتا ہے تو اسے سورج گرہن کہتے ہیں جس طرح آج صبح سے لے کر تھوڑی دیر پہلے تک سورج گرہن لگا ہوا تھا۔“ عبداللہ نے تفصیل سے بتایا۔
”ہم نے تو اپنے باپ دادا سے سن رکھا ہے کہ جب دیوتا دیوی ناراض ہوتے ہیں تو اس وقت سورج کی روشنی بہت ہلکی اور مدہم ہو جاتی ہے۔ اس لیے ہم سب سخت خوفزدہ ہیں۔“ سردار نے کہا۔
رحمتِ دو جہاں ﷺ کی دنیا میں آمد سے پہلے جزیرہ نما عرب میں جب بھی سورج گرہن لگتا تھا تواللہ کو نہ ماننے والے لوگ یہی کہتے تھے کہ دیوتا دیوی کے ناراض ہونے یا کسی بڑے آدمی کے پیدا ہونے یا مرنے پر سورج گرہن لگتا ہے۔ لیکن رحمتِ دو جہاں ﷺ کے زمانے میں جب سورج گرہن لگا تو آپ نے لوگوں کو بتایا کہ سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں جن کے ذریعے سے اللہ اپنے بندوں کو ڈر اتا ہے۔ سورج گرہن لگنے یا نہ لگنے میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور ہستی کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔“ عبداللہ نے بتایا۔
”جب سورج گرہن لگتا ہے تو مسلمان اس موقع پر کیا کرتے ہیں؟“ ساگو نے پوچھا۔
رحمتِ دو جہاں ﷺ نے اپنے ماننے والوں کی زندگی کے ہر معاملے میں ہدایت و رہنمائی فرمائی ہے۔ آپﷺ کے ایک صحابی عبد الرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رحمتِ دو جہاں ﷺکے زمانے میں ایک بار سورج گرہن لگا۔ میں اُس وقت مدینہ سے باہر تیر اندازی کی مشق کر رہا تھا۔ میں نے سورج گرہن دیکھتے ہی تیروں کو ایک طرف پھینکااور جلدی سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تاکہ دیکھوں کہ آپ اس موقع پر کیا کرتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ نے دو رکعت نفل نماز ادا کی اور انہیں خوب لمبا کیا یہاں تک کہ سورج گرہن ختم ہوگیا۔“ عبداللہ نے تفصیل سے بتایا۔
”حیرت کی بات ہے کہ مسلمانوں کے نبی نے سورج گرہن کے متعلق بھی لوگوں کی رہنمائی فرمائی ہے۔“ تاکو نے کہا۔
”سورج کو گرہن لگنے کا واقعہ ہماری زندگیوں میں کبھی کبھار پیش آتا ہے۔جب ان کبھی کبھار رونما ہونے والے واقعات میں بھی رحمت دو جہاں ﷺ ہماری بروقت اور مکمل رہنمائی فرماتے ہیں تو آپ لوگ آسانی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ زندگی کے ہر موڑ پر پیش آنے والے اہم واقعات میں آپ ﷺ کی ہدایت اور رہنمائی کس قدر بھرپور ہو گی۔“
”آج تو ہماری گفتگو سورج گرہن کے متعلق ہی ہو رہی ہے، اس لئے لگتا ہے کہ آج سچی کہانی کا اگلا حصہ سننے کا وقت نہیں ملے گا۔“ راکو نے پوچھا۔
”میرے خیال میں اتنا وقت تو ہے کہ ہم سچی کہانی کے سلسلے کو تھوڑا سا آگے بڑھاتے ہیں۔ کل ہماری گفتگو کس واقعے پر ختم ہوئی تھی؟“ عبداللہ نے پوچھا۔
”گزشتہ روز کی گفتگو کے اختتام پر میں نے پوچھا تھا کہ باقاعدہ جنگ کے بغیر عرب کے جنگجو قبائل کی بڑی فوج کی شکست کے بعد جزیرہ نما عرب کے ان لوگوں پر کیا اثر ہوا جو ابھی تک اپنے باپ دادا کے مذہب پر تھے؟“ تاکونے عبداللہ کو یاد دلایا۔
”جنگ خندق، دراصل مسلمانوں کی کامیابیوں اور کامرانیوں کا نقطہ آغاز ثابت ہوئی۔ وہ جنگ جس میں عرب بھر کے جنگجو قبائل اس نیت سے حملہ آور ہوئے تھے کہ مسلمانوں کو زمین سے ہمیشہ کیلئے ختم کر دیں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے غیبی مدد کے ذریعے سے سرداران مکہ کی جنگجو فوج کو جنگ کے بغیر ہی شکست سے دوچار کر دیا۔
جنگ خندق کی اس ناکامی نے سرداران مکہ اور ان کے حلیف قبائل کے رعب و دبدبے کو ختم کردیا۔“ عبداللہ نے بتایا۔
مسلمانوں نے جنگ خندق کے بعد خود کو منظم اور مضبوط بنانے کے لئے کوئی قدم اٹھایا؟“ راکو نے دریافت کیا۔
سورج گرہن کے واقعے کی وجہ سے آج ہمارا خاصا وقت سورج گرہن کی وضاحت میں لگ گیا، اس لیے اللہ نے چاہا تو باقی باتیں کل ہوںگی۔“ عبداللہ نے چبوترے سے نیچے اترتے ہوئے کہا۔
٭….٭….٭
عجیب معاہدہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جزیرے کے لوگ چبوترے کے قریب دائرے کی صورت میں کھڑے کسی چیز کو بڑے غور سے دیکھ رہے تھے اور اپنی اپنی رائے کا اظہار بھی کر رہے تھے۔ عبدﷲ چبوترے کے قریب پہنچا تو ’’السلام علیکم ‘‘ کہہ کر وہ بھی دائرے کی صورت میں کھڑے لوگوں میں شامل ہو گیا۔ اس نے دیکھا کہ دائرے کے اندر بہت بڑا خطرناک سانپ پڑا ہے۔ جسے لوگوں نے پتھر مار مار کر نیم مردہ کر دیا ہے۔
لوگوں نے عبدﷲ کو اپنے درمیان دیکھا تو سب احترام کے ساتھ ایک جانب ہٹ گئے ۔ عبدﷲ نے بہت بڑے سانپ کو دیکھ کر پوچھا کہ یہ سانپ کہاں سے آیا ہے۔
’’یہی بات اس وقت بحث کا موضوع ہے کہ ہماری زندگی میں آج تک اتنا بڑا اور خطرناک سانپ جزیرے میں کبھی نظر نہیں آیا۔ کسی کا خیال ہے کہ یہ سمندری سانپ ہے، اور کوئی اس رائے کا اظہار کر رہا ہے کہ یہ جزیرے ہی میں پلا بڑھا ہے لیکن ہمیں پہلی بار نظر آیا ہے۔‘‘ سردار نے بتایا۔
’’ سانپ چاہے سمندری ہو یا جزیرے ہی میں پلا بڑھا ہو، سانپ ہی ہوتا ہے۔ اس لیے ہر کوئی اس وقت تک اس سے ڈرتا ہے، جب تک وہ زندہ ہوتا ہے ۔ لیکن جب اس کا سر پتھر یا ڈنڈے سے کچل دیا جائے تو پھر سانپ کا خوف دل سے جاتا رہتا ہے۔ جزیرہ نمائے عرب میں بھی سردارانِ مکہ اور ان کے حلیف قبائل بھی خطرناک سانپ کی طرح تھے۔ جن سے پورا عرب خوفزدہ تھا۔ لیکن جب ۔۔۔‘‘ عبدﷲ نے اتنا ہی کہا تھا کہ سردار نے کہا کہ:’’ آج تو سب سے سچی کہانی ، دائرے میں کھڑے لوگوں کے درمیان اچانک شروع ہو گئی ہے۔ میرے خیال میں نیم مردہ سانپ کا سر مکمل طور پر کچل کر اسے دور پھینک دیا جائے اور تمام لوگ چبوترے کے قریب اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ جائیں، تاکہ عبدﷲ اپنی گفتگو شروع کر سکے۔‘‘
تھوڑی دیر میں سب لوگ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے تو عبدﷲ نے اپنی بات دوبارہ شروع کی: ’’ جب سردارانِ مکہ اورا ن کے حلیف قبائل کو مسلمانوں کی جانب سے مسلسل اور پے در پے جنگوں میں نقصان کا سامنا کرنا پڑا اور سانپ کی طرح اُن کا سر کچلا گیا تو ان کا سارا رعب و دبدبہ ختم ہو گیا۔ وہ قبائل جو ڈر اور خوف کی وجہ سے سردارانِ مکہ کا ساتھ دینے پر مجبور تھے۔ انہوں نے جب دیکھا کہ اب مسلمان ایک قوت کے طور پر ابھر رہے ہیں تو انہوں نے مسلمانوں کا حلیف بننے کو ترجیح دی۔ اس نئی صورت حال کی وجہ سے جزیرہ نمائے عرب کا منظر تیزی سے بدلنے لگا۔ مسلمان سالہا سال کی آزمائشوں کے بعد اس قابل ہوئے کہ سر اٹھا کر چل سکیں۔‘‘
’’ کیا اس صورت حال میں مسلمانوں نے مکہ پر حملہ کرکے سردارانِ مکہ سے بدترین مظالم کا بدلہ لینے کا پروگرام بنایا؟‘‘ راکو نے پوچھا۔
’’رحمت دو جہاںﷺ تو سراپا رحمت تھے۔ جو دشمنوں کوبھی دعا دیا کرتے تھے۔ وہ کسی پر ظلم و ستم کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ اسی لیے رحمت دو جہاںﷺنے ہمیشہ عفو و درگزر سے کام لیا۔‘‘ عبدﷲ نے بتایا۔
’’اس صورت حال میں تو سردارانِ مکہ، اپنے حال میں مگن ہو گئے ہوں گے اور مسلمان مدینہ میں امن و سکون سے رہنے لگے ہوں گے؟‘‘ باکو نے خیال ظاہر کیا۔
’’حالات پرسکون ہوئے تو رحمت دو جہاںﷺ کو ﷲ کے گھر، خانہ کعبہ کی شدت سے یاد آنے لگی۔ آپﷺ نے چھ سال پہلے اپنے آبائی شہر مکہ کو اس حال میں چھوڑا تھا کہ ان کے قریبی عزیز و اقارب ، اسلام دشمنی میں ان کے خون کے پیاسے ہو گئے تھے۔ لیکن اب حالات میں بہت تبدیلی آگئی تھی۔ ایک روز رحمتِ دو جہاںﷺنے اپنے جاں نثار صحابہ کو بتایا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں نے آپ لوگوں کے ساتھ خانہ کعبہ کا طواف اور عمرہ کیا ہے۔
ﷲ کے نبی کا خواب سچا ہوتا ہے۔ اس لیے آپﷺ کے جاں نثار ساتھیوں نے جب یہ خواب سنا تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا، کیونکہ انہیں یقین تھا کہ اب وہ رحمتِ دو جہاںﷺ کے ساتھ مکہ جا کر خانہ کعبہ کا طواف اور عمرہ کریں گے۔
رحمتِ دو جہاںﷺنے صحابہ کرامؓ کو عمرہ کے سفر کی تیاریوں کا حکم دے دیا۔ مدینہ کے اردگرد رہنے والے مسلمان بھی ان تیاریوں میں شامل تھے۔ آپﷺ نے اپنے قابل اعتماد ساتھی ابنِ اُمّ مکتوم کو مدینہ میں اپنا قائم مقام بنایا اور عمرہ کی غرض سے مکہ کی طرف سفر کا آغاز کیا۔ سفر کے دوران راستے میں بھی کئی مسلمان اس قافلے میں شامل ہوتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ ذوالحلیفہ کے مقام پر پہنچ گئے۔ چودہ سو کے قریب جاں نثار صحابہؓ نے عمرہ کی ادائیگی کے لیے احرام باندھ لیے اور۔۔۔‘‘ عبدﷲ کی بات جاری تھی کہ ساگو نے کہا:
’’ آپ نے اب تک سب سے سچی کہانی میں جو کچھ بتایا ہے، وہ دل میں اترتا چلا گیا ہے، لیکن اس وقت آپ نے دو تین بار ایسے الفاظ بولے ہیں، جو ہم نے پہلے کبھی نہیں سنے۔کیا آپ ہمیں طواف، عمرہ اور احرام کا مطلب اور مفہوم بتائیں گے؟‘‘
’’کیوں نہیں! آپ لوگ جب بھی محسوس کریں کہ کسی لفظ، فقرے یا جملے کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا تو مجھ سے فوراً پوچھ لیں۔ مجھے بتانے اور سمجھانے میں بہت خوشی محسوس ہوگی۔
مکہ شہر میں ﷲ تعالیٰ کے گھر خانہ کعبہ کے گرد سات چکر لگانے کو طواف کہتے ہیں۔ عمرہ، ﷲ تعالیٰ کے گھر خانہ کعبہ کی زیارت کو کہتے ہیں ، اور عمرہ کرنے کے لیے عام لباس کی جگہ دو سفید چادروں کو اپنے جسم پر لپیٹ لینے کو احرام کہا جاتا ہے۔‘‘ عبدﷲ نے بتایا۔
’’ذوالحلیفہ کے مقام پر احرام باندھنے کے بعد کیا ہوا؟‘‘تاکو نے پوچھا۔
’’مسلمان ﷲ کے گھر، خانہ کعبہ کے عمرہ کے لیے احرام باندھنے میں مصروف تھے کہ مکہ کے سرداروں نے رحمتِ دو جہاںﷺ اور ان کے جاں نثاروں کو عمرہ کی ادائیگی سے روکنے کیلئے جنگی تیاریاں شروع کر دیں۔۔۔ ‘‘ عبدﷲ نے ابھی اتنا ہی بتایا تھا کہ راکو نے بے چینی سے پہلو بدلتے ہوئے کہا:
’’ مسلمان جب امن و امان کے ساتھ ﷲ کے گھر کا طواف کرنے مکہ شہر جا رہے تھے تو ان کے خلاف سردارانِ مکہ کی طرف سے جنگ کا اعلان بڑی عجیب بات لگتی ہے۔‘‘
’’دراصل مکہ کے سرداروں کو خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ اگر ڈیڑھ ہزار کے قریب مسلمان عمرہ کے لیے خانہ کعبہ میں داخل ہو گئے تو مکہ شہر پر قبضہ ہی نہ کر لیں۔ اس خطرے کے پیش نظر انہوں نے مسلمانوں کا راستہ روکنے کے لیے خالد بن ولید اور عکرمہ بن ابوجہل کی قیادت میں تین سو گھڑ سواروں کا ایک دستہ روانہ کیا۔ رحمتِ دو جہاںﷺ کو پتا چلا تو آپﷺ نے راستہ تبدیل کر دیا، تاکہ پرامن طریقے سے مکہ کی طرف سفر جاری رکھا جا سکے۔ مسلمان حدیبیہ کی خشک اور بنجر وادی کے قریب پہنچے تو سردارانِ مکہ نے قبیلہ خزاعہ کے سردار بُدَیل بن ورقہ کو ﷲ کے رسولﷺ کے پاس بھیجا۔ رحمتِ دو جہاںﷺ نے اسے بتایا کہ ہم امن و امان کے ساتھ ﷲ کے گھر کا طواف کرنا چاہتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ہمارا کوئی اور مقصد نہیں ہے۔
بدیل نے سردارانِ مکہ کو جب بتایا کہ محمد (ﷺ) اور ان کے ساتھی صرف عمرہ کرنے کے لیے آئے ہیں۔ اس لیے ان کو عمرہ کرنے کی اجازت دے دی جائے۔ لیکن سردارانِ مکہ نے انکار کر دیا۔ اس کے بعد بنو کنانہ کے سردار حلیس اور مکرز بھی سردارانِ مکہ کو اس بات پر قائل کرنے میں ناکام رہے کہ مسلمانوں کو عمرہ کی اجازت دے دی جائے۔‘‘
’’ہر جانب سے انکار کے بعد مسلمانوں نے کیا فیصلہ کیا؟‘‘ باکو نے پوچھا۔
’’ رحمتِ دو جہاںﷺنے اپنے جاں نثار ساتھی عثمانؓ بن عفان کو سردارانِ مکہ کی جانب روانہ کیا تاکہ وہ انہیں بتائیں کہ ہم عمرے ہی کے لیے آئے ہیں،ہمارا کوئی اور مقصد نہیں ہے۔
آپ ﷺ نے سیدناعثمانؓ کو یہ ہدایات بھی دیں کہ وہ مکہ میں قیام پذیر کمزور مسلمان مردوں اور عورتوں کو فتح کی خوش خبری دیں کہ عن قریب اللہ تعالیٰ اپنے دین کو مکہ میں بھی غالب کرنے والا ہے،پھر کسی مسلمان کو کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
حضرت عثمان غنیؓ نے مکہ جا کر سردارانِ مکہ کو رحمتِ دو جہاںﷺ کا پیغام پہنچایا توانہوں نے اس کے جواب میں کہا: ’آپ عمرہ کر لیں لیکن ہم محمد (ﷺ) کو مکہ شہر میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔‘حضرت عثمانؓ نے جواب دیا:’ﷲ کے رسولﷺ جب تک عمرہ نہیں کریں گے، میں اس سے پہلے عمرہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔‘ یہ سن کرسرداران مکہ نے حضرت عثمانؓ سے بات چیت کرنے کی غرض سے انہیں اپنے پاس روک لیا۔ حضرت عثمان غنیؓ کسی بھی قسم کی خبر لے کر واپس نہ پہنچے تو مسلمانوں میں یہ افواہ پھیل گئی کہ سردارانِ مکہ نے عثمان غنیؓ کو شہید کر دیا ہے۔ ﷲ کے رسولﷺ نے یہ سنا تو آپﷺ نے فرمایا:’عثمان کا بدلہ لیے بغیر ہم یہاں سے نہیں جائیں گے۔‘
رحمتِ دو جہاںﷺ ایک درخت کے نیچے تشریف فرما تھے۔ خانہ کعبہ کا طواف کرنے کے لیے آنے والے چودہ سو صحابہ نے ﷲ کے رسولﷺ کے ہاتھ پر اس بات کا عہد کیا کہ جب تک ہم عثمانؓ کی شہادت کا بدلہ نہیں لے لیں گے، اس وقت تک واپس مدینہ نہیں جائیں گے۔‘‘
’’ پھر کیا ہوا؟‘‘ ساگو نے تجسس بھرے لہجے میں پوچھا۔
’’ جب مکہ کے سرداروں کو پتا چلا کہ عثمان غنیؓ کو مکہ میں روک لینے سے مسلمانوں میں یہ افواہ پھیل گئی ہے کہ عثمان غنیؓ کو شہید کر دیا گیا ہے اور اب وہ عثمان غنیؓ کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے مرنے مارنے پر تیار ہو گئے ہیں تو انہوں نے ڈر کے مارے عثمان غنیؓ کو اپنے نمائندے سہیل بن عمرو کے ساتھ رحمتِ دو جہاںﷺ کی خدمت میں خاص پیغام کے ساتھ بھیجا۔‘‘
’’وہ خاص پیغام کیا تھا؟‘‘ تاکونے پوچھا۔
’’ سردارانِ مکہ کے نمائندے سہیل بن عمرونے رحمت دو جہاںﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا:’’ مکہ کے سرداروں کی خواہش ہے کہ آپ اس سال عمرہ کیے بغیر واپس چلے جائیں۔ البتہ اگلے سال تین دن کیلئے آپ عمرہ کے لیے آسکتے ہیں۔ ان تین دنوں میں ہم لوگ مکہ شہر خالی کرکے چلے جائیں گے۔ دس سال تک ہمارے اور آپ کے درمیان امن رہے گااور ایک دوسرے سے جنگ نہیں ہوگی۔لوگوں کو اختیار ہے کہ چاہیں تو آپ کا دین اختیار کر لیں اور چاہیں تو ہمارا دین اختیار کر لیں۔ اگر ہمارا کوئی آدمی بھاگ کر آپ کے پاس چلا جائے گا تو آپ اسے ہمیں واپس کردیں گے۔ لیکن آپ کا کوئی آدمی ہمارے پاس آجائے گاتوہم اسے واپس نہیں کریں گے۔‘‘
’’ کیا محمد (ﷺ) اور ان کے جاں نثار ساتھیوں نے ان تجاویز کو مان لیا؟‘‘ ساگو نے معلوم کیا۔
’’مسلمانوں کو اس قسم کی توہین آمیز شرائط بالکل قبول نہیں تھیں ۔ لیکن اس کے باوجود رحمتِ دو جہاںﷺ نے ان شرائط کو قبول کرتے ہوئے سردارانِ مکہ سے معاہدہ کر لیا۔یہ معاہدہ باقاعدہ طور پر لکھا گیا اور رحمت دو جہاں ﷺ اور سہیل بن عمرونے اس پر دستخط کیے۔ اس معاہدے کو ’’صلح حدیبیہ‘‘ کا نام دیا گیا۔‘‘
’’جب محمد(ﷺ) نے اپنے جاں نثارساتھیوں کی خواہش کے برعکس حدیبیہ کے مقام پر سردارانِ مکہ سے توہین آمیز شرائط والا معاہدہ کر لیا تو انہوں نے ناراضی اور غصے کا اظہار تو نہیں کیا؟‘‘ تاکو نے پوچھا۔
’’رحمت دو جہاںﷺنے اپنے جاں نثار ساتھیوں کو بتایا کہ جو معاہدہ بظاہر ہماری ناکامی اور پسپائی کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ درحقیقت ﷲ تعالیٰ کے نزدیک مسلمانوں کے لیے فتح مبین(واضح فتح) کی حیثیت رکھتا ہے۔ رحمت دو جہاںﷺ کا یہ فرمان اس وقت کے حالات و واقعات کے بالکل برعکس تھا، لیکن آپﷺکے جاں نثار ساتھیوں نے ارشاد نبویﷺ سن کر فوراً سر تسلیم خم کر دیا۔‘‘ عبدﷲ نے بتایا۔
’’صلح حدیبیہ کے بعد کیا ہوا؟‘‘ راکو نے دریافت کیا۔
’’ رحمت دو جہاںﷺ اور آپ کے جاں نثار ساتھی، عمرہ کی ادائیگی کے لیے قربانی کے جانور اپنے ساتھ لے کر آئے تھے، ان کو عمرہ کی سعادت حاصل کیے بغیر ذبح کرنے اور سر کے بال منڈوانے کے بعد واپس مدینہ تشریف لے گئے۔‘‘ یہ کہہ کر عبدﷲ نے سردار سے کہا کہ آج اتنا ہی کافی ہے۔ باقی باتیں کل ہوں گی۔ یہ کہتے ہوئے عبدﷲ چبوترے سے اتر کر اپنی جھونپڑی کی طرف چل دیا۔
٭….٭….٭
عظیم کامیابی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساحل سمندر پر رہنے کے اپنے ہی مزے ہیں۔ذرا دھوپ تیز ہوئی اور گرمی میں شدت آئی تو سمندر کی جانب سے ٹھنڈی ہوا چلنے لگی۔عبداللہ نے معمول کے مطابق چبوترے پر جانے کے لیے تیاری شروع کی تو اسے ہوا میں عجیب خوشبو اور مہک محسوس ہوئی۔عبد اللہ حیران تھا کہ ایسا پہلے تو کبھی نہیں ہوا۔اس نے چبوترے کی جانب جیسے ہی قدم بڑھائے تو خوشبو میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔چبوترے کے نزدیک پہنچ کر پتا چلا کہ کھلے میدان میں زردے اور پلاؤ کی بڑی بڑی دیگیں پڑی ہوئی ہیں اور جزیرے کے چار سُوپھیلنے والی خوشبو اور مہک اسی زردے اور پلاؤ کی تھی۔
عبد اللہ نے دیگوں کو حیرت بھرے انداز میں دیکھتے ہوئے قدم چبوترے کی جانب بڑھا دیے۔ اس سے پہلے کہ عبداللہ سردار سے زردے اور پلاؤ کی دیگوں کے متعلق پوچھتا۔سردار نے خود ہی بتانا شروع کیا کہ:’ گزشتہ رات اس کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے۔بیٹے کی پیدائش کی خوشی میں اس نے جزیرے کے تمام لوگوں کی دعوت کی ہے۔‘
عبد اللہ نے یہ سنا تو سردار کو مبارک باد دی اور کہا:’’جس طرح آپ آج خوشی سے پھولے نہیں سما رہے،اسی طرح سب سے سچی کہانی بھی اس موڑ پر پہنچ گئی ہے جب مسلمانوں کو سالہا سال کی مشکلات اور آزمائشوں کے بعد عظیم الشان کامیابی نصیب ہوئی۔‘‘
’’وہ عظیم الشان کامیابی کیا تھی اور کیسے حاصل ہوئی؟‘‘سردار نے تجسس بھرے لہجے میں پوچھا۔
’’حدیبیہ کے مقام پر مسلمانوں اور سرداران مکہ کے درمیان ہونے والے معاہدے کی روشنی میں رحمت دو جہاں ﷺ کو مکہ کے ظالم سرداروں کے ساتھ ساتھ جزیرہ نمائے عرب کے تمام قبائل کی جانب سے دس سال کے لئے اطمینان و سکون کی ضمانت مل گئی تھی،اس لیے آپ نے اسلام کی دعوت کو جزیرہ نمائے عرب سے باہر دنیا کے حکم رانوں اور بادشاہوں تک پہنچانے کا آغاز کیا۔اس سلسلے میں ملک فارس کے بادشاہ خسرو پرویز،ملک روم کے بادشاہ ہر قل،حبشہ کے بادشاہ اصحمہ نجاشی، اور مصر کے حکم ران مقوقس کو خطوط بھجوائے گئے۔حبشہ،روم اور مصر کے حکم ران رحمت دوجہاں ﷺ کے خطوط لے جانے والوں سے بہت اچھی طرح پیش آئے جبکہ ملک فارس کے بادشاہ خسرو پر ویز نے آپ کا خط لے جانے والے کو برابھلا کہا اور غصے میں خط پھاڑ کر پھینک دیا۔ خط لے جانے والے نے واپس آکر رحمت دو جہاں ﷺکوسارا واقعہ سنایا تو آپ نے فرمایا:’اللہ تعالیٰ خسرو پرویز کی سلطنت اسی طرح ٹکڑے ٹکڑے کردے جس طرح اس نے ہمارے خط کو ٹکڑے ٹکڑے کیا ہے۔‘پھر چند سال بعد دنیا نے دیکھاکہ مسلمانوں نے بہت تھوڑے عرصے میں ملک فارس کو فتح کر لیا اور خسرو پرویز کی ناقابل تسخیر سلطنت کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو گیا۔
دنیا بھر کے حکم رانوں اور بادشاہوں تک اسلام کی دعوت پہنچانے کا سلسلہ جاری تھا جبکہ رسوائے زمانہ یہودی قوم سازشی ذہن اور بری فطرت کے ہاتھوں مجبور ہو کر مسلمانوں کے خلاف مسلسل سازشوں میں لگی ہوئی تھی۔جزیرہ نمائے عرب کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے یہودی بتدریج خیبر میں جمع ہو چکے تھے۔خیبرمیں انہوں نے بے شمار مضبوط قلعے بنا کر خود کو ہر بیرونی حملے سے محفوظ بنا لیا تھا۔ خیبر کا علاقہ بہت سر سبز و شاداب تھا۔خوش حالی کا دور دورہ تھا۔لیکن یہودی اپنی بری فطرت سے مجبور ہو کرمسلمانوں کو نیچا دکھانے کے لیے نِت نئی سازشوں میں مصروف تھے۔ رحمت دو جہاں ﷺ نے ہر ممکن طریقے سے انہیں بری حرکتوں سے منع کرنے کی کو شش کی لیکن جب وہ کسی صورت بھی باز نہ آئے تو آپ نے اپنے جاں نثار صحابہ کے ساتھ مل کرخیبر پر چڑھائی کی اور اسے فتح کر لیا۔ ‘‘
’’خیبر کی فتح کے بعد کیا ہوا؟‘‘تاکو نے پوچھا۔
’’خیبر کی فتح کے بعد کئی چھوٹے بڑے واقعات پیش آئے لیکن سب سے اہم اور بڑا واقعہ مکہ کی فتح۔۔۔‘‘عبد اللہ نے ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ راکو نے بے اختیار پوچھا:’’کیا مسلمانوں نے مکہ بھی فتح کر لیا۔یہ کیسے ممکن ہوا؟‘‘
’’جنگ خندق اور جنگ خیبر میں مسلمانوں کی شاندار کامیابیوں سے سرداران مکہ اور یہودیوں کا زور ٹوٹ گیا۔اب ان میں مسلمانوں کو نیچا دکھانے کے لیے پہلے والا دم خم نہیں تھا۔فتح مکہ کی بنیاد حدیبیہ کا وہ معاہدہ بنا جس پر مسلمانوں نے بددلی اور مایوسی کا اظہار کیاتھا۔لیکن قرآن مجید نے اسے واضح فتح قراردیا تھا۔ اس معاہدے کی رُو سے یہ طے پایا تھا کہ نہ قریش مکہ مسلمانوں پر حملہ کریں گے اور نہ مسلمان قریش مکہ کے خلاف جنگ کریں گے ۔لیکن کفار مکہ کی جانب سے اس عہد کی پاس داری نہ کی گئی ۔‘‘
’’سرداران مکہ نے معاہدے کی خلاف ورزی کس طرح کی؟‘‘باکو نے پوچھا۔
’’عرب قبائل کی دشمنیوں کے متعلق مشہور ہے کہ وہ نسل در نسل چلتی ہیں۔ انہی قبائل میں قبیلہ بنو بکر اور قبیلہ بنو خزاعہ بھی شامل تھے۔ان کی دشمنی سالہاسال سے جاری تھی۔صلح حدیبیہ کے بعد قبیلہ بنو خزاعہ نے مسلمانوں سے تعلق قائم کر لیا جبکہ بنو بکر سرداران مکہ کے حلیف بن گئے۔
ایک دن ایسا ہوا کہ بنو بکر نے حملہ کرکے بنو خزاعہ کے کئی آدمیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔اس موقعے پر سرداران مکہ نے بنو بکر کا ساتھ دیا۔ بنو خزاعہ کے لوگوں نے خانۂ کعبہ میں پناہ لی تو انہیں وہاں بھی نہ چھوڑا گیا۔
بنو خزاعہ کے لوگو ں نے مدینہ جا کرر حمت دوجہاں ﷺ سے مدد کی درخواست کی ۔اس سے صاف ظاہر تھا کہ قریش نے معاہدہ توڑ دیا ہے اور سرداران مکہ کو بھی احساس ہوا کہ ان سے بہت بڑی غلطی ہو گئی ہے۔اس غلطی کی تلافی کے لیے انہوں نے اپنے بڑے سردار ابو سفیان کے ذریعے سے رحمت دو جہاں ﷺ سے رابطہ کیا کہ حدیبیہ کا سمجھوتہ برقرار ہے لیکن آپ نے ابو سفیان کو کوئی جواب نہ دیا۔گویا معاہدہ قائم نہ رہ سکا۔‘‘
’’حدیبیہ کا معاہدہ ختم ہونے کے بعد کیا ہوا؟‘‘تاکو نے پوچھا۔
’’سرداران مکہ کومعاہدہ توڑنے کی سزا دینے کے لیے رحمت دو جہاں ﷺ نے دس ہزار جاں نثار ساتھیوں کے ساتھ مل کر مکہ کی جانب پیش قدمی شروع کر دی اور ہر طرح سے کوشش کی کہ مکہ والوں کو آپ کی آمد کی خبر نہ ہو۔آپﷺاس مقصد میں کامیاب رہے۔جب مکہ کے قریب ’مَرُّالظَّہران‘کے قریب مسلمان فوج نے پراؤ ڈالا تو رحمت دو جہاں ﷺ نے سب لوگوں کو آگ جلانے کا حکم دیا ۔ادھر ابو سفیان بُدَیل کے ساتھ حالات کا جائزہ لینے کے لیے مرالظہران پہنچا تو آگ کا بڑا الاؤ دیکھ کر حیران رہ گیا اور بدیل سے کہنے لگا کہ:’ اتنی بڑی آگ میں نے پوری زندگی میں نہیں دیکھی۔یہ آگ کن لوگوں نے جلائی ہے؟‘بدیل کہنے لگا:’لگتا ہے کہ یہ بنو خزاعہ کی آگ ہے۔وہ جنگ کی تیاری کر رہے ہیں۔‘ابو سفیان کہنے لگا:’بنو خزاعہ میں اتنی ہمت اور طاقت کہاں کہ وہ اتنی بڑی آگ روشن کر سکیں۔‘رحمت دو جہاں ﷺ کے چچا عباسؓ نے یہ گفتگو سن لی اور ابو سفیان کے پاس جا کر کہا:’یہ رسول اللہ ﷺ ہیں جو اپنے ساتھیوں کے ساتھ یہاں موجود ہیں۔اس کے بعد حضرت عباسؓ ابو سفیان کو رسول ﷺ کے پاس لے گئے اور حالات کا رخ دیکھتے ہوئے ابو سفیان نے اسلام قبول کر لیا۔‘‘
’’مکہ کے سب سے بڑے سردار ابو سفیان کے قبول اسلام کے بعد باقی سرداروں نے مسلمان فوج کا مقابلہ کیا یا وہ بھی دائرۂ اسلام میں داخل ہوگئے؟‘‘راکو نے پوچھا۔
’’سب سے بڑے سردار کے قبول اسلام کے بعد باقی لوگوں میں مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کی جرأ ت اور ہمت ہی نہیں تھی،اس لیے مکہ شہر جنگ اور خوں ریزی کے بغیر پر امن طریقے سے فتح ہو گیا۔‘‘
’’اس فتح پر مسلمانوں کے سردار،محمد(ﷺ) کے کیا احساسات اور جذبات تھے؟‘‘یہ سوال جزیرے کے سردارنے پوچھا۔
’’ہمارے ہاں جب کوئی حکم ران یا بادشاہ کسی ملک کو فتح کرتا ہے تو وہاں کی ہر چیز کو تباہ و برباد کر دیتا ہے اور قتل وغارت کا بازار گرم ہوتا ہے۔ لیکن آپ لوگوں کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ رحمت دو جہاں ﷺ فتح کے وقت اپنی سواری پر بیٹھے اس کیفیت میں مکہ شہر میں داخل ہو رہے تھے کہ آپ کا سر عجز و انکسار کے ساتھ اللہ کے حضور جھکا جا رہا تھا اور دس ہزار جاں نثاروں کا عظیم لشکر بڑی شان کے ساتھ مکہ میں داخل ہو رہا تھا۔
تاریخ ساز فتح کے اس موقع پر آپ نے اپنی جان کے دشمنوں سے انتقام لینے کے بجائے ان سب کو کھلے دل سے معاف کر دیا۔آپ اپنے جاں نثاروں کے ساتھ اللہ کے گھر خانہ کعبہ میں داخل ہوئے اور اللہ کے گھر کو 360بتوں سے پاک کیا۔اس وقت آپ کی زبان مبارک پراللہ کی آخری کتاب قرآن مجید کی یہ آیات جاری تھیں:’حق آگیا اور باطل مٹ گیا اور باطل تو مٹنے ہی کے لیے آیا ہے۔۔۔‘‘عبداللہ نے ابھی جملہ مکمل ہی کیا تھا کہ جزیرے کے سردار نے بے تابی سے کہا:’’رُک جاؤ،عبداللہ رک جاؤ۔‘‘
عبداللہ نے حیرت زدہ ہو کر سردار کی جانب دیکھا کہ اسے اچانک کیا ہو گیا ہے ؟سردار جو چند لمحے پہلے اطمینان و سکون سے چبوترے پر بیٹھا تھا۔چبوترے پر کھڑے ہو کر جزیرے کے لوگوں سے اس طرح مخاطب ہوا:
’’ہم سب کئی روز سے عبداللہ سے دنیا کی سب سے سچی کہانی سن رہے ہیں۔ کہانی جیسے جیسے آگے بڑھتی گئی، مجھے ایسا لگا جیسے یہ کہانی صرف مجھے سنانے کے لیے بھگوان نے عبداللہ کو یہاں جزیرے میں بھیجا ہے۔میں ساری کہانی سن کر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ دنیا کا سب سے اچھا مذہب اسلام ہے ، اس لئے میں آج اور اسی وقت دنیا کے سب سے سچے انسان حضرت محمدﷺ کے پروردگار اللہ پر ایمان لانے کا اعلان۔۔۔‘‘سردار کی بات جاری تھی کہ چبوترے کے ارد گرد بیٹھے ہوئے جزیرے کے تمام لوگوں نے یک زبان ہو کر کہا :’’ہم بھی اپنے سردار کی پیروی کرتے ہوئے دنیا کے سب سے سچے انسان حضرت محمد ﷺ کے پروردگار اللہ پر ایمان لانے کا اعلان کرتے ہیں۔‘‘
عبداللہ حیرت زدہ ہو کر جزیرے کے لوگوں اور سردار کو دیکھ رہاتھا کہ یہ اچانک کیا ہو گیا ہے۔عبد اللہ ابھی اسی کیفیت میں مبتلا تھا کہ سردار نے عبد اللہ کا ہاتھ فضاء میں بلند کرتے ہوئے اعلان کیا کہ آج سے اس جزیرے کا سردار میں نہیں بلکہ ۔۔۔‘‘سردار نے ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ ساحل سمندر کی جانب سے کچھ لوگ چبوترے کی جانب آتے ہوئے دکھائی دیے ۔سب لوگوں کی نظریں آنے والوں کی جانب لگ گئیں ۔تھوڑی دیر میں پانچ چھ لوگ چبوترے کے قریب پہنچے تو ان میں سے ایک نوجوان تیزی سے آگے بڑھا اور عبداللہ سے لپٹ گیا۔یہ منظر سب لوگوں کے لیے حیران کن تھا کہ ساحل سمندر کی طرف سے آنے والے یہ لوگ کون ہیں اور اُ ن میں سے ایک نوجوان عبداللہ سے والہانہ طور پر کیوں لپٹ گیاہے۔
چند منٹ بعد یہ جذباتی کیفیت ختم ہوئی تو پتا چلا کہ ساحل سمندر کی جانب سے آنے والے لوگوں میں سے جو نوجوان ، عبداللہ سے بے اختیار چمٹ گیا تھا،وہ عبداللہ کا بیٹا عطاء اللہ ہے۔
جزیرے کے سردار نے عبداللہ کے بیٹے عطاء اللہ اور اس کے ساتھ آنے والے دوسرے لوگوں کو عزت و احترام سے چبوترے پر بٹھایا ۔اس کے ساتھ ہی جزیرے کے لوگ بھی چبوترے کے ارد گرد بیٹھ گئے۔
’’یہ سب کیا ہے اور جزیرے کے تمام لوگ یہاں کیوں جمع ہیں؟‘‘عطاء اللہ نے حیرت سے پوچھا۔
’’جب وہیل مچھلی کی ٹکر سے بحری جہاز کا ایک حصہ ٹوٹ کر سمندر میں گر گیاتو دوسرے لوگوں کی طرح میں بھی پانی میں ڈبکیاں کھانے لگا۔قسمت اچھی تھی کہ ٹوٹے ہوئے جہاز کا ایک تختہ میرے ہاتھ آگیا۔میں چمٹ کراس پر بیٹھ گیا اور جتنی بھی دعائیں یاد تھیں ،ان کا ورد کرنے لگا۔اللہ تعالیٰ نے کرم کیا کہ سمندری ہوا سے لکڑی کا تختہ قریبی جزیرے کی طرف بڑھنے لگا۔چند منٹ بعد لکڑی کا تختہ جزیرے کے ساتھ لگا تو میں نے ڈرتے ڈرتے جزیرے پر قدم رکھا۔یہاں مجھے جزیرے کے سردار اور دوسرے لوگوں نے جس قدر عزت و احترام دیا،اس کا میں سوچ بھی نہیں سکتا۔۔۔‘‘
’’یہ عزت و حترام ہم نے نہیں خود آپ نے دنیا کی سب سے سچی کہانی سنا کر حاصل کیا ہے ۔‘‘جزیرے کے سردار نے عبداللہ کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی کہہ دیا۔
’’اب تم سناؤ کہ وہیل مچھلی کی ٹکر سے ٹوٹنے والے جہاز کے مسافروں پر کیا بیتی؟‘‘عبداللہ نے اپنے بیٹے عطاء اللہ سے پوچھا۔
’’وہیل مچھلی کی ٹکر سے بحری جہاز کے مسافروں کی بہت بڑی تعداد سمندر میں غوطے کھا رہی تھی کہ پیچھے سے آنے والے بحری جہاز کے عملے نے حفاظتی کشتیوں کے ذریعے سے اپنی جان پر کھیل کر مسافروں کی بہت بڑی تعداد کوڈوبنے سے بچا لیا۔دوسرے جہاز میں منتقلی کے بعد ہم اپنی منزل کی جانب روانہ ہوئے تو ہر ایک نے اپنے قریبی ساتھیوں کا جائزہ لیا تو صرف پانچ لوگ سمندری لہروں کی نذر ہوئے تھے۔میں نے آپ کو جہاز کے ٹوٹے ہوئے تختے کے ساتھ چمٹے ہوئے دیکھا تھا،اس لیے موہوم سی امید تھی کہ آپ کسی نہ کسی جزیرے تک پہنچ گئے ہوں گے۔میں اپنے دوستوں کے ساتھ اسی امید اور اللہ تعالیٰ کے سہارے کئی جزیروں کو چھان چکا تھا۔اب ہم تقریباً مایوسی کی کیفیت میں اس جزیرے کے قریب پہنچے تو ساحل سمندر پر چھوٹی سی جھونپڑی پر لہراتے ہوئے کپڑے نے ہمیں اپنی طرف متوجہ کیا۔میں نے غور سے دیکھا تو وہ کپڑا آپ کا سر پر باندھنے والا رومال تھا۔ میں نے اللہ سے دعائیں مانگتے ہوئے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس جزیرے پر قدم رکھاتو دور چبوترے پر آپ لوگ نظر آئے تو میری امید یقین میں بدل گئی۔‘‘عطاء اللہ نے تفصیل سے بتایا۔
’’تمہارے آنے سے ذرا پہلے اس جزیرے کے سردار اور دوسرے لوگوں کے سینے ایمان کے نور سے روشن ہوئے ہیں۔میری خواہش ہے کہ جزیرے کے سردار کا اسلامی نام عبدالرحمن رکھا جائے جبکہ میرے بہت اچھے دوستوں راکو،باکو،شاکو،ساگواورتاکو کے اسلامی نام بالترتیب ابوبکر،عمر،عثمان،علی اور سعد رکھ دیے جائیں۔‘‘عبد اللہ نے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔
’’آپ کی خواہش ہمارے لیے حکم کا درجہ رکھتی ہے۔لیکن ایک خواہش میری بھی ہے،وہ یہ کہ اس جزیرے کے سردار اب آپ ہوں گے۔‘‘سردار نے عبداللہ سے مخاطب ہو کر کہا۔
’’اب جبکہ آپ سب لوگ دائرۂ اسلام میں داخل ہو گئے ہیں تو آپ کو یہ بات بتا دوں کہ مسلمانوں کی قیادت اور سربراہی جن لوگوں کے ذمے ہوتی ہے،وہ حاکم اور سردار نہیں کہلاتے بلکہ وہ ملک و قوم کے سچے خادم ہوتے ہیں۔میں آپ لوگوں کی خواہش کے مطابق آپ کی خدمت کے لیے دل و جان سے حاضر تھا لیکن سب سے سچے انسان کی سچی کہانی سناتے ہوئے خود میرے دل میں یہ تڑپ پیدا ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے میری معمولی سی کوشش سے کفر اور شرک میں ڈوبے ہوئے اس جزیرے میں توحید کا اجالا پھیل سکتاہے تو مجھے کاروبار کے ساتھ ساتھ اپنے بیٹے کے ساتھ مل کر قریہ قریہ،گاؤں گاؤں اور شہر شہر شرک و جہالت کے اندھیروں کے مقابلے میں توحید کا نور پھیلانے کے لیے بھرپور کوشش کرنی چاہئے کیوں کہ
وقت ِ فرصت ہے کہاں،کام ابھی باقی ہے
نور توحید کا ا تمام، ابھی باقی ہے